توسّل واستعانت
مضمونِ ہذا کی پہلی قسط محدث(جولائی ۲۰۰۲، ص۱۷تا۳۳) میں شائع ہوچکی ہے۔جس میں ''ندائے یارسول اللہؐ! الاستعانة والتوسل'' (از احمد رضا بریلوی، محمد عبدالحکیم شرف قادری) نامی کتابچہ کے ان دلائل پر تبصرہ کیا گیا ہے جنہیں غیر اللہ سے استعانت اور ذواتِ صالحہ سے توسل کے اثبات کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں بغرضِ اختصار علماء و بزرگان کے اقوال و فرمودات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف قرآن و سنت سے پیش کردہ دلائل پر بحث کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ اس مضمون کی پہلی قسط مولانا عبد الرحمن کیلانی نے تحریر کی تھی۔ آپ کی وفات کے بعد، یہ بحث ناقص ہونے کی وجہ سے شائع ہونے سے رہ گئی تھی، اب اس کے بقیہ دلائل کی تکمیل کی سعادت راقم الحروف حاصل کررہا ہے۔
واضح رہے کہ ائمہ سلف کے عقائد کی رو سے صرف تین طرح کا توسل مشروع ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا توسل، اعمالِ صالحہ کا توسل اور زندہ صالح مؤمن سے دعا کروانے کا توسل۔ جبکہ ان علاوہ کسی ذات کو خواہ وہ زندہ ہو یا فوت شدہ، بطورِ ذات وسیلہ پیش کرنا ائمہ سلف جائز نہیں سمجھتے کیونکہ قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سے اس مؤخر الذکر توسل کا کوئی جواز، ثبوت یا تائید نہیں ملتی مگر بریلوی حضرات ذواتِ صالحہ کے توسل کے قائل ہیں اور اسے ثابت کرنے کے لئے مصنف مذکور نے کچھ فرسودہ دلائل بھی پیش کئے ہیں جن کی قلعی پہلی قسط میں بھی کھولی جاچکی ہے جبکہ مذکورہ قسط میں بقیہ دلائل پر بحث کی گئی ہے۔
اسی طرح دوسرا مسئلہ یعنی 'استعانت من غیر اللہ' میں اہل حدیث اس بات کے قائل ہیں کہ مافوق الاسباب اُمور میں غیر اللہ سے مدد طلب کرنا 'شرک' ہے جبکہ ماتحت الاسباب امور میں کوئی حرج نہیں لیکن بریلوی حضرات اس کے برعکس غیر اللہ سے ہر طرح کے اُمور میں مدد طلب کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ قادری صاحب نے اس مسئلہ میں بھی بریلویوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اس شرکیہ موقف کو عین توحید ثابت کرنے کی پوری کوشش فرمائی ہے۔
دیگر دلائل سے صرف نظر کرتے ہوئے سردست اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ صاحب ِرسالہ نے توسل، سفارش، دعا، تبرک ، آثار النبیؐ وغیرہ تمام چیزوں کو مشترک کرکے خلط ِمبحث کردیا ہے۔ مثلاً کسی نیک صالح و متقی بزرگ سے دعائے خیرکروانا شرعاً جائز ہے اور اس کے جواز سے کسی کو مجالِ انکار نہیں۔ لیکن صاحب ِرسالہ دعا کروانے کی دلیل ذکر کرکے اس سے توسل بذواتِ صالحہ کا جواز کشید کرنے لگتے ہیں جبکہ توسل بالذات اور نیک شخص سے دعائے خیر کروانے میں واضح فرق ہے جسے صاحب ِرسالہ قصداً نظر انداز کرجاتے ہیں۔
اسی طرح آنحضرتؐ کے جسم، لباس وغیرہ (آثار النبیؐ) سے صحابہ کرامؓ برکت حاصل کیا کرتے تھے اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ نیز یہ عمل آپؐ کی زندگی تک خاص و محدود تھا، مگر صاحب ِرسالہ اوّل تو یہ کمال دکھاتے ہیں کہ اس عمل تبرک کو 'توسل بالذات' ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس پر یہ طرفہ تماشہ کہ اسے آپؐ کی وفات کے بعد بھی قیامت تک کے لئے جائز قرار دینے لگتے ہیں۔ گویا اس طرح خلط ِمبحث کے ذریعے عام قارئین کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ غیراللہ سے مدد طلب کرنا، ان کی ذات کو بارگاہِ خداوندی میں بطورِ وسیلہ پیش کرنا اور ان کی وفات کے باوجود انہیں مدد کے لئے پکارنا تو قرآن و سنت سے ثابت ہے! نعوذ بالله من ذلک
صاحب ِرسالہ کی ان مغالطہ آفرینیوں اور فریب کاریوں کا اس سے پہلی قسط میں بھی پردہ چاک کیا گیا تھا اور اس قسط میں مزید کسر پوری کردی گئی ہے۔ البتہ ان کی باقاعدہ ترتیب قائم کرنے کی بجائے صاحب ِرسالہ کی ذکر کردہ ترتیب کے ساتھ ساتھ بحث کی تکمیل کی گئی ہے۔
دیگر دلائل کا جائزہ
صاحب ِرسالہ کے پیش کردہ باقی دلائل بھی کوئی علمی وقعت اور استنادی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ اکثر دلائل حددرجہ ضعیف اور صحیح نصوص سے متعارض ہیں جبکہ کچھ صحیح نصوص میں تحریفانہ ارتکاب سے غلط مفہوم ثابت کرنے کیسعی ِلاحاصل بھی کی گئی ہے، بہرطور ان دلائل کا ایک مختصر تجزیہ پیش خدمت ہے :
1. مذکورہ رسالہ کے صفحہ ۳۸ پر مرقوم ہے کہ
حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا: ''أنزل الله علیّ أمانين:﴿وَما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم وَأَنتَ فيهِم ۚ وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُم وَهُم يَستَغفِرونَ ٣٣﴾... سورة الانفال (ترمذی) ''اللہ تعالیٰ نے مجھ پر دو تحفظ نازل فرمائے ہیں: (1) اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دے گا جب تک اے حبیبؐ ! تم ان میں موجود ہو، (2) اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے والا نہیں جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے۔ ''
پہلی آیت میں عذاب سے محفوظ رہنے کا وسیلہ نبی اکرمﷺ کی ذات کو اور دوسری آیت میں عمل استغفار کو قرار دیا گیا ہے۔''
وضاحت : ہم پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ قادری صاحب اپنے دلائل پیش کرنے میں علمی خیانت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مذکورہ دلیل میں بھی یہ صورتِ حال ملاحظہ کی جاسکتی ہے کیونکہ امام ترمذیؒ نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: ''ھذا حدیث غریب وإسمعیل بن إبراهیم بن مهاجر یضعف في الحدیث'' ''یہ حدیث غریب ہے اور اسمٰعیل بن ابراہیم بن مہاجر کو روایت ِحدیث میں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔'' علاوہ ازیں اس کی سند میں ابن نمیر نامی راوی بھی مجہول ہے۔ (تقریب)
لہٰذا جب اس روایت کی سند میں دو راوی ضعیف ہیں تو پھر اسے بطورِ دلیل پیش کرنا چہ معنی دارد؟ اپنے مطلب براری کیلئے کتب احادیث کی عبارتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنا کوئی انصاف نہیں!
