حضرت عائشہ صديقہ ،خواتين كيلئے اُسوہٴ
نام: حضرت عائشہ بنت عبداللہ ابوبكر صديق لقب:صديقہ
كنيت: اُمّ عبداللہ قبيلہ:غنم بن مالك والدہ كا نام:ا ُمّ رومان
نسب: والد كى طرف سے سات اور والدہ كى طرف سے گيارہويں پشت ميں حضرت محمد ﷺ كے سلسلہ سے جا ملتا ہے-
خاندان
سيدنا ابوبكر صديق كے ابتدا ہى سے رسول ﷺ كے ساتھ بڑے گهرے برادرانہ تعلقات تهے- سفر و حضر ميں ، رفاقت اور غمى، خوشى ميں شركت رہتى تهى- باہمى محبت و اعتماد كا يہ حال كہ حقيقى بهائى بهى رشك كريں - جب جبرائيل امين پيارے نبى ﷺ كے پاس پہلى مرتبہ تشريف لائے اور اعزاز ِنبوت كا فرمان خداوندى سنايا، تو آپ سب سے پہلے اسى جاں نثار دوست كے پاس گئے اور انوارِ الٰہیہ كى يہ انوكهى واردات بيان كى اور سيدنا ابوبكر صديق نے بلا تامل تصديق كى اور بارگاہ نبوى سے اسى وقت 'الصديق' كا خطاب پايا-
حضرت ابوبكر صديق كے ساتھ ہى تمام گهرانے نے بهى اسلام قبول كيا- سيدہ عائشہ عہد ِ بعثت ميں بہت كمسن تهيں - اسلئے قدرتى طور پر اپنے بزرگوں كے ساتھ ہى داخل حسنات ہوگئيں ۔
روايات ميں سن ولادت 9 قبل ہجرت بتايا جاتا ہے- آپ ان برگزيدہ شخصیتوں ميں سے ہيں جن كے كانوں نے كفروشرك كى آواز نہيں سنى اور آپ مہد سے لحد تك كليتاً انوارِ اسلام كى رفعتوں پر رونق افروز رہيں - آپ خود فرماتى ہيں كہ
"جب ميں نے اپنے والدين كو پہچانا، انہيں مسلمان پايا-" (بخارى؛3905)
عہد ِطفوليت
آپ كا بچپن صديق اكبر جيسے جليل القدر باپ كے زير سايہ بسر ہوا- وہ بچپن سے ہى بے حد ذہين اور ہوش مند تهيں - بچپن كى جتنى باتيں انہيں ياد تهيں ، كہا جاتاہے كہ كسى دوسرے صحابى يا صحابيہ كى يادداشت اتنى اچهى نہ تهى-
جب رسول اللہ ﷺ نے ہجرت فرمائى تو ان كى عمر كا آٹهواں يا نواں سال تها، ليكن ہجرت كے واقعات كاتسلسل جتنا عائشہ كے حافظہ كا ممنون ہے، كسى دوسرے صحابى كا نہيں - امام بخارى نے تفسير سورة القمر ميں لكها ہے كہ آيت ِمباركہ ﴿بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ﴾ مكہ ميں نازل ہوئى تو اس وقت حضرت عائشہ كهيل رہى تهيں اور ديكهئے كہ يہ واقعہ بهى امام بخارى نے حضرت عائشہ ہى كى زبانى نقل كيا ہے-
نكاح
سيدنا ابوبكر صديق جيسے جليل القدر صحابى اور اُمّ رومان جيسے مقبولِ بارگاہ ماں باپ كى پاك و طاہر بيٹى كا نصيب صاحب ِلولاك كا نوركدہ ہى ہوسكتا تها- سيد المرسلين ﷺ كى زوجہ اوّل سيدہ خديجہ كى وفات 10 نبوى ميں ہوئى تو آپ ﷺ بالعموم افسردہ خاطر ديكهے گئے-
صحابہ نے آپ كو عقد ِثانى كا مشورہ ديا - جسے آپ ﷺ نے پسند فرمايا اور خولہ كے ذريعے نكاح كى با ت طے ہوئى- چنانچہ 6 سال كى عمر ميں ہجرت سے 3 سال قبل ماہ شوال ميں آپ حضور ﷺ كے نكاح ميں آئيں - نكاح حضرت ابوبكر صديق نے خود پڑهايا- 500 درہم حق مہر مقرر ہوا اور 9 برس كى عمر ميں اور بعض روايات ميں 12 برس كى عمر ميں آپ كى رخصتى ہوئى-
يہ نكاح نہ صرف اسلام كى حقيقى سادگى كى تصوير تها بلكہ اس سے دور ِ جاہليت كى بہت سى غلط فہميوں كا ازالہ بهى ہوا ، مثلاً:
