احادیثِ لَولَاکَ کا تحقیقی جائزہ
ماہنامہ 'محدث' کے فروری 2004ء کے شمارہ میں محترمہ خالدہ امجد کا مضمون 'عائشہ صدیقہؓ اُسوۂ حسنہ' کے صفحہ63، سطر 11 پر یہ عبارت ''پاک و طاہر بیٹی کا نصیب صاحب ِلولاک کا نور کدہ ہی ہوسکتا ہے۔'' میں لفظ لَوْلَاکَ جو ایک موضوع روایت کاجملہ ہے، غلطی سے نظر انداز ہوگیا تھا۔ محدث کے قاری جناب نثار احمد کھوکھر اور چند دیگر حضرات نے اس غلطی پر نشاندہی کی اور حدیث کی مکمل تحقیق شائع کرنے کی استدعا کی۔
مزید برآں مؤرخہ 22؍ مارچ 2004ء کے روزنامہ 'نوائے وقت' لاہور میں 'ضروری تصحیح' کے عنوان سے ایک خط شائع کیا گیا جس میں 'نوائے وقت' کے مستقل کالم 'نورِ بصیرت'میں شائع شدہ حدیث لولاک کے بارے میں یہ وضاحت کی گئی کہ یہ حدیث موضوع ہے، اس کے جواب میں مدیر روزنامہ 'نوائے وقت' کو ایک خط لکھا گیا جو بعد میں بریلوی مکتب ِفکر کے ترجمان رسالہ 'نورالحبیب' (بصیرپور) اپریل 2004ء میں بھی شائع ہوا، جس میں اس حدیث کو مختلف حوالوں سے معناً درست ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔اس بحث کے تناظرمیں مناسب سمجھاکہ اس روایت کے بارے میں محدثین کا نقطہ نظر واضح کر دیا جائے۔
سب سے پہلے ہم روایاتِ 'لولاک' کی استنادی حیثیت واضح کریں گے۔اس کے بعد قرآن کریم کی صریح نصوص سے ان کے تعارض کی نشاندہی کریں گے۔ پھر اس بات کا جائزہ لیں گے کہ آیا عربی لغت میں لَولَاکَ کی ترکیب مستعمل ہے ؟اور آخر میں ہم ان احادیث کے پس پردہ عقیدہ کی خرابی کی نشاندہی کریں گے ۔ اِن شاء اللہ
روایات لَولاک کی استنادی حیثیت
لولاک کی ترکیب مختلف اسناد کے ساتھ کتب ِحدیث میں موجود ہے۔ مثلاً:
پہلی روایت: أنبأنا عبد الوهاب بن المبارك ومحمد بن ناصر الحافظان وموهوب بن أحمد اللغوي وعمر بن ظفر المغازلي وعبد الخالق بن أحمد الیوسفي قالوا أنبأنا أبو بکر أحمد بن المظفر بن سوسن قال أنبأنا أبوالقاسم عبد الرحمن بن عبید اﷲ الحرفي قال: أنبأنا أبو أحمد حمزة بن محمد بن العباس الدهقان، قال: حدثنا محمد بن عیسٰی بن حبان المدائني المعروف بأبي السُکین قال: حدثنا محمد بن الصباح،قال أنبأنا علي بن الحسن الکوفي عن إبراهیم بن الیسع عن أبي العباس الضریر عن الخلیل بن مرة عن یحیٰی البصري عن زاذان عن سلمان قال: ولولاك یا محمد ما خلقت الدنیا 1
''اے محمدؐ! اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا نہ کرتا۔''
مذکورہ جملہ ایک طویل حدیث ِقدسی کا ٹکڑا ہے۔ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
''اس حدیث کے خود ساختہ اور من گھڑت ہونے میں کوئی شک نہیں ، اس کی سند میں اکثر راوی مجہول اور ضعیف ہیں ۔ چنانچہ ضعفاء میں سے ابوسکین اور ابراہیم بن یسع ہیں ، ان کے متعلق امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ابوسکین ضعیف ہے اور ابراہیم اور یحییٰ بصری دونوں متروک ہیں ۔''2
اسی طرح ابن عراق رحمۃ اللہ علیہ نے تنزیه الشریعة (1؍324،325) میں اس حدیث کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی الترتیب 16؍ب میں کہا ہے کہ اس میں موجود راوی یحییٰ بصری احادیث گھڑا کرتا تھا اور کذاب تھا، نیزاس حدیث کی سند کے رواةمجہول ہیں ۔ اس کے علاوہ خلیل بن مرہ بھی ضعیف ترین راوی ہے۔بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے منکرالحدیث،ابوحاتم اور یحییٰ بن معین وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔3
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :
موضوع: أبوالسکین وإبراهیم ویحیٰی البصري ضعفاء متروکون وقال الفلاس: یحیٰی کذاب یحدث بالموضوعات 4
''یہ حدیث موضوع ہے۔ ابو سکین ، ابراہیم اور یحییٰ بصری ضعیف اور متروک راوی ہیں اور امام فلاس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یحییٰ کذاب تھا، موضوع اور من گھڑت روایات بیان کیا کرتا تھا ۔''
دوسری روایت : لولاك،لولاك ماخلقت الأفلاك5
امام عجلونی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد یہ لکھا ہے کہ
''امام صغانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے ،لیکن میں کہتا ہوں کہ اگرچہ یہ حدیث نہیں ہے ، لیکن اس کا معنی صحیح ہے۔'' 6
