’حدود قوانین اورحکومتی ترامیم‘قانون و شرع کی نظر میں
حدود قوانین کے حوالے سے پاکستان کے ایک بڑے ابلاغی گروپ کی طرف سے شروع کی گئی مہم بڑی تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تین ماہ سے اس گروپ کے ذرائع ابلاغ لگاتار حکومت کو اس امر کی یاددہانی کروا رہے ہیں بلکہ دوسرے لفظوں میں اس پر دبائو بڑھاتے جارہے ہیں کہ ''پارلیمنٹ آخر کب سوچے گی؟''
اس دوران اس مہم میں بروئے کار لائے جانے والے ابلاغی ہتھکنڈوں ، غلط ترجیحات، مباحثوں و مکالموں میں پیش کی جانے والی یکطرفہ معلومات اورجانبدارانہ پروپیگنڈے کے بارے میں بیسیوں مضامین قومی پریس اور رسائل وجرائد میں شائع ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود حدود آرڈیننس کی منسوخی کا یہ جنون تاحال برقرار ہے!!
مبارکبادکے مستحق ہیں اسلامی نظریاتی کونسل کے وہ اراکین جنہوں نے اس پروپیگنڈے اور سرکاری دبائو کو خاطر میں نہ لاکر حدود قوانین میں متفقہ ترامیم کا راستہ مسدود کردیا، اور خراجِ تحسین کے مستحق ہیں وہ فاضل اراکین جنہوں نے ایک معتبر اور ثقہ اسلامی ادارے کے وقار کو برقرا ررکھنے کے لئے اپنی رکنیت سے استعفیٰ تو دے دیا لیکن حکومت کو اس ادارے کا وقار مجروح کرنے کی اجازت نہ دی۔ اس اختلافِ رائے کا نتیجہ یہ نکلا کہ کونسل کا اجلاس ستمبر تک ملتوی کردیا گیا۔ لیکن دوسری طرف سریر اقتدار پر قابض حکمرانوں کا اصرار اور شوقِ جنوں ہے کہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اُنہوں نے ایک طرف قتل، ڈکیتی، منشیات کے ماسوا تمام ملزم عورتوں کو جیلوں سے رہائی(i)دینے کا مژدئہ جانفزا بھی سنایا اور ساتھ ہی اسلامی نظریاتی کونسل کو اس ارشادِ عالیہ سے بھی نوازا کہ جلد از جلد اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔ ملک کے معتبر اداروں کے ساتھ مذاق اور حدود اللہ میں دخل اندازی کی اس سے بڑی کوشش اور کیا ہوسکتی ہے ؟
حکومت ِوقت کے تیور بتاتے ہیں کہ اُنہیں موجودہ سیاسی کشمکش میں دینی تنظیموں اور عوامی وسیاسی جماعتوں سے تو اپنی حمایت کی اُمید نہیں لہٰذاپنے اقتدار کو مزید طول بخشنے اور اپنی سابقہ روایات کے مطابق ایک بارپھر مغرب نواز طبقہ کی کلی حمایت پانے کے لئے وہ حدود آرڈیننس کو قربانی کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں ۔ ایسے ہی امریکہ ویورپ کی ناراض حکومتوں کو بھی ان اسلام مخالف اقدامات کے ذریعے دوبارہ اپنی حمایت کے لئے آمادہ کرنے کی سعی ٔنامراد کی جارہی ہے۔ اس مقصد کے لئے حکومت نے 14؍اگست کو بعض 'خوش آئند' تبدیلیوں کے اعلان کی بھی نوید سنائی ہے۔
حدود قوانین کے خلاف موجودہ مہم کے تیور آغاز میں تو ایسے لگتے تھے کہ اس بار اِن قوانین کو منسوخ کرکے ہی دم لیا جائے گا، لیکن اسلامیانِ پاکستان کا اسلام سے محبت کا جذبہ ابھی اتنا سرد نہیں ہوا، اس لئے سردست یہی نظرآتا ہے کہ ان میں قانونِ توہین رسالتؐ کی طرح ایسی ترامیم بروئے کارلائی جائیں گی کہ ان کا نام تو برقرا ر رہے لیکن ان کا جوہر ختم ہو کررہ جائے۔ انہی دنوں اخبارات میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ترقی خواتین کی چیئرپرسن مہناز رفیع کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ
''حدود قوانین میں ترامیم کی جارہی ہیں جس میں aزنا بالرضا اور زنا بالجبر کی سزائوں میں تفریق کی گئی ہے۔ ترامیم کے مطابق زنا بالجبر کی سزا سزاے موت یا 25 سال قید اور جرمانہ ہوگی، جبکہ زنا بالرضا کی سزا تعزیراتِ پاکستان کے تحت دی جائے گی۔ b 4گواہوں کے لئے مرد گواہ کی شرط ختم کرتے ہوئے اب مرد کے ساتھ عورت کی گواہی کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔ c 'موجودہ' قانون کے تحت درخواست سیشن کورٹ کے سامنے پیش کی جائے گی، اس کے بعد 4 مرد وخواتین گواہوں کی شہادت کے بعدہی مقدمہ درج کیا جائے گا۔ d حدود قوانین میں بالغ لڑکی پر مقدمہ بنادیا جاتا تھا، جبکہ لڑکے کے لئے کم از کم 18 سال کی عمرمتعین کی گئی تھی جبکہ اس عمر میں ذ ہنی بلوغت نہیں ہوپاتی چنانچہ 'موجودہ' قانون میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے عمر کا تعین 18 سال کردیا گیا ہے۔ یہ ترامیم خواتین کے حقوق اور فلاح وبہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جائیں گی۔'' 1
حکومت کی طرف سے تجویز کی جانے والی ان ترامیم کو 'تحفظ ِخواتین بل 2006ئ' کا نام دیا گیا ہے۔ یوں تو ان ترامیم کی خبریں اخبارات میں کئی دنوں سے شائع ہورہی ہیں لیکن تاحال اصل یا مستند مسودئہ قانون اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا، البتہ 3؍اگست کے اخبارات کے مطابق وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم کی سربراہی میں اس بل کی اُصولی منظوری دے دی ہے اور ہفتہ بھر میں اس کو قومی اسمبلی میں بھی پیش کردیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے اس سلسلے میں اپوزیشن رہنمائوں سے ملاقاتوں کے ذریعے اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوششیں بھی شروع کردی ہیں ۔ وفاقی کابینہ کے منظو رکردہ مسودئہ قانون کی مختصراًتفصیلات یہ ہیں کہ
''(1) زنا بالجبر کے جرم کو حدود آرڈیننس سے نکال کر تعزیراتِ پاکستان کا حصہ بنادیا گیا ہے اور اس کے لئے موت اورعمرقید کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں ۔(2) زنا بالجبر میں چار گواہوں کی شرط کا خاتمہ اورزنا بالرضا میں چارمرد گواہوں کی بجائے محض چار بالغ افراد کی گواہی کو کافی قرار دیا گیا ہے۔(3) پولیس کے پاس ایف آئی آر درج کرانے کی بجائے سیشن کورٹ کے پاس زنا کی شکایت درج ہوگی جس میں چار گواہ اور شکایت کنندہ کے بیانات موقع پر ہی درج ہوں گے۔ dمالی معاملات میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کی بجائے ایک مرد اورایک عورت کی گواہی یا عدالت کی مطلوبہ گواہی کافی قرار دی گئی ہے۔'' (روزنامہ 'اُمت' کراچی: 4 ؍اگست)
حدود قوانین پر بحث و مباحثہ کا آغاز اس بہانہ کے ساتھ کیا گیا تھا کہ ''حدود اللہ پر کوئی بحث نہیں لیکن حدود آرڈیننس خدائی نہیں ۔''جبکہ مذکورہ بالا ترامیم کا سرسری مطالعہ ہی اس امر کی نشاندہی کے لئے کافی ہے کہ نئے مسودئہ قانونمیں حدود آرڈیننس کے نام پر حدود اللہ مں ہی ترمیم کی جسارت کی گئی ہے جس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں ۔
قرآنِ کریم میں حدود اللہ کے بارے میں مسلمانوں کو پہلے ہی تنبیہ کی جاچکی ہے کہ
تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا...﴿١٨٧﴾...سورۃ البقرۃ
''یہ اللہ کی حدیں ہیں ، ان کے( ارتکاب کے) قریب بھی مت جائو۔''
وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ...﴿١﴾...سورۃ الطلاق
''اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو بلاشبہ اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔''
حدود قوانین کیا خواتین کے خلاف ہیں ؟
حقوقِ نسواں اور مساواتِ مردوزَن کا نعرہ ایسا دل فریب ہے کہ اکثر مذموم مقاصد اس کے پس پردہ ہی پورے کئے جاتے ہیں ۔ اب بھی حدود قوانین میں ترامیم 'خواتین سے ظلم وزیادتی اور امتیاز کے خاتمے' کے نام پر لائی جارہی ہیں ۔ یاد رہے کہ حدود قوانین کے خلاف نمائندہ لٹریچر بھی خواتین حقوق پر کام کرنے والی این جی اوز 'عورت فائونڈیشن' وغیرہ نے ہی شائع کیا ہے مثلاً جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کاکتابچہ 'زنا آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ '، ڈاکٹر طفیل ہاشمی کی کتاب 'حدود آرڈیننس؛ کتاب وسنت کی روشنی میں ' اور ڈاکٹر محمد فاروق خاں کی کتاب 'حدود، حدود قوانین اور خواتین' وغیرہ
ان ترامیم پر تبصرہ سے قبل اس آرڈیننس پر بنیادی اعتراض کا جائزہ لینا مناسب ہوگا کہ
''حدود قوانین عورتوں کے خلاف امتیازی ہیں ، ان کا نشانہ زیادہ ترخواتین بنتی ہیں اور 80 سے 90 فیصد تک خواتین اسی بنا پر جیلوں میں قید ہیں ۔ ''
(قومی کمیشن برائے خواتین)
اس دعویٰ کی حیثیت پروپیگنڈہ سے زیادہ نہیں اور زمینی حقائق سے اس کی تائید نہیں ہوتی بلکہ یہ پاکستانی معاشرے پر ایک بڑا الزام ہے جس کا مطلب ہے کہ یہاں زنا کے جرائم بہت بڑی تعداد میں ہوتے ہیں جبکہ واقعاتی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی چند بڑی جیلوں کے جائزہ کے بعد وہاں حدود کی ملزم خواتین قیدیوں کی تعداد 31 فیصد سے زیادہ نہیں ، جولائی 2003ء کے ایک جائزے میں صوبہ سرحد کی 9 جیلوں میں حدود مقدمات میں 32 فیصد خواتین قید تھیں ۔ 2
ایک امریکی سکالر چارلس کینیڈی نے 5 سال میں پاکستان میں حدود کے مقدمات کا ایک جائزہ لے کر اپنی تحقیق کا یہ نتیجہ پیش کیاکہ 1980ء تا 1984ء کے پانچ برسوں میں ڈسٹرکٹ کورٹس میں زنا بالرضا میں 145؍ مردوں اور 144؍ عورتوں کو سزا سنائی گئی جن میں سے 71 مردوں اور 30 خواتین کی سزا وفاقی شرعی عدالت نے بحال رکھی۔ ایسے ہی زنا بالجبر کے کیس میں انہی سالوں میں ڈسٹرکٹ کورٹ نے 163 مردوں اور 2 عورتوں کو سزا سنائی جن میں سے وفاقی شرعی عدالت نے محض 59 مردوں کی سزا بحال رکھی اور ان دو عورتوں کو بھی بری کردیا۔3
جسٹس تقی عثمانی جنہوں نے 17،18 برس حدود آرڈیننس وغیرہ کی سماعت کی ہے اپنا ذاتی تجربہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ''اغوا اور زنا کے جو سینکڑوں مقدمات میں نے سنے ہیں ، ان میں کم ازکم 90 فیصد کیسوں میں سزاہمیشہ مرد کو ہوئی ہے۔'' 4
طبقہ خواتین کی بے جا حمایت حاصل کرنے اور محض گرمی ٔ محفل کے لئے حدود قوانین کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ(ii) کیا جاتاہے۔ اسلام نے تو ہردو صنف کے ساتھ عدل وانصاف کے تمام ضابطے پورے کئے ہیں جبکہ پاکستان میں نافذ انگریزی قانون کی صورتِ حال یہ ہے(iii) کہ اس کا اُصولی رجحان ہی عورت کے لئے خصوصی استحقاق اور مردوں کے خلاف امتیاز پر مبنی ہے جیسا کہ حدود پر اپنے کتابچہ کے آغاز میں ہی اُصولی بنیاد کے طورپر جسٹس (ر) جاوید اقبال لکھتے ہیں :
''یہ حقیقت قانوناً تسلیم کرلی گئی کہ برصغیر کی عورت چونکہ پس ماندہ اور مظلوم ہے، اس لئے ضابطہ فوجداری کے ہر جنسی جرم میں جس میں عورت ملوث ہو، عورت کو ملزم تصور نہ کیا جائے۔ لہٰذا اغوا، زنا بالجبر، کسی کی بیوی کو ورغلا کراپنے ساتھ بھگا لے جانا وغیرہ، ایسے جرائم کی پولیس رپورٹ میں عورت کا سٹیٹس مستغیثہ یا مظلوم کا ہوتا ہے، نہ کہ ساتھی ملزم کا۔ خواہ ایسے کسی جرم میں اس کی رضامندی شامل ہی کیوں نہ ہو۔''5
