فروری 2004ء

غیرتِ قومی اور امریکہ!

ایسی کیفیت کبھی طاری نہیں ہوئی؛ دل کے عین وسط میں ایک انگارہ سا مسلسل دہک رہا ہے۔ دماغ میں دوڑتی باریک رگوں میں جیسے کوئی مسلسل سوئیاں سی چبھو رہا ہے، اعصاب شکستگی سے نڈھال اور خستگی سے چو ُر ہیں ۔ سوچ کی مرجھائی شاخ پر کسی خیال کی کوئی کونپل نہیں پھوٹ رہی۔ قلم پر اُنگلیوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے اور لفظ روٹھ جانے والے دوستوں کی طرح میری فکر سے گریزاں ہیں ۔ نوحے لکھتے لکھتے تھک چکا ہوں اور آنکھوں سے شکستہ خوابوں کی کرچیاں چننے کا حوصلہ نہیں رہا۔ سرابوں کا تعاقب کرتے کرتے پاوٴں چھلنی ہوچکے ہیں اور دماغ اُسلوب و ہنر کے سارے قرینے بھولتا جارہا ہے!!
شکست ِخواب کے اس موسم نے دل و نظر کی ساری بستیاں ویران کردی ہیں ۔ وہ ساری علامتیں جو ہماری آنکھوں میں زندگی کی جوت جگاتیں ، ہمارے دلوں میں عزم و ہمت کے چراغ روشن کرتیں ، ہماری اُمنگوں اور تمناوٴں کو بال و پر عطا کرتیں ، ہمیں سربلند ہوکر پورے قد کے ساتھ کھڑا ہونے کا بانکپن بخشتیں اور اُداس شاموں میں بھی اُمید کی قوسِ قزح بن جایا کرتی تھیں ،ایک ایک کرکے ہچکیاں لے رہی ہیں ۔ وہ ساری علامتیں جنہیں ہم اپنے سر کا تاج سمجھتے، جنہیں اپنے ایمان و یقین کا جوہر قرار دیتے اور جنہیں اپنا سرمایہٴ افتخار جانتے تھے، آہستہ آہستہ مصلحتوں اور مفاہمتوں کے کوڑا دان میں پھینکی جارہی ہیں ۔

میں شاید پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ نائن الیون (11/ستمبر)نے افغانستان اور عراق کا کچھ نہیں بگاڑا۔ چند انسانوں کا لہو اور کچھ عمارتوں کے کھنڈر تاریخ کی میزان میں بہت زیادہ وزن نہیں رکھتے۔ قوموں کی آبرو ان کے احساسِ خودی سے ہوتی ہے جو سوختہ ساماں ، امریکی فوج کی سنگینوں ، بڑے دہانے کی توپوں ، اور فولاد میں ڈھلے ٹینکوں کے سامنے، سلگتے گھروں اور سیاہ پوش گلیوں کے بیچ و بیچ مارچ کرتے ہوئے 'اللہ اکبر' اور 'امریکیو! واپس جاوٴ' کے نعرے لگا سکتے ہیں ، ان کا کوئی کیا بگاڑ لے گا؟ طالبان جیسے درویشانِ خدا مست کو کوئی کیسے مٹا سکے گا جو حکمرانی کے کروفر کو پاوٴں کی ٹوٹی ہوئی چپل جتنی اہمیت بھی نہیں دیتے اور جن کے لئے عزتِ نفس سے آراستہ زندگی کی ایک سانس، غلامانہ زندگی کے ہزار سالوں سے بہتر ہے۔

اگر نائن الیون نے کسی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے، اگر کسی ملک کے جیتے جاگتے انسانوں کو برف کی سلیں بنا دیا ہے اور اگر کسی ملک کو خودی کی ڈور سے کٹ جانے والی آوارہ پتنگ بنا کے رکھ دیا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے!!

