کیا قرآن کی رُو سے حضرت عیسیٰ ؑمیں اُلوہی صفات تھیں؟

ایک پادری کے چودہ دلائل اور ان کا جواب

مولانامحمد علی قصوریؒ اس خاندان کے چشم و چراغ ہیں جن کے اکثر افراد نے برصغیر میں اسلام اور ملک وملت کی خدمت اورجدوجہد ِآزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ مولانا عبدالقادر قصوری(سابق صدر انجمن اہلحدیث، پنجاب) کے صاحبزادے، معین قریشی (سابق نگران وزیراعظم) کے چچا اور موجودہ وفاقی وزیر خارجہ (خورشید محمود قصوری) کے تایا تھے۔

آپ نے اعلیٰ تعلیم کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی۔ بیرسٹری کا کورس بھی مکمل کیا لیکن سند حاصل نہ کرسکے تھے کہ وطن لوٹ آئے۔ انگلستان کے قیام کے دوران ہی مولانا محمد علی قصوری نے اپنی زندگی اسلامی اور ملی کاموں کے لئے وقف کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ برطانوی حکومت کی طرف سے کئی ملازمتوں کی پیشکش ہوئی لیکن ان کے دماغ میں ایک ہی دھن تھی کہ کسی طرح اسلامی ممالک کو مغربی استعمار کے چنگل سے آزاد کروایا جائے۔ افغانستان کی حکومت کو برطانوی سامراج کے خلاف جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے افغانستان کا سفر بھی کیا۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی تو یاغستان چلے گئے اور وہاں کے قبائل کو ظلم کی قوتوں کے خلاف جہاد کے لئے تیار کیا ۔ زیر نظر مضمون آپ کے رشحاتِ قلم کا نتیجہ ہے۔ (محدث)

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن تُطيعوا فَر‌يقًا مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ يَرُ‌دّوكُم بَعدَ إيمـٰنِكُم كـٰفِر‌ينَ ١٠٠وَكَيفَ تَكفُر‌ونَ وَأَنتُم تُتلىٰ عَلَيكُم ءايـٰتُ اللَّهِ وَفيكُم رَ‌سولُهُ ۗ وَمَن يَعتَصِم بِاللَّهِ فَقَد هُدِىَ إِلىٰ صِر‌ٰ‌طٍ مُستَقيمٍ ١٠١﴾... سورة آل عمران

'' اے ایمان والو! اگر تم اہل کتا ب کی کسی جماعت کی باتیں مانو گے تو وہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد کافر بنا دیں گے۔ تم کیسے کفر کرتے ہو؟ باوجودیکہ تم پر اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں رسول اللہ ﷺ موجود ہیں۔ جو شخص اللہ تعالی (کے دین) کو مضبوطی سے تھام لے تو بلاشبہ اسے راہ راست دکھا دی گئی۔''

جوں جوں مغربی دنیا مذہب ِمسیحیت سے برگشتہ و منکر ہورہی ہے اور موجودہ سائنس و فلسفہ مذہب ِمسیحیت کی دھجیاں اڑا کر دنیا پرمسیحی عقائد کا لغو پن اور اس کے ا خلاقی ضوابط کی ناپائیداری ظاہر کر رہے ہیں، مسیحی پادری ومشنری اپنے مذہب کو ایشیائی اقوام میں پھیلانے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوششیں کررہے ہیں۔ شاید اس کی و جہ یہ ہو کہ ان کو یورپ کے اکھاڑے میں اپنی کامل شکست کا اعتراف کرنے کے بعد اب دوسرا حلقہ اثر پیدا کرنے کا شوق دامن گیر ہوا ہے ،کیونکہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا...!

لیکن اس میں بھی عیسائیت کو سخت مشکلات اور مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان شاء اللہ پوری ناکامی ہوگی۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو من کل الوجوہ عیسائیت کی ضد ہے۔ اگر عیسائیت کے عقائد غیر معقول اور ناقابل تسلیم ہیں تو اس کے برعکس اسلام کے عقائد ایسے معقول و آسان فہم ہیں کہ کسی منصف مزاج عیسائی کو بھی ان پر ایمان لانے میں عذر نہیں ہوسکتا۔ اگر عیسائیت کا اخلاقی کوڈ (ضابطہ) فرسودہ ہے کہ فی زمانہ وہ ساقط الاعتبار ہوچکاہے تو اسلام کا اخلاقی ضابطہ ایسا مکمل ہے جو موجودہ زمانہ میں بھی یورپ کے بہترین قانون سازوں کی رہنمائی اور ماہرین اخلاق کی رہبری کرسکتا ہے۔ اس لئے عیسائی مذہب کو ہر میدان میں اسلام سے زَک اٹھانا پڑے گی۔

چنانچہ ''دشمن جب مغلوب ہوجاتا ہے تو خدع و فریب کو اپنا آلہ اور دسائس و حیل کو اپنا حربہ بناتا ہے'' ...اسی کے مصداق عیسائی مشنریوں نے بھی خدع و فریب کو اپنا آلہ کار بنایا اور اسلام کے خلاف تحریراً و تقریراً دروغ بافی کرنا شروع کردی۔ اس سے ان کی پیش نظر دو مقاصد تھے :

عیسائی مبلغین کے مقاصد

اول: کم علم و ناواقف مسلمانوں اور انگریزی خواں نوجوانوں کو ان کے دین حق سے بدگمان کرنا بالخصوص مؤخرالذکر طبقہ کو،کیونکہ وہ عموماً عربی تعلیم سے ناآشنا ہونے کے باعث اسلامی علوم سے کورے ہوتے ہیں اور عیسائیوں کی تحریرات کوباوجود اس کے کہ وہ کذبِ جلی اور دروغِ صریح سے لبریز ہوں، مفتریانہ معلومات کا ذخیرہ تصور نہیں کرتے اور دل ہی دل میں سمجھنے لگتے ہیں کہ اسلام پر تو اعتراضات کا انبار ہے۔ان اعتراضات سے متاثر ہوکر وہ عیسائیت تو اختیار نہیں کرتے(کیونکہ عیسائیت کا دامن تو خیر یا معقولیت سے قطعاً خالی ہے اور اس میں یہ استعداد ہی نہیں کہ کسی معقول شخص کو اپنی حقانیت کا معترف بنا سکے) لیکن صحیح اور راسخ العقیدہ مسلمان بھی نہیں رہتے۔

دوم: سمجھ دار عیسائیوں کو اسلام کی طرف مائل ہونے سے روکناجن کے قلوب میں مسیحیت کے پیچ در پیچ عقائد اور مشوش العقول اساسی اصولوں اور غیر معقول اخلاقی آئین نے ایسے سخت شکوک پیدا کردیئے ہیں کہ وہ کسی طرح سے بھی ایمان وایقان کے ساتھ عیسائیت پر کاربند نہیں رہ سکتے اور اپنی فطری ضروریات کی وجہ سے کسی ایسے مذہب کے متلاشی ہیں جو زیادہ ریشنل (معقول) ہو اور ان کی سیاسی،معاشرتی، تمدنی اور گھریلو ضروریات کو بوجہ اتم پورا کرے ۔

اہل یورپ کے پاس سوائے ان مشنریوں کی تحریروں کے اور کوئی کسوٹی اسلام و مسیحیت کے مقابلہ و موازنہ کی نہیں ہے۔ اس لئے لامحالہ یہ مشنری بہت بڑی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اوراہل یورپ کو اسلام سے متنفر بنانے میں پورے فتح یاب، مگر

کبھی خاک ڈالے سے چھپتا ہے چاند!


