تاریخِ رقص
رقص کب سے جاری ہے اور کن کن اغراض کے لئے یہ وجود میں آیا ہے، مندرجہ ذیل مضمون سے اس پر کافی روشنی پڑتی ہے اس کا ایک محرک ''روحانی جذبہ'' بھی ہے۔ ہمارے ہاں صوفیاء میں ''وجد'' کی شکل میں ملتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ ایک اہلِ ھوا کا شیوہ ہے۔ اور انہی کے طرزِ عمل سے ماخوذ ہے۔ اس لئے امامانِ دین نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ (ادارہ)
رقص ایک نہایت قدیم عادت ہے۔ امم قدیمہ میں سے کوئی ایسی قوم نہیں ملتی جو اس کی عادی نہ ہو تلاش و تفحّص کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حرکات، رقص فطرتاً ان لوگوں میں پیدا ہو جاتی ہیں جو کسی شدید مسرت یا انبساط سے متاثر ہوتے ہیں۔ عمیق غور و فکر کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ انسانی تخلیق میں تکلم پر رقص مقدم ہے اس کا ثبوت سوائے قیاسات عقلی کے اور دیگر دلائلِ سے دنیا ممکن نہیں، لیکن تاریخ سے نہایت قدیم زمانے میں مختلف قوموں کے نزدیک رقص کے شیوع کا پتہ چلتا ہے۔ بعض قوموں کے نزدیک رقص ایک دینی فریضہ تھا جس کو وہ اپنے معبودوں کی رضا کے حصول کے لئے ادا کرتی تھیں۔
توریت میں ہے کہ یہود خدا کی تسبیح و تقدیس رقص ہی کے ذریعہ کرتے تھے۔ قدمائے یونان نے اس کو اپنے طرزِ عمل سے اور زیادہ تقویت پہنچائی، یہاں تک کہ اُنہوں نے زندگی کی ہر اک حالت کے لئے مختص مخصوص رقصوں کو لابدی قرار دے دیا تھا کہ حالتِ مذکورہ اپنی دیگر متقابل حالتوں سے ممتاز ہو جائے (مثلاً فرحت، حزن، غضب وغیرہ)
ارسطو نے اس کو فنونِ لطیفہ میں شمار کیا ہے۔ اس کے نزدیک شعر اور رقص دونوں مساوی درجہ رکھتے ہیں۔ اہلِ سپارٹا اپنے بچوں کو ۵ سال کی عمر سے ہی رقص سکھانے لگتے ہیں۔ عموماً لڑکوں کے باپ اور استاد گاتے تھے اور وہ خود ناچتے تھے، قدماء نے رقص کو تین مراتب میں تقسیم کیا تھا۔
رقصِ عسکری:
جس سے مقصود صرف ایک سخت ورزش کرنا تھی۔
رقصِ منزلی:
جس سے محض تفریح طبع کا کام لیا جاتا تھا۔
رقصِ دینی:
: جس کو اثنائے عبادات یا قربانیوں کے ذبح کے وقت ادا کیا جاتا تھا۔
قدیم تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحین اپنے دینی اجتماعات کے مواقع پر اکچر رقص کیا کرتے تھے۔ ہندوستان میں یہ قدیم رسم تھی کہ ان کی عمومی مجالس میں نانچنے والی لڑکیوں کی کئی ایک ٹولیاں رقص کے ذریعے زینتِ بزم کا سامان بہم پہنچاتی تھیں۔ اہلِ عرب بھی دیگر اقوام کی طرح عادتِ رقص سے مامون نہ رہ سکے وہ بھی ایامِ جاہلیت میں اپنی مجالس دینیہ میں دیگر اقوام کی طرح ناچتے تھے۔
آج ہمارے نزدیک رقص ایک کھیل کود سے زیادہ وقعت نہیں رکھا۔ لیکن یورپین اس سے ریاضتِ جسدی کا کام لیتے ہیں۔ انہوں نے نفسیات کے جملہ فنون کی طرح اسے بھی ایک نفسی فن قرار دیا ہے اور اس کے تمام اصول و ضوابط مدوّن کر چکے ہیں۔ اور ان میں سے کوئی بھی پرہیز نہیں کرتا۔ برخلاف ہمارے کہ ہم اس کو نہایت شرمناک عادت قرار دیتے ہیں اور ہمارے مؤدبین محافل رقص میں ہماری شرکت تک کو مکروہ سمجھتے ہیں، لیکن وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جن کی تربیت ہی یورپین اخلاق کے مطابق ہوئی ہے یا جو ان کے ہمیشہ ہم صحبت و ہم نوالہ بنے رہتے ہیں اور اس میں کوئی جھگڑا ہی نہیں کیونکہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی مخصوص عادات و خصائل کا خوگر ہوتا ہے۔ ہاںمشرق و مغرب میں اعتبارِ رقص کا فرق بھی ان کے تمام فرقوں کی طرح جو حجاب، پوزیشن اور دیگر عادات میں پائے جاتے ہیں نمایاں طور پر جلوہ گر ہے۔ لیکن اہلِ مشرق حالتِ رقص میں اپنی عورات کی پردہ پوش میں اہلِ مغرب سے زیادہ با غیرت ہو رہے ہیں۔
عبرانیین نے اگرچہ رقص کے معاملہ میں حد سے زیادہ مبالغ کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس کو حصولِ رضائے الٰہی کا ایک ذریعہ قرار دے دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے مرد، عورتوں کے ساتھ مل کر رقص نہیں کرتے۔ ہاں کبھی اقتصائے حال سے مجبور ہو کر ان کی دونوں صنفیں ایک ساتھ مل کر رقص کرتی ہیں لیکن احتیاط اس قدر ملحوظ ہوتی ہے کہ دونوں جنسیں علیحدہ علیحدہ ناچتی ہیں۔ اس طرح شرق و غرب کے دیگر فرقوں کو بھی معلوم کر لیا کرو۔