جنوں لٹ جانے والے اثاثوں کا گوشوارہ مرتب کرے تو شنگ و خشت کی دیواریں بھی ہچکیاں لینے لگیں ۔ یہ عرصہ ہر اُس شے کونگل گیا جسے ہم نے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم کی سب سے نمایاں کارنس پرسجا رکھا تھا۔ ہماری سرزمین کی حرمت، ہمارے گھروں کا تقدس، ہمارے ہوائی اڈوں کی آبرو، ہمارے انجینئروں کی تحریم، ہمارے ڈاکٹروں کی تعظیم، ہمارے اہل خیر کی تکریم، ہمارے نظریہٴ جہاد کی عظمت، ہماری قومی آزادی و خود مختاری، جہادِ کشمیر سے ہماری لازوال وابستگی، افغانستان سے ہمارا تاریخی رشتہ و تعلق، بھارت کے سامنے ہماری جرأت مندانہ استقامت... "سب کچھ حوالہ شب ِ تاریک ہوگیا!"
اب ہمارا جوہری پروگرام، غریب کی خوبرو بیٹی کی طرح سربازار ہورہا ہے اور زمانے بھر کے اوباش قہقہے لگا رہے ہیں ۔ سب کچھ گنوا دینے کے بعد بھی خوش گماں دستر خوانی قبیلہ یہ سمجھتا ہے کہ دو تین سائنس دانوں کے گلے میں ذلت و رسوائی کا طوق ڈال دینے سے بلا ٹل جائے گی؛ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ کسی کی ڈاکٹر قدیر اور دوسرے جوہری سائنس دانوں سے نہ کوئی ذاتی دشمنی ہے، نہ لین دین۔ ہمارے قومی افتخار کی ان علامتوں کو چٹکیوں میں مسل دینے کے بعد اس 'گناہ' کوبے نام و نشان کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کا ارتکاب ان سائنس دانوں نے کیا۔ مجھے دھڑکا سا لگا ہے کہ کسی بھی وقت فتنہ ساماں آندھیوں کا رخ فوج کے ادارے کی طرف موڑ دیا جائے گا اور فساد کی آگ جانے کیا کچھ بھسم کر ڈالے گی!!

ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دو فلک بوس مینار تو چند لمحوں میں زمین بوس ہوگئے لیکن ہمارے اندر کے مینار قسطوں میں گر رہے ہیں ۔ بے حسی چلن بن چکی ہے اور 'مجذوب قوم' حال مست ہے۔ جس خوف نے نائن الیون کی رات سے ہمارے حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وہی خوف پوری قوم کے رگ و پے میں بھی سرایت کرچکا ہے۔ خوفزدہ بستیاں اپنی آن بچانے کا ہنر بھول جاتی اور اپنے دل کی تسلی کے عجب سامان پیدا کرلیتی ہیں ۔لاہور میں مسجد شہدا کے سامنے جوہری پروگرام کے زیر حراست معماروں کی آہ و بکا کرتی مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں جمع ہوئیں تو قریبی تاجروں نے انہیں کرسیاں پیش کیں اور پھر یہ کہہ کر دکانوں کو پلٹ گئے کہ "کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا۔" بھرے بازار میں کوئی نہ تھا جو ان کے ساتھ آنسو بہانے کی خاطرکھڑا ہوجاتا۔

میں نے آج آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے چہرے پر نظرڈالی تو اس کی ایک ایک شکن میں خوف کے خیمے تنے دیکھے۔کرب کے ایسے لمحوں میں افتخار عارف میری بڑی دستگیری کرتا ہے۔ اس کی ایک نظم...

آپ کے بکھرے حرف ریزے آپ کے قارئین کے دلوں میں روشنی کے جگنو بن کر چمکتے ہیں ۔براہ کرم آپ مایوس نہ ہوں ۔آپ کے قلم کرڑوں پاکستانیوں کے دلوں کے حقیقی ترجمانی کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ آپ کا کالم پڑھ کر ملت اسلامیہ کے فرزندوں کی خوابیدہ امنگیں پیدا ہوتی ہیں اور ان میں حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے ۔آپ نے اپنے کالموں کے ذریعے اسلاف کی یاد تازہ کر دی ہے۔آپ کی کاوشیں بیکار نہیں جا رہی ہیں ۔ آپ کے کالموں کو فکری حلقوں میں قدروقیمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے-