تہذیبوں کا تصادم ؛ ماضی حال اورمستقبل

۱۹۹۳ء میں 'فارن افیرز جرنل' نے 'تہذیبوں کا تصادم' کے عنوان سے ہارورڈ کے پروفیسر، نیشنل سیکورٹی کونسل کے سابقہ ڈائریکٹر اور 'امریکی علومِ سیاسیہ' کی ایسوسی ایشن کے صدر سیموئیل ہنٹنگٹن کا ایک مضمون شائع کیا۔ ۱۹۹۶ء تک ہنٹنگنٹن کااپنے اس مضمون کو مکمل کتاب کی شکل دے دی جو ''تہذیبوں کا تصادم اور عالمی نظام کی تعمیر نو'' کے عنوان کے تحت شائع بھی ہوگئی۔

اس مضمون اور کتاب کی بحث واستدلال اس نکتہ کے گرد ہے کہ روس اور امریکہ کی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، دنیا کے لوگوں کے مابین بنیادی امتیازات نظریاتی یا معاشی نہیںبلکہ ثقافتی رہے ہیں۔ جس کے بعد عالمی سیاست ثقافتی خطوط پر نئے سرے سے استوار کی جارہی تھی جس کے نتیجے میں تنازعات اور تعاون کے نئے اسالیب سامنے آرہے تھے جو کہ سرد جنگ کے موضوعات کی جگہ لے رہے تھے۔ عالمی سیاست کے نازک مقامات تہذیبوں کی (Faul lines) پرواقع تھے اور خصوصاً عالم اسلام کی حدود پر واقع مقامات عالمی امن کے لئے بہت بڑا خطرہ تھے۔

اس استدلال نے مستقبل کے عالمی نظام کی بحث کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ حقیقتاً اس کو عملی شکل دینے میں اس حد تک مدد کی ہے کہ میری اطلاعات کے مطابق ہنٹنگٹن خود بھی اس صورتِ حال سے پریشان ہے۔ اس استدلال کو اسلام کے نمائندہ علما نے بھی پسند نہیں کیا اور اس سے مسلمانوں کو جس طرح بدروح بنا کر پیش کیا گیا ہے، اس پر بھی انہوں نے شدید اعتراض کیا ہے۔

اہل مغرب اور مسلمان... تاریخی پس منظر

یہاں ۱۱؍ ستمبر کے واقعات کا اسلامی پس منظر پیش کرنا بھی مناسب ہوگا۔ پچھلی دو صدیوں کے دوران مسلمان عوام اور مغرب کے درمیان طاقت کے تعلقات میں وسیع تر تبدیلی ایک ناگزیر حوالہ ہے۔

ایک ہزار سال تک(آٹھویں سے اٹھارہویں صدی کا زیادہ تر حصہ) وسعت اور تخلیقی صلاحیتوں کے اعتبار سے کرۂ ارض کی برتر تہذیب 'اسلام' تھا۔ ساتویں صدی میں جزیرۃ العرب میں فجر اسلام کے بعد، مسلمان فوجوں نے ہمسایہ ملکوں کی فوجوں کو شکست دی جس کے نتیجے میں ایک عظیم معاشی اور ثقافتی رابطہ قائم ہوا جس میں مشرق میں چین اور انڈیا، مغرب میں سپین اور افریقہ اور اسی طرح مغربی ایشیائی علاقوں کے علم اور اسباب سے مستفید ہونے کی صلاحیت تھی۔

پچھلے دو سو سال میں، اسلام کا عالمی نظام مغربی قوتوں کی زَد میں رہا، سرمایہ داری نے اسے آگے دھکیلا، صنعتی انقلاب اس کی قوت کا باعث بنا اور اسے مغربی روشن خیالی کے انداز میں مہذب بنایا گیا۔ وہ علامتی لمحہ جب دنیا میں قائدانہ کردار مغرب کے ہاتھ میں چلا گیا؛ ۱۷۱۸ء میں مصر پر نپولین کا حملہ تھا۔

اس وقت سے لے کر مغربی فوجیں اور مغربی سرمایہ مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہیں۔ ہندوستان، جنوب مشرقی ایشیا، شمال مشرقی اور مغربی افریقہ، وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا ان حملوں کی زد میں آئے۔ ۱۹۷۰ء تک فقط افغانستان، ایران، ترکی اور وسطی عرب علاقے مغربی تسلط سے آزاد تھے اور حتیٰ کہ ان میں سے بھی کچھ مغربی اثر کے تحت تھے۔ خلافت، جو کہ مسلمانوں کی علامتی قیادت تھی اور جس کا ناطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا تھا، ختم کردی گئی۔ مسلمان جو کہ کئی صدیوں سے طاقت کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چل رہے تھے، ان کے لئے یہ مانے بغیر چارہ نہیں تھا کہ تاریخ ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔

بیسویں صدی کا وسط ؛ تاریخ کا نیا موڑ

بیسویں صدی کے بقیہ سالوں میں بھی صورتِ حال میں کوئی بہتری آتی نظر نہیں آئی۔ ۱۹۲۰ء میں جدید ترکی اور ۱۹۹۰ء میں وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کی آزادی کے بعد اب ہم مسلم دنیا کے استعمار سے آزادی کے بارے میں بھی بات کرسکتے ہیں۔ لیکن بہت سوں کے لئے یہ ایک عظیم فتح او رتاریخ کا ایک نیا موڑ ہے۔مغربی سیکولر اقدار پر یقین رکھنے کے باوجود وہ اکثر مغربی اقتدار کا متبادل مسلم اقتدار کو سمجھتے ہیں کیونکہ مغربی سرمایہ اور مغربی تہذیب ان کی روایات اور معیارات کے لئے پہلے سے بھی زیادہ تباہ کن بن کرسامنے آئی ہے۔

اس امید افزا خیال نے بہت سے مسلمانوں کواس بات پر اُبھارا ہے کہ وہ اپنے عوام کے لئے اسلامی اور بعض کی نظر میں ٹھوس اور مکمل اسلامی مستقبل پر زور دیں۔اس طرح کے خیالات میں اگرچہ تمام لوگ اشتراک نہیں کرتے٭ لیکن پھر بھی اتنی تعداد میں لوگ ان نظریات کو ماننے والے ہیںکہ وہ اپنے معاشرے کی لادین قیادت کے لئے ایک خطرہ ہیں اور بعض اوقات ایسے نظریات رکھنے والے لوگ اقتدار تک بھی پہنچ گئے۔ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ایسے مسلمان جو کہ مغرب میں بنیاد پرست کے نام سے معروف ہیں، زیادہ بہتر الفاظ میں انہیں 'اسلام پسند' کہا جاسکتا ہے۔

اُنیسویں اور بیسویں صدی میں مسلمانوں کے مقام میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ تین اور اہم تدریجی تبدیلیاں ہوئی جنہیں ۱۱؍ ستمبر کے واقعات کے طویل المیعاد پس منظر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے :

1۔ سب سے پہلی اہم بات مغرب کے حوالے سے مسلمانوں کے بہت سے احساسات ہیں، یہ احساسات کسی بہت ہی اہم چیز کے کھو جانے کے احساس سے لے کر مغرب کے مقابلے میں مسلمانوں کی بے چارگی پر غصے اور تلخی کے جذبات ہیں۔ کوئی اہم چیز کھو جانے کا سب سے شدید احساس برصغیر پاک وہند میں محسوس کیا گیا۔ یہ علاقہ اب ۳۵ کروڑ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

2۔ دوسری اہم تبدیلی،اُنیسویں صدی کے شروع سے لے کر مسلم دنیا میں دم بدم بڑھتا ہوا پان اسلامک شعور ہے۔ اس پان اسلامک سوچ کی کچھ وجوہات تو براہِ راست اسلام میں ہی پائی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ وہ ایک ایسا گروہ اور ایسی اُمت ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعے وجود عطا کیا ہے۔ مسلمانوں کے تصورِ 'اُمت' میں بھی ایک خاص سحر ہے۔

3۔ تیسری تبدیلی اور کئی اعتبارسے سب سے اہم، دنیا بھر میں اسلام کے احیا کی ایک ایسی تحریک ہے جو کہ اٹھارویںصدی سے لے کر مختلف سماجی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی حالات میں کئی طرح سے اپنے آپ کو ظاہر کرچکی ہے۔ اس بات کا جاننا نہایت ضروری ہے کہ یہ تحریک گہری اسلامی جڑیں رکھتی ہے اور مسلمان دنیا میں مغربی قوتوں کے نفوذ سے پہلے شرو ع ہوئی۔ بلاشبہ اُنیسویں صدی میں اس تحریک نے پرزور انداز میں مغرب سے علمی وفکری مباحثہ کیا اور مغرب کے پیش نظر کئی معاملات کی بنا پر اپنی ہیئت ِوضعی تشکیل دی۔

تمام وہ تنظیمیں جو ۱۱؍ ستمبر کے واقعات کے بعد ہمارے نوٹس میں آئیں، ان کا تعلق احیا اور تعامل کی اسی مشترکہ تحریک سے ہے۔ اس غیر معمولی تحریک کا بنیادی مقصد مسلم معاشرے کی اندرونی طور پر تجدید اور احیا ہے نہ کہ بیرونی قوتوں پر حملہ... اندرونی جہاد نہ کہ بیرونی!

