فتاوی

شرکیہ عبارتوں یا منکرین عذاب قبر کو کافر قرار دینا
ایک بے اصل واقعہ ... قطب/ اَبدال کی چند روایات کی تحقیق


یہ طلاق دوسری ہے یا تیسری؟
سوال:25 سال قبل میں ملک سے باہر تھا اور میری بیوی میرے والدین کے پاس تھی۔ اس دوران میرے والد نے مجھے لکھا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ چنانچہ میں نے اپنے والد کی اطاعت کرتے ہوئے طلاق نامہ لکھ کر والد کو بھیج دیا مگر میرے والد نے وہ طلاق نامہ میری بیوی کو نہیں دیا اور نہ اسے بتایا۔ ایک سال بعد میں واپس آگیا اور بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگا۔ کچھ عرصہ بعد میرے والد اللہ کو پیارے ہوگئے، اس دوران میرا بیوی سے کوئی جھگڑا ہوا تو میں نے پھر بیوی کو طلاق دے دی۔ بعد ازاں پھر صلح صفائی ہوگئی۔ آج سے چند روز پہلے پھر ہمارا کسی بات پر تنازعہ ہوا تو جذبات میں آکرمیں نے پھر طلاق دے دی۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اب میں اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہوں یا نہیں؟ اور پہلی طلاق جس کا اب تک بیوی کو علم نہیں ہے، شمار میں آئے گی یا نہیں؟
جواب : صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ پہلے طلاق نامہ سے آپ کی بیوی کی علیحدگی ہوچکی تھی، طلاق کا بیوی کو علم ہونا ضروری نہیں۔
پھر سال بعد طلاق بلا محل ہے کیونکہ عقد ِزوجیت تو پہلے ہی منقطع ہوگیا تھا، پھر تیسری طلاق بھی بے موقع ہونے کی بنا پر بیکار ہے۔ اب رجوع کی گنجائش نہیں، البتہ نئے سرے سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ اس بنا پر کہ علیحدگی طلاقِ رجعی کی صورت میں ہوچکی تھی۔ بعد میں اس کو بحالت ِزوجیت رکھنا غلط فعل تھا، اب آپ کو اس عورت سے فوراً علیحدگی اختیار کرلینی چاہئے یہاں تک کہ دوبارہ نکاح ہو یا اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔

ایک بے اصل واقعہ
سوال:ایک صحابی نماز پڑھ کر ذکر ا ذکار کئے بغیر فوراً اٹھ کر گھر چلے جاتے تھے، دیگر صحابہ کے شکایت کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو اُنہوں نے بتایا کہ میرے اور میری بیوی کے پاس یہی ایک چادر ہے، میں اپنی بیوی کو یہ چادر دے دیتا ہوں تاکہ وہ نماز پڑھ لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''اگر کسی نے جنتی جوڑا دیکھنا ہو تو اُنہیں دیکھ لے۔'' __ پھر کہیں سے مال کے لدے ہوئے صدقے کے اونٹ آئے تو وہ آپؐ نے اُس صحابی کو دے دیے، جب وہ اونٹ لے کر گھر پہنچے تو بیوی نے کہا کہ یا مجھے گھر رکھو یا ان اونٹوں کو رکھو۔ چنانچہ اُس صحابیؓ نے وہ اونٹ واپس کردیے۔
اکثر واعظین و خطباے کرام بغیر کسی حوالہ کے یہ قصہ بیان کرتے ہیں۔اس قصے کی حقیقت کیا ہے؟ یہ کس کتاب میں مذکور ہے؟ صحابی کا نام کیا ہے؟ (ابوسعید اعوان بابا)
جواب: یہ قصہ بے اصل اور قصہ گو لوگوں کی ایجاد معلوم ہوتا ہے۔ تلاشِ بسیار کے باوجود ہمیں اس کا کوئی حوالہ نہیں مل سکا۔

سوال:مسجد کے نیچے تہہ خانہ بنا کر طلبا کو قرآن و حدیث کی تعلیم دی جائے اور وہ مسجد کا حصہ نہ ہو تو کیا اس کی تعمیر پر زکوٰة کی رقم لگائی جاسکتی ہے ؟
جواب: اگر مسجد کے نچلے حصہ کومکمل طور پر راستہ جدا کرکے مسجد کے حکم سے علیحدہ کردیا جائے تو ایسی صورت میں اس پر مالِ زکوٰة صرف ہوسکتا ہے۔

سوال:کیاگورنمنٹ کی ایسی جگہ پر مسجد تعمیر ہوسکتی ہے جس کا اکثر حصہ گورنمنٹ سے منظورشدہ ہے البتہ کچھ حصے کی منظور ی نہیں ہے جبکہ یہ حصہ تقریباً 35 سال سے عملاً مسجد میں شامل ہے۔ (عبدالقیوم، رئیس دارالعلوم محمدیہ)
جواب :حکومت کی جگہ ضرورت سے زائدہو تو اس کوزیر استعمال لانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ شرعاً قومی مال میں اصل چیز تصرف کا جواز ہے بشرطیکہ گزرگاہ کے لئے تنگی کا باعث نہ بنے۔ اس پر امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں باب قائم کیا ہے :
باب المسجد یکون في الطریق من غیر ضرَر بالناس
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: فتح الباری :1؍564 و 185