پھر بھی بعض روشن خیال لوگ جنہوں نے مسیحی مشنریوں کی تحریرات کے تاریک پردہ کو چاک کرکے اسلام کے اصلی نورانی چہرے کا بلا واسطہ مشاہدہ کیا ہے، حلقہ بگوش اسلام ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں۔ ہاں عامۃ الناس کا مبلغ علم تو فقط مشنریوں کی مفتریانہ تحریرات اور جھوٹ سے بھری ہوئی روایات اور فرضی و من گھڑت حکایات اور بے سروپا اعتراضات پر مبنی ہے، ا س لئے اگر وہ عیسائی نہیں رہے تو اسلام سے بھی کچھ حسن ظن رکھنے کاموقع انہیں نصیب نہیں ہونے دیا گیا۔

ہمارے علما کا فرض

اس تاریک پردہ کوچاک کرنا اور ہر کہ ومہ کو اسلام کا نورانی چہرہ بے نقاب کرکے دکھانا ہمارے مقتدر علما کا کام تھا مگر افسوس کہ یہ جماعت ِعلما(باستثنائے بعض) ماضی و حال کی باہمی رقابتوں کے بنا پر مسلمانوں کو گروہ در گروہ تقسیم کرنے میں مصروف ہوگئے اور خارجی دشمن کے حملوں کے دفاعی فرض سے پنبہ درگوش (غافل)ہوگئے۔ اس غفلت سے فائدہ اٹھا کر مسیحی مشنری اپنے دوگونہ مقصد کی تحصیل میں سرتوڑ کوششیں کرتے رہے اور تاحال اندر ہی اندر سے اسلام کی بربادی اور رخنہ اندازی میں پوری طرح سے مصروفِ کار ہیں اور اگر اب بھی ہمارے علمائے کرام کی جماعت نے اس اہم فریضہ کی طرف توجہ نہ فرمائی اور اس طوفانِ پوادر(خطرناک) کو اپنی پوری صف آرائی سے ہباء منثور(پراگندہ ذرّے) نہ کردیا تواندیشہ ہے کہ ایک طرف توہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اسلام کو یورپ کے مہذبین کی طرح قومی فیشن سمجھ لے گا اور دوسری طرف یورپ وافریقہ وامریکہ کو حلقہ بگوشِ اسلام بنانے کا موقعہ بھی ہمارے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔

تعلیم یافتہ عیسائی گروہ کی رائے

ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت اگر کوئی شخص یورپ و امریکہ میں چراغ لے کر بھی تلاش کرنا شروع کرے تو اسے کوئی سچا اور صحیح عیسائی ملنا مشکل ہے۔ وہ لوگ گو بظاہر عیسائی ہیں مگر فی الحقیقت مسلمہ معتقداتِ مسیحی سے منکر ہیں۔ ان میں سے جو جرأتِ اخلاقی کے زیور سے آراستہ ہیں، وہ تو علانیہ لا مذہب ہوچکے ہیں اور مسیحیت کی پوری پوری مخالفت کررہے ہیں اور تحریراً و تقریراً اس کے طلسم کوباطل کرنے میں سرگرم ہیں اور بعض جن کی جرأتِ اخلاقی کمزور ہے، وہ سوسائٹی کے دباؤ کی وجہ سے کامل منافقت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر میکس نارڈو یورپ میں مذہب ِعیسائیت کے اثر کی نسبت لکھتے ہیں :

''اس میں کچھ شک نہیں کہ تعلیم یافتہ گروہ کا ایک معتدبہ حصہ اور سلیم الطبع اور فہیم انسان تقریباً بتمام وکمال اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ان کا موجودہ مذہب (عیسائیت) اور ان کا موجودہ نظامِ حکومت اس انسانی فطرت اور ملکہ کے... جو علومِ طبعیہ کی ترقی سے حاصل ہوا ہے... بالکل مخالف اور متضاد ہے اور کوئی انسان معقولیت سے ان فرسودہ اور خلافِ فطرت دونوں نظاموں (عیسائی مذہب اور استبدادی حکومت ) کوقبول نہیں کرسکتا۔ لیکن ہمارے زمانہ کی ایک بہت ہی بڑی قباحت' بزدلی' ہے۔ ہم اپنی آرا کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے تاکہ ہماری اندرونی و بیرونی زندگیاں یگانگت اور یکجہتی کے رنگ میں رنگی جائیں۔ ہمیں زمانہ سازی کے بھوت نے یہی تعلیم دی ہے کہ دنیاوی مصالح اسی امر کی مقتضی ہیں کہ ہم ضمیر کی تنبیہ و مخالفت کی پرواہ نہ کرکے ان فرسودہ عقائد کو تسلیم کرتے رہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اسی بددیانتی اور فقدانِ جرأت ہی نے اس منافقت کی حکومت کو اس قدر طویل بنا دیا ہے اور حق و دیانت کو اس قدر عسیر الحصول۔'' کرنل انگرسال اپنی کتاب 'ہماری کتاب کے مروّجہ جھوٹ' میں لکھتے ہیں:

''مسیحیت غلامی، اَسروتعبد، ناروا داری و تشدد، محکومیت ِفرقہ اُناث اور ایسے ایسے شرمناک ذمائم کی ... جن کا نام لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے... حامی رہی ہے اور جب تک سائنس کی ترقی نے اس کے قصر توہمات کو پوری طرح منہدم نہیں کردیا، اس کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ اور جب تک اسے کامل شکست کا یقین نہیں ہوگیا، اس نے ہتھیار نہیں ڈالے اور اس سے قبل سائنس کے ہر حملے کا جواب تیغ و تفنگ، قتل و غارتگری، تباہی و سفاکی سے دیتی رہی ہے۔ ان واقعات نے تاریخ عالم میں سب سے زیادہ خونیں صفحات کا اضافہ کیا ہے۔ ''

لارڈ مارلے مسیحی غیر معقولیت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ اسلام تمام موجودہ مذاہب سے کہیں برتر ہے اور اس میں کوئی بات عقل عامہ کے خلاف اور اس کی اخلاقی تعلیم میں کوئی امر فطری و طبعی انسانی اخلاق کے منافی نہیں، بہت ممکن ہے کہ صحیح ہو۔''

