اگست 2006ء

فاضلینِ جامعہ لاہور الاسلامیہ کی رابطہ کونسل کا تیسرا اِجلاس

گزشتہ برس 14؍ ستمبر 2005ء مجلس التحقیق الاسلامی میں 'مجلس فضلاء جامعہ لاہورالاسلامیہ' کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس سلسلے کا دوسرا اجلاس 11؍دسمبر 2005ء اور تیسرا اجلاس 7؍ مئی 2006ء بمطابق9ربیع الثانی1427ھ کو اسی مقام پرمنعقد ہوا جس میں حضرت مولاناحافظ عبدالرحمن مدنی (رئیس جامعہ لاہور الاسلامیہ ورئیس مجلس التحقیق الاسلامی) کی زیر صدارت درج ذیل فضلاے جامعہ نے شرکت کی :
(1) مولانا محمد شفیق مدنی (نگران رابطہ کونسل ہذا)
(2)حافظ عبدالوحید (مدیر ہفت روزہ 'الاعتصام' لاہور)
(3) راقم الحروف (مدیر مرکز الاصلاح، پھول نگر)
(4)حافظ حسن مدنی (مدیر ماہنامہ 'محدث' لاہور)
(5) عبدالصمد رفیقی (مدرّس جامعہ مرأة القرآن شیخوپورہ)
(6)محمد ابراہیم شاہین (سیکرٹری رابطہ کونسل)
(7) محمد اکرم رحیل (مدیرمرکز ابن قیم الجوزیہ، دیپال پور)
(8)محمد اصغر (لائبریرین مکتبہ رحمانیہ)
(9) حافظ انس نضر مدنی ( انچارج اسلامک انسٹیٹیوٹ)
(10)محمد زبیر شاکر
(11) حافظ حمزہ مدنی ( مدیرکلیة القرآن بالجامعة)
(12)قاری خالد فاروق (ناظم دفتر کلیة القرآن)

اجلاس کی نقابت کے فرائض محترم حافظ عبدالوحید نے انجام دیے۔مجلس کے آغاز کے لیے راقم کو تلاوت کے لئے کہا گیا۔ راقم نے سورة النبأ میں سے {إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا} سے آخر سورت تک تلاوت کی تاکہ ابتدا میں ہی یہ بات واضح ہوجائے کہ تقوے کے بغیر اصل مقاصد کا حصول ممکن نہیں۔ اس کے بعد افتتاحی کلمات میں حافظ عبدالوحید صاحب نے کہا :
ہمارا اجلاس ہر تین ماہ کے بعد ہوناقرار پایا تھا لیکن یہ تیسرا اجلاس بعض وجوہات کی بنا پر بروقت نہ ہو سکا جن میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مدیر 'محدث' حافظ حسن مدنی امریکہ کے ایک مطالعاتی دورے کی غرض سے ملک سے باہر تھے۔ اُنہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیاکہ اس مجلس کے ثمرات دھیرے دھیرے سامنے آ رہے ہیں جن میں سر فہرست فاضلین جامعہ کا مختلف مقامات پربحیثیت ِاُستاد ، امام مسجد اورخطیب تقرر ہے۔

بعد ازاں شیخ الجامعہ حافظ عبد الرحمن مدنی نے اپنے خطاب میںاس تیسری مسلسل اجلاس کو بہت بڑی کامیابی قرار دیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ موسم کی شدت اور مصروفیات کے باوجود رابطہ کونسل کے تمام اراکین کا پہنچنا باعث ِمسرت ہے ۔جس طرح ٹرانسفارمربجلی کا مرکز ہوتا ہے اور بجلی کو آگے منتقل کرتاہے ،اسی طرح ہمارا اکٹھا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم میں قوت موجود ہے جو کہ دیگر فضلا تک خیر کو پہنچانے کے لئے معاون ثابت ہوگی۔

