’امریکہ کی مذہبی صورتحال‘

جو قومیں دنیابھر میں اپنے مقاصدکو فروغ دینے اور اپنی مرضی کے مطابق دنیا کو چلانے میں دلچسپی رکھتی ہیں ، جن کے مفادات ان کی اپنی سرحدوں سے تجاوز کرکے دنیا بھر میں پھیلے ہوتے ہیں ، اُنہیں نہ صرف دنیا بھر کے حالات پر نظر رکھنا پڑتی ہے بلکہ دنیا میں ہونے والی ہر بڑی تبدیلی کا وہ گہری نظر سے جائزہ لتیے ہیں اور اس کی اچھائی یا برائی کے پیش نظر اپنی حکمت ِعملی میں تبدیلی کرتی رہتی ہیں ۔ گلو بلائیزیشن کے نام پر دیگر ممالک میں مداخلت کی حکمت ِعملی(Right of Intervention) امریکی خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ

جہاں کہیں خطرہ یا خطرے کی بو محسوس ہو تو قبل اس کے وہ خطرہ بن سکے، مداخلت کرکے اسے نیست ونابود کردیا جائے۔ بش انتظامیہ بھی اسی پالیسی پر چل رہی ہے جس نے واضح الفاظ میں اپنی پالیسی کو اس نکتہ پر استوار کیا ہے کہ روکنا یا مداخلت کرنا ان کا حق ہے، چاہے یہ اقوامِ متحدہ کے ذریعے ہو یا اس کے بغیر۔ لیکن اس حق کو مخالفین پر 'عدم برداشت' یا 'انتہا پسندی' کا الزام لگا کر استعمال کیا جاتا ہے۔

امریکہ جو اس دور کی سپر پاور کہلاتا ہے اور بعض عسکری تجزیہ نگاراسے 'ہائپر پاور' کا نام بھی دیتے ہیں ، اپنے ایسے ہی عالمی مقاصد کے لئے جہاں جبر اور فوجی قوت سے کام لیتا ہے، وہاں سازگار حالات پیدا کرنے کے لئے دنیا بھر سے مختلف میدانوں کے ماہرین کو اپنے ہاں دعوت بھی دیتا رہتا ہے۔ انسان کی معلومات کا توازن جہاں بگڑ جائے، وہاں سے انسان کی ذہنیت میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ذہنیت کی اسی تبدیلی کا ایک بے ضرر نام مفاہمت بھی ہے۔ راقم الحروف کو جس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی وہ امریکی محکمہ خارجہ کا International Visitors Leadership Program (IVLP) ہے۔یہ پروگرام 1940ء سے جاری ہے جس میں واشنگٹن کی 8 غیر منافع بخش تنظیموں اور ہزاروں امریکیوں کی رضاکارانہ شرکت کے ذریعے ہزاروں غیرملکی ماہرین کو امریکہ اور اس کے نظام ہائے سیاست ومعاشرت کا معائنہ کروایا جاتا ہے۔پروگرام کے تعارفی بروشر کی یہ سطریں ملاحظہ ہوں :
The IVLP is designed to build mutual understanding between the U.S. and other countries through carefully designed visits that reflect the participants' professional interest and support U.S. foreign policy goals.
Participants are established of potential foreign opinion makers in governments, public policy, media, education and other key fields, selected by American Embassies abroad.
''یہ پروگرام امریکہ اور دیگر ممالک کے مابین مفاہمت کو فروغ دینے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے جس میں شرکا کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی احتیاط سے اس طرح ملاقاتیں ترتیب دی جاتی ہیں کہ وہ امریکی خارجہ پالیسی اور اہداف کو تقویت دے سکیں ۔ دنیا بھر میں امریکی سفارتخانوں کے ذریعے اس پروگرام کے لئے ایسے شرکا کو منتخب کیا جاتا ہے جو حکومت، عوامی رجحانات، میڈیا، تعلیم اور دیگر کلیدی میدانوں میں رائے عامہ بنانے یا اس کی صلاحیت رکھنے والے ہوں ۔''

تین ہفتوں پر مشتمل اس پروگرام میں 4؍ اہم شہروں میں متعدد سرکاری وغیر سرکاری اداروں ، عوامی مراکز اور مذہبی وسیاسی تنظیموں کے نمائندگان سے ملاقاتیں کرائی جاتی ہیں ۔ اس پروگرام کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی میں اسی پروگرام میں صدر افغانستان حامد کرزئی (1987ء) اندرا گاندھی، ٹونی بلیر، انور سادات، شیخ مجیب الرحمن، وزیر اعظم اُردن ڈاکٹر عدنان بدران(1977ء) سابقہ جرمن چانسلرگرہرڈشروڈر(1981ء) اور صدر کرغیزستان کرمن بک بکیریو (2004ء) وغیرہ جیسی اہم عالمی شخصیات شرکت کرچکی ہیں ۔ قابل غور امر یہ ہے کہ اس پروگرام کے 200 شرکاء ماضی میں حکومتوں کے سربراہ بنے ہیں اور اس وقت بھی 33 کے قریب شرکاء ایسی اہم حیثیت پر فائز ہیں ۔ پاکستان سے 2003ء میں نوائے وقت کے مشہور کالم نگار محمد عرفان صدیقی اور جنگ کے ریزنڈنٹ ایڈیٹر محمود شام بھی اس پروگرام میں شرکت کرچکے ہیں ۔ پروگرام کے جملہ اخراجات امریکی محکمہ خارجہ برداشت کرتا ہے اور اس میں اداروں یا حکومتی نمائندگی کی بجائے افراد ؍ شخصیات کو منتخب ؍مخاطب کیا جاتا ہے۔ پروگرام کا مرکزی خیال اور بنیادی پلان مشہور امریکی صنعت کار راک فیلرکاتجویز کردہ ہے۔ تعارفی مجلس میں اس پروگرام کی حکمت یہ بیان کی گئی کہ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا امریکہ سے نفرت کرتی ہے لیکن ہمیں آپس میں مفاہمت کو فروغ دینا چاہئے۔ پاکستان کے ایک اہم پالیسی ساز ادارے کے ڈائریکٹر کے بقول اس نوعیت کے پروگراموں کے مقاصد عموماً درج ذیل ہوتے ہیں :
(1) امریکیوں کا اپنے ملک میں رویہ ان کے اُس عالمی کردار سے بالکل مختلف ہے جو عالمی سطح پر امریکہ کا ایک تعارف بن چکا ہے۔ اس لئے امریکہ کے اس عالمی کردار کی شدت کو اس کے داخلی کردار کے تعارف کے ذریعے کم کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں شرکت کرنے والوں کے امریکہ مخالف جذبات میں نمایاں کمی آجاتی ہے۔
(2) شرکا پر نفسیاتی انداز میں اس طرح اثر انداز ہوا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کی قوت اور معاشرتی وسیاسی نظم واستقامت سے مرعوب ہوجائیں اور اس بنا پر امریکہ مخالف خیالات ذہن سے نکال دیں کہ وہ ایسی بلند چوٹی ہے جسے سر نہیں کیا جاسکتا۔
(3) اس مقصد کے لئے بالخصوص نوجوانوں کو منتخب کیا جاتا ہے کیونکہ اوّل تو اُنہیں متاثر کرنا، ان کی ذہنیت کو بدلنا پختہ عمر لوگوں کی بہ نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے، نیز اگر ان کی ذہنیت تبدیلی کی طرف مائل ہوجائے تو وہ اپنی عمر کے باقی حصے میں اس تبدیل شدہ ذہنیت سے امریکہ کو زیادہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔ یادرہے کہ پروگرام میں شرکت کے لئے 25 تا 55 سال کی عمر کے افراد کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے۔
(4) اس دورے کے دوران شرکا کی ذہنیت کے تجزیے سے امریکہ کو اپنی آئندہ عالمی سیاست کے مہرے تلاش کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پروگرام میں شرکت کرنے والے متعدد لوگ بعد میں امریکہ نوازی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔

ہمارے پروگرام کے سات شرکاء تھے:بھارت سے ٹائمز آف انڈیا کے مذہبی تجزیہ نگار محمد وجیہ الدین، مغربی بنگال میں جامعہ اسلامیہ مدینة العلوم، بردوان کے مہتمم قاضی محمد یاسین، بنگلہ دیش میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر محمد مجاہد الاسلام، سری لنکا سے بدھ رہنما مسٹر کملا سری سری لنکن سپریم کورٹ کی وکیل اور نیشنل ایوینجلیکل الائنس کی صدر محترمہ روشنی وِکرم سنہا اورنیپال کی تریبھوانTribhuvanیونیورسٹی کے شعبہ انگلش فلاسفی کے پروفیسرشانتا ڈھاکوا اور پاکستان سے راقم الحروف ، بطورِ مدیر ماہنامہ 'محدث' لاہور

ê ہمارا امریکہ کا سفر یکم اپریل سے شروع ہوکر 24؍اپریل کو ختم ہوا۔ پہلا ہفتہ واشنگٹن میں گزرا جس میں ملاقاتوں کا مرکزی خیال 'مذہب اور امریکی حکومت ومعاشرہ' تھا۔ واشنگٹن ڈی سی کو نہ صرف امریکہ بلکہ اپنے عالمی کردار کی وجہ سے دنیا بھر کا دار الحکومت کہا جاسکتا ہے۔ سفارتخانوں ، سرکاری وپیشہ وارانہ اداروں ، مراکز ِتحقیق، تِھنک ٹینک و فیکٹFact ٹینک وغیرہ کی کثرت کی وجہ سے اس شہر کی فضا پر گمبھیر سنجیدگی طاری رہتی ہے۔ امریکی تاریخی یادگاروں ، قومی وحدت کی علامتوں کے علاوہ وزارتِ خارجہ(سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ)، وزارتِ دفاع (پینٹاگان)، وائٹ ہائوس، کیپٹل بلڈنگ اور امریکی سپریم کورٹ وغیرہ اسی شہر میں ہیں ۔(i) امریکہ کے اس ساحل پر یورپی قوموں کے اثرات غالب ہیں ۔ یہاں کی عادات، فکر وفلسفہ، کلچر اورطرز ہائے تعمیرانہی اقوام سے ملتا جلتا ہے۔ہر آدمی اپنے خول میں بند نظر آتاہے۔ یہاں ہماری رہائش مشہور زمانہ واٹرگیٹ بلڈنگ، کینیڈی کلچرل سنٹر اور واشنگٹن کے مشہور دریا Potomac کے ساتھ واقعRiver Inn ہوٹل میں تھی، انہی عمارتوں کے درمیان سعودی سفارت خانہ کی باوقار عمارت بھی ہے اور وائٹ ہاؤس، جارج واشنگٹن یونیورسٹی وغیرہ یہاں سے چندمنٹ پیدل مسافت پر ہیں ۔

یہاں ہم نے تین سرکاری اداروں : ایوانِ نمائندگان (Capitol Building)کے مذہبی قائد (Chaplain)، محکمہ خارجہ (U.S. Department of State)کے افسر برائے اُمورِ جنوبی ایشیا، یوایس کمیشن فارانٹرنیشنل ریلیجیس(Religious)فریڈم... پانچ غیرسرکاری اداروں جن میں سرفہرست IVLPکا انتظامی ادارہ AED(اکیڈمی فار ایجوکیشن ڈویلپمنٹ)، American United for Separation of Church and State، یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس (Peace) ،انسٹیٹیوٹ آن ریلیجیناینڈ ڈیموکریسی اورInterfaith Conference of Metropoliton Washington. D.C.کے دورے کئے۔ پہلے دن واشنگٹن شہر کا تعارف اور امریکی یادگاروں کے علاوہ سپریم کورٹ آف امریکہ، لائبریری آف کانگرس، وائٹ ہائوس، نیشنل گیلری آف آرٹ، نیشنل میوزیم آف امریکن ہسٹری اور نیشنل ائیر اینڈ سپیس (Space) میوزیم کا مشاہدہ کیا۔ واشنگٹن میں سعودی حکومت کے تعاون سے قائم اسلامک سنٹر کی زیارت کے علاوہ سنٹر کے 15 سال سے چلے آنے والے امام شیخ عبد الرحمن جو مکہ کی جامعہ اُمّ القریٰ کی فیکلٹی آف ایجوکیشن کے فاضل ہیں ، سے بھی خطبہ جمعہ کے بعد تفصیلی ملاقات ہوئی۔

یہاں ہمیں امریکی کلچر، امریکی طرزِ حکومت اور امریکی تاریخ کے علاوہ ریاست اور مذہب کی جدائی کے مغربی تصورپر لیکچر دیے گئے۔ بعض اداروں میں امن کے قیام میں مذہب کا کردار، مذہب اور جمہوریت، شہری انتظامیہ کا تمام مذاہب کو باہمی مکالمہ کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا وغیرہ موضوعِ بحث بنے۔ محکمہ خارجہ میں ہر ملک کی مذہبی صورتحال پر امریکی رپورٹ زیر بحث آئی اور دنیا بھر میں مذہبی آزادی پر امریکی حکومتی ادارے کا موقف اور مختلف حکومتوں کے بارے میں ان کی رپورٹیں بلکہ ہدایتیں ؍نصیحتیں بھی سننے کو ملیں ۔