ہم پورے ایقان سے کہتے ہیں کہ صحیح ہے اور ضرور صحیح ہے۔ لارڈ مارلے کو جو شک ہے، وہ فقط انہی نام نہاد پادریوں کی مفتریانہ تحریرات سے پیدا ہوا ہے۔پروفیسر بکل اپنی شہرہ ٔ آفاق 'تاریخ تمدن' میں ان پادریوں کی مفتریانہ مساعی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

''ہائے افسوس! ان پادری حضرات پر کہ انہوں نے حق و انصاف کا ارادۃً خون کرتے ہوئے حضرت محمدﷺپیغمبر عرب کی ذات پرایسے ایسے الزامات لگائے ہیں جنہیں ایک معمولی انسان کی طرف بھی منسوب کرتے وقت ہر صداقت پسند شخص تامل کرتا ہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی نہ سوچا کہ حضرت محمدﷺاگر دنیا کے سب سے بڑے مصلح نہ تھے تو کم از کم ایسے مصلح تھے جن کی نظیریں دنیا نے بہت کم دیکھی ہیں۔''

الغرض ان عیسائی مشنریوں کی اسلام سے غیر مسلموں کو متنفر کرنے کی کوششیں جس قدر محیر العقول ہیں، اس سے کہیں زیادہ حسرت انگیز۔ ہمارے حضرات علما کاباہم برسر پرخاش رہ کر اسلام کی اشاعت اور اصلی مدافعت سے غفلت برتنا بڑی زیادتی ہے۔ اگر فریق اوّل شب و روز اسلام کی تخریب میں مصروف کار ہے تو فریق ثانی کمالِ تغافل سے اسے نظر انداز کررہا ہے۔ فياللعجب

مسیحی مبلغین کے حملوں کی حیثیت

سچ تو یہ ہے کہ اگر اسلام کی بنیاد حق و راستی کی مضبوط چٹان پر نہ ہوتی تو اسے مسیحی حملے کبھی کے نیست و نابود کرچکے ہوتے اور یہ بھی سچ ہے کہ اگر مسیحیت میں ایک شائبہ بھی معقولیت وراستی کا ہوتا تو ضرور اس کے حملے اسلام پر اس قدر مؤثر ہوتے کہ اسلام کو مدافعت کے بغیر چارہ نہ رہتا مگر اللہ کا شکر ہے کہ جہاں ایک طرف کامل حق و صداقت، معقولیت و اعتدالِ مجسم جلوہ فرما ہے، وہاں اس کے مقابلہ میں کامل غیرمعقولیت و بے بنیاد و بے سروپا روایات کا مجموعہ ہے اور عیسائی مشنریوں نے اپنی نازک پوزیشن کو پوری طرح سے محسوس کرکے اپنے دفاع کا یہی طریقہ نکالا ہے کہ فریق مخالف پرہر وقت اعتراض کرتے رہیں تاکہ اسے ان کے مذہب پراعتراض کرنے کی فرصت ہی نہ ملے۔ لیکن ان کی وہی مثال ہے جوانجیل متی (باب ۷) میں صدوقیوں اور فریسیوں کی دی گئی ہے :

''توکیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا، اور جب تیری آنکھ میں شہتیر ہے تو اپنے بھائی سے کیونکر کہہ سکتا ہے کہ لا تیری آنکھ میں سے تنکا نکال دوں۔ اے ریا کار! پہلے اپنی آنکھ میں سے تو شتہیر نکال، پھر اپنے بھائی کی آنکھ سے تنکے کو اچھی طرح سے دیکھ کر نکال سکے گا۔''

علما کی غفلت اور پادریوں کی جسارت

لیکن جس طرح ہمارے علما کرام کی غفلت شعاری اور بے اعتنائی عدیم المثال ہے، اسی طرح ان مشنریوں کی جسارتیں بھی روز افزوں ہیں۔ ہزارہا مسائل اسلام کے خلاف شائع کئے جاتے ہیں ، اور نوجوان مسلمانوں اور فہمیدہ غیر مسلموں کے قلوب کومسموم کیا جاتا ہے :

﴿وَإِنَّ الشَّيـٰطينَ لَيوحونَ إِلىٰ أَولِيائِهِم لِيُجـٰدِلوكُم ۖ وَإِن أَطَعتُموهُم إِنَّكُم لَمُشرِ‌كونَ ١٢١﴾... سورة الانعام

'' اور یقینا شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تا کہ یہ تم سے جدال کریں۔ اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقینا تم مشرک ہو جاؤ گے۔''

ادھر ہمارے علمائے کرام اور اربابِ قلم بالکل اس طرف متوجہ ہی نہیںہوتے اور اس عظیم الشان خطرہ کا مقابلہ اس کی طرف سے آنکھیں بند کرکے کرتے ہیں۔ خاکسار کو نہ تو علماے کرام کے زمرہ میں داخلہ کا فخر حاصل ہے اور نہ ہی اربابِ قلم میںہونے کا دعویٰ۔ مگر حسب ِحکم سیدالکونین ہادیٔ برحق حضرت خاتم النّبیینﷺ کے «مَنْ رَأی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْيُغَيِرْہ بِيَدِہ فَإنْ لَّمْ يسْتَطِعْ فَبِلِسَانهِِ فَإنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبهِ وَذٰلِکَ أضْعَفُ الإيْمَانِ» (صحیح مسلم:۱۷۵، ترمذی: ۲۱۷۲) ''تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو وہ اسے ہاتھ (قوت) سے ختم کرے، اگر اتنی استطاعت نہ ہو تو تو زبان سے (اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرے) اور اگر اتنی بھی استطاعت نہ ہو تو پھر دل سے (برا جانے) اور یہ (آخری درجہ) سب سے کمزور ایمان ہے۔''

میں نے بھی یہ ارادہ کیا ہے کہ ان رسائل کا جو وقتاً فوقتاً عیسائی مشنریوں کی طرف سے شائع ہوتے رہتے ہیں، جواب دوں۔

﴿وَما تَوفيقى إِلّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيهِ تَوَكَّلتُ وَإِلَيهِ أُنيبُ ٨٨﴾... سورة هود ''میری توفیق اللہ کی مدد سے ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں''

مشنریوں کے اکثر اعتراضات تو ایسے ہیں جن کی سخافت پہلی نظر ہی میں معلوم ہوجاتی ہے اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں (وقلیل ما ہم) جن میں منطقی مغالطے ہوتے ہیں اور بعض میں اُصولی غلطیاں ہوتی ہیں۔ اس لئے ہر اعتراض کے جواب کا علیحدہ طریقہ اختیار کیا جائے گا۔

حضرت مسیح کے الٰہی صفات سے متصف ہونے پر چودہ دلائل

سب سے پہلے رسالہ 'حقائق القرآن' کا جواب ہدیۂ ناظرین کیا جاتا ہے، اس رسالہ میں محرر نے قرآنِ حکیم سے حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی فضیلت اور ان میں اُلوہی صفات کے اثبات کی کوشش کی ہے اور چند مغالطے دے کر نہایت عجیب و غریب نتائج اخذ کئے ہیں۔

