پنجابی کانفرنس ... ایک ناقدانہ جائزہ

(گذشتہ سے پیوستہ) اس تحقیقی مقالہ میں انہوں نے نہایت تفصیل سے پنجابی زبان کے کلاسیکل شعرا اور صوفیا کی شاعری پر قرآن مجید کے اثرات کو بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر جعفری صاحب لکھتے ہیں :
"لوک گیتوں کے علاوہ بھی ہماری ساری پنجابی شاعری پر بالعموم اور صوفیانہ شاعری پر خاص طور پر قرآنِ پاک کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ پنجابی شاعری کا سنگ ِبنیاد مسلمانوں کے ہاتھوں رکھا گیا۔ اس لئے اس
میں قرآن پاک کے لسانی، فکری اور موضوعاتی اثرات کا ہونا ایک فطری بات تھی۔" (نویں زاویے، ص ۴۷۰)
ڈاکٹر جعفری صاحب نے صوفیانہ شاعری کے بڑے ناموں کا تذکرہ اس مضمون میں کیا ہے۔ حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کے بارے میں لکھتے ہیں:
" آپ کو قرآن پاک، تفسیر اور فقہ پر عبور حاصل تھا۔ آپ شریعت کے پابند اور طریقت کے محرمِ راز تھے۔ آپ نے پنجابی شاعری کو اپنے خیالات کے اظہار اور اسلام کی تبلیغ کاذریعہ بنایا اور قرآن پاک کے فکری نظام کو شعروں کی صورت میں اس قدر عام فہم اسلوب میں بیان کیا کہ معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی ان خیالات، اور تعلیمات کو سمجھ لیتا تھا۔" (صفحہ ۴۷۰)
ان کے بیان کے مطابق شاہ حسین لاہوری قرآن پاک کے حافظ، تفسیر، احادیث اور فقہ کا کافی علم رکھتے تھے۔ شاہ حسین نے ۱۶۴ کافیاں لکھیں جن میں قرآن پاک کے مضامین اور احادیث ِنبوی کی روح موجود ہے۔ حضرت سلطان باہو عربی اور فارسی کے بڑے عالم تھے۔ آپ کی بہت ساری کتابیں فارسی زبان میں ہیں۔ پنجابی میں آپ کا کلام ایک سہ حرفی شکل میں موجود ہے جس میں قرآنی آیات کے تراجم، احادیث کے مضامین، اور مسائل تصوف بیان کئے گئے ہیں۔ بابا بلھے شاہ قصوری نے مشہور عالم مولوی غلام مرتضیٰ سے قرآن پاک کی تفسیر کا علم حاصل کیا۔ وہ قرآن مجید کے گہرے رموز سے واقف تھے۔ تفسیر اور احادیث پر عبور رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں قرآن پاک کی آیات کے ترجمے، احادیث کے مضامین اور فقہی مسائل واضح انداز میں موجود ہیں۔ ہیر کا قصہ لکھ کر شہرت پانے والے وارث شاہ کو بھی قرآن پاک، حدیث اور تفسیر پر مہارت حاصل تھی۔اس لئے ان کے اشعار میں کمال خوبصورتی سے قرآنی آیات کے مفاہیم کو سمویا ہے۔وارث شاہ کا ایک مصرعہ ہے *

ایہہ قرآن مجید سے معنے نہیں جہیڑے
شعر میاں وارث شاہ دے نیں

میاں محمدبخش نے قرآن پاک کی تفسیر کا علم حافظ ناصر سے حاصل کیا۔ آپ فارسی اور عربی کے عالم تھے۔ آپ کو قرآن پاک اور تفسیر پر عبور حاصل تھا۔ فقہ اور شریعت کا گہرا علم رکھتے تھے۔ اپنے مریدوں کے سامنے ہر روز قرآنِ پاک کی تفسیر بیان کرتے تھے۔ نماز روزے کے پابند تھے۔ ان کی کتاب سیف الملوک اگرچہ عشق کی داستان ہے مگر کئی مقامات پر انہوں نے قرآن پاک کی آیاتِ مبارکہ پر مبنی مضامین بھی بیان کئے ہیں۔ قرآن مجید کی آیت ہے: ﴿وَنَحنُ أَقرَ‌بُ إِلَيهِ مِن حَبلِ الوَر‌يدِ ١٦ ﴾... سورة ق
میاں محمد بخش لکھتے ہیں:    نَحْنُ اَقْرَبُ آپ کو کیندا ھک دم دور نہ دسدا
اسی طرح ان کا ایک اور مصرعہ ہے:   ﴿لَن تَنالُوا البِرَّ‌﴾بھائی سٹ تمامی چیزاں
ان کے یہ اشعار دیکھئے :

مر کے جیون دی گل بھائی دسے کون زبانوں
بعث بعد الموت سخن دے معنی دور بیانوں
کس مذہب وچ جائز آیا بھجن قول قراروں
اَوْفُوْا بِعَهْدِيْ پر رہیے مکھ نہ موڑیں یاروں

حضرت خواجہ غلام فرید صوفیانہ پنجابی شاعری کے آخری نامور شاعر ہیں۔ آپ کے کلام میں وحدت الوجود اور تصوف کے مسائل کے ساتھ قرآن پاک کے مضامین اور ارشادات بڑی تفصیل کے ساتھ یا اجمالی انداز میں جابجا بیان ہوئے ہیں۔ خواجہ صاحب کے چند اشعار بطورِ نمونہ درج ہیں:

نَحْنُ أَقْرَبُ      لاز انوکھا
وَهُوَ مَعَکُمْ       ملیا ھوکا
وَفِیْ اَنْفُسِکُُمْ       سر الٰہی
لَوْ لَيْتُمْ        فاش گواہی
گم تیصاں   کوڑیاں   ذات  صفاتاں
لِمَنِ الْمُلْکُ     دا دورہ آیا
(حوالہ ، نویں زاویے)

اس طرح دیگر صوفیا کے اشعار میں بھی قرآنی آیات پر مبنی مضامین موجود ہیں۔ ان صوفیا کی شاعری کا بیشتر حصہ وہ ہے جسے کوئی سکھ یا ہندو نہیں سمجھ سکتا۔ ڈاکٹر سید اختر جعفری اپنے علمی مقالے کا خاتمہ ان الفاظ میں کرتے ہیں
"فکری اعتبار سے پنجابی ادب پر قرآن پاک کے بہت سارے احسانات ہیں۔ کیونکہ قرآن پاک کی برکتوں اور رحمتوں نے پنجابی شاعروں کے ذہن کھول دیئے... اس لئے زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جس کے متعلق پنجابی لکھاریوں نے قرآنی آیات یا اسلامی فکر کے حوالے سے نہ لکھا ہو... موضوع کے اعتبار سے پنجابی کا سارا دینی ادب قرآن حکیم کا ترجمہ اور تفسیر نظر آتا ہے۔" (نویں زاویے : صفحہ ۴۷۹)
مذکورہ بالا پنجابی شاعروں اور دیگر قابل ذکر شعراء کا کوئی ایسا مجموعہ اشعار نہیں ہے جس کی ابتدا حمد اور نعت سے نہ کی گئی ہو۔ مگر پنجابی کانفرنس کا آغاز تلاوتِ کلام پاک کرنے سے پنجابیت کے علمبرداروں کی رواداری متاثر ہوتی تھی۔ * تف برتو اے چرخ گرداں تفو بقولِ غالب:

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی!