مشاہدات وتاثرات مستقل طورپر تو آگے درج کئے جارہے ہیں ، بالخصوص مغرب میں سٹیٹ اور چرچ کی جدائی کے نظریے پرمستقل گفتگو بھی آگے آرہی ہے، سردست یہاں چند نکات کی نشاندہی کرنا مناسب ہوگا :
ہمیں تین حکومتی اداروں کی باضابطہ زیارت کا موقع ملا، ایوانِ نمائندگان میں تو زیادہ تر Chaplainکا کردار او ر اس کی ذمہ داریاں زیر بحث رہیں اور ہمیں کیپٹل بلڈنگ کے معائنے کے علاوہ ایوانِ نمائندگان اور مذہبی رسومات کے لئے مختص ایک کمرہ بھی دکھایا گیا۔ چیپلن کی ذمہ داریاں زیادہ تر ایوان کی کاروائی کے آغاز واختتام پر دعا، بعض موقعوں پر قوم اور امریکی فوجوں کے لئے دعائیں اور اراکین کی ذاتی مذہبی دلچسپیوں کی تکمیل کے گرد گھومتی ہیں ۔ باقی دونوں سرکاری اداروں میں ہر ہر ملک کے بارے میں رپورٹیں زیر بحث رہیں ۔

راقم نے دورانِ ملاقات ان رپورٹوں کو ان ممالک پر 'قراردادِ جرم' سے تعبیر کرتے ہوئے ذمہ داران سے ان رپورٹوں کی تیاری کے مراحل پر روشنی ڈالنے کو کہا اور ساتھ ہی یہ اضافہ بھی کیا کہ آپ کی تیارکردہ رپورٹیں اور پاکستان میں بعض امریکہ نواز NGOsکی رپورٹوں کا گذشتہ برسوں میں جب ہم نے تقابل کیا تو ان میں حیران کن حد تک مماثلت نظر آئی۔ آپ ان رپورٹوں کی تیاری کے لئے ان لوگوں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے ذاتی ذرائع کو استعمال کریں ، تب ہی ان میں ہمارے ممالک کے حقیقی منظر کشی ممکن ہوسکے گی۔

اُنہوں نے کہا کہ ہم یہ رپورٹیں انگریزی اخبارات کی مدد سے یا ایسے اداروں کے توسط سے تیار کرتے ہیں جو ہم سے اس سلسلے میں رابطہ کرتے رہتے ہیں ۔ راقم نے اس طریقہ کار کو ناکافی قرار دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ انگریزی اخبارات پاکستان کی اصل صورتحال کی نشاندہی کی بجائے طبقہ اشرافیہ یا مخصوص ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں ،اردو اخبارات کوکافی حد تک پاکستانی عوام کا حقیقی ترجمان قرار دیا جاسکتا ہے، آپ کو قومی حقائق سے آگاہی کے لئے اُردو مضامین کے تراجم کرانے چاہئیں ۔ نیز پاکستان کے تمام طبقوں کا آپ سے اعتماد پر مبنی تعلق نہیں ہے، اس لئے اکثر وبیشتر لوگ آپ سے رابطہ ہی نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض اقلیات یا مخصوص مفادات کے حامل محض چند لوگ اپنے مقاصد کے لئے امریکی حکومت کی بے جا تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔

'عالمی ادارہ برائے مذہبی آزادی' میں بھی چونکہ آغاز کی تعارفی گفتگو کے بعد دیگر شرکا رپورٹوں پر اپنا اپنا تبصرہ پیش کررہے تھے،اس لئے میں نے یہ تبصرہ کیا کہ مختلف ممالک کے بارے میں ان رپورٹوں کی حیثیت حقائق کی بجائے،ان ہدایتوں کی ہے جوامریکی حکومت ان سے توقع کرتی ہے، یہ کردار تو اقوامِ متحدہ کا ہونا چاہئے۔ امریکی حکومت کا یہ ادارہ متعلقہ ممالک یا اقوامِ متحدہ کی ذمہ داریوں میں دخل اندازی کا مرتکب ہورہا ہے۔ اسکا جواب ترجمان نے یہ دیا کہ ہماری رپورٹوں کی حیثیت ہماری ملکی پالیسیوں اور اپنی حکومت کے لئے سفارشات مرتب کرنیوالے رہنما خطوط کی ہے، ہم اسے اپنے ملکی مقاصد کیلئے ضروری سمجھتے ہیں ۔

محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں پاکستان کے قانونِ توہین رسالتؐ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور متاثرین کے ناقابل یقین اعداد و شمار پیش کئے گئے تھے۔ یہاں محکمہ کی ترجمان سے میں نے یہ اعتراض کیا کہ جب یہ قانون تمام انبیا کرام کے بارے میں ہے اور اس سے محض مسلمانوں کی بجائے تمام مذاہب کی مقدس شخصیات کا احترام یقینی بنایا گیا ہے، تو پھر اس قانون کو محض اقلیات کے خلاف کیوں باور کیا جاتا ہے؟ علاوہ ازیں بعض یورپی ممالک میں یہودیوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ مثلاً ہولوکاسٹ کی تفصیلات پر بھی قانون موجود ہے تو پھر پاکستان میں مذاہب کے احترام پر مبنی ایسا قانون انسانی حقوق کے منافی کیوں ہے؟

محکمہ خارجہ کی ترجمان کا موقف یہ تھا کہ مسئلہ دراصل قانون میں خرابی کا نہیں بلکہ طریق کار کا ہے۔ عملی طورپر اس سے اقلیات زیادہ متاثر ہوتی ہیں ۔ پاکستان میں توہین رسالت کے خلاف حکومت کی طرف قانونی طریق کار تبدیل کئے جانے کے باوجود ہمیں ابھی تک اس کے طریق کار سے اتفاق نہیں ہے، بالخصوص جب اسے ایک ڈپٹی کمشنر کے دائرئہ اختیار میں دے دیا گیا ہے تو یہ تبدیلی درست نہیں ، کیونکہ غیر معمولی مصروفیت کی وجہ سے اس سے متاثرین کا رابطہ کرنا ہی بہت مشکل ہے۔

