فطری نظامِ تخلیق ، قرآن وسنت کی روشنی میں!

(1) ﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِن كُنتُم فى رَ‌يبٍ مِنَ البَعثِ فَإِنّا خَلَقنـٰكُم مِن تُر‌ابٍ ثُمَّ مِن نُطفَةٍ ثُمَّ مِن عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُضغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيرِ‌ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُم ۚ وَنُقِرُّ‌ فِى الأَر‌حامِ ما نَشاءُ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى...٥ ﴾... سورة الحج
"لوگو! تم (دوبارہ) جی اٹھنے کے بارے میں شک میں ہو تو (اس بات پر غور کرو) ہم نے تمہیں (کس چیز سے) پیدا کیا؟ مٹی سے۔ پھر( تمہاری پیدائش کا سلسلہ کس طرح شروع ہوا؟)نطفہ سے۔ پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے (جو ) شکل والی (بھی ہوتی ہے) اوربے شکل بھی۔ (یہ ہم اس لئے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر (اپنی ذات کی) کارفرمائیاں ظاہر کردیں۔ پھر (دیکھو) ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ( کہ تکمیل تک پہنچائیں) اسے ایک مقررہ میعاد تک رحم میں ٹھہرائے رکھتے ہیں۔"
اس آیت میں انسانی پیدائش کے مراحل بیان کرنے کے بعد ﴿لِنُبَيِّنَ لَكُم ۚ وَنُقِرُّ‌ فِى الأَر‌حامِ ما نَشاءُ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى...٥ ﴾... سورة الحج" سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ انسانی تخلیق کے تمام مراحل رحم میں درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ یہی ایک فطری نظام تخلیق ہے، اس کے علاوہ نلکی (ٹیوب) کاطریقہ غیر فطری ہے۔
(2) ﴿وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ مِن سُلـٰلَةٍ مِن طينٍ ١٢ ثُمَّ جَعَلنـٰهُ نُطفَةً فى قَر‌ارٍ‌ مَكينٍ ١٣ ثُمَّ خَلَقنَا النُّطفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقنَا العَلَقَةَ مُضغَةً فَخَلَقنَا المُضغَةَ عِظـٰمًا فَكَسَونَا العِظـٰمَ لَحمًا ثُمَّ أَنشَأنـٰهُ خَلقًا ءاخَرَ‌ ۚ فَتَبارَ‌كَ اللَّهُ أَحسَنُ الخـٰلِقينَ ١٤ ﴾... سورة المومنون
"اور (دیکھو) یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا، پھرہم نے اسے ایک محفوظ جگہ نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر ہم نے نطفے کو خون کا لوتھڑا بنا دیا۔ ہم ہی نے پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پرگوشت چڑھایا، پھر (دیکھو کس طرح) ہم نے اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر پیدا کردیا۔ پھر (کیا ہی) بابرکت ہستی ہے اللہ( کی) تمام صناعوں سے بہتر صناع۔"
اس آیت میں بھی انسانی تخلیق کے مختلف مدارج و مراحل بیان کرتے ہوئے آغاز میں فرمایا : فی قرارمکین ا س سے مراد رحم مادر ہے، جیسا کہ آیت (6) میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ٹیوب کو قرارِمکین قرار نہیں دیا جاسکتاکیونکہ ٹیوب بدل سکتی ہے، جس سے اختلاطِ نسب کا قوی اندیشہ ہے۔