مصنف ِرسالہ مذکورنے چودہ دلائل اپنے دعویٰ کے ثبوت میں پیش کئے ہیں جنہیں اگر بنظر غور دیکھا جائے تو وہ چند ایسی بنیادوں پرمبنی ہیں جو فی نفسہٖ بالکل فاسد اور نہایت گمراہ کن ہیں۔ اس لئے پہلے ہم ان کی بنیادی غلطی اس طرح ظاہر کریں گے کہ اس کے بعد ان شاء اللہ ہر دلیل پر علیحدہ علیحدہ جرح و قدح کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی، اور ناظرین کو خود بخود معلوم ہوجائے گاکہ مصنف نے جس قدر دلائل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کے قائم کئے ہیں، وہ سرتا سر غلط ہیں۔

معیارِ افضلیت

(1) مصنف نے انبیا کی فضیلت کے تین معیار قرار دیئے ہیں :

1. نسب 2. صدورِ معجزات 3.بجسد ِعنصری آسمان پر چلے جانا

(2) مصنف نے یہ فرض کیا ہے کہ کسی پیغمبر یا کسی بشر سے بعض معجزات کا صدور اس کی اُلوہی صفات سے متصف ہونے کو مستلزم ہے۔

(3) مصنف نے ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ مدارِ فضیلت اور حضرت عیسیٰ میں وجود صفاتِ اُلوہیت قرآنِ حکیم سے ماخوذ ہے۔

﴿كَبُرَ‌ت كَلِمَةً تَخرُ‌جُ مِن أَفو‌ٰهِهِم ۚ إِن يَقولونَ إِلّا كَذِبًا ٥﴾... سورة الكهف ''یہ تہمت بڑی بری ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے وہ نرا جھوٹ بک رہے ہیں''

سب سے پہلے ہم اس امر کو واضح کردینا چاہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم نے کہیں بھی ان تینوں میں سے کسی ایک کو یا تینوں کو اکٹھا معیارِ فضیلت اور مدارِ فوقیت قرار نہیں دیا۔ ہم تمام پادری صاحبان کو چیلنج کرتے ہیں کہ ایک آیت بھی اس مضمون کی قرآنِ حکیم سے نکال کر دکھلائیں، تب اپنے دعویٰ کو آگے چلائیں۔ ﴿هاتوا بُر‌هـٰنَكُم إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ١١١﴾... سورة البقرة"ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو توکوئی دلیل تو پیش کرو''

تمام انبیا ؑکی تعلیم توحید ِالٰہی ہے

حقیقت الامر یہ ہے کہ قرآنِ حکیم جہاں دیگرسب انبیا کی تعلیمات کا جامع ہے، وہاں ان پر مہیمن (نگران) اور ان کی تصحیح بھی کرتا ہے ۔یعنی مرورِ ایام سے جو نقائص اور شبہات مختلف انبیا کے متبعین کے عقائد اور عبادات و اعمال میں داخل ہوچکے ہیں اور اب انہیں انبیا کی تعلیمات کا جز تک خیال کیا جاتا ہے، قرآن ان کی اصلاح اور تصحیح کرتا ہے۔ اسی لئے سب سے پہلے اس نے یہ دعویٰ کیا کہ عقائد میں تمام انبیا کی تعلیمات کا مقصد و مآل واحد تھا اور وہ یہ کہ سب کے سب توحید اور عبادتِ الٰہی کی طرف بلاتے تھے اور وحی الٰہی سے ان کی رہنمائی کی گئی اور بینات یعنی دلائل و براہین ظاہرہ سے ان کی تائید کی گئی تاکہ وہ اپنی مشترکہ تعلیم یعنی توحید ِالٰہی اور اُخوتِ بنی نوع انسان کو کماحقہ خدا کے بندوں تک پہنچا دیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :

﴿لَقَد أَر‌سَلنا رُ‌سُلَنا بِالبَيِّنـٰتِ...٢٥﴾... سورة الحديد ''ہم نے اپنے رسولوں کو ظاہر دلائل کے ساتھ مبعوث فرمایا (اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے)۔''

﴿وَإِذ أَخَذنا مِنَ النَّبِيّـۧنَ ميثـٰقَهُم وَمِنكَ وَمِن نوحٍ وَإِبر‌ٰ‌هيمَ وَموسىٰ وَعيسَى ابنِ مَر‌يَمَ ۖ وَأَخَذنا مِنهُم ميثـٰقًا غَليظًا ٧﴾... سورة الاحزاب

''اور جب ہم نے سب انبیا سے وعدے لئے اور (ان میں سے بالخصوص) تم سے، نوح اور ابراہیم،موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے وعدے لئے اور سب سے نہایت پختہ وعدہ لیا۔''( کہ تم میری سچی تعلیم کو میرے بندوں تک پہنچا دو گے)

﴿أُولـٰئِكَ الَّذينَ ءاتَينـٰهُمُ الكِتـٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ...٨٩﴾... سورة الانعام ''یہی گرو ہِ انبیا ہے جسے ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائی۔''

﴿إِنّا أَوحَينا إِلَيكَ كَما أَوحَينا إِلىٰ نوحٍ وَالنَّبِيّـۧنَ مِن بَعدِهِ ۚ وَأَوحَينا إِلىٰ إِبر‌ٰ‌هيمَ وَإِسمـٰعيلَ وَإِسحـٰقَ وَيَعقوبَ وَالأَسباطِ وَعيسىٰ وَأَيّوبَ وَيونُسَ وَهـٰر‌ونَ وَسُلَيمـٰنَ ۚ وَءاتَينا داوۥدَ زَبورً‌ا ١٦٣﴾... سورة النساء ''ہم نے تیری طرف وحی کی جس طرح کہ ہم نے نوح اور اس کے بعد کے انبیا کی طرف وحی کی اورہم نے ابراہیم اور اسماعیل،اسحق اور یعقوب اور ان کی اسباط (اولاد) اور عیسیٰ ،ایوب،یونس، ہارون اور سلیمان علیہم السلام کی طرف وحی کی اور داود کو زبور عطا فرمائی۔''

﴿وَجَعَلنا مِنهُم أَئِمَّةً يَهدونَ بِأَمرِ‌نا لَمّا صَبَر‌وا...٢٤﴾... سورة السجدة''اور جب انہوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے کئی ایسے امام بنا دیے جو ہمارے حکم سے ان کی رہنمائی کرتے تھے۔'' ﴿وَما أَر‌سَلنا مِن قَبلِكَ مِن رَ‌سولٍ إِلّا نوحى إِلَيهِ أَنَّهُ لا إِلـٰهَ إِلّا أَنا۠ فَاعبُدونِ ٢٥﴾... سورة الانبياء

''اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کی کہ سوائے میرے اور کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو۔''