دراصل یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ عورت لازماً معصوم ہی ہوتی ہے اور مرد ہمیشہ اس پر جارح ہوتا ہے جبکہ یہ تصور ہی صنفی امتیاز پر مبنی ہے۔ اسلام کی رو سے جس طرح عزت وعصمت کا تصور عورتوں کے ساتھ وابستہ ہے، ویسے ہی مردوں کے لئے بھی یہی تصور موجود ہے، وگرنہ اسلام میں مردوں پر تہمت لگانے کی سزا کیوں مقرر کی گئی ہے... ؟
قانون کو فریقین کے تحفظ اور دونوں صنفوں کے ساتھ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے۔ جدید تحریک ِنسواں کے نعروں کے بعد یہ عجیب رجحان پیدا ہوگیا ہے کہ قانون ہمیشہ عورت کو ہی مظلوم خیال کرتا ہے۔ اسی نوعیت کا ایک واقعہ مجھے گذشتہ دنوں دبئی میں مقیم میرے ایک قریبی عزیز نے سنایاکہ ایک عورت نے ان کے دوست کو برائی کی دعوت دی (اور یہ بات بھی عجیب نہیں جیسا کہ قرآن میں عزیز ِمصر کی بیوی کا حضرت یوسف ؑکے بارے میں مشہور قصہ بھی موجود ہے) تو اس شخص نے قریب موجود پولیس کے ایک سپاہی کو یہ شکایت کی کہ اس عورت کے خلاف کیا کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا؟ وہ سپاہی بولاکہ قانون تو ضرورحرکت میں آتا ہے مگر اس وقت جب یہ شکایت تمہاری جگہ وہ عورت کرتی۔(iv)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ صنفی امتیاز حدود قوانین کی بجائے مغربی قانون کی بنیادی ساخت میں موجود ہے لیکن اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی جاتی۔
مجوزہ ترامیم پرتبصرہ اور مُضمرات
پہلی مجوزہ ترمیم بہ سلسلہ سزا
زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی سزائوں میں تفریق یعنی زنا بالجبر کے لئے سزائے موت یا 25 سال قید اور زنا بالرضا کے لئے تعزیراتِ پاکستان میں موجود قانون کی بحالی
تبصرہ:حدود اللہ:اسلام کی رو سے زنا بالجبر ہو یا زنا بالرضا، ہردو صورت میں زنا ہونے کے ناطے یہ سنگین ترین جرم ہے۔ کم از کم مرد کی حد تک تو اس جرم میں کوئی فرق نہیں البتہ زنا بالجبر کی صورت میں محض عورت کے اپنے بیان اور قرائن سے اس کی شہادت ملنے پر اس کو نہ صرف بری کردیا جائے گا بلکہ اس کے حق ِعصمت میں دخل اندازی کی بنا پر زنا بالجبر کے مجرم پر اس کا مہر مثل(v)بھی عائد کیا جائے گا اور حکومت ِوقت بھی اس کی دلجوئی کے مختلف ذرائع اختیار کرے گی۔ چونکہ مغرب کے ہاں زنا کی دو قسمیں اور دونوں کے علیحدہ احکام ہیں ، اس لئے یہ تقسیم ہی مغربی طرزِ فکر کی آئینہ دار ہے جبکہ اسلام نے عورت کے لحاظ سے زنا کی دو اقسام بنانے کی بجائے اسے فریقین کی ازدواجی حیثیت کے لحاظ سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں تقسیم(vi) کیا ہے، غیر شادی شدہ زانی؍ زانیہ کو 100 کوڑے اور جلاوطنی جبکہ شادی شدہ زانی؍ زانیہ کو سنگساری کی سزا جیسا کہ یہ تمام باتیں قرآن وحدیث میں موجود ہیں ۔
حدود قوانین: جہاں تک حدود قوانین1979ء کا تعلق ہے تو زانی؍ زانیہ کے شادی شدہ ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے ان کی دو شرعی سزائیں ہی مقرر کی گئی ہیں ، البتہ تعزیرات کے ضمن میں زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں فرق کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ شق 9 کی ذیلی دفعہ 4 کی رو سے شرعی نصابِ شہادت پورا نہ ہو توشق 10 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت زنابالرضا کی سزا 10 سال قید بامشقت، 'تیس کوڑے یا جرمانہ' اور ذیلی دفعہ 3 کی رو سے زنا بالجبر کی سزا 25 برس قید بامشقت اور 'جرمانہ یا 30 کوڑے' ہوگی۔ گویا حدود قوانین میں اس فرق (vii) کی بنیاد نصابِ شہادت ہے۔
مُجوزہ ترمیم:اب ہم مجوزہ ترمیم کی طرف نظر کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ یہاں اسی زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں فرق کو اساسی حیثیت دی جارہی ہے۔ اور زنا بالجبر کی صورت میں سزاے موت کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ یہ سزا خلافِ اسلام ہے کیونکہ اسلام نے کنوارے زانی کے لئے چاہے وہ زنا بالجبر کا مرتکب بھی ہو، سزاے موت نہیں رکھی۔ صحیح بخاری میں یہ عنوان قائم کیا گیا ہے کہ ''مجبور عورت پر کوئی حد نہیں !'' اس کے تحت یہ حدیث ہے :
أن عبدًا من رقیق الإمارة وقع علی ولیدة من الخُمس فاستکرهها حتی افتضها فجلدہ عمر الحد ونفاہ ولم یجلد الولیدة من أجل أنه استکرهها
''خلیفہ کے غلاموں میں سے ایک نے مالِ خمس(بیت المال)کی ایک کنیز کو اس قدر مجبور کیا کہ اس سے زنا بالجبر کر لیا تو حضرت عمرؓ نے اس غلام پر کوڑوں کی حد نافذ کی اور اس کو جلا وطن کردیا، جبکہ کنیز کو کوڑوں کی سزا نہ دی کیونکہ اس کو مجبور کیا گیا تھا۔''6
موطا کی روایت میں ہے کہ یہ شخص خمس کے غلاموں پر نگران تھا، اسلئے اس نے مجبور کرلیا۔
ایسے ہی ایک شخص نے حضرت ابو بکرؓ صدیق کویہ شکایت کی کہ ا س کے مہمان نے اس کی بہن سے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے۔ آپ نے ا س سے تفتیش کی تو اس نے اعتراف کرلیا، فضرب به أبوبکر الحد ونفاہ سنة إلی فدك ولم یضربها ولم ینفها لإنه استکرهها ثم زوجها إیاہ أبوبکر وأدخله علیها7
''حضرت ابوبکرؓ نے اس پر حد جاری کی اور 'فدک' میں اس کو جلاوطن کردیا، جبکہ عورت کو نہ تو کوڑے مارے اور نہ ہی اسے جلاوطن کیا کیونکہ اس نے عورت کو مجبور کیا تھا۔ بعد ازاں حضرت ابوبکرؓ نے اسی شخص سے عورت کا نکاح کردیا اور اُسکی اِس عورت سے شادی کردی۔''
اس واقعہ میں بھی زنا بالجبر ہوا لیکن اس کو سزاے موت دینے کی بجائے کوڑے اور جلاوطنی کی سزا دی گئی۔یہ شخص جلاوطنی کاٹ کر واپس آیا تو آپؓ نے اس کو اسی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا۔ 8
زنا بالجبر کی سزا موت قرار دینے کے لئے دورِ نبویؐ کا یہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ ''ایک عورت نماز پڑھنے کے لئے گھر سے نکلی تو ایک شخص نے اس سے زنا بالجبرکرلیا۔شور مچانے پر وہ شخص بھاگ نکلاکہ اسی دوران ایک آدمی گزرا تو عورت نے اسے یہ شکایت کی، پھر مہاجرین کی ایک جماعت کا وہاں سے گزر ہوا تو اس عورت نے انہیں بھی شکایت لگائی۔وہ صحابہؓ چلے گئے اور کچھ دیر بعد ایک آدمی کو پکڑ لائے جس کے بارے میں عورت کا یہ گمان تھا۔اسے عورت کے سامنے لایا گیا تو اس نے کہا کہ یہی ہے وہ شخص۔سو وہ اس شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، آپ نے جب اس کو سزا دینے کا حکم دیا تو ایک اور شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ اس عورت سے میں نے زنا کیا ہے ۔تب آپ نے اس عورت کو جانے کی اجازت دی کہ جا تجھے اللہ نے معاف کردیا ہے اور اس شخص کے لئے اچھے کلمات بولے۔(کسی نے)کہا کہ اس کو رجم کردو تو آپؐ نے فرمایا: ا س نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ بھی ایسی توبہ کریں تو ان سے بھی قبو ل کی جائے۔'' 9
لیکن اس واقعہ سے یہ کب ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص کنوارا تھا؟ ظاہر ہے کہ وہ شخص شادی شدہ ہوگا اور اسی لئے اس کو رجم کا حکم دیا گیا ہوگا۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زنا بالجبر کی سزا حرابہ (ڈاکہ اور فساد فی الارض) کی بجائے رجم کی ہی ہے۔ (تفصیلات آگے صفحہ نمبر 26پر)
کیا زنا بالجبر کی سزا 'حرابہ' کی ہے؟
زنا بالجبر کی سزا موت قرار دینے کے لئے بعض تجدد پسند دانشور اسے حرابہ (ڈاکہ اور فساد فی الارض) کے تحت لاتے ہیں ۔ لیکن ان کا موقف درست نہیں جیسا کہ گذشتہ احادیث میں زنا بالجبر پرکنوارے کے لئے کوڑے اور شادی شدہ کے لئے رجم کی سزا کا ذکر ہوا ہے۔
(1) یہ موقف خلافِ قرآن ہے کیونکہ کنوارے کے لئے قرآنِ کریم نے سورة النور کی دوسری آیت میں 100 کوڑے کی سزا مقرر کیہے۔ قرآنی سزا کنوارے کے لئے ہے جس کا قرینہ یہ ہے کہ اگلی آیت میں ''زانی کا نکاح یا تو زانیہ سے ہے یا مشرکہ سے'' کا تذکرہ موجود ہے۔ ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے : أنه أمر فیمن زنیٰ ولم یحصن بجلد مائة وتغریب عام10
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی کے بارے میں یہ حکم دیا کہ ا س کو 100 کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلاوطن کردیا جائے۔''
اگر کنوارہ زنا بالجبر کرے تو شریعت کی رو سے تب بھی اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، لیکن حرابہ کے تحت لے آنے کی صورت میں کنوارے کو بھی قتل کرنا پڑے گا جو خلافِ اسلام ہے۔
(2) حرابہ کے تحت ہونے والے جرائم آیت ِحرابہ سے اگلی آیت کی رو سے گرفتاری سے قبل قابل توبہ (معافی) ہیں ۔ جن لوگوں نے زنا بالجبر کی سزا کو حرابہ کے تحت قرار دیا ہے، وہ بھی اس بنا پر اس کو قابل معافی قرار دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد فاروق خاں لکھتے ہیں کہ
''زنا بالجبر دراصل پوری سوسائٹی کے خلاف ایک جرم ہے، آیت ِحرابہ سے ہدایت ملتی ہے کہ çایسے مجرموں کے لئے حکومت کسی موقعہ پر عام معافی کا اعلان بھی کرسکتی ہے۔
اگر حکومت کے ہاتھ لگنے سے قبل کوئی مجرم خود ہی پچھلے جرائم سے تائب ہونے کا اعلان کردے تو حکومت اس کو معاف کرسکتی ہے۔ ''11
گویا ایک طرف زنا بالجبر کو سوسائٹی کے خلاف جرم قرار دے کر سزا کی سنگینی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف زنا مان کر اس کے لئے معافی کی گنجائش بھی نکال لی جاتی ہے۔ یہ دوہری منطق ناقابل فہم ہے۔ اس لئے کہ کسی جرم کا حد ود اللہ میں آجانا اس کی سنگینی میں اضافہ کرتا ہے نہ کہ کمی کیونکہ حدود اللہ میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی قاضی کے پاس آنے کے بعد ان کی معافی ہوسکتی ہے۔ یہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو بھی اس وقت فرمائی تھی جب وہ حضرت اسامہؓ کے ذریعے ایک مخزومی عورت کی چوری کی سزا کم کرنے کی سفارش آپ کے پاس لے کر آئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں ڈانٹا :
أتشفع في حد من حدود اﷲ ثم قام فخطب: ... لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطع محمد یدها12
''کیا تم حدود اللہ میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو۔ پھر آپ کھڑے ہوگئے اورخطبہ ارشاد فرمایا کہ اگر فاطمہؓ بنت ِمحمد بھی چوری کرتی تو محمد اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے۔''
اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت تو درکنار، دربارِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ان کی سزا کے بارے میں کوئی نرمی نہیں کی جاسکتی، کجا یہ کہ اُنہیں سرے سے ہی معاف کردیا جائے۔
دراصل زنا بالجبر کو حرابہ میں لے جانے کی وجہ ہی یہ ہے کہ اس موقف کے قائل حد رجم کے منکر ہیں ۔ حد رجم کے ان منکرین کا زنا بالجبر پر سزاے موت کا یہ موقف بھی ان کے سابقہ موقف کی طرف سبیل المومنین او راجماعِ اُمت سے انحراف ہے !!