یہ روایت لفظاً تو موضوع ہے ہی مگر کیا فی الواقع امام عجلونی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات درست ہے کہ ''اس کا معنی صحیح ہے۔'' اس کی وضاحت آگے روایت نمبر 5 کے تحت آرہی ہے۔
تیسری روایت: لولاك ماخلقت الأفلاك
''اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا۔ ''
امام صغانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الأحادیث الموضوعة (ص52، رقم 78) میں اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔اسی طرح امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے الفوائد المجموعة في الأحادیث الموضوعة میں اور ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ نے المصنوع في معرفة الحدیث الموضوع (1؍116 ) میں اس حدیث کو امام صغانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے موضوع قرار دیا ہے۔
لیکن ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة میں نقل کرنے کے بعد امام عجلونی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح یہی کہا ہے کہ
'' اگرچہ یہ حدیث موضوع ہے ، لیکن اس کا مفہوم صحیح ہے۔ ''
اور تائید کیلئے ابن عباسؓ سے مروی دیلمی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ حدیث ذکر کی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
چوتھی روایت:أتاني جبرائیل فقال یامحمد لولاك ما خلقت الجنة، لولاك ماخلقت النار
''جبرائیل میرے پاس تشریف لائے اور کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپؐنہ ہوتے تو جنت پیدا کی جاتی، نہ جہنم ۔۔۔''
پانچویں روایت: اسی طرح تائیداً ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ کی یہ روایت بھی پیش کی ہے :
لولاک ماخلقت الدنیا 7
کیایہ روایات مفہوم کے لحاظ سے درست ہیں ؟:جہاں تک اس حدیث کے معنی کودرست قرا ردینے کا تعلق ہے تو امام عجلونی رحمۃ اللہ علیہ اور ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے ۔چنانچہ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ ان کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
الجزم لصحة معناہ لا یلیق إلا بعد ثبوت ما نقله عن الدیلمي وھذا مما لم أر أحداً تعرّض لبیانه وأنا فإن کنتُ لم أفق علی سندہ فإني لاأتردّد في ضعفه وحسبنا في التدلیل علی ذلك تفرد الدیلمي به، وأما روایة ابن عساکر فقد أخرجھا ابن الجوزي أیضًا في حدیث طویل عن سلمان مرفوعًا وقال إنه موضوع وأقرہ السیوطي في اللآلي 1؍272، وانظر الموضوعات1؍288۔290 8
''اس روایت کے معنی کو صحیح قرار دینا اسی صورت میں ہی درست ہوسکتا ہے ،جب دیلمی کی (مذکورہ) روایت [نمبر4] صحیح ثابت ہوجائے۔ جہاں تک میں نے دیکھاہے وہ یہ ہے کہ کسی نے ان کے اس قول سے تعرض نہیں کیا اور میں اگرچہ دیلمی کی اس روایت کی سند سے واقف نہیں ہوسکا، لیکن مجھے اس کے ضعیف ہونے میں ذرا بھر تردّد نہیں ہے اور اس کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ اس میں دیلمی متفرد ہیں اور جہاں تک ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کا تعلق ہے تو اس کو ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل حدیث میں سلمان سے مرفوع روایت کیا ہے اور اسے موضوع قرار دیا ہے اور سیوطی نے بھی الُّلآلي1؍272میں ان کی تائید کی ہے، دیکھئے: الموضوعات 1؍288 تا290 ''
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی اس وضاحت سے جہاں دیلمی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کی حقیقت واضح ہوگئی ہے، وہاں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ان ضعیف اور موضوع روایات کی بنیاد پر امام عجلونی رحمۃ اللہ علیہ اور ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا لولاک کی روایت کے معنی کو درست قرار دیناصحیح نہیں ہے اور ان حضرات کا ایک موضوع روایت،جس کا تعلق ما بعد الطبیعات اُمور سے ہے، کے معنی کو بغیر کسی دلیل کے صحیح قرار دینا انتہائی تعجب انگیز ہے،بلکہ یہ مفہوم قرآنِ کریم کی صریح نصوص کے بھی خلاف ہے، جس کی وضاحت اگلے صفحات میں آرہی ہے۔
چھٹی روایت: مندرجہ بالا حدیث سے ملتی جلتی ایک اورروایت حضرت عمرؓ بن خطاب سے مرفوعاً مروی ہے :
