ربیع الاول اور جشن تذکارِ ولادت نبوی

آن راز کہ در سینہ نہانست نہ وعظ ست
بردار تواں گفت ، بہ منبر نہ تراں گفت!

عزیزانِ ملت! ماہِ ربیع الاول کا ورود تمہارے لئے ایک پیغامِ عام ہوتا ہے۔ کیونکہ تم کویاد آجاتا ہے کہ اسی مہینے کے ابتدائی ہفتوں میں خدا کی رحمت ِعامہ کا دنیا میں ظہور ہوا، اور اسلام کے داعی برحق کی پیدائش سے دنیا کی دائمی غمگینیاں اور سرگشتگیاں ختم کی گئیں۔ صلی اللہ علیہ وعلی آله و صحبه وسلم!
تم خوشیوں اور مسرتوں کے ولولوں سے معمور ہوجاتے ہو، تمہارے اندر رسولِ برحق کی محبت وشیفتگی ایک بے خودانہ جوشِ محویت پیدا کردیتی ہے۔ تم اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اسی کی یاد میں، اسی کے تذکرہ میں، اور اسی کی محبت کے لذت و سرور میں بسر کرنا چاہتے ہو۔
پس کیا مبارک ہیں وہ دل جنہوں نے اپنی محبت و شیفتگی کے لئے رب السماوات و الارض کے محبوب کو چنا! اور کیا پاک و مطہرہیں وہ زبانیں جو سید المرسلین و رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا میں زمزمہ سنج ہوئیں!...انہوں نے اپنی محبت و شیفتگی کے لئے اس کی محبوبیت کو دیکھا جس کو خود خدا نے اپنی چاہتوں اور محبتوں سے ممتاز کیا، اور ان کی زبانوں نے ا س کی مدح و ثنا کی جس کی مدح و ثنا میں خود خدا کی زبان، اس کے ملائکہ اور قدوسیوں کی زبان او رکائناتِ ارضی کی تمام پاک روحوں اور سعید ہستیوں کی زبان، ان کی شریک و ہم نوا ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ٥٦ ﴾..... سورة الاحزاب
کائناتِ ہستی کی محبوبیت ِاعلیٰ
بلاشبہ محبت ِنبوی کے یہ پاک ولولے اور یہ مخلصانہ ذوق و شوق تمہاری زندگی کی سب سے زیادہ قیمتی متاع ہے اور تم اپنے ان پاک جذبات کی جتنی بھی حفاظت کرو، کم ہے۔تمہارا یہ حب ِالٰہی ہے، تمہاری یہ محبت ِربانی ہے، تمہاری یہ شیفتگی انسانی سعادت اور راست بازی کا سرچشمہ ہے، تم اس وجودِ مقدس و مطہر کی محبت رکھتے ہو جس کو تمام کائناتِ انسانی میں سے تمہارے خدا نے ہر طرح کی محبوبیتوں اور ہر قسم کی محمودیتوں کے لئے چن لیا، اور محبوبیت ِعالم کا خلعت ِاعلیٰ صرف اسی کے وجودِ اقدس پرراست آیا، کرہٴ ارضی کی سطح پر انسان کے لئے بڑی سے بڑی بات جو لکھی جاسکتی ہے، زیادہ سے زیادہ محبت جو کی جاسکتی ہے، اعلیٰ سے اعلیٰ مدح و ثنا جو کی جاسکتی ہے، غرض کہ انسان کی زبان انسان کے لئے جو کچھ کہہ سکتی اور کرسکتی ہے، وہ سب کا سب صرف اسی ایک انسانِ کامل و اکمل کے لئے ہے، اور اس کا مستحق اس کے سوا کوئی نہیں!!

مقصود ما ز دیر و حرم جز حبیب نیست
ہر جا کنیم سجدہ بداں آستاں رسد

ولله درما قال :

عباراتنا شتی وحسنك واحد
وکل إلی ذاك الجمال يشير!