یہ بات بھی محل نظر ہے کہ مذکورہ دلیل سے یہ دعویٰ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ ذواتِ صالحہ کو بطورِ وسیلہ پیش کرنا چاہئے! نہ ہی اس میں کوئی ایسی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہو کہ حضورﷺکی ذات کو میرے دربار میں وسیلہ بنا کر پیش کرو اور نہ ہی حضورﷺ نے کوئی ایسی بات فرمائی ہے کہ میری ذات کو وسیلہ بناؤ! البتہ اس میں نبی کریم ﷺکی ذات کی برکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب تک حضور نبی کریمﷺ تمہارے اندر حیات ہیں، اس وقت تک ان کی ذات کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہیں بڑے اور فیصلہ کن عذاب سے دوچار نہیں کرے گا۔ اس لئے یہ بات نبی کریمﷺ کی ذات کے ساتھ خاص ہے لیکن آپ کی وفات کے ساتھ چونکہ آپ کی ذات مبارکہ کو اس دنیا سے منتقل کردیا گیا، اس لئے اب آپ کی ذات کو وسیلہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟
چنانچہ صحابہ کرام ؓ آپؐ کی زندگی میں آپؐ کی ذاتِ بابرکات سے تبرک حاصل کیا کرتے تھے۔ لیکن اس تبرک کا سلسلہ بھی آپ کی وفات کے ساتھ منقطع ہوگیا۔ اس سلسلہ میں یہ بات واضح رہے کہ حضور ﷺکی ذات، آپ کے بال، پسینہ، لعاب اور لباس وغیرہ سے بھی صحابہ کرامؓ تبرک حاصل کیا کرتے تھے، لیکن یہ صرف آپؐ کے ساتھ خاص تھا۔ اسی لئے صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے بعد کسی افضل سے افضل شخص کی ذات سے بھی برکت حاصل نہیں کی اور نہ ہی تابعین نے صحابہ سے اور تبع تابعین نے تابعین میں سے کسی کی ذات سے تبرک حاصل کیا!
تبرک اور توسل میں فرق
معلوم ہوتا ہے کہ قادری صاحب کو تبرک اور توسل میں فرق کا علم نہیں، اسی لئے وہ ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن کا تعلق تبرک سے ہے، توسل سے انہیں کچھ سروکار نہیں۔
دراصل تبرک کا تعلق صرف دنیاوی خیروبرکت سے ہوتا ہے جبکہ توسل کا تعلق دنیا و آخرت دونوں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح تبرک کا تعلق ذات سے ہوتا ہے جبکہ توسل کا تعلق صرف دعا سے ہوتا ہے۔ علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ اس بات کی وضاحت اس مثال سے کرتے ہیں کہ ''مسلمان کے لئے اسمائے حسنیٰ میں سے کسی نام کے وسیلے سے دعا کرنا جائز ہے مثلاً کسی دنیوی ضرورت، رزق میں وسعت یا اُخروی ضرورت، مثلاً جہنم سے نجات طلب کرنے کے لئے اس طرح دعا مانگے : یااللہ! میں تجھ سے سوا ل کرتا ہوں اور تیری طرف اس بات کا وسیلہ پیش کرتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے، ایک ہے، بے نیاز ہے تو مجھے شفا بخش یا تو مجھے جنت میں داخل فرما دے۔ اس طرح اسمائے حسنیٰ کے ساتھ وسیلہ پیش کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا لیکن جب کوئی مسلمان اللہ کے رسولؐ کے کسی اثر کے ساتھ تبرک حاصل کرے تو یہ جائز نہیں مثلاً یوں کہے کہ یا اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری بارگاہ میں تیرے نبی کے لباس، یا لعاب دہن یا بول و براز کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ مجھے بخش دے یا میرے حال پر رحم فرما۔ جو شخص اس طرح کرے گا لوگ یقینی طور پر اس کے دین وعقیدہ ہی میں نہیں، بلکہ اس کی عقل و فہم میں بھی شک کریں گے۔''
معلوم ہوا کہ تبرک اور توسل میں فرق ہے، اسی فرق کی بنا پر اللہ کے رسول کی زندگی میں آپ کی ذات سے تبرک لیا جاسکتا تھا لیکن آپ کی ذات کو آپ کی زندگی میں یا وفات کے بعد بطورِ وسیلہ پیش کرنا درست نہیں۔
2. مذکورہ رسالہ میں حضرت ابوہریرۃ ؓکے حوالے سے یہ حدیث پیش کی گئی ہے کہ