مذکورہ بالا تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدود قوانین میں تبدیلی کا نام لے کر حدود اللہ میں ترمیم کی جسارت کی جارہی ہے اور اس طرح کھلے عام کتاب وسنت کے خلاف قانون سازی اللہ سے بغاوت اور دستورِ پاکستان کی واضح دفعات کی خلاف ورزی ہے۔
جہاں تک زنا بالرضا کی سزا کو مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے مطابق کرنے کی بات ہے تو یہ اسلام کے ساتھ صریح زیادتی، نظریۂ پاکستان سے انحراف او رمسلمانانِ پاکستان پر واضح ظلم ہے۔کیونکہ تعزیراتِ پاکستان میں زنا بالرضا بذاتِ خود کوئی جرم نہیں ، یہ قانون چونکہ انگریز کے دور سے چلا آتا ہے، اور انگریزکے ہاں زنا بذاتِ خود کوئی جرم نہیں بلکہ محض ازدواجی حقوق میں مداخلت کی بنا پر اسے جرم سمجھا جاتاہے۔ اسی بنا پر آج بھی یورپ میں زنا کاری اور فحاشی کا بازار گرم ہے اور یہ چیز مغربی معاشرے میں کوئی معیوب امر نہیں ۔ مغربی ممالک کے ایک حالیہ سروے کے مطابق وہاں بسنے والے مرداوسطاً اپنی زندگی میں 6ئ14 عورتوں سے جبکہ عورت اوسطاً 5ئ11 مردوں سے جنسی تعلق قائم کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب زنا کاری ہی ہے اور رضامندی کی وجہ سے اس پر کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ مغرب میں نکاح کی حیثیت وقتی رضامندی کو حاصل ہے جو اگر نکاح کے بعد بھی حاصل نہ ہو تو عورت اپنے شوہر کے خلاف ازدواجی زنا بالجبر کا مقدمہ دائر کرسکتی ہے۔ زنا بالرضا کو حدود آرڈیننس سے نکال کرجس تعزیراتِ پاکستان میں دوبارہ لایا جارہا ہے،اس کو بھی ایک نظر ملاحظہ فرما لیں :
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 497 میں زنا کی تعریف یہ ہے :
''جو کوئی کسی عورت کے ساتھ مباشرت کرتا ہے، جس کے بارے میں وہ جانتا ہے یا یقین رکھتا ہے کہ وہ کسی اور کی بیوی ہے اور اس شخص کی اجازت یا اس کی ملی بھگت کے بغیراس فعل کا ارتکاب کرتا ہے نیز اس کا یہ فعل زنا بالجبر کے زمرے میں بھی نہیں آتا تو کہا جائے گا کہ اس نے زنا کے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اسے 5 سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں کی سزا سنائی جائے گی۔ اس مقدمہ میں بیوی کو بطورِ ترغیب دینے والی کے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔''
اسی دفعہ میں بھی یہ صراحت موجود ہے کہ یہ زنا بالجبر کے بارے میں نہیں اور تعزیراتِ پاکستان میں زنا بالجبر کے لئے مستقل علیحدہ دفعہ 375 بھی موجود ہے، تو واضح ہے کہ تعزیرات پاکستان کی یہی وہ دفعہ ہے جو زنا بالرضا کے بارے میں مجوزہ ترامیم کے بعد مؤثر ہوجائے گی... یاد رہنا چاہئے کہ پاکستان میں پہلی بار حدود قوانین نے زنا کو قانونی طورپر ناجائز قرار(viii) دیا تھا، 1979ئسے پہلے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں زنا کے راستے میں محض اسلامی یا معاشرتی وسماجی رکاوٹ حائل تھی... دوسری طرف حدود قوانین نے زنا کی یہ تعریف کی :
''دفعہ 4: ایک مرد یا عورت جو جائز طورپر آپس میں شادی شدہ نہیں ہیں ، زنا کے مرتکب ہوں گے، اگر وہ بلاجبر واِکراہ ایک دوسرے کے ساتھ مباشرت کرتے ہیں ۔''
چنانچہ اگر زنا بالرضا کو حدود قوانین کی بجائے دوبارہ مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت کردیا جائے تو گویا حدود آرڈیننس کے اصل امتیاز اور بنیادی ضرورت واہمیت کا ہی خاتمہ ہوجاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کنواری، بیوہ یا مطلقہ اگر زنا کا ارتکاب کریں تو اُنہیں زنا کا مجرم قرار ہی نہیں دیا جاسکتا۔ اگر بیوی شوہر کی رضامندی سے زنا کا ارتکاب کرے تو اس صورت میں بھی یہ زنا نہیں ٹھہرتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زنا بذاتِ خود جرم نہیں بلکہ شوہر کی عدم رضامندی کی صورت میں ہی جرم قرار پاتاہے۔ پھرشوہر ہی اس کے خلاف مقدمہ درج کراسکتا ہے ، ہر مسلمان نہیں ۔ علاوہ ازیں تعزیراتِ پاکستان میں یہ جرم قابل راضی نامہ اور قابل ضمانت بھی ہے۔ اگر زنا پر سزا ہو بھی جائے تو وہ محض 5 سال یا جرمانہ ہے ۔صنفی امتیاز کی حد یہ ہے کہ اگر مرد کو ان تمام شرائط کو ملحوظ رکھنے کے بعد سزا کا مستحق بنا بھی دیا جائے تب بھی عورت کو بطورِ ترغیب دینے والی کے کوئی سزا نہیں دی جاسکتی۔
اب آپ خود غور کرلیں کہ اگر حدود قوانین میں یہ ترامیم کردی جاتی ہیں جو دراصل محض ترمیم کا نام، دراصل حدود قوانین کی منسوخی ہے تو اس کے بعد معاشرے میں زنا کاری پر کوئی قانونی قدغن باقی نہیں رہے گی۔ چونکہ ہماری این جی اوز اور مقتدر طبقہ کے فکر ونظر کے پیمانے مغرب سے مستعار ہیں ، اس لئے زنا بالرضا کو دوبارہ تعزیراتِ پاکستان کے حوالے کرکے (جہاں اس حوالے سے کوئی قانون ہی نہیں ہے) ملحدانہ معاشرت کو دعوت دی جارہی ہے۔
کیا یہی ہے وہ مقصد اور منزل جس کے لئے کئی ماہ سے جیو نے عوام کو 'ذرا سوچئے' اور پارلیمنٹ کو 'کب سوچنے' کی دہائی مچا رکھی تھی...؟
پہلی ترمیم کی توجیہ پر ایک نظر: آخر میں اس ترمیم کی توجیہ پر بھی نظر ڈال لینا مناسب ہوگا :
''ہر ایسا جرم جس کی سزا قرآن وسنت میں بیان نہیں کی گئی، اس کو حدود آرڈیننس سے نکال لیا جائے۔ زنا کی تعزیری سزائوں کو بھی اسی لئے حدود آرڈیننس سے نکال دیا گیا ہے اور زنا بالجبر کے قوانین کو تعزیراتِ پاکستان میں 'ریپ' کے نئے نام سے شامل کیا گیا ہے۔'' 13
تبصرہ:معلوم ہوا کہ زنا بالجبر کو بھی حدود قوانین سے اس لئے نکالا گیا کہ بزعم خودیہ قرآن وسنت میں موجود نہیں جبکہ قرآن نے زنا کی سزا کو بھی بیان کیا ہے اور سنت ِنبویؐ سے شادی شدہ کے لئے رجم کی سزا بھی ثابت شدہ ہے۔ پھر جن لوگوں کے نزدیک زنا بالجبر حرابہ کی ایک قسم ہے، ان کے نزدیک بھی یہ آیت ِحرابہ (المائدة:32) کے تحت آتا ہے۔ اس بنا پر یہ غلط بیانی اور 'عذرِ گناہ بد تر از گنا ہ' کے مصداق ہے۔
دراصل یہ توجیہ حدود قوانین میں موجود تعزیری سزائوں کو نکالنے کے لئے پیش کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر کسی وقوعہ پر چار گواہ نہ ملیں تب بھی کم تر شہادت پر بعض تعزیرات مبادیات زنا کے طورپر لاگو ہو جاتی ہیں ، چنانچہ ان تعزیرات کے خاتمے کے لئے بھی یہ توجیہ کردی گئی ہے تاکہ زنا کے نام سے کوئی قابل سزا جرم باقی ہی نہ رہے۔یہ ہے وہ عقل عیار جو قرآن وسنت اور حدود اللہ سے کھیلنے کے لئے ہی حرکت میں آتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے!
دوسری مجوزہ ترمیم بہ سلسلہ شہادت
''حدود آرڈی نینس میں صرف زنا کی حدکے تحت سزا شامل ہوگی جو شادی شدہ مجرموں کے لئے رجم اور غیر شادی شدہ مجرم کے لئے کوڑوں پر مشتمل ہوگی۔حد زنا کے لئے چارمرد گواہوں کی شرط ختم کرتے ہوئے اب مرد کے ساتھ عورت کی گواہی کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے لئے قانونِ شہادت 1984ء میں ترمیم کی جارہی ہے۔ ''
تبصرہ:حالیہ ترامیم باہم متناقض ہیں ۔ ایک طرف زنا کو دو اقسام:جبر اور رضا میں تقسیم کیا گیا ہے اور اسی تقسیم کو اصل بنایا جارہا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مزید قانون کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی، دوسری طرف حدود قوانین میں زنا کو دوبارہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کے لحاظ سے (یعنی اسلامی شریعت کے طورپر)بھی تقسیم کیا جارہا ہے تاکہ مسلمان بھی مطمئن رہیں اور کوئی اعتراض نہ ہوسکے لیکن عملاً یہ قانون در قانون کی ایک صورت ہے کیونکہ ایک واقعہ زنا بالرضا کے تحت آئے گا جہاں تعزیراتِ پاکستان میں اس کے لئے کوئی سزا نہیں تو دوسری طرف وہ ترمیم شدہ حدود آرڈیننس کے تحت شادی شدہ ہونے کی وجہ سے سنگساری کا مستحق بھی ہوگا، اب اس پرکس قانونی دفعہ کو لگایاجائے، اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ ایسے ہی ایک واقعہ زنا بالجبر کا ہو اور دوسری طرف زانی کنوارا ہو تو اس صورت میں تعزیراتِ پاکستان کی رو سے تو وہ سزاے موت کا مستحق لیکن حدود آرڈیننس کی رو سے وہ 100 کوڑوں کا مستحق ہوگا۔ تضادات سے بھرپور یہ قانون سازی آخر کیوں ؟ اس طرح جرمِ زنا کی سزا عائد کرنا تو ایک معمہ بن جائے گا سمجھنے ، نہ سمجھانے کا!!
ممکن ہے کہ یہی اعتراض موجودہ حدود قوانین پر بھی کیا جائے کہ وہاں بھی سزائوں کے دو معیار مقرر کئے گئے ہیں ، لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ پہلے تو اسی نکتہ پر ترمیم کے خواہش مند اعتراض کرتے تھے، اب خود اسی ثنویت کو اختیار کرتے ہیں تو وہ درست قرار پاتیہے۔ علاوہ ازیں حدود قوانین میں دونوں سزائوں میں باہم تضاد نہیں بلکہ جرم کی کمی بیشی کے اعتبار سے ان کی شدت میں بھی کمی بیشی ہے، اور دونوں سزائوں میں حد فاصل اور میزان وہ نصابِ شہادت ہے جس کی رو سے زنا کی شرعی سزا تب ہی دی جاسکتی ہے جب عملاً وقوعہ زناکی شہادت موجود ہو، وگرنہ نسبتاً کمتر سزا جو دراصل مبادیاتِ زنا کی سزا ہے، دی جاتی ہے۔ جبکہ مجوزہ ترامیم میں نہ وہ حد فاصل موجود ہے اور دونوں سزائوں میں کمی بیشی کی بجائے تضاد بھی پایا جاتا ہے۔
اسلام کے نام پر پاکستان میں جاری کئے جانے والے قوانین عموماً اسی قسم کے مسائل اور تضادات سے پر ہیں جس کی وجہ سے ان پر عمل بھی نہیں ہوپاتا، ایسے قوانین کو بظاہر نافذ کرنے کی ضرورت قانون کے ایک بھیدی جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کی زبانی سنئے:
''مذہبی لوگوں کو راضی رکھنے کیلئے ہمیں قانون تو بنانے پڑتے ہیں لیکن ان کو مؤثر اور قابل عمل نہیں رکھاجاسکتا۔ ان کی حیثیت زیبائشی اور آرائشی قوانین کی ہوتی ہے۔یہ منافقت اس لئے ضرور ی ہے کہ ہم علما کو بھی ناراض نہیں کرسکتے لیکن اسلامی قانون کو مؤثر بھی نہیں کرسکتے۔ ''14
اس ترمیم میں ایک طرف بدکاری پر قانون در قانون پیش کرکے سزا کو اُلجھایا گیا ہے، اور بظاہر حدود اللہ کو برقرار دکھانے کی سعی کی جارہی ہے تو دوسری طرف پھر نصابِ شہادت کے لئے قرآن وسنت سے متصادم ترمیم اس میں شامل ہے کیونکہ اسلام نے حدود میں عورتوں کی گواہی کا راستہ تو سرے سے اختیار ہی نہیں کیا۔
اسلامی شریعت میں شرعی حد زنا کے سلسلہ میں عورتوں کی شہادت کی گنجائش نہیں ۔یہاں مرد وزن کی مساوات کو خلط ملط کرنے اور آدھی عورت کے جذباتی نعرے لگانے کی بجائے پہلے اسلامی موقف کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسلام نے مرد وزَن کو مساوات کے نام پر ایک دوسرے کا حریف ومقابل بنانے کی بجائے دونوں صنفوں میں تقسیم کار کا تصور دیا ہے۔ اگردونوں صنفوں کے کام بھی ایک جیسے ہی ہوں تو پھر دوسری صنف کو پیدا کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
اسلام نے عورت کی گواہی کو آدھا نہیں کیا بلکہ مردوں کے معاملات میں اور جہاں شرم وحیا آڑے آجائے، وہاں مردوں کی گواہی کو رواج دینے کی ترغیب دی ہے جبکہ عورتوں کے معاملات میں ان کی گواہی کو مردوں سے بھی زیادہ حیثیت دی ہے۔ مثال کے طورپر دنیا بھر کے تما م مسلمان اپنی ماں کی اکیلی شہادت پر اپنے باپ کی ولدیت کا یقین کرتے ہیں ۔ ایسے ہی رضاعت، حیضوغیرہ میں عورت کی اکیلی گواہی مردوں سے زیادہ معتبر حیثیت رکھتی ہے۔15
اسلام نے عورتوں کو حدود کے معاملات میں گواہی دینے کا رویہ اس لئے نہیں اپنایا کہ اسلام کی رو سے یہ دائرئہ عمل عورتوں کی حرمت وتقدس کے خلاف ہے کیونکہ گواہوں کیلئے فعل زنا کی عملی تفصیلات پیش کرنابھی ضروری ہے ،ا سکے بغیرگواہی مکمل نہیں ہوتی۔16
عورتوں کا عدالتوں میں آنا جانا اور وہاں وکلا کی شدید جرح کے بالمقابل جرمِ زنا کی عملی تفصیلات میں ان کی فطری شرم وحیا کا حائل ہونا ایسی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے اسلام نے عورت کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ اس پیچیدگی کی بنا پر مجرم کے بچ نکلنے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امان اللہ بلوچ ایڈوکیٹ کا عدالتوں کا عملی تجربہ ملاحظہ فرمائیے:
''ہماری ایک ثقافت ہے، ہوسکتا ہے برگر خاندانوں سے تعلق رکھنے والی چند خواتین اتنی بے باک ہوں کہ اپنا بیان نارمل طریقے سے دے پائیں مگر ہمارے معاشرے کی 9ئ99 فیصد خواتین کی بالکل الگ سوچ ہے۔ وہ اپنی روایات اور ثقافت کی پاسداری کرنے والی اور شرم وحیا کی پیکر ہوتی ہیں ۔ ان کے لئے مردوں سے بھرے عدالتی چیمبر میں اورچارچار وکیلوں کی موجودگی میں اس ظلم کی باریکیاں بیان کرنا کسی پہاڑ سے ٹکرانے سے زیادہ مشکل امر ہے۔''17
زنا کی شہادت میں فعل زنا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ضروری ہے، وگرنہ گواہ پرتہمت کی سزا عائد ہوگی جیساکہ حضرت عمرؓ نے مغیرہ ؓبن شعبہ کے واقعہ میں اسی بنا پر حد ِقذف لگائی۔ یہی وجہ ہے کہ حدود میں عورت کی گواہی کی راہ اختیار نہیں کی گئی اور یہی وجہ مسلم فقہا نے ذکر کی ہے کہ
تقع في جو قذر مخز لا تتمکن المرأة غالبًا فیه من الاستعداد لتحمل الشهادة کما یقع في جریمتي الزنا واللواط حیث یشترط في الشهادة رؤیة المیل في المُکحلة18
'' گواہیاں ایسے مکدر اور شرمناک ماحول مںس ہوتی ہیں جہاں خواتین کا عمل ِزنا کی گواہی دینے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ جیسے کہ زنا اور لواطت کے جرائم کا تعلق ہے کیونکہ ان کی گواہی میں سرمہ والی لکڑی (سرمچو) کا سرمہ دانی میں داخل ہونے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی شہادت دینا ضروری ہے۔''19
پھریہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ گواہی کوئی حق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ حق تو وہ ہے جس کا فائدہ اپنی ذات کو پہنچے اور ذمہ داری وہ جس کو ادا کرکے دوسروں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ گواہی دینے والی عورت کو گواہی دے کر کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ ممکن ہے کہ مغرب میں جہاں جدید تحریک ِنسواں کے بعد بعض تجدد پسند عورتیں مل کر اپنے آپ کو ایک مجسم اکائی خیال کرتی ہوں اور اپنے بالمقابل مردوں کو ایک جنس ظالم باور کرکے ایک اکائی بتاتی ہوں لیکن اسلامی معاشرے الحمد اللہ ابھی تک اس صنفی کشمکش اور تنائو سے آزاد ہیں ۔
جبکہ پاکستان میں عدالتوں کی موجودہ صورتحال اورسماعت کی طوالت کے باعث یہ ذمہ داری تو کوئی مرد بھی ادا کرنے کے لئے آمادہ نہیں (ix) کجا یہ کہ اسے عورتوں پر بھی عائد کردیا جائے۔
یہ تو اس الٰہی حکم کی توجیہات ہیں ، وگرنہ مؤمن مردوزَن کے لئے قرآن اور فرامین نبویؐ بہت کافی ہیں ، قرآنِ کریم میں زنا کے سلسلے میں صرف مرد گواہوں کا تین بار تذکرہ ہوا ہے :
وَٱلَّـٰتِى يَأْتِينَ ٱلْفَـٰحِشَةَ مِن نِّسَآئِكُمْ فَٱسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ...﴿١٥﴾...سورۃ النساء
''جو عورتیں فحاشی کا ارتکاب کریں تو ان پر چار گواہ پیش کرو۔''
وَٱلَّذِينَ يَرْمُونَ ٱلْمُحْصَنَـٰتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ...﴿٤﴾...سورۃ النور
''وہ لوگ جو پاکدامن عورتوں پر الزام تراشی کرتے ہیں اور چار گواہ بھی پیش نہیں کرتے...''