مسلمانوں میں نشاۃ ثانیہ کی تین نمائندہ تحریکیں

'مسلم احیا' کا بنیادی سبق اور تینوں تحریکوںمیں قدرِ مشترک 'اساسیاتِ اسلام' کی طرف رجوع ہے۔

مغربی افریقہ سے چین اور جنوب مشرقی ایشیا تک اسلام کے پھیلاؤ میں، مقامی مذہبی رسومات میں اسلام سے بڑھ ہوکر بہت سی ایسی رعایتیں دی گئیں جو کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچنے والے 'پیغامِ توحید' (اسلام) پرسمجھوتہ کی صورت لئے ہوئے تھیں۔ اس لئے پہلے اسلامی اُصولوں کی طرف رجوع ضروری تھا تاکہ وسطی زمانے کی بالائی تعمیر اور اس ناروا مفاہمت کو منہدم کرکے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر توجہ مرکوز کی جاسکے اور آج پھر وہ مثالی معاشرہ تشکیل دیا جاسکے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے نخلستان میں کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بزرگوں کے مزارات کو اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھنے والے تمام تصورات پر بھی قوی حملہ کیاگیا۔

٭ اٹھارویں صدی کے اخیر سے، مسلم دنیا کے بہت سے حصوں میں یہ تصور عام ہونا شروع ہوا کہ انسان اپنی اُ خروی نجات کا خود ہی ذمہ دار ہے اور درحقیقت انسان کو نجات حاصل کرنے کے لئے زمین پر خود جدوجہد کرنی چاہئے۔ یہ چیز، جیسا کہ عیسائیت میں پروٹسٹنٹ اصلاح کے ساتھ ہوا، نہایت زیادہ توانائی کے اخراج کا باعث بنی اور مسلم تقویٰ کو اُس دنیا سے نکال کر اِس دنیا میں لانے کا باعث بنی۔

1. بدعات سے پاک خالص اسلام (سلفی تحریک ؍ وہابیت) : اِحیا کی اس عالمگیر تحریک کے تین خطاب ایسے ہیں جن کا براہِ راست تعلق ہمارے حال سے ہے۔ سب سے پہلامظہر عرب کی وہابی تحریک ہے۔ یہ تحریک اٹھارویں صدی کے ایک مسلم سکالر محمد بن عبدالوہابؒ نے اُٹھائی۔ انہوں نے قرآن اور حدیث کی طرف رجوع اور تمام مذہبی رسومات جو شفاعت نبویؐ کے غیر محدود تصورپر دلالت کرتی تھیں، کو ختم کرنے کی تبلیغ کی۔ آپ کی تبلیغ احیائے اسلام کا اہم ترین نقطہ ہے اور آج تک خالص اسلام کی ملتی جلتی شکلوں کو 'وہابی' کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ۱۷۴۴ء میں محمد بن عبدالوہاب نے وسطی عرب کے سردار محمد بن سعود کے ساتھ اتحاد نہ کیا ہوتا تو آ پ کا پیغام بہت دور تک نہ پہنچ پاتا۔ آپ کا پیغام اور ابن سعود کی خواہشات ایک دھماکہ خیز آمیزہ ثابت ہوئے۔ ان کے اتحاد نے پہلی سعودی مملکت کی بنیاد رکھی جسے ۱۸۱۸ء میں مصر کے ابراہیم پاشا کی فوجوں نے تباہ کیا۔ اسی نے پھر دوسری سعودی مملکت، مملکت ِسعودی عرب کی بنیاد رکھی جو ۱۹۲۰ء میں عالم وجود میں آئی۔