«رُبّ أشعث مدفوع بالأبواب لو أقسم علی الله لأبرّہ» بہت پراگندہ بالوں والے جنہیں دروازوں سے واپس کردیا جاتا ہے، اگر قسم دے کر اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا فرما دے۔'' (مسلم بحوالہ رسالہ مذکور ص:۳۸)
وضاحت: معلوم نہیں کہ صاحب ِرسالہ اس حدیث سے توسل بالذات کس طرح ثابت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس میں کسی ایسے بدعتی توسل کا اشارہ وکنایہ تک بھی نہیں! بلکہ یہ حدیث تو توسل بالذات کے خلاف ایک فیصلہ کن دلیل ثابت ہورہی ہے کیونکہ اس میں بغیرکسی واسطے اور وسیلے کے اللہ تعالیٰ کو پکارنے اور اللہ کو قسم دے کر دعا مانگنے کا ذکر ہے۔ پھر یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی قسم کو پورا فرما دیتے ہیں اور اللہ کی ذات اور صفات کے علاوہ غیراللہ کی قسم کھانا شرک ہے۔
قرآن و حدیث سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرکے دعامانگی جاسکتی ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ کسی نیک شخص سے دعا کی درخواست کی جائے اور ان تینوں صورتوں میں سے پہلی صورت کی طرف اس حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے۔ جب کہصاحب ِرسالہ کا دعویٰ یہ ہے کہ ذواتِ صالحہ کا وسیلہ بھی جائز ہے لیکن پیش کردہ دلیل مذکور میں اس دعویٰ کی کوئی تصدیق یا تائید نہیں ہوتی۔
کیونکہ 'دلیل'کہتے ہی اُسے ہیں جو دعویٰ کے عین مطابق ہو خواہ یہ مطابقت 'عبارۃ النص' سے ثابت ہو یا 'اشارۃ النص' سے یا دلالت کی دیگر اقسام میں سے کسی قسم سے۔ جبکہ مذکورہ دلیل قادری صاحب کے دعویٰ سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتی۔ اس لئے کہ ان کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ذواتِ صالحہ کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے لیکن پیش کردہ حدیث میں ایسا کوئی لفظ اور اشارہ نہیں ہے کہ نیک لوگوں کا وسیلہ پکڑو! بلکہ حدیث میں تو نیک صالح لوگوں کی دعا کی قبولیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور نیک صالح سے دعا کروانے میں ہمیں کوئی اختلاف نہیں۔دعا کروانے اور ان کا وسیلہ از خود اختیار کرنے میں بڑا واضح فرق ہے۔
3. صاحب ِرسالہ نے اپنے موقف کے حق میں حضرت علی کی یہ روایت بھی پیش کی ہے کہ «الأبدال يكون بالشام وھم أربعون رجلا کلما مات رجل أبدل الله مکانه رجلا...» '' ابدال شام ہی میں ہوں گے۔ یہ چالیس مرد ہوں گے، ا ن میں سے ایک جب فوت ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ اس جگہ دوسرا مقرر فرما دے گا۔ ان کی برکت سے بارش دی جائے گی۔ ان کے وسیلے سے دشمنوں پر مدد طلب کی جائے گی اور ان کی بدولت اہل شام سے عذاب دفع کیا جائے گا۔'' (ایضاً : ص۳۹)
وضاحت : صاحب ِرسالہ نے اس روایت کا اصل ماخذ ذکر کرنے کی بجائے محض مشکوٰۃ کے حوالہ پر اکتفا کیا ہے۔ بہرحال یہ روایت مختلف کتب ِاحادیث میں الفاظ کے قدرے اختلاف سے مروی ہیں جبکہ ان میں سے کوئی ایک روایت بھی بسند صحیح ثابت نہیں۔ مثلاً مذکورہ روایت مسند احمد (۱؍۱۱۲) میں حضرت علیؓ کے حوالے سے مروی ہے جبکہ حضرت علیؓ سے روایت کرنے والے شریح بن عبید ہیں اور اس شریح بن عبید کی حضرت علیؓ سے ملاقات ہی ثابت نہیں۔ دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ (۶؍۵۶۵)
