بلا اجازت لڑٖکی کا نکاح اور میت پر پھول چڑھانا

٭بلا اجازت لڑکی کا نکاح ٭روح کو ایصالِ ثواب اور میت پر پھول ڈالنا
٭مقتدی کیلئے سورة فاتحہ کی قراء ت کا محل ٭زکوٰة، سونے کی قیمت ِخرید پر یا قیمت ِفروخت پر
سوال : ایک والدنے اپنی جوان، بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر اپنے کسی رشتہ دار لڑکے سے کردیا ہے۔ نکاح سے پہلے وہ لڑکی برملا پکار پکار کرکہتی رہی ہے کہ میں اس لڑکے کے ساتھ شادی کرنے پر راضی نہیں ہوں اور اب نکاح کے بعد بھی وہ لڑکی ناراضگی اور خفگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے رشتہ دار مردوں اور عورتوں کے سامنے رونا شروع کردیتی ہے۔ ا س نکاح کا قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں کیا حکم ہے؟ (عبدالوحید،ضلع قصور)
جواب:بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہونا چاہئے، چاہے نکاح کرنے والا اس کا باپ ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے:« والبکر يستأذنها أبوها في نفسها» (صحیح مسلم: ۱/۴۵۵) "باپ کنواری لڑکی سے نکاح کے بارے میں اس سے اجازت طلب کرے۔"
علامہ ابن قیم فرماتے ہیں:
«وبهذه الفتوی نأخذ وأنه لا بد من استئمار البکر وقد صح عنه ﷺ: الأيم أحق بنفسها من وليها والبکر تستأمر فی نفسها وإذنها صماتها وفی لفظ والبکر يستأذنها أبوها فی نفسها وإذنها صماتها وفی الصحيحين عنه ﷺ: لا تنکح البکر حتی تستأذن، قالوا: وکيف إذنها؟ قال أن تسکت ۔ وسألته ﷺ جارية بکر، فقالت إن أباها زوّجها وهی کارهة، فخيّرها النبیﷺ فقد أمر باستئذان البکر ونهي عن إنکاحها بدون إذنها ۔ وخيّرﷺ من نکحت ولم تستأذن»(اعلام الموقعین، ۴/۳۴۱،۳۴۲)
"امام صاحب فرماتے ہیں: ہم اس فتویٰ کو لیتے ہیں کہ باکرہ سے اجازت لینا ضروری ہے کیونکہ نبی ﷺ سے یہ بات صحیح ثابت ہے کہ بیوہ اپنے نفس کی زیادہ حقدار ہے اور کنواری سے اس کے نفس کے بارے میں مشورہ لیا جائے اور اس کی خاموشی ، اجازت تصور ہوگی اور ایک روایت میں یوں ہے کہ باپ باکرہ سے اجازت طلب کرے اور اس کی اِجازت اس کی خاموشی ہے نیز بخاری، مسلم میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : باکرہ کا نکاح نہ کیا جائے یہاں تک کہ اس سے اجازت لی جائے۔ لوگوں نے کہا: اس کی اجازت کیسے ہو؟ آپ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اجازت سمجھی جائے گی۔
اور آپ ﷺ سے ایک کنواری لڑکی نے سوال کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح زبردستی کردیا ہے تو آپ ﷺنے اس کو اختیار دے دیا اورحکم دیا کہ باکرہ سے اجازت لی جائے اور ا س کی اجازت کے بغیر نکاح سے منع کردیا اور جس سے اجازت نہ لی گئی ہو، اس کو اختیار دے دیا۔ "
ان نصوص کی بنا پر اس لڑکی کو اختیار ہے کہ یہ نکاح ردّ کرسکتی ہے۔
سوال: اس حدیث کی تحقیق درکار ہے : «عن ابن عباس أن رسول الله ﷺ نهي عن صبر ذی الروح وعن إخصاء البهائم نهيا شديدا» (مجمع الزوائد: ج۵، ص۲۶۵)
اگر یہ حدیث صحیح ہے تو پھر جانور کو خصی کرنا اور خصی جانور کی قربانی کرنا کیسا ہے؟
