موت کے سوداگر

مغرب اوربرطانیہ کا قومی اور سیاسی کردار منافقت اور خود غرضی کا شاہکارہے۔ دنیا میں امن کے ان سفیر وں کا اندر سے کردار اتنا گھنائونا ہے کہ انسانیت کے خون سے اِن کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ وہی انسانیت کے ماتھے پر ایسا بدنما داغ ہیں جو موت کا بیوپار کرتے ہیں اور چند ٹکوں، پرتعیش زندگی کی خاطر دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کے لئے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ یہ کوئی اپنی پاس سے فرض کی ہوئی رومانوی اپروچ نہیں بلکہ ننگے حقائق ہیں جنہیں ان ممالک کے مکار پالیسی ساز اوپر سے خوبصورت رنگ دے کر مسلم دنیا کو اپنا 'انسانی حقوق' کا ریکارڈ بہتر کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔

پیش نظر مختصر مضمون برطانیہ کے ہی ایک معروف صحافی 'جان پلگر' کا ہے، جس میں برطانیہ کے اصل چہرے سے پردہ کھینچا گیا ہے۔ اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہوئے اس کا اُردو ترجمہ نذر قارئین ہے۔ (حسن مدنی)

انڈیا اور پاکستان جو کہ دونوں ایٹمی قوتیں ہیں، جنگ کے دہانے پر کھڑی ہیں، ایسی صورتحال میں برطانیہ حالات کو سدھارنے کی بجائے مزید بھڑکا رہا ہے۔ سال ۲۰۰۰ء میں برطانوی حکومت نے ۷۰۰ برآمدی لائسنس جاری کئے جن کا مقصد انڈیا اور پاکستان کو اسلحہ کی فراہمی تھی۔ ا س اسلحہ کی کل قیمت ۶۴ملین سٹرلنگ پونڈ ہے جس میں سے زیادہ تر ہتھیار پاکستان کے مقابلے میںبھارت کو فراہم کئے گئے۔ اس میں بھارت کے ساتھ مل کر ایسے جیگوار طیارے تیار کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے جو کہ ایٹمی ہتھیاروں کو اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں۔

اس سال جنوری (۲۰۰۲ئ) میں جب دونوں ملک جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ٹونی بلیر نام نہاد 'امن مشن' کے تحت برصغیر آئے۔ درحقیقت اس 'امن مشن' کے پردے میں انہوں نے انڈیا کو ۶۰ہاک لڑاکا جنگی طیارے فروخت کرنے کی خفیہ ڈیل کی جس کی مالیت ایکبلین پونڈ بنتی ہے۔ یہ طیارے برٹش ایروسپیس نے بنائے ہیں۔ ہاک طیارے حاصل کرنے کا مسئلہ انڈیا کا 'آؤٹ لک' نامی میگزین منظر عام پر لایا۔جس میں بتایا گیا کہ ٹونی بلیر نے واجپائی کے ساتھ میٹنگ میں بطورِ خاص یہ سودا طے کیا اور وزیردفاع جارج فرنانڈس نے اس کی تائید کی ہے۔

تین ہفتوں بعد نیو دہلی میں ہتھیاروں کی عالمی نمائش Defexpo ہوئی۔ اس کے انعقاد میں برٹش ہائی کمیشن اور برطانوی اسلحہ ساز کمپنیوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ جس کا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ علاقے میں افغانستان اور کشمیر کی و جہ سے خراب صورتِ حال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔ ٹونی بلیر کی حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے اتنی بے تاب تھی کہ برطانوی افسروںکو فل ٹائم دہلی میں تعینات کیا گیا تاکہ ڈیفنس سپلائی میںکوئی تعطل نہ آنے پائے۔ یہ افسر برطانیہ کی ڈیفنس ایکسپورٹ سیلز آرگنائزیشن (DESO) سے تعلق رکھتے تھے جس کا کام دوسرے ممالک کی افواج کواسلحہ فروخت کرنا ہے۔ DESO کے پاس بائیس ممالک پر مشتمل ایک خفیہ لسٹ ہے جن کواسلحہ فروخت کیا جانا ہے۔ اس لسٹ میں پاکستان اور بھارت ٹاپ پرہیں۔ برطانوی میزائلز، ٹینک، آرٹلری، اینٹی ایئرکرافٹ توپیں، دور مار توپیں، چھوٹے ہتھیار اور ایمونیشن 'خریدیں اور بعد میں ادائیگی' (Buy now-pay later)کریں، کی آسان شرائط پر دستیاب ہیں۔

۶۰ ہاک لڑاکا بمبار طیاروں کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ 'ٹریننگ' کے لئے استعمال ہوں گے۔ ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کی سیکرٹری پیٹریشیا ہیویٹ (Patricia Hewit) نے ۲۴؍مئی۰۲ء کو اعلان کیا کہ یہ ڈیل 'ممنوع' کردی گئی ہے جبکہ اندرونی حقیقت یہ تھی کہ طیاروں کی فراہمی کی تاریخ آگے کردی گئی ہے۔ بلیر حکومت کے یہی پرانے ہتھکنڈے ہیں۔ ماضی میں بھی انڈونیشیا کے ڈکٹیٹر مشرقی تیمور کی تباہی میں مصروف تھے تو بلیر حکومت نے ہاک طیاروں کی فراہمی وقتی طور پر آگیکردی تھی۔

انڈیا اور پاکستان میں کروڑوں افراد خط ِغربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ فوجی ہتھیاروں کے خلاف مہم کے ایک ترجمان کے مطابق ایک ہاک لڑاکا بمبار طیارے کی قیمت میں ڈیڑھ ملین افراد کو تاحیات تازہ پانی کی فراہمی ممکن ہے۔ دونوں ممالک کو اسلحہ فراہم کرنے کا مطلب کیا ہے؟ صرف یہی کہ جنگ کی صورت میں دونوں ممالک میں ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔ ایسے ہی جیسے خلیج کی جنگ میں برطانیہ اور مغربی ممالک نے دونوں ممالک کو اسلحہ بیچ کر کم از کم ۱۰؍لاکھ افراد قتل کروائے تھے۔

منافقت اور دوغلا پن تو شاید بلیر حکومت میں کچھ زیادہ ہی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں لیبرپارٹی نے جیسے ہی حکومت بنائی، وزیرخارجہ رابن کک نے اعلان کیا کہ خارجہ پالیسی کو اَخلاقی رُخ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کبھی بھی ایسے ممالک کو ہتھیار نہیں سپلائی کرے گی جہاں یہ یقین ہو کہ دونوں ممالک کے درمیان سخت مخاصمت پائی جاتی ہے اور علاقائی امن کو خطرہ درپیش ہو۔ ان کے ذہن میں یقینا انڈیا اور پاکستان ہوگا جہاں مسئلہ کشمیر ایک خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے اور ان کے پیشرو جیک سٹرا کے مطابق یہ مسئلہ مشرقِ وسطیٰ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ لیکن جس دن سے لیبر پارٹی نے اقتدار سنبھالا ہے، اس کو ہتھیاروں کے کاروبار سے شدید محبت ہوگئی ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ کے اندر ہی انہوں نے 'آفیشل سیکرٹ ایکٹ' کے تحت انڈونیشیا کے ڈکٹیٹر جنرل سہارتو کے ساتھ فوجی اسلحہ اور ہتھیاروں کی سپلائی کے ۱۱معاہدوں کی منظور دی۔ انہوں نے پہلے ہی سال میں ٹوری حکومت کی نسبت، اپنی حکومت کو ہتھیاروں کی سپلائی کرنے والا تیسرا بڑا ملک بنا دیا۔

تقریباً ۲ تہائی فروخت ان ممالک کی حکومتوں کو کی گئی جہاں انسانی حقوق کی صورتحال بہت خراب ہے۔ اسلحہ اور ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار سعودی عرب ہے۔ سعودی عرب روئے زمین پر ایسا اسلامی ملک ہے جہاں بعضجرائم کی سزا کے طور پر سرتک قلم کردیا جاتاہے۔ خواتین کو بالکل کوئی حقوق حاصل نہیں اور ان کے لئے کار چلانا بھی غیر قانونی ہے۔انسانی حقوق کے اس برے ریکارڈ کے باوجود سعودی عرب کو ہتھیار سپلائی کئے جارہے ہیں۔

چیری بلیر (مسز ٹونی بلیر) نے لارا بش( صدر بش کی بیگم) کے ساتھ مل کر پوری دنیا میں افغانستان میں طالبان کی طرف سے خواتین پر ظلم و تشدد کی دہائی مچائی تھی لیکن وہ سعودی حکومت، جو کہ القاعدہ کا روحانی ملک ہے، کے خواتین پر ظلم و تشدد پر خاموش ہے۔ کیونکہ سعودی عرب تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے اور یہاں سے امریکہ کو سستے داموں تیل ملتا ہے۔