﴿شَرَ‌عَ لَكُم مِنَ الدّينِ ما وَصّىٰ بِهِ نوحًا وَالَّذى أَوحَينا إِلَيكَ وَما وَصَّينا بِهِ إِبر‌ٰ‌هيمَ وَموسىٰ وَعيسىٰ ۖ أَن أَقيمُوا الدّينَ وَلا تَتَفَرَّ‌قوا فيهِ...١٣﴾... سورة الشورى ''اس نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا، جس کا نوح کو حکم دیا اور جو ہم نے تیری طرف وحی کیا اور جس کا ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھاکہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ اندازی مت کرو''

یعنی سب انبیا کی تعلیم کا مآل واحد ہے۔

چنانچہ سورہ ٔ انبیاء میں تمام انبیاء کے اوصاف امتیازی کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا﴿إِنَّ هـٰذِهِ أُمَّتُكُم أُمَّةً و‌ٰحِدَةً وَأَنا۠ رَ‌بُّكُم فَاعبُدونِ ٩٢﴾... سورة الانبياء ''یہ سب انبیا کی جماعت ایک ہی جماعت تھی (اور ایک ہی تعلیم کی حامل جس کامآل یہ تھا کہ) میںہی تمہارا پالنے والا ہوں پس میری ہی عبادت کرو۔''

ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن حکیم نے انبیا کو فی الجملہ ایک جماعت ِحقہ اور ایک ہی اُمت ِقانتہ کے افرادِ حنیف اور انہیں تمام بنی نوعِ انسان کے لئے مقتدا اور پیشوا قرار دیا ہے۔ چونکہ انبیا تمام بنی نوع انسان کے لئے سرچشمہ ہدایت تھے، اس لئے ضروری تھا کہ وہ معصوم ہوتے۔ ورنہ اگر چشمہ ہدایت خود ہی گدلا ہوجائے تو اس سے اوروں کو کس طرح ہدایت ہوسکتی ہے۔ اگر اُسوہ (نمونہ) خود ہی خراب ہوجائے تو ان کے تابعین کس طرح کامل ہوسکتے ہیں۔ اس لئے جو شخص کمالِ انسانی کی لوگوں کو دعوت دے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود کمالِ انسانیت سے متصف ہو اور یہی دعویٰ قرآنِ حکیم نے فرمایا ہے اور اس دعویٰ کو سب سے پہلے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ہی دنیا کے سامنے علیٰ الاعلان پیش کیا اور اس کی تائید میںسب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کیا اور فرمایا﴿فَقَد لَبِثتُ فيكُم عُمُرً‌ا مِن قَبلِهِ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ ١٦﴾... سورة يونس

میں تم میں نبوت کے دعویٰ سے پہلے ایک عمر (چالیس سال) رہا ہوں تو(کیا تم اس میں کوئی بھی ایسا اخلاقی نقص نکال سکتے ہو جو کمال انسانی کے منافی ہو؟)... کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟''

اس کا جواب جو دیا ، اُسے مولانا حالی ؔ نے یوں نظم کیا ہے ؎

تیری ہر بات کا یاں یقین ہے    کہ بچپن سے صادق ہے تو اور امین ہے !


اس لئے حضرت محمد رسول اللہﷺ نے وحی ربانی سے جہاںکہیں بھی انبیا کا ذکر کیا ہے تو ایسے الفاظ میں جیسے کہ ایک مقدس ذات کو مقدس آدمیوں کا کرنا چاہئے۔

انبیا کرام ؑکے امتیازات

ہاں ان میں سب کے مخصوص امتیازات تھے جو مختلف اوقات پربیان فرمائے گئے لیکن خاص خاص انبیا کی طرف خاص خاص صفات کو منسوب کرنے سے ان صفات کا دوسرے انبیا میں غیر موجود ہونا لازم نہیں آتا۔ مثلا ً سورہ ٔمریم میں فرمایا : ﴿وَاذكُر‌ فِى الكِتـٰبِ إِدر‌يسَ ۚ إِنَّهُ كانَ صِدّيقًا نَبِيًّا ٥٦ وَرَ‌فَعنـٰهُ مَكانًا عَلِيًّا ٥٧﴾... سورة مريم ''نیز اس کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کیجئے، بلا شبہ وہ سچا نبی تھا اور اس کو ہم نے بہت ہی بلند مقام تک اُٹھایا۔''

اور حضرت اسماعیل ؑ کی نسبت فرمایا﴿إِنَّهُ كانَ صادِقَ الوَعدِ وَكانَ رَ‌سولًا نَبِيًّا ٥٤﴾... سورة مريم ''تحقیق وہ صادق الوعد تھا اور رسول اور نبی تھا۔''

پھر حضرت ابراہیم ؑ کی نسبت فرمایا: ﴿وَما كانَ مِنَ المُشرِ‌كينَ ١٣٥﴾... سورة البقرة '' اور وہ مشرک نہ تھا۔''

تو کیا اس سے نعوذ باللہ یہ لازم آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑمیں حضرت ادریس ؑ کی سی راست بازی اور حضرت اسماعیل ؑ کی سی صادق الوعدی نہ تھی یا حضرت ادریس ؑ حضرت عیسیٰ ؑ سے بھی اوپرکے آسمان پر تھے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کے شرک کی نفی کہیں بھی قرآنِ حکیم میں مذکور نہیں لیکن حضرت ابراہیم ؑ کی باربار مذکور ہے تو اس سے نعوذ باللہ یہ لازم آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ مشرک تھے؟ اگر مصنف ِ'حقائق قرآن' کی یہی منطق صحیح ہے تو ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہتے: ﴿إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِن هُم إِلّا يَخرُ‌صونَ ١١٦﴾... سورة الانعام ''محض وہمی باتوں کی پیروی کرتے ہیں اور اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں۔''

﴿كَبُرَ‌ت كَلِمَةً تَخرُ‌جُ مِن أَفو‌ٰهِهِم ۚ إِن يَقولونَ إِلّا كَذِبًا ٥﴾... سورة الكهف ''بہت ہی بڑی قبیح بات ہے جو ان کی زبانوں پر جاری ہے اور یہ سوائے صریح جھوٹ کے اور کچھ نہیں کہتے۔''

پس قرآنِ کریم میں کسی نبی کے چند مخصوص واقعات کو بطورِ فضیلت بیان کرنے سے یہ غرض ہرگز نہیں ہے کہ دیگر انبیا معاذ اللہ ایسے فضائل سے خالی ہیں۔ بلکہ ہرنبی کے واقعات خاص خاص مقاصد سے بیان ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب نبیوں کے ایک ہی قسم کے واقعات بیان نہیں فرمائے۔

یہاں ان سب تفریقوں کی حقیقت بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔کیونکہ اصل مقصود 'حقائق القرآن' کے اعتراضات کا جواب ہے۔ اس لئے ہم فقط حضرت عیسیٰ ؑ کو خاص الفاظ میں ذکر کرنے کی مصلحت مختصراً بیان کریں گے :