جہاں تک باقی پانچ غیر سرکاری اداروں کا تعلق ہے جو مذہبی اُمور پر کام کررہے ہیں تو ان کے بارے میں میرا تاثر یہ تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ریاست کا ادارہ بہت منظم اور طاقتور ہوچکا ہے۔ ریاست کا یہ ادارہ بظاہر تو مذہب کو اپنے محدود دائرے میں آزادی کا حق دیتا ہے لیکن درحقیقت دونوں طرف نظریات کی جنگ ہے اور نظریات کا بہت بڑا سرچشمہ خود مذہب ہے۔ اس لئے مذہب کو کنٹرول کرنے اور محدود رکھنے کے لئے ریاست نے متعدد ادارے تشکیل دے رکھے ہیں ۔ مثلاً سٹیٹ اور چرچ کے اساسی نظریے پر قائم واشنگٹن کا ادارہ نہ صرف متعلقہ موضوع پر نظریاتی مباحثہ میں حصہ لیتا ہے بلکہ اس حوالے سے کسی بے قاعدگی کو بھی نظرمیں رکھتا ہے۔ ایسے ہی جملہ مذاہب کے لئے حکومت کی طرف سے مکالمہ کی میز سجا کر ان کے مسائل کو پرائیویٹ طورپر ہی حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس مقصد کے لئے انٹرفیتھ کانفرنس آف واشنگٹن میٹرو پولیٹن کام کررہی ہے۔ حکومتیں اپنے عالمی مقاصد کے لئے امن وامان کے مسائل پیدا کرتی اوردوسروں پر جارحیت کرتی ہیں تو مذہب سے امن کی بحالی کے لئے کردار ادا کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے، اس مقصد کیلئے واشنگٹن کا U.S. Institute of Peaceکام کرتا ہے۔ خود امریکی حکومت مختلف مذاہب کے ساتھ مخاصمانہ رویہ رکھتی ہے تو امریکہ کا 'عالمی ادارہ برائے مذہبی آزادی' اس حوالے سے اُٹھنے والے جذبات کو ٹھنڈا کرتا اور رائے عامہ کا رخ بعض خود ساختہ مسائل کی طرف موڑتا رہتا ہے۔گوکہ ان میں متعدد ادارے حکومتی نہیں ہیں لیکن پس پردہ اُنہیں حکومتی آشیرباد حاصل رہتی ہے۔

ان اداروں کے ذمہ داران سے ملاقاتوں کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ امریکی قوم منظم حکمت ِعملی پر یقین رکھتی ہے۔ ہر ایسا نکتہ جس کے حوالے سے مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، اسے ایک باضابطہ ادارہ کی شکل دے کر اس کے اہداف کا تعین کردیا جاتا ہے جس کے بعد کوئی مخصوص مقصد فنکارانہ طریقے سے حاصل کرنا بآسانی ممکن ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی میرا احساس کلیولینڈClevelandمیں اس ادارے کے دورے پر بھی تھا جو بظاہر فلسطینیوں اور اسرائیلیوں میں تنائو کے خاتمہ کے لئے وجود میں آیا تھا ۔ اعتماد کی فضا قائم کرنے کے لئے اس کی صدارت بھی ایک عرب مسلمان کو دی گئی تھی لیکن اگر کام کا عملاً جائزہ لیا جائے تو گویا یہ ادارے مسائل کے خاتمہ کی بجائے ان مسائل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تاثرات کا رخ موڑنے کا کام کرتے ہیں اور اس موضوع پر گہرے مطالعہ کے بعد امریکی حکومت کو درست راہ کی نشاندہی اور ممکنہ اقدامات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ۔ یہ مسائل کو حل کرنے کا ایک فنکارانہ طریقہ ہے جس میں تنائو پیدا کرنے کی بجائے دلچسپی رکھنے والوں کا زاویۂ نظر موڑا جاتا ہے۔ اسی مخصوص ذہنیت کی نمایاں مثال ہمارا یہ IVLP پروگرام بھی ہے جس میں کسی قوم کی رائے سازی کرنے والوں کی رائے تبدیل کرنے پر توجہ دی جاتی ہے قبل اس کے کہ اس قوم میں براہِ راست تنائو کے جذبات جڑ پکڑ لیں ۔

ہمارے پروگرام کا خاتمہ سان فرانسسکومیں ہوا جو امریکہ کا مغربی ساحلی شہر ہے۔ اس سمندر کے دوسری طرف ہوائی، جاپان، چین کے شہر بیجنگ، شنگھائی، تائیوان، ہانگ کانگ، سنگاپور اور ملائشیا وغیرہ ہیں ۔ واشنگٹن کی دلچسپی اگر دنیا بھر کے معاملات میں دخل اندازی کرنااور امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے کوششیں بروئے کار لانا ہیں یعنی 'عالمی سیاست' تو مغربی ساحل ...جس پر لاس اینجلس کا وسیع وعریض شہر بھی ہے ... میں ہالی وڈ کی فلموں کے ذریعے دنیابھر کو مخصوص ذہنیت دی جاتی ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ دنیا کا یہ خطہ ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ کی کمپیوٹر انڈسٹری بھی سان فرانسسکو سے قریب ہے اور چین وجاپان، سنگاپور وملائشیا، تائیوان وہانگ کانگ الیکٹرانکس کی دنیا میں سب سے آگے ہیں ۔ اس شہر میں چینی، جاپانی اور ایشیائی لوگوں کا غلبہ ہے اور یہی کلچر پایا جاتا ہے۔

امریکہ ایک حکومت نہیں بلکہ 50 ریاستوں کا مجموعہ ہے جو ایک پورے براعظم پرپھیلا ہوا ہے، مشرقی ومغربی ساحلوں کے درمیان پانچ گھنٹے کی پرواز اور ان شہروں کے اوقات میں چار گھنٹے کا فرق ہے۔ عین انہی دنوں (یکم اپریل کی رات ) وہاں سورج کی روشنی سے بہتر فائدہ اُٹھانے کے لئے اکثر ریاستوں میں معیاری وقت کو ایک گھنٹہ پیچھے کیا گیا تھا۔

یوں تو ہمارے دورے کا موضوع سیاسی نہیں تھا، اس کے باوجود واشنگٹن کے ایک امریکی صحافی سے ملاقات کے دوران جب امریکہ کی مسلم ممالک پر جارحیت کا ذکر چھڑا تو اس نے برملا اس حکومتی پالیسی سے اختلاف کیا اور کہاکہ یہ صرف میرا نہیں بلکہ بے شمار امریکیوں کا بھی موقف ہے۔ اس رویہ نے آج کے امریکہ کو 15 برس پہلے کے امریکہ سے بہت حوالوں سے کافی پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ اگر رائے عامہ اس کی حمایت میں نہیں ہے تو اس کے باوجود بش کو دوسرے الیکشن میں کیوں کامیابی حاصل ہوئی؟ اس کا جوا ب یہ تھا کہ

امریکہ کے دونوں ساحلوں پر واقع شہروں میں امریکہ کا صاحب ِفکر طبقہ بستا ہے۔ انہی شہروں میں اکثر وبیشتر اخبارات پڑھے جاتے ہیں جن میں عالمی پالیسی پر شدید تنقید اور سخت تجزیے شائع کئے جاتے ہیں جن میں سے اکثر کا خلاصہ بش حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ صدارتی الیکشن مںن خود واشنگٹن سے صدر بش کامیاب نہیں ہوسکے، لیکن ان دونوں ساحلوں کے مابین سینکڑوں شہر ہیں ، جہاں صرف Fox News نامی ٹی وی چینل دیکھا جاتا ہے جو دن رات بش حکومت کی پالیسیوں کی تعریف میں رطب اللسان(ii) رہتا ہے۔ پھر اس صحافی نے کہا کہ افسوس! دنیا بھر کے حالات سے واقف امریکی اور صر ف اپنے آپ میں مگن امریکی کا ووٹ یکساں حیثیت رکھتا ہے اور یہ لاعلم امریکی ملکی اور عالمی سیاست کا رخ بدل دیتے ہیں ...!!