اُنہوں نے فرمایا کہ پچھلی مجلس میں ہم نے اُستاد کے حوالہ سے بات کی تھی، ہمارا آج کا پیغام شاگرد کے حوالے سے ہے کہ اساتذہ طلبا میں رغبت پیدا کریں۔ جتنی رغبت وہ پیداکریں گے، ان کا تعلیمی نظام اتنا ہی ثمر آور اور علم نفع بخش ہوگا۔ ترغیب دلانے کے لئے اُستاد کا باہمت اورمتحرک وفعال ہونا ضروری ہے۔ استاد کی رغبت میں کمی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ قومی دھارے سے کٹے ہوئے ہیں۔عوام کی طلب اورہوتی ہے اور ہم مدارس میں خطیب، قلم کار اور مدرّس بناتے ہیں جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ زندگی کے تمام شعبہ جات میں ہمارے فضلا ایک جزوِ نافع کی حیثیت سے ہر جگہ کام کریں تاکہ دینی اثرات زیادہ سے زیادہ پھیلیں اور دینی مسائل سے زیادہ سے زیادہ آگاہی ہو سکے جس کے لئے ہمیں مدارس ومراکز کی مرکزیت کو تقویت دینی چاہیے۔ اس سلسلے میں بنیادی چیز استاد کا اپنے شاگردوں میں کسی بھی چیز کی رغبت پیدا کرنا ہے۔ اس کے لئے مدرّسین ومبلغین کا باہم ایک مقصد کے لئے مربوط ہونا بھی ضروری ہے۔ مزید برآں ہمیں اپنے اداروں کو تخلیقی صلاحیتوںبلکہ بہتری اور عمدگی کے لئے دوسروں کا مطالعہ کرکے اپنے کام کو آگے بڑھانا چاہئے۔ کسی بھی مقصدکو حاصل کرنے کے تین ہی بنیادی عناصر ہوتے ہیں جوکہ قرونِ اولیٰ میں ہر شخص استعمال کرتاآیاہے اورمطلوبہ نتائج بھی ان کے قدم چومتے رہے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
(1) محرک: تعلیم میں اصل محرک استاد ہوتا ہے ۔جب تک معلم ومدرّس کسی مسئلے میں ترغیب دینے میں کامیاب رہے، اس وقت تک اس چیز میں زندگی کی لہرموجود رہتی ہے اور یہی لہر منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
(2) مسئلے کی شناخت : معلم کے بعد یہی وہ عنصر ہے جس کے بارے ہمیں زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ آخر ملی دھارے میں ہم ایڈجسٹ کیوں نہیں ہوپا رہے، تاکہ اس میں مناسب تبدیلی کر کے مقاصد کو حاصل کیا جا سکے۔
(3) تیاری:آج کل مدارس و مراکز تیاری میں اپنی ساری صلاحیت کھپا رہے ہیںـ۔اگر اس تیاری سے قبل محر ک جو کہ معلم ہے اور مطلوبہ اہداف تک پہنچنے کے لئے جو مسائل ہیں، ان کا حل ہوجائے تو یہ تیاری ہمیں اللہ کی توفیق سے کھویا ہوا راستہ اورمقام دلا سکتی ہے۔اس مقصد کے لئے محترم رئیس الجامعہ نے الیکٹرونک میڈیا کو اپنا استعمال میں لانے پر بھی زور دیا تاکہ دعوت کو بطریق ِاحسن اور مطلوبہ تقاضوں کے مطابق پیش کیا جا سکے۔

اس کے بعد راقم الحروف نے چند گذارشات پیش کیں کہ مدارس میں بعض کوتاہیوں کی وجہ دراصل اُستاد و شاگرد میں ہی موجود ہے، ہم طلبہ پر بہت ساری چیزیں مسلط کردیتے ہیں جب کہ ان میں اکثر کا تعلق نظم اور استاد کی وقتی بے توجہی سے ہوتا ہے۔ اسی طرح آئندہ اجلاسوں میں ہم رابطے سے گزر کر ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کریں جو مقاصد کے حصول میں ممد معاون ہو سکے ۔