اسلام سے پہلے حضرت مریم ؑ کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ

قرآن حکیم کے نزول سے پہلے یہود کا یہ دعویٰ تھاکہ وہ حضرت ابراہیم ؑ کے وارث ہیں۔اس لئے وراثت ِارض کے فقط وہی مستحق ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو ناقابل نسخ اور آخری اور کامل ترین شریعت اور احکامِ الٰہی کا آخری ورق مانتے تھے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ ؑ کو نعوذ باللہ کذاب، دروغ گو، مفتری ملعون وغیرہ جانتے تھے اور ان کی ماں حضرت مریم علیہا السلام پرنہایت مکروہ تہمت لگاتے تھے چنانچہ ان کی خباثت کا یہ اثر ہوا کہ خود عیسائی بھی حضرت مریم ؑکی عفت و عصمت کے قائل نہ رہے اور جو بہت ہی پکے تھے، وہ بھی مشتبہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

چنانچہ مشہور مؤرخ گبن اپنی شہرۂ آفاق کتابDecline and Fall of Roman Empire (سلطنت ِروما کا عروج و زوال ) کے باب ِاوّل میں لکھتے ہیں :

''حضرت مریم ؑ کی عفت و عصمت کا اور زنا سے برا ء ت کا خیال سب سے پہلے حضرت محمد ﷺ کو آیا۔ اور انہوں نے بڑے زور سے حضرت مریم ؑ کی براء ت کی اور انہیں 'عفیفہ' اور 'صدیقہ' قرا ر دیا اور زنا کی تہمت سے بچانے کے لئے انہیں 'مؤید من روحِ القدس' بتلایا۔

چنانچہ کروسیڈ( صلیبی جنگوں) کے دوران جب یہ تصور (یعنی استقرارِ حمل بلا مس) یورپ میں آیا تو سینٹ برنارڈ نے اسے ایک بدعت سمجھ کر مسترد کردیا۔''

کیونکہ وہ یہ خیال کرتا تھا کہ حضرت مریم ؑ کے ساتھ حضرت جبریل ؑ نے مباشرت کی تھی جس سے استقرارِ حمل ہوا (نعوذ باللہ)۔ اور اس کی تائید انجیل متی باب اوّل ۱؍۱۸ (۱) سے بھی ہوتی ہے۔

لیکن لیکی اپنی کتاب Rationalism جلد اوّل میں لکھتے ہیں:

''صلیبی جنگوں کا ایک اثر یہ ہوا کہ (مسلمانوں کی دیکھا دیکھی) حضرت مریم ؑ کی عفت وعصمت کا خیال یورپ کے عیسائیوں کے عقائد میں داخل ہوگیا اور تعجب تویہ ہے کہ اس اسلامی عقیدہ کے پہنچنے سے پہلے یورپ میں عجیب عجیب خیالات موجزن تھے۔ بعض تو یہ کہتے تھے کہ ایک کبوتر نطفہ لے کر آیا اور اس نے حضرت مریم ؑ کے کان میں ڈال دیا اور وہاں سے وہ سیدھا پیٹ میں سے ہوتا ہوا رحم میں پہنچ گیا اور استقرارِ حمل ہوگیا۔''

چشم بددور... مسیحی بھیڑوں کے گلہ بان 'فزیالوجی' اور 'اناٹومی' میں بھی ید ِطولیٰ رکھتے تھے۔

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آنحضرت سرورِ عالم ﷺ کی بعثت سے پہلے تمام ادیان میں ایک فتورِ عظیم پیدا ہوچکا تھا اور مسلسل تحریفات نے تعلیماتِ الٰہیہ کو اس قدر مسخ کردیاتھا کہ سوائے نام کے ان میں کوئی بھی خوبی نہ رہی تھی۔ چنانچہ یہود تو سرے سے عصمت ِانبیا کے قائل ہی نہیں جیسا کہ ان کی موجودہ توریت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور عیسائی بھی چونکہ ان کے پیرو تھے۔ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو 'ابن اللہ' مانتے تھے۔ اس لئے وہ بھی حضرت عیسیٰ و حضرت مریم علیہما السلام کی عصمت کے عقیدہ کو ضروری خیال نہ کرتے تھے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ ایسا عقیدہ سرے سے الہامی تعلیم کے اور حکمت ِبعثت ِانبیا علیہم السلام کے منافی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو جمیع مذاہب عالم کے لئے حکم عدل (عادل جج) بنا کر بھیجا تاکہ ان سب کے آپس کے اختلاف کو رفع کرکے جمیع ادیان اور جمیع بنی نوع انسان کو خداے واحد کی عبودیت کی لڑی میں پرو کر اُخوت و مساواتِ حقیقی قائم کرکے دنیا کو عدل و انصاف اور امن و سکون سے معمور کردیں۔سب سے پہلے جو قضیہ آنحضرت ﷺ کے دربار میں پیش ہوا ، وہ یہود و نصاریٰ کا ہی تھا﴿وَقالَتِ اليَهودُ لَيسَتِ النَّصـٰر‌ىٰ عَلىٰ شَىءٍ وَقالَتِ النَّصـٰر‌ىٰ لَيسَتِ اليَهودُ عَلىٰ شَىءٍ وَهُم يَتلونَ الكِتـٰبَ...١١٣﴾... سورة البقرة

''اور یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ کا دین بے بنیاد ہے۔ اور عیسائی کہتے ہیںکہ یہود کا دین بے بنیاد ہے، حالانکہ دونوں کو الہامی تعلیم کے حامل ہونے کا دعویٰ ہے۔''

حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق یہود کے الزامات اور عیسائیوں کی لاجوابی

اب یہود جیسا کہ پہلے تحریر ہوچکا ہے، عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت مندرجہ ذیل الزامات دھرتے تھے:

1. وہ حرامزادہ تھے اور حضرت مریم ؑ زنا کی مرتکب ہوئیں۔ (ان کفریات سے اللہ ہمیں بچائے)

2. حضرت عیسیٰ ؑ جھوٹے اور مفتری تھے۔نعوذ باللہ

3. حضرت عیسیٰ ؑ صلیب پر مرے اور توریت میں ہے کہ جو صلیب پرمرا، وہ ملعون ہوا۔ اس لئے حضرت عیسیٰ ؑ کی موت لعنت کی موت تھی، لہٰذا وہ من جانب اللہ نہ تھے۔ نعوذ باللہ

عیسائی پہلے اور تیسرے اعتراض کا کوئی جواب نہیں دیتے تھے اور جیسا کہ گبن اور لیکی و دیگر مؤرخین کا خیال ہے کہ وہ دبی زبان سے اس کا اعتراف بھی کرتے تھے۔

اور دوسرے اعتراض کے جواب میں کہتے تھے کہ وہ ابن اللہ تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے الہامِ الٰہی کی تائیدسے ان سب تنازعات کا خاتمہ فرمادیا اور دونوںفریقوں کو کاذب ٹھہرا کر یوں فیصلہ صادر فرمایا۔