واشنگٹن میں مقیم رائے عامہ تشکیل دینے والے ادارے سے وابستہ ایک اہل کار کا تجزیہ بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی عوام کی کوئی رائے نہیں ، گذشتہ ہفتہ جس بات کی شدید مذمت کی جارہی ہوتی ہے، ہفتہ بھر میں اس کے بارے میں رائے عامہ تبدیل ہوچکی ہوتی ہے اور اس میں سارا کردار میڈیا ادا کرتا ہے جو اعداد وشمار،مخصوص تجزیوں اور رپورٹنگ کے ذریعے ایک ذہنیت پیدا کرتا ہے۔ فاکس نیوز کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں بیشتر رپورٹیں سات سے زائد بار دہرائی جاتی ہیں ۔اسلئے امریکی عوام کی رائے الیکٹرانک میڈیا کے رحم وکرم پر ہے۔

ہمیں واشنگٹن اور سان فرانسسکو کے درمیان مزید تین شہروں میں بھی قیام اور ملاقاتوں کا موقع ملا جن میں ریاست Ohio کا شہرCleveland، تین امریکی ریاستوں کا سنگم Memphis اور New Mexicoکا دار الحکومت Santa Fe شامل ہیں ۔ کلیو لینڈ ایک صنعتی شہر ہے جس کا شمار امریکہ کے 10؍اہم ترین شہروں میں ہوتا رہاہے لیکن 1970ء میں یہاں لوہے کی صنعت کو زوال آنے کے بعد اب اس شہر کو میڈیکل کی تعلیم اور سہولیات کا مرکز بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ یہاں کی سب سے مضبوط کمیونٹی یہودی ہیں جنہوں نے یہودیت کے فروغ کے لئے تعلیمی اداروں کے علاوہ یہودی میوزیم بھی قائم کررکھے ہیں ۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ امریکہ کے اسی شہر میں سب سے زیادہ فلسطینی تارکین وطن بھی رہائش پذیر ہیں ۔ یہ دونوں متضاد مناسبتیں ایک واضح پیغام دے رہی ہیں ۔ اس پر طرہ یہ کہ مسلم کمیونٹی یہاں نہ صرف غیر مستحکم ہے بلکہ ان میں مذہبی رجحانات بھی کافی کم ہیں ۔ اس شہر کے بعض نامور مسلم قائدین کو نائن الیون کے نتیجے میں امریکہ چھوڑنے کے احکامات بھی مل چکے ہیں گو کہ ان میں صر ف ایک پر دہشت گردی کاالزام لگایا گیا اور باقی کو دیگر انتظامی وجوہات کی بنا پر یہ حکم دیا گیا۔ بہرحال ہمیں یہاں ایک ایسے شہر کو دیکھنے کا موقع ملا جو محض 100 سال کی تاریخ میں عروج سے ہم کنار ہونے کے بعدآہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہاں کے باشندے بڑی تیزی سے نقل مکانی کر رہے ہیں لیکن شہری انتظامیہ مختلف عوامل کے ذریعے اس شہر کو زندہ رکھنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔یہ سرگوشیاں کرتا ایک خاموش شہر ہے، جس میں رونق اورزندگی کی چہل پہل کم کم نظر آتی ہے۔

کلیو لینڈ میں ہمارا قیام 8 تا 12؍ اپریل تک تھا، دورے کا مرکزی خیال 'بین المذہبی مکالمہ' تھا۔ اس شہر کے سب سے بڑے عیسائی چرچ میں ہمیں اتوار کی عبادت دیکھنے کا موقع ملا، یہودیت کے فروغ کے لئے قائم Maltz Museum کی زیارت بھی کی جہاں قدیم دستاویزات اور کھدائی کے آثار وغیرہ کے ذریعے ارضِ مقدس میں اسرائیل کو بسانے کا تصور اُجاگرکیا گیا تھا۔یہاں یہود اور عیسائیوں میں اشتراکِ عمل بڑھانے کے لئے بھی کئی طریقوں سے کوشش کی گئی تھی، مثلاً ارضِ فلسطین میں چرچوں کی تعداد کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ وہاں عیسائیت خوب پھل پھول رہی ہے اور ارض مقدس کو آزاد کروانے میں عیسائیت کا بھی مفاد ہے۔

اس میوزیم کی زیارت کے دوران یہ خیال پیدا ہوا کہ کاش کوئی مالدار مسلمان یا اسلامی حکومت ایسے شہر میں جہاں اسلام ایک اجنبی دین ہے، ایک ایسا ہی میوزیم قائم کرے جس میں قرآنی آیات کے سائنسی انکشافات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ پیشین گوئیوں کو جدید آلات کے ذریعے مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہو۔ اس مجوزہ میوزیم میں علومِ اسلامیہ کی برتری اور مسلمانوں کی فنی و سائنسی خدمات کو نمایاں کیا جائے۔ اسلام اور عیسائیت ویہودیت میں مشترکہ باتوں کو نمایاں کرکے اسلام کو آخری دین بتا کر اس کی طرف دعوت دی جائے۔ اگر یہودی غلبہ والے شہر میں ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو نیویارک، شکاگو یا بوسٹن وغیرہ میں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد بستی ہے، ایسا میوزیم بنا یا جاسکتا ہے۔

اس شہر میں ہم نے یہودی سکول Gross Schecter Academy، عیسائی سکول St. Ignatius Elementary School اور الاحسان اسلامک سکول کے دورے کئے۔ مختلف مذاہب کے 10 رہنماؤں اور یونیورسٹی پروفیسرز کے مابین 3 گھنٹے طویل مکالمہ میں شرکت کی۔ ایک یہودی گھرانے کی ضیافت میں شرکت اور 'راک اینڈ رول میوزیم' کے دورے کے علاوہ آخری روز فلسطینیوں اور یہودیوں کو قریب لانے کے لئے 'اسماعیل اینڈ اسحق ' نامی تنظیم کے صدر سمیر محمد اور جنرل سیکرٹری سے ملاقات ہوئی۔سمیر 5 برس کی عمر میں فلسطین کے مشرقی کنارے سے امریکہ منتقل ہوئے اور وہ مختلف تنظیموں ، مثلاً عرب امیرکن کمیونٹی سنٹرفار اکنامک اینڈ سوشل سروسز،کلیو لینڈ عرب امیرکن مڈل ایسٹ آرگنائزیشن، البیرہ فلسطین ایسوسی ایشن وغیرہ کے چیئرمین یا بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر رہ چکے ہیں ۔