شرکیہ عبارات والے مصنّفین کو کافر کہنا؟
سوال:شیخ عبدالقادر جیلانی، شیخ علی ہجویری اور دیگر مشہور ترین بزرگ جنہیں ہمارے ہاں اولیاء اللہ خیال کیا جاتا ہے؛ ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی رحمة اللہ علیہ کے پیروکار کہتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں شرکیہ عبارات بھی پائی جاتی ہیں، لہٰذا جب تک ان بزرگوں کے کافر ہونے کا اظہار نہ کیا جائے، ہمارا ایمان بے کار ہے۔ اس بارے میں صحیح بات کیا ہے؟ (شیخ عبدالمجید،لاہور)
جواب: جن لوگوں کی زندگی کتاب و سنت کے مطابق گزری ہے ،ان پر اولیاء اللہ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ اگر کسی سے کوئی لغزش ہوئی ہے تو ربّ کریم سے ان کے لئے معافی کی درخواست کرنی چاہئے اور ان کی طرف منسوب شرکیہ کلمات سے بریت کا اظہار کیا جائے۔ اور ہر ایک پر کفر کی مشین چلانے سے اجتناب ضروری ہے، دلی بھیدوں کو اللہ ہی جانتا ہے۔

عقیدئہ عذابِ قبر کا منکر
سوال:کیا فرماتے ہیں علماے کرام لوگوں کے ایسے گروہ کے متعلق جو خود کو مسلمان بھی کہلاتے ہیں مگر اس کے باوجود عقیدئہ عذابِ قبر کے کلی طورپر منکرہیںاور اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تمام صحیح احادیث کو نعوذ باﷲ جھوٹا اور من گھڑت قرار دیتے ہیں؟
کیا ایسے لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں؟ اور انہیں کافر کہا جاسکتاہے؟
جواب: صحیح احادیث کے انکاری لوگوں سے ہر صورت اجتناب ضروری ہے، ان کا انجام کار بلاشبہ کفرہے ، البتہ ان کو کافر کہنے کی بجائے ایسے لوگوں کی ہدایت کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت سے سرفراز فرما دے۔

سوال:درج ذیل احادیث کی تحقیق مطلوب ہے،ان کی اسنادی حیثیت واضح فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔(حفیظ اسلم، علامہ اقبال ٹاؤن،لاہور)
ذُکر أهل الشام عند علي بن أبي طالب وھو بالعراق فقالوا: اِلعنھم یا أمیرالمؤمنین۔قال: لا إني سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول: (الأبدال یکونون بالشام وھم أربعون رجلًا کلما مات رجل أبدل اﷲ مکانه رجلا یسقي بھم الغیث وینتصر بھم علی الأعداء و یُصرف عن أھل الشام بھم العذاب)
(لا یزال أربعون رجل من أمتي قلوبھم علی قلب إبراھیم یدفع اﷲ بھم عن أھل الأرض،یقال لھم الأبدال)قال رسول اﷲ:(إنھم لم یدرکونھا بصلاة ولا بصوم ولا صدقة) قالوا: یارسول اﷲ فیم أدرکوھا؟ قال: (بالسخاء والنصیحة للمسلمین)
مولانا زکریا صاحب کی کتاب فضائل اعمال کی فصل 'فضائل رمضان' کے تحت ص 643 پر یہ روایت ذکر کی گئی ہے۔
سیوطی کی 'جامع الصغیر' اور سخاوی رحمة اللہ علیہ کی 'مقاصد'سے بروایت ِابن عمرؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ'' میری اُمت میں ہر وقت پانچ سو برگزیدہ بندے اور چالیس ابدال رہتے ہیں۔ جب کوئی شخص ان میں سے مر جاتا ہے تو فوراً دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔''صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ ان لوگوں کے خصوصی اعمال کیا ہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایاکہ ''ظلم کرنے والوں سے درگزر کرتے ہیں اور برائی کا معاملہ کرنے والوں سے (بھی)احسان کا برتاؤ کرتے ہیں اور اللہ کے عطا فرمائے رزق میں لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور غمخواری کا برتاؤ کرتے ہیں۔