اور عدد معدود کے مسلمہ عربی قاعدے کی رو سے 3 سے 10 تک کا 'اسم عدد' اگر مؤنث ہو تو معدود لازماً مذکر ہوگا، چنانچہ سورة النور کی آیت میں أربعة شهداء میں أربعة مؤنث ہے لہٰذا اس سے مذکر گواہ ہی مراد ہوں گے۔ایسے ہی سورة البقرة کی آیت أربعة منکم میں بھی أربعة اور منکم ہردو سے یہی دلیل ملتی ہے اور اسی مفہوم پر مفسرین کا اتفاق (x)ہے ۔
اس سلسلے میں احادیث ِنبویہؐ میں ہے کہ ہلال بن اُمیہؓ نے شریک بن سحماء پر اپنی بیوی سے زنا کاری کا الزام لگایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أربعة شهداء وإلا فحد في ظهرك20
''چار گواہ لائو، وگرنہ تیری پیٹھ پر(تہمت کی) حد لگے گی۔''
سعد بن عبادہؓ سے مروی ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زنا کرتا پائوں تو کیا میں اس کو مہلت دوں حتی آتي بأربعة شہداء فقال رسول اﷲ: نعم 21
''حتیٰ کہ میں چار مرد گواہ لائوں ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ہاں ۔''
اس بارے میں خلفاے راشدینؓ اورتابعین رحمۃ اللہ علیہ کے فرامین وواقعات ملاحظہ فرمائیں ، مثلاً
مضت السنة من رسول اﷲ ﷺ والخلیفتین من بعدہ : أن لا تجوز شهادة النساء في الحدود22
''دورِ نبویؐ اور دونوں خلفا کے دورمیں یہ سنت چلی آتی ہے کہ حدود میں عورتوں کی گواہی درست نہیں ۔''
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ لا تجوز شهادة النساء في الطلاق والنکاح والحدود والدماء23
''طلاق ونکاح، حدود اور قتل وغیرہ میں عورتوں کی گواہی ازروئے شرع جائز نہیں ۔''
شعبی رحمۃ اللہ علیہ اور اعمش رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ لا تجوز شهادة النساء في الحدود
''حدود کے سلسلے میں عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں ۔''24
قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک واقعہ زنا میں 6 عورتوں اورایک مرد نے گواہی دی توفرمایا:
لا تجوز شهادة النساء في حد25
''حدود میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں ہے۔''
مصنف عبد الرزاق میں ان واقعات کے ساتھ مزید کئی واقعات اور فرامین بھی موجود ہیں ، تفصیل کے لئے اس کا مطالعہ مفید ہوگا ، پھر دورِ نبوی یا خلافت ِراشدہ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ خواتین کو گواہی کے لئے طلب کیا گیا ہو۔
مسلم علما وفقہا کا موقف بھی ملاحظہ فرمائیں : 26
أجمع المسلمون علی أنه لا تقبل في الزنا أقل من أربعة شهود
''مسلم علما کا اس امر پر اجماع ہے کہ زنا میں چار سے کم مردوں کی گواہی قابل قبول نہیں ۔ ''
حکومت ِکویت کے زیر نگرانی تیارکردہ مشہور فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ
ولا تقبل شهادة النساء في الزنا بحال لأن لفظ الأربعة اسم لعدد المذکورین ویقتضي أن یکتفي به بأربعة ولا خلاف في أن الأربعة إذا کان بعضهم نساء لا یکتفي بهم ... وقال ابن عابدین: لامدخل لشهادة النساء في الحدود27
''حد زنا میں عورتوں کی گواہی کسی صورت بھی قابل قبول نہیں کیونکہ أربعة سے چار مردوں کا ہی تعین ہوتا ہے (یہ مذکر کے لئے اسم عدد ہے) جس کا تقاضا یہ ہے کہ چار مرد ہی کفایت کریں گے ، اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگرچارمیں سے بعض عورتیں ہوں تو یہ گواہی کافی نہیں ہوگی۔ حنفی فقیہ قاضی ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ عورتوں کی گواہی کا حدود میں کوئی کام نہیں ۔''
ان شرعی نصوص ، اجماع اور علما کے اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شریعت ِاسلامیہ کا واضح حکم ہے۔ اس کی حکمتوں کی جستجو تو کی جاسکتی ہے لیکن اس سے انکار کرنا کسی مسلمان کے لئے روا نہیں ۔ جو لوگ اسے عورتوں کے خلاف امتیازی قانون سمجھتے ہیں ، اُنہیں اس نصابِ شہادت کو چارسے کم مسلمان مردوں کے لئے بھی امتیازی سمجھنا چاہئے کیونکہ شریعت کی نظر میں وقوعہ تو دو گواہوں سے ثابت ہوجاتا ہے لیکن حضرت عمرؓ نے مغیرہؓ بن شعبہ پر زنا کی تہمت کے ایک واقعہ میں تین گواہوں پر حد قذف جاری کی تھی۔(xi)اس لئے یہاں اصل مسئلہ صنفی امتیاز کا نہیں بلکہ اللہ کے طے کردہ اور قرآن میں ذکرکردہ نصابِ شہادت کا ہے۔ البتہ بعض ایسے حالات جن میں وقوعہ کے وقت صرف عورتیں ہی موجود ہوں تو بعض مسلم علما مثلاً علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے بامر مجبوری آٹھ عورتوں کی گواہی کو حد زنا کے لئے کافی نصاب قرار دیا ہے۔ان کے موقف اور دلائل کے لئے درج ذیل مراجع کی طرف رجوع مفید ہوگا۔ 28
ان تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کی گواہی کے سلسلے میں بھی حکومت کی مجوزہ ترمیم قرآن وسنت سے متصادم اور حدود اللہ میں تحریف کی ایک کوشش ہے جسے تعجب ہے کہ حدود قوانین میں شریعت کے نام پر ہی محض آزاد خیال عورتوں کی تائیدحاصل کرنے کے لئے داخل کیا جارہا ہے۔ لیکن اس تکلف کا کوئی فائدہ نہیں ، کیونکہ ایسی خواتین تو ویسے ہی حدود اللہ کو وحشیانہ اور ظالمانہ قرار دیتی ہیں ۔ ایسی این جی اوز میں کام کرنے والے ایک فرد امان اللہ بلوچ کی زبانی اندرونی شہادت سنئے:
''ان خواتین تنظیموں اورٹی وی چینلوں سے یہ سوال پوچھا جائے کہ اگر یہ ترمیم ہوبھی جائے اور چار خواتین کی گواہی پر حد لاگو ہو تو کیا وہ حدود آرڈیننس کو تسلیم کرلیں گے۔ ہرگز نہیں ، تمام حدود آرڈیننس میں صرف اس ایک شق پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔'' 29
زنا بالجبر میں عورت کی گواہی
شہادتِ نسواں کے حوالے سے ترمیم پر بحث کے خاتمے سے قبل ان اعتراضات کو بھی ایک نظر دیکھ لینا مفید ہوگا جو میڈیا پر زنا بالجبر کے سلسلے میں خواتین کی گواہی کے حوالے سے تسلسل سے دہرائے جاتے رہے ہیں ، مثلاً
(1) حدود قوانین کا زنا بالجبر کی صورت میں چار گواہوں کا تقاضا عملاً ممکن نہیں ہے کیونکہ زنا بالجبر عموماً اکیلے ہوتا ہے، چند افراد کی موجودگی میں جبری زنا کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔
اوّل تو یہ دعویٰ حدود قوانین پر محض الزام ہے کیونکہ حدود قوانین نے زنا بالجبر کے لئے چار گواہ ضروری ہی قرار نہیں دیے، ان قوانین میں زنا(xii) بالرضا اور زنا بالجبر کی سزا تعزیری ہے جس میں عام گواہیاں ویسے ہی قابل قبول ہںن ۔ چار گواہوں کی ضرورت تو زنا کی شرعی سزا میں ہے اور شرعی سزا میں زنا بالجبر کو بحث میں ہی نہیں لایا گیا۔یہی وجہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے کئی فیصلے موجود ہیں ، جن میں زنا بالجبر کیلئے چار گواہوں کی ضرورت کو اضافی قرار دیا گیا ہے، مثلاً
(1) قانونِ شہادت 1984 کے آرٹیکل 17 کی ذیلی دفعہ' 2 بی' میں صراحت کی گئی ہے کہ
''حد زنا کے نفاذ سے قطع نظر، زنا کے مقدمے میں عدالت ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی پر تعزیر کی سزا دے سکتی ہے۔ (یاد رہے کہ یہ سزا 10 سے 25 سال قید بامشقت اور جرمانہ ہے)''
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ 10 سال سزا زنا بالرضا کی ہے اور 25 سال زنا بالجبر کی ہے، تو گویا قانونِ شہادت کی یہ دفعہ دونوں کو شامل ہے۔
(2) عدالت کو یہ بھی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اگر مناسب سمجھے تو جرمِ زنا کے اثبات کے لئے گواہوں کی تعداد اوراہلیت کے متعلق بھی فیصلہ کرے۔ عدالت ِعالیہ نے ایک مقدمہ میں اس اُصول کی حسب ِذیل الفاظ میں صراحت کی ہے :
''قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر گواہوں کی تعداد اور اہلیت کے تعین کا اختیار عدالت کو حاصل ہے۔'' 30
واضح ہے کہ حدود قوانین کے تحت تعزیری سزائوں کیلئے ہی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے۔
(3) سپریم کورٹ، آزادکشمیر نے قصاص اور زنا کے مقدمات میں عورت کی گواہی کے حوالے سے مندرجہ ذیل اُصول بیان کیا :
''قصاص اور نفاذِ حدود کے مقدمات میں بھی چار مرد گواہوں کی شہادت کے بعد مزید شہادت کے لئے عورتوں کی گواہی میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔''31
اس فیصلے سے یہ واضح ہوتاہے کہ اگر خواتین یہ محسوس کریں کہ حد زنا کے کسی مقدمہ میں چار مرد گواہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں یا درست گواہی نہیں دے رہے ہیں تو واقعہ کی چشم دید گواہ عورتیں بھی عدالت کے روبرو گواہی دے سکتی ہیں ۔ اور اصل حقائق کو عدالت کے علم میں لانے کا حق رکھتی ہیں ۔
(4) 1979ء میں زنا بالجبر کے ایک مقدمے کافیصلہ تحریر کرتے ہوئے کراچی ہائی کورٹ نے صرف ایک مظلومہ عورت کے بیان کو کافی گردانا اور قرار دیا کہ
''زنا بالجبر کے کیس میں مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کے بیان پر ملزم کو سزا دی جاسکتی ہے۔'' 32
چنانچہ جن لوگوں کو حدود اللہ ویسے ہی ظالمانہ نظر آتی ہیں ، وہ محض اعترا ض کرنے کے لئے چار مرد گواہ کی شق کو سامنے لے آتے ہیں ، وگرنہ یہ چار مرد گواہ زنا بالجبر کی سزا کے لئے سرے سے ضروری ہی نہیں بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ حدود قوانین میں تعزیرات پر عورت کو گواہی کے حق سے محروم نہیں کیاگیاہے بلکہ ان قوانین کے توسط سے ایک عورت کی گواہی پر مجرم کو سابقہ قانون کی نسبت دوگنا زیادہ سزا کے مواقع میسر آگئے ہیں ۔
جہاں تک اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ زنا بالجبر میں ایک سے زیادہ گواہ ملتے نہیں تو یہ بھی محض خام خیالی ہے۔کیونکہ بعض اوقات زنا کے آخری مراحل میں بعض افراد کو علم ہوتا ہے اور فعل زنا واقع ہوچکا ہوتا ہے، ایسی صورت میں وہ لوگ جبری زنا کی گواہی تو دے سکتے ہیں لیکن اس کو روکنے پر قادر نہیں ہوتے کیونکہ وہ واقعہ ہوچکا۔یہ صورت اکثر تب پیش آتی ہے جب خاتون کو تلاش کرتے یا اس کی پکار سنتے ہوئے چند لوگ تاخیر سے پہنچیں ۔
کسی خاندان سے دیرینہ دشمنی کا بدلہ لینے یا اس کی عزت خاک میں ملانے کے لئے بعض اوقات کچھ شیطان صفت لوگ اسلحہ کے زور پر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور لوگ اُنہیں روکنے پر قدرت نہیں رکھتے۔ بعض اوقات ڈاکوبھی ایسی وارداتیں کرتے ہیں کہ اہل خانہ کو زنا سے روکنے کی مجا ل نہیں ہوتی بلکہ پاکستان کے قبائلی نظام میں بعض جرگے بھی متاثرہ فریق کو زنا کی اجازت دے کر اپنے سامنے ایسے ظالمانہ فیصلے پرعمل کرواتے ہیں ۔ اس لئے یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ زنا بالجبر میں چار گواہوں کا ملنا ناممکن ہے۔
(2) یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ پرزنا بالجبر کا مقدمہ لے کر جاتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تم اپنی بریت پر چار گواہ پیش کرو، وگرنہ خود سزا بھگتو۔
حدود قوانین میں تو ایسی کوئی شق موجود نہیں ، اسی لئے شرعی عدالت کے فیصلے یا سزا سنانے کے مرحلے میں بھی کبھی اس کا اتفاق نہیں ہوا، جسٹس تقی عثمانی اپنے کتابچہ میں لکھتے ہیں کہ
''ایسے کیسوں کی سترہ سالہ سماعت کے دوران مجھے کوئی ایسا کیس یاد نہیں جس میں کوئی عورت زنا بالجبر کی شکایت لائی ہو اور مرد کو چھوڑ کر خود اسے زنا بالرضا کی سزا سنادی گئی ہو۔'' 33
البتہ پولیس کی دھاندلی یا عدمِ تربیت کے نتیجہ میں اس کا امکان بعید از قیاس نہیں ۔ اس کے لئے حدود قوانین کی بجائے پولیس کی اصلاح اور تربیت ضروری ہے۔ وفاقی شرعی عدالتنے بھی اپنے ایک فیصلہ میں یہ قرار دیا کہ
''اگر کسی عورت کو زنا پر مجبور کیا جائے تو اس جرم کے سرزد ہونے کے بعد زیادتی کی شکار عورت کو کسی طرح کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ چاہے وہ حد ہو یا تعزیر، البتہ دوسرا فریق جو زیادتی کا مرتکب ہوا ہے، وہ نفاذ یا تعزیری سزا کا مستحق ہے۔''34
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام نے تو عورت پر جبر کی صورت میں متاثرہ عورت کی بریت کے لئے محض اس کے بیان اور قرائن کی شرط لگائی ہے اور جبر ثابت ہونے کی صورت میں ظالم پر مہر مثل کی ادائیگی یا ایک تہائی دیت اور قاضی کو عورت کی دل جوئی کی ہدایت کی ہے جس کی تفصیل پیچھے صفحہ نمبر 8 کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔
(3) یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر زنا بالجبرمیں متاثرہ عورت اپنی بریت سے بڑھ کر ظالم مرد کو سزا دلوانا چاہتی ہو تو اس کی گواہی کو حدود قوانین میں کوئی وقعت نہیں دی جاتی۔
دراصل عورت سے جبری زنا ایسی زیادتی ہے جس پر ہر غیرت مند مسلمان متاثرہ عورت سے شدید ہمدردی محسوس کرتا ہے۔ ہمدردی اور غمخواری اپنی جگہ لیکن عدل وانصاف کے فیصلے جذبات سے ہٹ کر واضح میزان پر ہی کئے جاتے ہیں ۔ جس طرح کسی بھی جرم میں محض ایک متاثرہ شخص کا ملزم پر محض دعویٰ کردینا کافی نہیں بلکہ اسے قانونی تقاضے بھی پورے کرنا ہوتے ہیں ، ایسے ہی یہاں بھی توازن کا دامن نہیں چھوٹنا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ جبری زنا کی شکار عورت ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ محض عورت کے بیان کو ہی میزانِ عدل قرار دے لیا جائے۔ متعدد واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں عورت محض مرد کو بدنام کرنے کی غرض سے اس پر ایسا الزام لگا دیتی ہے۔ جیسا کہ ایسا ہی ایک واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا:
''بنی اسرائیل میں جُریج نامی ایک نیک آدمی نے ایک بار ماں کی بات نہ مانی تو اس کی ماں نے اسے بدنامی کی بددعادی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روزایک عورت نے اسے بدکاری کی دعوت دی، اس نے انکار کیا تو اس عورت نے ایک چرواہے سے بدکاری کرکے پیدا ہونے والے بچے کو جریج کے نام مڑھ دیا۔ لوگوں نے یہ صورتحال دیکھ کر اس کی عبادت گاہ توڑ دی اور اس کو خوب بدنام کیا۔ تب جریج نے نماز پڑھ کر اللہ سے اپنی صفائی کی دعا کی، تو اللہ نے اس پیدا ہونے والے بچے کو بولنے کی صلاحیت دے دی او راس نے کہا کہ ''میرا باپ تو فلاں چرواہا ہے۔'' یہ بچہ ان تین بچوں میں سے ایک تھا جنہوں نے گود میں بولنا شروع کردیا، دوسرے حضرت عیسیٰ ہیں ۔'' مختصراً35
مسلم فقیہ محمد فاسی مالکی لکھتے ہیں کہ کوئی عورت اگر یہ دعویٰ کرے کہ اس سے زنا بالجبر ہوا ہے ، اور اس کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو ا س صورت میں دیکھا جائے گا کہ
أن تدعي ذلك علی رجل صالح لا یلیق به ذلك وهي غیر متعلقة به فهذا لا خلاف أنه لا شيء علی الرجل وإنها تحد له حد القاذف وحد الزنا إن ظهر بها حمل36
''اگر تو جس پر الزام لگایا جارہا ہے ، وہ نیک شخص ہو اور ایسا فعل بد اس کے لائق نہ ہو اور اس عورت کا اس سے کوئی تعلق بھی نہ ہو تو سب کا اس امرپر اتفاق ہے کہ اس آدمی کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی، اور اس عورت پر حد تہمت لگے گی، اور اگر اسے حمل ہوجائے تو پھر اس عورت پر حد زنا بھی جاری ہوگی۔'' پتہ چلا کہ زنا بالجبر میں اکیلی عورت کا بیان کافی نہیں ہے۔
اگر اس مرحلہ پر کسی عورت کا اکیلا بیان ہی مرد کو زانی ثابت کرنے کے لئے کافی ہو تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زنا کے تمام جرائم کا فیصلہ ہر وقت عورت کے ہاتھ میں رہے گا۔ اس بنا پر عورت کا زنا کے الزام میں سزا پانا بھی ناممکن ہوجائے گا باوجود اس کے کہ اس نے رضامندی سے بدکاری کا ارتکاب کیا ہو۔ عورت جب چاہے گی تو اس کو زنا بالجبر قرار دے کراپنے آپ کو تو بری کرا لے گی لیکن مرد کو زنا کی سنگین سزا سے دوچار کردے گی۔ زنابالجبر میں اس پہلو کے حوالے سے قانون سازی کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ زنا کی سزا عورت کے رحم وکرم پر ہوجائے گی۔ چنانچہ اسی حوالے سے قانون کے غلط استعما ل کی نشاندہی امریکی سکالر نے بھی کی ہے:
''جن عورتوں کو دفعہ 10 (2) کے تحت (زنا بالرضا کے جرم میں ) سزا یاب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ، وہ اپنے مبینہ شریک ِجرم کے خلاف دفعہ 10(3) کے تحت (زنا بالجبر) کا الزام لے کر آجاتی ہیں ۔ فیڈرل شریعت کورٹ کو چونکہ ایسا کوئی قرینہ نہیں ملتا جو زنا بالجبر کے الزام کو ثابت کرسکے، اس لئے وہ مرد ملزم کو زنا بالرضا کی سزا دے دیتا ہے اور عورت شک کے فائدے کی بنا پر ہر غلط کاری کی سزا سے چھوٹ جاتی ہے۔'' 37
ان واقعاتی حقائق کو نظر انداز کرکے صرف مرد کو صنف ِظالم سمجھ کر عورت کے حق میں قانون سازی بذاتِ خود صنفی امتیاز کا مظہر ہوگا۔تحریک ِنسواں کی پروردہ خواتین عورتوں کو یہ حق دلا کر زنا کے سارے واقعات کا تما م ملبہ ایک طرف تو صرف مردوں پر گرانا چاہتی ہیں اور دوسری طرف عورت کی سزا کو عملاً معطل کرکے مردوں کو ہر وقت اپنے رحم وکرم پر رکھنا چاہتی ہیں ۔
بعض لوگوں نے گذشتہ صفحات میں نماز کے لئے جانے والی عورت سے زنا بالجبر کے واقعے سے یہ استدلال کیا ہے کہ جبر کی صورت میں اکیلی عورت کا بیان کافی سمجھا جائے گا۔ (مناسب ہوگا کہ ا س واقعے پر بحث سے قبل اصل حدیث کا مطالعہ دوبارہ صفحہ 11 سے کرلیا جائے)
(1) بعض علما کے نزدیک یہ حدیث ہی مستند نہیں بلکہ اس کے راویوں میں ضعف اور متن میں اضطراب پایا جاتا ہے جیساکہ حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا دعویٰ ہے۔
(2) علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ اس واقعہ میں رجم کا حکم دینا ثابت شدہ نہیں :
'حسن' دون قوله ارجموہ والأرجح أنه لم یُرجم38
''یہ حدیث حسن(مقبول) ہے سوائے رجم کے حکم کے(جو ثابت شدہ نہیں ہے) راجح بات یہی ہے کہ اسے رجم نہیں کیا گیا ۔ '' 39
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی رجم کے حکم کو راوی کا تصرف قرار دیا ہے۔40
(3) سنن ابو دائود کی شرح عون المعبود کے شارح اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :
ولایخفی أنه بظاهرہ مشکل إذ لایستقیم الأمر بالرجم من غیرإقرار ولا بینة وقول المرأة لا یصلح بینة بل هي التي تستحق أن تُحد حد القذف فلعل المراد: فلما قارب أن یأمر به وذلك قاله الراوي نظرًا إلی ظاهر الأمر ... والإمام اشتغل بالتفتیش عن حاله۔ 41
''ظاہر ہے کہ یہ ایک پیچیدہ حدیث ہے کیونکہ رجم تو اعتراف یا گواہیوں کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔ اور عورت کا محض کہہ دینا کافی گواہی نہیں ہے بلکہ چاہئے تو یہ تھا کہ اس بنا پر عورت کو حد قذف لگائی جاتی۔شاید اس سے مراد یہ ہو کہ ابھی آپؐ حکم سنانے ہی والے تھے اور راوی نے ظاہری حالات کے پیش نظر یہ بات از خود روایت کردی ہے، حالانکہ اس دوران حاکم ابھی تفتیشی مراحل میں ہی مشغول تھا۔''
بالفرض رجم کا حکم ثابت ہو بھی ہوجائے تو اس واقعہ کی مکمل تفصیلات جو مسند احمد اور سنن بیہقی وغیرہ میں ذکر ہوئی ہیں ، سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس واقعہ میں رجم کا حکم سنانا ایک تفتیشی مرحلہ ہی تھاکہ آپ نے ایک عورت کی شکایت پر الزامات کی تحقیق شروع کردی لیکن آخر کار اس واقعہ میں کسی شخص کو بھی رجم کی سزا دی نہیں دی گئی۔ 42
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رجم کایہ حکم اس واقعہ کے مشابہ ہے جب حضرت سلیمانؑ نے دو عورتوں کے درمیانبچے کا فیصلہ کرنے کے لئے بچے کو کاٹنے کا حکم سنایا تھا لیکن اس کو کاٹا نہیں تھا۔
(4) بفرضِ محال اگر رجم کا حکم دینا مان بھی لیا جائے تواس کی وجہ محض ایک عورت کے الزام کی بجائے دراصل ملزم کی خاموشی یعنی اعتراف ہے، وگرنہ اس کے انکار کرنے کا احادیث میں تذکرہ ملنا چاہئے۔ حافظ ابن قیم اعلام الموقعین میں فرماتے ہیں :
فإن قیل: کیف أَمر برجم البريء؟ قیل: لو أنکر لم یَرجمه ولکن لما أُخذ وقالت هو هذا ولم یُنکر ولم یَحتج عن نفسه فاتفق مجيء القوم به في صورة المریب وقول المرأة هذا هو وسکوته سکوت المریب 43
''اگریہ اعتراض کیا جائے کہ پھر ایک بری شخص کے رجم کا حکم کیوں دیا گیا؟ تو کہا جائے گا: اگر وہ انکار کرتا تو اسکے رجم کا حکم نہ دیا جاتا۔ لیکن جب اسے پکڑا گیا اور عورت نے بھی کہہ دیا کہ یہی ہے وہ اور اس نے انکار بھی نہیں کیااو راپنے بارے میں کوئی حیل وحجت بھی نہیں کی پھر تمام لوگوں کا اسے مشکوک حالت میں پکڑ کر لانا، اس کے بعد عورت کا اسے متعین کردینا اور اس پر اس کا خاموش رہنا۔ '' (یہ واقعاتی حقائق گویا اسکے اعترا ف کی طرف ہی اشارہ کررہے ہیں )
الغرض (1) اوّل تو اس مکمل واقعہ کی صحت ہی مشکوک ہے۔(2) پھراس واقعہ میں رجم کی سزا کا سنایا جاناثابت شدہ ہی نہیں ۔(3) بالفرض ثابت شدہ مان بھی لیا جائے تو یہ ایک تفتیشی مرحلہ کا بیان ہے کیونکہ زنا کاالزام چار گواہیوں کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔ (4)اگر کسی کو پھر بھی حکم رجم پر اصرار ہو تو اس سزا کو سنانے کی وجہ اس شخص کی الزام پر خاموشی گویا اعتراف کرنا ہے، نہ کہ محض عورت کا الزام لگا دینا۔(5)اور آخرکار تمام احادیث میں یہ بات موجود ہے کہ اس کو رجم کی سزا دی نہیں گئی، بلکہ سب کو معاف کردیا گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ زنا کی گواہیاں پوری نہ ہونے کی وجہ سے یہ کیس حدود اللہ سے نکل کر عام جرائم میں آگیا تھا، جہاں قاضی معافی دے سکتا ہے۔
زنا بالجبر کی صورت میں 'زنا' اور 'حرابہ' میں ادغام یا اشتراک؟
چونکہ زیر بحث ترامیم میں زنا بالجبر ہی خصوصی موضوع رہا ہے، اس لئے جوواقعات میڈیا پر پیش کئے جاتے رہے، ان کے بارے مںر اسلام کا موقف بالاختصار واضح رہنا چاہئے:
اسلام میں زنا ایک سنگین جرم ہے اور کسی کو اعتراف یا چار گواہوں کے بغیر زنا کی سزا نہیں دی جاسکتی جیسا کہ مغیرہؓ بن شعبہ کے سلسلے میں حضرت عمرؓ کا مشہور واقعہ موجود ہے۔ البتہ زنا بالجبر ایسی صورت ہے جہاں دوجرائم باہم خلط ملط ہوجاتے ہیں ، اس کی چار صورتیں بنتی ہیں جن میں پہلی تینوں صورتیں ایسی ہیں جہاں چاروں گواہیاں موجود ہیں :
(1) زنا بالجبر کی عام صورتوں میں زانی کو 100 کوڑے یا سنگساری کی سزا ہی دی جائے گی، جیسے کہ آغاز میں واقعات گزرچکے ہیں ۔ دیکھیں صفحہ نمبر10 پر حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کے فیصلے
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وعلی المستکرِہ حد الرجم إن کان ثیبا والجلد والنفي إن کان بکرا44
''جبر کرنیوالا اگر شادی شدہ ہے تو اس کی سزا سنگساری ، اگر کنوارا ہے تو کوڑے اورجلاوطنی۔''
(2) جہاں زنا بالجبر کے ساتھ اغوا، برہنہ کرنایا اجتماعی زیادتی وغیرہ بھی شامل ہوجائے تو شادی شدہ کے لئے سنگساری سے بڑی مزید کسی سزا کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔(جو لوگ رجم کے منکر ہیں ، ان کے نزدیک یہ صورت بنتی نہیں ، ا س لئے وہ فوراً حرابہ کی طرف لپکتے ہیں )
(3) البتہ ایسی صورت میں جب کنوارا سنگین زنا بالجبر کا ارتکاب کرے تو اس پر بیک وقت دو سزائیں بھی عائد ہوسکتی ہیں :کنوارے زانی کی حد اور ا س کے بعد فساد فی الارض کی تعزیر
دو سزائوں کی جمع کرنے کی دلیل حضرت علیؓ کا یہ فیصلہ بھی ہے جو شعبی سے مروی ہے:
'' أن علیًا قال لشراحة لعلك استکرهت لعل زوجك أتاك لعلك لعلك قالت: لا۔قال: فلما وضعت ما في بطنها جَلَدَها ثم رجمَها فقیل له جلدتها ثم رجمتها؟ (وفي روایة: جمعت علیه حدین) قال جلدتها بکتاب اﷲ ورجمتها بسنة رسول اﷲ45
'' حضرت علی ؓنے شراحہ سے پوچھا:شاید کہ تجھ سے زنا بالجبر ہوا ہو، شاید کہ تیرا شوہر تیرے پاس آیا ہو، شاید یہ اور یہ لیکن وہ عورت بولی: نہیں ۔سو جب اس عورت نے بچہ جن دیا جو اس کے پیٹ میں تھا تو آپ نے (جمعرات کو) اسے 100 کوڑے مارے اور (جمعہ کو ) رجم کردیا۔ آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے پہلے کوڑے مارے پھر رجم کردیا؟ (اور ایک روایت میں ہے کہ دو حدیں جمع کردیں ؟) تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے کتاب اللہ کی وجہ سے 100 کوڑے مارے اور سنت ِرسولؐ کی وجہ سے رجم کیا۔ '' 46
جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی کا اس بارے میں موقف یہ ہے کہ
''زنا بالجبر پر شادی شدہ کے لئے تو سنگساری سے مزید سنگین کیا سزا ہوسکتی ہے؟ البتہ کنوارے کیلئے 100 کوڑے ہی ہے۔اور حدود قوانین کی دفعہ 6(3) میں عدالت کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ جبر کی صورت میں کوئی اور سزا 'بھی' دے سکتی ہے۔'' 47