اسلام ہی نے یہود کی تکذیب و تردید کی

اپنے بھائی عیسیٰ علیہ السلام کی براء ت کرتے ہوئے نبی ﷺنے فرمایا کہ یہود جھوٹے ہیں، کیوں؟

اوّل: حضرت مریم علیہم السلام بالکل عفیفہ اور زنا کی تہمت سے بالکل پاک تھیں۔ اس ضمن میں ان کا بغیر تقرب،بحالت ِدوشیزگی حاملہ ہونا، روح القدس سے مؤید ہونا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر سب آگئے ہیں۔ اس میں نہ کوئی حضرت مریم ؑ کا اور نہ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا شرف ہے اور نہ ہی قرآنِ حکیم کا یہ مقصد تھا۔ بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی کمالِ قدرت اور حضرت مریم ؑ کی بریت کا اظہار تھا۔ علیٰ ہذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا 'تکلم فی المہد' بھی محض اپنی والدہ کی بریت کے لئے تھا نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے شرف و بزرگی کے لئے۔

دوم: حضرت عیسیٰ ؑ مفتری و کذاب نہ تھے بلکہ خدا کے سچے رسول تھے۔ جوبنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے۔ اور ان کی موت لعنت کی موت نہیں بلکہ خدا نے ان کو کفار یہود کے ستم سے اور صلیب پرلعنت کی موت مرنے سے بچالیا۔

عیسائیوں کے دعویٰ اُلوہیت ِمسیح کو حضور سرورِ عالم ﷺ نے یوں مسترد فرمایا :

(1) ﴿تَكادُ السَّمـٰو‌ٰتُ يَتَفَطَّر‌نَ مِنهُ وَتَنشَقُّ الأَر‌ضُ وَتَخِرُّ‌ الجِبالُ هَدًّا ٩٠ أَن دَعَوا لِلرَّ‌حمـٰنِ وَلَدًا ٩١ وَما يَنبَغى لِلرَّ‌حمـٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ٩٢﴾... سورة مريم '' قریب ہے کہ آسمان ان کے اس افترا سے (کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے) پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ دھڑام سے گرپڑیں، اس سے کہ انہوں نے خدا کے لئے بیٹا قرار دیا۔حالانکہ اللہ کے لئے کسی طرح ہی شایان نہیںکہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔''

(2) ﴿لَقَد كَفَرَ‌ الَّذينَ قالوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ المَسيحُ ابنُ مَر‌يَمَ ۚ قُل فَمَن يَملِكُ مِنَ اللَّهِ شَيـًٔا إِن أَر‌ادَ أَن يُهلِكَ المَسيحَ ابنَ مَر‌يَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِى الأَر‌ضِ جَميعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلكُ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضِ وَما بَينَهُما ۚ يَخلُقُ ما يَشاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ‌ ١٧﴾... سورة المائدة

''بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوئے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے۔ (اے پیغمبرؐ!) ان سے پوچھو کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں (مریم) کو اور تمام موجوداتِ ارضی کو تباہ کرنے کی ٹھان لے تو کون آڑے آسکتا ہے اور زمین و آسمان اور ان کی مابین مخلوقات تو سب کی سب اللہ ہی کے لئے ہے، وہ جسے چاہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔''

(3) ﴿لَن يَستَنكِفَ المَسيحُ أَن يَكونَ عَبدًا لِلَّهِ وَلَا المَلـٰئِكَةُ المُقَرَّ‌بونَ...١٧٢﴾... سورة النساء ''مسیح علیہ السلام کو (اس امر میں) ہرگز عار نہیں ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ ہی مقرب فرشتے (اللہ کا بندہ ہونے میں عار سمجھتے ہیں۔)'' ملائکہ مقربین کو بھی (ایسا بننے میں ہرگز عار نہیں ہے۔)''

(4) ﴿قَد كَفَرَ‌ الَّذينَ قالوا إِنَّ اللَّهَ ثالِثُ ثَلـٰثَةٍ ۘ وَما مِن إِلـٰهٍ إِلّا إِلـٰهٌ و‌ٰحِدٌ...٧٣﴾... سورة المائدة ''بے شک کافر ہوئے وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ تینوں میں کا ایک ہے۔ حالانکہ سوائے اللہ واحد کے کوئی معبود نہیں ہے۔''

(5) ﴿مَا المَسيحُ ابنُ مَر‌يَمَ إِلّا رَ‌سولٌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّ‌سُلُ وَأُمُّهُ صِدّيقَةٌ ۖ كانا يَأكُلانِ الطَّعامَ...٧٥﴾... سور المائدة

''نہیں ہیں مسیح ابن مریم ؑ مگر (اللہ کے) رسول۔ بے شک ان سے پہلے بھی رسول گذر چکے ہیں اور ان کی ماں 'صدیقہ' تھیں۔ وہ دونوں (ماں بیٹا عام انسانوں کی طرح) کھانا بھی کھاتے تھے (پھر کیسے اُلوہیت میں دخیل ہوگئے؟)

مؤخر الذکر بیان سے خود بخود اس عظیم الشان بہتان کی بھی وضاحت ہوگئی جو صاحب ِ'حقائق القرآن' نے یہ کہہ کر باندھا ہے کہ قرآنِ حکیم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اُلوہیت کی تائید کی ہے۔ اگر اربابِ بصیرت ان آیات پر جو ہم نے مشتے نمونہ از خروارے درج کی ہیں، غور کریں تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ اُلوہیت ِمسیح کی جس زور وشور سے قرآن حکیم نے تردید کی ہے، وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے۔ اور اگر پادری صاحب اسے تائید تصور کرتے ہیں تو ہم بڑی خوشی سے ان کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیے۔ اور آپ بھی انہی الفاظ میں تائید ِاُلوہیت مسیح علیہ السلام کیجئے... خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، اب آمدم برسر مطلب ...!

نبیﷺ بحیثیت ایک عادل جج

اوپر کی تحریر سے صاف ظاہر ہوگیا کہ ہمارے سرورِ عالم ﷺ کی حیثیت بمنزلہ ایک جج کے ہے جو فریقین متخاصمین میں فیصلہ صادر کررہا ہو اور اس سے تورات کی وہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔ ''وہ قوموں کے درمیان عدالت کرے گا۔''

اور انجیل یوحناکی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہوئی :

''لیکن جب وہ (یعنی روحِ حق) آئے گا تو وہ تمہیں سچائی کی راہ بتائے گا، اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گا لیکن جو کچھ وہ سنے گا، سو کہے گا۔'' (یوحنا : باب ۱۶)

تو ہم اب یہ کہیں گے کہ اگر بفرضِ محال ان سب آیات کو حضرت عیسیٰ اور مریم علیہما السلام کے لئے مدارِ شرف ہی سمجھ لیا جائے تو پھر ہمارے حضرت سرورِ عالمﷺ کے اُسوۂ اسلام کی نسبت کیا کہا جائے گا۔ جنہوں نے اس عدالت ِعالیہ کے حاکم اعلیٰ (چیف جج) کی حیثیت میں (جس کے روبرو تمام انبیا پیش ہو ہو کر اپنے اور اپنی قوم کے مابین قولِ فیصل کے طالب ہوتے ہیں) یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے، جس کی بنا پر ہمارے نادان اور نافہم دوست حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اُلوہیت تک کا نتیجہ نکال رہے ہیں۔ جس عدالت کا منصف ملزم کو دنیا کے میزانِ امتیاز میں اس قدر بلند کرسکتا ہے، ا س کے صدر نشین فیصلہ فرما کر رِفعت منزلت اور بلندیٔ مرتبت کے کس مقام پر ہیں، اس کا اندازہ کون نہیں کرسکتا؟ بجز ہمارے عیسائی مہر بانوں کے جن کی آنکھوں پر تعصب کی مادر زاد پٹی بندھی ہوئی ہے سخن شناس نئی دلبر اخطا ایں جا ست

اور سوائے ان عیسائیوں کے دوسرا کون ایسا عقل کا پورا ہوسکتا ہے جو اس عدالت کے جج کی کم مرتَبتی کا اس لئے قائل ہو کہ اس نے ایک شخص کے جرموں سے براء ت کرتے ہوئے اپنی تعریف بھی بیچ میں کیوں نہیں کی۔ بریں عقل و دانش ببا ید گریست ؟

یا جو اس بات کا قائل ہو کہ بری شدہ شخص، جج سے اس لئے بہتر ہے کہ فیصلہ میں اس کا یا اس کی پیدائش کا ذکر تک نہیں۔ آنحضرت سرو رِعالم ﷺکی ذات ستودہ صفات اس قدر کامل اور ارفع و اعلیٰ تھی کہ سخت سے سخت دشمن ہم عصر بھی اس پر لب کشائی کرنے سے قاصر تھا، چہ جائیکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کہ ان پر اور ان کی والدہ پر چھ سو سال تک الزامات لگائے جاتے رہے۔ اوریہود عیسائیوں کوچیلنج دیتے رہے مگر عیسائیوں نے اس کا جواب تک نہ دیا۔ یہ فخر صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حاصل تھا کہ جہاں آپ نے سابقہ انبیا کی عصمت پر لگائے گئے دھبوں کو صاف کیا وہاں آپؐ نے اپنی برتری کو اس چیلنج کے ساتھ پیش کیا : ﴿فَقَد لَبِثتُ فيكُم عُمُرً‌ا مِن قَبلِهِ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ ١٦﴾... سورة يونس

میں تم میں ایک عمر نبوت سے پہلے بھی بسر کرچکا ہوں تو پھر کیا تم میری ساری زندگی پر غور نہیں کرتے

کہ وہ کس قدر ارفع و اعلیٰ، مکمل و بے عیب ہے۔ بلحاظِ حسب و نسب، بلحاظ ذاتی اوصاف، دیانت وامانت، راست بازی و راست روی، عدل و انصاف، محبت و رحمت و رأفت، الغرض ہر پہلو سے تم اسے مکمل پاؤ گے تو پھر کیا آج تک کوئی ایسا برگزیدہ انسان گزرا ہے؟تم جو دوسرے انبیا پر الزام دھرتے ہو تو آؤ مجھ میں بھی نقص نکالو۔ اس امر کی گواہی اس وقت کے تمام آدمیوں نے نہیں، اشجار و اقمار تک نے دی کہ ایسا کامل انسان نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ ہی اس قدر کمال کا تصور قلب ِانسانی پر گذر سکتا تھا ...!!

عیسائیوں کی ناشکرگزاری اور انصاف کشی

بعد ازاں اپنے تمام پیش رو انبیا پر یہود کی طرف سے لگائے جانے والے مختلف الزامات کی تردید کی اور چونکہ حضرت عیسیٰ و حضرت مریم علیہما السلام پر سب سے زیادہ الزامات تھے، اس لئے ان کی تردید کا اہتمام بھی زیادہ کرنا پڑا۔ عیسائیوں کو اس امرکا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ہمارے حضور سرورِ عالم ﷺنے ان پر اس قدر احسانِ عظیم کیا کہ ان کے بنائے ہوئے خدا کے بیٹے کی براء ت کی۔ اور اس کو معصوم قرار دیا اور اسے ابن اللہ کی ناروا جگہ سے بلند کرکے نبوت و رسالت کی ارفع و اعلیٰ مسند پر بٹھایا۔ مگر یہ کم بخت اس قدر دشمن حق اور انصاف کش واقع ہوئے ہیںکہ اپنے حقیقی محسن و مربی کے شکرگزار ہونے کی بجائے اسی پر زبانِ طعن دراز کرتے ہیں:(فَمَثَلُه کَمَثَلِ الْکَلْبِ إنْ تَحْمِلْ عَلَيهِ يلهثْ أوْتَتْرُکه يَلهَثْ) (۷؍۱۷۶)

کاش! کہ پادری لوگ عقل کے ناخون لیتے اور حق کو چھپانے کی کوشش نہ کرتے۔ مگر کبھی خاک ڈالے سے چھپتا ہے چاند!


نوٹ

(۱) اب یسوع مسیح کی پیدائش یوں ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوئی تو ان کے اکٹھے آنے سے پہلے وہ روح القدس سے حاملہ پائی گئی۔

(۲) یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں بی بی آمنہ (والدئہ رسول اللہ ا) کا ذکر نہیں ہے ۔کہاں وہ عفیفہ عورت جس پر فحش ترین الزام لگ چکا ہے اور کہاں وہ عورت جس کی پاک دامنی ،عفت وعصمت، شرافت ونجابت اور حسب ونسب کے راگ گائے جاتے ہوں۔ثانی الذکر عفیفہ خاتون کے لیے اشد ضروری تھا کہ صفائی کی جاتی اور قرآن کا ذکر بطورِ شہادت صفائی کے ہے ورنہ آج تک حضرت مریم معاذ اللہ فاحشہ متصور ہوتیں۔ جب کہ اول الذکر کا تذکرہ تحصیل حاصل ہوتا لہٰذا اس کا ذکر ترک کیا گیا اور یوں ذکر کا نہ ہونا کوتاہی ٔمراتب کی دلیل نہیں ہے۔ قرآن میں انجیل یا تورات کی طرح غیر متعلق واقعات اشخاص کی زندگیاں اور غیر ضروری اُمور وسوانح مندرج نہیں ہیں اور نہ ایسا ہونا کسی کتاب کی خوبی سمجھی جاتی ہے۔قرآنِ کریم نے صرف انہیں واقعات کا تذکرہ کیا ہے جن سے کوئی انفرادی یا اجتماعی مقصد حاصل ہوتا ہے، لاحاصلمباحث سے ہمیشہ اجتناب فرمایا ہے۔