(1) حضرت ابوبكر صديق آنحضور ﷺ كے منہ بولے بهائى تهے- جب حضرت خولہ كے ذريعے نكاح كى بات چلى تو ابوبكر صديق نے پوچها:
"كيا بهائى كى بيٹى سے نكاح ہوسكتا ہے؟"
جواب ميں سرورِ كائنات كا پيغام تها كہ
" ابوبكر ميرے دينى بهائى ہيں اور ايسے بهائيوں كى اولاد سے نكاح جائز ہے-" (بخارى؛5081)
(2) ايك بارماہ شوال ميں عرب ميں طاعون كى وبا پهيل گئى جس نے ہزاروں گهرانے تباہ كرديے- اس وقت سے اہل عرب كے يہاں شوال كے مہینے كو منحوس سمجھا جانے لگا اور وہ اس مہینے ميں خوشى كى تقريب كرنے سے احتراز كرنے لگے- مگر سيدہ عائشہ كى شوال ميں رخصتى اور نكاح نے لوگوں كے دلوں سے ماہ شوال كى نحوست كا وہم دور كرديا-
وفات
17/ رمضان المبارك 58ھ کو 67سال كى عمر ميں مدينہ منورہ ميں رحلت فرمائى- رات كے وقت بقیع الغرقد ميں دفن ہوئيں - نمازِ جنازہ حضرت ابوہريرہ نے پڑهائى- عبداللہ بن زبير، قاسم بن محمد اور عبداللہ بن عبدالرحمن نے قبر ميں اُتارا-
حضور ﷺ كى حضرت عائشہ سے وابستگى
جناب ﷺ كو حضرت عائشہ بے حد محبوب تهيں ، فرمايا كرتے تهے:
(1) "اے بارى تعالىٰ ميں سب بيويوں سے برابر كا سلوك كرتا ہوں مگر دل ميرے بس ميں نہيں كہ وہ عائشہ كو زيادہ محبوب ركهتا ہے- يا اللہ! اسے معاف فرما-"
(2) آپ خود فرماتى ہيں كہ آخرى وقت ميں نبى كريم كے ليے ميں نے مسواك اپنے دانتوں سے چبا كر دى- اللہ نے ميرا اور نبى كا لعابِ مبارك اِكٹھا كر ديا- (بخارى؛4451)
(3) ايك مرتبہ حضرت عائشہ كا ہار دورانِ سفر گم ہوگيا اور حضور ﷺ نے اس كى تلاش ميں چند صحابہ كو بهيجا، راستے ميں نماز كا وقت آگيا اور لوگوں نے وضو كے بغير نماز پڑهى كيونكہ پانى كا دور، دور تك نشان نہ تها- اس پر آيت تیمم نازل ہوئى- حضرت اُسيد نے اسے حضرت عائشہ كى بہت بڑى فضيلت جانا اور ان سے مخاطب ہوكر كہا :
"اُمّ الموٴمنين! اللہ آپ كو جزائے خير دے، آپ كو كوئى ايسا حادثہ پيش نہيں آيا جس سے اللہ نے آپكو نكلنے كا راستہ نہيں بتايا اور وہ مسلمانوں كيلئے ايك بركت بن گيا-" (بخارى؛3773)
فضائل
بعض ايسے فضائل ہيں جن ميں عائشہ كو تمام صحابہ اور صحابيات پر فضيلت حاصل ہے- اور وہ خود ہى ان كے بارے ميں فرماتى ہيں :
(1) صرف ميں ہى كنوارپن ميں نبى ﷺ كے نكاح ميں آئى- (بخارى؛5077)
(2) جبرائيل امين ميرى شكل ميں حضور ﷺ سے ملے اور كہا: عائشہ سے شادى كرليجئے- (سير اعلام النبلاء: 2/141)
(3) اللہ تعالىٰ نے ميرے لئے آيت ِبراء ت نازل فرمائى- (بخارى؛6679)
(4) ميرے ماں باپ دونوں مہاجر ہيں - (اعلام النساء:3/17)
( 5) ميں حضور ﷺ كے سامنے ہوتى اور آپ مصروفِ نماز ہوتے- (اعلام النساء:3/16)
(6) نزولِ وحى كے وقت صرف ميں آپ كے پاس ہوتى- (بخارى؛3775)
(7) جب روحِ اطہر نے عالم قدس كى طرف پرواز كى تو حضور ﷺ كا سرمبارك ميرى گود ميں تها- (بخارى؛4449)
(8) ميرے حجرہ كو رحمتہ للعالمين كا مدفن بننے كى سعادت نصيب ہوئى- (سير2/141)
(9) امام بخارى نے اپنى' صحيح ' ميں حضور ﷺ كا يہ ارشاد نقل كيا ہے كہ " عائشہ كو عورتوں پر ایسى فضیلت ہے جيسے ثريد( شوربے ميں ملى روٹى) كو تمام كهانوں پر-" (بخارى؛3769 )