(4) زناکی سزا تو چار گواہوں یا اعتراف کے بغیر دی نہیں جاسکتی، اب جن حالات میں عورت کے ساتھ سنگین زیادتی کے واضح قرائن موجود ہوں اور معاشرے میں خوف وہراس پھیلا ہو لیکن چار گواہیاں موجود نہ ہوں توایسی صورت میں قاضی کو اختیار ہے کہ وہ معاملہ کی سنگینی کے مطابق حرابہ کی چاروں قرآنی سزائوں میں جو بھی اختیار کرلے: مجرم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا، سولی چڑھانا، مخالف سمت سے ہاتھ پائوں کاٹنا یا کم تر سزا محض جلاوطن کردینا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ حرابہ کی سزا (تعزیر) حدود میں شامل نہیں اور قابل معافی بھی ہے اور یہاں چار گواہوں کی ضرورت بھی نہیں بلکہ دو گواہوں یا محض قرائن سے بھی کام چل سکتا ہے۔
3؍اگست کو ہمدرد سنٹر میں حدود قوانین پر علما کے اجلاس کے اعلامیہ کی ایک شق یہ ہے:
''زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی تقسیم کرکے زنا بالجبر کو حرابہ کے تحت داخل کرنا قرآن وسنت کی باطل تعبیر ہے۔ زنا کے لئے موجب ِحد نصابِ شہادت دستیاب نہ ہو اور اقرارِ جرم بھی نہ ہو لیکن کم تر شہادت یا قرائن قطعیہ غالبہ موجود ہوں اور قاضی کو ارتکابِ جرم کا ظن غالب یا یقین ہوجائے تو وہ مجرم کو تعزیراً انتہائی سزا بھی دے سکتا ہے۔'' مختصراً
اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی رو سے زنا بالجبر کی سزا اور نصابِ شہادت میں عام زنا سے کوئی فرق نہیں ، البتہ حالات کی سنگینی کے تحت قاضی اس میں فساد فی الارض کے جرم کو شامل کرسکتا ہے لیکن دونوں جرائم کو خلط ملط کرنے کی بجائے اُنہیں قرآنی سیاق میں ہی رہنے دیا جائے کیونکہ ہر دو نوعیت کے جرائم کے احکام،طریقہ ثبوت اور حکمتیں علیحدہ علیحدہ ہیں ۔
الغرض شریعت ِاسلامیہ کے موقف اور مجوزہ ترامیم میں دو اساسی فرق ہیں :
(1)جرم کی بعض صورتوں میں دو تین جرائم کا ارتکاب ہوسکتا ہے مثلاً کسی واردات میں چوری اور زنا دونوں جمع ہوسکتے ہیں لیکن دونوں جرائم کی تفصیلات اپنی اپنی جگہ باقی رہتی ہیں ۔ جبکہ مجوزہ ترامیم میں زنا بالجبر کو ایک مستقل جرم قرار دے کر حرابہ بنایا جارہا ہے اور اس طرح زنا کو اس نصابِ شہادت اور سزا سے نکالا جارہا ہے جو اسلام نے مقرر کی ہے۔ یہ موقف درست نہیں ۔ مولانا عبد الرحمن مدنی کا محدث (شمارۂ جون) میں اس پر موقف شائع ہوچکا ہے :
''زنا بالجبر کا جرم حرابہ سے کوئی تعلق نہیں ، زنا کی سزا قرآن وسنت میں واضح طورپر بیان کردی گئی ہے، اس میں سے زنا بالجبر کو خاص کرکے حرابہ کے تحت داخل کرنے کی کوئی دلیل کتاب وسنت میں موجود نہیں ، نہ خلفاے راشدین کے دور سے اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔'' 48
(2) اسلام کی رو سے ان دو جرائم کا اشتراک ہر زنا بالجبر میں نہیں بلکہ جہاں صورتحال میں شدت آجائے او ر خوف وہراس (فساد فی الارض) پیدا ہو، صرف وہیں ہوتا ہے۔ چونکہ مغرب میں زنا کا فلسفہ دراصل جبر کی بجائے محض عدم رضامندی کا ہے، اس لئے وہاں ہر صورتحال کی ایک ہی سزا ہے، جبکہ اسلام میں محض سنگین صورتحال میں دو جرائم لاگو ہوسکتے ہیں یا محض اکیلا جرم فساد فی الارض لاگو ہوسکتا ہے، جب چار گواہ موجود نہ ہوں ۔
مثال: اوپر جو واقعہ گزرا ہے ، اس میں گواہیاں پوری نہ ہونے کی بنا پر نبی کریمؐ نے اس کو حرابہ کا جرم قرار دیا اور اسی بنا پر آپؐ نے دوسرے شخص کے اعتراف کو گرفتاری سے قبل توبہ پر محمول کیا اور اس کو معاف کرکے حضرت عمرؓ کے سامنے اس کی توبہ کی تعریف کی:
''فقام رجل من الناس فقال: لا ترجموہ وارجموني۔أنا الذي فعلتُ بها الفعل فاعْتَرَفَ فاجتمع ثلاثة عند رسول اﷲ ﷺ: الذي وقع علیها والذي أجابها والمرأة۔ فقال: أما أنتِ فقد غفر اﷲ لکِ وقال للذي أجابها قولا حسنًا فقال عمر: ارجم الذي اعترف بالزنا۔قال رسول اﷲ ﷺ: لا،لأنه قد تاب إلی اﷲ توبة لو تابها أهل المدینة لقُبل منهم فأرسلهم۔49
''لوگوں میں سے ایک شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ اس کی بجائے مجھے رجم کرو۔ میں نے یہ بد کاری کی ہے، سو اس نے اعترافِ (جرم )کرلیا۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس 3 لوگ موجود تھے، ایک تو (بظاہر) زانی، دوسرا جس نے اعتراف کیا اور تیسری (مظلوم) عورت۔ آپ نے فرمایا : اے عورت تو چلی جا، تجھے اللہ نے معاف کردیا۔ جس شخص نے اعترا ف کیا ، آپ نے اس کے لئے بھی اچھے کلمات کہے۔حضرت عمرؓ کہنے لگے: اس کو تو رجم کریں جس نے زنا کا اعتراف کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نہیں بلکہ اس نے اللہ کے ہاں توبہ کی ہے، سو آپ نے سب کو چھوڑ دیا۔''
او رمسند احمد میں اس حدیث کے راوی محمد بن عبد اللہ بن زبیر بھی کہتے ہیں :
فقد صرح ابن الزبیر بأن الحد لم یقم علی المعترف وهو الصواب
''ابن زبیر نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ اعتراف کرنے والے پر حد قائم نہیں کی گئی اور یہی بات درست ہے۔'' 50
امام بیہقی نے اپنی سنن میں بھی اس حدیث سے یہی استدلال کیا ہے، لکھتے ہیں :
فعلی هذہ الروایة یحتمل أنه إنما أمر بتعزیرہ ویحتمل أنهم شهدوا علیه بالزنا وأخطأوا في ذلك حتی قام صاحبها فاعترف بالزنا وقد وجد مثل اعترافه من ماعز والجهنیة والغامدیة ولم یسقط حدودهم أحادیثهم أکثر
''اس روایت کی بنا پر احتمال ہے کہ آپ نے اس پر تعزیر کا حکم لگایا ہو۔ کیونکہ امکان ہے کہ گواہوں نے زنا کی گواہی میں غلطی کھائی ہو اور اصل مجرم نے خود ہی زنا کا اعتراف کیا ہو۔ (تعزیر قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ) ماعز، جہنیہ، غامدیہ وغیرہ نے بھی ایسا اعتراف کیا لیکن ان کی حدود کو تو ساقط نہیں کیا گیا۔''51
ممکن ہے یہاں یہ اعتراض کیا جائے کہ دوسرے ملزم کے اعتراف کے بعد اسے حرابہ (تعزیر ) میں لے جانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی بلکہ حد کے تقاضے(چارگواہ یا اعتراف) پورے ہوجاتے ہیں ۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں دو مردوں کا اعتراف ثابت ہورہا ہے ، پہلے کا اعتراف زبانِ حال سے اور دوسرے کا زبانِ قال سے۔ایک طرف یہ دونوں اعتراف ٹکڑا رہے ہیں تو دوسری طرف یہ بھی احتمال ہے کہ دوسرے نے محض پہلے کو بچانے کی خاطر یہ اعتراف کرلیا ہو۔ اس بنا پر شبہ پیدا ہوگیا اور شبہ میں بھی حدود ساقط ہوجاتی ہیں ۔ اس لئے حرابہ کی تعزیر کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔اورتعزیر میں قبل از گرفتاری توبہ یا {وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا} کے تحت ا س کو بھی معاف کردیا گیا ہو۔ واللہ اعلم
تیسری ترمیم بہ سلسلہ عمر
حدود قوانین میں بالغ لڑکی پر مقدمہ بنادیا جاتا تھا اور اس عمر میں ذ ہنی بلوغت نہیں ہوپاتی جبکہ لڑکے کے لئے کم از کم 18 سال کی عمرمتعین کی گئی تھی۔ چنانچہ 'موجودہ' قانون میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے عمر کا تعین 18 سال کردیا گیا ہے۔
تبصرہ: یہ ترمیم بھی عجیب ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ زنا کا تعلق ذ ہنی بلوغت کی بجائے جسمانی بلوغت سے ہے۔مغربی ممالک کے اعداد وشمار پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سکول کی تعلیم کے دوران ہی کتنے بچے جنسی تعلقات قائم کرلیتے ہیں اور کتنی لڑکیاں اسی عمر میں حاملہ ہوجاتی ہیں جبکہ سکول کی تعلیم کا مرحلہ 18 سال سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔
اسلام نے جسمانی صلاحیتوں کے لئے علاماتِ بلوغ کو ہی بنیاد بنانے کو ترجیح دی ہے۔ جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا واقعہ ہے کہ
عرضت علی رسول اﷲ یوم أحد وأنا ابن أربع عشرة فلم یجزني ولم یرني بلغتُ ثم عرضت علیه یوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة فأجازني
'' مجھے جنگ اُحد کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور اس وقت میری عمر14 برس تھی، تو آپؐ نے نہ تو مجھے اجازت دی اور نہ ہی مجھے دیکھا کہ میں بالغ ہوا ہوں ؟ پھر دوبارہ مجھے جنگ ِاحزاب کے موقع پر لایا گیا جبکہ میری عمر 15 برس ہوچکی تھی تو آپؐ نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔''52
صحیح مسلم میں ہے کہ جب میں نے عمرؓ بن عبد العزیزکو یہ واقعہ بتایا تو آپؓ نے فرمایا:
إن ھذا لحد بین الصغیر والکبیر53
''چھوٹے اور بڑے میں یہی حد بندی ہے۔''
ازروئے اسلام جرم پر مسئولیت کا تعلق مردوزن ہر دو کے لئے عمرکی بجائے جسمانی علاماتِ بلوغ سے جوڑنا زیادہ بہتر ہے۔54
اس ترمیم پر ملکی قانون کی رو سے اعتراضات حسب ِذیل ہیں :
(1) پاکستان کا عائلی قانون تو لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر16 سال اور لڑکے کی 18 سال بتاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس عمر میں لڑکی سے جنسی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ اس ترمیم میں یہ عمر 18 سال ذکر کی گئی ہے، گویا یہ ترمیم عائلی قانون سے ہی متصادم ہے ۔
(2) مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 83 کی رو سے 7 سے 12 سال کے بچے کو فوجداری مسئولیت سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، اس سے بڑی عمر کے بچے کو یہ رعایت حاصل نہیں ۔ زنا کے جرم کو ہی ایسی رعایت کیوں کہ اس کی سزا کے لئے 18 سال کی شرط لگا دی جائے۔
(3) اس ترمیم کو تسلیم کرلینے سے 18 سال سے چھوٹے لڑکے ؍ لڑکیوں کے جنسی تعلقات قانون کی گرفت سے باہر نکل جائیں گے۔ اس عمر میں گناہ کی کھلی چھوٹ سے جس زندگی کی عادت پیدا ہوگی، بعد میں اسے کیوں کر روکا جاسکتا ہے ؟
(4) یہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے جس میں لڑکیاں لڑکوں سے پہلے بالغ ہوجاتی ہیں ۔ ایسے ہی لڑکے تو بلوغت کے بعد ہی جنسی فعل کی صلاحیت حاصل کرتے ہیں جبکہ لڑکیوں سے بلوغت سے قبل بھی جنسی فعل کیا جانا ممکن ہے ، گو مجرمانہ ہی سہی۔اس لحاظ سے بھی سابقہ قانون میں لڑکیوں کو قانونی داد رسی ملنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔
زنا کا تعلق بنیادی طورپر ذہنی بلوغت کی بجائے جسمانی صلاحیت سے ہے جو مختلف علاقوں ، موسموں اور ماحول کے نتیجے میں مختلف عمروں میں حاصل ہوتی ہے۔اس کی ایک عمر مقرر کردینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بعض لڑکے جرم کی صلاحیت تورکھیں گے ، لیکن جرم کے ارتکاب کے باوجود قانون ان پر گرفت نہیں کرسکے گا۔
(5) اس کو ذہنی بلوغت سے جوڑنے کی وجہ پر غور کریں کہ اس فعل میں کونسی ذہنی صلاحیتوں کا اظہار مقصود ہے کہ اس کو ذہنی بلوغت سے جوڑا جائے؟ صاف نظر آتا ہے کہ اس کے پس پردہ دراصل زنا کے بارے میں وہی رضامندی کا فلسفہ کارفرما ہے کہ چونکہ آج کل اس عمر سے قبل رضامندی یا عدمِ رضامندی کا اعتبار نہیں کیا جاتا، اس لئے یہ عمر مقرر کی جائے۔
اس ترمیم کے ذریعے حدود آرڈیننس کی دفعہ 5 اے میں تبدیلی مقصود ہے جس میں ہے کہ
''وہ مرد موجب ِحد ہے جو اپنی منکوحہ کے علاوہ کسی بھی بالغ یا نابالغ لڑکی سے مباشرت کرے۔''
غور کریں کہ کیا اس شق میں عورتوں کے ساتھ صنفی امتیاز برتا گیا ہے یا ان کے مفاد کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ زنا سے اصل نقصان کس کو ہے، مرد کو یا عورت کو؟ ظاہر ہے کہ کنواری لڑکی کے لئے اس کا نقصان،حمل کی ذمہ داری اور بدنامی وغیرہ کا مرد سے کوئی تقابل ہی نہیں ہے۔ اس لئے حدود قوانین میں لڑکیوں کو تحفظ دیتے ہوئے ان کے خلاف اوائل عمری میں ہی ہونے والے جنسی تشدد کو بھی قابل سزا قرار دیا گیا ہے۔اس دفعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے قومی کمیشن برائے خواتین نے یہ تجویز کیا ہے کہ یہاں عورت کے ساتھ بالغ کا اضافہ کیا جائے۔اگر اس ترمیم کو تسلیم کرلیا جائے تو 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کو حدود قوانین کا تحفظ حاصل نہیں رہے گا۔کیا یہ تجویز دانشمندی پرمبنی ہے یامحض مرد عورت میں مساوات کی ایک مجنونانہ خواہش!