ان سکولوں کے معائنے کے دوران ایک حیران کن حقیقت کا انکشاف ہوا۔ دنیا کی سپر قوت کا تعلیمی نظام کچھ سالوں سے شدید شکست وریخت کا شکار ہے اور امریکی عوام اور حکومت اس سلسلے میں شدید پریشان ہیں ۔ وہاں کے اخبارات میں صدر بش کی اپنے عوام کو یہ تنبیہ بھی پڑھنے کو ملی کہ اگر ہم نے اپنے تعلیمی رویے درست نہ کئے تو پھر مستقبل کا امریکہ چین اورانڈیا کے قابل نوجوانوں کی جنت ہوگااور امریکیوں کو ان کی ماتحتی میں کام کرنا پڑے گا۔

پبلک سکولوں میں معیارِ تعلیم اور اخلاقیات کے شدید انحطاط کی وجہ سے بہتر مالی استعداد رکھنے والا ہرشخص اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں داخلہ دلوانے کو ترجیح دیتا ہے۔ امریکہ میں مذہبی ؍ خانقاہی سکولوں کی تعداد 30 ہزار کے لگ بھگ ہے اور اخلاقی انحطاط مثلاً شراب نوشی اور اختلاط کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی لوگ اپنے بچوں کو ان سکولوں میں داخل کرواتے ہںا ۔

برصغیر کے برعکس یہاں اکثر مذہبی ادارے ابتدائی تعلیمی مرحلہ کے ہیں ۔ ہرریاست نے تعلیم کا ایک لازمی خاکہ تیار کررکھا ہے اور جو بھی اپنے سکول میں ان لازمی مضامین کی تدریس کراتا ہے، اس کے بچے بعد میں قومی نظام تعلیم میں شریک ہوجاتے ہیں ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے پاکستان میں دارِ ارقم سکولز، الدعوة سکولز یا دیگر اسلامی سکول جن کے معیارِ تعلیم پر تو بحث ہوسکتی ہے، لیکن اُنہیں قومی نظام تعلیم میں داخل ہونے کے بارے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔ خود پرائیویٹ عیسائی تعلیمی مراکز میں بھی اعلیٰ تعلیمی مرحلہ کے ادارے چند ایک ہیں ۔ ان مذہبی تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم سرکاری سکولوں سے بہت اچھا ہے اور مستقبل کی امریکی قیادت انہی سکولوں سے نکل رہی ہے۔

کلیو لینڈ سے ہم تیسرے شہر میم فس Memphisکے لئے روانہ ہوئے۔ میم فس میں 12 تا 15؍اپریل کے دوران ہمارا موضوع 'مذہب اور معاشرہ' تھا۔ یہ شہر امریکی کلچر اور میوزک کی وجہ سے مشہور ہے۔ انتہائی سرسبزشہر جس کی اہم ترین صنعت کپاس ہے۔ امریکہ بھر کی ایک تہائی کپاس یہاں پیدا ہوتی اور دنیا بھر میں بھیجی جاتی ہے۔ دریائے نیل کے بعد دوسرا بڑا دریا Mississippi اس شہر کے ساتھ ساتھ بہتا ہے۔ قدرتی خوبصورتی سے یہ شہر مالا مال ہے۔ 'ہالی ڈے اِن' ہوٹلز اور Fedexکورئیر اینڈ کارگو کمپنی کا وطن ہے۔دو صدیوں سے یہاں کا ایئرپورٹ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سامان ترسیل کرنے میں سرفہرست ہے۔ امریکہ کے قریباً وسط میں واقع اس شہر سے امریکی پاپ میوزک کے بڑے بڑے نام وابستہ ہیں ۔یہاں کی مشہور Beale سٹریٹمخصوص آزاد کلچر کی وجہ سے ملک بھر میں شہرت رکھتی ہے، جہاں ملک بھر سے خصوصی سپورٹس موٹر سائیکلوں کا اکٹھ ہوتا اور نت نئی وضع قطع والے مرد وعورت ان دیو ہیکل موٹر سائیکلوں پر سواری کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ امریکہ کے مشہور زمانہ گلوکارElvis Presley کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا اور اس کی زندگی کی یادگاروں ، روز مرہ استعمال کی چیزوں ، گائیکی کے نمونے اور ان پر فنی تبصروں کو محفوظ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان میوزیم بھی اسی کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔ ایسے ہی امریکہ میں شہری حقوق کے لئے لڑنے والے عظیم رہنما ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی یادگار بھی یہیں ہے، جہاں 4؍اپریل 1968ء کو ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسے ایک سفیدفام امریکی نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ وہ ہوٹل جہاں یہ حادثہ ہوا، شہری انتظامیہ نے اس کی یاد میں خرید کر محفوظ کردیا ہے اور ساتھ ہی 'امریکن سول رائٹس میوزیم' بھی قائم کردیا ہے جس میں سیاہ فاموں کے لئے سول رائٹس کے حصول کی پوری جدوجہد کے مراحل کو تین منزلوں پر محفوظ کیا گیا ہے۔ امریکی تاریخ کا یہ پہلوقابل مطالعہ ہے، جس کی تفصیلات مستقل مضمون کی متقاضی ہیں ۔

خوش کن امریہ ہے کہ یہاں مسلم کمیونٹی بہت زیادہ فعال ہے۔ اور اس کی قیادت ایک راسخ العقیدہ اور انتہائی متحرک وفعال مسلمان نبیل بہکلے کررہے ہیں ۔ ان کی زیرنگرانی Pleasant Viewکے نام سے ایک معیاری مسلم سکول کی زیارت کا موقع بھی ملا۔ اس سکول کے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی ہیں جو 35 برس سے امریکہ میں قیام پذیر ہیں ۔ جناب نبیل کو بھی نائن الیون سے اگلی رات امریکہ چھوڑنے کا حکم ملا لیکن بعد میں 7500 ڈالر کی زر ضمانت، تمام حلقوں میں مقبول عام شخصیت اور سوسائٹی میں متحرک کردار کی وجہ سے امریکی عدالت کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ موصوف یہودی؍ فلسطینی مسئلہ پرخصوصی مہارت رکھتے ہیں ۔ان کی زیر سرپرستی مسلم کمیونٹی نے یہاں مختلف شارٹ کورسز کے علاوہ قرآن و حدیث اور تجوید کورسز کا اہتمام کررکھا ہے جو زیادہ ترہفتہ کے اختتام پر ہوتے ہیں ۔ حال ہی میں اُنہوں نے لوکل حکومت سے مارچ کا پورامہینہ اسلامی سرگرمیوں کے لئے مختص کرنے کی منظوری لینے میں کامیابی حاصل کی ہے جس میں وہ امریکہ اوردنیا بھر سے مسلم مقررین(مثلاًکیلی فورنیا کے نو مسلم امریکی نوجوان حمزہ یوسف اورلندن میں مقیم سابقہ معروف سنگر نو مسلم یوسف اسلام وغیرہ) کو اپنے ہاں دعوت دیتے ہیں اور وہ مختلف مذاہب سے وابستہ لوگوں کواسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔

یہاں سے ایک امریکی نوجوان غیاثی(Jyassi) میکنزی مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے گیا اور 2000ء میں فراغت کے بعد سے اس شہر کے علمی وتبلیغی سرگرمیوں کی قیادت کر رہا ہے ۔2005ء میں قائم کردہ اسلامک دعوة سنٹر اور مسلم یوتھ آف میم فس کانفرنس کے ذریعے ہر ماہ چرچ اور مسلم رہنماؤں میں مکالمے اور کھانوں ؍مہمانوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔

افریقی امریکن(iii) چونکہ زیادہ ترغریب اور کم تعلیم یافتہ ہیں ، ان کی کثرت کی وجہ سے یہاں دینی وسماجی سرگرمیاں عروج پر ہیں ۔ امریکہ میں قانونی مساوات کے باوجود ان لوگوں کو تاحال ملازمتوں میں مشکل پیش آتی ہے۔جدید دنیا کی قیادت کرنے والے شہر واشنگٹن میں ہماری قیام گاہ کے ساتھ ہی ایک عمارت پر مجھے آج بھی وہ بورڈ لگا نظر آیا جس پر درج تھا کہ''سیاہ فام عقبی دروازہ استعمال کریں ۔'' میم فس میں عیسائی مفت صحی مراکزاور چرچ و سکول منسٹری بھی قائم ہیں جس کے 36 سکولوں کا بجٹ 15 ملین ڈالر تک ہے جن میں 691 اساتذہ 8700 طلبہ وطالبات کو تعلیم دے رہے ہیں ۔ یہ سرگرمیاں زیادہ تر کیتھولک چرچ کے زیر نگرانی ہورہی ہیں ۔

میم فس میں قیا م کے دوران ہمیں مشہور امریکی گلوکار ایلوس کے یادگاری میوزیم، میوزک میوزیم اورسول رائٹس میوزیم میں جانے کا اتفاق ہوا۔ عیسائی مرکز ِتعلیمات،Catholic Diocese، کرسچین کمیونٹی ہیلتھ سروسزکے علاوہ مسلم سکول پلیزنٹ ویو اور مسلم رہنمائوں سے بھی ملاقات ہوئی۔

چوتھا شہر Santa Feریاست نیومیکسیکوکا دار الحکومت ہے۔ یہ شہر صحرا میں واقع ہے لیکن بہرحال یہ صحرا مشرقِ وسطیٰ کے صحرائوں کی طرح شدید نہیں ۔ نیو میکسیکوامریکہ کے اصل باشندوں Native Americansکا وطن ہے جو صدیوں سے امریکہ میں آباد تھے۔ یہ شہر دار الحکومت سے زیادہ آرٹ کالونی کی حیثیت رکھتاہے، قدیم طرزِ تعمیر کو خوبصورت انداز میں محفوظ کیا گیا ہے، جدیدعمارتوں کو بھی اسی طرز تعمیر کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ یہاں کے باشندے آرٹ ، مجسمہ سازی اور مصوری کے عمدہ ذوق سے مالا مال ہیں ۔ شہر کے عین درمیان میں چند کلومیٹر پر مشتمل احاطہ میں 400 سال پرانے شہر کو محفوظ کیا گیا ہے۔ ہر کونے او رچوک پر کوئی مجسمہ یا فن پارہ آویزاں ہے۔ سیاحوں کی اکثریت اس شہر کا رخ کرتی ہے۔ اکثر عمارتیں ایک منزلہ ہیں لیکن جدید سہولیات کسی بھی شہر سے کم نہیں ۔ یہاں ایک بڑا عیسائی قبرستان دیکھاجس میں قطار درقطار نائن الیون میں ہلاک ہونیوالے امریکیوں کی قبروں کے کتبے لگے تھے۔ ایسے ہی مختلف جنگی مشنوں پر جانے والے فوجیوں کی نعشیں بھی مختلف احاطوں میں دفن کی گئی تھیں ۔ یہ شہر دار الحکومت سے زیادہ ایک تاریخی مقام لگتا ہے جس میں امریکہ کے اصل باشندوں نے اپنے قدیم رہن سہن کو محفوظ کرنے کے لئے مختلف ادارے قائم کئے ہوئے تھے جہاں پرانے انداز کے گھر اور ان میں استعمال ہونے والی چیزوں کی تیاری کے لئے چھوٹی موٹی ورکشاپوں میں کام ہورہا تھا۔اس شہر میں سکھ مذہب کا سب سے بڑا امریکی مرکز موجود ہے، بدھ مذہب کے بھی دو تین مراکز میں جانے کا موقع ملالیکن افسوسناک امریہ ہے کہ مسلمانوں کی شہر بھر میں ایک مسجد بھی نہیں تھی، نہ ہی حکومت کو کوئی ایسا مسلم رہنما مل سکا جو ہمارے وفد سے ملاقات کرسکتا۔جبکہ اسی شہر میں 67 چرچ ، 7 عیسائی سکول یعنی دینی مدارس اور تین عیسائی ٹی وی نیٹ ورک کام کررہے ہیں ۔

سانٹا فے میں 15 تا 19؍ اپریل کے دوران 'مذہب اور حکومت'دورے کا مرکزی نکتہ تھا۔ یہاں سکھ مت کے سب سے بڑے امریکی سنٹرSikh Dharma، یہودیوں کے Temple Beth Shalom، Jewish & Christian Dialogue ،تبتی بدھ مت اور جین مت کے مراکز میں جانے کا موقع ملا، اصل امریکی باشندوں کے محفوظ شدہ تاریخی محلہ اور اس کلچر کو محفوظ کرنے کے لئے قائم مرکز Pojoague People کا مشاہدہ کیا۔

امریکہ بھر میں اور بالخصوص اس شہر میں قیام کے دوران اللہ عز وجل کی شانِ صمدیت (بے نیازی) کا تاثر ذہن پر غالب رہا۔ حدیث ِنبویؐ کے مطابق زنا کاری پر روئے کائنات میں اللہ عزوجل سے زیادہ کسی کو غیرت نہیں آتی۔ شرک والحاد اور فحاشی وبے راہ روی کی نجاستوں میں لتھڑے ان لوگوں کو جب ربّ ِکریم دنیاوی نعمتوں کی فراوانی دیتا ہے تو بے اختیار حضرت موسیٰ کا فرعون کے بارے میں اپنے ربّ سے یہ شکوہ زبان پر آجاتا ہے :
رَ‌بَّنَآ إِنَّكَ ءَاتَيْتَ فِرْ‌عَوْنَ وَمَلَأَهُۥ زِينَةً وَأَمْوَ‌ٰلًا فِى ٱلْحَيَو‌ٰةِ ٱلدُّنْيَا رَ‌بَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ...﴿٨٨﴾...سورۃ یونس
'' ہمارے ر بّ! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیاوی زیب زینت اور مال ودولت کی فراوانی اس لیے عطا کی ہے کہ وہ تیرے راستے سے بھٹکا دیں ۔''