خدا کی اُلوہیت و ربوبیت جس طرح وحدہ لاشریک ہے کہ کوئی ہستی اس کی شریک نہیں، اسی طرح اس انسانِ کامل کی انسانیت ِاعلیٰ اور عبدیت ِکبریٰ بھی یکتا و منفرد ہے کیونکہ اس کی انسانیت وعبدیت میں کوئی اس کا ساجھا نہیں، اور اس کے حسن و جمالِ فردانیت کا کوئی مساوی نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں تم دیکھتے ہو کہ تمام انبیاءِ کرام علیہم الصلوٰة والسلام کا ذکر جہاں کہیں کیا گیا، وہاں ان سب کو ان کے ناموں سے پکارا ہے، اور ان کے واقعات کا بھی ذکر کیا ہے تو ان کے ناموں کے ساتھ کیا ہے۔لیکن ا س انسانِ کامل، اس فردِ اکمل کا ا کثر مقامات میں اس طرح ذکر کیا ہے کہ نہ تو اس کا نام لیا گیا، نہ ہی کسی دوسرے وصف سے نامزد کیا گیا، بلکہ صرف 'عبد' کے لفظ سے اس کے پروردگار نے اسے یاد فرمایا:﴿سُبحـٰنَ الَّذى أَسر‌ىٰ بِعَبدِهِ لَيلًا مِنَ المَسجِدِ الحَر‌امِ إِلَى المَسجِدِ الأَقصَا.....١﴾..... سورة الاسراء
"کیا پاک ہے وہ خداوند ِقدوس جس نے ایک رات اپنے 'عبد' کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی"
سورۂ جن میں فرمایا: ﴿وَأَنَّهُ لَمّا قامَ عَبدُ اللَّهِ يَدعوهُ كادوا يَكونونَ عَلَيهِ لِبَدًا ١٩ ﴾..... سورة الجن
"اور جب اللہ کا بندہ(عبد) تبلیغ حق کے لئے کھڑا ہوتا ہے تاکہ اللہ کو پکارے، تو کفار اس کو اس طرح گھیر لیتے ہیں گویا قریب ہے کہ ا س پر آگریں گے۔"
سورہٴ کہف کو اس آیت سے شروع کیا: ﴿الحَمدُ لِلَّهِ الَّذى أَنزَلَ عَلىٰ عَبدِهِ الكِتـٰبَ......١ ﴾..... سورة الكهف
"تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے'عبد' پر کتاب اتاری۔"
سورہٴ فرقان کی پہلی آیت ہے ﴿تَبارَ‌كَ الَّذى نَزَّلَ الفُر‌قانَ عَلىٰ عَبدِهِ لِيَكونَ لِلعـٰلَمينَ نَذيرً‌ا ١ ﴾..... سورة الفرقان
"کیا ہی پاک ذات ہے اس کی جس نے 'الفرقان' اپنے 'عبد' پر اتارا تاکہ وہ تمام عالم کے لئے ڈرانے والا ہو۔"
اسی طرح سورہ نجم:۱۰ میں کہا: ﴿فَأَوحىٰ إِلىٰ عَبدِهِ ما أَوحىٰ ١٠ حدید:۳۳ میں کہا:﴿يُنَزِّلُ عَلَی"عَبْدِه" آيَاتٍ﴾ پس ان تمام مقامات میں آپ کا اسم گرامی نہیں لیا، بلکہ اس کی جگہ صرف 'عبد' فرمایا۔ حالانکہ بعض دیگر انبیاء کے لئے اگر 'عبد' کا لفظ فرمایا ہے تو اس کے ساتھ نام کی تصریح بھی کردی ہے۔ سورئہ مریم:۲ میں حضرت زکریا کے لئے فرمایا: ﴿ذِكرُ‌ رَ‌حمَتِ رَ‌بِّكَ عَبدَهُ زَكَرِ‌يّا ٢ سورة ص ٓ:۱۷ میں کہا : ﴿واذكر عبدنا داود﴾ نیز ﴿وَاذْكرْ عَبْدَنَا اَيوْبَ﴾ ص ٓ:۴۱
اس خصوصیت و امتیاز سے اسی حقیقت کو واضح کرنا مقصودِ الٰہی تھا کہ اس وجودِ گرامی کی عبدیت اور بندگی اس درجہ آخری و مرتبہ قصویٰ تک پہنچ چکی ہے جو انسانیت کی انتہا ہے، اور جس میں اور کوئی 'عبد' اس عبد ِکامل کے مساوی نہیں۔ پس عبدیت کا فردِ کامل وہی ہے اور اس لئے بغیر اضافت و نسبت کے صرف 'عبد' کا لقب اس کو ناموں اور علموں کی طرح پہنچوا دیتا ہے۔ کیونکہ تمام کائناتِ ہستی میں اس کا سا اور کوئی عبد نہیں!پس یہ وہ تھا کہ اس کی صفات کا یہ حال ہے۔ اس کی محبت و محبوبیت کا خود رب السماوات والارض نے اعلان کیا، اور اس کی رحمت کو اپنی ربوبیت کی طرح تمام عالمین پر محیط کردیا، اور اس کی رحمت کو صفاتِ رافت و رحمت سے متصف فرمایا۔ اس کوتمام قرآنِ حکیم میں کبھی بھی نام لے کر نہ پکارا، بلکہ کبھی صداے عزت سے نوازا کہ ﴿يـٰأَيُّهَا الرُّ‌سُلُ﴾ او رکبھی طریق محبت سے پکارا کہ ﴿يـٰأَيُّهَا المُزَّمِّلُ ١ ﴾....سوةر المزمل" اس کے وجود کی عزت و عظمت کو اپنی عزت کی طرح اپنے بندوں پر فرض کردیا، اور جابجا حکم دیا کہ ﴿تَعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ﴾(الفتح: ۹)"اس کی عزت کرو اور اس کی توقیر بجا لاؤ" پھر وہ کہ اس کی محبوبیتوں اور عظمتوں کا یہ حال تھا کہ اس کا وجودِ مقدس و اطہر تو بڑی چیز ہے، وہ جس آبادی میں بسا اور جس شہر کی گلیوں میں چلا پھرا، اس کی عزت کو بھی خداے زمین و آسمان نے تمام عالم میں نمایاں کیا: ﴿لا أُقسِمُ بِهـٰذَا البَلَدِ ١ وَأَنتَ حِلٌّ بِهـٰذَا البَلَدِ ٢ ﴾..... سورة البلد"ہم مکہ کی قسم کھاتے ہیں، اس لئے کہ تیرا وجود اس کی سرزمین میں رہا او ربسا ہے۔"