جناب حافظ حسن مدنی نے سابقہ فیصلوں کے جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمیں قلبی طورپر اس احساس کو پروان چڑھاناہے کہ ہم نے اس مبارک کام کو ذمہ داری اور خوشدلی وفراخ قلبی سے ادا کرناہے تاکہ ہمیں اپنے افکار کی اجتماعیت کا اصل ثمر حاصل ہو سکے۔ رابطے کومزید مستحکم بنانے کے لئے بھی ہمیں نئی تجاویز سامنے لانا چاہئیں اور اس کے مطابق فریم ورک تیار کرکے اپنی سرگرمیوں کو شروع کرنا چاہیے کیونکہ اس رابطہ کونسل کا مقصد انہی چند اراکین کو باہم مربوط کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ کونسل بنیادی طور پر 30 برس میں تیار ہونے والے جامعہ کے تما م فضلا کو مفید ومؤثر بنانے کے لئے ان کے نمائندہ کے طورپر کام کررہی ہے۔ ان کا ہدف جامعہ کے تما م فضلا کے ربط ونظم تک وسیع ہونا چاہئے۔

رابطہ کونسل کے نگران مولانامحمد شفیق مدنی نے فرمایا کہ سب سے پہلے تو رابطے کی تکمیل ضروری ہے۔کسی بھی مشن میں رابطہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ جب تک ہر رکن ذاتی دلچسپی سے اس کام کو نہیں کرے گا، یہ کام نتیجہ خیز نہیں ہوگا۔ طلبہ میں رغبت و طلب کے حوالے سے اُنہوں نے فرمایا کہ عدمِ رغبت کی وجہ اصلاً تو اساتذہ ہی ہیں، اگر اساتذہ مخلصانہ کوششیں کریں اور معاشرے کے مسائل اور عہد ِحاضر کے فتنوں سے طلبہ کو آگاہ کریںاور ان کی ایمانی ذمہ داریوں کو اجاگر کریں اورتوجہ دلائیں کہ اصل شے اسلامی روح اور اسلامی شعائر کو اختیار کرنا ہے اور ہماری اصل قوت اسلامی اقدار کو عملاً اپنے اور دوسروں پر لاگو کرنے میں ہے تو بجا طور پر ان میں رغبت وطلب بڑھ سکتی ہے۔ اس کی ضرورت کو بہتر بنانے کے لئے اُنہوں نے فرمایا کہ مدارس میں تدریسی مضامین میں جدید ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ مضامین کا اضافہ کرنا چاہیے اور طلبا کو ان کی صلاحیت کے مطابق تیار کیاجائے اور پھر اُنہیں عملی میدان مہیا کیاجائے۔

اس کے بعد حافظ عبدالوحید صاحب نے ایک دقیق سوال اُٹھایا کہ آخر وہ مرکزی دھارا کیاہے جس سے ہم دور نکل رہے ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے شیخ الجامعہ نے فرمایا:
مرکزی دھارے سے مراد وہ مقتدر طبقہ ہے جوہمارے معاشرے کا رخ موڑنے میں کردار ادا کرتا ہے۔جن کا اپنا مالی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام ہے جس میں وہ اپنے افراد کو کھپاتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے مدارس ومراکز میں اُنہیں چیلنجز کو سامنے رکھ کر ہر طبقہ کے لئے افراد کو تیار کرناہے اور اس وقت ایک ایسا دھارا، نظم اور معاشرہ تشکیل دینے کی شدید ضرورت ہے جو اسلامی ثقافت کا آئینہ دار ہو۔ ہمیں اپنے کام کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کی اہمیت وافادیت پر مطمئن رہنا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حصر کے ساتھ فرمایا: (إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا) ہم ایک مثالی نظام کے انتظار میں کچھ کر نہ سکیں تو اس سے کہیں بہتر ہے کہ کام کا آغاز کر دیا جائے اور اس کیلئے اصل بنیاد تعلیمی ادارہ ہی ہوسکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے عبرانیہ یونیورسٹی سے اپنے کام کا آغاز کیا اور آغا خانیوں نے میڈیکل کالج سے اپنا کام شروع کیا ۔

