قرآن فہمی کے بنیادی اُصول
مولانا عبدالغفار حسن کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ موصوف ایک ممتاز عالم دین، ژرف نگاہ محقق، کہنہ مشق بزرگ اُستاد ہیں۔ عمر ۸۵ سال کے لگ بھگ ہے اورآج کل بوجہ ضعف ِپیری صاحب ِفراش ہیں ۔آپ کا تدریسی دورانیہ ۵۰ سال پر محیط ہے جس میں ۱۶ برس مدینہ منورہ میں قائم عالم اسلام کی مایہ ناز اسلامی یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے علاوہ جامعہ رحمانیہ بنارس،مدرسہ کوثر العلوم مالیر کوٹلہ اور جامعہ تعلیمات فیصل آبادمیں بھی آپ تدریس کے منصب پر فائز رہے۔آپ کے والد بزرگوار مولانا حافظ عبدالستار حسن عمرپوری، حضرت شیخ الکل سید نذیرحسین محدث دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ مولانا عبد الغفار حسن نے دسمبر ۱۹۳۳ء میں دارالحدیث رحمانیہ (دہلی) سے درسِ نظامی کی سند حاصل کی۔ ۱۹۳۵ ء میں لکھنوٴ یونیورسٹی سے ادیب عربی اور ۱۹۴۰ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔آپ نے شیخ الحدیث مولانا احمداللہ، صاحب ِتحفہ الاحوذی مولانا عبدالرحمن مبارکپوری، مولانا عبیداللہ مبارکپوری، مولانا محمد سورتی اور ان کے علاوہ کئی دیگر جلیل القدر اور اساطین علماءِ کرام سے کسب ِفیض کیا ۔موصوف ۱۹۴۱ء سے ۱۹۵۷ء تک تقریباً سولہ سال تک جماعت ِاسلامی کے رکن رہے اورمتعدد بار مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ دو مرتبہ بانی ٴجماعت مولانا مودودی کی غیر حاضری میں امارتِ جماعت کی ذمہ داری کے فرائض سرانجام دیئے۔ ا س کے بعد ۱۹۵۷ء میں طریق کار سے اختلاف کی بنا پر جماعت سے الگ ہوگئے۔۱۹۸۰ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مقرر ہوئے۔جس دوران اہم دینی مسائل کی تحقیق کا سلسلہ جاری رہا۔آپ کی تصنیفی کاوشیں بھی قابل قدر ہیں، مشہور تصانیف میں (۱) انتخابِ حدیث (۲) عظمت ِحدیث (۳) معیار خاتون (۴) حقیقت ِدعا (۵) دین میں غلو جیسی معرکة الارا تصانیف شامل ہیں۔
زیر نظر مضمون دراصل آپ کی ایک تقریر سے ترتیب دیا گیا ہے جس میں آپ نے قرآن فہمی کے اُصولوں پر مثالوں کی مدد سے اَحسن انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اس مضمون کے ساتھ ہی تفسیر قرآن پر آپ کے مضامین کا ایک سلسلہ ہم محدث میں شروع کررہے ہیں جس میں آپ نے علامہ حافظ ابن قیم کے تفسیری افادات کا اردو ترجمہ وتفہیم فرمائی ہے۔انہی دنوں میں مولانا حافظ صلاح الدین یوسف کی مختصر تفسیر بنام احسن البیان پر بھی آپ نے نظر ثانی فرمائی ہے ۔آپ کا علمی مرتبہ مسلم ہے اور آپ کی عالمانہ شخصیت علماءِ اسلام کی آبروہے، اللہ تعالیٰ آپ کو صحت یاب فرمائے اور آپ کے علم وتجربہ سے امت کو زیادہ سے زیادہ فیض یاب فرمائے۔ آمین ! ادارہ
﴿الر ۚ كِتـٰبٌ أَنزَلنـٰهُ إِلَيكَ لِتُخرِجَ النّاسَ مِنَ الظُّلُمـٰتِ إِلَى النّورِ بِإِذنِ رَبِّهِم إِلىٰ صِرٰطِ العَزيزِ الحَميدِ ١ اللَّهِ الَّذى لَهُ ما فِى السَّمـٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ۗ وَوَيلٌ لِلكـٰفِرينَ مِن عَذابٍ شَديدٍ ٢ الَّذينَ يَستَحِبّونَ الحَيوٰةَ الدُّنيا عَلَى الءاخِرَةِ وَيَصُدّونَ عَن سَبيلِ اللَّهِ وَيَبغونَها عِوَجًا ۚ أُولـٰئِكَ فى ضَلـٰلٍ بَعيدٍ ٣ ﴾..... سورة ابراهيم
" یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔ ان کے ربّ کے حکم سے غالب اور قابل حمداللہ کی راہ کی طرف لائیں۔ وہ اللہ جو آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات کا مالک ہے اورکافروں کے لیے سخت عذاب (کی وجہ) سے تباہی ہے جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اوراللہ کی راہ سے روکتے ہیں اوراس میں کجی چاہتے ہیں۔ یہی لوگ گمراہی میں دور تک نکل گئے ہیں۔"
آج کل ہمارے ملک میں چونکہ اسلامی نظام اور اسلامی قوانین کے اِجرا کا چرچا ہے، اس لئے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اسلامی قوانین یا اسلامی شریعت کا اصل سرچشمہ کیا ہے۔ اصل سرچشمہ اور اہم بنیاد قرآنِ مجید ہے۔ اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ خواہ عوام ہوں، خواہ حکمران ، ان کو سب سے پہلے قرآنِ مجید سے تعلق رکھنا چاہئے اور اس کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ پہلے قرآنِ مجید کے بارے میں بتایا جائے کہ اس کا فہم کیسے حاصل ہوتا ہے۔ ہم قرآن مجید کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ وہ کون سے وسائل اور کون سے ذرائع ہیں جن کے ذریعہ سے قرآن مجید کو صحیح معنی میں سمجھا جائے اور اس کا مقصد ِنزول پورا کیا جائے۔
ان آیات میں قرآن کا مقصد ِ نزول بیان کیا گیا ہے۔ نہایت ہی فصیح و بلیغ لیکن نہایت ہی سادہ الفاظ میں فرمایا: ﴿كِتـٰبٌ أَنزَلنـٰهُ إِلَيكَ لِتُخرِجَ النّاسَ مِنَ الظُّلُمـٰتِ إِلَى النّورِ......١ ﴾..... سورة ابراهيم
"اے محمد ہم نے آپ کی طرف کتاب اس لئے اُتاری ہے تاکہ آپ لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالیں"
کتابُ اللہ کے نزول کا مقصد یہ ہے ۔ تاریکیاں بہت سی پھیلی ہوئی ہیں اور قرآن تاریکیوں سے نکالے۔ قرآن مجید کے نزول کے وقت بھی بہت سی تاریکیاں اور اندھیرے تھے: کفرو شرک کے اندھیرے، رسم و رواج کے اندھیرے، شخصیت پرستی، بت پرستی اور زَرپرستی کے اندھیرے۔ نہ معلوم قبائل پرستی اور زبان پرستی کی کتنی تاریکیاں تھیں۔ ان تمام تاریکیوں کو چھانٹنے اور نور کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے قرآنِ مجید کا نزول ہوا۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں یہ مضمون بیان ہوا ہے۔ وہاں 'ظلمات' کو جمع لایا گیا ہے۔ 'ظلمات' جمع ہے ظلمت کی اور اس کے مقابلہ میں حق کو 'نور' سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وہاں صرف نور کہا، نور کی جمع اَنوار نہیں کہا۔ 'ظلمات' جمع اور 'نور' واحد ہے۔ اس سے اس با ت کی طرف اشارہ ہے کہ گمراہیاں اور تاریکیاں بہت سی ہیں، ان کے راستے بھی بہت سے ہیں لیکن نور ایک ہی ہے۔ حق ایک ہی ہے اور ا س کا سرچشمہ بھی ایک ہی ہے یعنی قرآنِ مجید۔
توحید کو سمجھانے کے لئے یوں بیان کیا گیا ہے۔ انبیاءِ کرام اور رسولِ اکرم کا یہ مقصد تھا کہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔ باِذن رَبِّہِم یہ ان کے ربّ کے اِذن سے ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اس بنا پر اس دعوت کو رسولِ اکرم نے قبول فرمایا اور پھر اس کو پیش کیا۔ اور وہ نور کیا ہے؟ ﴿وَإِلىٰ صِرٰطِ العَزيزِ الحَميدِ﴾ اس کے راستہ کی طرف جو عزیز و غالب ہے جس پر کوئی دوسرا غالب نہیں آسکتا اور جو حمید اور حمدوالا ہے یعنی اپنی رحمتوں اور اپنی نعمتوں اور اِنعام و اکرام کی بنا پر حمد کا مستحق ہے ۔ اور جس کی حکمرانی تمام کائنات پر ہے اور جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کے قبضہ میں ہے، اسی کے تابع ہے۔ اس کے بعد بتایا کہ پھر رکاوٹ کیاہے۔ روشنی سامنے آجائے تو لوگ اس کو کیوں نہیں مانتے، اس کی وجہ کیا ہے ؟ تو فرمایا: ﴿وَوَيلٌ لِلكـٰفِرينَ مِن عَذابٍ شَديدٍ ٢ ﴾.... سورة ابراهيم" جب کفر دلوں میں راسخ ہوجاتاہے اور انسان معاندانہ روش اختیار کرلیتا ہے تو پھر قبولِ حق کے دروازے اس کے لئے بندہوجاتے ہیں۔ اور یہ کفر انسانوں کے دلوں میں ڈیرے کس طرح ڈالتا ہے، اس کی بڑی وجہ ہے: ﴿الَّذينَ يَستَحِبّونَ الحَيوٰةَ الدُّنيا عَلَى الءاخِرَةِ.....٣ ﴾.....سورة ابراهيم"کہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں۔ جب دنیا کو آخرت پر ترجیح دیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب حق ان کے مفاد پر چوٹ لگائے گا اور ان کے فائدوں پر زَد پڑے گی تو ظاہر بات ہے کہ وہ حق کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
دعوتِ حق اور دعوتِ قرآن قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ لوگ دنیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسے آخرت کے مقابلہ میں پسند رکھتے ہیں اوراسی بنا پر﴿وَيَصُدّونَ عَن سَبيلِ اللَّهِ﴾ صرف خود نہیں رکتے بلکہ دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس دعوتِ حق کوبھی ۔
قرآنِ مجید کی دعوت کو بدنام کرنے کے لئے ان کا ایک رویہ یہ بھی ہے: ﴿وَيَبغونَها عِوَجًا﴾ کہ اس میں کجی تلاش کرتے ہیں، کجی پائی نہیں جاتی بلکہ تلاش کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کوئی چیز ایسی مل جائے جس سے لوگ مغالطہ میں پڑ جائیں اور قرآنِ مجید کی دعوت سے لوگ مستفید نہ ہوسکیں، فرمایا: ﴿أُولـٰئِكَ فى ضَلـٰلٍ بَعيدٍ﴾ یہی لوگ گہری گمراہی میں ہیں۔ یہاں تک ان آیات کی تفسیر ہے جن میں قرآنِ مجید کا مقصد ِنزول بیان کیا گیا ہے۔
1۔ ترتیل قران: قرآنِ مجید کا مقصد ِنزول کیسے حاصل ہوسکتا ہے، اس کے لئے خود قرآنِ مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے قرآنِ مجید پر انسان ایمان لائے، اس کی عظمت کا قائل ہو اور اس کو بڑے اطمینان کے ساتھ پڑھے جیسا کہ فرمایا: ﴿أَو زِد عَلَيهِ وَرَتِّلِ القُرءانَ تَرتيلًا ٤ ﴾.... سورة المزمل" اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے پڑھئے۔ اسی طرح سورة الاسراء میں فرمایا: ﴿وَقُرءانًا فَرَقنـٰهُ لِتَقرَأَهُ عَلَى النّاسِ عَلىٰ مُكثٍ وَنَزَّلنـٰهُ تَنزيلًا ١٠٦﴾
" ہم نے اس قرآنِ مجید کو اتارا ہے تاکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے پڑھیں۔"
تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکلنے کے لئے پہلا زینہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کو بڑے اطمینان اور خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھا جائے ،اس کی عظمت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ یہ کلام الٰہی ہے اور اس سے ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
2۔ فہم قران: دوسرا زینہ یہ ہے کہ محض قرآنِ مجید کا پڑھ لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کو سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں رواج ہے یا بلادِ عجم میں دیگر مقامات پربھی یہ رواج ہے بلکہ اب تو عربوں میں بھی یہ مصیبت آگئی ہے کہ قرآنِ مجید پڑھتے ہیں، سمجھتے نہیں ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو عرب ہو اور عربی جانتا ہو، وہ قرآنِ مجید سمجھ بھی جائے۔ بلاتشبیہ عرض ہے کہ جس طرح بہت سے لوگ بانگ ِدرا یا غالب کا دیوان پڑھے ہوئے ہیں، یہ اردو میں ہیں، لیکن ہر اردو دان اس کو نہیں سمجھتا، سمجھنے کے لئے تو کاوش کی ضرورت ہے۔
عربوں کے اندر بھی اب یہ رواج ہے کہ وہ بس تبرکا ً پڑھ لیتے ہیں۔ یہ تبرک کا فلسفہ جسے نظریہ کہئے یا خیال ، اس نے بھی ہمیں قرآن مجید سے بہت دور ڈال دیا ہے اور میں مضمون کے آخر میں "موانع فہم قرآن" کے سلسلہ میں بھی کچھ عرض کروں گا۔ اس موقع پر تفصیل سے بتاؤں گا کہ کون کون سی رکاوٹیں ہیں جنہوں نے ہمیں قرآنِ مجید سے دور کردیا ہے۔ جب تک یہ رکاوٹیں نہیں ہٹیں گی، اس وقت تک ہم قرآنِ مجید سے قریب نہیں ہوسکتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دوسرا زینہ ہے کہ قرآنِ مجید کو سمجھ کر پڑھا جائے جیسا کہ فرمایا: ﴿كِتـٰبٌ أَنزَلنـٰهُ إِلَيكَ مُبـٰرَكٌ لِيَدَّبَّروا ءايـٰتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُوا الأَلبـٰبِ ٢٩ ﴾..... سورة ص
"ہم نے برکت والی کتاب اُتاری ہے تاکہ ا س کی آیات میں تدبر کرلیا جائے اور عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں"
یعنی تبرک کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آدمی اس کو محض چوم اور چاٹ لے جیسا کہ آج کل لوگ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ چوما چاٹی ہی تبرک کی نشانی سمجھی جاتی ہے اور اس سے گویا ان کے خیال میں قرآنِ مجید کا حق ادا ہوجاتا ہے۔
3۔ عمل بالقران: قرآنِ مجید کو جب آپ نے سمجھ لیا تو پھر تیسرا زینہ 'عمل بالقرآن' ہے کہ قرآنِ مجید پر عمل کیا جائے جیسا کہ فرمایا: ﴿نّا أَنزَلنا إِلَيكَ الكِتـٰبَ بِالحَقِّ لِتَحكُمَ بَينَ النّاسِ بِما أَرىٰكَ اللَّهُ......١٠٥ ﴾..... سورة النساء" یعنی ہم نے اس کتاب کو اتارا ہے تاکہ آپ ان کے درمیان فیصلے کریں۔ ان کے جھگڑوں کو چکائیں کہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآنِ مجید کے احکام کو جاری کریں۔ اور قرآن نے جن چیزوں کو حلال ٹھہرایا ہے، ان کو حلال سمجھیں اور جن چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے، انہیں حرام سمجھیں۔
یادرہے کہ محض سمجھنا بھی کافی نہیں ہے جیسا کہ آج کل بہت سے مستشرقین ہیں جنہوں نے قرآنِ مجید کی بظاہر بڑی خدمت کی اوربہت سے مضامین اور کتابیں لکھی ہیں لیکن وہ صرف تحقیق برائے تحقیق ہے۔ ان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ اس پر عمل کریں گے یا وہ سب کے سب قرآنِ مجید کی عظمت کے قائل ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بعض قائل ہوں لیکن ایمان نہیں لائیں گے۔ ان کا مقصد محض تحقیق کرنا ہے۔ جس طرح وہ علومِ شرقیہ کی دوسری کتابوں کی تحقیق کرتے ہیں، اسی طرح قرآنِ مجید کی بھی تحقیق کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ دل و جان سے قرآن مجید کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ غرض تیسرا زینہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھ کر اس پر عمل کیا جائے۔ اپنے اوپر، اپنے گھروالوں پر اپنی برادری پر، اپنے کنبہ پر اور اگر اللہ تعالیٰ اختیارات دے تو پورے ملک پر۔ یعنی جس قدر بھی ممکن ہوسکے، قرآنِ مجید کی تعلیم کو پھیلایا جائے اور نافذ کیا جائے۔