جواب از کامران طاہر ( ریسرچ فیلو مجلس التحقیق الاسلامی) :
تحقیق روایت :یہ روایت مسند احمد:1؍112 میں اس طرح درج ہے :حدثنا أبو المغیرة حدثنا صفوان حدثني شُریح یعنی ابن عبید قال ذُکر أهل الشام۔۔۔ الخ علامہ البانی رحمة اللہ علیہ نے کہا کہ اس کی سند منقطع ہے۔1
سعودی علما کے ایک پینل نے مسنداحمد کی تخریج و تحقیق کرتے ہوئے اس حدیث کو شریح بن عبید کے حضرت علی ؓ سے ملاقات ثابت نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف کہا ہے اور کہا ہے کہ اس معنی کی صحابہ ؓ سے نقل کی گئی تمام روایات ضعیف ہیں۔2
تحقیق روای :یہ روایت طبرانی :10390،مجمع الزوائد:10؍63،حلیة الأولیاء: 4؍173 میں مرقوم ہے اور طبرانی نے اس کی سند یوں بیان کی ہے :حدثنا أحمد بن داود المکي ثنا ثابت بن عیاش الأحدب ثنا أبو رجاء الکلبي ثنا أعمش عن زید بن وھب عن ابن مسعود قال قال رسول اﷲ: (لا یزال أربعون رجلا۔۔۔ الخ اس میں ثابت بن عیاش الاحدب اور ابو رجا نامی راوی مشکوک ہیں۔ علامہ ہیثمی ثابت بن عیاش الاحدب اور ابو رجا کلبی کے متعلق لکھتے ہیں :''کلاهما لم أعرفه'' ''میں ان دونوں میں سے کسی کو نہیں جانتا'' علامہ البانی رحمة اللہ علیہ ابو رجا کلبی کے متعلق ابن عدی کے حوالہ سے لکھتے ہیں : أحادیثه غیر محفوظة '' اسکی احادیث علتوں سے محفوظ نہیں ہیں۔'' 3

اور ابن حبان رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں: لا تحل روایة عنه ''اس سے روایت کرنا جائز نہیں۔'' اور ابن معین نے صویلح کہہ کر اس راوی کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 4 لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
اس کے علاوہ البانی رحمة اللہ علیہ نے السلسلة الضعیفة میں اَبدال کے متعلق بہت سی روایات درج کر کے ان کی تضعیف فرمائی ہے ۔شوق رکھنے والے شیخ البانی رحمة اللہ علیہ کی کتاب کی طرف رجوع کریں۔

تحقیق روایت :یہ روایت مقاصد الحسنة للسخاوي :ص 8 ، الجامع الصغیر للسیوطي :2؍6اوراللآلي المصنوعة 2؍330 پر ذکر ہوئی ہے۔
شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے اس روایت پر جامع الصغیر کی روایات کی تحقیق میں 'موضوع' کا حکم لگایاہے۔5
علامہ ابن جوزی رحمة اللہ علیہ نے اسے اپنی کتاب 'الموضوعات' میں پوری سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور وہ سند اس طرح ہے: فأنبأنا محمد بن عبد الباقي قال: أنبأنا محمد بن أحمد قال: أخبرنا أبو نعیم الحافظ قال:حدثنا سلیمان بن أحمد قال: حدثنا محمد بن الحارث الطبراني،قال:حدثنا سعید بن أبي زیدون،قال:حدثنا عبد اﷲ بن هارون الصوري،قال حدثنا الأوزاعي عن الزهري عن نافع عن ابن عمر،قال: قال رسول ﷺ (خیار أمتي في کل قرن خمس مائة۔۔۔ الخ) 6

علامہ البانی رحمة اللہ علیہ مذکورہ سندکے متعلق لکھتے ہیں:
''میں کہتا ہوںیہ سند ظلمات کا پلندہ ہے۔ سعید بن ابی زید اور عبد اللہ بن ہارون مجہول ہیں اورعلامہ ذہبی رحمة اللہ علیہ نے میزان الاعتدال میں اوزاعی سے نقل کرتے ہوئے عبد اللہ بن ہارون کے بارے میں کہا ہے کہ لا یعرف والخبر کذب في أخلاق الأبدال '' یہ آدمی مجہول ہے اور اس ابدال کے اخلاق (وجود) والی خبر ہی بالکل جھوٹ ہے۔'' میں کہتا ہوں کہ یہی بات درست ہے ۔ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے بھی لسان المیزان کے اندر اس بات کو ثابت کیا ہے۔ 7

اس کے علاوہ علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ اس روایت کو بیان کر کے لکھتے ہیں: ''لا یصح فیه من لا یعرف'' یہ روایت صحیح نہیں اس کی سند میں جہالت ہے۔8

شیخ البانی رحمة اللہ علیہ اس روایت کی تحقیق کے آخر میں اپنی رائے یوں بیان فرماتے ہیں :
'' ابدال کے بارے میں کوئی ایک (سند) بھی صحیح نہیں بلکہ (اس بارے ) تمام روایات معلول ہیں اور ہر ایک دوسری سے زیادہ ضعیف ہے۔''9

حافظ ابن قیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
'' ابدالوں ،قطبوں،غوثوں ،نقبا، نجبا اور اوتادوں کے بارے میں جتنی روایات مروی ہیں وہ سب کی سب اللہ کے رسولؐ پر جھوٹ ہیں۔'' 10


حوالہ جات
1. مشکوٰة للألباني :6268
2. الموسوعة الحدیثیة :2؍231
3. السلسلة الضعیفة: 1478
4. لسان المیزان:2؍468
5. ضعیف الجامع:28؍68
6. رقم: 1638
7. السلسلة الضعیفة :935
8. الآلي المصنوعة في الأحادیث الموضوعة :2؍331
9. السلسلة الضعیفة:2؍339
10. المنار المنیف: ص 133،رقم:307