شرعی ضابطے اورمناسک ِحج کی رخصتیں
زیر نظر مضمون سعودی عرب کے نامور داعی شیخ سلمان بن فہد العودۃ کے کتابچے ''اِفْعَلْ وَلاَ حَرَج'' کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس کتابچہ میں شیخ موصوف نے عصر حاضر میں حجاج کرام کی مشکلات اورمسائل کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت میں موجود سہولیات اور رخصتوں کو بیان کیاہے اور موضوع سے متعلقہ آیات، احادیث، آثار و اقوالِ سلف اور معاصر علماے کرام کے فتاویٰ جات کو جمع کردیا ہے۔ یہ کتاب منفرد اُسلوب کے ساتھ لکھی گئی ہے جس میں صاحب ِکتاب نے دیباچہ کے بعد درج ذیل موضوعات پر گفتگو کی ہے:
1.حج کے منافع 2.تکرار ِحج 3. « اِفعل ولاحرج »
4.ارکانِ حج میں آسانی(وقوفِ عرفہ اور طوافِ افاضہ وطہارت) 5.رمی میں آسانی (مقام، وقت، نیابت)6.تحلل اور مبیت ِمنیٰ میں آسانی 7.قربانی میں آسانی
پھر ان موضوعات کے تحت کتاب و سنت، اقوال و آثار اور معاصر علماے کرام کے فتاویٰ جات سے ماخوذ سہولتوں اور رخصتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاہے۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں سعودی کبار علماء بورڈ کے سابق رکن شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن بن جبرین، شیخ عبداللہ بن سلیمان بن مَنیع اور شیخ عبداللہ بن شیخ محفوظ بن بیہ کے مقدمات وتقریظات شائع کی گئی ہیں۔
عصر حاضر میں اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر سعودی عرب کی وزارتِ مواصلات الاتصالات السعودية نے اس کتابچہ کو وسیع پیمانے پر مفت تقسیم کیا ہے۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اُردو ترجمہ پیش خدمت ہے جو شریعت کے ایک اہم مقصد پر مبنی ہے تاہم اس کتابچہ کی بڑے پیمانے پر اشاعت کے بعد سعودی عرب کے دیگر راسخ فکر علما میں ایک بحث نے جنم لیا کہ اگر حج کے بارے میں رخصتوں کی تلاش کا یہی رویہ اپنا لیا گیا تو اس سے حج جیسا اہم شعار حقیقی روح اور بنیادی ڈھانچے سے ہی محروم نہ ہوجائے، چنانچہ اس مضمون کے ردّ میں متعدد عرب علما نے وضاحتی مضامین تحریر کئے جن کی تلخیص آئندہ شمارہ میں ''بجواب اِفعل ولا حرج'' کے طور پر شائع کی جارہی ہے۔ جوابی وضاحت کو پڑھے بغیر زیر نظر مضمون سے استفادہ سنگین غلطیوں کا موجب ہوگا۔ (ادارہ)
زیر نظر مضمون میں مسائل حج اوراس کی آسانیوں کو ذکر کیا گیاہے جس میں دورانِ حج پیش آمدہ بعض مسائل و مشکلات کاحل ہے۔بالخصوص ایسے مسائل جن کے بارے میں حجاج کرام عموماً اُلجھن اور مشکلات کاشکار رہتے ہیں۔
پہلے اس موضوع کو مختلف رسائل و جرائد میں شائع کیاگیا تھا،جس کو علماے کرام نے سراہا اور اس کی تائید کی۔ لہٰذا نفع کی اُمید رکھتے ہوئے اب اس کو مستقل کتابچہ کی صورت شائع کیا جارہا ہے، اللہ سے دُعا ہے کہ وہ اس کو دنیا و آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے۔ (مؤلف)
اللہ ربّ العزت نے عبادات کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ ان کے مقاصد اور حکمتیں بھی بیان کی ہیں لیکن لمبا عرصہ گذر جانے اور لوگوں کے دل سخت ہوجانے کی وجہ سے اب عبادات کو رسوم و رواج بنالیا گیاہے۔ لوگ عبادات کو ان کے اصل مقاصد سے ہٹ کر ظاہری شکل وصورت میںادا کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں خلوص کی بجائے عبادات کے اوقات اور تفصیلات ہی نقش ہوچکی ہیں کہ فلاں فلاں عبادات کو ان ان اوقات میں فلاں طریقے پر اَدا کرنا ہی مقصودِ حقیقی ہے۔ عبادات کو رسوم و رواج سمجھ لینے کے بعد وہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ لوگ ان میں اپنی طرف سے کمی و زیادتی کرنا شروع کردیتے ہیں اورنئی نئی بدعات گھڑ لیتے ہیں کیونکہ ان کے اَذہان اصل روح اور مقصد سے ہٹ کر اس کی ظاہری شکل و صورت پرمرتکز ہوچکے ہوتے ہیں۔
عبادات کی روح
میں نے جب قرآن مجید کی ان آیاتِ مبارکہ کو جمع کیا، جن میں عبادات کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ ان کے مقاصد اور حکمتوں کوبھی بیان کیا گیاہے تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر عبادت کی کوئی نہ کوئی حکمت اورمقصد ضرور بیان کیاہے۔مثلاً اُمّ العبادات نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ الصَّلوٰةَ تَنهىٰ عَنِ الفَحشاءِ وَالمُنكَرِ...٤٥﴾... سورة العنكبوت
''بے شک نماز بُرائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔''
زکوٰۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿خُذ مِن أَموٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم وَتُزَكّيهِم بِها وَصَلِّ عَلَيهِم...١٠٣﴾... سورة التوبة
''اے نبیؐ! تم ان کے اَموال میں سے صدقہ لے کر اُنہیں پاک کرو اور اُنہیں بڑھاؤ اور ان کے حق میںدُعاے رحمت کرو۔''
یہی وجہ ہے کہ جب کسی قبیلے کے لوگ آپؐ کے پاس اپنی زکوٰۃ لے کرآتے تو آپؐ ان کے لیے یہ دعا فرماتے :
«اللھم صلِّ علی آل فلان» [صحیح بخاری:۱۴۹۸،مسلم :۱۷۸]
''اے اللہ! آلِ فلاں پر رحمت فرما۔''
روزے کی حکمت سے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ١٨٣﴾... سورة البقرة ''تاکہ تم متقی بن جاؤ''
قربانی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لَن يَنالَ اللَّهَ لُحومُها وَلا دِماؤُها وَلـٰكِن يَنالُهُ التَّقوىٰ مِنكُم...٣٧﴾... سورة الحج
''نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔''
1. منافع حج
اسی طرح حج کے مقاصد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لِيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ...٣٤﴾... سورة الحج
''تاکہ اللہ کا نام ذکر کریں۔''
یہی وجہ ہے کہ مقاصد ِحج بیان کرتے ہوئے سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
«إنما جعل الطواف بالبیت وبین الصفا والمروة ورمي الجمار لإقامة ذکر اﷲ» [سنن دارمی:۱۷۸۰، مسند احمد:۲۳۲۱۵،سنن ابوداؤد:۱۸۸۲]
''بے شک طوافِ بیت اللہ، سعی ٔصفا و مروہ اور رمی ٔجمار کا مقصد ذکر ِالٰہی کوقائم کرنا ہے۔''
بسا اوقات مؤمن بندہ ذکر ِالٰہی کے قیام کے لیے طواف کرتا ہے پھر تیز تیز چلنا اور کندھوں کو مٹکا مٹکا کر دیگر مسلمانوں کو اَذیت دیتے ہوئے دورانِ طواف اپنی جسمانی قوت کا اظہار کرناشروع کردیتا ہے۔
اسی طرح آج کل زیادہ رش ہونے کی وجہ سے طواف وغیرہ میں زیادہ محتاط چلنے کی ضرورت ہوتی ہے ،لیکن بعض لوگ تو اس امر پر فخر کرتے نظر آتے ہیں کہ میں نے گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرلیا حالانکہ نبی کریمﷺ کی سنت اطمینان اور سکون سے چلنا ہے۔ جب آپؐ عرفہ سے واپس لوٹتے تو سکون اور اطمینان کے ساتھ چلتے، اور یوں فرماتے :
«علیکم بالسكينة... فإن البر لیس بالإیضاع» [صحیح بخاری:۱۶۷۱]
''سکون کو لازم پکڑو، سکون کو لازم پکڑو، بے شک تیز چلنے میں نیکی نہیں ہے۔''
حج کا مقصد نیکی ہے اور یہ نیکی تیز چلنے، رش ڈالنے اور دھکم پیل کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ اس کا حصول سکون اور اطمینان کے ساتھ چلنے سے ہی ممکن ہے۔
کیا حجاجِ کرام رمیِ جمار کے وقت اس مقصد کو پیش نظر رکھتے ہیں کہ وہ رمی جمار کرتے وقت سکون و اطمینان کے ساتھ چلیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کو بلند کریں؟ لیکن امر واقعہ اس کے خلاف ہے کہ رمی جمار کے وقت خوب دھینگا مشتی اور دھکم پیل کا مظاہرہ ہوتا ہے جس سے کئی اَفراد قدموں تلے روندے جاتے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ان اجتماعی عبادات میں درحقیقت خلوص وجذبہ کے علاوہ دوسروں کے حقوق کی رعایت، بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت ، جاہل سے درگذر اور کمزوروں کے ساتھ تعاون کی تربیت بھی مقصود ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿الحَجُّ أَشهُرٌ مَعلومـٰتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فيهِنَّ الحَجَّ فَلا رَفَثَ وَلا فُسوقَ وَلا جِدالَ فِى الحَجِّ...١٩٧﴾... سورة البقرة
''حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔جو شخص ان مقررہ مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہئے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی حرکت، بدعملی اور لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔''
یہی وجہ ہے کہ حالت ِاحرام میں انسان بعض جائز دنیوی خواہشات سے بھی دور رہتا ہے اور شہوت کو مہمیز دینے والے اُمور سے خصوصی طور پربچتا ہے۔ حج و دیگر عبادات میںمشروع ہرطریقہ بندوں کی دنیوی و اُخروی مصلحت کے لیے ہے۔ اسی لیے حج کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لِيَشهَدوا مَنـٰفِعَ لَهُم...٢٨﴾... سورة الحج
''تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو ان کے لیے یہاں رکھے گئے ہیں۔''
یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریمﷺ نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جس کو گھسیٹ کر لایاجارہا تھا کیونکہ اس نے پیدل چل کر حج کرنے کی نذر مانی تھی تو آپؐ نے فرمایا:
«ان اﷲ عن تعذیب ھٰذا نفسه لغني» [صحیح بخاری:۱۸۶۵، صحیح مسلم:۱۶۴۲]
''بے شک اللہ تعالیٰ اس کے اپنی جان کو عذاب دینے سے مستغنی ہے۔''
حج کی شرائط پر پورا اُترنے والے ہر مسلمان زندگی میں صرف ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہے۔حالانکہ حج ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے جس پر اسلام کی عمارت قائم ہے اور حج کے وجوب کا انکار کرنے والا کافر ہو جاتاہے۔ ایک سے زائد بارحج کرنا نفلی عبادت تو ہے لیکن نفلی عبادت اللہ کے تقرب کا ذریعہ ہی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَمَن تَطَوَّعَ خَيرًا فَإِنَّ اللَّهَ شاكِرٌ عَليمٌ ١٥٨﴾... سورة البقرة
''اور جو شخص برضا ورغبت کوئی بھلائی کاکام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔''
٭فرضی نماز اور روزے کے علاوہ بعض نفلی عمل ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی اپنی ذات تک محدود ہوتے ہیں۔ عام طور پر ایسے نوافل سے دوسروں کو نہ تو کوئی ضرر پہنچتا ہے اور نہ ہی وہ اس سے براہِ راست مستفید ہوتے ہیں۔
٭جبکہ بعض نوافل ایسے ہیں جو لوگوں کو فائدہ دیتے ہیں اور ان کی نیکی اوربھلائی متعدی ہوتی ہے جیسے صدقہ اور کسی پراحسان۔ انسان جتنا زیادہ ان نوافل کو اداکرتا ہے لوگوں کو اتنا ہی زیادہ نفع اور فائدہ پہنچتا ہے۔اسی لیے کہا گیا ہے: «لا إسراف في الخیر»''خیر کے کاموں میں کوئی اِسراف نہیں ہے۔'' اگر چہ یہ جملہ بھی مطلق نہیں ہے بلکہ نبی کریمﷺ نے اس کو محدود کردیا ہے۔ چنانچہ سیدناسعد بن ابی وقاصؓ نے جب دو تہائی مال صدقہ کرنے کی وصیت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:
''انسان اپنے ورثا کو غنی چھوڑ جائے تواس سے یہ بہتر ہے کہ ان کو فقیر چھوڑ جائے اور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔'' [صحیح بخاری:۱۲۹۵، مسلم:۱۶۲۸]
صحیحین میں جنگ ِتبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین اشخاص کاقصہ مذکورہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی تو سیدنا کعب بن مالکؓ نے کہا: یارسول اللہﷺ! میں توبہ قبول ہونے کی خوشی میں اپناجمیع مال اللہ کے لیے صدقہ کردیتاہوں تو ان کو نبیﷺنے فرمایا:
«أمسك علیك بعض مالك فھو خیرلك» [صحیح بخاری:۲۷۵۸، مسلم:۲۷۶۹]
''کچھ مال اپنے پاس رکھ لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔''
٭ تیسری قسم کے نوافل ایسے ہیں جو آدمی کی ذات کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہوتے بلکہ مشاعر مقدسہ کی تنگی کے سبب دوسرے بھی متاثرہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں نفلی حج اور عمرہ مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں،کیونکہ حج یا رمضان کے عمرے کاوقت محدود ہے جو مقدم و مؤخر نہیں ہوسکتا اور حاجیوں کی روز افزوں کثرت سے مزید تنگی پیدا ہوجاتی ہے۔
2.تکرارِ حج
اس امر سے ہر ذی شعور آدمی بخوبی واقف ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے صرف ایک فیصد لوگ حج کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوں تو میدانِ عرفات میں وقوف کرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک جا پہنچے گی جن کا یہ عبادت بیک وقت بجا لانا محال ہے۔ اب صرف اعشاریہ ایک فیصد لوگ فریضہ حج ادا کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک ہزار لوگوں میں سے صرف ایک آدمی حج کرتاہے۔ گویا پاکستان کی جمیع آبادی ۱۵ کروڑ میں سے ہرشخص اگر حج کا ارادہ کرے تو ان کو حج کرنے کے لیے ہزارسال کاانتظار کرنا پڑے گا۔
علاوہ ازیں ہر سال شدید ازدحام کی وجہ سے سینکڑوں حجاجِ کرام موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور اس عظیم الشان فریضے کی روحانیت اور تقدس مفقود ہوتا جارہا ہے۔
اگر فرض کرلیا جائے کہ ایمانی جوش و جذبہ اس مبارک سفر کے لیے انسان کو برانگیختہ کرتا رہتاہے، تو مسلمانوں کو دوسری طرف اس امر سے بھی غافل نہیںہوناچاہئے کہ ہرسال نفلی حج کرنے والا شخص پہلی بارفریضہ حج اداکرنے والے لوگوں کے لیے ازدحام اور مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ جن میں عورتیں، بوڑھے اور کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں اور اس شخص کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی عادت پر ڈٹا رہتا ہے اور اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیاہے کہ میرا اکیلے آدمی کا وجود کون سا ضرر کا باعث بن سکتا ہے یا میرے نہ جانے سے کون سا بڑا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔
یہ ایک عجیب منطق ہے جس میں احساسِ ذمہ داری کافقدان ہے۔فرض کریں کہ اگر ہرشخص یہی سوچ لے کر وہاں جا پہنچے توکئی ملین اشخاص وہاں جمع ہوجائیں گے اور سخت ترین ازدحام ہوجائے گا۔ منیٰ،عرفات، مزدلفہ اور بیت اللہ کی حدود ان کے لیے تنگ پڑ جائیں گی۔ ان حالات میں انسان کوچاہئے کہ وہ نفلی حج کرنے کی بجائے اتنی ہی رقم اللہ کی راہ میں صدقہ کردے۔ خصوصاً آفات زدہ علاقوں، فاقہ کشوں اورجنگ زدہ علاقوں میں اس رقم کو تقسیم کردیا جائے۔ ان حالات میں صدقہ کرنا افضل عمل ہے جیساکہ اَسلاف کے اقوال درج ذیل ہیں:
٭ ابن مفلح 'الفروع' میں ذکر کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیاکہ نفلی حج کیا جائے یاصلہ رحمی کی جائے؟ اُنہوں نے جواب دیا:
''اگر رشتہ دار محتاج ہوں توصلہ رحمی کرنا زیادہ افضل ہے۔''
٭ ابن ہانی اسی مسئلہ میں امام احمد بن حنبلؒ سے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا :
'' وہ ذی روح مخلوقِ خداپر اس کو خرچ کردے۔''
٭ امام احمدؒ کی 'کتاب الزہد' میں حسن بصریؒ سے مروی ہے، اُنہوں نے کہا:
''آدمی کہتا ہے: میں حج کرتاہوں،میں حج کرتاہوں، حالانکہ اس نے حج کرلیاہوتا ہے۔ اس کوچاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے، پریشان پر صدقہ کرے اور پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے۔''
٭ امام ابن جوزیؒ کی کتاب صفة الصفوۃ میں لکھا ہے : إن الصدقة أفضل من الحج ومن الجھاد ''یقینا صدقہ، حج اور جہاد سے افضل ہے۔''
٭ وکیع سے مروی ہے، وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں، اُنہوں نے ابومسکین سے نقل کیا ہے کہ وہ باربار حج کرنے والے شخص کے لیے صدقہ کرنے کو افضل قرار دیتے تھے۔ [الفروع:۲؍۴۹۷] امام نخعیؒ کابھی یہی قول ہے۔
٭ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ 'الفتاویٰ الکبریٰ' میں فرماتے ہیں:
''استطاعت والے پر حج کرنا غیر واجب صدقہ سے افضل ہے۔ لیکن اگر آدمی کے رشتہ دار محتاج اور ضرورت مند ہوں تو ان پر خرچ کرنا حج کرنے سے افضل ہے۔'' [۵؍۳۸۲]