جواب:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کے بارے میں امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وأخرج البزار بإسناد صحیح من حدیث ابن عباس» یعنی "ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بزار نے بسند صحیح بیان کیا ہے۔ (نیل الاوطار: ۸/۹۱) اور صاحب ِمجمع الزوائد نے کہا: رجالہ رجال الصحیح اس حدیث کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔ (۵/۲۶۵) یعنی ان راویوں میں صحیح کے راویوں جیسے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ علامہ شمس الحق رحمہ اللہ عظیم آبادی نے اپنے فتاویٰ میں اس مسئلہ پر خوب سیر حاصل بحث کی ہے جو لائق مطالعہ ہے۔ بحث کے آخر میں فرماتے ہیں :
"ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا، ان کا خصی کرنا جائز نہیں اورجن کا گوشت کھایا جاتا ہے، ان کا خصی کرناافضل ہے اور عزیمت کا یہی تقاضا ہے کہ ان کا خصی کرناجائز ہو"۔ (صفحہ ۳۳۳)
سوال: مسعود احمد بی ایس سی ،امیر جماعت المسلمین (رجسٹرڈ) نے درج ذیل حدیث سے ثابت کیا ہے کہ سورئہ فاتحہ اس وقت پڑھی جائے جب امام خاموش ہو۔
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:« کانوا يقرأون خلف رسول اللهﷺ إذا أنصت فإذا قرأ لم يقرء وا وإذا أنصت قرء وا» (بیہقی: جزء القراة / صلوٰة المسلمین)
اس کی سند کیسی ہے؟ اگر سند صحیح ہے تو سورئہ فاتحہ کس وقت پڑھی جائے گی؟ امام کے سکتوں میں یا مروّجہ طریقہ ہی صحیح ہے؟
جواب:اثر ہذا سند کے اعتبار سے اگرچہ قابل قبول ہے لیکن یہ اس بارے میں نص نہیں کہ دیگر مواقع پر فاتحہ کی قرأت نہیں ہوسکتی،اس کتاب کے صفحہ ۱۹ پر ہے: ابوہریرہ کے شاگرد نے کہا «فکیف أصنع إذا جھر الإمام»"جب امام جہری قرأت کرے تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟" جواب میں ابوہریرہ نے فرمایا:« اقرأ بها في نفسک»"اپنے جی میں پڑھ لے۔" پھربیہقی نے اپنی سند کے ساتھ مکحول سے نقل کیا ہے:
«اِقرأ بها يعنی بالفاتحة فيما جهر به الإمام إذا قرأ بفاتحة الکتاب وسکت سِرّا وإن لم يسکت اقرأ بها قبله ومعه وبعده لا تترکها علی حال»
"جب امام جہری قرأت کرے تو اس کی خاموشی میں مقتدی سری قرأت کرے۔ اور اگر وہ خاموش نہ ہو تو اس سے پہلے اس کے ساتھ اور اس کے بعد قرأت کو کسی حال میں مت چھوڑ ۔"
پھر حضرت عبادہ کی مشہور روایت میں ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی تو قرأت کرنا مشکل ہوگیا۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ نے دریافت کیا: مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ تم اپنے امام کی اقتدا میں قرأت کرتے ہو، ہم نے عرض کی: ہاں یارسول اللہ ﷺ ! آپ نے فرمایا سوائے فاتحہ کے کچھ نہ پڑھو، جو فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں۔"
اس حدیث میں امام کی قرأت کے وقت مقتدی کی قرأتِ فاتحہ کا جواز ہے، اگر سکتات میں قرأت کاتعین ہوتا تو آپ اس کی راہنمائی فرما دیتے۔ اس امر کی صراحت نہ کرنا جواز کی دلیل ہے۔ اصولِ فقہ کا مشہور قاعدہ ہے: «تأخير البيان عن وقت الحاجة لايجوز»
"ضرورت کے وقت وضاحت کو موٴخر کرنا جائز نہیں۔"
سنن اابودا ود کی روایت میں اَلفاظ یوں ہیں
«فلا تقرء وا بشيئ من القرآن إذا جهرتُ إلا بأم القرآن»