برطانیہ کے نیشنل آڈٹ آفس کی طرف سے تحقیقات کے نتائج کو پہلے ٹوری حکومت اور پھر ۱۹۹۷ء میں لیبر حکومت نے دبانے کی کوشش کی۔ ان نتائج کے مطابق سعودی شہزادوں اور برطانوی حکومت کے درمیان اسلحہ اور ہتھیاروں کی سپلائی کی ۲۰بلین پاؤنڈ (جو کہ تاریخ کی سب سے بڑی ڈیل ہے) کی ڈیل ہوئی۔ رپورٹ میںیہ الزام لگایا گیا تھا کہ اس ڈیل میں ٹارینڈو طیاروں کی فروخت میں سعودی شہزادوں کو بھاری کمیشن دیا گیا تھا، شاید فی طیارہ ۱۵ ملین پاؤنڈ۔

برطانیہ میں زراعت کے بعد اسلحہ سازی کی صنعت کو حکومت بھاری سبسڈی دیتی ہے جس کا مطلب ہے کہ برطانوی عوام، پوری دنیا کے ڈکٹیٹروں کو اسلحہ فراہم کرنے کے لئے بھاری ٹیکس دیتے ہیں جبکہ حکومت یہ جواز پیش کرتی ہے کہ اس سے برطانوی عوام کو روزگار مہیا کیا جاتا ہے جو کہ شاید دوسری صنعتوں کے ذریعے نہیں دیا جاسکتا۔

سوہارتوکو لڑاکا ہاک جنگی طیارے کیسے فروخت کئے گئے؟ رابن کک، حلف اٹھاتے ہی انڈونیشیا پرواز کرگئے اور ہزاروں افراد کے قاتل سے ہاتھ ملایا، جو مشرقی تیمور میں مزید قتل و غارت میں مصروف تھا۔ یاد رہے کہ مشرقی تیمور میں قتل و غارت کے لئے برطانوی ایروسپیس کی اعلیٰ ترین پروڈکٹ ہاک طیارے، ہیکلر اور کوچ مشین استعمال ہوئیں۔

ہتھیارو ں کی تیاری اور فروخت کا معاہدہ ۱۱ستمبر کی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' کی وجہ سے کافی نازک ہوگیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی دراصل پوری دنیا پر امریکی بالادستی کا منصوبہ ہے۔ امریکہ اپنے تمام ہتھیار انہی ممالک کو فروخت کرتا ہے جو دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں جس کی واضح مثال پھر سعودی عرب ہی بنتی ہے جوکہ طالبان کے ٹیوٹر تھے۔ اسلحے کی فروخت اور کئی بلین ڈالر سے جنگی طیاروں، جہازوں، میزائل سسٹم کی تیاری عالمیمعیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے جو کہ امریکی معیشت میں ارتفاع یا ناقابل وصول رقم کی وصولی کا موجب بنتی ہے۔ اسی کی وجہ سے امریکی معیشت یورپی اور دوسرے ممالک کی معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے۔

۱۹۶۰ء میں امریکی صدر آئزن ہاور نے امریکی سرمایہ داری نظام کو ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس سے تعبیر کیا تھا جس کا تمام تر انحصار ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت پر تھا۔ ۰۲؍۲۰۰۱ء میں ہر ڈالر میں سے ۴۰ سینٹ ہتھیاروں کی فروخت سے حاصل ہوئے ہیں اور ہتھیاروں کی تیاری کے لئے ۴۰۰بلین ڈالر کی ریکارڈ رقم مختص کی گئی ہے۔ ا س میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ جنگ کی بدولت ہی امریکی معیشت ترقی کرتی ہے۔ خلیج کی جنگ اور پھر یوگوسلاویہ پر نیٹو کے حملوں سے امریکی اور برطانوی ہتھیاروں کی فروخت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا تھا۔

۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد جب نیو یارک سٹاک ایکسچینج نے دوبارہ کام شروع کیا تو اسلحہ تیار کرنے والی فرموں کے سٹاک کی قیمت یک دم بڑھی تھی۔ جن میں Raython کا پہلا نمبر تھا۔ یہ امریکی میزائل کمپنی ہے جس نے لیبر پارٹی کوبھی انتخابات میں بھاری فنڈز دیئے تھے۔

ٹونی بلیر کے اسرائیل سے بھی گہرے تعلقات ہیں جو ان کے ایک دوست مائیکل لیوی کی بدولت ہیں جنہیںبرطانیہ میںلارڈ لیوی کہا جاتا ہے۔ جو مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کے لئے دن رات بے چین ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل اُلٹ ہے۔

جہاںتک برصغیر پاک و ہند کا تعلق ہے، یہاں برطانیہ کی پالیسی یہ ہے کہ یہاںشعلوں کو مزید ہوا دی جاتی رہے اور سنگین بحران طاری رہے۔ فلسطینیوں کی پہلے ۱۴ماہ کی جو آزادی کی تحریک چلی تھی، اس میںبلیر حکومت نے اسرائیل کو ۲۳۰ لائسنس برائے اسلحہ خریداری جاری کئے۔ ان میںبڑے ہتھیار، ایمونیشن، بم اور امریکن گن شپ ہیلی کاپٹرز کے اہم پارٹس کی فروخت ہے۔ یہ وہی ہیلی کاپٹرز ہیں جن سے اسرائیل سویلین علاقوں پربمباری کرتاہے۔ برطانوی ہتھیاروں اور اسلحہ کی سپلائی اسرائیل کو برابر جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل برابر دہائی دے رہی ہے کہ پچھلے ۱۸ماہ سے مسلسل جنیوا کنونشن کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟

وزارتِ خارجہ کے ترجمان جو کہ زیادہ تر جونیئر وزیر ہوتے ہیں، مسلسل پارلیمنٹ میں یہ یقین دلاتے ہیں کہ اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں کوئی برطانوی ہتھیار یا مشین استعمال نہیںکررہا۔ یہ سراسر سفید جھوٹ ہے جو پارلیمنٹ میں بولا جاتا ہے جیسا کہ مختلف اخباری ایجنسیوں نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے تیار کئے ہوئے ہتھیار ہی استعمال کررہا ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کے Centario Tanks کی باڈی بھی برطانیہ کی بنائی ہوئی ہے۔

کاروبار تو پھر کاروبار ہی ہے جو کبھی رُک نہیں سکتا... ۱۱؍ستمبر۲۰۰۱ء کو لندن کے ڈاک لینڈ میں اسلحہ کی نمائش جاری تھی لیکن کسی نے بھی وہاںنیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹرمیں ہلاک ہونے والوں کے لئے ایک منٹ کی بھی خاموشی اختیار نہ کی۔ اس نمائش میں اسرائیل کا بہت بڑا سٹال تھا۔ ایک اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی رافیل Rafeael وہاں 'گل سپائیک اینٹی ٹینک میزائل' فروخت کررہی تھی۔ یہ وہی میزائل ہیں جو فلسطین اور لبنان کی شہری آبادیوں پر برسائے جاتے ہیں۔

آخر کار ٹونی بلیر نے پارلیمنٹ کے دباؤ پروعدہ کیا کہ وہ اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے افریقہ میں غربت ختم کرنے کے منصوبے شروع کریں گے جو کہ دنیا کے ضمیر پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ افریقہ میں غربت کی وجہ مغربی ممالک ہی ہیں، جنہوں نے انہیںاربوں کے حساب سے اسلحہ بیچا اور ان کا استحصال کیا۔ دوغلے پن اور منافقت کی انتہا دیکھئے کہ ٹونی بلیر کے اس 'وعدے' کے تین ماہ بعد یہ انکشاف ہواکہ افریقہ میں برطانوی اسلحہ اور ہتھیاروں کی فروخت میں پچھلے سال کی نسبت ۴گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ٹونی بلیر نے تنزانیہ کو (جو کہ افریقہ کے غریب ترین ملکوں میں سے ہے)، ملٹری ایئر ٹریفک کنٹرول سسٹم فروخت کرنے میں حد سے زیادہ دلچسپی لی، یہ ڈیل ۲۸ملین پونڈ کی ہے۔ اس رقم کی اس ملک کوکتنی ضرورت تھی، جہاں آدھی سے زیادہ آبادی خط ِغربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جہاںپینے کو پانی نہیں اور لاتعداد بیماریاں لاحق ہیں۔

پوری دنیا میں ہر روز ۲۴ ہزار افراد جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں، غربت کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ اصل دہشت گردی تو یہ ہے جو اِن ممالک کی کرپٹ اشرافیہ اور آمر حکمران مغربی ممالک کے

ساتھ مل کر کررہے ہیں جنہیں صرف اور صرف اپنے منافع کی فکر ہے۔ یہ در اصل موت کے سوداگر ہیں جبکہ انہوں نے دنیا کو بے وقوف بنانے کو 'انسانی حقوق'، 'انسانی حقوق' کی رَٹ لگا رکھی ہے۔

٭٭٭٭٭