یہ سعودی مملکت جسے ہم آج جانتے ہیں، سعودی خاندان کے اجتماعی اتفاق کی صورت میں ظاہر ہوئی جس کا جواز وہابی علما تھے۔ سعودی حکمران خاندان کے خاندانی اور ریاستی مفادات اور وہابی علما کے اسلامی فہم اور اختیارات کے مابین کئی دفعہ کشیدگی بھی پیدا ہوئی۔ان حالات میں سعودی شاہی خاندان کے بعض ممبران کے مغربی طرزِ زندگی، بدعنوانی اور سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے کئی مرتبہ کشیدگی میں شدت بھی آئی۔ ۱۹۹۰ء میں خلیج کی جنگ کے بعد سعودی عرب میں مغربیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی نے حالات کو اور بگاڑ دیا۔ ان حالات کو سعودی عرب میں ترقی پذیر اُس مڈل کلاس نے جن کی کہیں نمائندگی نہیں اور بڑی تعداد میں انہیں بے روز گار آبادی کے سیاق میں دیکھنا چاہئے نے بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ساتھ ہی یہ چیز بھی مدنظر رہنی چاہئے کہ سعودی عرب میں فی کس آمدنی ۱۹۸۰ء کے دہائی میں ۲۸۰۰۰ سے کم ہوکر آج ۷۰۰۰ ڈالر رہ چکی ہے۔

یہ بات ہمارے لئے باعث ِحیرت نہیں ہونی چاہئے کہ سعودی حکومت موجودہ مہم میں امریکی فوج کو شہزادہ سلطان ائیر بیس استعمال کرنے کی اجازت نہ دے سکی۔ اسی طرح یہ بات بھی ہمارے لئے حیران کن نہیں ہونی چاہئے کہ سعودی عرب نے فلسطین کی اسلامی تنظیم حماس یا پاکستان کی جماعت ِاسلامی، الجزائر کی اسلامک سالویشن فرنٹ یا مصر کی اخوان المسلمون کی حمایت کرکے اپنے بارے میں بہتر خیالات پیدا کرنے کی کوشش کیوں کی...!

مزید برآں، یہ بھی حیران کن نہیں ہے کہ ۱۱؍ ستمبر کے آدھے سے زیادہ ہائی جیکر سعودی النسل تھے، اور یہ کہ اسامہ بن لادن سعودی شہری،جس کی شہریت ختم کردی گئی، کا ایک مبینہ مقصد موجودہ سعودی حکومت کا تختہ اُلٹانا ہے۔

2. برصغیر میں اسلامی اصلاحات(دیوبندیت): اسلامی احیا کا دوسرا اہم مظہر، جس کا تعلق بھی براہِ راست حال سے بنتا ہے، اُنیسویںصدی کے جنوبی ایشیا میں اصلاحی اسلام کا ظہور ہے۔ یہ ایسی تحریک ہے جس کے تصورات اور تنظیم کا تعلق براہِ راست 'طالبان' سے بنتا ہے۔

جنوبی ایشیا کے اصلاحی اسلام کا سب سے بڑا مرکز دارالعلوم دیوبند تھا جو ۱۸۶۷ء میں قائم ہوا اور جسے بعض لوگ مصر کی جامعہ الازہر کے بعد سب سے اہم مسلم جامعہ گردانتے ہیں۔ دیو بندی اس مسئلے کا حل تلاش کررہے تھے کہ برطانوی حکومت کے تحت کس طرح مسلم معاشرے کو قائم رکھا جائے یا یہ کہ قدرے نئی صورتِ حال میں کہ جس میں حکومت کی طاقت مسلمانوں کے پاس نہیں اور وہ حکومتی امداد کے خواہاں نہیں، اسلام کو کیسے زندہ رکھا جائے۔ ایک حل یہ تھاکہ پیروں فقیروں سے شفاعت کے تصور پر زور دار حملہ کیا جائے اور اس کے مقابلے میں آخرت کی سزاؤں پر زیادہ توجہ دی جائے۔ نجات کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے انسان کے انفرادی ضمیر نے ہی مسلم معاشرے کی قوتِ محرکہ ثابت ہونا تھا۔

اصلاح پسند مسلمان یعنی دیو بندی زیادہ تر پاکستان بننے کے خلاف تھے۔ انہیں اپنی اسلامی دنیا پیدا کرنے کے لئے ایک نئی ریاست کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن ایک دفعہ جب پاکستان قائم ہوگیا تو یہ لوگ اپنا پیغام لے کر پاکستان اور افغانستان کے گلی کوچوں میں پھیل گئے۔ جہاں بہت عرصے سے انہوں نے اپنے مدارس قائم کررکھے تھے۔ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائیوں میں پاکستان میں سینکڑوں دینی مدارس قائم ہوچکے تھے۔ کم از کم ۱۹۷۰ء سے ان مدرسوں کو خلیجی ریاستوں ، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے کارکنوں سے امداد ملتی تھی۔