"جب میں قرأتِ جہری کروں تو سواے اُمّ القرآن کے قرآن سے تم کچھ نہ پڑھو۔ "
یہ الفاظ اس بارے میں نص ہیں کہ امام کی جہری قرأت کے وقت مقتدی کے لئے فاتحہ پڑھنے کا جواز ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"شوافع کا فاتحہ کی قرأت کے بارے میں ا ختلاف ہے کہ آیا قرات فاتحہ امام کے سکتوں کے دوران ہوگی یا اس کی قرأت کے موقع پر؟ احادیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ فاتحہ امام کی قرات کے وقت پڑھی جائے اورامام کے سکوت کے موقعہ پر اگر ممکن ہو تو پڑھنا اَحوط (زیادہ احتیاط)ہے کیونکہ ایسا کرنا پہلے قول والوں کے نزدیک بھی جائز ہے۔اس پر عمل کرنا اجماع پر عمل کرنے کے مترادف ہوگا لیکن یہ معمول بنا لینا کہ امام کے فاتحہ یا سورت کی تلاوت کے وقت ہی فاتحہ پڑھنے کی سعی کی جائے، ایسا کرنا کوئی مستند نہیں بلکہ سب طرح جائز اور سنت ہے۔ البتہ مقتدی کے لئے امام کی قرأتِ فاتحہ کے وقت فاتحہ پڑھنا زیادہ مناسب ہے۔" ( ملخصاً فی نیل الاوطار: ۲/۲۳۴)
سوال: زید نے بکر سے کہا کہ اگر وہ زید کو دس لاکھ روپے دے تو وہ اس کاکاروبار کرکے ہرماہ اسے پندرہ ہزار روپے منافع دے گا جبکہ اصل رقم بھی محفوظ رہے گی۔ مزید یہ کہ بکرکاروبار میں کسی رقم کے نقصان کا ذمہ دار نہ ہوگا، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ (محمد شاہد، حجرہ شاہ مقیم، اوکاڑہ)
جواب: مضاربت کی بنیاد پر تجارت کرنا جائز ہے جس میں نفع و نقصان میں برابر مشارکت ہوتی ہے۔ نقصان میں شریک نہ ہونا اورمنافع کا ماہانہ تعین کرنا، دونوں ہی سود کی قسمیں ہیں جس سے اجتناب ہر مسلمان کا فرض ہے۔
سوال: ایک صاحب ِنصاب شخص، جس کے پاس ساڑھے سات تولے یا ا س سے زائد وزن کا سونا ہے اور اس پر سال گذر چکا ہے۔ وہ زکوٰة کس حساب سے ادا کرے گا جبکہ ہمارے ملک میں سونے کے دو ریٹ یعنی قیمت ِخرید اور قیمت ِفروخت رائج ہیں کیونکہ سنار سونے کے کھوٹ ، پالش وغیرہ کا نام لے کر خود خریدتے ہوئے مکمل وزن کی قیمت نہیں دیتے۔ ایسا شخص زکوٰة قیمت ِخرید کے حساب سے ادا کرے گا یا قیمت ِفروخت کے حساب سے؟ (ابوعبیداللہ، مردان)
جواب: بلا شبہ زکوٰة خالص سونے پر ہے۔ اگر وہ ڈلی کی صورت میں ہے تو اس میں کھوٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اگر وہ زیور کی صورت میں ہے تو اس کی زکوٰة میں فقہاءِ اُمت کا اختلا ف ہے، زیادہ احتیاط والا مسلک یہ ہے کہ خالص سونے کا حساب لگا کر زیور کی زکوٰة ادا کی جائے۔ زکوٰة کی ادئیگی میں حساب قیمت ِفروخت کا لگائیں، کیونکہ زکوٰة دینے والے کی حیثیت بائع جیسی ہے، جس کے عوض اس نے اللہ سے جنت حاصل کرنا ہے قرآن مجید میں ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ اشتَر‌ىٰ مِنَ المُؤمِنينَ أَنفُسَهُم وَأَمو‌ٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ...١١١ ﴾... سورة التوبة "اللہ نے موٴمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں (اور اس کے) عوض میں ان کے لئے بہشت (تیار کی) ہے۔"
خودکو کھوٹ کے شبہ سے پاک کرلینا چاہے۔ حدیث میں ہے: «دع ما يريبک إلی ما لا يُريبک» (فتح الباری: ۴/۲۹۳) "شبہ والی شے کو چھوڑ کراس کو اختیار کیا جائے جس میں شبہ نہیں۔"
