’سجدہ تعظیمی کی شرعی حیثیت ‘
محدث' کے شمارہ اپریل2006ء کے کالم دار الإفـتائکے تحت ...کیا سجدئہ عبادت اور سجدئہ تعظیمی کے حکم میں کوئی فرق ہے؟ ... ایک استفتائ(منجانب ابو عبد الرب عبد القدوس سلفی،اسلام آباد) اور اس کا جواب محترم مفتی حضرت مولاناحافظ ثناء اللہ مدنی کی طرف سے شائع ہو چکا تھا کہ اسلام آباد سے مولاناحافظ مقصود صاحب مدیر مرکز دعوة التوحید،اسلام آباد کا زیر نظر مکتوب ملا جس پر محترم انجینئر عبد القدوس سلفی صاحب سے رابطہ کیاگیا تو اُنہوں نے درج ذیل تحریر بھیجی جو ہدیۂ قارئین ہے ۔ (ادارہ)
14؍ربیع الاول 1427ھ
محترم جناب مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب حفظہ اللہ،شیخ الحدیث جامعہ رحمانیہ،لاہور
السلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاتہ
اُمید ہے مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ اللہ ربّ العزت آپ کے علم و عمل اور عمر میں برکت فرمائے۔ 'محدث' کے شمارہ نمبر 298 میں سجدۂ عبادت اور سجدۂ تعظیمی سے متعلق آپ کا فتویٰ شائع ہوا جس کے سائل مولانا عبدالقدوس سلفی صاحب تھے، سلفی صاحب نے جس پس منظر میںآپ سے استفتاء کیا، وہ ان کا لکھا ہوا فتویٰ ہے جس میں اُنہوںنے قبر پرسجدۂ تعظیمی کے متعلق لکھا ہے کہ یہ شرک مُخرج عن الملة نہیں۔ محدث میں کئے گئے سوال میں اُنہوں نے مطلقاً سجدۂ تعظیمی کا ذکرکیا ہے جب کہ اِن کے فتویٰ میں قبر پر سجدۂ تعظیمی کے الفاظ موجود ہیں۔ یہ فتویٰ چونکہ سلف کے عقیدے کے خلاف تھا، اس بنا پربہت سارے اہل علم نے اس پر تعجب کا اظہار کیا۔ یہ فتویٰ جس کی نقل میں آپ کوبھجوا رہا ہوں، مجھ سے کئی ایک احباب نے طلب کیا لیکن میں نے فتنے سے بچنے کے لئے یہ فتویٰ آج تک کسی کونہیں دیا۔ ماہنامہ 'محدث' کے مدیراعلیٰ علامہ حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کی محترم سلفی صاحب سے رشتہ داری بھی ہے، اس لئے آپ کی وساطت سے میں اِن سے بھی گزارش کروں گا کہ وہ سلفی صاحب کو اپنے فتوے سے رجوع کرنے کے لئے کہیں، وگرنہ ممکن ہے کہ کسی وقت اِس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مذکورہ فتویٰ زیر بحث آجائے۔ اور پھر اہل علم کی طرف سے اِس پر ردّوقدح ہو اور ایک نئی بحث کا دروازہ کھل جائے۔ آپ کے فتو ے کے شائع ہونے کے بعد کوئی ابہام نہیں رہ جاتا لہٰذا محترم عبدالقدوس سلفی صاحب کو اپنا موقف تبدیل کرلینا چاہئے۔
اللہ ربّ العزت ہم سب کو اخلاص اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔
والسلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاتہ
حافظ مقصو د احمد (مدیر مرکز دعوة التوحید، اسلام آباد)
مکتوبِ گرامی کے ہمراہ (فوٹو سٹیٹ) تحریر
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
سوال: ایک آدمی کسی دربار پر جاکر قبر کو سجدہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے تعظیمی سجدہ کیا ہے ، کیااس کا یہ سجدہ کفر اور شرک کہلائے گا یا نہیں؟
جواب: اس شخص مذکور نے حرام فعل کیا ہے، یہ کفر اکبر یا شرکِ اکبر نہیں۔ ہاں اگر وہ عبادت کا سجدہ (یعنی عبادت کی نیت سے)کرے تو یہ شرکِ اکبر ہے اور وہ مُخرج عن الملة ہے۔ (عبدالقدوس سلفی)
انجینئر عبدالقدوس سلفی کی طرف سے وضاحتی تحریر
راقم الحروف کی ایک تحریر بعض اہل علم تک پہنچائی گئی ہے جس میں ایک سوال کاجواب لکھا ہے جس میں سجدۂ تعظیمی کو زیر بحث لایا گیا ہے اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ راقم کا یہ فتویٰ ہے حالانکہ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ راقم نہ تو کوئی عالم دین ہے نہ مفتی؛ اسلام آباد میں ایک عالم دین اور مسجد کے خطیب سے مذکورہ موضو ع پر سوال و جواب ہوئے تو اُنہوں نے ایک سوال بنایا اور راقم سے کہا کہ اس کے جواب میں اپناموقف لکھ دیں۔ راقم نے اس وقت بھی انکار کیا تھا کہ یہ سوال علماء سے پوچھنے والا ہے اور آپ مجھ عامی سے پوچھ رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ میں علما کو یہ سوال بھیجوں گا کہ اس سوال کا جواب اس طرح ہو تو کیا یہ موقف درست ہے؟ان کے اصرار پر راقم نے اپنا فہم لکھ دیا، نیچے باقاعدہ دستخط کی بجائے محض نام لکھ دیا۔ حالانکہ نام لکھنے سے بھی پہلے گریز ہی کرتا رہا۔ لیکن اُن عالم صاحب کا اصرار تھا کہ آپ نام لکھ دیں۔ میں علما کو آپ کے نام کے بغیر اپنے الفاظ میں استفتاء لکھ کر بھیجوں گا۔ یہ صرف میری حد تک ایک موقف کی تحریر رہے گی۔ چنانچہ اُنہوں نے علما سے استفتاء کرنے کی بجائے راقم کی اس تحریر کو فتویٰ باور کرا کے پھیلاناشروع کردیا۔ تب راقم نے مسئلہ کے ہر پہلو کو واضح کرنے کے لئے ایک مفصل استفتاء لکھا اور متعدد اداروں اور علما کو بھیجا تاکہ اس پر ایک علمی رائے اور رہنمائی حاصل ہو جائے۔
راقم کو حیرت و تعجب ہے کہ اس کی یہ تحریر جس پر سائل ایک عالم دین ہے اور مجیب ایک عامی ہے کا استفتاء یا فتویٰ کی شکل میں پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جو کہ غلط ہے۔ یہ تو ایک تحریر تھی جس پر مزید استفتا تیارکرنا تھا، سو وہ تو نہ ہوسکا مگر پروپیگنڈہ اپنا کام کررہا ہے۔
واضح رہے کہ راقم کی ایک اور تحریر جو باقاعدہ دستخط کے ساتھ مولانا عطاء المؤمن صاحب حفظہ اللہ خطیب مسجد القدس اہل حدیث، راولپنڈی نے اس پروپیگنڈہ کے بعد حاصل کی، وہ موجود ہے جس میں راقم کا واضح موقف درج ہے کہ سجدۂ تعظیمی لغیر اﷲ ایک شرکیہ فعل ہے اور شریعت ِمحمدیہ میں حرام ہے۔ (عبدالقدوس سلفی)