۸۔ پنجابی اور اردو میں اختلاف کا رشتہ ہے یا اِشتراک کا ؟ : پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے پرجوش مبلغین ایک نکتہ یکسر فراموش کردیتے ہیں، وہ ہے پنجابی اور اردو زبان کے درمیان گہرا تہذیبی، لسانی اور فکری تعلق۔ پنجابی زبان کی ترقی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کا اردو زبان کے ساتھ تصادم اور مناقشہ ضرور دکھایا جاتا ہے۔ اس بدیہی حقیقت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ جس قدر قربتیں اردو او رپنجابی زبان کے درمیان ہیں، اردو اور کسی بھی دوسری زبان کے درمیان انہیں تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ مزید ستم یہ ڈھایا جاتا ہے کہ اُردو زبان کو اس طرح پیش کیا جاتاہے جیسے یہ غیروں کی زبان ہو جس کا اس دھرتی کی تہذیبی روایات اور لوگوں سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ حالانکہ اردو ایک ایسی زبان ہے جس کے ارتقا و فروغ میں برصغیر پاک و ہند کی مقامی تہذیبی روایات اور لسانی قواعدو آہنگ اور الفاظ نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی اور فارسی کی خوبصورت تراکیب، نادر تشبیہات اور علمی اصطلاحات نے اُردو کے رنگ و روپ کو خوب نکھار بخشا ہے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُردو زبان کے اصل خدوخال، قدکاٹھ، قواعدی ڈھانچہ اور بنیادی تشکیل دینے میں اصل کردار مقامی زبانوں مثلاً بھاشا، پراکرت، سنسکرت، دکنی اور پنجابی نے ادا کیا ہے۔ مقامی زبانوں میں سے سب سے زیادہ الفاظ جس زبان کے اُردومیں مروج ہیں، وہ پنجابی زبان ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز پانچ دریاؤں کی سرزمین پنجاب سے ہی ہوا تھا۔ اُردو زبان کے آغاز کے بارے میں جولوگ دکن، کی بات کرتے ہیں وہ تاریخی حقائق کے منافی ہے۔
اُردو زبان کے معروف محقق ڈاکٹر محمود شیرانی صاحب نے اپنی معرکة الآراء کتاب"پنجاب میں اردو" میں نہایت زور دار دلائل سے ثابت کیا ہے کہ اُردو زبان کا آغاز پنجاب ہی سے ہوا تھا۔ اگر ہم اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین اور مقامی ہندوستانیوں کے باہمی ارتباط اور سماجی میل جول کے نتیجے میں ہوا تو اس دعوے کو سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلمان فاتحین نے ہندوستان میں سب پہلے مستقل قیام لاہور میں کیا۔ محمود غزنوی پہلا حکمران تھا جس نے پنجاب کے وسیع علاقے کواپنی سلطنت میں شامل کیا اور لاہور میں اپنا گورنر تعینات کیا۔ یہ ۱۰۹۹ء کا واقعہ ہے۔ ایک طویل عرصہ غزنوی، غوری اور دیگر ترک حکمرانوں نے لاہور پرحکومت کی۔ جن کی مادری اور دفتری زبان فارسی یا ترکی تھی۔ تقریباً دو سو سال کے بعد قطب الدین پہلا مسلمان حکمران تھا جس نے دہلی کو فتح کیا اور اس کو مسلم سلطنت میں شامل کیا۔ یاد رہے کہ دہلی پر قابض ہونے سے پہلے قطب الدین ایبک دراصل لاہور ہی کا گورنر تھا۔ دکن اور جنوبی ہندوستان بہت بعد میں مسلم حکمرانوں کے قبضہ میں آیا۔ دکن میں مسلمانوں کی تہذیب کا اصل پھیلاؤ اس وقت ہوا جب محمد شاہ تغلق نے اپنا دارالحکومت دہلی سے منتقل کرکے دکن میں 'تغلق آباد' کے نام سے نیا شہر آباد کیا۔ اس کے بعد وہاں اُردو زبان کو فروغ ہوا۔ یہاں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ تغلق آباد میں جن لوگوں نے اُردو کو فروغ دیا، ان کا تعلق کسی نہ کسی اعتبار سے دہلی سے ضرور تھا۔ ولی دکنی، قطب شاہ قلی وغیرہ کے آباؤ اجداد دہلی سے ہجرت کرکے ہی دکن پہنچے تھے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ دہلی بذاتِ خود پنجاب میں شامل رہا ہے۔ انگریزوں کے دور میں بھی ۱۹۱۱ء تک دہلی صوبہ پنجاب کا حصہ تھا۔ اندرونی پنجاب اور لاہور کے درمیان سفر کیا جائے تو رفتہ رفتہ پنجابی اُردو میں تبدیل ہوتی جاتی ہے۔ ا س لئے پانی پت اور کرنال کے علاقوں کی زبان نہ مکمل طور پر اُردو کہلاتی ہے نہ ہی یہ ٹھیٹھ پنجابی کے زمرے میں آتی ہے۔ ولی دکنی سے بہت پہلے کے زمانے کے لاہور کے بعض شاعر نئی زبان میں شعری تجربات کرچکے تھے۔ اگرچہ اس زبان کو وہ 'اردو' تو نہیں کہتے تھے، مگر یہ زبان فارسی اور مقامی زبان کے امتزاج کا نتیجہ ہی تھی۔ یہ پنجابی اور اُردو زبان کے اس قدیمی تعلق کی وجہ سے ہے کہ آج پنجاب کا ایک اَن پڑھ دیہاتی بھی اُردو زبان کو بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ پنجابی زبان وادب کے بارے میں واجبی سا علم رکھنے والے حضرات بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ایک مقام ضرور ایسا آتا ہے جہاں پنجابی ادب اردو ادب کی انگلیاں پکڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ پنجابی زبان کے بعض ثقہ ادیبوں کے قلم سے بھی تواتر سے ایسے جملے اور تراکیب نکل جاتی ہیں جویاتو ہو بہو اردو سے مماثلت رکھتی ہیں یا معمولی ردّوبدل سے انہیں اردو کا جامہ پہنچایاجاسکتا ہے۔ پنجابی ادبی نقادوں کو بالعموم اس مشکل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ پنجابی میں ادبی تنقید لکھتے ہوئے وہ اکثر اُردو ادبی تنقید میں مستعمل اصطلاحات اور تراکیب کو ہی استعمال میں لاتے ہیں۔ یہ موضوع مفصل تحقیق کا مستحق ہے، مگر یہاں زیر بحث نکتے کو مزید واضح کرنے کے لئے ڈاکٹر سید اختر جعفری کی کتاب 'نویں زاویے' سے چند جملے نقل کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا :
۱۔"شریف کنجاہی ہوراں دیاں بہتیاں نظماں دا موضوع ساڈے اَج دے سماج دیاں معاشرتی تے اقتصادی بے انصافیاں نیں۔ جنہاں پاروں معاشرے وچ گھٹن تے مایوسی جنم لیندی اے۔" (صفحہ ۴۱۴)
۲۔"جس شاعر نے پنجابی نظم نوں نواں لہجہ، نویں ڈکشن، نواں اسلوب، نواں رنگ، نواں آہنگ، نویں مضمون، نویں خیالی، نویں ہیئت دتی، اوس دا ناں منیر نیازی اے۔" (صفحہ ۴۱۵)
۳۔"منیر نیازی پنجابی نظم وچ اوہ قبلہ اے جس نوں ویکھ کے نوجوان نسل دے نظم گو شاعراں نے اپنیاں منزلاں تے سمتاں متعین کرلیاں نیں۔" (ص ۴۱۶)
۴۔"اوہناں دیاں نظماں دی کتاب ادبی حلقیاں توں مقبولیت دی سند حاصل کرچکی اے۔" (صفحہ ۴۲۰)
۵۔ "پرجدوں اوہناں دے کلام وچ رومانویت یا نویں رویاں دی گل کیتی جاندی اے، اودوں شاعری وچ ہیئتی تجربے، انسانی نفسیاتی تجزیے، پروتھاری طبقے دی عکاس، جاگیرداری نظام، انسانیت تے اخلاقی قدراں دی پرچاروں دھیان دتا جاندا اے۔" (صفحہ ۴۲۰)
۶۔"ناول نگار نے کردار نگاری اتے بڑی محنت کیتی اے۔ ایس نے پنڈاں تے شہراں دے بڑے خوبصورت کردار اس طرح پیش کیتے نیں، پئی اوہناندی مکمل تصویر لفظاں وچ کھچ کے رکھ دتی اے۔" (صفحہ ۴۴۰)
۷۔"جتھوں تیک پنجابی افسانیاں وچ علامت نگاری دا تعلق اے، نویں نسل دے افسانہ نگاراں نے ایہدے ول خاص توجہ دتی اے۔" (صفحہ ۴۴۷)
۸۔ "اوہناں دے ڈرامیاں وچ ہمیشگی تے دوامیت دے عناصر موجودنیں۔" (صفحہ ۴۵۷)
۹۔ "اک زمانہ سی جدوں آکھیا جاندا سی پئی پنجابی زبان وچ چنگی شاعری ہوسکدی اے، چنگی نثر نہیں لکھی جاسکدی۔" (صفحہ ۴۵۶)
۱۰۔"لہجے وچ ایقان دی طاقت تے دعوے دی دلیل مخالف نوں قائل کرنے واسطے کافی ہوندی اے۔" (صفحہ ۵۰۷)
مندرجہ بالا جملوں کو معمولی کاوش کے ساتھ اُردو میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ جن لوگوں کی مادری زبان اُردو ہے، وہ معمولی غوروفکر کے بعد ان جملوں کے مطالب سمجھ سکتے ہیں۔ یہ معاملہ 'نویں زاویے' کے فاضل مصنف کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ پنجابی ادبی تنقید کی دیگر معروف کتابوں کے مطالعے کے بعد بھی یہی صورتحال سامنے آتی ہے۔ مثلاً "پرکھ پڑمول" (عارف عبدالمتین) "نتارے" (شہباز ملک) وغیرہ ۔
اور محدودیت کا یہ مسئلہ محض پنجابی جیسی 'ماں بولی' کو ہی درپیش نہیں ہے۔ پاکستان کی دیگر علاقائی زبانوں مثلاً سرائیکی، ہندکوہی، بلوچی، سندھی، پشتو زبان میں لکھی گئی ادبی تنقید کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علاقائی زبانیں ایک مخصوص ماحول اور محدود علاقے میں پروان چڑھتی ہیں۔ ان کا تناظر وسیع نہیں ہوتا۔ اس مخصوص ماحول میں سماجی ارتباط اور اظہار کی جو جو صورتیں ہوسکتی ہیں، ان کے بارے میں تو وسیع ذخیرہٴ الفاظ ملے گا مگر بڑے شہروں کے تمدن اور جدید علوم و فنون کے اظہار میں یہ زبانیں مایوس کن حد تک بے بس ہیں۔ ایک کنواں اور اس کے آس پاس کے مناظر کی منظر کشی کرنا ہو تومقامی زبانیں بلاغت، فصاحت اور ندرتِ الفاظ کا حیران کن نمونہ پیش کریں گی۔ اس کے برعکس ان میں ایک فیکٹری کے ماحول کی عکاسی کرنی ہو، تو سخت دشواری پیش آئے گی۔