حدثنا أبو سعید عمرو بن محمد بن منصور العدل ثنا أبو الحسن محمد بن إسحٰق بن إبراهیم الحنظلي ثنا أبو الحارث عبد اﷲ بن مسلم الفهري ثنا إسمٰعیل بن مسلمة أنبأ عبد الرحمن بن زید بن أسلم عن أبیه عن جدہ عن عمر بن الخطاب قال قال رسول اﷲﷺ: لما اقترف آدم الخطیئة قال: یارب أسألك بحق محمد لما غفرت لي فقال: یا آدم وکیف عرفتَ محمدًا ولم أخلقه؟ قال:یا ربّ لمَّا خلقتَني بیدك ونفختَ فيَّ من روحك، رفعتُ رأسي فرأیتُ علی قوائم العرش مکتوبًا: لا إله إلا اﷲ محمد رسول اﷲ، فعلمتُ أنك لم تضفب اسمك إلا أحبّ الخلق فقال: غفرتُ لك ولولا محمد لما خلقتُك9
''جب حضرت آدم ؑ غلطی کے مرتکب ہوئے تو اُنہوں نے یہ دعا کی: اے پروردگار! میں محمدؐ کے وسیلہ سے تجھ سے مغفرت کا خواستگار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: اے آدم ؑ! تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیسے جانتے ہو، حالانکہ میں نے تو اسے ابھی پیدا ہی نہیں کیا؟ عرض کیا: اے اللہ! جب تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور مجھ میں روح پھونکی تو میں نے اپنا سراُٹھایا اور عرش کے پایوں پر لکھا ہوا دیکھا تھا: لا إله إلا اﷲ محمد رسول اﷲ تو میں سمجھ گیا کہ جس کو تو نے اپنے نام کے ساتھ ملا رکھا ہے، کائنات میں اس سے برتر کوئی نہیں ہوسکتا تو اللہ نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمدؐ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔''
اس روایت کو علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ، امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ ، ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن الہادی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ علما کی اکثریت نے ضعیف ،موضوع اور ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : موضوع وعبدالرحمن واہ ''یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے اوراس کا راوی عبدالرحمن انتہائی ضعیف ہے اور میں اس کے دوسرے راوی عبد اللہ بن مسلم فہری کے بارے میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟''10
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان الاعتدال میں فہری کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی یہی مذکورہ روایت ذکر کرنے کے بعد اسے باطل قرار دیا ہے۔11
حافظ نور الدین ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''اس حدیث میں ایسے راوی ہیں جن کو میں نہیں جانتا۔''12
اس حدیث کے ضعیف ہونے کی بنیادی وجہ اس کا راوی عبدالرحمن بن زید ہے جو تمام محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے ۔ چنانچہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
'' عبدالرحمن بن زیدکو امام احمد بن حنبل ،علی بن مدینی ، ابوداود ، ابوزرعہ ، ابو حاتم رازی ، امام نسائی ، امام دار قطنی رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے : یہ شخص لاعلمی میں احادیث کو بدل دیا کرتا تھا حتیٰ کہ اس نے بے شمار مرسل روایات کو مرفوع اور موقوف روایات کو مسند بنا دیا ،جس کی وجہ سے یہ محدثین کے نزدیک متروک قرار پایا ۔'' 13
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ ، علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ سے عبدالرحمن بن زید کا ضعیف ہونا نقل کیا ہے۔14
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد علما سے عبدالرحمن بن زید کی تضعیف نقل کرنے کے بعد ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ''تما م محدثین کا اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔ ''15
امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اگرچہ اسے صحیح الاسناد کہا ہے، لیکن محدثین نے ان کی اس بات کو غلط اور ان کا صریح تناقض قرار دیتے ہوئے، اُنہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے اس حدیث کو روایت کرنے پر سخت تنقید کی گئی ہے کیونکہ انہوں نے بذاتِ خود اپنی کتاب المدخل إلی معرفة الصحیح من السقیم میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق یہ صراحت کی ہے کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے اور میں کہتا ہوں کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم سب محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے کیونکہ وہ بہت غلطیاں کرتا تھا۔ اسی بنا پر امام احمد بن حنبل، ابوزرعہ، ابوحاتم، امام نسائی، امام دارقطنی رحمہم اللہ اور دیگر متعدد محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :وہ لاعلمی میں احادیث کو بدل دیا کرتا تھا، حتیٰ کہ اس نے متعدد مرسل روایات کو مرفوع اورموقوف روایات کومسند بنا دیاجس کی وجہ سے یہ محدثین کے نزدیک متروک قرار پایا۔ اس جیسی احادیث کو صحیح قرار دینے کی وجہ سے محدثین نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ پر سخت تنقیدکی ہے اور کہا ہے کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ ایسی روایات کو بھی صحیح قرار دے دیتے ہیں جو ماہرین حدیث کے نزدیک موضوع اور من گھڑت ہیں ۔ اسی لئے حدیث کے ماہرین علما تنہا امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے کسی حدیث کو صحیح قرار دینے پر اعتماد نہیں کرتے۔'' 16
نیز امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا تساہل بھی محدثین کے نزدیک ایک مسلمہ امر ہے۔علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کی ہے:
لاریب أن في المستدرك أحادیث کثیرة لیست علی شرط الصحة بل فیه أحادیث موضوعة شان المستدرك بإخراجها فیه 17
''بلاشبہ المستدرک میں بکثرت ایسی احادیث موجود ہیں جوصحیح حدیث کی شرط کے مطابق نہیں بلکہ اس میں موضوع احادیث بھی ہیں جن کا تذکرہ مستدرک پر ایک دھبہ ہے۔''
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے عبد الرحمن بن زید کے بارے خود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے جس سے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا اس سلسلہ میں تساہل اور تناقض واضح ہوتا ہے، فرماتے ہیں :
'' یہ شخص اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کیا کرتا تھا۔ '' 18
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو متناقض قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت میں موجود راوی عبدالرحمن کی ایک دوسری روایت کو غیر صحیح کہا ہے اور فرمایا ہے کہ شیخین نے عبدالرحمن بن زید کو ناقابل حجت قرار دیا ہے۔ نیزخود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے عبدالرحمن بن زید کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔
امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے اس تساہل اور تناقض کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ
'' مستدرک کی تصنیف کے وقت ان کے حافظے میں فرق آگیا تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اُنہوں نے رواة کی ایک کثیر تعداد کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور ان سے استدلال کو ممنوع قرار دیا ہے ، لیکن اپنی کتاب مستدرک میں خود اُنہیں سے روایات نقل کی ہیں اور اُنہیں صحیح قرار دیا ہے۔ '' 19
اور اس کے بعد بطورِ مثال انہوں نے اسی عبدالرحمن بن زید کی مذکورہ موضوع روایت کا حوالہ دیا ہے ۔
امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے جس پرحافظ ابن عبدالہادی رحمۃ اللہ علیہ نے حیرت کا اظہار کیا ہے ۔ اور اس حدیث کو موضوع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث کو صحیح کہناان کا صریح تناقض ہے۔20
محدثین کی ان توضیحات سے جہاں مستدرک حاکم کاصحیح مقام متعین ہوتا ہے، وہاں یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ حدیث دیگر تمام علما سمیت امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی موضوع ہے کیونکہ وہ خودعبدالرحمن بن زید کو ضعیف اور ناقابل اعتبار قرار دے چکے ہیں ۔ چنانچہ امام ناصرالدین البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''جو شخص امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی ساری کلام پر غور کرے گا، اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ حدیث خود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی موضوع ہے۔'' 21
ساتویں روایت: لولا محمد ما خلقتُ آدم ولولا محمد ما خلقتُ الجنة والنار ولقد خلقت العرش علی الماء فاضطرب فکتبتُ علیه لا إله إلا اﷲ محمد رسول اﷲ فسَکَنَ