اس سے ملتی جلتی مسند احمد (۵؍۳۲۲) میں ایک اور روایت بھی ہے مگر اس کی سند میں انقطاع ہے اور عبدالواحد بن قیس اور حسن بن ذکوان ضعیف راوی ہیں۔ نیزحسن بن ذکوان مدلس بھی ہے اور اس روایت میںاس کے سماع کی صراحت بھی مذکور نہیں۔ علاوہ ازیں شیخ محمد ناصر الدین البانیؒ نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ (ایضاً۲؍۳۴۰)... اسی طرح کی ایک روایت مجمع الزوائد (۱۰؍۶۳) میں بھی ہے مگر وہ بھی ضعیف ہے جیسا کہ امام ہیثمیؒ رقمطراز ہیں کہ رواہ الطبراني من طريق عمر والبزار عن عنبسة الخواص وکلاھما لم أعرفه'' ''اسے امام طبرانی نے عمر اور بزار نے عنسبہ کے طریق سے روایت کیا ہے اوریہ دونوں میرے نزدیک مجہول ہیں۔ '' اس مفہوم کی کئی اور روایات بھی مذکور ہیں مگر ان میں سے کوئی ایک بھی آنحضرتؐ سے بسند صحیح ثابت نہیں۔ اسی لئے علامہ البانی مرحوم فرماتے ہیں کہ''واعلم أن أحاديث الأبدال لايصحح منهاشيء وكلها معلولة وبعضها أشد ضعفا من بعض'' ''ابدالوں سے متعلقہ کوئی روایت بھی بسند صحیح ثابت نہیں بلکہ یہ تمام روایات معلول ہیں اور ہر ایک دوسری سے زیادہ ضعیف ہے۔'' (تفصیل کیلئے ملاحظہ ہوالسلسلۃ الضعیفۃ۲؍۳۳۹ تا۳۴۱)
حافظ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ ''أحاديث الأبدال والأقطاب، والأغواث والنقباء والنجباء والأوتار كلها باطلة علی رسول الله ﷺ(المنار المنیف: ص۱۳۶) ''ابدالوں، قطبوں، غوثوں، نقبائ، نجباء اور اوتاروں کے بارے میں جتنی احادیث مروی ہیں، وہ سب کی سب اللہ کے رسول پر جھوٹ ہیں۔'' (کوئی ایک بھی صحیح نہیں)
امام سخاویؒ فرماتے ہیں کہ ''حديث الأبدال له طرق عن أنس مرفوعا بألفاظ مختلفة كلها ضعيفة'' (المقاصد الحسنۃ: ص۸)
''ابدالوں کے بارے میں حضرت انسؓ سے مختلف اسناد سے مرفوعاً حدیث مروی ہے جبکہ اس کی تمام سندیں کمزور ہیں۔''
امام سیوطیؒ نے ان روایات کو موضوع ثابت کرتے ہوئے اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (۳۳۰ تا ۳۳۲؍۲) اور ابن جوزیؒ نے الموضوعات (۳؍۱۵۱) میں ذکر کیا ہے۔
اب قارئین خود ہی فیصلہ کرلیں کہ ایسی ضعیف، باطل اور من گھڑت روایات کی بنیاد پر کسی عمل کو دینی، شرعی اورجائز قرار دیا جاسکتاہے؟
4. ھل تنصرون وترزقون إلا بضعفائکم... (ایضا)
وضاحت : صاحب ِرسالہ اس روایت کا ترجمہ چھوڑ گئے ہیں پھر اس سے ملتی جلتی ایک روایت ذکر کرتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا:
«أبغوني في ضعفائکم فإنما ترزقون أوتنصرون إلابضعفائکم» (رواہ ابوداود) ''تم اپنے ضعیفوں میں مجھے تلاش کرو کیونکہ تمہیں رزق اور مدد تمہارے ضعیفوں کی وجہ سے دی جاتی ہے۔''
مذکورہ روایت میں اجمال ہے کہ ''تمہارے ضعیفوں کی وجہ سے تمہاری مدد و نصرت کی جاتی ہے۔'' اس اجمال کی تبیین قادری صاحب نے تو یہ کی ہے کہ ''صالحین کا وسیلہ پیش کرنا بھی جائز ہے۔'' (ص:۴۱) جبکہ رسول اللہؐ نے اس اجمال کی تبیین اس طرح فرمائی ہے کہ «إنما نصر الله ھذہ الأمة بضعفتهم، بدعواتهم وصلاتهم وإخلاصهم» (نسائی...حوالہ) ''اللہ تعالیٰ اس اُمت کے ضعفا کی دعاؤں ، نمازوں اور اخلاصوں کی وجہ سے اس اُمت کی مدد فرماتے ہیں۔'' لہٰذا اللہ کے رسولؐ کے بیان سے ثابت ہوا کہ کمزوروں اور ضعیفوں کی دعاؤں کی وجہ سے اس اُمت کے دیگر افراد کی مدد ہوجاتی ہے جیسا کہ ابن بطالؒ فرماتے ہیں کہ «تأويل الحديث أن الضعفاء أشد إخلاصا في الدعاء وأکثر خشوعا في العبادة لخلاء قلوبھم عن التعلق بزخرف الدنيا» (فتح الباری :۸۹؍۲) ''اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ ضعفا دعا کرنے میں زیادہ مخلص اور عبادت میں انتہائی خشوع وخضوع والے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے دل دنیاوی چمک دمک سے خالی ہوتے ہیں۔'' اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے اِن بندوں کی دعا جلد قبول کرلیتے ہیں۔ اور کسی نیک صالح مسلمان سے دعا کروانے میں کسی کو اعتراض نہیں۔لہٰذا ان احادیث میں توسل بالذات کا کوئی ثبوت نہیں!''