اگر تو پنجابی اس طرح کی لکھنی ہے ، جس کی مثالیں اوپر درج کی گئی ہیں، تو پھراردو ہی کو ذریعہ اظہار کیوں نہ بنایا جائے۔ فخرزماں جیسے پنجابیت کے نام نہاد علمبرداروں کو ان حقائق پربھی توجہ دینی چاہئے۔ یہاں اُردو او رپنجابی کے حوالہ سے ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ہمارے ایک دوست جو 'گلابی پنجابی' میں شاعری فرماتے ہیں، پنجابی زبان کے فروغ کے پرجوش مبلغ ہیں۔ ایک دن میرے ساتھ بحث میں اُ لجھ گئے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ پنجابی زبان کے الفاظ 'کھرا' اور"چبل' کے اُردو مترادفات کیا ہیں۔ راقم نے کافی سوچ و بچار کے بعد اعتراف کیا کہ اسے اُردو کے مترادفات نہیں آتے۔ راقم نے جوابی 'حملہ' کرتے ہوئے سامنے پڑے ہوئے اردو اخبار میں سے چند الفاظ کے ان سے پنجابی مترادفات پوچھے تو موصوف ایک بھی لفظ کا مترداف نہ بتا سکے، تو گویا یہ لسانی دنگل برابر ٹھہرا۔
موصوف کے جانے کے بعد راقم نے فرہنگ ِآصفیہ (لغت) اٹھائی او ریہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ 'کھرا' اور 'چبل' پنجابی کے دونوں الفاظ اس اردو لغت میں موجود تھے۔ اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پنجابی اور اردو کے درمیان مقابلہ کرانے کے شوقین حضرات بھی نہیں جانتے کہ پنجابی زبان کے ہزاروں الفاظ پہلے ہی اُردو زبان میں مروج ہیں۔ اردو او رپنجابی زبان کے درمیان اس گہرے رشتے کی وجہ سے پنجاب میں کسی الطاف حسین کی کامیابی کے امکانات روشن نہیں ہیں۔ اردو زبان میں جو اب تک مایہ ناز افسانوی یا دینی ادب تخلیق کیا گیاہے، اس میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کا حصہ دیگر علاقوں سے کم نہیں ہے۔ پنجاب کے ادیب پنجابی بولتے رہیں گے اور اُردو لکھتے رہیں گے، وہ کسی لسانی عصبیت کا شکار نہیں ہوں گے۔ (ان شاء اللہ) محب وطن پنجابی ادیبوں کو چاہئے کہ وہ اردو اور پنجابی کے درمیان لفظی اشتراک کو زیادہ ابھاریں تاکہ لفظی اختلاف کی بنا پر کوئی فتنہ سر نہ اٹھا سکے۔
۹۔ پنجابی کانفرنس ، پاکستان میں بڑھتے فتنہٴ لسانیت کے تناظر میں :پاکستان میں اسلام دشمن سیکولر عناصر نے صورتیں بدل بدل کر اس مملکت ِخداداد کی سا لمیت کے خلاف فتنے برپا کئے ہیں۔ عوام الناس کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے ان شرپسند عناصر نے لسانی عصبیت کو ہمیشہ ایک موٴثر اور کارگر ہتھیار کے طور پر استعما ل کیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے فورا ً بعد اردو بنگالی تنازعہ کھڑا کردیا گیا۔ جلدی ہی اس تنازعہ نے ایک قوم کش فتنے کی صورت اختیار کرلی۔ بالآخر قوم کو سقوطِ ڈھاکہ جیسے ذلت آمیز سانحہ سے گزرنا پڑا۔
اس لرزہ خیز سانحہ سے قوم سنبھلنے نہ پائی تھی کہ ایک دفعہ پھر لسانی تعصب کو ہوا دیتے ہوئے شرپسندوں نے ۱۹۷۲ء میں سندھ میں اُردو سندھی تصادم برپا کردیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں بدنصیب، بے گناہ افراد مارے گئے۔ یہ تنازعہ جسد ِقومی میں ایسا ناسور بن کر ابھرا کہ جس سے گندا خون اب تک رِس رہا ہے۔ اِک قلزمِ خون ہے جو ہر وقت دیکھنے والی آنکھ کو پریشان کئے ہوئے ہے۔
صوبہ سرحد میں کانگریس ٹولے نے سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کی قیادت میں پختونستان کا نعرہ بلند کیا جس کی بنیاد بھی لسانی عصبیت تھی۔ اس فتنہ نے بھی ایک عرصہ تک قومی سیاست میں حشر برپا کئے رکھا۔ اب یہ نئے سرے سے 'پختونخواہ' نام سے ایک دفعہ پھر سر اٹھا چکا ہے۔اس نامعقول لسانی شرانگریزی کا نتیجہ ہے کہ اب تک کالا باغ ڈیم جیسا قومی اہمیت کا عظیم منصوبہ اربوں روپے کے خرچ کے باوجود شروع نہیں کیا جاسکا۔
بلوچستان میں لسانی عصبیت کے نام پر دو طرح کی تحریکیں سرگرم عمل ہیں۔ ایک تحریک اکبر بگتی کی قیادت میں چل رہی ہے، جو قومی زبان اُ ردو کے خلاف نفرت کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ اکبر بگتی نے کئی سال تک اُردو زبان کا بائیکاٹ کئے رکھا۔ وہ یا انگریزی میں بات کرتے تھے یا بلوچی زبان میں۔ گذشتہ دس برسوں کے دوران بلوچستان میں پشتو بولنے والوں او ربلوچی بولنے والوں کے درمیان کشمکش کی نئی نئی صورتیں سامنے آئی ہیں۔ کوئٹہ شہر کی دیواریں متعصبانہ نعروں سے بھری ہوئی ہیں۔ کئی بار بلوچستان یونیورسٹی اور بولان میڈیکل کالج میں پختون بلوچ تصادم بھی واقع ہوچکے ہیں۔
اہل پنجاب میں اگرچہ رواداری اور وسعت ِظرفی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ مگر یہاں بھی ایک متحرک اقلیت لسانی عصبیت کو ہوا دینے میں مصروف رہی ہے۔ گذشتہ تیس برسوں سے بہاولپور، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں سرائیکی صوبے کے نام پر ایک شرپسند گروہ فضا کو خراب کر رہا ہے۔ اگرچہ ان کی سوچ کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی مگر مستقبل میں ان کی بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں کے متعلق خدشات بدستور موجود ہیں۔ شمالی اور مرکزی پنجابی میں ابھی تک کوئی لسانی فتنہ سر نہیں اُٹھا سکا تھا، مگر یہاں پاکستان دشمنوں کو امن کی فضا ہضم نہیں ہوتی۔ وہ عرصہٴ دراز سے اہل پنجاب کو مطعون ٹھہرا رہے تھے۔ سندھ، بلوچستان اور سرحد کے قوم پرست پنجاب کو ہمیشہ گالی دیتے آئے ہیں۔ مگر اہل پنجاب نے ان کے خلاف کبھی ردّعمل کا اظہار نہیں کیا۔ حال ہی میں پنجاب دشمن بلکہ پاکستان دشمن کی ایک فریب انگیز تحریک سامنے آئی ہے، اس کا نعرہ پنجابیت کو فروغ دینا ہے۔
ایک طویل منصوبہ بندی کے بعد سازشی ذہن نے عالمی پنجابی کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اس فتنہ کا آغاز کردیا ہے۔ پنجاب میں پنجابیت نہ پہلے کبھی Issue تھا، نہ فی الحال یہ کوئی مسئلہ ہے۔ مگر فکری تخریب کاری کے ماہر شرپسند اپنے گھناؤنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوئی نہ کوئی ایشوضرور کھڑا کرتے ہیں۔ معاشرے میں ابہام پیدا کرنے کے لئے جھوٹ ساز فیکٹریاں پروپیگنڈہ مہم شروع کرتی ہیں۔ ان کو شہ دینے والے عناصر مالی وسائل کے انبار لگا دیتے ہیں۔ قلم و قرطاس سے وابستہ افراد کو خریدا جاتا ہے۔ پریس میں نظریاتی مجادلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جلسے جلوس، کانفرنسیں منعقد ہونا شروع ہوتی ہیں۔ ان کی اشتعال انگیز سرگرمیاں جلدی ہی رنگ لاتی ہیں۔ محب ِوطن افراد میں سے بعض ان سے ٹکرا جاتے ہیں۔ یہیں سے نہ ختم ہونے والا تصادم شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح چند ہی برسوں میں ایک وجود نہ رکھنے والا مسئلہ بھی عظیم فتنہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ فخرزماں جیسے بگلہ بھگت کے بیانات پڑھ کر اس عظیم فتنے کے پس پشت محرکات کو سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ لسانیت چاہے پنجابیت کے نام پر ہو، سندھیت، سرائیکیت یا بلوچیت کے نام پر ہو، یہ ایک لعنت ہے، ایک ناسور ہے، ایک عفریت ہے جو ملکی سا لمیت کے لئے خطرات پیدا کرتا ہے۔ اس کی سرکوبی ہر محب ِوطن پاکستانی او رپنجابی کا فرض ہے۔