''اگر محمد ؐنہ ہوتے تو میں آدم کو پیدا نہ کرتا اور اگرمحمدؐ نہ ہوتے تو میں جنت و جہنم کو پیدا نہ کرتا۔ میں نے عرش کو پانی کے اوپر پیدا کیا تو وہ ہلتا تھا مگر جب میں نے اس پر لا إله الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا تو وہ ٹھہر گیا۔''
اس روایت کو بھی امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن عباس ؓسے موقوف ذکر کرنے کے بعد صحیح کہا ہے،لیکن امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے مستدرک کے ذیل میں اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے ۔22
چنانچہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عمرو بن أوس یجهل حاله أتی بخبر منکر أخرجه الحاکم في مستدرکه وأظنه موضوعًا
''عمرو بن اوس مجہول الحال راوی ہے اور اس نے ایک منکر روایت بیان کی ہے جسے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے مستدرک میں ذکر کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے۔ ''
ان روایات کا قرآن کریم سے تعارض
اگر کوئی روایت بہ سند ِصحیح ثابت ہو جائے تو وہ قرآن مجید کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ قرآنِ مجید کی طرح حدیث بھی وحی ہے اوروحی چونکہ اللہ کی طرف سے آتی ہے ،اس لیے اللہ تعالیٰ کے کلام میں باہمی تناقض کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ جب کہ جھوٹی احادیث وضع کرنے والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کی اکثر احادیث قرآن مجید کے صریح خلاف نکلتی ہیں ۔کچھ یہی معاملہ زیر بحث روایات کا بھی ہے کیونکہ یہ قرآنِ کریم کی واضح نص کے خلاف ہیں ۔ ان احادیث کا مدعا یہ ہے کہ کائنات ، جنت وجہنم اور آدم و بنی نوعِ انسان کی تخلیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق کی مرہونِ منت ہے،لیکن یہ نظریہ قرآنِ کریم سے صریح متصادم ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کا مقصد اور حکمت یہ بیان فرمائی ہے:
وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾...سورۃ الذاریات
'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔''
اسی طرح وہ حدیث جس میں یہ ذکر ہواہے کہ'' اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا توسل پکڑنے کی وجہ سے معاف فرمایاتھا۔''کے موضوع اور من گھڑت ہونے کی تائیدبھی اس بات سے ہوتی ہے کہ یہ قرآنِ کریم کے واضح حکم سے متصادم ہے۔ کیونکہ قرآنِ مجید میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو ذاتِ الٰہی کے توسل کے باعث معاف کیا تھا اور توسل کے الفاظ بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہی سکھائے تھے۔ چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:
فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَـٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ ﴿٣٧﴾...سورۃ البقرۃ
''پھر آدم ؑ نے اپنے ربّ سے چند کلمات حاصل کئے، جن سے اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی، بلا شبہ وہی توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔''
حضرت ابن عباسؓ نے اس آیت کی جو تفسیر فرمائی ہے، وہ بھی اس حدیث کے بطلان کو واضح کرتی ہی۔ ان سے یہ تفسیر منقول ہے:
قال: أي رب ألم تخلقني بیدک؟ قال:بلیٰ،قال: ألم تنفخ فيّ من روحك؟ قال:بلیٰ، قال: أي رب ألم تسکني جنتك؟ قال: بلیٰ، قال: ألم تسبق رحمتك غضبك؟ قال: بلیٰ قال:أرأیت إن تبتُ وأصلحتُ، تراجعني أنت إلی الجنة قال بلیٰ، قال: فھو قوله:{فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَـٰتٍ} (البقرة:37)
''حضرت آدمؑ نے عرض کی: اے میرے پروردگار! کیاتو نے مجھے اپنے دست ِ مبارک سے پیدا نہیں فرمایا؟ اللہ نے فرمایا: کیوں نہیں ؟ عرض کیا: کیا تو نے مجھ میں روح نہیں پھونکی تھی ؟ اللہ نے فرمایا: کیوں نہیں ، عرض کیا : کیا تو نے مجھے اپنی جنت میں جگہ نہیں دی تھی؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیوں نہیں ۔ عرض کیا: کیا تیری رحمت تیرے غضب پر غالب نہیں ہے؟ فرمایا: ہاں ایسے ہی ہے۔ عرض کیا: اگر میں توبہ کرلوں اور راہِ راست پر آجاؤں تو کیا تو مجھے جنت کی طرف لوٹائے گا؟ اللہ نے فرمایا:کیوں نہیں اور یہی مفہوم ہے اللہ کے فرمان: {فَتَلَقَّى ءَادَمُ مِن رَّبِّهۦ كَلِمَـٰتٍ} کا۔'' 23
ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ کے مذکورہ بالا قول کو امام حاکم، رحمۃ اللہ علیہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ نیز یہ بات واضح رہے کہ ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ کی یہ تفسیر حدیث مرفوع کا درجہ رکھتی ہے ،کیونکہ کسی صحابی ؓکا ایسے اُمورِ غیبیہ کے متعلق خبر دینا جس میں رائے اوراجتہاد کا دخل نہ ہو محدثین کے نزدیک 'مرفوعِ حکمی' کا درجہ رکھتا ہے ۔
بعض علما نے کہا ہے کہ{فَتَلَقّٰى آدَمُ مِنْ رَّبِّه كَلِمَاتٍ}سے مراد یہ آیت ہے :
{قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلْخَـٰسِرِينَ ﴿٢٣﴾...سورۃ الاعراف} 24
بقول شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں تفاسیر کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے، بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل اورتتمہ ہیں ۔ 25
معروف حنفی عالم مولانا گوہررحمن رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس طرح کی تمام روایات کو لفظاًو معناً موضوع قرار دیتے ہوئے اُنہیں خلاف ِقرآن قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں :
''جب ہم درایت اور مفہوم کے اعتبار سے ان روایات پر غور کرتے ہیں تو ان کا مضمون ومفہوم قرآن کے خلاف نظر آرہا ہے ۔ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِنس وجن کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور انبیاء ورسل کو عبادت کے طریقے سکھانے اور لوگوں کو اللہ کی بندگی کی دعوت دینے کے لئے بھیجا گیا ہے ،لیکن یہ روایات کہتی ہیں کہ ساری دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے پیدا کی گئی ہے ، اگر آپؐ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا ۔''26
احناف کے نزدیک ضعیف حدیث تودرکنار صحیح خبر بھی عقائد میں حجت نہیں
حضرت آدم اور کائنات کی تخلیق کوتخلیق ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مرہونِ منت قرار دینا خالصتاً عقائد کا مسئلہ ہے جس کے ثبوت کے لئے نص متواتر یا کم از کم سنت ِصحیحہ کا ہوناضروری ہے،بلکہ احناف اور معتزلہ وغیرہ کے نزدیک ضعیف حدیث تو درکنار صحیح خبر واحد بھی عقائد میں حجت نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ یہاں ضعیف کی شدید ترین قسم موضوع روایات سے استدلال کرتے ہوئے ان پر گمراہ کن نظریات کی بنیاد کھڑی کی جارہی ہے اور لفظ لولاک کو تحریر و تقریر میں برملا استعمال کیا جاتا ہے ۔اور حد یہ ہے کہ اسی نام سے ایک ماہانہ رسالہ ملتان سے شائع ہوتا ہے جو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا ترجمان ہے۔اس رسالہ کے منتظمین سے گزارش ہے کہ وہ مذکورہ بحث کی روشنی میں اپنے رسالہ کے نام پر نظر ثانی فرمائیں کیونکہ جس طرح احادیث وضع کرنا حرام ہے ، اسی طرح موضوع احادیث کی اشاعت بھی حرام ہے !
عربی قواعد کی رو سے
مذکورہ روایات کے من گھڑت ہونے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عربی لغت لولاککی ترکیب قبول کرنے سے ابا کرتی ہے۔ اگر کسی صحیح نص سے اس ترکیب کا وجود ثابت ہو جاتا تواسے حدیث ِصحیح باور کر کے اس کی بنیاد پر ہم تمام لغات ِعرب کوبالائے طاق رکھ کر اس ترکیب کو تسلیم کر لیتے، لیکن یہاں قرآن اور صحیح حدیث تو درکنار لغت ِعرب کی معروف لغات: الصحاح ازجوہری، کتاب العین از فراہیدی، الخصائص از ابن جنی ، القاموس المحیط از علامہ مجدالدین فیروزآبادی، مجمل اللغة از احمد بن فارس، اساس البلاغة از زمخشری ، لسان العرب از ابن منظور ، المنجد ، المعجم الوسیط اور قدیم عربی لٹریچرمیں بھی اس ترکیب کا وجود نہیں ہے،ہاں البتہ عربی لغت میں لولا أخرتني،لولا فضل اﷲ،لولا أنت وغیرہ کی تراکیب استعمال ہوئی ہیں ، یعنی اسم ظاہر یا ضمیر مرفوع کے ساتھ، مثلاً قرآن میں ہے: {لَوْلَآ أَخَّرْتَنِىٓ إِلَىٰٓ أَجَلٍ قَرِيبٍ} اسی طرح حدیث میں ہے: (اللھم لولا اﷲ ما اھتدیتنا)27ایک دوسری روایت میں (اللھم لولا أنت ما اھتدینا) 28
البتہ بعض متاخرین نے اس ترکیب کو استعمال کیا ہے، مثلاً قصیدہ بردہ میں بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر ہے :