ومن مذهبي حب الديار لأهلها
وللناس فيما يعشقون مذاهب

جشن حصول و ماتم ضیاع
لیکن جبکہ تم اس ماہِ مبارک میں یہ سب کچھ کرتے ہو، اور اس ماہ کے واقعہ ولادت کی یا دمیں خوشیاں مناتے ہو، تو اس کی مسرتوں کے اندر تمہیں کبھی اپنا وہ ماتم بھی یاد آتا ہے جس کے بغیر اب تمہاری کوئی خوشی نہیں ہوسکتی؟ کبھی تم نے اس حقیقت پر بھی غور کیا ہے کہ یہ کس کی پیدائش ہے جس کی یاد کے لئے تم سروسامان جشن کرتے ہو؟ یہ کون تھا جس کے دنیا میں آنے پر تمہارے لئے خوشیوں اور مسرتوں کا ایسا عزیز پیغام ملا؟ اگر اس مہینہ کی آمد تمہارے لئے مسرت کا پیام ہے، کیونکہ اسی مہینے میں وہ آیا جس نے تم کو عالمگیر پیام دیا تھا، تو میرے لئے اس سے بڑھ کر اور کسی مہینے میں افسوس نہیں، کیونکہ اس مہینے میں پیدا ہونے والے نے جو کچھ ہمیں دیا تھا، وہ سب کچھ ہم نے کھو دیا۔ اس لئے اگر یہ ماہ ایک طرف محسن کی یاد تازہ کرتا ہے، تو دوسری طرف کھونے والوں کے زخم کو بھی تازہ ہوجانا چاہئے

ما خانہ زمید کان ظلمیم
پیغام خوش از دیار ما نیست

تم اپنے گھروں کومجلسوں سے آباد کرتے ہو، مگر تمہیں اپنے دل کی اُجڑی ہوئی بستی کی بھی کچھ خبر ہے؟ تم کافوری شمعوں کی قندیلیں روشن کرتے ہو، مگر اپنے دل کی اندھیاری کو دور کرنے کے لئے کوئی چراغ نہیں ڈھونڈھتے؟ تم پھولوں کے گلدستے سجاتے ہو، مگر تمہارے اعمالِ حسنہ کا پھول مرجھا گیا ہے، تم گلاب کے چھینٹوں سے اپنے رومال و آستین کو معطر کرنا چاہتے ہو، مگر تمہاری غفلت، کہ تمہاری عظمت اسلامی کی عطربیزی سے دنیا کی مشامِ روح یکسر محروم ہے!
کاش تمہاری مجلسیں تاریک ہوتیں، تمہارے اینٹ اور چونے کے مکانوں کو زیب و زینت کا ایک ذرّہ نصیب نہ ہوتا، تمہاری آنکھیں رات رات بھر مجلس آرائیوں میں نہ جاگتیں، تمہاری زبانوں سے ماہ ربیع الاول کے لئے دنیا کچھ نہ سنتی، مگر تمہاری روح کی آبادی معمور ہوتی، تمہارے دل کی بستی نہ اُجڑتی، تمہارا طالع خفتہ بیدار ہوتا اور تمہاری زبانوں سے نہیں، مگر تمہارے اعمال کے اندر سے اُسوہٴ حسنہ نبوی کی مدح و ثنا کے ترانے اُٹھتے: ﴿فَإِنَّها لا تَعمَى الأَبصـٰرُ‌ وَلـٰكِن تَعمَى القُلوبُ الَّتى فِى الصُّدورِ‌ ٤٦ ﴾..... سورة الحج

مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ، تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے !

پھر وہ قوم، اور صدا ...اس قوم کی عظمت و نادانی، جس کے لئے ہر جشن و مسرت میں پیامِ ماتم ہے، اور جس کی حیات قومی کا ہر قہقہہ عیش فغاں حسرت ہوگیا ہے، مگر نہ تو ماضی کی عظمتوں میں اس کے لئے کوئی منظر عبرت ہے، نہ حال کے واقعات و حوادث میں کوئی پیامِ تنبہ و ہوشیاری ہے، او رنہ مستقبل کی تاریکیوں میں زندگی کی کسی روشنی کو اپنے سامنے رکھتی ہے۔ اسے اپنی کام جوئیوں اور جشن و مسرت کی بزم آرائیوں سے مہلت نہیں، حالانکہ اس کے جشن و طرب کے ہر ورود میں ایک نہ ایک پیامِ ماتم و عبرت بھی رکھ دیا گیا ہے۔ بشرطیکہ آنکھیں دیکھیں ، کان سنیں اور دل کی دانائی غفلت و سرشاری نے چھین نہ لی ہو: ﴿إِنَّ فى ذ‌ٰلِكَ لَذِكر‌ىٰ لِمَن كانَ لَهُ قَلبٌ أَو أَلقَى السَّمعَ وَهُوَ شَهيدٌ ٣٧ ﴾..... سورة ق
ظہور و مقصد ِظہور