۱۰۔ پنجابی کانفرنس کے کرتا دھرتاؤں میں قدرِ مشترک اسلام اور وطن دشمنی ہے: مندرجہ بالا سطور میں پاکستان میں لسانی عصبیت کی بنیاد پر کھڑی کی جانے والی جن تحریکوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان کے روح رواں اور پیش کار افرا دبلا تخصیص سیکولر اور سوشلسٹ نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ فتنہٴ پنجابیت کے محرکین میں فخر زماں، عبداللہ ملک، حمید اختر، طاہرہ مظہر علی خان، احمدبشیر، ڈاکٹر مبارک علی، عاصمہ جہانگیر ،احمد راہی، طارق فاروق، سردار مظہر اور ان کے دیگر حواری الحاد پرست اشتراکی ہیں۔ سندھ میں ممتاز بھٹو، رسول بخش پلیجو، الطاف حسین، ڈاکٹر قادر مگسی سب کٹر سوشلسٹ اور سیکولر لوگ ہیں۔ بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالحئ بلوچ، غوث بخش بزنجو، اکبر بگتی، محمود اچکزئی، رسول بخش مری وغیرہ معروف سوشلسٹ اور سیکولر لیڈر ہیں۔ صوبہ سرحد میں ولی خان، اجمل خٹک اور اے این پی کی ساری قیادت روس نواز ہے۔ تاج لنگاہ، زمان جعفری، مجاہد قزئی، رحیم بخش شاہین اور دیگر سرائیکی صوبہ کے پرچارک اپنی اشتراکی سوچ کی وجہ سے معروف ہیں۔
اپنے فلسفہ کے اعتبار سے مارکسزم یا کمیونزم انسانیت یا بین الاقوامیت کو فروغ دینے کی بات کرتا ہے۔ کمیونسٹ جہاں بھی ہو، وہ اپنے آپ کو'کامریڈ' کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ سابقہ سوویت یونین نے لسانی مرکزیت کو عملاً نافذ کیا۔ سنٹرل ایشیا کی مسلم جمہوریتوں میں بھی دفتری اور تعلیمی زبان روسی ہی تھی۔
۱۹۱۴ء میں جب جنگ ِعظیم اوّل شرو ع ہوئی تھی تو عالمی اشتراکی تنظیم سیکنڈ انٹرنیشنل کے ارکان میں نیشنلزم کے سوال پر زبردست اختلاف برپا ہوا تھا۔ بہت سے وہ سوشلسٹ جو اشتراکیوں کے بین الاقوامی محاذ پر مجتمع تھے، اپنی اپنی قوموں کومیدانِ جنگ میں کودتے دیکھ کرقوم پرستی کے جذبہ سے مغلوب ہوگئے اور انہوں نے جنگ میں اپنی قوم کا ساتھ دینا چاہا مگر کٹر مارکسسٹ ڈٹ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے اصول کے لئے جنگ کرنے اُٹھے ہیں جس کے لحاظ سے تمام قوموں کے سرمایہ دار ہمارے دشمن اور تمام قوموں کے مزدور ہمارے دوست ہیں۔ مگر سوویت قیادت کے دوہرے معیارات تھے۔ اس نے ترقی پذیر ممالک میں اشتراکی انقلاب کے لئے راہ ہموار کرنے کے لئے جن گروہوں کو فنانس کیا، انہیں حکمت ِعملی بھی وضع کرکے دی۔ اس حکمت ِعملی کے مطابق اسلامی ممالک میں لوگوں کو معاشی حقوق اور لسانی حقوق کے نام پر اشتعال دینے کے لئے جدوجہد کرنا تھا۔ پاکستان میں چونکہ بڑی اکثریت اسلام پر یقین رکھتی ہے،اسی لئے انہیں اسلام سے ہٹانے کے لئے لسانی عصبیت کوبطورِ ہتھیار کے استعمال کیا گیا۔ پاکستان کے سوشلسٹ یہاں سوشلزم کے بنیادی فلسفہ کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کے پاس سیاست کرنے کے لئے کوئی اور بنیاد نہیں ہے۔
پاکستان میں سیاست یا مذہب کے نام پر ہوسکتی ہے یا حب ُالوطنی کے نام پر۔ مذہب سے بغاوت ہی چونکہ ان کا مذہب ہے، اسی لئے مذہب کے نام پر وہ سیاست کر نہیں سکتے۔ حب الوطنی کے نام پر اگر وہ سیاست کریں گے تو روس، انڈیا یا کوئی بھی پاکستان دشمن ملک انہیں سرمایہ کیسے پہنچائے گا۔ تیسرا آپشن ان کے پاس قومیّتوں اور لسانی عصبیتوں کے نام پر سیاست کرنا ہی رہ جاتا ہے جس کاحتمی نتیجہ اسلام اور پاکستان کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کرنا ہے۔
۱۱۔ پنجابی کانفرنس کی علماء سے مخاصمت ... علماء کا سیاست میں تاریخی کردار :حدیث شریف میں ہے کہ "علماء، انبیاء کے وارث ہیں۔" پنجابی کانفرنس میں فخر زماں نے علماء کے متعلق بے حد توہین آمیز بیان دیتے ہوئے دریدہ د ہنی کی کہ"مولویوں کو ہم اس حد تک برداشت کرسکتے ہیں کہ وہ جمعرات کی روٹیاں کھائیں یا جنازے پڑھائیں"۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بھارتی ایجنٹ کوپنجابی زبان و ادب کی ترقی کے لئے منعقدہ کانفرنس میں علما کو اپنی زبان درازی کا تختہٴ مشق بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کی وجہ وہی ہے جو ہم مندرجہ بالا سطور میں بیان کرچکے ہیں۔ یعنی پنجابی زبان و ادب محض 'کور' (Cover) ہے۔ اس کانفرنس کا اصل ایجنڈا اسلام اور پاکستان کے خلا ف فضا کو ہموار کرنا ہے۔ مزید یہ کہ کوئی بھی ملحد اشتراکی اس طرح کے پلیٹ فارم پر علما کے خلاف ہرزہ سرائی کئے بغیر اپنی 'روشن خیالی' کا ڈھنڈورا نہیں پیٹ سکتا۔
ثالثا ًفخر زماں اگر اس طرح کی بڑھکیں اور للکارے نہ مارتا تو اس کانفرنس پر بھاری سرمایہ کاری کرنے والی این جی اوز اور دیگر پاکستان دشمن عناصر کے قلوبِ باطلہ کو تسکین کیسے پہنچا سکتا۔ پاکستان میں این جی اوز علما اور مجاہدین کو اپنے لئے شدید خطرہ محسوس کرتی ہیں۔ آئے دن وہ اپنی حواس باختگی کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے فخر زماں کے اعصاب بھی علماء کی بڑھتی ہوئی قوت اور پذیرائی کی وجہ سے خاصے متاثر ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنی مریضانہ دہشت زدگی کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکا۔ علما کو کسی خاص حد تک 'برداشت' کرنے کا معاملہ فخرزماں جیسے اخلاقی بزدلوں اور ملحدوں کے انتخاب کا معاملہ نہیں ہے۔ علماء کو کسی مذہب دشمن سے 'برداشت' کا سر ٹیفکیٹ لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ فخر زماں میں اگر انسانی شرافت باقی ہوتی تو وہ اس اوباشانہ لہجے میں علماء کو مخاطب کبھی نہ کرتا۔ وہ جس بددماغی کا شکار ہے، اسے اپنی اوقات میں بھی بھول جاتی ہے۔ اسے یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے ۔

دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ!

علماء کو جمعرات کی روٹیوں اور جنازہ تک محدود دیکھنے کا متمنی یہ کوتاہ فکر دانش باز اسلامی تاریخ سے بھی کورا دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ اسلام کا کوئی بھی دور ایسا نہیں گذرا جب علماے دین محض ان اُمور تک محدود رہے ہوں جن کا تذکرہ فخرزماں نے کیاہے۔ ڈاکٹر مبارک علی جیسے اشتراکی موٴرخ نے بھی اپنی کتاب 'علماء اور سیاست' میں مختلف ادوار میں علما کی حکومتی عہدوں پر تعیناتی اور ان کے اثرورسوخ کا اعتراف کیا ہے۔ اس کتاب کا ایک باب 'علماء کا عروج' کے نام سے ہے جس میں مبارک علی نے عباسی دور میں علما کی اہمیت کوبیان کیا ہے۔ وہ اپنی کتاب کے صفحہ ۲۱ پرلکھتے ہیں
"نئی صوبائی حکومتوں نے علماء کو ریاست کے ڈھانچہ میں ضم کرلیا اوران کے لئے خاص مذہبی وعدالتی عہدے مقرر کئے گئے جن میں قاضی، مفتی اور صدر شامل تھے۔ اس کے علاوہ انہیں ٹیکس جمع کرنے ، سزائیں دینے اور ملک میں امن و امان قائم کرنے کے فرائض بھی سونپے گئے۔
چنانچہ اس عہد میں یعنی گیارہویں وبارہویں صدیوں میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ جن میں علماء شہروں اور صوبوں کے گورنر اور اعلیٰ عہدیدار نظر آتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ مذہبی امور کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیاسی اقتدار بھی حاصل کرلیا تھا او رحکومت کا ایک حصہ بن گئے تھے۔"
عثمانی سلطنت میں علماء کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے مبار ک علی لکھتے ہیں: (صفحہ ۳۹)
"عثمانی سلطنت جسے عثمان نے (۱۲۸۱ء سے ۱۳۲۴ء) قائم کیا اور جس کی شان و شوکت سلیمان قانونی (۱۵۵۰ء سے ۱۵۵۶ء) تک مستحکم ہوگئی۔ اس سلطنت کے ڈھانچہ میں علماء کا ایک متعین کردار مقرر کیا گیا۔"
برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی حکومت میں علماء کی شمولیت کا تذکرہ وہ یوں کرتے ہیں:
"ہندوستان میں جب ترکوں نے سلطنت قائم کی تو یہاں بھی انہوں نے علماء کو ریاست میں اعلیٰ عہدے دے کر انہیں اس کا حصہ بنا دیا۔ ان عہدوں میں صدر الصدور، قاضی القضاة اور شیخ الاسلام کے عہدے قابل ذکر تھے۔" (صفحہ ۴۷) مزید غور فرمائیے:
"اکبر جب ۱۵۵۶ء میں تخت نشین ہوا ہے تو اسے بڑی حد تک سوری سلطنت کا ریاستی ڈھانچہ ملا اور اس ریاست کے اہم اراکین میں علماء شامل تھے جن میں مخدوم الملک عبداللہ سلطان پوری، ملاعبدالنبی شامل تھے۔ اکبر اپنی جوانی میں سخت مذہبی تھا یہاں تک کہ مسجد میں خود جھاڑو دیتا تھا اور علماء کا قدردان تھا۔ خصوصیت سے ان دونوں علماء کے مشوروں کو تسلیم کرتا تھا اور اس لئے سلطنت کے معاملات میں ان کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہوگیا تھا، یہاں تک کہ وہ بادشاہ کو اس کی غیر شرعی حرکات پر سردربار ٹوکتے تھے...