وکیف تدعو إلی الدنیا ضرورة من لولاہ لم تخرج الدنیا من العدم
لیکن متاخرین میں سے ہونے کی وجہ سے ان کا کلام لغت ِعربی میں استدلال کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا،چنانچہ لغت کے بہت بڑے امام ابو منصور محمد بن احمد بن ازہر الازہری اورلغت ِادب میں یکتاے روزگار امام جوہری ربیعہ الرقی کے ایک شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
لیس قول ربیعة بحجة إنما هو مولد 29
''ربیعہ چونکہ مولدین شعرا میں سے ہے ، لہٰذااس کا یہ شعر حجت نہیں بن سکتا۔''
جب مولدین (دورِ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے شعرا )کا کلام علماے لغت کے نزدیک دلیل نہیں بن سکتا تو محمد بن سعید بوصیری مصری رحمۃ اللہ علیہ ( 608 تا 696ھ)جو ساتویں صدی ہجری کے شاعر ہیں ، ان کا کلام کس طرح حجت ہو سکتا ہے ؟
نیز یہ ترکیب نحوی قواعد کے بھی خلاف ہیـ۔ الفیة ابن مالک میں ہے:
''و'لولا' و'لوما' یلزمان الابتداء'' اس کی شرح میں ابن عقیل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
فلا یدخلان إلا علیٰ المبتداء ویکو ن الخبر بعدهما محذوفا
''لولااورلوماہمیشہ مبتدا پر داخل ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کی خبر وجوباً حذف ہوتی ہے۔ ''30
اور'کاف ضمیر' ہمیشہ منصوب یا مجرور متصل استعمال ہوتی ہے اور نحو کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ ضمیر متصل کبھی مبتدا نہیں بن سکتی۔ابن عقیل لکھتے ہیں :
فالمتصل:هو الذي لا یبتدأ به کالکاف31
'' ضمیر متصل وہ ہوتی ہے جو مبتدانہ بن سکے ، مثلاً کاف۔''
اورلولاک میں 'کاف ضمیر 'نہ تو متصل استعمال ہوئی ہے اور نہ ہی مبتدا بننے کی اہل ہے، لہٰذا قاعدہ کے صریح خلاف ہے ۔
اوریہ حقیقت ہے کہ وہ کلام جو محفوظ و ماثور عربی زبان،مسلمہ نحوی قواعد اور جاہلی عربی لٹریچرکے غالب شواہد کے خلاف ہو، وہ قابل ردّ ہے کیونکہ متاخرین کا کلام توکیا قدیم اور جاہلی لٹریچر بھی تمام کا تمام صحیح اور قابل استناد نہیں ہے ۔ چنانچہ اُستاذ عباس محمود عقاد نے لکھا ہے کہ
''جاہلیت کے عربی ورثہ سے استدلال کرنے کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ عرب کے شعراء وخطبا اور قبائل کی طرف منسوب عربی زبان کا یہ جاہلی ورثہ تمام کا تمام صحیح ہے، لہٰذا اس کے تمام تر ذخیرہ کو قابل استدلال قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ۔ ۔ عربی ادب کا وہ ذخیرہ جو محفوظ اور ماثور ہے (قرآن اور احادیث ِصحیحہ )وہ تو یقینا حجت ہے، لیکن جو اس کے علاوہ ہے،اگر وہ صحیح اور متفق علیہ کلام عرب کے خلاف ہو تو اس کا انکار کیا جا سکتا ہے ۔ '' 32
احمد عبد الغفور عطار ' الصحاح از جوہری 'کے مقدمہ میں فرماتے ہیں :
''اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جاہلی ادب غلطی اور لحن سے محفوظہے تو وہ غلطی پر ہے، کیونکہ اس میں لحن اور غلطیاں موجود ہیں ۔جاہلی شعری ادب میں ایسے اشعار بھی ہیں جو قواعد ِ نحو کے سراسر خلاف ہیں ۔ '' 33
یہ درست ہے کہ نحو و صرف کے قواعد کی بنیاد پر قدیم عربی لٹریچر کو ردّکرنا صحیح نہیں ہے ، لیکن وہ کلامِ عرب جو محفوظ و ماثور عربی ورثہ اور جاہلی ادب کے غالب شواہد کے خلاف ہو ،اسے قطعاً استدلال کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
جب جاہلی ادب کلی طور پر استدلال کی بنیاد نہیں بن سکتا تو پھر مولدین اور بعد کے شعراء کا وہ کلام جو قرآن ، احادیث ِصحیحہ کے ساتھ ساتھ جاہلی ادب کی تراکیب و مفردات اور مسلمہ قواعد نحویہ کے بھی خلاف ہو، اسے استدلال کی بنیاد بناناکیسے روا ہو سکتا ہے ؟ کیونکہ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ بعد کا عربی لٹریچرغیر عرب اقوام کے عرب اقوام کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے عجمی آمیزش سے محفوظ نہیں رہا ۔ یہی وجہ تھی کہ ائمہ لغویین کو معاجم کی تالیف کے دوران اصل ابناے عرب سے فصیح عربی زبان کی تلاش میں بادیہ پیمائی کرنا پڑی ۔
اس سے اس حقیقت کی واضح تائید ہوتی ہے کہ لولاک کی ترکیب خالص عجمی ترکیب ہے جو وضاعین حدیث کی کارستانی ہے اور ایسی غیر فصیح، قواعد ِلغت اورکلامِ عربیہ کے خلاف عبارت أفصح العرب زبانِ نبوت سے صادر نہیں ہو سکتی۔