اس کے بعد راقم نے اپنی رائے پیش کی اگر ہم اپنے کام پر اعتماد کر لیں اور قابل افراد تیار کرلیں تو یہی سب سے بڑی قوت ہے۔ اللہ کے بعد اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس قوت کو فروغ دینا چاہیے اور تعلیم ویسے بھی مسلسل جد وجہد کانام ہے جبکہ ابلاغ یک بارگی کسی چیز کو آگے پہچانا ہوتا ہے۔ اس پر بھر پور محنت کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اُستاد کو کھلی کتاب ہونا چاہیے۔ اگر وہ خود وقت کی پابندی اور عرق ریزی سے کام کرے گا تو طلبہ خود بخود اس خوبی کو اپنے اندر پیدا کریں گے لیکن چونکہ جن صلاحیتوں کی خواہشات طلبا اورتعلیمی نظام سے کی جاتی ہیں، نہ تواس نظام کو وہ معیار دیاجاتاہے اور نہ ہی معیاربن کر دکھایا جاتا ہے نتیجتہً فاقد الشيء لایعطیه'' کے مقولہ کے مطابق محض نظریات باقی رہ جاتے ہیں اورعملی صورت مفقود ہوجاتی ہے لیکن اس کا یہ مقصد یہ بھی نہیں کہ ابلاغ ومیڈیا کو چھوڑدیا جائے بلکہ اپنے کام کو مزید آگے تک پہنچانے کے لئے ہرممکن میڈیا کو استعمال کرنا چاہیے اوراپنے عظیم کام کو وسعت دینے کے لئے میڈیا ایک اہم وسیلہ ہے لیکن اس کی تاثیر کو دیکھ کر اپنے کام کو حقیر جاننا بھی مناسب نہیں، البتہ ہمیں آگے بڑھنے کے لئے دوسروں سے بھی سیکھنا چاہئے۔

اس کے بعد حافظ حمزہ مدنی صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی ضرورتیں ایک بہت وسیع موضوع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی آبادی کم وبیش 6؍ارب ہے اورہم نے مدارس میں اپنے نصاب میں ساڑھے چار ارب لوگوںجو کہ غیر مسلم ہیں، ان کے لئے کوئی بھی کتاب نہیں رکھی بلکہ ہم اپنے ماحول کے مطابق ہی مدارس چلارہے ہیں چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان لوگوں کو بھی قریب کرنے اور اثباتِ دین کے لئے بھی ہمیں نصاب میں اضافہ کرناہو گا،اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کا بھی یہ تقاضا ہے ۔

 مولانا ابراہیم شاہین (سیکرٹری رابطہ کونسل )نے سابقہ فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ الحمدللہ کام کی رفتار تسلی بخش ہے ۔اس مجلس کے قیام کے بعد کئی جگہوں پر جامعہ کے فضلا کا تعین ممکن ہواہے، لوگ بھی اس سلسلے میں رابطہ کرتے رہتے ہیں اور جلد ازجلدفاضلین جامعہ کی ڈائریکٹری مکمل کر دی جائے گی۔ بعدازاں اُنہوں نے تمام اراکین کو ڈائریکٹری کی ایک ایک کاپی مہیا کی تاکہ دیگر فاضلین کے پتہ جات بھی مکمل کئے جا سکیں او ریہ گذارش کی کہ فضلا کی سرگرمیوں کی مزید رپورٹیں بھی دفتر جامعہ میں فوراً بھجوائی جائیں ۔