ملا عبدالنبی صدر الصدور کے عہدے پر فائز تھے۔ یہ عہدہ اس وقت انتظامیہ کے اہم عہدوں میں سے ایک تھا او ریہ ملک میں سب سے اعلیٰ فقہی اور قانونی اتھارٹی تھا اور اس لحاظ سے تمام عدالتی نظام اس کے ماتحت ہواکرتا تھا۔ تمام قاضی اور مفتی اس کے ماتحت ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ وقف کی زمینوں جائیدادوں اور وظیفوں کا بھی انچارج ہوا کرتا تھا۔" (صفحہ ۵۳ اور ۵۹)
فخر زماں کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹر مبارک علی کی یہ کتاب ایک دفعہ پھر دیکھیں۔ برصغیر میں انگریزوں نے مسٹر اور ملا کی تفریق پیدا کی۔ سیکولر طبقہ ریاست اور چرچ کے معاملات میں علیحدگی پر یقین رکھتا ہے۔ اس لئے وہ علما کی ریاستی معاملات میں شرکت کے سخت خلاف ہے۔ جدید دور میں طالبان نے ثابت کیا ہے کہ علماء جب ضرورت پڑے، ریاستی ذمہ داریاں نبھانے کے اہل ہیں۔ فخر زماں کے مذکورہ توہین آمیز بیان کے خلاف ردّعمل کرتے ہوئے بعض علما نے صحیح مطالبہ کیا ہے کہ فخرزماں جب مرے تو کوئی عالم دین اس کا جنازہ نہ پڑھائے، بلکہ اس کی لاش کی تجہیزو تکفین ہندوانہ رسومات کے مطابق کی جائے جس کو وہ پسند کرتا ہے۔
۱۲۔ کیا قرآنِ کریم کی تلاوت تنگ نظری اور ترقی دشمنی کی علامت ہے؟ (نعوذ باللہ) عالمی پنجابی کانفرنس کے کسی بھی سیشن کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے نہ ہوا۔ اس پر حاضرین میں سے ایک صاحب نے کھڑے ہو کر منتظمین کی توجہ اس 'فروگذاشت'کی جانب مبذول کرائی۔ اتفاق سے اس وقت سٹیج پر اشتراکی حمیداختر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ حمیداختر جو دیگر سیکولر افراد کی طرح اظہارِ رائے کے بزعم خویش چمپئن بنے پھرتے ہیں، کو ان صاحب کی یہ 'جسارت' بے حد ناگوار گزری، انہوں نے فوراً ڈائس پر آکر وضاحت کی کہ "پاکستان تلاوت کے لئے نہیں بلکہ ترقی کے لئے بنا تھا۔ قائداعظم کی زندگی میں کبھی بھی قانون سازاسمبلی کا اجلاس تلاوتِ قرآن مجید سے شروع نہ ہوا۔"
ہمارے خیال میں کچھ 'قصور' اس سادہ لوح شخص کا بھی تھا جو حمیداختر ، فخر زماں اور کانفرنس کے دیگر شرکا کو بھی عام مسلمانوں کی طرح کا انسان سمجھتا تھا اور اسی کانفرنس کو بھی عام طرز کی کانفرنس خیال کرتا تھا۔ وہ شاید اس کانفرنس کو واقعی 'پنجابی کانفرنس' سمجھ کر شریک ہوا ہوگا جو اس کے خیال میں صوفیا کے کلام کی ترویج کے مقصد کے لئے منعقد کی گئی تھی۔ اس سادہ لوح آدمی کو بعد میں ذاتی مشاہدے کی بنا پر بھی یہ علم ہوگیا ہوگا کہ یہ درحقیقت 'عالمی شرابی کانفرنس' تھی۔ اس کانفرنس میں مجنونانہ شراب نوشی، بے ہودہ ہلڑ بازی، مخلوط رقص و سرود اور جنسی ہوسناکی کی تسکین کے جو پروگرام پیش کئے گئے، ایسی صورت میں منتظمین کا دماغ اگر خراب ہوتا تو تب ہی اس کا آغاز تلاوتِ کلام سے کرتے۔ جس کانفرنس کے سامعین کی اکثریت شراب کے نشے میں ٹن ہو وہاں تلاوتِ کلام پاک کی توقع رکھنا محض سادہ لوحی ہی قرار پائے گی۔
حمیداختر کی جوابی وضاحت نامعقولیت اور لغویت کی بھونڈی مثال ہے۔ اگر ان میں ا خلاقی جرأت ہوتی تو جواباً کہہ سکتے تھے کہ اس مجلس میں مقدس کلام پاک کی تلاوت کرنا مجلس کے ناپاک ماحول کی وجہ سے مناسب نہیں ہے۔ مگر وہ بیچ میں 'ترقی' اور قائداعظم کو لے آئے۔ نجانے ترقی کے متعلق موصوف کا نظریہ کیا ہے؟ وہ کون سی ترقی تھی جس کا ظہور دو تین منٹ کی تلاوت کی وجہ سے نہ ہوپاتا۔امریکی سابق صدر بل کلنٹن تو دورِ صدارت میں بارہا اپنے گناہ بخشوانے چرچ حاضری دیتے رہے اور جب مونیکا سیکنڈل آیا تو چرچ میں ان کی آمدورفت بھی بڑھ گئی، ان کو اپنی اخلاقی پستی کی وجہ سے کئی دفعہ پادری صاحب سے جھاڑیں بھی کھانی پڑیں۔ امریکہ کے موجودہ صدر ولیم جارج بش اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلسل چرچ یاترا کرتے رہے۔ ان کے بارے میں خبر شائع ہوئی کہ وہ روزانہ اپنے دن کا آغاز بائبل کی تلاوت سے ہی کرتے ہیں۔ مگر ہمارے بدیشی اشتراکی تلاوت قرآن مجید کو 'ترقی' کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
قرآن مجید تو تسخیر کائنات کا درس دیتا ہے۔ اسی قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں میں ابن سینا، ابوبکر رازی، ابن ہیثم، جابر بن حیان، ابن بیطار، ابن رشہ، یعقوبی اور فارابی جیسے سائنسدان اور فلاسفر پیدا ہوئے جن کے علمی کارناموں پر انسانیت ہمیشہ ناز کرتی رہے گی اور آج محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی تمام کانفرنسز کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہی کرایا کرتے ہیں۔ پنجابی کانفرنس کے شرکا میں سے کوئی ایک بھی علمی اعتبار سے ان کے پاسنگ میں بھی نہیں ہے، مگر ان کی ساری ترقی کا مدار مذہب کی مخالفت پر ہے۔
حمیداختر اخلاقی بزدلی کا شکار ہیں ورنہ وہ ضرور اعتراف کرتے کہ تلاوتِ قرآن مجید سے ان کی ترقی ٴالحاد میں کمی واقع ہوجائے گی۔ تلاوت سے قومی ترقی پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ سیکولر دانشور ہمیشہ اپنے اِلحادی نظریات کی تائید میں قائداعظم کی ذات کوبیچ میں لے آتے ہیں۔ حمیداختر نے جس انداز میں قائداعظم کے نام کا استحصال کیا، وہ قابل مذمت ہے۔ وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہمحمد علی جناح بھی آج کل کے ملحد اشتراکیوں کی طرح اسلام اور قرآن مجید سے بیر رکھتے تھے۔ حالانکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ جناحکی زیر صدارت پارلیمنٹ کے ایک دو اجلاس تلاوتِ قرآن مجید کے بغیر شروع کئے گئے ہوں، مگر یہ کہنا کہ ان کی زندگی میں کوئی بھی اجلاس تلاوت سے شروع نہ ہوا تھا، یقینا قائداعظم پر بہتان تراشی اور دروغ گوئی کے مترادف ہے۔
قائداعظم کے سوانح نگار سٹینلے لین پورٹ (Stenlay Lane Port) نے اپنی معروف کتاب "جناح آف پاکستان" میں کئی ایک مقامات پر بیان کیا ہے کہ قائداعظم کی زیرصدارت مسلم لیگ کا اجلاس قرآنِ پاک کی تلاوت سے شروع ہوا۔ راقم کی یادداشت اگر اس کا ساتھ دے رہی ہے، تو اس کے خیال میں اس طرح کا ایک سالانہ اجلاس ۱۹۳۷ء میں ہوا تھا، ۱۹۴۰ء میں قرار دادِ لاہور جس اجلاس میں پیش کی گئی، اس میں بھی تلاوتِ قرآن مجید کی گئی تھی۔ محمد علی جناحکے ڈرائیور محمد حنیف کا بیان ہے کہ اس نے آپ کواکثر رات کو سونے سے پہلے نماز پڑھتے دیکھا۔ قائداعظم تو قرآن مجید کومسلمانوں کی ڈوبتی ہوئی کشتی کے لئے لنگر قرار دیتے تھے مگر آج کے ساقط الاعتبار اشتراکی دانشور اپنی قرآن دشمنی کی تائید قائداعظم کے طرزِ عمل سے ڈھونڈنے کی مجرمانہ کاوش میں مبتلا ہیں۔ قائد اعظم عالم دین نہیں تھے مگر وہ ایسے 'ترقی پسند' بھی نہیں تھے جو قرآن مجید کی تلاوت کو ملکی ترقی کی راہ میں حائل سمجھتے ہوں۔