5. إنه کان يستفتحب صعاليك المهاجرين'' رواہ في شرح السنة ''نبی کریم ﷺ فقراء مہاجرین کے وسیلے سے فتح و نصرت کی دعا مانگا کرتے تھے۔'' (ایضاً)
وضاحت: صاحب ِرسالہ کی پیش کردہ مذکورہ روایت مرسل (منقطع) ہے کیونکہ اس کا مرکزی راوی اُمیہ بن خالد ہے جس کی اللہ کے رسولؐ سے ملاقات ثابت نہیں لہٰذا جب یہ صحابی ہی نہیں تو اس کی مذکورہ روایت کس طرح قابل حجت تسلیم کی جاسکتی ہے؟ تفصیل کیلئے دیکھئے الاصابہ ۱۳۳ اور الاستیعاب ۱؍۳۸ علامہ ازیں مذکورہ روایت کی سند میں سفیان اور ابواسحاق مدلس راوی ہیں اور محدثین کے نزدیک مدلس راوی کی روایت اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اپنے سماع کی صراحت نہ کردے لیکن یہاں دونوں راویوں کا تصریح بالسماع مذکو رنہیں، اس لئے یہ روایت قابل دلیل نہیں! مزید برآں مذکورہ روایت کے ترجمہ میں 'وسیلے' کا لفظ صاحب ِرسالہ کا خودساختہ اضافہ ہے کیونکہ متن حدیث میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کامعنی وسیلہ کیا جائے البتہ روایت کے مفہوم میں اجمال ہے کہ اللہ کے نبی فقیر مہاجرین کے ساتھ فتح طلب کیا کرتے تھے۔ اس اجمال کی تفصیل گذشتہ روایات میں گذر چکی ہے کہ فقرا کی دعائیں چونکہ زیادہ قبول ہوتی ہیں، اس لئے ان دعاؤں کے ساتھ آپ فتح طلب کیا کرتے تھے نہ کہ ان کی ذات کا واسطہ دے کر! اس لئے اوّل تو یہ روایت ہی ضعیف ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر اسے صحیح بھی تسلیم کرلیاجائے تو اس میں توسل بالذات کا کوئی اشارہ نہیں۔
6. حضرت علیؓ بن ابی طالب کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہؓ بنت اسد کے وصال پر حضورؐ سیدعالمؐ نے حضرت اُسامہ بن زیدؓ، حضرت ابوایوب انصاریؓ اور ایک سیاہ فام غلام کو قبر کھودنے کا حکم دیا۔ جب لحد تک پہنچے تو حضور انورؐ نے بنفس نفیس لحد کھودی اور اپنے ہاتھوں سے مٹی نکالی، جب فارغ ہوئے تو اس قبر میں لیٹ گئے پھر یہ دعا مانگی ... ''اللہ تعالیٰ زندگی اور موت دیتا ہے، وہ زندہ ہے، اس کے لئے موت نہیں، میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے ، اپنے نبی اور مجھ سے پہلے نبیوں کے طفیل اس کی قبر کو وسیع فرما، بے شک تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔'' (رسالہ مذکورہ، ص:۴۴)
وضاحت: مذکورہ روایت المعجم الکبیر (۸۷۱) اور المعجم الاوسط (۱۹۱) وغیرہ میں موجود ہے، لیکن یہ روایت کئی وجوہات کی بنا پر قابل استدلال نہیں۔مثلاً
1. اس کی سند میں روح بن صلاح راوی متکلم فیہ ہے جسے دارقطنی اور ابن عدی وغیرہ جیسے کبار محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، اگرچہ حاکم اور ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے لیکن حاکم اور ابن حبان کا جرح و تعدیل میں متساہل ہونا معروف ہے۔ دیکھئے فتح المغیث (۳؍۳۵۹) لسان المیزان (۱؍۱۴) اس لئے یہ راوی ضعیف ہے۔
2. علاہ ازیں تعدیل کے مقابلے میں جرحِ مفسر موجود ہے،اور اُصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جرح مفسر کو تعدیل پر ترجیح دی جائے گی۔
3. اس کے علاوہ سفیان ثوری مدلس راوی کے سماع کی صراحت بھی مذکور نہیں۔
4. نیز روح بن صلاح سفیان ثوری سے روایت کرنے میں منفرد ہے۔ اس لئے محدثین کے ہاں ایسی روایت قابل استدلال نہیں ہوتی۔ خود امام طبرانی ؒنے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ''اس روایت کو عاصم احول سے صرف سفیان ثوری نے روایت کیا ہے اور روح بن صلاح سفیان ثوری سے روایت کرنے میں متفرد ہے۔'' (المعجم الاوسط: ۱؍۱۵۳)
5. سفیان ثوری ۱۶۱ھ میں فوت ہوئے جبکہ صلاح بن روح ۲۳۳ھ میں فوت ہوے اور ان دونوں راویوں کے درمیان تقریباً چوہتر (۷۴) سال کا وقفہ ،ہے علاوہ ازیں صلاح بن روح کے تعلّم حدیث کی پندرہ یا بیس سال کی عمر بھی ان میں داخل کریں تو یہ وقفہ ایک صدی کے قریب پہنچ جاتا ہے، اس لئے قوی امکان یہی ہے کہ روح بن صلاح کا سفیان ثوری سے سماع ثابت نہیں۔ اس کی مزید تقویت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن حبان اس راوی کے متعلق فرماتے ہیں کہ ''روح بن صلاح مصری اپنے ہم وطن لوگوں سے ہی روایت کرتا ہے۔''(کتاب الثقات :۸؍۲۴۴) جبکہ سفیان ثوری کوفی ہیں۔ لہٰذا روح بن صلاح کا کوفہ جانا ثابت نہیں، اسی لئے امام مزی نے اسے سفیان ثوری کے شاگردوں میں شامل نہیں کیا۔ لہٰذا یہ روایت مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر سخت ضعیف ہے۔
یہ روایت دیگر اسناد سے بھی مروی ہے لیکن ان میں سے کوئی سند بھی صحیح ثابت نہیں مثلاً مجمع الزوائد (۹؍۲۵۷) کی سند میں سعدان بن ولید سابری مجہول راوی ہے۔ تاریخ مدینہ (۱؍۱۲۴) کی سند میں قاسم بن محمد ہاشمی ضعیف (متروک) راوی ہے۔ اس کے علاوہ اسناد مرسل، منقطع اور معضل ہیں۔ لہٰذا ایسی کسی روایت کو بطور پیش کرنا کسی محقق عالم کو زیب نہیں دیتا۔