(3) ﴿الَّذى أَحسَنَ كُلَّ شَىءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلقَ الإِنسـٰنِ مِن طينٍ ٧ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلـٰلَةٍ مِن ماءٍ مَهينٍ ٨ ثُمَّ سَوّىٰهُ وَنَفَخَ فيهِ مِن ر‌وحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمعَ وَالأَبصـٰرَ‌ وَالأَفـِٔدَةَ ۚ قَليلًا ما تَشكُر‌ونَ ٩ ﴾... سورة السجدة
" (وہی اللہ ہے) جس نے جو چیز بھی بنائی، خوب ہی بنائی۔ اور ا س نے انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی، پھراس کی نسل نچڑے ہوئے حقیر پانی سے چلائی، پھر اس (کے پتلے ) کو (نک سک سے) درست کیا، پھر پھونک مار کر اس میں روح پیداکی، اور تم لوگوں کو کان، آنکھ، اور دل دیئے۔ ( اس پر بھی) تم لوگ کم ہی (اس کا) شکر کرتے ہو۔"
اس آیت میں من سلٰلة من ماء مهين کا ذکر ہوا ہے یعنی کہ (اللہ نے ) انسان کی نسل نچڑے ہوئے حقیر پانی سے چلائی۔ اس'پانی' کو مصنوعی طریقے سے انسانی بدن سے کشید نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ اس کے لئے یا تو جلق کی شکل اختیار کی جائے گی جو شرعاً ممنوع ہے جیسا کہ ذیل کی آیت (۱۲) سے معلوم ہوگا، یا عزل کا طریقہ استعمال کیا جائے۔ یہ عزل بھی جائز نہیں ہے، حدیث میں اس کو مووٴدة صغریٰ (ہلکے درجہ کا زندہ درگور کرنا )قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کی آیت ﴿وَإِذَا المَوءۥدَةُ سُئِلَت ٨ بِأَىِّ ذَنبٍ قُتِلَت ٩ ﴾... سورة التكوير"کے عموم سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ یہاں مووٴدة صغریٰ اور مووٴدة کبریٰ دونوں مراد ہوں گی۔
(4)﴿أَيَحسَبُ الإِنسـٰنُ أَن يُترَ‌كَ سُدًى ٣٦ أَلَم يَكُ نُطفَةً مِن مَنِىٍّ يُمنىٰ ٣٧ ثُمَّ كانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّىٰ ٣٨ فَجَعَلَ مِنهُ الزَّوجَينِ الذَّكَرَ‌ وَالأُنثىٰ ٣٩ ﴾... سورة القيامة
" کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس کو (بلا باز پرس) یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا (ابتدا میں) وہ منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکایا گیا تھا، پھر وہ خون کا لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسکو انسان بنایا، پھر اسکے (اعضاء) درست کئے، پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں"
ان آیات میں بھی رحم مادر میں منی ٹپکانے کا تذکرہ ہے کہ یہی فطری طریقہ ہے جیسا کہ سورة مرسلت میں واضح طور پر ارشاد ربانی ہے:
﴿أَلَم نَخلُقكُم مِن ماءٍ مَهينٍ ٢٠ فَجَعَلنـٰهُ فى قَر‌ارٍ‌ مَكينٍ ٢١ إِلىٰ قَدَرٍ‌ مَعلومٍ ٢٢ ﴾... سورة المرسلات
"کیا ہم نے تمہیں ایک حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟پھر ہم نے اس کو ایک مقررہ وقت تک محفوظ جگہ ٹھہرائے رکھا۔"
(5) ﴿فَليَنظُرِ‌ الإِنسـٰنُ مِمَّ خُلِقَ ٥ خُلِقَ مِن ماءٍ دافِقٍ ٦ يَخرُ‌جُ مِن بَينِ الصُّلبِ وَالتَّر‌ائِبِ ٧ ﴾... سورة الطلاق
"پس انسان کو چاہئے کہ (اور نہیں تو اتنی ہی بات کو) دیکھے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ پیدا کیا گیا ہے ایک اُچھلنے والے پانی سے جو ریڑھ او رسینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔"