(10) آج حرمِ نبوى، ديارِ حبيب اور گنبد ِخضرا جس روضہٴ مبارك كے نام ہيں ، وہ يہى حجرہٴ عائشہ ہے-
علمى فضائل
رحلت نبى ﷺ كے وقت حضرت عائشہ كى عمر صرف 18 سال تهى- 48 سال انہوں نے عالم بيوگى ميں گزارے اور اس تمام عرصہ ميں وہ عالم اسلام كے لئے رشد و ہدايت، علم وفضل اور خيرو بركت كا مركز بنى رہيں -
(1) ان سے 2210/ احاديث مروى ہيں -
(2) بڑے بڑے جليل القدر صحابہ ان كى خدمت ميں حاضر ہوكر مسائل پوچها كرتے تهے-
(3) مكشرين روايات ميں آپ كا نمبر چهٹا ہے-
(4) آپ كو خلفاے راشدين، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس جيسے مفسرين اور محدثين كى ہم سرى حاصل تهى-
(5) حضرت ابوموسىٰ اشعرى فرماتے ہيں كہ "ہم لوگوں كو كوئى ايسى مشكل پيش نہ آتى جس كا علم حضرت عائشہ كے پاس نہ ہوتا-"
(6) آپ كے شاگردوں كى تعداد 200 كے لگ بهگ بيان كى جاتى ہے-
(7) حضرت عائشہ جو حديث روايت كرتيں ، اس كا پس منظر اور اسباب و علل بهى بيان كرتيں تاكہ اسے باور كرانے كے لئے دور ازكار تاويلوں كى ضرورت پيش نہ آئے- ہميشہ نبى اكرم ﷺ كے اقوال و افعال كى حقيقى روح تك پہنچنے كى كوشش كرتيں -
(8) بہت كم لوگوں كو معلوم ہے كہ جمع قرآن كے سلسلہ ميں بهى اُمّ الموٴمنين كو فوقیت حاصل ہے- آپ تہجد ميں آقائے نامدار كى اِقتدا كرتى تهيں - اس نماز ميں طويل سورتوں كى تلاوت ہوتى تهى-
نيز قرآن كى بيشتر سورتوں كا نزول بهى حضرت عائشہ كے حجرہ ٴ انور ميں ہوا- اس لحاظ سے آپ قرآن كى اوّلين سامعہ اور اُسوہٴ حسنہ كى اوّلين شاہد تهيں - وصالِ رسالت ِمآب ﷺ كے بعد آپ نے كلام اللہ كا ايك نسخہ لكھوا كر اپنے پاس محفوظ كرليا تها جسے مصحف كا نام ديا گيا اس مصحف نے اكثر مستند متن كا كام ديا ہے-
خاص واقعات
دشمن اگر صاحب ِكردار ہو تو اس كى غارت گرى ميں بهى ايك متانت اور وقار موجود ہوتا ہے، ليكن عدوّ اگرذ ہنى پستى كا شكار ہو تو اس كى تاخت كا ميدان اخلاقى گراوٹ تك وسيع ہوجاتا ہے- منافقین ِمدينہ نے بهى شرارت كى انتہا كرتے ہوئے حرمِ نبوى كو اپنى فتنہ انگيزيوں كا ہدف بنايا- تاكہ آپ ﷺ كى عائلى زندگى ميں بے چينى پيدا كركے اشاعت ِدين كى راہ ميں ركاوٹ ڈال دى جائے- گو يہ محاذ بڑا مستحكم تها، ليكن بشرى تقاضوں كے تحت بعض اوقات غلط فہمياں پيدا ہوئيں اور وقتى طور پر نبى كريم ﷺ اور اُمہات الموٴمنين كى دل آزارى كا موجب بنيں -
چنانچہ واقعاتِ تحريم، اِيلاء، تخییر اور واقعہ اِفك (ان كا ذكر قرآن حكیم ميں موجود ہے) وہ واقعات ہيں جو وقتى ناخوشگوارى كا باعث بنے، ليكن ذات آفريد گار كے كرم اور ہادئ جہاں كى فراست سے ذرّيت ِابليس كوناكامى ہوئى-
..............................
آج كى عورت كے لئے حضرت عائشہ صدیقہ كى ذاتِ اقدس ميں رہنمائى كا سامان موجود ہے، كيونكہ آج كا دور اس بات كا متقاضى ہے كہ معاشرتى، اخلاقى گراوٹ كا سدباب اُسوئہ حسنہ سے كيا جائے اور معاشرتى ترقى كى راہ ميں پہلى اكائى گهر ہے اور يہ عورت ہى ہے جو گهر كو جنت بنا سكتى ہے يا جہنم!!