۱۳۔ اردو زبان سے دوری قومی اور ملی مفاد میں نہیں!اُردو زبان کو محض ایک خطے کی زبان نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کے قابل فخر تہذیبی کارناموں کا حسین مرکب ہے۔ یہ محض ایک بولی نہیں بلکہ چلتی پھرتی تہذیب ہے۔ اُردو ہندوستانی مسلمانوں کے منفرد تہذیب، مذہبی اور سماجی تشخص کی آئینہ دار ہے۔ مسلمانوں نے خونِ دل سے اس کی آبیاری کی ہے۔ اسلام، اسلامی تاریخ، قرآن و حدیث ، فنون و علوم، شاعری کا ایک وسیع ذخیرہ اس میں موجود ہے۔ ایک محقق کے مطابق اسلام کے بارے میں اس وقت سب سے زیادہ کتابیں اردو زبان میں ہی موجود ہیں۔ اردو زبان کی انہی خصوصیات کی وجہ سے ہندوؤں نے اس کے خلاف ہمیشہ محاذ کھولے رکھا۔ مسلمانوں کا اقتدار ختم ہونے کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں پہلا بڑا تنازعہ اُردو ہندی جھگڑا تھا جو ۱۸۶۷ء میں رونما ہوا۔
عربی، فارسی، پنجابی، ترکی اور دیگر مقامی زبانوں کی خوبصورت تراکیب، تشبیہات واستعارات، تلمیحات و مصطلحات، دل پذیر روز مرہ و محاورہ جات اور نرمیلے آہنگ و لب و لہجہ اور نستعلیق تلفظ کی بنا پر اردو زبان کو دلی، لکھنوٴ، یوپی اور دیگر علاقوں میں لسانی عروج حاصل ہوا۔ یہ زبان اپنے اَوصاف و محاسن کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند میں وہی مقام رکھتی ہے جو یورپ میں فرانسیسی زبان کو حاصل ہے۔ بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اس نے مختلف علاقوں کی زبانوں کے الفاظ کا اس قدر وسیع ذخیرہ اپنے اندر سمولیا ہے کہ یہ پاک و ہند میں ہر جگہ سمجھی جاتی ہے۔ اس قدر جامع الصفات زبان کی مخالفت کرنے والے لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
بھارت میں اردو زبان کے خاتمے کی حکومتی سطح پر کوشش کی جارہی ہے۔ حتیٰ کہ یوپی کے تعلیمی اداروں میں بھی ہندی کو ذریعہ تعلیم بنا دیا گیا ہے۔ اب اردو زبان کا مستقبل پاکستان سے ہی وابستہ ہے۔ اس کا آغاز بھی پنجاب سے ہوا تھا، اب اس کے مستقبل میں ترقی کے امکانات بھی سب سے زیادہ پنجاب ہی میں روشن ہیں۔ انگریزی استعمار اور اس کی روحانی اولاد نے اردو کا عربی اور فارسی زبان و ادب سے شرعی رشتہ قائم نہیں رہنے دیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اردو زبان کی مخالفت کی بجائے ایک دفعہ پھر اس کی زرخیزی اور ترقی کے لئے تخلیقی کام کریں، اس کا رشتہ ایک دفعہ پھر اس کے بڑے سرچشموں عربی، فارسی اور پنجابی سے جوڑیں۔ پاکستان کی مقامی زبانوں کے ہزاروں ایسے الفاظ ہیں جن کو اردو میں شامل کیا جاسکتاہے اور اردو میں جس قدر وسعت ہے وہ ان نئے الفاظ کو بڑی آسانی سے اپنے اندر سمو سکتی ہے۔ ہمارے پنجابی کے دانشور اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم بچوں کے ساتھ اردو میں بات کیوں کرتے ہیں۔ بعض افراد شاید اس پر ناک بھوں چڑھائیں، مگر راقم الحروف کے خیال میں اگر پنجاب کے تمام لوگ ہی اردو کو اختیار کرلیں، تو ان کا لسانی نقصان ہرگز نہ ہوگا۔ اردو اور پنجابی دونوں ہی مسلمانوں کی زبانیں ہیں اور آپس میں بہت حد تک ملتی جلتی ہیں۔ مگر اردو نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ زبان ہے۔ اس میں جس قدر ترقی اب تک ہوچکی ہے، پنجابی کو اس سطح پر لانے کے لئے سو سال سے بھی زیادہ درکار ہیں۔جس طرح مصر،مراکش، الجزائر کے لوگوں نے عربی زبان کو اختیا رکرکے نقصان کا سودا نہیں کیا تھا، اس طرح اہل پنجاب میں اُردو زبان، جو کہ فی الواقع ان کی اپنی زبان ہے، کو اپنا کر کسی گھاٹے کا سودا نہیں کریں گے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ راقم الحروف کی مادری زبان اردو نہیں ہے، اس لئے یہ تجویز کسی ذاتی لسانی تعصب کے زیر اثر پیش نہیں کی جارہی۔
۱۴۔ اشتراک کی بات کرنے والے پنجابی سکھ اس سیاسی تفریق کے خود ذمہ دار ہیں: پنجابی کانفرنس کے مقررین نے مغربی اور مشرقی پنجاب کے درمیان دیوار قائم ہوجانے کا بہت ماتم کیا۔ ایک خاتون مقرر نے تو راوی اور ستلج کے خشک ہونے کا نوحہ بھی پڑھا۔ بعض نے کہا دیوارِ برلن گرسکتی ہے تو پنجاب کی تقسیم کی دیوار کیوں نہیں گرائی جاسکتی۔ پاکستان دشمنی پر مبنی اس مطالبے کی پاکستانی اخبارات میں بجا طور پر شدید مذمت کی گئی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پنجاب کو کانگریس اور اکالی دل کے شدید اصرار پر تقسیم کیا گیا، مسلم لیگ نے اس کی شدید مزاحمت کی۔ قائداعظم نے تقسیم شدہ پنجاب کو 'دیمک زدہ' تک کہا۔ انہوں نے سکھوں کو پنجاب میں ہر طرح کے حقوق کی یقین دہانی کرائی مگر انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی 'روزنِ دیوار سے' میں اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ایک پنجاب کی بات کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں خود بھارتی پنجابیوں نے اس ضمن میں قائداعظم کی پیش کش ردّ کردی تھی۔ اس کے بعد بھارتی پنجاب کی سرحدیں بھی سکڑنا شروع ہوئیں اور اسے کئی حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ جہاں تک پاکستانی اوربھارتی پنجابیوں کے ایک ہونے کا تعلق ہے، اس ضمن میں عملی صورتحال یہ ہے کہ لاہور سے دلی جانے والی بس کے مسافروں کو مشرقی پنجاب کے کسی شہر میں بس سے اُترنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ پاکستانی پنجابیوں بلکہ پاکستانیوں کو بھارتی پنجاب کے کسی شہر کا ویزا نہیں دیا جاتا اور اگر کسی 'خوش قسمت' کو یہ ویزا مل جائے تو بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ اس پر اس طرح کڑی نظر رکھتے ہیں جیسے وہ کوئی دہشت گرد ہو۔ پاکستان صدیوں کے تاریخی عمل سے وجود میں آیا ہے جو تاریخ کا پہیہ اُلٹا پھیرنا چاہتے ہیں وہ ترقی پسند نہیں رِجعت پسند ہیں۔" (جنگ: ۱۸/ اپریل)
پنجاب کی تقسیم کو دیوارِ برلن قرار دینا قیاس مع الفارق ہے۔ دیوارِ برلن تو اینٹ روڑے کی بنی ہوئی مصنوعی اور عارضی دیوار تھی جو کہ سوویت یونین نے مسلط کی تھی۔ مگر مشرقی اور مغربی پنجاب کے درمیان نظریاتی دیوار حائل ہے۔ جو قابل مشاہدہ نہیں ہے مگر اسے توڑا نہیں جاسکتا۔ سکھ اگر آج اپنی ماضی کی حماقتوں کی سزا بھگت رہے ہیں تو اس میں پاکستان کا کیا قصور ہے۔ سکھ لیڈر مشرقی پنجاب کی تقسیم کو تونہ روک سکے مگر وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جغرافیائی سرحدوں کو گرانے کا شرانگیز مطالبہ ضرور کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستانی پنجاب سے کانفرنس میں شریک بعض مقررین نے بھی 'دیوار یں گرانے'کی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ روزنامہ نوائے وقت، انصاف، اور دیگر اخبارات نے اپنے اداریوں میں اس اشتعال انگیزی کا سخت الفاظ میں نوٹس لیا۔
۱۵۔ پنچابی کانفرنس، اصل ادیبوں کو نظر انداز کرنے کی سازش: پنجابی کانفرنس میں جن 'دانشوروں'کو ایوارڈ دیئے گئے، ان کی پنجابی زبان و ادب کے لئے خدمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کانفرنس میں شریک ہونے والے خواتین و حضرات کی کثیر تعداد ایسی تھی جو سرے سے ادیب کہلانے کے مستحق ہی نہیں ہیں۔ طاہرہ مظہر علی خان اور عاصمہ جہانگیر کونہ جانے پنجابی زبان و ادب کی کس'خدمت'کے نتیجے میں ایوارڈسے نوازا گیا۔ ۱۶/ اپریل ۲۰۰۱ء کے روزنامہ نوائے وقت میں نمایاں سرخی کے ساتھ یہ رپورٹ شائع ہوئی کہ