اس صورتِ حال کو جنرل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن نے مزید مدد بہم پہنچائی۔ امداد کا دوسرا منبع شہروں میں رہنے والا سنی مسلم اَشرافیہ تھا، جسے گاؤں سے شہر منتقل ہونے والے اپنے پاکستانی دیوبندی بھائیوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی فکر تھی۔ افغانستان کے ساتھ طویل المیعاد تعلقات کے پیش نظر، یہ فطری امر تھا کہ ۱۹۷۹ء میں افغانستان پر روسی حملے کے بعد، پاکستان کے دیو بندی دینی مدارس بڑی تعداد میں پاکستان پہنچنے والے افغان مہاجرین کی مدد کے لئے اہم کردار ادا کرتے۔

اس طرح جب افغانوں بلکہ پاکستانیوں اور عربوں نے روسی فوجوں کے خلاف لڑنا شروع کیا تو پاکستانی مدارس میں بھی عسکریت کا آغاز ہوا۔ جب ایک دفعہ روسی شکست سے دوچار ہوگئے تو پاکستان کی آئی ایس آئی کے لئے انہی مدرسوں کے طلبا کو استعمال کرکے 'طالبان' کے نام سے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا کوئی مشکل کام نہ رہا۔ افغانستان میں ایسی حکومت کا قیام پاکستان کو شمالی مغرب میں تزویراتی گہرائی دے سکتا تھا جس کا پاکستان عرصے سے متلاشی تھا۔ طالبان پہلے ہی سے تربیت یافتہ اور مسلح تھے اور ۱۹۹۴ء میں انہوں نے افغانستان پر حملہ کردیا جبکہ۱۹۹۷ء تک پاکستان طالبان کو افغانستان کے حکمران کے طور پر تسلیم کرچکا تھا۔

طالبان جوکہ ایک ایسی احیائی تحریک کے وارث تھے جسے ریاست کی مدد کے بغیر مسلم معاشرے کو سنوارنا تھا۔ یہ سنی مسلمان علما کا وہ پہلا گروہ تھا جسے کسی ریاست کا مکمل کنٹرول حاصل ہوا یا کم ازکم جنگ کے بعد بچی کچھی افغان ریاست کا ۔

۱۱؍ستمبر کے بعد پاکستان کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ اس 'قوت' کو تباہ کرے جس کی تخلیق کا وہی ذمہ دار تھا جیسا کہ اس وقت اس پران گوریلا گروپوں پر بھی پابندیاں لگانے کا دباؤ ڈالاجارہاہے جنہیں وہ کشمیر میں مدد دے رہا تھا۔ یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جنہیںجمعیت علمائے اسلام (پاکستانی سیاست میں دیو بندی جماعت) اور ان کے حمایتی آسانی سے ہضم کرجائیں۔

3. اِقتدار اور قوت کا حصول (اِخوانی تحریک): اصلاح اور تجدید کی اسلامی تحریک کا تیسرا اہم پہلو جس کا ہمارے حال سے تعلق بنتا ہے وہ اسلام پسندی کا نظریہ اور اس کی تنظیم ہے۔ یہ اسلام پسند بہت زیادہ حد تک بیسویںصدی کا ایک مظہر ہیں۔ مغرب کے چیلنجوں اور جدیدیت کے مقابلے میں وہ سابقہ اصلاح پسندوں کے حل پر مطمئن نہیں ہیں کیونکہ سابقہ دونوں اصلاحی تحریکوں نے بڑی حد تک جدیدیت اور قوت کے موضوع کو نظر انداز کیا۔ بہت سے جدیدیت پسند کہ جنہوں نے قوم پرست تحریکوں کی قیادت کی، کے جوابات بھی زیادہ قابل اطمینان نہیں تھے۔

لازمی طور پر یہ اسلام پسند قوت کے مسائل اور ضرورت کو سمجھتے ہیں۔ لیکن انہیں اندازہ ہے کہ مغرب کے ساتھ اُلجھنے میں انہیں اسلام اور اسلامی ثقافت سے متعلقہ بہت سی اہم چیزوں کی قربانی دینا پڑے گی۔ اسلام پسندوں کی نظر میںسب سے بڑا خطرہ خود مغربی تہذیب تھی۔ ان کے اصلی دشمن مسلم معاشرے کے وہ لا دین یا جدیدیت پسند عناصر تھے جنہوں نے مغربی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی قوتوں کے ساتھ اتحاد بنایا ہوا تھا اور ان کی بدولت ان کے معاشرے مغربی رنگ میںرنگے ہوئے تھے۔