چوتھی ترمیم بہ سلسلہ اندراجِ مقدمہ
پولیس کے پاس ایف آئی آر درج کرانے کی بجائے سیشن کورٹ کے پاس زنا کی شکایت درج ہوگی جس میں چار گواہ اور شکایت کنندہ کے بیانات موقع پر ہی درج ہوں گے۔
تبصرہ: اس ترمیم کے ذریعے یہ قانون سازی کی جارہی ہے کہ وقوعہ کی رپورٹ کے لئے بھی چار گواہ ضروری ہوں ، جبکہ اسلام کی رو سے چار گواہ وقوعہ کی رپورٹ کی بجائے زنا کی سزا سنانے کے لئے ضروری ہیں ، جرم کی نشاندہی تو کوئی ایک فرد بھی کرسکتا ہے۔55
جہاں تک موجودہ قانون کا تعلق ہے تواس کی رو سے بھی زنا سے سنگین سزائوں مثلاً قتل اور بغاوت کے لئے رپورٹ کا یہی طریقہ موجود ہے۔ یوں بھی کسی جرم کے لئے بھی آغاز میں تمام گواہیاں طلب نہیں کی جاتیں ۔کسی کیس میں دو مرحلے ہوتے ہیں :ایک وقوعہ کی رپورٹ کا اور دوسرا وقوعہ کے ثبوت کا جو عدالت کاکام ہے اور یہاں گواہی کی تفصیلات کے پیش نظر مجرم کو سزا سنائی جاتی ہے جبکہ پولیس کا کام محض ایف آئی آر (فرسٹ انکوائری رپورٹ) درج کرنا ہے، نہ کہ گواہوں کی جانچ پڑتال کرنا۔ مذکورہ ترمیم پر اعتراضات حسب ِذیل ہیں :
(1)جب زنا سے بھی سنگین جرائم کے لئے ایسا ضروری نہیں تو پھر زنا بالرضا کے ساتھ ہی یہ امتیازی سلوک کیوں ؟اگر پولیس رپورٹ کرنے والوں کو خراب کرتی ہے تو پولیس میجر ایکٹ کی اصلاح کی ضرورت ہے، نہ کہ ایسی ترمیم کہ قانون پر عمل درآمد ہی ممکن نہ رہے۔
(2) زنا بالجبر کے لئے موجودہ قانون اور مجوزہ ترمیم میں یہ شرط نہیں رکھی گئی تو پھر زنا بالرضا کے لئے ہی یہ طریقہ کار کیوں اختیار کیا جارہا ہے؟ اس کامقصد دراصل مدعی کوہراساں کرنا ہے تاکہ وہ ایسا کوئی مقدمہ درج کرانے سے پہلے ہی گھبرا جائے۔ کیونکہ عدالتوں کی موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ آج کوئی بھی عدالتوں میں گواہی کے لئے آنے پر تیار ہی نہیں ہوتا۔
(3) بنیادی طورپر رپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ معاونت ہے کہ اُنہیں ایک جرم کے وقوع کی نشاندہی کی جارہی ہے لیکن اس ترمیم کے ذریعے گویا زنا کے ملزموں کو تادیبی کاروائی کرنے کی بجائے سب سے پہلے رپورٹ کرنے والے کو ہی مجرم بنایا جارہا ہے کہ وہ اس واقعہ کو ثابت کرے، وگرنہ ازخو دلاگو ہونے والی قذف کی سزا بھگتے جس کی سزا ایک اور ترمیم کی رو سے7 سال قید کی جارہی ہے۔ 56
ایسے واقعات کی رپورٹ پولیس کو کرنا چاہئے، اگر پولیس کو اس سارے عمل سے نکال لیا گیا تو پھر معاشرے میں پھیلی بدکاری کی روک تھام ہی ممکن نہ رہے گی۔ اگر یہ ترمیم کر دی جاتی ہے تو عملاً معاشرے میں قحبہ گری کو فروغ حاصل ہوگا، کیونکہ وہاں ہونیوالے زنا بالرضا کے خلاف خال ہی کوئی شخص سیشن کورٹ میں رپورٹ کرائے گا، اور نہ اسے چار گواہ میسر ہوں گے۔
(4)یہ درست ہے کہ اس کے لئے چار گواہ ضروری ہیں ، لیکن گواہ پورے نہ ہونے پر مبادیاتِ زنا کے جرم کی سزا بھی دی جاسکتی ہے، ایسی صورت میں یہ جرائم بھی قابل دست اندازی نہ رہیں گے۔ اسلام اورحدود قوانین نے اس کا حل قذف کی شکل میں پیش کیا ہے، اگر قذف کی حد عملاً جاری کردی جائے تولوگ خود ہی الزام بازی سے رک سکتے ہیں ۔
(5)مقدمہ کے اندراج کے وقت ہی چار گواہوں کی شہادت عائدکرنے کی وجہ وہی ہے جس کا تذکرہ روزنامہ جنگ میں 14؍جون کو شائع شدہ مجوزہ ترامیم کے ضمن میں کیا جاچکا ہے:
''علم اور تجربے سے ثابت ہوچکا ہے کہ زنا کو اس طرح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ '' 57
(6) حدود آرڈیننس میں اس ترمیم کی اصلاً کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل 'کریمنل لاء ترمیمی بل 2004ئ' کی رو سے 156 'بی' کے تحت یہ قرار دیا جا چکا ہے کہ ''زنا کے جرم کی تفتیش سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے کم رتبے کا پولیس آفیسر نہیں کرے گا، نہ ہی ملزمہ عورت کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتار کیا جاسکے گا۔'' دو سال قبل اس بل کی منظوری کے بعد عملاً مزید ترمیم کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
حدود آرڈیننس میں مزیدبھی کئی ترامیم تجویز کی گئی ہیں جن میں ایک مالی معاملات میں مرد عورت کی برابر گواہی کے حوالے سے ترمیم ہے۔ یہ ترمیم بھی قرآنِ کریم کی واضح آیت ِمداینہ (البقرة:282)اور صریح احادیث کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ایسے ہی لِعان کے شرعی طریقہ میں تبدیلی، مسلم فریقین کے لئے غیر مسلم جج حضرات کی اجازت، زنا اور قذف کے علاوہ کوڑوں کی تمام سزائوں کا خاتمہ (جن میں شراب کی سزا بھی شامل ہے، کیونکہ وہ بھی کوڑوں کی شکل میں دی جاتی ہے)۔از خود قذف کی کاروائی کا مطالبہ، ایسے ہی تہمت لگانے کے دعویٰ پر دو افراد کی شہادت کا خاتمہ اور صرف عدالت کی مطلوبہ شہادت پر اکتفا وغیرہ کی ترامیم وغیرہ۔ ان ترامیم کے رجحانات اور شرعی حیثیت بخوبی واضح ہیں ، اختصار کے پیش نظر اس بحث کو یہیں پرختم کیا جاتا ہے۔
اختتامیہ:اوپر چار ترامیم کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ترمیم ایسی نہیں جسے کتاب وسنت کی روح سے ہم آہنگ قرار دیا جاسکے۔ اسلام نے جس انداز سے ان جرائم کے خاتمے کا رویہ اپنایا ہے، ان ترامیم کے ذریعے اسلام کے نام پر بنائے گئے قوانین میں بھی جرائم کے خاتمے کے لئے نہ صرف مغربی اُسلوبِ قانون اپنایا جارہا ہے بلکہ تجویز کی جانے والی سزائیں بھی خلافِ اسلام ہیں ۔
سوچنے کا مقام ہے کہ حدود قوانین میں اس ترمیم کی کونسی ہنگامی ضرورت پیش آگئی اور کیا پاکستان میں یہ واحد قانون ہی ایسا ہے جس میں اصلاحات کی گنجائش ہے۔ انگریزوں کا عطا کردہ مجموعہ تعزیرات جس سے پاکستان پینل کوڈ ماخوذہے، کونسا مقدس صحیفہ ہے جو ہر قسم کی خطا سے پاک ہو۔ حدود قوانین میں مسائل کی بنیادی وجہ زیادہ تر پولیس کا نظام اور مروّجہ عدالتی طریقہ کار ہے جس سے مظلوم کی داد رسی انتہائی مشکل ہے۔کیا اس قانون کے تحت ملک میں ہر شخص کو عدل وانصاف مہیا ہورہا ہے۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے عدل وانصاف کے ایوانوں کا ایک طائرانہ جائزہ لینا ہی کافی ہوگا۔ سسکتی انسانیت کو انصاف حاصل کرنے کے لئے کونسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ، اہل نظر بخوبی جانتے ہیں ۔
حدود قوانین پر ہی یہ عنایا ت اس لئے ہیں کہ یہی وہ قوانین ہیں جو اسلام کے نام پر نافذ کئے گئے، ان پر اعتراض کرنے والے وہی ہیں جنہیں وفاقی شرعی عدالت کا وجود بھی گوارا نہیں ۔ اُنہیں اسلام کے نام پر ہر قانون میں سو خرابیاں نظر آجاتی ہیں اور ان کی ترمیم کے درپے ہوجاتے ہیں ۔ ان قوانین کے بارے میں اکثر وبیشتر یہ الزام لگتا ہے کہ انہیں ایک آمر نے متعارف کرایالیکن جنرل ایوب کے عائلی قوانین ہوں یا جنرل مشرف کی قتل غیرت یا توہین رسالت کے حوالے سے اسلام مخالف ترامیم، وہاں کوئی بھولے سے بھی آمریت کا نام تک نہیں لیتا۔ یہی وہ 'منتخب اخلاقیات' ہیں جن کا حدود قوانین کوسامنا ہے!!