7. سواد بن قارب فرماتے ہیں کہ ''طیب و مکرم حضرات کے فرزند! آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمام رسولوں سے زیادہ قریب وسیلہ ہیں۔ آپ اس دن میرے شفیع ہوں گے جس دن کوئی شفاعت کرنے والا سواد بن قارب کو کچھ بھی بے نیاز نہیں کرسکے گا۔'' (ایضاً ص:۴۵)
وضاحت: صاحب ِرسالہ نے اس روایت کے کسی بنیادی ماخذ کا حوالہ نہیںدیا بلکہ مختصر سیرۃ الرسول کا حوالہ دے کر اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے جبکہ اس روایت کی بھی کوئی سند صحیح ثابت نہیں مثلاً
پہلی سند: علي بن منصور عن عثمان بن عبدالرحمن الوقاص عن محمد بن کعب القرظي قال بينما عمر بن الخطاب... الخ (حاکم ۳؍۶۰۸، دلائل النبوۃ للبیہقی ۲؍۲۵۲، المعجم الکبیر ۷؍۱۰۹، البدایۃ والنھایۃ ۲؍۳۰۹، دلائل النبوۃ لابی نعیم ۱؍۳۱، مجمع الزوائد ۸؍۲۵۰)
٭ اس سند میں بقول امام ذہبی علی بن منصور مجہول راوی ہے اور عثمان بن عبدالرحمن بالاتفاق متروک (ضعیف) راوی ہے۔ ملاحظہ ہو السیرۃ النبویۃ للذہبي،صفحہ ۱۳۱
٭ علاوہ ازیں محمد بن کعب قرظی کی حضرت عمرؓ سے ملاقات ہی ثابت نہیں کیونکہ محمد بن کعب عمر فاروقؓ کی شہادت سے تقریباً تین عشروں بعد پیدا ہوئے ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب ۶۲۵۷۔ لہٰذا جب یہ روایت ہی منقطع (ضعیف) ثابت ہوگئی تو پھر اسے بطورِ دلیل پیش کرنا چہ معنی دارد؟
٭ علاوہ ازیں مذکورہ محدثین مثلاً حافظ ذہبی، حافظ ابن کثیر، امام ہیثمیؒ نے اس روایت کواپنی کتابوں میںذکر کرنے کے بعد اس کے منقطع اور ضعیف ہونے کا بھی حکم لگایا ہے۔
دوسری سند: سعيد بن عبيدالله عن أبيه عن أبي جعفر محمد بن علي (الباقر) قال دخل سواد بن قارب السدوسي علی عمر بن الخطاب ...الخ (البدایۃ والنھایۃ: ۲؍۳۱۱، فتح الباری: ۷؍۱۷۹)
٭ اس سند میں موجود سعید بن عبیداللہ راوی کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو: الجرح والتعدیل :۴؍۳۸، میزان الاعتدال :۲؍۱۵۰،المغنی فی الضعفاء :۱؍۳۸۰
٭ علاوہ ازیں اس راوی کا والد عبیداللہ وصافی بھی سخت ضعیف ہے۔ اسے امام نسائی، ابن معین، ابوزرعہ، ابوحاتم وغیرہ محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو: میزان الاعتدال ۳؍۱۷، الکامل ۴؍۱۶۳۰، المجروحین :۲؍۶۳، تہذیب التہذیب :۷؍۵۵
٭ علاوہ ازیں ابوجعفر باقر کی حضرت علیؓ سے ملاقات بھی ثابت نہیں(دیکھئے سیراعلام النبلائ: ۴؍۳۸۶) لہٰذا یہ سند بھی ناقابل استدلال ہے۔
تیسری سند: زياد بن يزيدبن بادويه أبوبکر القصري ثنا محمد بن تراس الکوفي ثنا أبوبکر بن عياش عن أبی إسحق عن البرآء قال بينما عمر ... الخ (تفسیر ابن کثیر :۴؍۱۶۷،دلائل النبوۃ للبیہقی :۲؍۲۴۸)
٭ اس سند کے دو راوی یعنی زیاد بن یزید اور محمد بن تراس مجہول ہیں۔ دیکھئے السیرۃ النبویۃ للذہبي ص۱۳۰
٭ نیز ابوبکر بن عیاش کا آخری عمر میں حافظہ خراب ہوگیا تھا۔ (تقریب:۷۹۸۵) اور امام ابوحاتم کے بقول ابوبکر بن عیاش کا ابواسحاق سبیعی سے سماع مشکوک ہے۔ (العلل لابن ابی حاتم :۱؍۳۵، تہذیب: ۱۲؍۳۷)
٭ علاوہ ازیں ابواسحاق سبیعی مدلس کے سماع کی صراحت بھی مذکور نہیں۔
مذکورہ روایت کی دیگر اسناد کی بھی یہی پوزیشن ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے۔
8. صاحب ِرسالہ توسل بالذات کے جواز میں ایک اور دلیل یہ لکھتے ہیں کہ
''حضورِ اکرمﷺ طائف سے واپسی پر جِعرانہ تشریف فرما ہوئے، اس وقت قبیلہ ہوازن کے بچوں اور عورتوں میں سے چھ ہزار قیدی آپ کے ہمراہ تھے۔ اونٹوں اور بکریوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔ ہوازن کا ایک وفد مشرف بہ اسلام ہوکر حاضر بارگاہ ہوا، انہوں نے درخواست کی کہ ہم پر احسان فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا: قیدیوں اور اموال میں سے ایک چیز پسند کرلو، انہوں نے عرض کیا، ہمیں قیدی محبوب ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: جو قیدی میرے ہیں یا بنوعبدالمطلب کے ہیں وہ تمہارے ہیں، باقی جو تقسیم ہوچکے ہیں ان کے لئے یہ طریقہ اختیار کرو ... (عربی متن کا ترجمہ صاحب ِرسالہ کے قلم سے ملاحظہ ہو) ''جب میں لوگوں کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھ لوں تو تم کھڑے ہوکر کہنا: ہم رسول اللہﷺ سے درخواست کرتے ہیں کہ مسلمانوں سے ہماری شفاعت فرمائیں اور مسلمان ہماری شفاعت رسول اللہﷺ سے کریں، ہمارے بیٹوں اور عورتوں کے حق میں تو میں تمہیں اس وقت عطا کردوں گا اور تمہاری سفارش کروں گا۔'' (ص:۴۶)