مجلس فضلاء جامعہ کے فیصلے
(1) رابطہ کونسل کی مجالس ہر تین ماہ بعد ہوں گی، چنانچہ اگلی مجلس کے لئے بروز اتوار صبح دس بجے 20؍اگست 2006ء کا دن متعین کیا گیا۔
(2) مجلس کی تحریری رپورٹ تمام ساتھیوں کوبھجوائی جائے گی۔
(3) مجلس کاایجنڈا میٹنگ سے دو ہفتے قبل اراکین کو پہنچایا جائے گا۔
(4) جامعہ میں دو سال تک تعلیم حاصل کرنیوالے فضلا کو بھی ڈائریکٹری میں شامل کیاجائے ۔
(5) فضلاے جامعہ کی ڈائریکٹری کی ترتیب سن فراغت کے اعتبا ر سے اور بقیہ فضلا جنہوں نے کچھ عرصہ جامعہ میں پڑھا ہے، ان کی ترتیب الف بائی ہوگی۔
(6) فضلاے جامعہ کی بقیہ فہارس کو پورا کرنے کیلئے جماعتی رسائل میں اعلانات دیے جائیں۔
(7) سال کے آخرمیں تقریب ِبخاری کے موقع پرتمام فضلا کااجلاس بھی بلایا جائے گا جس میں اُنہیں نیک مقاصد کے حصول کے سلسلے میں مزید رہنمائی مہیا کی جائے گی۔

جامعہ کے سابق اُستاذ مولانا فاروق اصغر صارم کی ناگہانی وفات
1981ء میں جب جامعہ لاہور الاسلامیہ ہنجروال ملتان روڈ پر واقع تھا، اس وقت طلبہ کی تعلیم وتربیت کے لئے اساتذہ کرام میں مولانا فاروق اصغر صارم کا نام بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ اگر چہ آپ کسی سعودی یونیورسٹی سے فارغ نہیں تھے، لیکن اپنی غیرمعمولی ذہانت ولیاقت کی بنا پر مکتب الدعوة سے مبعوث تھے۔ آپ بہت خوش طبع، نظافت پسند، اورپھرتیلے تھے اور بہت ذوق وشوق اور محنت سے تدریس کرواتے تھے۔ راقم نے آپ سے مکمل مشکوٰة شریف اور علم وراثت کی کتاب الفوائد الجلیة پڑھی تھی۔جب بھی آپ کا کوئی پیریڈ خالی ہوتا تو فوراً ہماری کلاس کو طلب کرتے اور یہ کہہ کر پڑھانا شروع کردیتے کہ وقت بڑا قیمتی ہے ،تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں۔ تدریس میں زیادہ وقت صرف کرنے کی وجہ سے آپ کتاب بھی مکمل کرواتے اور طبیعت میں مزاح پسندی کی وجہ سے دوران سبق، اور کچھ متعلقہ لطائف سنا کراکتاہٹ کا احساس بھی نہ ہونے دیتے۔

آپ کا خصوصی طورپر علم وراثت سے لگائو تھا اور آپ نے بڑے ذوق شوق سے یہ سبق پڑھانے کے علاوہ فقہ المواریثکے نام سے عربی زبان میں ا س پر کتاب بھی لکھی ہے، جسے بعد میں تفہیم المواریث کے نام سے اردو میں بھی منتقل کیا۔ علاوہ ازیں عربی پیمانوں مثلاً رطل، صاع اور درہم وغیرہ کے تعین پر بھی اُنہوں نے مستقل کتاب تحریر کی۔ آپ کو فن خطابت سے بھی خاصا لگائو تھا۔ جامعہ میں کافی عرصہ بزمِ ادب کی نگرانی کرتے رہے اور مستقل خطبہ جمعہ کے علاوہ تربیتی دروس کا بھی اہتمام فرماتے۔

جامعہ ہذا سے مکتب الدعوة نے اُنہیں گوجرانوالہ ٹرانسفر کردیا تھا اور آخری دنوں میں آپ جامعہ عربیہ گوجرانوالہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ چند دن قبل (22 جولائی) کو ایک ٹریفک حادثے میں آپ کی وفات ہوگئی، اللہ تعالیٰ اُنہیں غریق رحمت کرے، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آپکی دینی خدمات کو قبول کرے او رآپ کی تدریسی وتبلیغی مساعی کو صدقہ جاریہ بنائے۔(مولانا محمد شفیق مدنی)