قانون کا بنیادی مقصد معاشرے میں عدل وانصاف اور امن وامان کا قیام ہے۔ اللہ کی عطا کردہ یہ حدود ہمیشہ سے مسلم معاشروں میں امن کی ضامن رہی ہیں اور آج بھی دنیا کی واحد ریاست سعودی عرب جہاں یہ حدود نافذ ہیں ، اپنے امن وامان کے لحاظ سے پوری دنیا کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے جس کی شہادت کئی معزز عدالتی شخصیات بھی دے چکی ہیں ، طالبان کے چند سالہ نظامِ حکومت سے کئی اختلاف کئے جاسکتے ہیں لیکن اُنہوں نے بھی اس عرصہ میں جس طرح امن وامان قائم کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دوسری طرف مجموعہ تعزیراتِ پاکستان جس قانونی ماڈل کا نمائندہ ہے، اس کے شاہکار مجموعہ ہائے قوانین آج بھی امریکہ ویورپ میں امن وسکون قائم نہیں کرسکے۔ امریکہ میں امن وامان کی صورتحال کے لئے کسی ایک سال کے جرائم کی رپورٹ پر ایک مختصر نظرڈال لینا ہی کافی ہوگا۔ دراصل حدود قوانین کے بارے میں اصل مسئلہ ترمیم اور اصلاح کا نہیں بلکہ ان اعتراضات کے بہانے الٰہی احکام کی بجائے انسانی قانون کو رواج دینے کی ایک کوشش ہے۔
حضرت انسان کی نظر میں بعض چیزیں جرم نہیں ہونی چاہیے جبکہ خالق انسان کی نظر میں وہ سنگین ترین جرم ہیں ۔ ان ترامیم پر معمولی غور کے بعد بآسانی یہ پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا رخ کس طر ف ہے؟ تعمیر کے نام پر تخریب اور اصلاح کے نام پر معاشرے کو بے خدا بنانے کی یہ کوششیں اہل ایمان سے مخفی نہیں رہ سکتیں ۔اگر ان قوانین میں اصلاح کی کوئی ضرورت ہے تو اس کے لئے مناسب پلیٹ فارم ٹی وی چینل اور اخبارات نہیں بلکہ اہل علم اور ماہرین قانون وشریعت کی مجالس ہیں ۔ اوریہی بات سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے کہی ہے :
''کراچی، جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ حکومت حدود قوانین کے لئے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرے۔ دستورِ پاکستان میں موجود اسلامی حدود کے قوانین میں کوئی سقم نہیں ہے۔ حدود اللہ کے قوانین ختم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر ان کے نفاذ میں دشواریاں یا شکایات دور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے جمعہ کے روز ویمن کمیشن سندھ کے تحت سیمینار 'حدود آرڈیننس: اعتراضات اورحقائق' سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔'' 58
حوالہ جات
1. روزنامہ 'نوائے وقت': 2؍اگست2006ئ، صفحہ آخر
2. سروے: ویمن ایڈ ٹرسٹ، کتابچہ 'حد زنا آرڈیننس ؛ اعتراضات کی حقیقت ': ص 39
3. 'پاکستان میں خواتین کی صورتحال' از چارلس کینیڈی:ص 74، IPS
4. کتابچہ 'حدود قوانین':ص 20
5. کتابچہ: 'زنا آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ'، ص 2 شائع کردہ : عورت فائونڈیشن
6. صحیح بخاری، موطا امام مالک:کتاب الحدود، رقم15، مصنف عبدالرزاق: 13468
7. موطا امام مالک:کتاب الحدود،رقم13، مصنف عبد الرزاق: 12796
8. یہ واقعات صحیح ہیں ، دیکھیں أقضیة الخلفاء الراشدین: 2؍840
9. سنن ابو داود: 4379 واللفظ لہ، سنن ترمذی: 1454
10. صحیح بخاری: 2649
11. 'حدود، حدود آرڈیننس اور خواتین': ص 25
12.صحیح بخاری: کتاب الحدود ، باب کراھیة الشفاعة في الحد، رقم 6788
13. روزنامہ 'اُمت' کراچی :4؍اگست2006ء
14. دیکھئے کتاب 'اسلامی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب' میں انٹرویو ، ص 84
15. صحیح بخاری:88،المغنی: 14؍134، الطرق الحکمیة: ص 72، تفصیلات :ولایة المرأة : ص287
16. کتابچہ' حدود قوانین اور این جی اوز' مرتب ڈاکٹر عبد اللہ خان:ص12
17. فقہی انسا ئیکلو پیڈیا: ج24؍ص39
18.شھادة المرأة في الفقه از ڈاکٹر عبد اللہ مطلق:ص 66
19. ناشر کتاب: دار المسلم، ریاض
20. سنن نسائی:3469 'صحیح'
21. مسلم: 1498
22. مصنف ابن ابی شیبہ:رقم:28714، ولایة المرأة حواشی برصفحہ :263
23. مصنف عبد الرزاق: 15405
24. مصنف عبد الرزاق: 75،13374
25. مصنف عبد الرزاق: 13373
26. المغنی: 14؍125
27.الموسوعة الفقهیة:24؍37
28.المُحلّٰی:9؍397 تا 403، 8؍ 476، 488، المُغنی: 9؍148، طرق الحکمیة: 179
29. انٹرویو، ص 32
30. 1992ء پاکستان کریمنل لاء جرنل صفحہ1520
31. پی ایل ڈی1979ء سپریم کورٹ،آزاد جموں کشمیر: صفحہ 56
32. پی ایل ڈی 1979ء کراچی، صفحہ 147
33. ص 19
34. پی ایل ڈی، 2002، FSC،صفحہ1
35. صحیح بخاری: 3436،2482
36.الإتقان والإحکام: 2؍261
37. 'پاکستان میں عورتوں کی صورتحال':ص 74
38. سنن ابو داود:3681 'صحیح'
39. مزید تفصیل:السلسلة الصحیحة از شیخ البانی : رقم 900
40.الطرق الحکمیة : 84
41. ج12؍ص28
42. سنن بیہقی: 8؍284
43. ج6؍ص 23
44.الأم :ج3؍ص264
45. مسند احمد: 1129، 897، صحیح بخاری: 6812
46.إرواء الغلیل: 2340 'صحیح '
47. کتابچہ حدود قوانین: ص25
48. صفحہ:41
49. سنن بیہقی:8؍285
50. سلسلہ صحیحہ از شیخ البانی: رقم 900
51. سنن کبریٰ بیہقی: 8؍285
52. سنن دار قطنی: 4؍110، صحیح بخاری:2664
53. صحیح مسلم زیر حدیث : 1868
54. اسلام کا فوجداری قانون ازجسٹس عبد القادر عودہ رحمۃ اللہ علیہ : 1؍712
55. دیکھیں صفحہ 10 پر درج احادیث میں نشان زد الفاظ: ایک شخص اورایک عورت
56. روزنامہ 'جنگ': 26 جولائی
57. مسئلہ نمبر8
58. روزنا مہ 'جنگ 'کراچی: 5؍ اگست 2006
i.اخبارات کے مطابق عورتوں کی رہائی کے اس صدارتی آرڈیننس کو شعیب اورکزئی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے جبکہ مجلس عمل نے اسے پارلیمنٹ کے اختیارات پر ڈاکہ قرار دیا ہے لیکن ا س کے باوجود مجرم خواتین کی رہائی کا عمل جاری ہے۔
ii. حدود قوانین پر یہ اعتراض بھی کیا جاتاہے کہ ان کے نفاذکے لئے مناسب فضا او رماحول کو مدنظر نہیں رکھا گیا، یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد زنا کے کیسوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ جبکہ یہ دونوں باتیں ہی درست نہیں ۔ اوّل تو قانون کی ضرورت ہوتی ہی اس وقت ہے جب حالات زیادہ خراب ہوں ۔ اس وقت محض وعظ وتبلیغ کی بجائے قانون کی مدد ا ور قوت سے بھی اسے روکنا پڑتا ہے۔ جب چوری بڑھ جائے تو کیا چوری کا قانون ختم کردینا چاہئے یا اس کو مزید قابل عمل اور سخت بنانا چاہئے۔حدود قوانین کے نفاذ کے وقت جرائم کا زیادہ ہونا بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ سابقہ قوانین ان جرائم کوروکنے میں ناکام ہوچکے تھے، اسی لئے اُن جرائم کی بہت کثرت ہوگئی تھی چنانچہ جرائم کے خاتمے کے لئے اللہ کے دیے ہوئے قوانین کو نافذ کیا گیا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حدود قوانین کے بعد ان جرائم میں مزید اضافہ ہوا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے زنا قانوناً جرم ہی نہیں تھا، اس کا پہلے قانونی اندراج ہی نہیں ہوتا تھا، جب اندراج ہونا شروع ہوا تب تو لازماً سابقہ صورتحا ل میں اضافہ ہی محسوس ہوگا۔ گویا اس جرم کی باقاعدہ رپورٹنگ کا آغاز ہی 1979ء کے بعد ہونا شروع ہوا۔تاہم یہ بات درست نہیں کہ اس کے بعد زنا کے جرائم میں اضافہ ہوا جیسا کہ ہندوپاک میں زنا کے جرائم کے ایک تقابلی مطالعے سے واضح ہے کہ 1991 تا 1995ء کے دوران بھارت میں اس جرم میں 4ئ40 فیصد جبکہ پاکستان میں محض 4ئ8 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔('حدود آرڈیننس ، نفاذ کے 25 سال' از شہزاد شام)
یہ بھی واضح رہے کہ بھارت کے اعداد وشمار پاکستان کے برعکس صرف زنا بالجبر کے ہیں کیونکہ پاکستان کے سابقہ قانون کی طرح بھارت میں زنا بالرضا جرم ہی نہیں ہے اوریہی صورت حال مغرب میں بھی ہے۔
iii.بعض لوگ یہ بھونڈی دلیل بھی دیتے ہیں کہ برائی سے رکنا انسان کا اپنا فرض ہے؛ جو نہیں رکنا چاہتا، ا س کو قانون بھی نہیں روک سکتا۔اوّل تو یہ نکتہ (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ کو نہیں سوجھا کہ اُنہوں نے بلاوجہ انسانوں کو یہ حدود اللہ عطا کردیے، پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہماری حکومتوں نے باقی جرائم کے لئے قانون سازی کیوں کررکھی ہے،اُنہیں بھی انسانوں کے شعور اور پسند وناپسند پر کیوں نہیں چھوڑ دیا جاتا۔اگرجرائم کے بارے میں یہی رویہ ہونا چاہئے تو حکومت، عدلیہ اور پولیس کی پھر کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟دیگر جرائم کی روک تھام کے لئے تو قوانین کوسخت کیا جاتا ہے جبکہ حدود قوانین میں یہ منطق اُلٹ کردی جاتی ہے،کیوں ؟؟
iv.حدود قوانین میں بھی عورت کو یہ رعایت دی گئی ہے کہ قانونِ قذف کی رو سے صرف عورت ہی مرد کے خلاف تہمت لگانے کا دعویٰ کرسکتی ہے جبکہ یہ قانون مرد کوعورت کے خلاف یہ حق نہیں دیتا۔(دیکھیں : انٹرویو امان اللہ بلوچ ایڈووکیٹ،' حدود قوانین او راین جی اوز' :ص 21)
v.موطأ امام مالک میں ہے کہ عبد الملک بن مروان نے زانی پر مجبور کی جانے والی عورت کا حق مہر عائد کیا۔(رقم: 1218) حضرت عمر کے دور میں ایک شخص نے جبراً عورت سے زنا کیا تو آپ نے زانی پر حد لگانے کے علاوہ اسے عورت کی ثلث دیت ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔(مصنف عبد الرزاق: 13663) حضرت علی اور ابن مسعود کا یہ موقف ہے کہ کنواری سے زنا بالجبر کی صورت میں اسے کنواریوں کا مہر مثل اور شادی شدہ سے زنا بالجبر کی صورت میں شوہر دیدہ کا مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔(ایضاً: 13657) امام زہری اور قتادہ نے بھی جبر کی صورت میں زانی پر مہر ادا کرنے کا حکم لگایا ہے۔ البتہ قتادہ کے نزدیک جبر کی علامت یہ ہے کہ عورت چیخ وپکار کرے (ایضاً: 13656) امام مالک اورامام شافعی کا موقف یہ ہے کہ مہر متاثرہ عورت کو ہی ادا کیا جائے گا۔ (المغنی: 3967) مزید دیکھئے : المغنی: 17112، 347،348 اور360 ، طبع مؤسسة ہجر، قاہرہ
vi.یہی وجہ ہے کہ اسلام میں زنا بالجبر کے لئے کوئی مستقل اصطلاح بھی نہیں ہے لیکن بعض لوگوں نے اس کے لئے اغتصاب المرأةکی اصطلاح پیش کی ہے جبکہ یہ ترکیب 'بطورِ اصطلاح' بالکل اجنبی ہے اورقرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ کی بنیادی کتب میں اس اصطلاح کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔
vii.ایک جرم کے دو معیارِ شہادت پر دو علیحدہ سزائیں دینے پر بعض لوگوں کو اعتراض ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی جرم یا تو ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس کا کیا مطلب ہوا کہ زنا تو ثابت نہیں ہوا لیکن اس کو تعزیری طورپرسزا دے لی جائے۔ دراصل یہاں ایک غلط فہمی موجو دہے کیونکہ تعزیر کی صورت میں اسکو زنا کی بجائے چھیڑ چھاڑ، سیہ کاری یا بوس وکنار کا مجرم سمجھا جائے گا۔ فعل زنا کی سزا تو واضح اور ناقابل تغیر ہے، البتہ مبادیاتِ زناکی تعزیراً کوئی بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ جسٹس محمد تقی عثمانی اور جماعت الدعوة کے مفتی عبدالرحمن رحمانی نے اس کی یہی توجیہ کی ہے۔ ('حدود قوانین؛ موجودہ بحث' از جسٹس تقی عثمانی ص 29، اورمجلة الدعوة: جولائی 2006ئ، ص11 )
جسٹس (ر) جاوید اقبال کے الفاظ میں :''جدید کریمنل جورسپروڈنس میں 'اوتو فواس ایکوٹ' کا عام اُصول ہے یعنی اگر شہادت کی روشنی میں جرم ثابت نہ ہو تو ا س جرم سے بری کئے گئے ملزم کو اسی شہادت کی بنا پر دوبارہ ملزم گردان کر اور قسم کی سزا نہیں دی جاسکتی۔'' ('زنا آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ ': ص8)
حدود قوانین پر یہ اعتراض جدید اُصولِ قانون کی روشنی میں ہے۔ اوّل تو یہ گنجائش اسی قانون میں موجود ہے نیزاسلامی شریعت کے احکام اور ان کے نفاذ کا طریقہ جدید مغربی قانون سے مختلف ہے۔ مثلاً جدید قانون کی رو سے جرمِ زنا ثابت نہ ہونے پر تہمت لگانے والے پر از خود قذف کی کاروائی شروع نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے الگ سے قذف کا کیس کرنا پڑے گا، جبکہ اسلام کی رو سے دوسرے کیس کی ضرورت نہیں بلکہ قاضی کو خود ہی اس تادیبی کاروائی کو اختیار کرلینا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت عمر نے مغیرہ بن شعبہ پر تہمت لگانے والوں کے خلاف از خود قذف کی کاروائی کردی۔(دیکھیں حاشیہ صفحہ نمبر21) البتہ اس سقم کی وجہ حدود قوانین کی بجائے ہمارے ہاں مروّجہ مغربی نظامِ عدل کیہے کہ زیربحث قانونی دفعہ کی سماعت پر ہی کیس ختم ہوجاتا ہے او ردوبارہ نیا کیس داخل کرنا پڑتا ہے لیکن اسے حدود قوانین کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس اختلاف کی بنیادی وجہ ہردو قوانین کے مقصد اور طریق کار میں فرق ہے۔ اسلامی قانون 'حقیقی انصاف'Real Justiceکا داعی ہے اورمغربی قانون 'ضابطہ جاتی انصاف' Formal Justiceکا۔
viii. دیکھئے کتابچہ 'حدود قوانین ؛موجودہ بحث ' از جسٹس تقی عثمانی شائع کردہIPS، ص 19
ix. گواہی ایک ذمہ داری ہے۔ چونکہ لوگ اس سے گریز کرتے ہیں ، اسی لئے اس کی ترغیب پر یہ فرمانِ نبویۖ بھی موجو د ہے:'' بہترین گواہ وہ ہے جو طلب کرنے سے پہلے ہی گواہی کے لئے چلا آئے۔''(مسلم:1719)
x. 'مسئلہ شہادتِ نسواں اورغامدی نظریات' از حافظ صلاح الدین یوسف (محدث: جنوری 1992ئ،ص 96)
xi. حضرت عمر کے سامنے مغیرہ بن شعبہ پر زنا کا الزام لگایا گیااور تین شخصوں نے گواہی دی: ابوبکرہ، نافع اور شبل بن معبد مگر چوتھے شخص زیاد بن ابیہ نے وقوعہ کی عملی تفصیلات کی گواہی نہ دی تو عمر نے تینوں پر حد قذف جاری کی۔(بخاری تعلیقًا قبل حدیث 2648،ابن ابی شیبہ: 28824، رواء الغلیل:2679)
xii. جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ حدود قوانین میں زنا کی یہ دوقسمیں (زنا بالرضا اور زنا بالجبر) حدود اللہ کی بجائے تعزیراً مقرر کی گئی ہیں ۔اور شرعاً محتاط رویہ یہی ہے کہ انہیں زنا سے موسوم کرنے کی بجائے مبادیاتِ زنا یا فحاشی وسیاہ کاری وغیرہ سے موسوم کیا جائے اور عدالتی فیصلوں وغیرہ میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں سمجھا جائے۔