ان کا بنیادی مقصد اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لینا تھا تاکہ وہ اپنے معاشروں کوان فاسد اثرات سے محفوظ رکھ سکتے۔ اس کے بعد وہ اس قابل ہوسکتے کہ وہ اسلامی نظام کو نافذ کرسکیں جس میں قرآن اور شریعت تمام انسانی مقاصد کے لئے کافی تھے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام یا سوشلسٹ نظام کے مقابلے میں اسلام کا جواب تھا۔ اسی میں معاشیات اور علم کی اسلامائزیشن کا ذکر تھا اور یہ ایک نظریۂ حیات تھا۔

۱۹۷۰ء سے اسلام پسند تنظیمیں مسلم دنیا کے وسیع علاقوں میں پھیل چکی تھیں۔ اہم تنظیموں میں سے اسلامک سالویشن فرنٹ، الجزائر؛ حماس، فلسطین اور رفاہ پارٹی، ترکی تھیں۔ ان اسلام پسندوں کی اہم ترین کامیابیوںمیں سے ۱۹۸۱ء میں مصر کے صدر انور سادات کا قتل، پاکستانی آئین اور قانون کی مسلسل اسلامائزیشن اور بلا شبہ ایرانی انقلاب ہے۔

اسلام پسندی کوایک انتہائی جدید تحریک کے طور پر سمجھنا ضروری ہے جس کا مقصد اسلامی بنیادوں پر قائم ایک ایسے رستے کی تلاش ہے جس پر چل کر مسلمان معاشرے ترقی کی منزل کو پاسکیں۔اگرچہ اس تحریک کامقصد مغربی اثرات کی مزاحمت بھی ہے لیکن اس کی قیادت مغربی علوم کے فیض یافتگان کے زیراثر رہی ہے۔ سید قطب جو حسن البنا کے بعد اخوان المسلمون کے لیڈر بنے، فرانسیسی فاشسٹ مفکر الیکس کیرل اور اپنے امریکی دورے سے متاثر تھے۔ ایرانی انقلاب کے نظریاتی حکیم علی شریعتی، سارتر، مینوں اور لوٹی میسن جن کے بہت متاثر تھے۔ ترکی کی اسلامی تحریک کے قائد اربکان بھی ایک انجینئر تھے۔

اسلام پسند تحریکوں کے ماننے والے اکثر 'مہاجر' ہیں۔ عام طور پروہ ایسے لوگ ہیں جو دیہی علاقوں سے شہروں کومنتقل ہوئے اور جو طبی، تعلیمی اور نفسیاتی مدد کے طالب ہوتے ہیں اور ایسے علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں ریاست عام طور پرناکام ہوتی ہے۔ سماجی مطالعے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام پسند اور ان کی تنظیمیں عورتوںاورمردوں کو ایسے وسائل مہیا کرتے ہیںجس سے وہ جدید معیشت اور ریاست میںشراکت دار بن سکتے ہوں۔

یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ اسلام پسند تنظیموں کا سب سے اہم مقصد اپنے معاشروں میں تبدیلی برپاکرنا ہے اور اگر ہوسکے تو اقتدار حاصل کرنا۔ اس اصول سے ایک استثنا، شروع سے فلسطین کا مقدر بھی رہا ہے۔ تاہم ہم جانتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی 'القاعدہ' تنظیم میں ان تینوں اسلام پسند گروپوں کے کارکن شامل ہیں اور وہ دنیا بھر کی اسلام پسند تنظیموں سے رابطے میں ہیں۔ مزید برآں یہ تنظیم وہی ہے جو ۱۹۹۰ء کے آغاز سے لے کربڑے تسلسل کے ساتھ مغربی ایشیا اور خود امریکہ کے اندر امریکی تنصیبات پر حملے کرچکی ہے۔

ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ تبدیلی کیسے رونما ہوئی۔ مثال کے طور پر کیا یہ اسلام پسندی کی ایک نئی قسم ہے جس میں سعودی عرب، پاکستان اور مصر میں اقتدار کی کشمکش امریکہ پر حملوں سے جیتی جاسکتی یا پھریہ کسی 'بدی کے مرکز' کی ذاتی دشمنی ہے جسے ا س نے اسلامی دنیا میں انصاف کی کمی اور بھوک کی زیادتی کی و جہ سے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔

تہذیبوں کا تصادم ؛مستقبل کی پیش بینی

یہ ساری تصویر کشی جو میں نے آپ کے سامنے ابھی پیش کی ہے، کسی حد تک اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیبی تصادم کا پتہ دیتی ہے۔ ۱۴۰۰ء سال کی تاریخ میں اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان تعامل کو تہذیبی تصادم کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ ہم صلیبی جنگوں کا حوالہ دے سکتے ہیں جو ہم نے اسلام کے خلاف مغربی ایشیا اور اَندلس میں لڑیں۔ ہم سالانہ عثمانی مہم کا یورپ میں حوالہ دے سکتے ہیں جس نے مقدس جنگ کی شکل دھار لی۔ کیا ہم اپنے آپ کو کئی سو سالوں کی مناظرانہ تحریروں کے وِرثے سے جو مغرب نے اسلام کے خلاف پیدا کیا، بیگانہ کرسکتے ہیں؟ بالکل اس طرح جیسے مسلمانوں نے اُنیسویںصدی تک یورپی تہذیب کوغیر اہم خیال کرکے کیا۔

لیکن، متبادل طور پر، ہم وہ بھی کرسکتے ہیں جو زیادہ تر علما آج کررہے ہیں۔ وہ یہ کہ ہم دیکھیں کہ عیسائی اور مسلم تہذیب نے تاریخ کے ان سالوں میں کیسے فائدہ مند معاملہ کیا اور ایک دوسرے کو بنانے میںاپنا کردار ادا کیا۔

اسلامی تہذیب کی جڑیں مشرقی رومی ایمپائر کی موحدانہ اور Hellenisticروایت میںملتی ہیں۔ درحقیقت اس کی عالمگیریت کا سراغ کانسٹن ٹائن کی بازنطینی ریاست کے سیاسی اور مذہبی عالمگیریت میں ملتا ہے۔ قرونِ وسطی کا یورپ بہت زیادہ حد تک عرب مسلمانوں کے علم سے مستفید ہوا جو اس تک اَندلس اور اِٹلی کے رستے پہنچا۔ انیسویں صدی کے آغاز تک وہ اپنا اندازہ مسلمانوں سے تقابل کرکے لگاتے تھے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میںمسلمانوں کی تشکیل میںیورپ نے حصہ لیا اور اب مسلمان مغرب کی تشکیل کررہے ہیں، مغرب کے اندر آبادیوں کی صورت اور مغرب سے باہر سے بھی۔ یہ دو دنیائیں، عیسائی اور مسلمان، بہت سے حوالوں سے مشترک ہیں اور اشتراک کے کئی حوالے ابھی بھی موجود ہیں۔

اسلام پسندی کے مسئلے کو ہمیں کس قدر اہم سمجھنا چاہئے؟ اسلام پسند جماعتیں بہت سے مسلمان ممالک میں موجودہ حکومتوں کی سب سے اہم حزبِ مخالف ہیں۔ علاوہ ازیں، یہ بھی توقع ہے کہ بہت سی اسلام پسند جماعتیںاقتدار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں گی۔اگر ہم ان ریاستوں کی کمزوری کو دیکھیں، ان کے معاشی مسائل کو دیکھیں اور خاص طور پر وہاں عمر کے ڈھانچے کو دیکھیں تو ایسا بالکل ممکن دکھائی دیتا ہے۔مسلم معاشرے نوجوانی کے انقلاب کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں اور دیکھنے والے ہیں۔ دنیا کی مسلمان آبادی جو ۱۹۸۰ء میں %۱۸تھی ، ۲۰۲۵ء میں %۳۰ تک پہنچنے والی ہے۔