اس آیت میں محل استدلال﴿مِن ماءٍ دافِقٍ﴾ ہے۔یہی فطری اور صحیح شکل ہے۔ نلکی ٹیوب کی صورت میں 'دفق' کا فقدان ہوگا۔ لذتِ مباشرت ایک فطری تقاضا ہے، اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ ٹیوب میں یہ بات کہاں؟
(6) ﴿خَلَقَكُم مِن نَفسٍ و‌ٰحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنها زَوجَها وَأَنزَلَ لَكُم مِنَ الأَنعـٰمِ ثَمـٰنِيَةَ أَزو‌ٰجٍ ۚ يَخلُقُكُم فى بُطونِ أُمَّهـٰتِكُم خَلقًا مِن بَعدِ خَلقٍ فى ظُلُمـٰتٍ ثَلـٰثٍ ۚ ذ‌ٰلِكُمُ اللَّهُ رَ‌بُّكُم لَهُ المُلكُ ۖ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ ۖ فَأَنّىٰ تُصرَ‌فونَ ٦ ﴾... سورة الزمر
"اسی اللہ نے تم لوگوں کو(آدم کے) تن واحد سے پیدا کیا، پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایااور تمہارے لئے آٹھ قسم کے مویشی پیدا کئے۔ وہی تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے(اور بتدریج) تین تاریکیوں میں ایک شکل کے بعد دوسری شکل (دیتا چلا جاتاہے) یہی اللہ تو تمہارا ربّ ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر تم لوگ (حق سے) کدھر پھر ے جارہے ہو؟"
اس آیت میں محل استدلال یہ کلمات ہیں : ﴿يَخلُقُكُم فى بُطونِ أُمَّهـٰتِكُم خَلقًا مِن بَعدِ خَلقٍ فى ظُلُمـٰتٍ ثَلـٰثٍ﴾ یعنی انسان اپنی ماں کے پیٹ میں پرورش پاتا ہے اور خلق بعد خلق،سے مراد یہ ہے کہ نطفہ سے لے کر مکمل انسانی شکل اختیار کرنے تک تمام مراحل تخلیق ماں کے پیٹ ہی میں طے پاتے ہیں۔ لیکن ٹیوب کی صورت میں چند ہفتے یا چند ماہ تخلیق کا ایک مرحلہ ماں کے پیٹ سے باہر طے ہوگا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر فطری بلکہ غیر شرعی طریقہ ہوگا۔
(7) ﴿وَكَيفَ تَأخُذونَهُ وَقَد أَفضىٰ بَعضُكُم إِلىٰ بَعضٍ وَأَخَذنَ مِنكُم ميثـٰقًا غَليظًا ٢١ ﴾... سورة النساء
"اور تم اسے کیسے واپس لے سکتے ہو، جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔اور وہ تم سے (نکاح کے وقت مہر و نفقہ کا) پکاقو ل لے چکی ہیں۔"
محل استدلال یہ جملہ ہے: ﴿وَقَد أَفضىٰ بَعضُكُم إِلىٰ بَعضٍ﴾ اس آیت میں براہِ راست جنسی تعلق کا ذکر کیاگیا ہے جو ایک فطری امر ہے۔لہٰذا براہ راست جنسی تعلق کے علاوہ کوئی بھی طریقہ غیر فطری تصور ہو گا ۔
(8) ﴿نِساؤُكُم حَر‌ثٌ لَكُم فَأتوا حَر‌ثَكُم أَنّىٰ شِئتُم...٢٢٣ ﴾... سورة البقرة
"تمہاری بیویاں (گویا) تمہاری کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ۔"
اس آیتمیں بھی براہِ راست مباشرت کی طرف رہنمائی کی گئی ہے، اس آیت کی بنیاد پر جس طرح عورت کے ساتھ لواطت غیر فطری فعل ہوگا، اور حرام ٹھہرایا جائے گا اسی طرح 'ٹیسٹ ٹیوب بے بی 'کے طریقہ کار کو بھی غیر فطری ہونے کی بنا پر حرام قرار دیا جائے گا ۔
(9) ﴿فَالـٔـٰنَ بـٰشِر‌وهُنَّ وَابتَغوا ما كَتَبَ اللَّهُ لَكُم...١٨٧ ﴾... سورة البقرة
"سو اب روزوں میں (رات کے وقت) ان سے ہم بستر ہوسکتے ہو ، اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، اس (کے حاصل کرنے) کی خواہش کرو۔"
یہاں بھی طلب اولاد کو براہِ راست مباشرت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور طلب ِاولاد کے لئے مباشرت کو لازمی قرار دیا گیا ہے کیونکہ باشروھن امر کا صیغہ ہے جو اپنے اصلی استعمال کے لحاظ سے وجوب پردلالت کرتا ہے۔