وضاحت: صاحب ِرسالہ نے اس واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد اس کے بارے میں کسی طرح کا اظہارِ خیال نہیں فرمایا کہ وہ اس سے توسل بالذات ثابت کرنا چاہتے ہیں یاکچھ اور؟ البتہ رسالے کے عنوان ''ندائے یارسول اللہ ﷺ! الاستعانہ والتوسل'' کے مطابق نہ تو اس واقعہ سے ندائے یارسول اللہ ﷺکا کوئی اثبات یا اشارہ ہے اور نہ ہی اس میں توسل کا کوئی لفظ ہے البتہ اس واقعہ میں آپؐ نے لوگوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ ''تم بھرے مجمع میں مطلوبہ قیدیوں کے مالکوں کے سامنے مجھ سے سفارش کرنے کی درخواست کرنا'' اور یہ سفارش کرنا کسی زندہ شخص کا کام ہے جو بالاتفاق جائز ہے جیسا کہ حدیث ِنبویؐ ہے کہ اشفعوا توجروا ''(جائز) سفارش کرو اور اجر حاصل کرو۔''
علاوہ ازیں آپ ﷺسے قیدیوں کی آزادی کے لئے استعانت طلب کرنے سے اگر صاحب ِرسالہ غیر اللہ سے استعانت کا جواز پیش کرنا چاہتے ہیں تو پھر بھی یہ دھوکہ اور فریب ہے اس لئے کہ اس واقعہ میں آنحضرت ا سے تحت الاسباب امر میں استعانت طلب کی گئی ہے؛ نہ کہ کسی مافوق الاسباب امر میں۔ جبکہ محل نزاع بات تو یہ ہے کہ مافوق الاسباب معاملات میں بھی غیر اللہ سے استعانت طلب کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ صاحب ِرسالہ کے عقیدے کے مطابق مافوق الاسباب امور میں بھی غیر اللہ سے استعانت طلب کی جاسکتی ہے لہٰذا انہیں اپنے موقف کے مطابق کوئی صحیح دلیل پیش کرنا چاہئے تھا جبکہ مذکورہ واقعہ قطعی طور پر مافوق الاسباب اُمور میں سے نہیں ہے۔ لہٰذا ان کی یہ دلیل بھی ناکارہ ہے۔
9. صاحب ِرسالہ نے اپنے موقف میں ایک دلیل یہ ذکر کی ہے کہ
''امام طبرانی معجم صغیر میں راوی ہیں کہ حضرت اُمّ المؤمنین میمونہؓ فرماتی ہیں ... انہوں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو خانہ میں تین مرتبہ لبیک کہی اور تین مرتبہ نصرت (تمہاری امداد کی گئی) فرمایا۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! میں نے آپؐ کو تین مرتبہ لبیک اور تین مرتبہ نصرت فرماتے ہوئے سنا جیسے آپ کسی انسان سے گفتگو فرما رہے ہوں۔ کیا وضو خانے میں کوئی آپ کے ساتھ تھا؟ آپؐ نے فرمایا: یہ بنو کعب کا رِجز خواں مجھے مدد کے لئے پکار رہا تھا اور اس کا کہنا ہے کہ قریش نے ان کے خلاف بنوبکر کی امداد کی ہے۔ تین دن کے بعد آپ ؐ نے صحابہ کو صبح کی نمازپڑھائی تو میں نے سنا کہ رِجز خواں اشعار پیش کررہاتھا۔''
اس کے بعد قادری صاحب یہ نتیجہ سپرد قلم فرماتے ہیں کہ ''یہ بھی صحابی ہیں جنہوں نے تین دن کی مسافت سے بارگاہِ رسالتؐ میں فریاد کی اور ان کی فریاد سنی گئی۔'' (ایضاً ص۴۷،۴۸)
وضاحت: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آیا یہ واقعہ سند کے اعتبار سے صحت کے اس معیار پر پورا اترتا ہے کہ اس سے استدلال کیا جائے؟ تو عرض ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے یعنی ا س کی سند میں ایسی علّتیں ہیں کہ محدثین کے ہاں یہ کسی صورت بھی قابل استشہاد نہیں مثلاً :
1. امام ہیثمیؒ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں کہ ''رواہ الطبراني في الصغير والكبير وفيه يحي سليمان بن نضلة وھو ضعيف'' (مجمع الزوائد :۶؍۱۶۴) ''اسے امام طبرانی نے المعجم الکبیر اور المعجم الصغیر میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں یحییٰ بن سلیمان نامی راوی ضعیف ہے۔''
2. امام ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس راوی پر کلام کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال : ۳؍۲۹۲ اور لسان المیزان :۶؍۲۶۱
3. اس کی سند میں محمد بن عبداللہ نامی راوی کے بارے میں امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ لایعرف(میزان الاعتدال :۳؍۸۳) یعنی یہ راوی مجہول ہے اور مجہول راوی کی روایت ضعیف کہلاتی ہے۔
4. اس کی سند میں محمد بن نضلہ نامی راوی کے حالات کتب ِرجال سے نہیں ملتے لہٰذا یہ بھی کوئی مجہول راوی ہے۔
یہاں دو باتیں مزید قابل غور ہیں۔ ایک تو یہ کہ عمرو بن سالم خزاعی کی نبی کریم ﷺ کے پاس مدینہ منورہ آکر قریش کے ظلم کے خلاف مدد کی درخواست کرنا دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:فتح الباری:۷؍۵۱۹،۵۲۰، مصنف عبدالرزاق :۵؍۳۷۴، البدایۃ والنھایۃ :۴؍۳۰۹،۳۱۰)
البتہ جن روایات میں یہ اضافہ مذکور ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں ہی عمرو کی پکار سن کر نصرت، نصرت کے کلمات بیان فرمائے، ان میں سے کوئی روایت بسند صحیح ثابت نہیں لہٰذا یہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض ان روایات کو بھی صحیح تسلیم کرلیا جائے تو پھر بھی قادری صاحب کا مقصود اس روایت سے حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اسے نبی کریمﷺ کا معجزہ قرار دیا جائے گا کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی اور یہ معجزہ آپؐ کی حیاتِ مبارکہ تک محدود تھا۔ اب اس سے دلیل پکڑنا جہالت یا علمی خیانت ہے!