کیا ان پارٹیوں کی اقتدار تک رسائی جو عام طور پر مغربی تہذیب کو اپنا دشمن سمجھتی ہیں،تہذیبی تصادم کی منزل کو قریب تر لے آئیں گی؟... یقینا فتح کے فوراً بعد ہمیں اسرائیل کے حوالے سے رویوں میں کچھ شدت کا سامنا ہو گا، یا تیل کے حوالے سے اپنی حکمت ِعلمی بدلنا پڑے، یا پھر اقوامِ متحدہ کی ان قراردادوں سے پیچھے ہٹنا پڑے جو دوسرے ملکوں میں مداخلت کی اجازت دیتی ہیں لیکن جیسا کہ انقلاب کے وقت ایران میں برطانیہ کے سفیر انتھونی پارسن کا کہنا تھا یاجس طرح فریڈ ہالیڈے اب بھی کہتا ہے کہ ایسی حکومتیں بہت جلد اپنے معاشروں کی سیاسی ا قتصادیات کے چکر یا پھر اپنے ماحول کے جغرافیائی وسیاسی مسائل میں پھنس کر رہ جائیں گی۔ یہ بات بھی سوچنے کے لائق ہے کہ ایران کی انقلابی حکومت کا رویہ کس حد تک حقیقت پسندانہ ہوچکا ہے، چاہے یہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کی مداخلت کا معاملہ ہو یا اپنے طلبا کو یورپ بھیجنے کا اور یا پھر خود بزرگ 'شیطان' (امریکہ) سے بات چیت کرنے کا!!

آخر کار یہ چیز ہمیں اس بات تک لے آتی ہے کہ کیا اسامہ بن لادن کی 'القاعدہ' جو کہ وسیع تر مقاصد رکھتی ہے، اسلام پسندی ہی کی ایک شکل ہے یا نہیں؟ ان کے اپنے بیان کے مطابق ایسا ہے ۔اب ان کا واحد مقصد اقتدار کا حصول نہیں بلکہ مغربی غلبے کے خلاف جنگ کا لڑنا ۔اسامہ بن لادن اپنی کتاب 'امریکہ اور تیسری عالمی جنگ' جو ۱۹۹۹ء میں سامنے آئی، میں تمام مسلمانوں کواپنے حقوق کے حصول کے لیے لڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ وہ دنیا میں ایک 'مسلمان' کے طور پر جی سکیں اور وہ تمام حقوق حاصل کر سکیں جو مغربیت کے پھیلاؤ کی وجہ سے روندے گئے ہیں۔ بن لادن کی شکل میں ہم ایسے مسلمان کو پاتے ہیں جو موجودہ صورتِ حال کو تہذیبی تصادم کے تناظر میں دیکھتا ہے اور جس نے مغربی غلبے کا مقابلہ کرنے کے لیے دہشت گردی کا نیٹ ورک بنایا ہے۔

اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ختم کرنا ضروری نہیں بلکہ مغرب کو فلسطین اور اس جیسے بے شمار علاقے جو نا انصافی کا شکار ہیں کے مسائل حل کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو مسلمان نوجوانوں کو اسامہ کے کیمپ میں لے کر جاتے ہیں۔اس کا انعام مغرب کے حوالے سے ان مسلمانوں کی عوامی رائے ہو گی جو ۲۰۲۵ء تک دنیا کی کل آبادی کا تیسرا حصہ ہوں گے ۔اگر ہم نے اس عوامی رائے سے بیگانگی قائم رکھی یا موجودہ بیگانگی کوقائم رکھنے کی کوشش کی تو ہمیں اس حقیقی تہذیبی تصادم کاسامنا ہوسکتا ہے ...!!


نوٹ

٭ اگر آج سب مسلمان نظریاتی طور پر اپنے ممالک میں اسلام کی سیاسی برتری کے لئے یکسو نہیں ہیں تو اس کی وجہ وہ مغربی تعلیم ہے، جو یورپ نے اپنے عرصۂ استعمار میں ان کے ممالک میں رائج کر دی تھی اور وہ اس کو آج بھی گلے سے لگائے ہوئے ہیں ۔ استعمار ان ملکوں سے جانے سے قبل ایسے اقدامات کر گیا کہ آزاد ہونے والے ممالک پر بھی ان کی فکری اولاد ہی حکومت کرے اور ان کے اقدامات (مثلاً نظامِ تعلیم وسیاست وغیرہ)کو تحفظ مہیا کرتی رہے۔یہ تعلیم ان کے ذہنوں میں مرعوبیت کا ایسا تاثر قائم کئے ہوئے کہ یہ مسلمان یورپ کی ہرمیدان میں برتری کے ذ ہنی طور پر بھی قائل ہوچکے ہیں۔ مغرب کی کھوکھلی تہذیب کی چکاچوند نے بھی انگریزی تعلیم کے پروردہ ان حضرات کی آنکھیں خیرہ کررکھی ہیں۔جبکہ ایسے مسلمان جنہوں نے اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم کا تھوڑا سا بھی مطالعہ کیا ہے، وہ آج بھی اسلامی خلافت کے خواب آنکھوں میں بساتے ہیں۔ ادارہ