٭ موجودہ حالات میں بار بار نفلی حج کرنا فریضہ حج ادا کرنے والوں کے لیے ازدحام، عدمِ تنظیم اور ہلاکت سمیت متعد مشکلات کا سبب بنتاہے۔ نبی کریمﷺنے سیدنا عمرؓ کو فرمایا:
''اے عمرؓ! تو ایک مضبوط اور قوی آدمی ہے۔ حجر اسود پر رش نہ کر کیونکہ اس سے تو کمزوروں کو تکلیف پہنچائے گا۔اگر گنجائش موجود ہو تو حجراَسود کا بوسہ لے لیا کر، ورنہ اس کے سامنے سے گذرتے وقت 'لا الہ الا اﷲ' اور' اللہ اکبر' کہہ کر گذر جا۔ '' [مسنداحمد:۱۹۰، بیہقی:۵؍ ۸۰]
٭ سیدنا عبداللہ بن عباسؓفرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''جب تو حجرِاسود پر رش پائے تو وہاں پررُکنے کی بجائے فورا گذر جا۔ '' [مصنف عبدالرزاق:۸۹۰۸، بیہقی:۵؍۸۰]
٭ منبوذ بن ابو سلیمان سے مروی ہے، وہ اپنی ماں سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی ماں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہؓ کے پاس موجود تھیں، ان کے پاس ان کی باندی آئی اور ان سے کہا:
''اے اُمّ المؤمنین! میں نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے اور دو یا تین مرتبہ حجرِ اسود کابوسہ لیا ہے۔ اس کو سیدہ عائشہؓ نے کہا: اللہ تجھے اَجر نہ دے، تو تو مردوں کو دھکیلتی رہی ہوگی، تو 'اللہ اکبر' کہہ کر کیوں نہ گذر گئی۔'' [مسندالشافعی:۴۹۵،سنن بیہقی: ۵؍۸۱]
٭ عائشہ ؓ بنت ِسعدبن ابی وقاص سے مروی ہے کہ اُنہوں نے کہا کہ میرے والد ہمیں کہا کرتے تھے: ''اگر رش نہ ہو تو بوسہ لے لینا، ورنہ'اللہ اکبر'کہہ کر آگے گذر جانا۔'' ['الامّ' از امام شافعی :۲؍۲۵۸،سنن بیہقی: ۵؍۸۱]
٭ سیدناابن عباسؓ سے مروی ہے کہ وہ حجرِ اسود پررش ڈالنے کو ناپسند کرتے تھے، کیونکہ اس سے دوسروں کو اَذیت پہنچتی ہے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳۱۶۴]
٭ سعید بن عبید طائی سے مروی ہے کہ اُنہوں نے سیدنا حسنؓ کو دیکھا کہ وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہاں سخت ازدحام ہے تو بوسہ لیے بغیر ہی آگے چل پڑے۔ پھر مقام ابراہیم پر آکر دو رکعت نماز ادا کی۔ [مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳۱۶۶]
یہ رویہ فقط حجراسود کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ اسے ہر اُس جگہ اپنانا چاہئے جہاں انسان رش دیکھے اور تنگی محسوس کرے تو وہاں سے بچنا چاہئے تاکہ مزیدرش کا باعث نہ بنے۔
صرف اَجر و فضیلت پانے کے لئے بار بار حج کرنے کی بجائے صدقہ دینا زیادہ بہتر ہے جیسا کہ ائمہ اسلاف کے اقوال گزر چکے ہیں، البتہ جس شخص کے لیے حج کرنا اولیٰ ہو مثلاً وہ کسی رشتہ دار عورت یا اپنی بیوی کامحرم بن کر جارہا ہو یا اپنے بوڑھے والد کا سہارا بن کر جارہا ہو یا حجاج کرام کی خدمت کی ذمہ داری نبھانے جارہا ہو تو اس کے لئے حج کرنا زیادہ اولیٰ ہے۔
3.« اِفعَل وَلاَ حَرَج »
حج کے عظیم الشان مقاصد میں سے ایک مقصد ترکِ زینت پر لوگوں کی تربیت کرنا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورانِ حج لوگ احرام کے لباس: ایک چادر اور تہبند کے علاوہ زیب و زینت سے مرصع اور پُرتکلف لباس سے بچتے ہیں۔ اس میںبندے کو فقر مطلق کی یاد دہانی ہے اور اللہ کی طرف تیاری کی دعوت بھی ہے۔ گویا انسان دنیا سے اسی طرح نکل جاتا ہے جس طرح وہ تنہا اس دنیا میںداخل ہوا تھا۔ شاید اسی لیے حالت ِاحرام میں خوشبو لگانے، ناخن اور بال کاٹنے،جسمانی خواہشات، جماع کرنے اور اس کے اسباب کو استعمال کرنے سے بھی منع کردیا گیاہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ حج میں ایسی گنجائشیں اور آسانیاں رکھ دی گئی ہیں جو دیگر عبادات میں نہیں ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ لوگوں کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے میدانِ منیٰ میں ٹھہر گئے۔ ایک آدمی نے پوچھا:
یارسول اللہﷺ!میں نے بھول کر قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈوالیا ہے؟
آپؐ نے فرمایا: «اذبح وَلا حرج» ''ذبح کرو، کوئی حرج نہیں ہے۔''
دوسرے آدمی نے پوچھا: یارسول اللہﷺ! میں نے (بھول کر ) رمی کرنے سے پہلے ہی قربانی کرلی ہے؟
آپؐ نے فرمایا :«اِرمِ ولاحرج» ''رمی کرو، کوئی حرج نہیں۔''
اس دن آپﷺسے کسی رکن کے مقدم مؤخر ہونے کے بارے میں کوئی بھی سوال نہیں کیا گیا مگر آپؐ نے یہی جواب دیا: «افعل ولا حرج» ''کرلو، اور کوئی حرج نہیں ہے۔'' [صحیح بخاری :۸۳،صحیح مسلم:۱۳۰۶]
چنانچہ غیر منصوص اُمور میں مفتی کو بھی چاہئے کہ وہ نبی کریمﷺ کی اس سنت «افعل ولا حرج»کو سامنے رکھے۔ آپؐ کی یہ سنت کتب ِفقہ میں بکھری ہوئی تمام تیسیرات (آسانیوں) کو جمع کرنے والی ہے۔ نحر کے دن اعمالِ حج میں تقدیم و تاخیر میں کوئی حرج نہیں ہے جب کہ یہ آسانیاں غیر حج میں موجود نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص رکوع سے پہلے سجدہ کرے تو بالاتفاق اس کی نماز درست نہیں ہوگی۔
یہی معاملہ حج کی نیت کا ہے، اگر آپ یہ نیت کرلیں کہ اس سال میرا حج نفلی ہوگا اور میں اس سے تربیت حاصل کرلوں گا، جبکہ آئندہ سال فرض حج ادا کروں گا تو اس کی اس نیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ بلکہ اس حج کے بارے میں یہی کہے کہ یہ فرض ہے ، سو آئندہ سال کیا جانے والا حج فرض کی بجائے نفلی بن جائے گا۔
اسی طرح وہ شخص جو کسی کی طرف سے حج کی نیت کرتاہے لیکن اس نے اپنا فریضۂ حج ادا نہیں کیاہوتا تو اس کا یہ حج اس کی نیت کے خلاف اس کی اپنی جانب سے اَداہوجائے گا۔ جیساکہ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی حدیث میں منقول ہے کہ نبی کریم1 نے ایک آدمی کو سنا، وہ کہہ رہا تھا: لبیك عن شبرمة اے اللہ! میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں (یعنی شبرمہ کی طرف سے حج کررہاہوں) آپؐ نے اس آدمی سے پوچھا: شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا: میرابھائی؍ قریبی رشتہ دار ہے۔ آپؐ نے پوچھا: کیا تو نے اپنا حج کیا ہواہے۔ اس نے کہا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: پہلے اپنا حج کر پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔ [سنن ابوداؤد:۱۸۱۱، سنن ابن ماجہ:۲۹۰۳، صحت حدیث میں نظر ہے اور بہتریہی ہے کہ اسے موقوف سمجھا جائے]
الغرض اپنا حج کرنے سے پہلے کسی دوسرے شخص کی جانب سے حج کرنے کے مسئلہ پر اہل علم کا اختلاف ہے۔
غیر متعین اور مبہم الفاظ کے ساتھ بھی حج کااحرام باندھا جاسکتا ہے، جیساکہ سیدناعلیؓ نے باندھا تھا۔ سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا علیؓ یمن سے تشریف لائے تو نبی کریمﷺ نے پوچھا: کس حج کا احرام باندھا ہے؟ (یعنی حج مفرد، قران یا تمتع کا؟) تو علیؓ نے فرمایا: جس کے ساتھ نبی کریمﷺ نے باندھا ہے۔ نبی کریمﷺنے فرمایا: «لولا إن معي الھدي لأحللت» ''اگر میں اپنے ساتھ قربانی کے جانور نہ لایاہوتا تو میں بھی عمرہ کے اِحرام سے حلال ہوجاتا۔'' (یعنی عمرہ کا احرام کھول دیتا)
ممنوعات ِ حج میں وسعت
٭ممنوعات ِ حج میں بھی گنجائش دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر حالت ِاحرام میں بالوں کوکاٹنا یامونڈنا کتاب وسنت اور اجماعِ اُمت کی رو سے حرام ہے۔ لیکن اگر کوئی مجبور ہوجائے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بالوں کو کاٹ لے یا مونڈ ڈالے اور اس کا فدیہ ادا کردے جیساکہ کعب بن عجرہ کے قصہ میں مذکورہے کہ وہ عمرئہ حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم1 کے پاس آئے اور جوئیں ان کے چہرے پر گر رہی تھیں۔ نبی کریمﷺ نے ان سے کہا: «أیؤذیك ھوام رأسك» ''کیاتیرے سر کی جوئیں تجھے اذیت دی رہی ہیں۔'' میں نے کہا: ہاں! یارسول اللہﷺ۔ تو آپؐ نے فرمایا: ''اپنے سر کا حلق کرلے اور تین دن کے روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا یا کوئی جانور قربان کردے۔'' [ صحیح بخاری:۴۱۹۰، صحیح مسلم:۱۲۰۱]