ان احادیث کے پس پردہ عقائد کی خرابی
درحقیقت ان جیسی تمام احادیث کے پس پردہ ان واضعین حدیث کا مقصد اپنے اس گمراہ کن نظریہ کو ثابت کرناہے کہ حاجات کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنایا جاسکتا ہے، حالانکہ یہ نظریہ باطل اور قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ اللہ کی ذات، صفات، نیک اعمال اور کسی متقی اور صالح شخص کی دعا کے علاوہ کسی بھی چیز کا وسیلہ جائز نہیں ہے۔34
اور اس طرح کی تمام روایات اسرائیلیات کا شاخسانہ معلوم ہوتی ہیں جنہیں بعض غیر مسلم عناصر نے اپنے مخصوص اہداف یا بعض مسلمانوں نے اپنے باطل نظریات کی تائید کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا ہے ۔
شیعہ حضرات نے بھی اِنہی خود ساختہ روایات کی بنیاد پر یہ روایت گھڑی :
''لولا علي ما خلقتُك'' ''اگر علیؓ نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا''
اور اس کے بعد قادیانیوں کے جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی نے جھوٹی روایت ''لولاك لما خلقت الأفلاك''کو اپنے اوپر چسپاں کرلیا اور کہا کہ اس میں مجھے مخاطب کیا گیا ہے اور دعویٰ کیاکہ افلاک کی تخلیق میری نبوت کی مرہونِ منت ہے اور قادیانیوں کا یہی عقیدہ ہے۔ 35
بہرصورت اگر عربی میں یہ ترکیب ثابت بھی ہوجاتی ہے تو بھی مذکورہ تصریحات کی روشنی میں یہ بات بالجزم کہی جاسکتی ہے کہ یہ الفاظ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں اور جن احادیث کی بنیاد پر 'لولاک 'والی حدیث کو معنوی لحاظ سے صحیح قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے، وہ بھی موضوع اور ضعیف ہیں اورمذکورہ بالا نوعیت کی ان روایات کے پس پردہ گمراہ کن نظریہ پنہاں ہے۔کوئی ایسی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسو ب کرنا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اطہر سے صادر نہیں ہوئی، خصوصاً ایسی بات جو توحید اور اسلامی عقیدہ میں رخنہ انداز بھی ہو، یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کامظہر نہیں ،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے مترادف ہے۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے 'بزمِ کونین' حضور کے لئے نہیں ،بلکہ اس لئے سجائی اور موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا تاکہ{لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا...﴿٢﴾...سورۃ الملک}
'' وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون سب سے بہترین عمل کرتا ہے۔''
حوالہ جات
1. الموضوعات2؍18،19، اللآلي المصنوعة 1؍272، تنزیہ الشریعة 1؍324،325
2. کتاب الموضوعات من الأحادیث المرفوعات 2؍19
3. دیکھئے:میزان الإعتدال في نقد الرجال از امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ 1؍667، 668
4. اللآلي المصنوعة 1؍273
5. تذکرة الموضوعات86
6. کشف الخفاء ومُزیل الإلباس2؍214
7. الأسرارالمرفوعة في الأخبار الموضوعة، المعروف بالموضوعات الکبرٰی،ص288
8. سلسلة الأحادیث الضعیفة،رقم: 282
9. مستدرک حاکم 2؍615،المعجم الصغیر للطبراني2؍182، دلائل النبوة للبیقہي5 ؍489
10. ذیل المستدرک للذہبی 2؍165
11. میزان الاعتدال 2؍504
12. مجمع الزوائد 8؍253
13. کتاب الضعفاء والمتروکین 2؍ 95
14. میزان الاعتدال 2؍564
15. تہذیب التہذیب 6؍179
16. القاعدة الجلیة، ص89
17. تذکرة الحفاظ 3؍1042
18. تہذیب التہذیب6؍179
19. لسان المیزان 5؍233
20. الصارم المنکی،ص 32بحوالہ التوسل:أنواعه وأحکامه ،ص 109
21. التوسل :أنواعه وأحکامه، ص 105
22. المستدرک مع تلخیص الذہبي 2؍615
23. تفسیر طبری 1؍243 ،تفسیر ابن کثیر1؍82، مستدرک حاکم2؍594
24. تفسیر المنار از علامہ رشیدرضا مصری،ص279
25. تفصیل کیلئے شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب:التوسل أنواعه وأحکامه، ص102تا 113
26. تفہیم المسائل 3؍63
27. بخاری:4104
28. بخاری:4106
29. الصحاح 1؍255 زیر مادّہ شتت
30. شرح ابن عقیل: 2؍55
31. أیضًا
32. مقدمہ الصحاح ،ص 1 ۔4
33. مقدمہ الصحاح، ص 15
34. تفصیل کیلئے دیکھئے : مولانا عبدالرحمن کیلانی کا مضمون ''توسل و استعانت'' محدث :جلد 34؍عدد 7 و12
35. حقیقة الوحي ص99