"پنجابی کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کے بیشتر اصل قلم کار شریک نہیں ہوئے۔ شرکا میں سے زیادہ تر صاحب ِتصنیف نہیں۔ بیشتر نوجوان ہیں جن کی ادبی حیثیت مسلمہ نہیں۔ بزعم خود دانشور قرار دینے والے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ ماں بولی کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ بھارت سے آنے ولے وفد میں نوجوان لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ یہ نوجوان لڑکیاں پاکستانی نوجوانوں کی نگاہوں کا مرکزبنی رہی ہیں۔"
اس کانفرنس کا پردھان فخرزماں بھی محض اوسط درجے کا پنجابی شاعر ہے۔ عطاء الحق قاسمی لکھتے ہیں:
"پاکستانی پنجاب کے ان نوے فیصد ادیبوں نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا جن کی ساری عمر پنجابی زبان اور ادب کے فروغ کی جنگ لڑتے گزری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجابی قومیت بلکہ قوم کا نعرہ وہ اَفراد لگاتے ہیں جواپنے گھروں میں تو پنجابی میں بات نہیں کرنے دیتے۔" (جنگ ۱۸/ اپریل)
ہفت روزہ 'تکبیر' نے بھی رپورٹ کیا:
"اس کانفرنس میں پنجابی زبان کے ماہرین یا حقیقی مصنّفین نے شرکت نہیں کی بلکہ بھارت سے جو لوگ آئے ہیں ان میں ڈاکٹرز، انگریزی اور سنسکرت کے پروفیسرز، تاجر، اداکار خواتین کے علاوہ چندی گڑھ آرٹس کونسل کے شعبہٴ ڈانس کی طالبات شامل ہیں۔" (تکبیر، ۲۵/اپریل)
پاکستانی سفارت خانہ اس معاملے میں غفلت کا مرتکب ہوا ہے۔ آخر ان لوگوں کو ویزے کیوں جاری کئے گئے جن کا پنجابی زبان و ادب سے کوئی تعلق نہ تھا۔ نوجوان بھارتی رقاصاؤں کی اس قدر کثیر تعداد کی آمد پر بعض محب ِوطن حلقوں نے شکوک کااظہار کیا ہے کہ انہیں باقاعدہ جاسو سی کے لئے پاکستان بھیجا گیا ہے۔
۱۶۔ پنجابی کانفرنس کا واحد ایجنڈا وطن اور اسلام دشمنی ہے ! عالمی پنجابی کانفرنس میں نظریہٴ پاکستان، تقسیم اور جہاد کشمیر کے خلاف کی جانے والی تقریروں پر پنجابی ادبی تنظیموں نے شدید ردّعمل کا اظہا رکیا۔ پنجابی ادبی پریوار، ادارہ پنجابی لکھاریاں، پنجابی ادبی بورڈ نے پنجابی کانفرنس کے انعقاد کو پاکستان کے خلاف گہری سازش قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کانفرنس کے منتظمین کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرکے کانفرنس کے انعقاد پر اٹھنے والے اخراجات کی چھان بین کی جائے۔ (نوائے وقت: ۱۶/ اپریل)
پنجابی زبان کے نامور محقق اور استاد ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے پنجابی کانفرنس کے متعلق اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ
"پنجاب اور پنجابی کے سلسلہ میں اس طرح کی آوازیں ۱۹۶۱ء ، ۱۹۶۲ء میں بھی اٹھی تھیں اور نظریہٴ پاکستان کے خلاف تصورات کی بنیاد پر رائٹرز گلڈ کی پنجابی شاخ کو ختم کردیا گیا تھا۔ اب یہ آواز ایسے وقت میں بلند کی جارہی ہے جب سندھ میں علیحدگی پسند عناصر سرگرمِ عمل ہورہے ہیں۔ ان حالات میں محب وطن حلقوں کو آگے آنا چاہئے۔" (حوالہ، ایضاً)
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر شہباز ملک نے کہا کہ
"پنجابی زبان کو نظریہٴ پاکستان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ا س پنجابی کانفرنس کو کسی طرح بھی نمائندہ کانفرنس قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کانفرنس کی حیثیت نام نہاد ترقی پسندوں کے ناکام شعر کے سوا کچھ نہیں۔"
پنجابی کے دانشور اور کالم نگار سید سبط الحسن ضیغم نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ
"عالمی پنجابی کانفرنس انڈین سپانسرڈ پروگرام ہے۔ اس کے انعقاد سے پنجابی زبان و ادب کی کوئی خدمت نہیں کی جارہی۔" (حوالہ ایضاً) جناب عطاء الحق قاسمی کے بقول:
"یہ 'برگر فیملی' کے لوگ ہیں اور 'ٹریک ٹو' پالیسی کے تحت خدمات انجام دے رہے ہیں"
پنجابی زبان و ادب کے مذکورہ بالا جید دانشوروں کے خیالات اہل پنجاب کے دل کی آواز ہیں، مارکسٹ دانشوروں کی ایک پاکستان دشمن متحرک اقلیت کو پنجاب کی نمائندگی کا کوئی حق حاصل نہیں ، نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ایسے ملک دشمن عناصر کی طرف سے منعقد کی گئی کانفرنس کو پاکستانی ٹیلی ویژن نے بھرپور 'کوریج' دی۔ ہمارے انگریزی اخبارات تو اب تک اس پر مسلسل مضامین شائع کر رہے ہیں۔
۱۷۔ محب وطن تنظیموں کی طرف سے کانفرنس کی چھان بین کا مطالبہ:روزنامہ 'انصاف'کی رپورٹ کے مطابق ملک کی ۱۲ مذہبی جماعتوں نے عالمی پنجابی کانفرنس کو ملکی سا لمیت، اسلام، نظریہٴ پاکستان اور علما کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے منتظمین کے خلاف غداری اور اسلام دشمنی کا مقدمہ دائر کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی۔ علماء نے اپنے احتجاجی بیان میں کہا کہ پنجابیت کو فروغ دینے والے عناصر نظریہٴ پاکستان، دو قومی نظریہ، قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے راہنما جناب لیاقت بلوچ نے کہا کہ پنجابی کانفرنس نے فتنہ برپا کردیا ہے جسے دینی جماعتیں کامیاب نہیں ہونے دیں گی، مولانا معین الدین لکھوی نے کہا کہ ہمیں متحد ہو کر اسلام اور وطن کے خلاف اندرونی و بیرونی عناصر کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ علما ء نے کہا کہ بھارتی بالادستی قائم کرنے کیلئے پاکستان میں را کے ایجنٹ پیدا ہوگئے ہیں۔ بھارت کی ثقافت و تہذیب اسلام اور وطن عزیز کے لئے زہر قاتل ہے۔ (۲۰/ اپریل)
علماء اور دینی جماعتوں کی طرف سے پنجابیت کے فتنہ کا بروقت نوٹس لینا قابل تحسین امر ہے، مگر بات محض اخباری بیانات تک محدودنہیں رہنی چاہئے۔ لاہور شہر میں چار دن تک پنجابی کانفرنس والوں نے ہنگامہ برپا کئے رکھا۔دینی سیاسی جماعتوں کو ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں کے خلاف دوسرے دن ہی مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ ان جماعتوں کو چاہئے تھا کہ راست اقدام اٹھاتے ہوئے اس 'شرابی کانفرنس' کو ناکام بنا دیتے۔ فخر زماں جیسے اشتراکی بالشتیے کو بروقت اس کی اوقات سمجھا دیتے جو ہتھیار اٹھا کر مقابلہ کرنے کی خوامخواہ بدمعاشانہ بڑھکیں لگا رہا تھا۔
لسانی عصبیت کو فروغ دینے والی اس کانفرنس کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے اسلامی جماعتیں محب ِوطن پنجابی ادیبوں کے تعاون سے لاہور شہر میں قومی سطح کی ایک عظیم الشان کانفرنس کا اہتمام کریں۔ ان اخلاقی بزدلوں کی نقل و حرکت اور چلت پھرت کو مسلسل نگاہ میں رکھیں اور ان کی شرانگیزی کی سرکوبی کے لئے بروقت اقدام اٹھانے کی منصوبہ بندی کریں۔