نیز آپ کا بنو خزاعہ والوں کی مدد فرمانا بھی تحت الاسباب اُمور سے تعلق رکھتا ہے اور جب سائل آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے قریش ِمکہ کی عہد شکنی اور ظلم و جور کے خلاف بنو خزاعہ کی اخلاقی مدد کرتے ہوئے مکہ کی طرف پیش قدمی فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فتح نصیب فرمائی۔
آپؐ چونکہ اپنی زندگی میں ظلم وجور، فتنہ و فساد اور کفر و شرک برداشت نہیں کرسکتے تھے، اس لئے آپؐ نے اس ظلم کے بدلے کے لئے ظاہری اسباب کو بروئے کار لاتے ہوئے حتیٰ المقدور تگ ودو فرمائی لیکن آپؐ کی وفات کے بعد تو کسی صحابیؓ نے بھی آپ کو مدد کے لئے نہیں پکارا، آپ کی ذات کو وسیلہ نہیں بنایا، نہ آپؐ کی قبر پر آکر استعانت کی فریاد کی، اس لئے کہ صحابہ کرامؓ بخوبی جانتے تھے کہ ہر انسان کے فوت ہوجانے پر اس ظاہری دنیا سے اس کا تعلق منقطع ہوجاتا ہے، لیکن ان قادریوں کو یہ بات کون سمجھائے! ﴿إِنَّكَ لا تَهدى مَن أَحبَبتَ وَلـٰكِنَّ اللَّهَ يَهدى مَن يَشاءُ﴾
(10) قادری صاحب نے نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد آپؐ سے مدد مانگنے کے حوالے سے یہ واقعہ بھی ذکر کیا ہے کہ ''حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا پاؤں مبارک سوگیا: «فقال له رجل: اذکر أحب الناس إليك فقال يامحمد! فکأنما نشط من عقال» ایک شخص نے انہیں کہا کہ اس ہستی کو یاد کرو جو تمہیں تمام انسانوں سے زیادہ محبوب ہو، انہوں نے کہا: یامحمدؐ! وہ اسی وقت بھلے چنگے ہوگئے، گویا قید سے آزاد کردیئے گئے ہوں۔'' (ایضاً ص۵۳،۵۴)
وضاحت: گذشتہ ضعیف روایات کی طرح موصوف کی پیش کردہ یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے۔ اس روایت کو امام بخاری نے الأدب المفرد باب مایقول الرجل إذاخدرت رجله (۹۶۴) میں اور ابن السنی (۱۶۸ تا ۱۷۲) نے مختلف طرق سے روایت کیا ہے جبکہ ان تمام طرق (اسناد) کا مرکزی راوی ابواسحق سبیعی ہے جو مدلس راوی ہے اور آخری عمر میں انہیں اختلاط بھی ہوگیا تھا( دیکھئے تہذیب التہذیب اور تقریب بذیل عمرو بن عبداللہ)اور محدثین کے ہاں یہ قاعدہ ہے کہ مدلس راوی کی مُعَنْعَن روایت قبول نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
توسل بالذات کے جواز کے لئے صاحب ِرسالہ کی پیش کردہ احادیث کی کمزوری اور استدلال کی غلطی تو بخوبی واضح ہوچکی ہے۔ اس لئے ہم مذکورہ رسالہ میں پیش کردہ مختلف اہل علم کے دیگر اقوال اور اقتباسات پر بحث سے بغرضِ اختصار صرفِنظر کرتے ہیں جنہیں موصوف نے سیاق و سباق سے کاٹ کر مختلف مقامات پر بطور دلیل پیش کیا ہے۔ وما علينا إلا البلاغ
محدث کے زرِسالانہ کی تجدید کیلئے جن خریداران کو یاددہانی خطوط ارسال کئے گئے ہیں، وہ جلداز جلد اپنا زرِ تعاون بھیج دیں، بالخصوص ایسے خریداران جن کو محدث کے سابقہ شمارہ 'فتنۂ انکار حدیث' کے حوالے سے زرِ سالانہ کی ادائیگی کے لئے خطوط ارسال کئے گئے، لیکن ابھی تک ان کی طرف سے زرِسالانہ کی رقم موصول نہیں ہوئی۔ یاددہانی کی عدم پیروی کی صورت میں ان کے نام ڈاک فہرست سے بادل نخواستہ کاٹنے پر ہم مجبور ہوں گے۔ ادارہ
محدث کا فتنۂ انکارِ حدیث نمبر :
محدث کا سابقہ شمارہ 'فتنۂ انکار حدیث' پر خصوصی اشاعت تھا۔ اس شمارے کو علمی و فکری حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور اس پر ملکی دینی رسائل و جرائد (رونامہ نوائے وقت ہفت روز ہ الاعتصام، ہفت روزہ اہل حدیث، ماہنامہ ترجمان القرآن، ماہنامہ الشریعہ، ماہنامہ نقیب ختم نبوت اور ماہنامہ حکمت ِقرآن وغیرہ) میں تعریفی تبصرے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ یہ شمارہ محدود تعداد میں ادارے کے پاس موجود ہے۔ ۱۰۰ روپے کا منی آرڈر بھیج کر بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک گھر بیٹھے حاصل کریں۔
۱۵؍فروری ۲۰۰۳ء سے قبل دوسال کیلئے زرِسالانہ جمع کرانے والوں کو یہ نمبر مفت دیاجائے گا۔ ادارہ
٭٭٭٭٭