ماہِ ربیع الاول کی یاد میں ہمارے لئے مسرت کا پیام اس لئے تھا کہ اسی مہینے میں خدا کا وہ فرمانِ رحمت دنیا میں آیا جس کے ظہور نے دنیا کی شقاوت و حرمانی کا موسم بدل دیا، ظلم و طغیان اور فساد و عصیان کی تاریکیاں مٹ گئیں، خدا اور اس کے بندوں کا ٹوٹا ہوا رشتہ جڑ گیا، انسانی اُخوت و مساوات کی یگانگت نے دشمنیوں اور کینوں کونابود کردیا، اور کلمہ کفر و ضلالت کی جگہ کلمہ حق و عدالت کی بادشاہت کااعلانِ عام ہوا ۔لیکن دنیاشقاوت و حرمانی کے درد سے پھر دکھیا ہوگئی، انسانی شروفساد اور ظلم و طغیان کی تاریکی خدا کی روشنی پر غالب ہونے کے لئے پھیل گئی۔ سچائی اور راست بازی کی کھیتیوں نے پامالی پائی او رانسانوں کے بے راہ گلہ کا کوئی رکھوالا نہ رہا۔ خدا کی وہ زمین جوصرف خدا ہی کے لئے تھی، غیروں کو دے دی گئی اور ا س کے کلمہ حق و عدل کے غمگساروں اور ساتھیوں سے اس کی سطح خالی ہوگئی : ﴿ظَهَرَ‌ الفَسادُ فِى البَرِّ‌ وَالبَحرِ‌ بِما كَسَبَت أَيدِى النّاسِ.....٤١ ﴾.... سورة الروم
"زمین کی خشکی اور تری دونوں میں انسان کی پیدا کی ہوئی شرارتوں سے فساد پھیل گیا۔"
پھر تم اس کے آنے کی خوشیاں تو مناتے ہو، پر اس کے ظہور کے مقصد سے غافل ہوگئے ہو، اور وہ جس غرض کے لئے آیا تھا، اس کے لئے تمہارے اندر کوئی ٹیس اور چبھن نہیں...؟
یہ ماہ ربیع الاول اگر تمہارے لئے خوشیوں کی بہار ہے، تو صرف اس لئے کہ اسی مہینے میں دنیا کی خزانِ ضلالت ختم ہوئی، اور کلمہ حق کا موسم ربیع شروع ہوا، پھر اگرآج دنیا کی عدالت سمومِ ضلالت کے جھونکوں سے مرجھا گئی ہے، تو اے غفلت پرستو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ بہار کی خوشیوں کی رسم تو مناتے ہو، مگر خزاں کی پامالیو ں پر نہیں ر وتے...!!
منور شریعت
اس موسم کی خوشیاں اس لئے تھیں کہ اسی میں اللہ کی عدالت کی وہ 'پرنورشریعت' کوہِ فاران پر نمودار ہوئی جس کی سعیر کی چوٹیوں پر صاحب ِتورات کو خبر دی گئی تھی، اور جو مظلومی کے آنسو بہائے، مسکینی کی آہیں نکالنے، ذلت و نامرادی سے ٹھکرائے جانے کے لئے دنیا میں نہیں آئی تھی، بلکہ اس لئے آئی تھی تاکہ اعداءِ حق و عدالت ناکامی کے آنسو بہائیں، دشمنانِ الٰہی مسکینی کے لئے چھوڑ دیئے جائیں،ضلالت و شقاوت، نامرادی و ناکامی کی ذلت سے ٹھکرائی جائے، اور سچائی و راستی کا عرش عظمت و اجلال نصرتِ الٰہی کی کامرانیوں اور اقبال و فیروزی کی فتح مندیوں کے ساتھ تمام کائناتِ ارضی میں اپنی جبروتیت و قدوسیت کا اعلان کرے۔ پس وہ اللہ کے ہاتھ کی چمکائی ہوئی ایک تلوار تھی جس کی ہیبت و قہاریت نے باطل پرستی کی تمام طاقتوں کو لرزا دیا او رکلمہ حق کی بادشاہت اور دائمی فتح کی دنیا کو بشارت سنائی :
﴿هُوَ الَّذى أَر‌سَلَ رَ‌سولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَ‌هُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِ‌هَ المُشرِ‌كونَ ٣٣ ﴾..... سورة التوبة "وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو دنیا کی سعادت کے قیام اورضلالت کی مقہوریت کے لئے دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ تمام دینوں پراسے غالب کردے، پس اس کی حقانیت کی طاقت ہی آخر میں دائمی اور عام فتح پانے والی ہے۔ اگرچہ مشرکوں پر ایسا ہونا بہت ہی شاق گزرے۔"
وہ ذلت کازخم نہ تھا بلکہ نامرادی کا زخم لگانے والا ہاتھ تھا، وہ مظلومی کی تڑپ نہ تھی بلکہ ظلم کو تڑپانے والی شمشیر تھی، وہ مسکینی کی بیقراری نہ تھی، بلکہ دنیا کو بیقرار کرنے والوں نے اس سے بیقراری پائی، وہ درد و کرب کی کروٹ نہ تھی، بلکہ دردو کرب میں مبتلا کرنے والوں کو اس سے بے چینی کا بستر ملا۔وہ جو کچھ لایا اس میں غمگینی کی چیخ نہ تھی، ماتم کی آہ نہ تھی، ناتوانی کی بے بسی نہ تھی،اور حسرت و مایوسی کا آنسو نہ تھا، بلکہ یکسرشادمانی کاغلغلہ تھا، جشن و مراد کی بشارت تھی، کامیابی و عیش فرمائی کی بہار تھی، طاقت اور فرمان فرمائی کا اِقبال تھا، امید اور یقین کا خندہ عیش تھا، زندگی اور فیرو مندی کا پیکر و تمثال تھا، فتح مندی کی ہمیشگی تھی اور نصرت و کامرانی دائمی :
﴿إِنَّ الَّذينَ قالوا رَ‌بُّنَا اللَّهُ ثُمَّ استَقـٰموا تَتَنَزَّلُ عَلَيهِمُ المَلـٰئِكَةُ أَلّا تَخافوا وَلا تَحزَنوا وَأَبشِر‌وا بِالجَنَّةِ الَّتى كُنتُم توعَدونَ ٣٠ نَحنُ أَولِياؤُكُم فِى الحَيو‌ٰةِ الدُّنيا وَفِى الءاخِرَ‌ةِ ۖ وَلَكُم فيها ما تَشتَهى أَنفُسُكُم وَلَكُم فيها ما تَدَّعونَ ٣١ ﴾.... سورة فصلت
"اللہ کے وہ صالح بندے جنہوں نے دنیا کی تمام طاقتوں سے کٹ کر کہا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں، پھر ساتھ ہی اس پرجم گئے اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنی خدا پرستی کو قائم کیا، سو ہ وہ لوگ ہیں کہ کامرانی و فتح مندی کے لئے خدا نے ان کو چن لیا ہے وہ اپنے ملائکہ نصرت کو ان پر بھیجتا ہے جو ہر دم پیام شادمانی و کامیابی پہنچاتے ہیں کہ نہ تو تمہارے لئے خوف ہے اور نہ کسی طرح کی غمگینی۔ دنیا کی زندگی میں بھی تم خدا کی نصرت و حمایت سے فتح مند و کامیاب ہوگے اور آخرت میں بھی خدا کی مہربانیوں سے بامراد، اللہ کی تمام نعمتیں صرف تمہارے ہی لئے ہیں، تم جو نعمت چاہو گے تمہیں ملے گی اور جس چیز کو پکارو گے پاؤ گے۔"
لاتهنوا ولا تحزنوا
کیونکہ وہ جو ربیع الاول میں آیا، اس نے کہا کہ غم او رناکامی ان کے لئے ہونی چاہئے جن کے پاس کامیابی و نصرت بخشنے والے کارشتہ نہیں ہے، پر جنہوں نے تمام انسانی اور دنیاوی طاقتوں سے سرکشی کرکے صرف خدا ے قدوس کے ساتھ وفاداری کی اور اس ذات کو اپنا دوست بنالیا جو ساری خوشیوں کا دینے والااور تما م کامیابیوں کا سرچشمہ ہے، تو وہ کیونکر غمگینی پاسکتے ہیں، اور خدا کے دوستوں کے ساتھ اس کی زمین میں کون ہے جو دشمنی کرسکتا ہے؟
﴿ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَولَى الَّذينَ ءامَنوا وَأَنَّ الكـٰفِر‌ينَ لا مَولىٰ لَهُم ١١ ﴾..... سورة محمد
"اس لئے کہ اللہ موٴمنوں کا دوست اور حامی ہے مگر کافروں کانہیں جنہوں نے اس سے انکار کیا"
جن پاک روحوں نے خدا کی سچائی اور کلمہ حق و عدل کی خدمت گزاری کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا، وہ کسی سے نہیں ڈر سکتے، البتہ ان کی ہیبت و قہاریت سے دنیا کو ڈرنا چاہئے
﴿فَلا تَخافوهُم وَخافونِ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ١٧٥ ﴾..... سورة آل عمران
"دشمنانِ حق کی شیطانی ہیبتوں سے نہ ڈرو، اللہ سے ڈرو اگر فی الحقیقت تم موٴمن ہو"
دنیا میں متضادسے متضاد اَجزا باہم جمع ہوسکتے ہیں۔ آگ اورپانی ممکن ہے کہ ایک جگہ جمع ہو جائیں شیر اور بکری ہوسکتا ہے کہ ایک گھاٹ سے پانی پی لیں، لیکن خدا پر 'ایمان' اور 'انسان کا خوف' یہ دو چیزیں ایسی متضاد ہیں جو کبھی بھی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں، اور اگر ایک بدبخت ایمانِ الٰہی کا دعویٰ کرکے انسان کے ڈر سے بھی کانپ رہا ہے، تو تم اسے ان کنکروں او رپتھروں کی طرح ٹھکرا دو جو انسان کی راہ میں لڑھک کر آجاتے ہیں، تاکہ دوڑنے والوں کے لئے ٹھوکر بنیں، کیونکہ وہ ایمان کے یقین سے محروم ہے
﴿وَلا تَهِنوا وَلا تَحزَنوا وَأَنتُمُ الأَعلَونَ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ١٣٩ ﴾.... سورة آل عمران
"نہ ہراساں ہو اور نہ غمگین ہو، اگر تم سچے موٴمن ہو تو سب پر غالب آنے والے ہو۔ "
﴿أَلا إِنَّ أَولِياءَ اللَّهِ لا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ٦٢ ﴾..... سورة يونس
"یاد رکھو کہ جو لوگ اللہ کے دوست اور اس کے چاہنے والے ہیں، ان کے لئے نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے"
استبدالِ نعمت
لیکن آج جبکہ تم عید میلاد کی مجلسیں منعقد کرتے ہو، تو تمہارا کیا حال ہے؟ وہ تمہاری دولت کہاں ہے جو تمہیں دی گئی تھی؟ وہ تماری نعمت ِکامرانی کدھر گئی جو تمہیں سونپی گئی تھی؟ وہ تمہاری روحِ حیات کیوں تمہیں چھوڑ کر چلی گئی، جو تم میں پھونکی گئی تھی؟ تمہارا خدا تم سے کیوں روٹھ گیا؟ اور تمہارے آقا نے کیوں تم کو صرف اپنی ہی غلامی کے لئے نہ رکھا؟ کیا ربیع الاول کے آنے والے نے خدا کا وعدہ نہیں پہنچایا تھا کہ عزت صرف تمہارے ہی لئے ہے اور اس دولت کا اب زمین پر تمہارے سوا کوئی وارث نہیں؟
﴿وَلِلَّهِ العِزَّةُ وَلِرَ‌سولِهِ وَلِلمُؤمِنينَ وَلـٰكِنَّ المُنـٰفِقينَ لا يَعلَمونَ ٨ ﴾..... سورة المنافقون
"عزت اللہ کے لئے ہے، اس کے رسول کے لئے، اور موٴمنوں کے لئے، لیکن جن کے دل نفاق سے کھوئے گئے وہ اس حقیقت کو نہیں جانتے۔"
پھر یہ کیا انقلاب ہے کہ تم ذلت کے لئے چھوڑ دیئے گئے ہو، اور عزت نے تم سے منہ چھپالیا ہے؟ کیا خدا کا وعدہ نصرت تم تک نہیں پہنچایا گیا تھا کہ ﴿وَكانَ حَقًّا عَلَينا نَصرُ‌ المُؤمِنينَ ٤٧ ﴾..... سورة الروم
"مسلمانوں کو نصرت و فتح دینا ہمارے لئے ضروری ہے۔ یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا کہ ہم غیروں کو فتح یاب کریں اور موٴمن ناکام رہ جائیں۔"
پھر یہ کیوں ہے کہ تم نے کامیابی نہ پائی او رکام و مراد نے تمہارا ساتھ چھوڑ دیا؟ کیا خدا کا وعدہ سچا نہ تھا؟اور کیا وہ اپنے قول کا پکا نہیں؟ تم جو انسانوں کے وعدوں پرایمان رکھتے اور ان کے حکموں کے آگے گرنا جانتے ہو، خدا کے وعدہ لا یخلف المیعاد کے لئے اپنے اندر ایمان کی کوئی صدا نہیں پاتے؟ نہ تو اس کا وعدہ جھوٹا تھا اور نہ اس نے اپنا رشتہ توڑا،مگر تم ہی ہو۔ تمہاری ہی محرومی و بے وفائی ہے، تمہارے ہی ایمان کی موت اور راستی کی حرمانی ہے جس نے اپنے پیمانِ و فا کو توڑا، اور خدا کے مقدس رشتے کی عزت کو اپنی غفلت و بداعمالی اور غیروں کی پرستش و بندگی سے بٹہ لگایا﴿لِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَم يَكُ مُغَيِّرً‌ا نِعمَةً أَنعَمَها عَلىٰ قَومٍ حَتّىٰ يُغَيِّر‌وا ما بِأَنفُسِهِم ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ ٥٣ ﴾..... سورة الانفال
"اس لئے کہ خدا کبھی کسی قوم کی نعمت کو محرومی سے نہیں بدلتا، جب تک وہ قوم خود ہی اپنے اندر تبدیلی نہ کردے اور وہ اپنے بندوں کے لئے ظالم نہیں ہے کہ ان کو بغیر جرم کے سزا دے۔"
خدا اب بھی غیروں کے لئے نہیں بلکہ صرف تمہارے ہی لئے ہے، بشرطیکہ تم بھی غیروں کے لئے نہیں بلکہ صرف خدا ہی کے لئے ہوجاؤ ﴿إِن تَنصُرُ‌وا اللَّهَ يَنصُر‌كُم وَيُثَبِّت أَقدامَكُم ٧ ﴾..... سورة محمد
"اگر تم خدا کے کلمہ حق کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے اند رثابت قدمی اور مضبوطی پیدا کردے گا۔"
یادگارِ حریت
تم ربیع الاول میں آنے والے کی یاد اور محبت کا دعویٰ رکھتے ہو، اور مجلسیں منعقد کرکے اس کی مدح وثنا کی صدائیں بلند کرتے ہو، لیکن تمہیں کبھی بھی یہ یاد نہیں آتا کہ جس کی یاد کا تمہاری زبان دعویٰ کر تی ہے، اس کی فراموشی کے لئے تمہارا ہر عمل گواہ ہے؟ اور جس کی مدح و ثنا میں تمہاری صدائیں زمزمہ سرا ہوتی ہیں، اس کی عزت کو تمہارا وجود بٹہ لگا رہا ہے؟ وہ (صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا میں اس لئے آیا تھا تاکہ انسانوں کو انسانی بندگی سے ہٹا کر صرف اللہ کی عبودیت کی صراطِ مستقیم پر چلائے، اور غلامی کی ان تمام زنجیروں سے ہمیشہ کے لئے نجات دلا دے جن کے بڑے بڑے بوجھل حلقے انہوں نے اپنے پاؤں میں ڈال لئے تھے
﴿وَيَضَعُ عَنهُم إِصرَ‌هُم وَالأَغلـٰلَ الَّتى كانَت عَلَيهِم.....١٥٧ ﴾...... سورة الاعراف
"(پیغمبر اسلام کے ظہور کا مقصد یہ ہے کہ) گرفتاریوں (او ربندشوں) سے انسان کو نجات دلا دے، اور غلامی (کے جو طوق انہوں نے اپنی گردنوں میں پہن رکھے ہیں، ان )کے بوجھ سے رہائی بخشے۔"
اس نے کہا کہ اطاعت صرف ایک ہی کی ہے او رحکم و فرمان صرف ایک ہی کے لئے سزاوار ہے
﴿إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ﴾ "حکم و طاقت کسی کے لئے نہیں ہے مگر صرف اللہ کے لئے ۔"
اس نے سب سے پہلے انسان کو اس کی چھنی ہوئی آزادی و حریت واپس دلائی اور کہا کہ موٴمن نہ تو بادشاہوں کی غلامی کے لئے ہے، نہ کاہنوں کی اطاعت کے لئے ، نہ کسی اور انسانی طاقت کے آگے جھکنے کے لئے، بلکہ اس کے سر کے لئے ایک ہی چوکھٹ ، اس کے دل کے لئے ایک ہی عشق، اس کے پاؤں کے لئے ایک ہی زنجیر، اور اس کی گردن کے لئے ایک ہی طوقِ اطاعت ہے۔ وہ جھکتا ہے تو اسی کے آگے، روتا ہے تو اسی کے لئے، اعتماد کرتا ہے تو اسی کی ذات پر، ڈرتا اور لرزتا ہے تو اسی کی ہیبت سے، امید کرتا ہے تو اسی کی رحمت پر، وہ ایسا نہیں ہے کہ انسانوں کو بھی اپنی ہیبت او رقہاریت کی صفت بخشے
﴿ءَأَر‌بابٌ مُتَفَرِّ‌قونَ خَيرٌ‌ أَمِ اللَّهُ الو‌ٰحِدُ القَهّارُ‌ ٣٩ ما تَعبُدونَ مِن دونِهِ إِلّا أَسماءً سَمَّيتُموها أَنتُم وَءاباؤُكُم ما أَنزَلَ اللَّهُ بِها مِن سُلطـٰنٍ ۚ إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ‌ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ ۚ ذ‌ٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ‌ النّاسِ لا يَعلَمونَ ٤٠ ﴾..... سورة يوسف
مفہوم : پرستش اور غلامی کے لئے کئی ایک معبود بنا لینا اچھا یا ایک ہی خداے واحد و قہار کا ہو رہنا، یہ جو تم نے اپنی بندگی کے لئے بہت سی چوکھٹیں بنا رکھی ہیں، تو بتلاؤ؟ ان کی ہستی بجز اس کے کیا ہے کہ چند وہم ساز نام ہیں جو تم نے اور تمہارے بڑوں نے اپنی گمراہی سے گڑھ لئے اور مدت کی ضلالت، رسم پرستی نے ان کے اندر مصنوعی ہیبت و مرعوبیت پیدا کردی، حالانکہ خدا نے نہ تو ان کے اندر کوئی طاقت رکھی اور نہ ان کی معبودیت و محبوبیت کے لئے کوئی حکم اتارا۔ یقین کرو کہ تمہاری غلام کے یہ تمام مصنوعی بت کچھ بھی نہیں ہیں۔ حکم و سلطانی دنیا میں نہیں ہے مگر صرف اللہ کے لئے، اس نے حکم دیا کہ پرستش نہ کرو مگر صرف اسی کی۔ یہی انسان کی فطرتِ صالحہ کی راہ ہے اور اس لئے یہی دین قیم ہے۔
او ردیکھو کہ اس نے انسان کی حریت ِصادقہ اور آزادی ٴحق کو کس طرح مثالوں کی دانائی میں سمجھایا:
﴿ضَرَ‌بَ اللَّهُ مَثَلًا عَبدًا مَملوكًا لا يَقدِرُ‌ عَلىٰ شَىءٍ وَمَن رَ‌زَقنـٰهُ مِنّا رِ‌زقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنفِقُ مِنهُ سِرًّ‌ا وَجَهرً‌ا ۖ هَل يَستَوۥنَ..... ٧٥ ﴾..... سورة التوبة
مفہوم : اللہ ایک مثال دیتا ہے، یوں فرض کرو کہ ایک شخص ہے جو کسی دوسرے انسان کا غلام ہے۔ خود اسے کوئی اختیار حاصل نہیں۔ وہ اپنی کسی چیز پر باوجودیکہ اسی کی ہے، کچھ قدرت نہیں رکھتا اور صرف اپنے آقا کے حکموں کا بندہ ہے ۔ مگر اس کے مقابلے میں ایک دوسرا آزاد و خود مختار انسان ہے جس پر کسی انسان کی حکومت نہیں، اسے اپنی ہر چیز پر قدرت و اختیار حاصل ہے، اور جوکچھ خدا نے دیا ہے، وہ اسے ظاہر و پوشیدہ، جس طرح چاہتا ہے بے دھڑک خرچ کرتا ہے، تو کیا یہ دونوں آدمی ایک ہی طرح کے ہوئے؟ کیا دونوں کی حالت میں کوئی فرق نہیں؟ اگر فرق ہے تو پھر وہ کہ اس کا مالک صرف خدا ہی ہے، اور وہ کہ اس کے گلے میں انسانوں کی اطاعت کے طوق پڑے ہوئے ہیں، دونوں ایک طرح کے کیسے ہوسکتے ہیں؟
پس اگر ربیع الاول کا مہینہ دنیا کے لئے خوشی و مسرت کا مہینہ تھا، تو صرف اس لئے کہ اسی مہینے میں دنیا کا وہ سب سے بڑا انسان صلی اللہ علیہ وسلم آیا جس نے مسلمانوں کو ان کی سب سے بڑی نعمت یعنی خدا کی بندگی اور انسانوں کی آقائی عطا فرمائی اور اس کو اللہ کی خلافت کا لقب دے کر خدا کی ایک پاک و محترم امانت ٹھہرایا۔ پس ربیع الاوّل انسانی حریت کی پیدائش کا مہینہ ہے، غلامی کی موت او رہلاکت کی یادگار ہے، خلافت ِالٰہی کی بخشش کا اولین یوم ہے، وراثت ِارضی کی تقسیم کا اوّلین اعلان ہے ۔ اسی ماہ میں کلمہ حق وعدل زندہ ہوا اور اسی میں کلمہ ظلم و فساد اور کفر وضلالت کی لعنت سے خدا کی زمین کو نجات ملی۔
تم کہ اس ماہ حریت کے ورود کی خوشیاں مناتے ہو، اور اس کے لئے ایسی تیاریاں کرتے ہو،گویا وہ تمہارے ہی لئے اور تمہاری ہی خوشیوں کے لئے آیا ہے، خدارا مجھے بتلاؤ کہ تمہیں اس پاک اورمقدس یادگار کی خوشی منانے کا کیا حق ہے؟ کیا موت اور ہلاکی کو اس کا حق پہنچتا ہے کہ زندگی اور روح کا اپنے کو ساتھی بنائے؟ کیا ایک مردہ لاش پر دنیا کی عقلیں نہ ہنسیں گی اگر وہ زندوں کی طرح زندگی کو یاد کرے گی؟ ہاں یہ سچ ہے کہ آفتاب کی روشنی کے اندر دنیا کے لئے بڑی ہی خوشی ہے، لیکن ایک اندھے کو کب زیب دیتا ہے کہ وہ آفتاب کے نکلنے پر آنکھوں والوں کی طرح خوشیاں منائے...؟
پھر اے غفلت کی ہستیو، اور اے بے خبری کی سرگشتہ خراب روحو! تم کس منہ سے اس کی پیدائش کی خوشیاں مناتے ہو جو حریت ِانسانی کی بخشش، حیاتِ روحی و معنوی کے عطیہ، اور کامرانی و فیروز مندی کی خسروی و ملوکی کے لئے آیا تھا؟ اللہ اللہ! غفلت کی نیرنگی اور انقلاب کی بوقلمونی! ماسویٰ اللہ کی عبودیت کی زنجیریں پاؤں میں ہیں، انسانوں کی مملوکیت و مرعوبیت کے حلقے گردنوں میں، ایمان باللہ کے ثبات سے دل خالی، اور اعمالِ حقہ و حسنہ کی روشنی سے روح محروم! ان سامانوں اورتیاریوں کے ساتھ تم مستعد ہوئے ہو کہ ربیع الاول کے آنے والے کی یاد کا جشن مناؤ، جس کا آنا خدا کی عبودیت کی فتح، غیر الٰہی عبودیت کی ہلاکت، حریت ِصادقہ کا اعلانِ حق، عدالت ِحقہ کی ملوکیت کی بشارت، اور امت ِعادلہ و قائمہ کے تمکن وقیام کی بنیاد تھا! ﴿فَمالِ هـٰؤُلاءِ القَومِ لا يَكادونَ يَفقَهونَ حَديثًا ٧٨ ﴾..... سورةالنساء
پس اے غفلت شعارانِ ملت! تمہاری غفلت پر صدفغاں وحسرت، اور تمہاری سرشاریوں پر صدہزار نالہ و بکا، اگر تم اس ماہِ مبارک کی اصلی عظمت و حقیقت سے بے خبر رہو اور صرف زبانوں کے ترانوں، درودیوار کی آرائشوں، اور روشنی کی قندیلوں ہی میں اس کے مقصدو یادگاری کو گم کردو۔ تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ماہِ مبارک امت ِمسلمہ کی بنیاد کا پہلا دن ہے، خداوندی بادشاہت کے قیام کا اولین اعلان، خلافت ِارضی و وراثت ِالٰہی کی بخشش کا سب سے پہلا مہینہ ہے۔ پس اس کے آنے کی خوشی اور اس کے تذکرہ و یاد کی لذت ہر اس شخص کی روح پر حرام ہے جو اپنے ایمان اور عمل کے اندر اس پیغام الٰہی کی تعمیل و اطاعت اور اس اسوہٴ حسنہ کی پیروی و تاسی کے لئے کوئی نمونہ نہیں رکھتا
﴿فَبَشِّر‌ عِبادِ ١٧ الَّذينَ يَستَمِعونَ القَولَ فَيَتَّبِعونَ أَحسَنَهُ ۚ أُولـٰئِكَ الَّذينَ هَدىٰهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولـٰئِكَ هُم أُولُوا الأَلبـٰبِ ١٨ ﴾..... سورة الزمر
"لہذا میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجئے جو بات کو توجہ سے سنتے ہیں ، پھر اس کے بہترین پہلو کی اتباع کرتے ہیں۔یہی ہیں جنہوں نے اللہ نے ہدایت بخشی اور یہی اہل عقل ہیں۔"
(شائع شدہ ہفت روزہ البلاغ کلکتہ... ۱۴/ جنوری ۱۹۱۶ء ... جلد۱، عدد ۶،۷،۸)

٭٭٭٭٭