ایسے شہر میں جہاں اللہ کی توحید پر ایمان رکھنے والا کوئی نہ تھا،اللہ کی عبادت کر کے ہمیں جہاں روحانی سکون ملتا، وہاں یہ تصور بھی پختہ ہوتا کہ یہ دنیاوی آسائش وآرائش کسی کی اللہ سے قربت اور ناراضگی کی دلیل نہیں ،بلکہ اللہ اپنے نا فرمانوں مثلاً فرعون وہامان کو مسلمانوں سے زیادہ نوازتاہے تا کہ وہ سرکشی میں مزید بڑھ جائیں ۔(آلِ عمران:178) اور آخرت میں ان کے لیے محض محرومی ہے(البقرة:200) لیکن سکون واطمینان جو دنیا میں اسلام کا اصل ہدف اور ربّ کی نعمت عظمیٰ ہے، صرف اللہ پر ایمان لانے والوں کے لیے ہی مخصوص ہے۔

êآخری شہر سان فرانسسکو میں 19 سے 22؍ اپریل کے دن گزرے۔ موضوع 'یونیورسٹیاں سماجی انصاف اورمذہبی آزادی' تھا۔یہاں امریکہ میں بدھ مت کے سب سے بڑے مرکز 'سان فرانسسکو زین سنٹر(Zen Centre)'کی زیارت کی۔ یہاں کے سربراہ کی زبانی زین مت اور بدھ مت میں یہ فرق معلوم ہوا کہ بدھ مت پر مشرقی روایات غالب ہیں ، ان روایات کوچھوڑ کر بدھ مت کی فکر ی بنیادوں کو حاصل کرکے جب جاپان، کوریا اور چین وغیرہ میں اس کو زیر عمل لایاگیا تو اسی کو زین مت کا نام دیا گیا یعنی دونوں میں اصل فرق روایات اور کلچرکا ہے، فلسفہ ایک ہی ہے۔

امریکی آرمی کے نظم Presidioکے چیپلن Mr. Paul Chaffee سے Interfaith Centre میں ملاقات ہوئی، جنہوں نےUnited Religion Initiative کے نام سے تمام مذاہب پر مشتمل ایک ادارہ قائم کررکھا ہے جس کے 21 نکاتی منشور سے متفق ہونے کے بعد دنیا بھر میں کوئی بھی اس کا رکن بن سکتا ہے۔سان فرانسسکو یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف تھیالوجی اینڈ ریلیجیسسٹڈیز کے تمام پروفیسرز سے بھی ایک ملاقات ہوئی جہاں 'اسلام اور دہشت گردی' کے حوالے سے مکالمہ ہوا۔بعد میں اسی یونیورسٹی کے 'سنٹر فار کیتھولک سٹڈیز اینڈ سوشل تھاٹ' کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی۔ رابطے کی زبان انگریزی تھی، البتہ مسلمانوں سے عربی میں بات چیت کرکے روحانی خوشی محسوس ہوتی۔

دورہ کے آغاز میں واشنگٹن میں ایک تعارفی ؍ خیر مقدمی مجلس کی طرح آخر میں جائزہ (Evaluation)سیشن بھی ہوا، جس میں شرکا کے تاثرات اور تجاویز کے بعد محکمہ خارجہ کی طرف سے سر ٹیفکیٹ پیش کئے گئے اور دو طرفہ تشکر آمیز کلمات کے بعد پروگرام کا باضابطہ اختتام ہوا۔ (دورہ کے تاثرات اور مزید مشاہدات کے لئے اگلا شمارہ ملاحظہ فرمائیں ، ان شاء اللہ)

 


 

i. واشنگٹن کی گنبد نما عمارت وائٹ ہاؤس نہیں بلکہ کیپٹل بلڈنگ Capitol Buildingہے جس میں گنبد کے دائیں بائیں قومی اسمبلی اور سینٹ کے ایوان ہیں اور گنبدکے عین نیچے امریکی تاریخ کی اہم شخصیات اور قومی سنگ ہائے میل کی تاریخ محفوظ کی گئی ہے۔اس کے قرب وجوار میں سپریم کورٹ، لائبریری آف کانگرس اور دیگر اہم عمارتیں ہیں ۔اس پورے علاقے کو Capitol Hillکہا جاتا ہے۔
ii. یاد رہے کہ امریکہ میں پریس حکومتی عمل دخل سے بظاہر آزاد ہے اور امریکی حکومت کوئی اخباری ادارہ قائم نہیں کرسکتی۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں زیر استعمال ریڈیو سیٹوں میں تو دور دراز سے خبریں سننے کی تکنیکی صلاحیت موجود ہوتی ہے لیکن امریکہ میں فروخت ہونیوالے ریڈیو اکثر وبیشتر صرف داخلی خبریں ہی سنا سکتے ہیں ، اس سے پریس کے غیر معمولی اثرات کا بآسانی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
دلچسپ امریہ بھی ہے کہ مشہورامریکی چینل وائس آف امریکہ کی نشریات صرف بیرونِ ملک میں سنی جاسکتی ہیں ۔
iii. افریقن-امریکن وہ سیاہ فام لوگ ہیں جن کے آباؤ اجداد کو امریکیوں نے دو سو برس قبل افریقہ کے ساحلوں سے غلام بنا کر امریکہ لا آبادکیا، اسلحہ کے زور پر نوجوان افریقی اغوا کیے جاتے اور مزاحمت کرنے پر موت ان کا مقدر ٹھہرتی۔امریکیوں نے افریقی مردوں عورتوں کو جانوروں کی طرح جہازوں میں بھر کر امریکہ پہنچایا اور زندگی بھر کی غلامی ان کے حصہ میں آئی۔ ان سے ہر طرح کے شرمناک کام لیے جاتے اور انتہائی معمولی معاوضہ دیا جاتا۔جہاں تک موجودہ امریکی قوم کا تعلق ہے تو تاریخی طور پر سولہویں صدی میں برطانیہ نے اپنے ملک کے تمام جرائم پیشہ ا فراد، قاتلوں ،ڈاکؤوں اور قزاقوں کو جمع کر کے نو دریافت شدہ براعظم امریکہ میں دھکیل دیا۔ان لوگوں نے امریکہ کے اصل باشندوں ریڈانڈینز یا Native امریکن کو بے دردی سے قتل کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا اور مال واسباب لوٹ لیا اور اس سرزمین کے حاکم بن بیٹھے۔