(10) ﴿وَمِن ءايـٰتِهِ أَن خَلَقَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزو‌ٰجًا لِتَسكُنوا إِلَيها وَجَعَلَ بَينَكُم مَوَدَّةً وَرَ‌حمَةً...٢١ ﴾... سورة الروم
"اور اس کی (قدرت) کی نشانیوں میں سے (ایک یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تم (میاں بیوی) کے درمیان محبت و ہمدردی پیدا کردی۔"
رشتہ ازدواج کے مقاصد بیان کرتے ہوئے بیوی کو سکون کا ذریعہ اور شادی کو باہمی الفت ومحبت کے قیام کا باعث قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن ٹیوب کا طریقہ جب عام رائج ہوجائے تو محبت و الفت کا یہ تعلق ختم ہوجائے گا۔
(11) ﴿هُوَ الَّذى خَلَقَكُم مِن نَفسٍ و‌ٰحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنها زَوجَها لِيَسكُنَ إِلَيها ۖ فَلَمّا تَغَشّىٰها حَمَلَت حَملًا خَفيفًا فَمَرَّ‌ت بِهِ...١٨٩ ﴾... سورة الاعراف
"اور وہ (اللہ) ہی ہے جس نے تمہیں تن واحد سے پیدا کیا، اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ وہ اس کے پاس سکون حاصل کرے ۔پھرجب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا تو عورت کو ہلکا سا حمل رہ گیا۔ پھر وہ اسے لئے چلتی پھرتی رہی۔"
﴿فَلَمّا تَغَشّىٰها حَمَلَت حَملًا خَفيفًا﴾ سے ظاہر ہوا کہ فطری طریقہ یہی ہے کہ بیوی کے ساتھ براہِ راست جنسی تعلق قائم کیا جائے۔
(12) ﴿وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ٢٩ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ٣٠ فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ٣١ ﴾... سورة المعارج
"جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں یا اپنے لونڈیوں کے کہ (ان سے زنا شوی میں) ان پر کوئی الزام نہیں، لیکن جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں تو ایسے ہی لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں۔"
یہاں جنسی تعلق کے صرف دو طریقے بتائے گئے ہیں یعنی بیوی یا لونڈی سے اتصال کیا جائے، اس بنیاد پر تمام طریقے لواطت، جلق، عزل سب ناجائز ہوں گے۔ اسی طرح ٹیوب کا طریقہ بھی ناجائز ہو گا ،کیونکہ اس کے لئے مادہ تولید مرد سے کشید کرنے کے لئے عزل کا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا، جو کہ ناجائز ہے اور اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔
(13) ﴿لَعَنَهُ اللَّهُ ۘ وَقالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِن عِبادِكَ نَصيبًا مَفر‌وضًا ١١٨ وَلَأُضِلَّنَّهُم وَلَأُمَنِّيَنَّهُم وَلَءامُرَ‌نَّهُم فَلَيُبَتِّكُنَّ ءاذانَ الأَنعـٰمِ وَلَءامُرَ‌نَّهُم فَلَيُغَيِّرُ‌نَّ خَلقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيطـٰنَ وَلِيًّا مِن دونِ اللَّهِ فَقَد خَسِرَ‌ خُسر‌انًا مُبينًا ١١٩﴾... سورة النساء