٭ اسی طرح اِحرام میں ایسے تہبند پہننے کی بھی گنجائش ہے، جو سلا ہوا نہ ہو۔ بشرطیکہ شلوار کی ہیئت پر سلا ہوا نہ ہو، بلکہ اس کا اِزار بند سی دیا جائے اور باقی کو لٹکا لیا جائے اور شلوار کی مانند اس کے دو حصے نہ کئے جائیں۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے اس کاجواز ذکر کیا ہے۔ اس کی دلیل بخاری مسلم میں منقول ابن عمرؓ کی حدیث ہے، فرماتے ہیں:
'' نبی کریمﷺسے ایک آدمی نے سوال کیا: مُحرم کیا پہنے؟ آپؐ نے فرمایا: مُحرم قمیص، شلوار، عمامہ، ٹوپی، وَرس (خوشبو) اور زعفران لگا ہواکپڑا نہ پہنے۔ اگر کھلے جوتے نہ ملیں تو موزے پہن لے۔ اور موزوں کونیچے سے کاٹ لے حتیٰ کہ وہ ٹخنوں سے نیچے ہوجائیں۔'' [صحیح بخاری:۱۳۴،صحیح مسلم:۱۱۷۷]
یہاں سلے ہوئے کپڑوں سے بعض فقہاء نے «المخیط»سے اعضاے بدن کو ڈھانپنے والے کپڑے مراد لیے ہیں (یعنی وہ کپڑے اعضاے بدن کے برابر نہ سئے گئے ہوں)، اگرچہ یہ کلمہ قرآن و سنت میں اس اصطلاح میں غیر مستعمل ہے۔
بعض فقہاء نے «الخیاط» سے مطلقاً سلا ہواکپڑا مراد لیا ہے اور کہا ہے کہ ہر سلا ہوا کپڑا پہننا حرام ہے۔ اورعلت «الخیاطة» مطلقاً سلائی ہے۔ راقم کے نزدیک یہ علت غلط ہے، مثلاً احرام کی دونوں چادروں میں سے اگر کوئی چادر پھٹ جاتی ہے اور مُحرم ان کی سلائی کرکے ان کو دوبارہ پہن لیتا ہے تو بالاتفاق اس شخص پرکوئی کفارہ نہیں ہے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے گنجائش اوروسعت رکھی ہے کہ آدمی اس حالت میں سلاہوا تہبند پہن سکتا ہے بشرطیکہ وہ شلوار کی ہیئت پرنہ سیا گیا ہو، جیسا کہ اُوپر گذرا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ شرح العُمدۃ میں فرماتے ہیں:
''اگر شلوار کو پھاڑ کر تہبند کے قائم مقام بنا دیا جائے تو بالاتفاق تہبند کی موجودگی میںشلوار پہننا جائز ہے۔ مزیدفرماتے ہیں کہ اگر کپڑے کو سی لیا جائے لیکن اعضا کو ڈھانپنے والا نہ ہو بلکہ اس شرع کے مطابق ہو جیسے تہبند یا چادر ہوتی ہے تو اس کو پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔مخالفت ِ شرع صرف اس لباس سے ہوتی ہے جواعضا کے مطابق سیا گیاہو جیسا کہ عام معروف لباس استعمال ہوتاہے۔'' [۳؍۱۶،۳۴]
امام نوویؒ اور امام ابن قدامہ کاقول بھی اسی کے قریب قریب ہی ہے۔ [المجموع:۷؍۲۶۴، المغنی :۳؍۱۲۷]
٭ اسی طرح جوتوں کی عدم موجودگی میں موزوں کونیچے سے کاٹ کر پہننا جائز ہے۔
موزوں کونیچے سے کاٹنے کی مشروعیت کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے:
امام احمد بن حنبلؒ سے کاٹنے کی عدمِ مشروعیت مشہور ہے جبکہ جمہور کا مذہب قطع کے جواز کا ہے۔امام احمدؒ نے سیدنا ابن عباسؓ اور سیدنا جابرؓ کی حدیث: «من لم یجد نعلین فلیلبس خفین» [صحیح بخاری۱۸۴۱،صحیح مسلم:۱۱۷۸] ''جو شخص جوتے نہ پائے، وہ موزے پہن لے۔'' سے استدلال کیا ہے کیونکہ اس حدیث ِمبارکہ میں موزوں کو کاٹنے کے الفاظ موجودنہیں ہیں اور نبی کریمﷺنے یہ الفاظ متعدد صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں میدانِ عرفات میں کہے تھے جب کہ 'قطع' والی حدیث کے الفاظ مدینہ میں کہے تھے جن کو متعدد صحابہ کرامؓ نہیں سن سکے تھے۔
اس سے معلوم ہواکہ 'عدمِ قطع ' والے یہ الفاظ 'قطع' والی حدیث کے لیے ناسخ کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ آپؐ کی یہ حدیث بعد کی ہے۔ مزید سیدنا علیؓ کا قول ہے: "قطع الخفین فساد یلبسھما کما ھما''موزوں کو کاٹنا فساد ہے، اس کوکاٹے بغیراسی حالت میں پہنا جائے گا۔'' اور موزوں کو نہ کاٹنا قیاس کے بھی موافق ہے کیونکہ وہ مجبوری کی حالت میں ہی پہنے جاتے ہیں۔
٭ بعض اُمور ایسے ہیں جن سے لوگ بلادلیل اجتناب کرتے ہیں، حالانکہ ان اُمور میں بھی وسعت اورگنجائش دی گئی ہے کیونکہ اصل مقصود لوگوں پر آسانی کرنا ہے۔ ان اُمور میں سے ایک حالت ِاحرام میں غسل کرنے سے اجتناب کرنا ہے۔
٭ حالانکہ صحابہ کرام میں سے ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اس اِحرام میں ایک دن میں سات مرتبہ غسل کیا ہے۔
٭ یعلی بن اُمیہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطابؓ ایک اونٹ کے پاس غسل کررہے تھے اور میں نے کپڑے کے ساتھ ان پر پردہ کیاہوا تھا۔اچانک عمرؓ نے فرمایا: کیا میں اپنے سر پر بھی پانی ڈال لوں؟ میں نے کہا: امیرالمؤمنین! بہتر جانتے ہیں۔ امیرالمؤمنین عمرؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! پانی بالوں کوگدلا ہی کرتاہے۔ پھر بسم اللہ پڑھ کر اپنے سر پر پانی ڈال لیا۔ [مؤطا امام مالک:۷۰۴، مسند الشافعی:۵۳۵، بیہقی:۵؍۶۳]
عمرؓ کا مقصود یہ تھا کہ بالوں کو پانی سے دھونا کوئی خوشبو لگانانہیں ہے بلکہ محض صفائی ہے۔
٭ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ میں اور سیدناعمر بن خطابؓ مقام جحفہ پر غوطہ خوری کامقابلہ کررہے تھے اور ہم دونوں ہی مُحرم تھے۔ [اخرجہ ابن حزم فی المُحلّٰی:۷؍۱۷۴]
٭ اسی طرح سیدنا ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ وہ اور سیدناابن عباسؓ تیراکی اور غوطہ خوری کا مقابلہ کرتے تھے حالانکہ وہ دونوں ہی احرام کی حالت میں ہوتے۔ [ایضاً]
٭ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ عاصم بن عمر اور عبدالرحمن بن زیدسمندرمیں کود پڑے اور غوطہ لگانے لگے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کاسر پانی میں ڈبو دیتا تھا اور سیدنا عمرؓ اس منظر کو دیکھ رہے تھے لیکن اُنہوں نے اس کاانکار نہیں کیا۔'' [بیہقی:۵؍۶۲، المحلی:۷؍۱۷۴]
اس واقعہ میں امیرالمؤمنین سیدناعمر بن خطابؓ کی اپنے غلاموں اور خادموں کے ساتھ شفقت اورمحبت کابیان ہے کہ وہ نوجوان نسل کے جذبات و احساسات کاکتنا زیادہ خیال رکھا کرتے تھے۔ یہی وہ دانشمندی اور معرفت ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں اوربوڑھوں کے درمیان تعلقات قائم رہتے اور نسل در نسل چلتے رہتے ہیں۔
یہ کتنی ہی عجیب بات ہے کہ ایک چیز ناجائز ہو اور صحابہ کرامؓ حالت ِاحرام میں اسے انجام دے رہے ہوں اور اس میں کوئی حرج محسوس نہ کریں۔
٭ عبداللہ بن حنین، سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ اور سیدنا مسور بن مخرمہ سے نقل کرتے ہیں کہ ان دونوں میں اَبواء کے مقام پر مُحرم کے سر دھونے کے بارے میں اختلاف ہوگیا۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے کہا: مُحرم اپنا سر دھو سکتاہے۔ سیدنا مسورؓ نے کہا: مُحرم اپناسر نہیں دھو سکتا۔چنانچہ ابن عباسؓ نے مجھے (عبداللہ بن حنین) سیدنا ابوایوب انصاریؓ کے پاس بھیجا کہ میں ان سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھ آؤں۔ جب میں ان کے پاس آیا تو میں نے ان کو غسل کرتے ہوئے پایا۔ اور ایک شخص نے کپڑے کے ساتھ ان پر پردہ کیا ہوا تھا۔ میں نے ان کو السلام علیکم کہا۔ اُنہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا:کون آیاہے؟ میں نے کہا: عبداللہ بن حنین۔ مجھے ابن عباسؓ نے آپ کے پاس بھیجاہے کہ آپ سے پوچھوں کہ نبی کریمﷺ حالت ِاحرام میں اپنا سر کیسے دھوتے تھے؟ ابوایوب انصاریؓ نے کپڑے پر ہاتھ رکھا اور اس کو کھینچا۔ یہاں تک کہ ان کا سرنظر آنے لگا۔پھر اُنہوں نے ایک آدمی کو کہا: پانی ڈالو! اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا، انہوں نے سر کے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے حرکت دی اور آگے پیچھے کیا، پھر مجھے کہا: میں نے نبی کریمﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحیح بخاری:۱۸۴۰، مسلم:۱۲۰۵]
یہ سب ایسی وسعت اور آسانی ہے جو دورانِ حج حجاج کرام کے لیے کی گئی ہے۔
٭ ان اُمور میں سے خوشبو سونگھنا، انگوٹھی پہننا، علاج کروانا، اِزار بند پہننا اور حمام میں داخل ہونابھی ہیں:
٭ امام بخاریؒ اپنی صحیح میں فرماتے ہیں: «قال ابن عباس: یشم المحرم الریحان وینظر في المِرأة و یتداوی بما یأکل الزیت والسمن»
'' محرم آدمی خوشبو سونگھ سکتاہے، آئینہ دیکھ سکتا ہے اورکھانے والے تیل اور گھی سے اپنا علاج کرسکتا ہے۔''
٭ عطا فرماتے ہیں: مُحرم انگوٹھی پہن سکتا اور اِزاربند استعمال کرسکتا ہے۔
٭ عبداللہ بن عمرؓ نے حالت ِاحرام میں اپنے پیٹ کو ایک کپڑے کے ساتھ باندھا ہوا تھا۔
٭ اور سیدہ عائشہ ؓ ہودج چلانے والوں کیلئے نیکر پہننے میں کوئی ہرج محسوس نہیں کرتی تھیں۔
امام ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں: یہ سیدہ عائشہؓ کی ذاتی رائے ہے۔ اکثر اہل علم کا فتویٰ یہی ہے کہ محرم کے لیے نیکر اور شلوار پہننے کی ممانعت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ (یعنی دونوں ہی منع ہیں) [فتح الباری:۳؍۳۹۷]
٭ سیدنا عثمانؓ سے سوال کیاگیا:کیا محرم باغ میں جاسکتا ہے؟ اُنہوں نے کہا : ہاں اور خوشبو بھی سونگھ سکتاہے۔ [مجمع الزوائد:۳؍۵۲۴]
٭ سیدنا عبد اللہ عباسؓ مقام جحفة کے حمام میں داخل ہوئے اور وہ مُحرم تھے اور فرمایا:
«إن اﷲ لا یصنع بأوساخکم شیئًا» [سنن بیہقی:۵؍۶۳]
''اللہ تعالیٰ تمہاری میل کچیل سے کچھ نہیں کرے گا۔''
٭ نظافت اور حسن و جمال حاجی کے لیے اضافی مطالبات ہیں۔ اسی طرح ٹھنڈے پانی، اے سی اور پنکھے کے ساتھ ٹھنڈک حاصل کرنا، درخت، گاڑی یا چھت و چھتری وغیرہ کے ساتھ سایہ حاصل کرنا جائز ہے اوراس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دھوپ سے بچنے کے لیے اگر کوئی شخص اپنے سر پر کوئی چیز رکھ لیتا ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ اس نے سر ڈھانپنے کی نیت سے نہیں رکھی۔
٭ لطیفہ کی بات یہ ہے کہ ایک آدمی نے امام شعبیؒ سے سوال کیا: کیامحرم اپنے جلد پر خارش کرسکتا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا: ہاں! پھر اس آدمی نے پوچھا:کہاںتک؟ اُنہوں نے فرمایا: یہاں تک کہ ہڈیوں تک چلا جائے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے ادائیگی حج میں یہ وسعت اور گنجائش رکھی ہے کہ آدمی تین اقسام میں سے کوئی ایک اداکرسکتا ہے: 1.حج مفرد، 2. حج قران،3. حج تمتع [المغنی:۳؍ ۲۳۸]
اگرچہ امام البانیؒ حج تمتع کے وجوب کے قائل ہیں اور اُنہوں نے اس کو سیدنا ابن عباسؓ وغیرہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ لیکن میری رائے کے مطابق سیدنا ابن عباسؓ کی طرف مطلقاً نسبت کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ ابن عباسؓ کے نزدیک مکی (مکہ میں رہنے والے) کے لیے عمرہ نہیں ہے جس کا معنی یہ ہوا کہ مکی حج تمتع نہیں کرسکتا۔
اہل علم کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک حج کی تینوں اقسام فضیلت میںبرابر ہیں۔ اور بہتر یہ ہے کہ جو قربانی ساتھ لائے، وہ حج قران کرے اور جس نے حج کے ایام میں عمرہ ادا کیا ہے اور اپنے گھر کو لوٹ گیاتو وہ حج مفرد کرے۔ اصل مقصود یہ ہے کہ اس امر میں وسعت اور گنجائش ہے اور کسی پر بھی ملامت نہیں ہے، لہٰذا مفتی اور طالب ِعلم کو حجاجِ کرام کا لحاظ رکھنا چاہیے اور «افعل ولاحرج»کو اپنا شعار بنانا چاہئے، خصوصاً جب کسی امر میں وسعت اور رخصت ہو۔
4.ارکانِ حج میں وسعت و آسانی
ارکانِ حج میں دو ارکان (وقوفِ عرفہ اور طوافِ بیت اللہ) پر اہل علم کا اتفاق ہے جب کہ دیگر ارکان کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتاہے:
1. وقوفِ عرفہ
وقوفِ عرفہ بالاجماع حج کا رکن ہے۔جیسا کہ ابن منذر، کاسانی، ابن العربی، ابن قدامہ، نووی، دبوسی اور ابن تیمیہؒ وغیرہ نے نقل کیاہے۔ [الاجماع از ابن منذر:۱؍۵۴، الاستذکار:۴؍۲۸۳، بداية المجتہد:۲؍۱۴۰، المجموع:۸؍۱۰۳]
٭ اس رکن کی ادائیگی ایک لمحہ کے لیے میدانِ عرفات میں ٹھہرنے سے بھی حاصل ہوجائے گی۔ حتیٰ کہ بعض اہل علم کے نزدیک اگر کوئی شخص جہاز کے ذریعہ میدانِ عرفات کی فضا سے گذر جائے تو وہی اس کے لیے کافی ہوجائے گا۔
٭ اگر کوئی شخص غروبِ آفتاب سے پہلے میدانِ عرفات سے لوٹ آتا ہے تو امام مالکؒ کے سوا تمام ائمہ کے نزدیک اس کا وقوف ثابت ہوجائے گا۔
امام ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں کہ علما میں سے کسی نے بھی امام مالکؒ سے موافقت نہیں کی۔ [الکافی فی فقہ اہل المدینہ:۱۴۳، الاستذکار:۶؍۲۷]
بعض اہل علم کے نزدیک اس پر دَم ہے، جب کہ اَقرب یہی ہے کہ اس پر کوئی شے نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے:
«عن عروة بن مفرس الطائي قال: أتیت رسول اﷲ ﷺ بالموقف ۔یعني بالجمع۔ قلت: جئت یا رسول اﷲ ﷺ من جبل طي، أکللت مطیتي وأتعبت نفسي، واﷲ ما ترکت من جبل إلا وقفتُ علیه، فھل لي من حج؟ فقال رسول اﷲ ﷺ: لامن أدرك معنا ھذہ الصلوٰة، وأتیٰ عرفات قبل ذلك لیلاً أو نهارًا، فقد تمّ حجه وقضیٰ تفثه»
[مسند احمد:۱۶۲۵۳، سنن ابوداؤد:۱۹۵۰، جامع ترمذی:۸۹۱،سنن نسائی:۳۰۴۱، ابن ماجہ:۳۰۱۶]
''عروۃ بن مفرس طائیؒ فرماتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں نبی کریمﷺ کے پاس آیا، میں نے کہا: یارسول اللہﷺ! میں جبل طی سے آیاہوں، میں اور میری سواری انتہائی تھک چکے ہیں۔ اللہ کی قسم!میں نے کوئی پہاڑ نہیں چھوڑا مگر اس پرٹھہرا ہوں۔ کیا میرا حج ہے؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ہمارے ساتھ یہ نماز پالی اور اس (نماز) سے پہلے (کسی وقت) دن یا رات کو میدانِ عرفہ میں آیا تو تحقیق اس نے اپنا حج مکمل کرلیا اور اپنی میل کچیل کو دور کرلیا۔''
یہ حالت اس امر پر دلیل ہے کہ جو شخص غروبِ آفتاب سے پہلے میدانِ عرفات سے لوٹ آتاہے، اس پر کوئی شے نہیں ہے۔
اگر لوگ تاریخ بھول جاتے ہیں اور غیر یوم عرفہ مثلاً آٹھ ذوالحجہ یا دس ذوالحجہ کو یومِ عرفہ نو ذوالحجہ سمجھ کر وقوفِ عرفہ کرلیتے ہیں تو وہی ان کو کفایت کرجائے گا جب وہ اس پر اتفاق کرلیں۔ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : جس دن وہ وقوف کریں گے، وہی دن ان کے لیے ظاہراً و باطناً یوم عرفہ ہوگا۔ [مجموع الفتاویٰ:۲۲؍۲۱۱] کیونکہ نبی کریمﷺ کاارشادِ گرامی ہے:
«وفطرکم یوم تفطرون،وأضحٰکم یوم تضحون،وکل عرفة موقف، وکل منی منحر،وکل فجاج منحر، وکل جمع موقف» [سنن ابوداؤد : ۲۳۲۴،جامع ترمذی : ۶۱۷، ابن ماجہ:۱۶۶۰]
''تمہاری عیدالفطر وہ ہے جس دن تم عیدالفطر مناؤ، اور تمہاری عیدالاضحی وہ ہے جس دن تم عیدالاضحی مناؤ، سارا میدان عرفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے، سارا میدان منیٰ ذبح کرنے کی جگہ ہے، مکہ کی ساری گلیاں مذبح ہیں۔ سارا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔''
اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ جس چیز پر لوگ انطباقکردیں اور اس پر اتفاق کرلیں، وہی مقصود و مرادِ شارع ہے،اگرچہ کسی قوم کی نظر میں وہ حقیقت کے مطابق نہیں ہو۔
2. طواف ِ افاضہ
طواف ِ افاضہ حج کا دوسرا رکن ہے۔ اس کو طوافِ حج اور طوافِ زیارت بھی کہا جاتاہے۔ طوافِ افاضہ وقوفِ عرفہ اور مبیت ِمزدلفہ کے بعد ہی ہوتا ہے اور میرے خیال میں غالباً اس پر اجماع ہے۔ اس کی دلیل قرآن مجید کی اس آیت ِمبارکہ کا ظاہر ہے: ﴿ثُمَّ ليَقضوا تَفَثَهُم وَليوفوا نُذورَهُم وَليَطَّوَّفوا بِالبَيتِ العَتيقِ ٢٩﴾... سورة الحج ''پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔'' [شرح النووی علی مسلم:۸؍۱۹۲] اللہ تعالیٰ نے ترتیب میں طواف کو آخر میں رکھا ہے۔
نواب صدیق حسن خان کو وہم ہوا ہے، فرماتے ہیں کہ طوافِ افاضہ، وقوفِ عرفہ سے پہلے ہوسکتا ہے اور اُنہوں نے صحیح بخاری کی ایک موہوم روایت پراعتماد کیا ہے جس کے الفاظ آپس میں ایک دوسرے کا ردّ کررہے ہیں اور حدیث کبھی مختصر ہوتی ہے، کبھی معنًی بیان کی جاتی ہے۔
[دیکھئے:الروضة الندية:۱؍۳۶۱ اور التعلیقات الرضية للشیخ الألباني: ۲؍۱۱۴،۱۱۶]
تنگی دور کرنے کے پیش نظر معذورمرد، عورتوں، بچوں اور بوڑھوںکا طوافِ افاضہ آدھی رات کے بعد مشروع ہوجاتا ہے،ان کو اجازت ہے کہ وہ آدھی رات کے بعد طواف کرلیں۔
طوافِ افاضہ کو لیٹ کرنا بھی جائز ہے، حتیٰ کہ طوافِ افاضہ اور طوافِ وداع اکٹھا کرلینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے تاکہ مشقت نہ ہو۔طوافِ افاضہ کو ذوالحجہ کے آخر تک یا ایک ماہ تک لیٹ کیا جاسکتا ہے۔
امام نوویؒ وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ اگر کسی شخص نے بھول کر یاجہالت سے طوافِ افاضہ چھوڑ دیا اور اس نے طوافِ وداع کیاہو تو یہی ایک طواف اس آدمی کو دونوں طوافوں (افاضہ اور وداع) سے کافی ہوجائے گا۔ [شرح النووی علی مسلم:۸؍۱۹۳]
اسی طرح حائضہ عورت سے طوافِ وداع بھی ساقط ہوجاتا ہے اور یہ رخصت سنت سے ثابت ہے۔ [صحیح بخاری:۱۷۵۵،صحیح مسلم:۱۳۲۸]
3. طواف کے لیے طہارت کی شرط؟
جمہور اہل علم کے نزدیک طواف کے لیے طہارت شرط ہے۔ جب کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک طہارت شرط نہیں ہے۔ امام احمدؒ سے بھی ایک روایت ثابت ہے۔ امام ابن تیمیہ ؒ اور امام ابن قیمؒ بھی طہارت کی عدمِ شرطیت کے قائل ہیں اور اسی کے مطابق ہی شیخ محمد صالح عثیمینؒ فتویٰ دیا کرتے تھے۔ [شرح النووی علیٰ مسلم:۸؍۱۴۸، مجموع الفتاویٰ:۲۳؍۱۷۱، الاختیارات للبعلی:ص ۱۰۵، حاشیہ ابن قیم علیٰ سنن ابی داؤد:۱؍۶۶، الفروع:۳؍۳۷۱، عمدۃ القاری:۱؍۱۴۸، فتح الباری:۳؍۵۰۵، الانصاف:۱؍۲۲۲،الشرح الممتع : ۷؍۳۰۰]
طہارت کی عدمِ شرطیت سے سخت رش میں لوگوں پر تخفیف ہوجاتی ہے۔
طہارت کی شرط لگانے والوں کی دلیل سیدہ عائشہؓ کی حدیث ہے جس میں وہ فرماتی ہیں کہ ہم نبی کریمﷺ کے ساتھ حج کے لیے نکلے۔ جب ہم مقام سَرِف پر پہنچے تو میں حائضہ ہوگئی۔ میرے پاس نبی کریمﷺ تشریف لائے اور میں رو رہی تھی۔ آپؐ نے پوچھا: آپؐ کو کس چیز نے رُلا دیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم میں پسند کرتی ہوں کہ اس سال حج نہ کروں۔ آپؐ نے فرمایا: شاید توحائضہ ہوگئی ہے۔ میں نے کہا:ہاں! آپؐ نے فرمایا: «فإن ذلك شيء کتبه اﷲ علی بنات آدم فافعلي ما یفعل الحاج، غیر أن لا تطوفي بالبیت حتی تطھري» [صحیح بخاری:۳۰۵، صحیح مسلم:۱۲۱۱]
''یہ شے اللہ تعالیٰ نے بناتِ آدم پر لکھ دی ہے۔ تو حاجیوں والے سارے اعمال کر، سوائے طوافِ بیت اللہ کے ، حتیٰ کہ تو پاکیزہ ہوجائے۔''
لیکن یہ حدیث طہارت کی شرط کے بارے میں نص نہیں ہے۔ اگرچہ ہم کہتے رہتے ہیں کہ طہارت ہونا افضل عمل ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص بلاطہارت طواف کرلیتاہے یادورانِ طواف اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے اور وہ تجدید ِوضو نہیں کرتا تو اس پر کوئی شے نہیں ہے۔
خصوصاً وہ عورت جس کا حیض طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے اور اس کے رفقا چلے جائیں گے اور اس کو حرج لاحق ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں امام ابن تیمیہؒ اور امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ ایسی عورت اپنے آپ کو پوری احتیاط سے باندھ لے اور ضرورت کے تحت طواف کرلے۔ امامین کا یہ قول مذہب ِامام ابوحنیفہؒ کے موافق ہے۔ [الفتاویٰ الکبریٰ:۳؍۹۵، مجموع الفتاویٰ:۲۶؍۱۷۶، اعلام الموقعین:۳؍۲۰]
5. رمی جمار میں وسعت و آسانی
جمہور اہل علم کے نزدیک رمی کرنا واجب ہے۔کیونکہ خود نبی کریمﷺ نے رمی کی تھی اور فرمایاتھا : «خُذوا عَنّي مَنَاسِککم» [صحیح مسلم:۱۲۹۷، نسائی:۳۰۶۲، بیہقی:۵؍۱۴۵]
اسی طرح جب نبی کریمﷺ کے لیے چنے کے برابر کنکریاں چن کر لائی گئیں تو آپؐ نے فرمایا: «أمثال ھؤلآء فارمُوا» [مسند احمد:۱۷۵۴، نسائی:۳۰۵۷] ''ان جیسی کنکریاں مارو۔''
٭ امام مالک ؒ سے ایک روایت میں رمی کرنا سنت ِمؤکدہ ہے، بھی منقول ہے۔ سیدہ عائشہؓ کا بھی قول ہے۔ لیکن راجح بات یہی ہے کہ رمی کرنا واجب ہے۔ [مجموع الفتاویٰ: ۸؍۱۳۸، فتح الباری:۳؍۵۷۹]
1. مقام رمی میں آسانی
مقامِ رمی سے مراد وہ مخصوص جگہ ہے جو جمرات، حوض اور اس کے اردگرد کی جگہ پر مشتمل ہے۔حوض نبی کریمﷺ اور خلفاے راشدین کے دور میں موجود نہیں تھا۔ اس کی تعمیر کے وقت کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ وہ عہد ِ اُموی میں بنایا گیا یااس کے بعد۔امام سرخسیؒ حنفی فرماتے ہیں :
«فإن رماھا من بعید، فلم تقع الحصاة عند الجمرة، فإن وقعت قریبًا منھا أجزأہ، لأن ھذا القدر ممّا لا یتأتی التحرز عنه، خصوصًا عند کثرةالزحام، وإن وقعت بعیدًا منھا لم یُجِزہ» [المَبسوط:۴؍۶۷]
''اگر کسی شخص نے دور سے کنکری ماری اور وہ جمرات کونہ لگ سکی، تو اگر تو وہ جمرات کے قریب ہی گری ہے توکفایت کرجائے گی۔کیونکہ یہ ایسی تنگی ہے جس سے احتیاط نہیں ہوسکتی خصوصاً سخت رش کے وقت، اور اگر وہ دور گر جائے تو اس سے کفایت نہیں کرے گی۔''
یہ ایک مفید ونفیس کلام ہے خصوصاً سخت رش کے ان دنوں میں جن میں بیسیوں نہیں سینکڑوں افراد پاؤں تلے آکر ہلاک ہوجاتے ہیں اور یہ ہم سب مسلمانوں کے لیے ایک باعث ِعار امر ہے۔ دانا، اہل علم اور دیگر لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس کی تلافی اور تدارک کی کوشش کریں۔ میں نہیں جانتا کہ کتنی اَموات کے بعد ہم بیدار ہوں گے اور اس کی تلافی کرسکیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں مؤمن کی بہت بڑی شان ہے اور اس کی موت بڑی عظیم شے ہے۔ خصوصاً ایسے مبارک مقامات میں، جہاں پرندے بھی محفوظ ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: جب میں نے نبی ﷺ کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔ آپؐ فرما رہے تھے:
«ما أطیبك وأطیب ریحك، ما أعظمك وأعظم حرمتك، والذي نفسي محمد بیده لحرمة المؤمن أعظم عند اﷲ حرمة منك، ماله ودمه فإن نظن به إلاخیرًا» [ابن ماجہ:۳۹۳۲، اور اس میں نصر بن محمد بن سلیمان راوی کو ضعیف کہا گیاہے۔ابن حبان نے اس کوثقات میں ذکر کیا ہے، جبکہ دیگررواۃ ثقہ ہیں]
''تو کتناپاکیزہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے، تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، بے شک ایک مؤمن بندے کی حرمت اس کا مال اور خون اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ عظیم ہے۔ اور ہم مؤمن بندے کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ نہیں سوچتے۔''
اور نبی کریمﷺ کاارشادِ گرامی ہے:
«لزوال الدنیا أھون عند اﷲ من قتل رجل مسلم» [ترمذی:۱۳۹۵، نسائی:۲۹۸۷]
''اللہ کے نزدیک پوری دنیا کوختم کردینا ایک مسلمان شخص کے قتل سے زیادہ آسان ہے۔''
اس سے معلوم ہواکہ حیاتِ انسانی کی حفاظت کرنا سب سے زیادہ رعایت کے لائق ہے۔ بعض لوگ بڑے فخریہ اور فاتحہ انداز میں کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ ہم نے تو حوض پر ہاتھ رکھ کر کنکریاں ماری ہیں۔کیوں، ایسا کیوں ہے؟ کیا نبی کریمﷺنے حوض پر ہاتھ رکھ کر کنکریاں ماری تھیں؟ جبکہ عہد ِنبویؐ میں تو حوض موجود ہی نہیں تھا۔
رمی کا مقصد ظاہر ہے جیساکہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
«إنما جعل الطواف بالبیت وبین الصفا والمروة ورمي الجمار لإقامة ذکر اﷲ» [دارمی موقوفاً:۱۷۸۰، مسند احمد:۲۳۲۱۵، ابوداؤد:۱۸۸۸]
''بے شک بیت اللہ کا طواف، صفاو مروہ کی سعی اور جمرات کی رمی کا مقصد اللہ کے ذکر کو بلند کرنا ہے۔''
جو شخص اپنے آپ میں مشغول ہو اور لوگوں کے طوفان میں اپنی جان بچانے میں لگا ہوا ہو وہ کیسے ذکر ِالٰہی کو قائم اوربلند کرسکتا ہے۔
اللہ کی قسم! میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر نبی کریمﷺ حجاجِ کرام کی اس کثرت کو دیکھتے تو ضرور خوش ہوتے، لیکن اگر حجاجِ کرام کے موجودہ ازدحام و اضطراب اور اَموات کو دیکھتے تو اس سے ضرور ناخوش ہوتے کیونکہ یہ آپؐ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ واﷲ المستعان !
بسا اوقات بلاوجہ شدت بھی وسوسہ کا سبب بن جاتی ہے اور حاجی کو شک پڑجاتاہے کہ کیا اس نے سات کنکریاں ماری ہیں یا چھ؟ اس کی کنکریاں حوض میں گری ہیں یا نہیں؟ تردّد میں مبتلا شخص جب دو بارہ کنکریوں کے لیے جاتا ہے تو رش اور تشدد کا باعث بنتا ہے۔
سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں:
«رجعنا في الحجة مع النبي ﷺ وبعضنا یقول: رمیت لسبع حصیات، وبعضنا یقول: رمیت بست۔ فلم یعب بعضھم علی بعض» [مسند احمد:۱۳۶۲، نسائی:۳۰۷۷، بیہقی:۵؍۱۴۹، وقال الالبانی:صحیح الاسناد، فتح الباری:۳؍۵۸۱]
''ہم نبی کریمﷺکے ساتھ حج سے واپس لوٹ رہے تھے، ہم میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ میں نے سات کنکریاں ماری ہیں اور کوئی کہتا کہ میں نے چھ کنکریاں ماری ہیں لیکن کسی نے بھی کسی پر عیب جوئی نہیں کی ۔''
2. اوقاتِ رمی میں آسانی
٭ رات کو رمی کرنا:حاجی کے لیے رات کو رمی کرنا جائز ہے۔یہ مذہب سیدنا عبداللہ بن عمرؓ اور امام ابوحنیفہؒ کاہے۔ اسی طرح ایک روایت امام مالکؒ سے اورایک قول امام شافعی سے بھی منقول ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کی مجلس تاسیس نے بھی فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی سربراہی میں یہی فتویٰ جاری کیاہے،خصوصاً جب جمرات پر سخت رش ہو۔ [الموطا۹۲۱، بدائع الصنائع:۳؍۱۲۲، المحلی:۷؍۱۷۶، المجموع:۸؍۱۸۰، بدایۃ المجتہد:۲؍۱۴۵، التاج الاکلیل مع مواہب الجلیل:۳؍۱۳۳، اضواء البیان:۵؍۲۹۹، مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعہ:۱۷؍۳۶۸]
اس کی دلیل سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی حدیث ہے، فرماتے ہیں:
«سُئل النبي فقال: رمیتُ بعد ما أمسیتُ؟ فقال: لا حرج، قال: حلقت قیل أن أنحر؟ قال: لاحرج» [صحیح بخاری:۱۷۲۳]
''نبی کریمﷺ سے سوال کیاگیا۔ ایک شخص نے کہا: میں نے شام کے بعد رمی کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ ایک نے کہا: میں نے نحر سے پہلے حلق کروالیاہے۔آپؐ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔''
٭ زوال سے پہلے رمی: حاجی کے لیے تمام دنوں میں زوال سے پہلے رمی کرنا جائز ہے۔ یہ مذہب سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے منقول ہے، اور طاؤس بھی اس کے قائل ہیں۔عطا سے ایک روایت یہی ہے۔اسی طرح محمد الباقر اور امام ابوحنیفہ سے مشہور روایت ہے۔ ابن عقیل، حنابلہ میں سے ابن جوزی اور شافعیہ میں سے رافعی بھی اسی طرف گئے ہیں۔ معاصرین میں سے شیخ عبداللہ آلِ محمود، شیخ مصطفی زرقا اور شیخ صالح بلیہی سمیت اہل علم کی ایک جماعت اس کی قائل ہے، شیخ عبدالرحمن سعدی بھی اس کے قائل ہیں۔
[بدایۃ المجتہد: ۱؍۲۵۸، بدائع الصنائع : ۲؍۱۳۷، المغنی:۵؍۳۲۸، المجموع :۸؍۲۶۹، فتح الباری: ۳؍۵۸۰، الانصاف:۴؍۴۶، مجموعہ رسائل شیخ عبداللہ آل محمود :۱؍۲۲]
اس سلسلے میں اُنہوں نے سیدنا عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی حدیث سے استدلال کیاہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
«أن رسول اﷲ ﷺ رخص للرعاء أن یرموا باللیل، وأي ساعة من النھار شاء » [دارقطنی:۲؍۲۷۶، وفي إسنادہ ضعف، وله شواھد عن ابن عباس وابن عمر، لاتخلو من ضعیف]
''بے شک نبی کریمﷺ نے بکریوں کے چرواہوں کو رات اور دن کے کسی وقت بھی جب وہ چاہیں ، کنکریاں مارنے کی رخصت دی۔''
ابن قدامہؒ فرماتے ہیں:« وکل ذي عذر من مرضٍ أو خوفٍ علی نفسه أو ماله کالرعاة في ھذا، لأفھم في معناھم» [الکافی:۱؍۱۹۵]
''مرض اور اپنی جان و مال پر خوف کھانے والے سمیت ہر معذور شخص اس رخصت کے حصول میں چرواہوں کی مانند ہے،کیونکہ یہ بھی ان کے معنی میں ہیں۔''
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ
«إن رسول اﷲ ﷺ وقف في حجة الوداع بمنٰی للناس یسألونه،فجاء ه رجل فقال: لم أشعر فحلقتُ قبل أن أذبح؟ فقال: اذبح ولاحرج، فجاء آخر فقال: لم أشعر فنحرتُ قبل أن أرمي؟ قال: ارم ولاحرج، فما سئل النبي قدم ولا أخر إلا قال: افعل ولاحرج» [صحیح بخاری:۸۳، مسلم:۱۳۰۶]
''نبی کریمﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں لوگوں کے سوالات کے لیے کھڑے ہوگئے۔ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: میں نے ذبح سے پہلے ہی حلق کروا لیاہے۔ آپؐ نے فرمایا: ذبح کرو، کوئی حرج نہیں ہے۔ دوسرا آدمی آیا اور کہا: میں نے رمی سے پہلے ہی قربانی کرلی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: رمی کرو، کوئی حرج نہیں ہے، اس دن آپؐ سے کسی شے کی تقدیم و تاخیر کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیامگر آپؐ نے یہی کہا: کرو کوئی حرج نہیں ۔''
ان کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ کتاب و سنت، اجماع اور قیاس میں سے ایسی کوئی نص صریح بھی موجود نہیں ہے جس میں زوال سے پہلے رمی کرنے سے منع کیاگیاہو۔
اگر زوال سے پہلے رمی کرنامنع ہوتا تو نبی کریمﷺ سائلین کے جواب میں اس کی ضرور وضاحت فرمادیتی جیساکہ مشہوراُصول ہے:تأخیرالبیان عن وقت الحاجة لا یجوز
''ضرورت کے وقت بیان کو مؤخر کرنا ناجائز ہے۔''
ان کے دلائل میں سے ایک دلیل قرآنِ مجید کی یہ آیت ِمبارکہ بھی ہے:
﴿وَاذكُرُوا اللَّهَ فى أَيّامٍ مَعدودٰتٍ...٢٠٣﴾... سورة البقرة
''ان گنتی کے چند دنوں میں اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔''
اوررمی بھی اللہ کا ذکر ہے جیساکہ سیدہ عائشہؓ کی حدیث ِمبارکہ ہے:
«إنما جعل الطواف بالبیت وبین الصفا والمروة ورمي الجمار لإقامة ذکر اﷲ»[سنن دارمی :۱۷۸۰ وغیرہ موقوفاً، مسند احمد:۲۳۲۱۵، ابوداؤد:۱۸۸۸]
''بیشک بیت اللہ کا طواف، صفاو مروہ کی سعی اور جمرات کی رمی کا مقصد ذکر ِالٰہی کا قیام ہے۔''
گویا اسی پورے دن کو محل ذکر بنا دیا گیا ہے اوررمی بھی اللہ کا ذکر ہے جوکسی وقت بھی کی جاسکتی ہے۔
صحیح بخاری میں ابن عمرؓ وغیرہ کاقول منقول ہے کہ جب ان سے رمی کے وقت کے بارے میں سوال کیا گیا تو اُنہوں نے فرمایا:«اذا رمٰی إمامک فَارْمِ»[بخاری:۱۷۴۶، ابوداؤد:۱۹۷۲]
''جب تمہارا امام رمی کرے تو تم بھی رمی کرو۔''
اگر رمی کا وقت متعین ہوتا تو ابن عمرؓ سائل کو ضرور اس کی صراحت کرتے۔
٭ یوم العیدکے علاوہ دیگر ایام میں رمی کو دوسرے دن تک لیٹ کرنا: سیدنا عاصم بن عدیؓ سے مروی ہے کہ
«أن رسول اﷲ أرخص لرعاء الإبل في البیتوتة خارجین عن منی، یرمون یوم النحر ثم یرمون الغد ومن بعد الغد لِیَومین ثم یرمون یوم النفر »[موطا:۸۱۵، مسند احمد:۲۳۸۲۶، ابوداؤد:۱۹۷۵، ترمذی:۹۵۵، ابن ماجہ:۳۰۳۷، نسائی: ۳۰۶۹ ]
''نبی کریمﷺ نے بکریوں کے چرواہوں کو منیٰ سے باہر راتیں گزارنے کی اجازت دے دی تھی کہ وہ یومِ نحر کو رمی کریں۔پھر کل ( ۱۱تاریخ) اور کل کے بعد والے کل ( ۱۲ تاریخ) کو دو دنوں کی اکٹھی رمی کریں۔ پھر یومِ نفر (۱۳ ذی الحجہ) کو رمی کریں۔''
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بکریوں کے چرواہوں کی مانند کسی کام میں مشغول شخص کے لیے رمی جمرات کو ایام تشریق میں سے آکرایک دن تک لیٹ کرنا جائز ہے۔ لیکن ۱۳ تاریخ (آخر ایام تشریق) سے لیٹ کرنا جائز نہیں ہے۔ اس حالت میں رمی ادا ہوگی، قضا نہیں اور ایامِ تشریق ایک دن کی مانند ہیں۔ یہ شافعیہ، حنابلہ، ابویوسف اور حنفیہ میں سے محمد بن الحسن کاقول ہے اور امام شنقیطیؒ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
مشغولیت کی طرح رش، مشقت اور دھینگا مشتی سے بچنے کے لیے بھی رمی کو لیٹ کیاجاسکتا ہے۔جو حج کے عظیم مقاصد میں سے ہے اور حیات ِانسانی کی رعایت رکھنا حیاتِ حیوان سے زیادہ اولیٰ ہے جیساکہ چرواہوں کو اجازت دی گئی۔