۱۸۔ معروف قانون دان ایم ڈی طاہر نے پنجابی کانفرنس کے انعقاد کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں رِٹ دائر کی ہے جس میں اس نے موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت قومی نظریے سے منحرف ہوگئی ہے۔ رِٹ میں اس واقعہ کی انکوائری کروا کر ذمہ داروں کے خلاف سزا سنانے کی درخواست کی گئی ہے۔ درخواست گزار نے کہاکہ ۱۹۴۷ء میں اغوا کی گئی پچاس ہزار عورتیں اب بھی سکھوں کے گھروں میں بس رہی ہیں جنہیں سکھ ۱۹۴۷ء میں زبردستی اٹھاکر لے گئے تھے۔ لاکھوں مسلمان عورتوں کو برہنہ کرکے انسانیت سوز مظالم کانشانہ بنایا گیا۔ پنجابی کانفرنس کے ذریعے پنجاب کو ملک کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں اُبھارنے اور لڑانے کی مکروہ سازش کی گئی ہے۔حکومت ہندوؤں کی مخالفت برائے مخالفت میں مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے والے سکھوں سے پیار کی پینگیں بڑھانے کے چکر میں بنیادی قومی نظریے سے انحراف کی مرتکب ہوئی ہے۔ (انصاف: ۲۰/ اپریل) نجانے اس رِٹ کا انجام کیا ہوگا، مگر درخواست گزار نے جن اُمور کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اس سے پہلے تفصیل سے سکھوں کی مسلمانوں سے تاریخی دشمنی کاتذکرہ کرچکے ہیں۔
۱۹۔ کانفرنس کے ہوشربا اخراجات میں عالمی اداروں اور بھارتی حکومت کی مالی امداد ، چہ معنی دارد؟ پنجابی کانفرنس کے انتظامات میں پاک انڈیا فرینڈ شپ فورم، انسانی حقوق کمیشن اور دیگر این جی اوز نے بے حد سرگرمی دکھائی۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق مندرجہ بالا این جی اوز نے اس کانفرنس کے لئے بھاری فنڈز بھی مہیا کئے۔ ورلڈ پنجابی فاؤنڈیشن کے چیئرمین بھارت کے مرکزی وزیر سردار سکھ دیو سنگھ ہیں۔ ان کی وساطت سے کانفرنس کے انتظامات کے لئے ۲۵ لاکھ روپے اور ورلڈ پنجابی فاؤنڈیشن کینیڈا کے سردار سنتوش سنگھ مندیر نے ۱۰ لاکھ روپے مہیا کئے ہیں۔ یہ انکشاف چندی گڑھ آرٹس کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ہرچرن سنگھ نے کیا۔ (تکبیر، نوائے وقت)
مختلف عالیشان ہوٹلوں میں تقریباً ۲۰۰ کمرے بک کرائے گئے، ان میں سے ایک کمرے کا کرایہ ۲۵۰۰ سے ۷۰۰۰ تھا۔ ایک تخمینہ کے مطابق کانفرنس پر ۹۰ لاکھ کے لگ بھگ خرچہ اٹھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ این جی اوز کو پنجابی زبان و ادب کی ترقی میں آخر کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ ابھی چار ماہ پہلے چندی گڑھ میں ایک پنجابی کانفرنس ہوچکی تھی تو صرف چار ماہ کے بعد لاہور میں چوتھی عالمی پنجابی کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت کیونکر پیش آگئی۔ کانفرنس سے دو روز قبل طاہرہ مظہر علی خان نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیاکہ پنجابی کانفرنس خطے میں قیامِ امن کی بنیا دبنے گی۔
یہ ذہن نشین رہے کہ گذشتہ ایک سال سے این جی اوز کا 'امن مشن' جاری ہے۔ نت نئے وفود آجارہے ہیں۔ ان کا ایجنڈا یہ ہے کہ بھارت کی شرائط پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان پر دباؤ ڈالاجائے۔ ا س کانفرنس کا خفیہ ایجنڈا یہی تھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں لسانی عصبیت کا فساد کھڑا کرکے پاکستان کو عدمِ استحکام کاشکار کیا جائے تاکہ وہ انڈیا کے مقابلے میں جرأت مندانہ طریقے سے کھڑا ہونے کے قابل نہ رہ سکے۔ ا س طرح کی کانفرنسوں سے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان او ربھارت کے 'دانشور' آپس میں گھل مل گئے ہیں تاکہ کشمیری مجاہدین کے حوصلے پست ہوجائیں۔ انہیں پاکستان کی اخلاقی اور عملی امداد پر سب سے زیادہ بھروسہ ہے۔ اگر پاکستان میں مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر اس طرح 'دوستی اور امن' کی مصنوعی فضا قائم کی جائے گی تو کشمیری یہ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ نفسیاتی سرد جنگ کا بے حد خطرناک ہتھیار ہے جو بھارت نہایت چالاکی سے جہادِ کشمیر کو ناکام بنانے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ آخر بھارت کے ایک مرکزی وزیر کو اس کانفرنس کے لئے ۲۵ لاکھ روپے مہیا کرنے کی ضرورت کیا تھی۔بھارت نے دو قومی نظریہ کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ دونوں ملکوں کے پنجابیوں کے درمیان لسانی اشتراک کا فسو ں کھڑا کرکے بھارت بالواسطہ طور پر دو قومی نظریہ کی بنیادیں ہلا دینا چاہتا ہے۔ اگر پاکستان کی نظریاتی اساس متزلزل کرنے میں بھارت کامیاب ہوجاتا ہے (خاکم بدہن) تو پھر پاکستان کو معاشی عدم استحکام کا شکار کرنا نہایت آسان امر ہوگا۔ ان ساری تفصیلات کو جمع کرنے اور ان کا معروضی تجزیہ کرنے کے بعد اس کا ایک ہی منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ پنجابی زبان و ادب کے نام پر منعقد کی جانے والی عالمی پنجابی کانفرنس بلاشبہ وطن عزیز پاکستان کی سا لمیت، نظریہٴ پاکستان اور اسلام کے خلاف ایک گھناؤنی سازش تھی۔
آخری گذارش: مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی کے ان فکر انگیز الفاظ پر اپنی بات ختم کرنے کو جی چاہتا ہے جوانہوں نے وطنی قومیت کے علمبردار مسلمانوں کے متعلق ادا کئے تھے :
"ان نادانوں نے نہ اپنی تہذیب کو سمجھا ہے نہ مغربی تہذیب کو۔ اصول اور حقائق ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ وہ محض سطح بین ہیں اور سطح پر جو نقوش ان کو زیادہ نمایاں اور زیادہ خوش رنگ نظر آتے ہیں، انہی پر لوٹ پوٹ ہونے لگتے ہیں۔ ان کو خبر نہیں کہ جو چیز مغربی قومیت کے لئے آبِ حیات ہے، وہی چیز اسلامی قومیت کیلئے زہر ہے جس طرح خدا نے ایک سینے میں دو قلب نہیں رکھے، اسی طرح ایک قلب میں دو قومیّتوں کے متضاد اور متصادم جذبات کو جمع کرنے کی گنجائش بھی نہیں رکھی ہے۔" (مسئلہ قومیت، ص۳۴)
۲۴/مارچ ۱۹۴۸ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں قائداعظم نے طلبہ کو صوبائی تعصب پھیلانے والوں کے مکروہ عزائم سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا :
"کچھ عرصہ سے بالخصوص آپ کے صوبہ پر حملے میں زیادہ مکارانہ رویہ اختیار کیا گیاہے۔ ہمارے دشمن، مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے جن میں اب بھی بعض مسلمان شامل ہیں، اس امید پربڑی سرگرمی سے صوبہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں کہ پاکستان کمزور ہوجائے گا اور پھر اس صوبہ کو مملکت ہندوستان میں ضم کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔ جو لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں وہ درحقیقت جنت الحمقاء میں بس رہے ہیں۔ اس مملکت کے مسلمانوں کی یکجہتی کو زک پہنچانے اور لوگوں کو قانون شکنی پر اکسانے کیلئے روزانہ چھوٹے پراپیگنڈہ کا ایک سیل رواں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
میرے نوجوان ساتھیو! آپ ان غداروں سے خبردار رہیں جو ہماری صفوں میں موجود ہیں۔ ان خود غرضوں سے ہوشیار رہیں اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔"
ایک دانشور کے یہ الفاظ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں:
"وطنی قومیت کی دعوت ، محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی عین ضد ہے!!"

٭٭٭٭٭