"جس (شیطان) پر اللہ کی لعنت ہے،اور جس نے (اللہ تعالیٰ سے)کہا تھا کہ میں تیرے بندوں سے (نذرونیاز) کا ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا۔ ان کو بہکاؤں گا، ان کوآرزؤں میں الجھاؤں گا اور انہیں حکم دوں گا، تو وہ میری ہدایت کے مطابق جانوروں کے کان چیرا کریں گے اور انہیں حکم دوں گا تو وہ (میری ہدایت کے مطابق)اللہ کی خلقت میں تبدیلی کریں گے اور جو کوئی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بنائے، وہ صریح گھاٹے میں ہے ۔"
ان آیاتِ مذکورہ کو پڑھنے کے بعد یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ ان آیات میں فطری نظام تخلیق کا بیان ہے ،لیکن اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ دوسرا کوئی طریقہ ناجائز ہے ؟جواب یہ ہے کہ آخری آیات میں فطری نظام تخلیق تبدیل کرنے کو شیطانی طریقہ قرار دیا گیا ہے۔ آیت کے الفاظ ﴿وَلَءامُرَ‌نَّهُم فَلَيُغَيِّرُ‌نَّ خَلقَ اللَّهِ﴾ پر غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹیوب کا یہ طریقہ محض علاج نہیں ہے بلکہ فطری نظام تخلیق کے مقابلہ میں شیطانی طریق کار ہے، جس کے مفاسد زیادہ اور منافع کم ہیں۔ علماء اصول کا ایک مشہور ضابطہ ہے کہ درء المفاسد مقدم علی جلب المنافع یعنی مفاسد (خرابیوں) کو دور کرنا، منافع کے حصول پر مقدم ہے۔ اس بنا پر اس طریق کارکے جواز کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا۔1
ایک شبہ کا ازالہ
کہا جاسکتا ہے کہ آپریشن کے طریقہ سے بھی بچے کی پیدائش ہوتی ہے، یہ بھی تو غیر فطری طریقہ ہے اسے کیسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟
جواب اس کا یہ ہے کہ آپریشن کا طریقہوہاں اختیار کیا جاتا ہے جہاں موت کا خطرہ ہو، اورطبعی طور پر بچے کی پیدائشناممکن ہو ۔ظاہر ہے اس موقع پر ماں کی جان بچانے کے لئے اضطراری طور پر یہ آپریشن کیا جاتا ہے۔ حسب ِذیل آیت کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
﴿فَمَنِ اضطُرَّ‌ غَيرَ‌ باغٍ وَلا عادٍ فَلا إِثمَ عَلَيهِ...١٧٣ ﴾... سورة البقرة
"البتہ جو شخص بے قرار ہوجائے لیکن وہ حکم عدولی کرنے والا نہ ہو ، اور نہ حد ِ ضرورت سے تجاوز کرنے والا ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے۔ "
جان بچانے کے لئے آپریشن کا طریقہ اختیار کرنے پر 'ٹیسٹ ٹیوب بے بی 'کو قیاس نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اولاد کے حصول کو مجبوری یا اضطراری حالت قرار نہیں دیاجاسکتا۔
ایسا بانجھ شخص علاج کے دوسرے طریقے اختیار کرسکتا ہے ، لیکن جدید طریقہ حرام کاری کا ذریعہ بن سکتا ہے، ا س لئے ایک موٴمن اس کے جواز کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس طریقہ کو جائز قرار دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے انسان کو حیوانات کے درجہ تک گرا دیاہے۔ اس صورت میں یقینا ہم اس آیت کے مصداق ٹھہریں گے :
﴿لَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ فى أَحسَنِ تَقويمٍ ٤ ثُمَّ رَ‌دَدنـٰهُ أَسفَلَ سـٰفِلينَ ٥ ﴾... سورة التين
"بیشک ہم نے انسان کوبہترین ساخت پر پیدا کیا پھر اسے نیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیردیا۔" اس معکوس ترقی سے کون بچ سکتے ہیں؟ فرمایا :
﴿إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ...٦ ﴾... سورة التين
" مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل (بھی) کئے"
