غزل

ربابِ غامدی میں ہے وہی آہنگ پرویزی
وہی ذوقِ تجدد ، ترکِ سنت ، فتنہ انگیزی
 
بھروسا کرنہیں سکتے کبھی دانش فروشوں پر
سکھاتے ہیں مسلماں کو جوامت سے کم امیزی
 
ہمیشہ بولتے ہیں دشمنانِ دین کی بولی
جہادِ غوری و محمود کو کہتے ہیں خوں ریزی
 
چمن میں نظم لاتے ہیں وہ مصنوعی طریقے سے
گھٹادیتے ہیں جس سے حسن فطرت کی دلاویزی
 
پرے ہے سرحدِادراک سے جبریل کی دنیا
جہاں بے کار ہوجاتی ہے اسپِ عقل کی تیزی
 
یہ دین حق خوداِک طوفان عالمگیر ہے جس کو
ڈرا سکتی نہیں باطل کی موجوں کی بلا خیزی
 
رفیق ان سے توقع خیر کی ہم کو نہیں ہرگز
سیاست حن کی لادینی ، قیادت جن کی چنگیزی