اور جانوں کی حفاظت کرنا شریعت کے مجمع علیہ پانچ مقاصد میں سے ہے۔
3. رمی میں نیابت کی آسانی
عورتیں اورضعیف لوگ رمی کرنے کے لیے کسی غیر کو اپنا وکیل اورنائب بنا سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سیدنا جابرؓ سے مروی ہے کہ
«خرجنا مع رسول اﷲ ﷺ حجاجًا، ومعنا النساء والصبیان، فأحرمنا عن الصبیان» [سنن سعید بن منصور ]
''ہم نبی کریمﷺکے ساتھ حج کرنے کے لیے نکلے اور ہمارے ساتھ عورتیں اوربچے بھی تھے۔ پس بچوں کی طرف سے ہم نے احرام باندھے۔'' (یعنی بچوں کی طرف سے حج کی نیت کی اور تلبیہ کہا)
اس روایت کو امام ابن ماجہ وغیرہ نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیاہے: «فلبَّینا عن الصبیان ورمینا عنھم » [ابن ماجہ :۳۰۳۸، ابن ابی شیبہ:۱۳۸۴۱، بیہقی:۵؍۱۵۶]
''ہم نے بچوں کی طرف سے تلبیہ کہا اور ان کی طرف سے رمی کی۔''
امام ترمذی نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے: «فکنَّا نلبي عن النساء ونرمي عن الصبیان» [جامع ترمذی:۹۲۷، تلخیص الحبیر:۲؍۲۷۰]
''ہم عورتوں کی طرف سے تلبیہ کہتے تھے اور بچوں کی طرف سے رمی کرتے تھے۔''
ابن منذرؒ فرماتے ہیں: ''میں تمام اہل علم سے یہی جانتاہوں کہ قدرت نہ رکھنے والے بچے کی جانب سے رمی کی جاسکتی ہے۔ابن عمرؓ بھی ایساہی کیاکرتے تھے اور عطا، زہری، مالک، اسحق اور شافعیؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ [المغنی:۳؍۲۰۷]
6.تحلّل اور مبیت ِ منیٰ میں آسانی
تحلّلِ اوّل رمیِ جمرات کے ساتھ ہی حاصل ہوجاتا ہے۔ جب حاجی یوم العید کو جمرات کی رمی کرلیتاہے تواس کے لیے سوائے عورتوں کے تمام چیزیں حلال ہوجاتی ہیں۔ یہ امام مالک، ابو ثور، ابویوسف، ایک روایت میں امام احمد اورامام شافعی رحمہم اللہ کامذہب ہے۔ علقمہ، خارجہ بن زید بن ثابت اور عطا بھی اسی کے قائل ہیں۔
ابن قدامہؒ فرماتے ہیں کہ یہی مذہب صحیح ہے۔ ان شاء اللہ [المغنی:۳؍۲۲۵، روضۃ الطالبین: ۳؍۱۰۴، شرح العمدۃ لابن تیمیہ:۳؍۵۴۰، الانصاف:۴؍۴۱، مواہب الجلیل: ۳؍ ۸۹]
بلکہ امام ابن حزم کے نزدیک مجرد رمی کا وقت داخل ہوجانے سے تحلّلِ اوّل حاصل ہوجاتا ہے خواہ رمی نہ بھی کی ہو۔ [المحلی:۷؍۱۳۹]
شیخ ابن بازؒ کا بھی یہی قول ہے جو اُنہوں نے اپنی آخر عمر میں بلوغ المرام کی کتاب الحج کی شرح میں ذکر کیا ہے۔ اُنہوں نے سیدنا ابن عباسؓ کی حدیث سے استدلال کیا ہے ، فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: «إذا رمیتم الجمرة فقد حلّ لکم کل شيء، إلا النساء» [مسند احمد:۲۰۹۰، نسائی:۳۰۸۴]
''جب تم جمرہ عقبہ کی رمی کرلو، تو تمہارے لیے سوائے عورتوں کے سب چیزیں حلال ہیں۔''
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «إذا رمٰی أحدکم جمرة العقبة فقد حلّ له کل شيء إلا النسآء» [سنن ابوداؤد:۱۹۷۸]
''جب تم میں سے کوئی شخص جمرہ عقبہ کی رمی کرلے تو اس کے لیے سواے عورتوں کے سب چیزیں حلال ہیں۔''
سیدنا ابن عباسؓ اور سیدہ عائشہؓ کی مذکورہ دونوں احادیث میں اگرچہ ضعف ہے، مگر بعض معاصرین جیسے شیخ البانی ؒوغیرہ نے ان کو صحیح کہا ہے اور صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ جات ان کو تقویت دیتے ہیں۔ [سلسلہ صحیحہ:۲۳۹] اُمّ سلمیٰ سے بھی اسی معنی کی ایک روایت منقول ہے۔
[مسند احمد؛۲۵۳۲۱،سنن ابوداؤد:۱۹۹۹]
٭ مبیت ِ منیٰ :خود نبی کریمﷺاور صحابہ کرامؓ نے بھی مبیت ِمنیٰ کیاہے اور فقہا کی ایک جماعت کے نزدیک جو شخص اس کی طاقت رکھتا ہے اور کوئی مناسب جگہ پالیتا ہے تو اس پر تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا واجب ہے، یہ جمہور کا قول ہے۔ [فتح الباری:۳؍۵۷۹]
لیکن جس شخص کو مناسب جگہ نہ ملے سکے، اس سے مبیت ِ منیٰ کے سقوط کے بھی دلائل موجود ہیں۔ وہ جہاں چاہے، مکہ، مزدلفہ اور عزیزیہ وغیرہ میں یہ راتیں گزار سکتا ہے۔ اس پر منی کے خیموں کی اختتام پر رات گزارنا بھی لازم نہیں ہے۔
سڑکیں، خیموں کے درمیانی راستے، فٹ پاتھ، لیٹرینوں کے سامنے کی جگہیں اور پہاڑوں کی چوٹیاں آدمی کے لیے رات گزارنے اور اس عظیم الشان روحانی عبادت کے لیے غیر مناسب ہیں۔اُن کی دلیل سیدنا ابن عمرؓ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں:
«استأذن العباس رسول اﷲ ﷺ أن یبیت بمكة لیالي منٰی من أجل السقاية فأذن له» [صحیح بخاری:۱۷۴۵، مسلم:۱۳۱۵]
''سیدنا عباسؒ نے حاجیوں کو پانی پلانے کی وجہ سے نبی کریمﷺ سے منیٰ کی راتیں مکہ میں گزارنے کی اجازت طلب کی تو آپؐ نے ان کو اجازت دے دی۔''
جب پانی پلانے والوںکو منیٰ کی راتیں مکہ میںگزارنے کی رخصت مل سکتی ہے تو منیٰ میں راتیں گزارنے کے لیے جگہ نہ پانے والوں کو بالاولیٰ رخصت ملنی چاہئے۔
دوسری دلیل بکریوں کے چرواہوں والی حدیث ہے کہ نبی کریمﷺنے اُنہیں منیٰ کی راتیں منیٰ سے باہر اپنی بکریوں کے پاس گزارنے کی اجازت دے دی۔[مؤطا:۸۱۵، احمد ۲۳۸۲۶، ابوداؤد:۱۹۷۵، ترمذی:۹۵۵، ابن ماجہ:۳۰۳۷، نسائی:۳۰۶۹]
منیٰ میں جگہ نہ پانے والا رخصت پانے کا ان چراہوں سے زیادہ حق دار ہے۔
سیدنا ابن عباسؓ حاجیوں کو یہ فتویٰ دیتے تھے کہ اگر کسی حاجی کے پاس مکہ میں قیمتی سامان موجود ہے اور منیٰ میں رات گزارنے کی وجہ سے اسے اس کے ضائع ہوجانے کاخدشہ ہے تو وہ مکہ میں اپنے سامان کے پاس رات گزار سکتا ہے اور اسپر کوئی حرج نہیں ہے۔[التمہید: ۱۷؍۲۶۳]
اہل علم نے ہر اس شخص کو چرواہوں اور پانی پلانے والوں کے ساتھ ملحق کیاہے جس کو اپنے مال کے ضیاع کا خدشہ ہو، کسی اہم امر کے فوت ہوجانے کا خطرہ ہو، یا مریض کے مرض بڑھنے اور اس کو ضرر یا مشقت ِظاہرہ لاحق ہونے کا خدشہ ہو۔
جب ان تمام افراد کو مبیت ِ منیٰ سے رخصت ہے تو جو شخص منیٰ میں راتیں گزارنے کے لیے مناسب جگہ نہ پاسکے، وہ رخصت کا زیادہ حق دار ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو طوافِ بیت اللہ کے لیے مکہ گیا پس اس کو شدید رَش نے گھیر لیا اور وہ منیٰ میں رات نہ گزار سکا۔ اب یہ جگہ نہ پانے والااور رش میں گھرا ہوا دونوں اشخاص خارجی امر کے سبب مبیت ِ منیٰ سے پیچھے رہ گئے ہیں اور یہ اس کے رفع کی بھی طاقت نہیں رکھتے۔ لہٰذا ان دونوں پر کوئی شے لازم نہیں آتی۔
7.قربانی کی آسانی
قربانی کی آسانی یہ ہے کہ کثرت سے خون نہ بہایا جائے۔ بسا اوقات سیدنا ابن عباسؓ کے اثر کی بنیادپر حج میں کوئی واجب رکن ترک کرنے پردم دینے کا فتویٰ صادر کردیا جاتاہے:
«من نَسِي من نسکه شیئًا أو ترکه فلیھرق دمًا» [موطا :۹۴۰، بیہقی:۵؍۳۰،۱۵۲]
''جو شخص اپنے مناسک ِحج میں سے کوئی شے بھول جائے یاچھوڑ دے،چاہئے کہ خون بہائے۔''
یہ اثر صحیح ہے لیکن ایک فتویٰ اور اجتہادِ صحابی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔جبکہ اکثر سلف ترکِ واجب پردم لازم نہیں کرتے بلکہ سائل کی مالی حالت کا بھی خیال رکھتے تھے اور اس کے غنی و فقر کے اعتبار سے فتویٰ صادر فرماتے تھے۔
شارع نے بعض واجبات کو حاجی سے سرے سے ساقط کردیاہے، جیسے حائضہ عورت سے طوافِ وداع اورچرواہوں وغیرہ سے مبیت ِ منیٰ، اور ان پر کوئی شے بھی لازم نہیں کی۔ ایسے ہی فعل حرام کے ارتکاب میں سیدنا کعب بن عجرہؓ کی حدیث گذر چکی ہے کہ نبی اکرمﷺنے اس کو فدیہ کے ساتھ سر کے بال مونڈوانے کی اجازت دے دی تھی کہ تین دن کے روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ یاایک جانور ذبح کرو۔''
[صحیح بخاری:۱۵۵۸، مسلم:۱۲۵۰]
ہرترکِ واجب پردم واجب قراردینے کے سلسلے میں کوئی بھی مرفوع حدیث ثابت نہیں ہے لہٰذا فتویٰ دیتے وقت مناسب ہے کہ لوگوں کے احوال کی رعایت رکھی جائے۔ واللہ اعلم