سلامتی کی راہ یہی ہے کہ اللہ سے کھرے مال کا سودا کیا جائے کیونکہ اس کا عوض کھرا ہے او روہ جنت ہے جس کے اوصافِ کریمہ سے کتاب و سنت بھرا پڑا ہے۔
سوال: بیٹے کی پیدائش پر دوست نے سیونگ سر ٹیفکیٹ (تین ہزار روپے) تحفتاً دیا توبینک میں کچھ عرصہ رقم جمع رہنے پر معلوم ہو ا کہ وہ رقم تو سود کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔اب اصل رقم کی بجائے سود کی زائد رقم کافی مقدار میں بڑھ چکی ہے اور رقم نکلوا کر استعمال بھی کی جاچکی ہے
1) سود والی زائد رقم کا مصرف کیا ہوگا؟
2) میں نے جو رقم نکلوا کراستعمال کرلی، کیا اس کاادا کرنا ضروری ہوگا؟
3) کچھ عرصہ بعد سود کا بڑھنابند کروا دیا تھا۔ رقم تو بڑھتی گئی اس کا کیا بنے گا؟
4) بعض حضرات کے نزدیک بینک میں رقم رکھنا ہی صحیح نہیں، گھر میں رکھیں تو رقم محفوظ نہیں ، حوالہ سود کا دیتے ہیں۔ کیا کیا جائے ۔ (کرنل نعیم پوری، لاہور)
جواب:1) سودی رقم کا مصرف یہ ہے کہ اگر کسی نے سودی پیسہ دینا ہے یا اس پر ظلم کی چٹی پڑی ہو تو یہ رقم وہاں صرف کردی جائے تاکہ حرام پیسہ حرام رستہ میں ہی جائے۔
2) استعمال شدہ رقم کو ادا کرنا ضروری ہے۔
3) اس کھاتہ میں سود لازماً بڑھتا رہے گا جسے کارندے کھاجائیں گے، لہٰذا ضروری ہے کہ سیونگ اکاؤنٹ کو تبدیل کرکے بامرمجبوری کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھ لیں، اس کھاتے میں سود نہیں لگتا اور سودی رقم کو سودی رستہ میں ادا کردیں۔
4) کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھوائیں اور سود سے مزید حفاظت کے لئے 'بنک لاکر' استعمال کریں۔
سوال: مرحوم کی روح کو ایصالِ ثواب کے لئے اگر مرحوم کے گھر کے افراد وغیرہ عین برسی کے دن یا کسی اور دن ایک ہی مجلس میں ختم قرآن شریف کا اہتمام کرلیں تو اس امر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: اولاد جو بھی کارِخیر سرانجام دیتی ہے، ا س کا اجروثواب میت تک پہنچتا رہتا ہے۔ ایصالِ ثواب کے لئے باقاعدہ مخصوص اوقات میں مجالس کا اہتمام کرکے قرآنِ مجید ختم کرانا کتاب و سنت سے ثابت نہیں، لہٰذا اس سے احتراز کرنا چاہئے۔ حدیث میں ہے"من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس فھو ردّ" (بخاری شریف) "جو دین میں اضافہ کرے، وہ مردود ہے"۔ ہاں البتہ مرحوم کے لئے دعائے خیر بکثرت ہونی چاہئے جس کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ، ہر وقت ہوسکتی ہے، مخصوص دعا کے الفاظ یوں ہیں: ﴿رَ‌بَّنَا اغفِر‌ لَنا وَلِإِخو‌ٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا رَ‌بَّنا إِنَّكَ رَ‌ءوفٌ رَ‌حيمٌ ١٠ ﴾... سورة الحشر
"اے ہمارے ربّ! ہمیں او رہمارے بھائیوں کو بخش دے ، جنہوں نے ایمان میں ہم سے سبقت کی اور جو ایمان لائے ،ہمارے دلوں میں ایسے لوگوں کے لئے کوئی کینہ نہ ہونے دے۔ اے ہمارے ربّ! بے شک تو شفقت کرنے والا ، رحم کرنے والا ہے۔"
سوال:میت پرپھول ڈالنے کی شرعی طور پر کیا حیثیت ہے؟
جواب: میت پر پھول ڈالنا کتاب و سنت اور خیر القرون کے عمل سے ثابت نہیں، اس لئے اس فعل سے اجتناب ضروری ہے۔ یہ کفار کی رسم ہے جو اہل اسلام میں سرایت کرچکی ہے۔ اعاذ ناالله منها

٭٭٭٭٭