یہاں بطورِ شاہد کے اس حدیث کو ذکر کر دینا بھی مناسب ہو گا جس میں ایسے شخص پر لعنت فرمائی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے تخلیقی نظام کو تبدیل کرتا ہے۔حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«لعن الله الواشمات والموٴتشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن، المغيرات خلق الله» (صحیح بخاری، نمبر۴۸۸۶،کتاب التفسیر، سورة الحشر)
"اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے: (1) گوندنے والی، (2) گدوانے والی، (3) چہرہ کے بال اکھاڑنے والی، (4) خوبصورتی کے لئیدانتوں کے درمیان سوراخ کرنے والی، اللہ تعالیٰ کی تخلیق (ساخت) کو بدلنے والی عورتوں پر ۔"
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے
"اللہ تعالیٰ نے لعنت کی بال ملانے والی پر ، بال ملوانے والی پر اور گوندنے والی اور گوندوانے والی پر، یعنی اصل بالوں پر اضافہ کرتے ہوئے مصنوعی بال لگانے والی عورت ملعون ہے۔ "
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس ساخت پر پیدا کیا ہے اس میں تغیر وتبدل جائز نہیں ہے۔ یہ تبدیلی وہیں ہوسکتی ہے جہاں شرعی طور پر کوئی جواز نکلتا ہو۔ یہی معاملہ فطری نظامِ تخلیق کا ہے کہ اس میں تغیر جائز نہیں ہے۔
ایک اور اشکال
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جس آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں، وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ کوئی دوسرا آدمی اس سے نکاح نہ کرلے اور پھر اسے اپنی مرضی سے طلاق دے دے ، تو اس طرح سے وہ پہلے شوہر کے نکاح میں آسکتی ہے جیسا کہ فرمایا﴿حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ﴾ ... اورحدیث میں ارشادِ نبوی ہے کہ محض نکاح (عقد) کافی نہیں ہے بلکہ لذتِ جماع کا حصول بھی ضروری ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں
«حتی يذوق من عسيلتها کما ذاق الأول»(تفسیر ابن کثیر: ۱/ ۲۷۸ بحوالہ بخاری،مسلم)
" دوسرا خاوند اسی طرح اس سے لذتِ جماع حاصل کر لے جس طرح پہلے خاوند نے کیا تھا۔ "
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اگر ٹیوب میں ایسی عورت کا بیضہ اور مرد کا مادئہ تولید جمع ہوجائے یعنی شوہر ثانی کے مادئہ تولید کا تجربہ ناکام ہوجائے یعنی کوئی اولاد نہ ہو تو کیا عورت اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے یا اس کے لئے اس حدیث میں ہی فطری نظامِ تخلیق کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ اس بنا پر تخم ریزی کا عمل شیطانی طریقہٴ کار ہوگا۔


نوٹ

1.  فطری طریقوں کے مقابلے میں مصنوعی طریقوں کو رواج دینے سے پرہیز کی حد تک محترم موصوف کا موقف مستحسن ہے تاہم رابطہ عالم اسلامی ، مکہ مکرمہ کی طرف سے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی متنوع صورتوں کے بارے  میں سوالات کے جواب میں ادارئہ محدث کا موقف تفصیل کے ساتھ محدث جلد ۱۸، عدد ۴ میں شائع ہوچکا ہے جسے مولانا عبد الرحمن کیلانی  ؒنے علماء کے ایک علمی مباحثہ کے بعد ترتیب دیاتھا۔ وضاحت ِفتویٰ کے لئے اسے دیکھ لینا مناسب ہوگا۔      (ادارہ)