تو كيوں نہ ہم سب حضرت عائشہ كے نقش قدم پر چليں ، كيونكہ يہ وہ مينارہٴ نور ہيں جن كى شمع زندگى سے نكلنے والى كرنيں زندگى كى ہر راہ كو منور كرتى ہيں -
ميں اس كى چند مثاليں يوں پيش كروں گى :
(1) دنيا دار ہوجانے كے بعد عورت كے اخلاق ميں سب سے پہلے جس بات پر نظر پڑتى ہے وہ شوہر كى اطاعت اور ا سكى رضا جوئى ہے- اور يہ صفت آپ ميں بدرجہ اتم موجود تهى-
(2) عورتيں بالعموم اِسراف كى عادى ہوتى ہيں - مگر حضرت عائشہ كى ذات ميں قناعت كا وصف خصوصیت سے نماياں نظر آتا ہے- لذائذ ِدنيوى اور مال و منال كى طرف رخ بهى نہ كرتى تهيں ۔
(3) حضرت عائشہ خود پسندى سے متنفر تهيں - اس لئے تعريف كرنے والوں سے ملنے ميں انہيں تامل ہوتا تها-
(4) آپ كو غیبت اور بدگوئى سے سخت اجتناب تها- ان سے مروى كسى حديث ميں كسى شخص كى توہين يا بدگوئى كا ايك لفظ بهى نہيں اور وسعت ِقلب كا يہ عالم تها كہ اپنى سوكنوں كى خوبياں خوش دلى سے بيان كرتيں -
(5) دل ميں خدا كا خوف ہر لمحہ موجود رہتا- عبرت پذيرى كى كوئى بات ياد آجاتى تو بے اختيار رونے لگتيں -
(6) فياض اور كشادہ دل تهيں ؛ مہمان نواز تهيں -
(7) بہت بہادر اور دلير تهيں - 2ہجرى ميں غزوہٴ اُحد پيش آيا- اس جنگ ميں آنحضور ﷺ كى شہادت كى جهوٹى خبر پهيل گئى- جسے سن كر حضرت عائشہ ديوانہ وار ميدانِ جنگ كى طرف لپكیں اور نبى اكرم ﷺ كو سلامت ديكھ كر خدا كا شكر بجا لائيں - آپ كے زخموں كو دهويا،مشكیزہ سنبهالا اور زخميوں كو پانى پلايا- غزوہٴ خندق ميں بهى قلعہ سے نكل كر ميدانِ جنگ كا نقشہ ديكها كرتيں - راتوں كو اُٹھ كر قبرستان چلى جاتيں -
(8) نہايت عبادت گزار تهيں - نمازِ تہجد باقاعدگى سے ادا كرتيں ۔ رمضان ميں تراويح كا اہتمام كرتيں ، روزے ركھتیں ، غلاموں پر شفقت فرماتيں ، ان كو خريد كر آزاد كرتيں ، آپ كے آزاد كردہ غلاموں كى تعداد 67 ہے۔
(9) آپ سادہ لباس پہنتيں ، قناعت كى و جہ سے ايك ہى جوڑا پاس ركھتیں اور اسى كو دهو دهو كر پہنتيں -
(10) حفظ مراتب كا خاص خيال ركھتیں -
(11) موجودہ دور ميں خواتين ميں نمود ونمائش كا جو زور ہے اور حجاب سے بے زارى بڑھتى جا رہى ہے، آپ كے اُسوہ حسنہ كا امتيازى وصف حيا اور شرم كى پاسدارى تها، اس دور ميں خواتين كو آپ كى اس صفت كى بهى پاسدارى كرنا ضرورى ہے-
اللہ تعالىٰ ہميں اُمّ المومنين حضرت عائشہ كے نقش قدم پر چلنے كى توفيق دے- آمين !
مراجع:
(1) قرآنِ حكيم (2) صحابيات از نياز فتح پورى (3) تذكارِ صحابيات ازطالب الہاشمى
(4) حضرت عائشہ ازمياں محمد سعيد (5) سير الصحابيات ازمولانا سعيد انصارى،
(6) چار سو باكمال خواتين از طالب الہاشمى (7) حضرت عائشہ صديقہ از سلام اللہ صديقى
أمّ الموٴمنين حضرت عائشة صدیقہ رضى اللہ عنہا:
سيدہ عائشہ، طيبہ طاہرہ مادر ِ مشفقہ السلام عليك
اے چراغِ حريم رسولِ خدا كوثر ِعصمت و پاسبانِ حيا
ترجمانِ براہين لوح و قلم كاشف كن فكاں السلام عليك
نجم نجم الہدىٰ بدر بدر الدجى اُمّ خير الامم، زوج خيرالورىٰ
عترتِ صادقاں ، السلام عليك السلام عليك، السلام عليك
مادرِ مومناں ، السلام عليك