اور پھر اس کے ساتھ ساتھ یہ ہے کہ آپ جب اس کو اپنے اوپراور اپنے گھر والوں پر جاری و نافذ کرتے ہیں تو یہ نعمت آپ کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ اس کو پھیلایا جائے، فرمایا:
﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم ...... ٤٤ ﴾..... سورة النحل
" جو ہم نے آپ پر ذکر نازل کیا ہے، اس کو لوگوں میں آپ پھیلائیے"
جب تک کہ یہ سارے سلسلے اور سارے زینے ہم نہ اپنائیں گے، اس وقت تک تاریکیوں سے نور کی طرف نہیں آسکتے۔ اگر قرآنِ مجید کو صرف تبرک بنا کر رکھ لیں تو اس سے فہم حاصل نہیں ہوسکتا۔
فہم قرآن کاپہلا ذریعہ ...قرآن کی تفسیر قرآن کے ذریعے
قرآنِ مجید کو کس طرح سمجھا جائے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے۔ قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خود قرآنِ مجید ہی سے اس کو سمجھا جائے: القران یفسّر بعضه بعضًا قرآن کا کچھ حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے۔ اگر ایک جگہ پراِجمال ہے تو دوسری جگہ اس کی تفصیل ہے۔ اگر ایک جگہ آپ سمجھتے ہیں کہ بات ذہن میں واضح نہیں ہورہی ہے تو قرآن میں اسے دوسری جگہ کھول دیا گیا ہے۔
پہلی مثال : قرآنِ مجید میں آتا ہے: ﴿اهدِنَا الصِّرٰطَ المُستَقيمَ ٦ صِرٰطَ الَّذينَ أَنعَمتَ عَلَيهِم غَيرِ المَغضوبِ عَلَيهِم وَلَا الضّالّينَ ٧ ﴾..... سورة الفاتحة" دکھا ہم کو سیدھی راہ، راہ ان کی جن پر تو نے انعام کیا۔ اب یہ کون لوگ ہیں جن پر انعام کیا گیا ہے۔ سورة البقرہ میں﴿مَغضوبِ عَلَيهِم﴾ کا بیان آیا ہے، سورة آل عمران میں ﴿ضّالّينَ﴾ کا۔ اور اس کے بعد سورة النساء میں جاکر کھولا ہے کہ ﴿أَنعَمتَ عَلَيهِم﴾ سے کون لوگ مراد ہیں، فرمایا: ﴿فَأُولـٰئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنعَمَ اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّـۧنَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّـٰلِحينَ ۚ وَحَسُنَ أُولـٰئِكَ رَفيقًا ٦٩ ﴾..... سورة النساء" یعنی انبیاء کرام کی جماعت، صدیقین کی جماعت، شہداء کی جماعت جنہوں نے اپنی جانیں اللہ کی راہ میں قربان کیں اور اس طرح اپنے ایمان کی شہادت دی اور صالحین، اللہ کے نیک بندے جو حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں اور اللہ کے دین کو قائم رکھتے ہیں۔ یہ اس اجمال کی تفسیر ہوگئی جو سورة فاتحہ میں ہے۔
اسی طرح سورئہ بقرہ میں﴿مَغضوبِ عَلَيهِم﴾ کے ضمن میں یہود کا ذکر آتا ہے اور سورئہ آل عمران میں نصاریٰ کا ذکر آتا ہے، یہ ﴿ضّالّينَ﴾ ہیں۔ ﴿مَغضوبِ عَلَيهِم﴾ اور ضَآلِّيْنَ میں فرق ہے : ﴿مَغضوبِ عَلَيهِم﴾ وہ قوم ہے جو معاندانہ روش اختیار کرتی ہے، جانتے بوجھتے حق سے کتراتی ہے، علم رکھتے ہوئے حق کو جھٹلاتی ہے۔ یہود اس میں خاص طور پر نمایاں ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حق کیاہے: ﴿يَعرِفونَهُ كَما يَعرِفونَ أَبناءَهُم﴾" وہ رسول اکرم کو پہچانتے تھے جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے"۔ جس طرح انہیں اپنے بیٹوں کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہماری اولاد ہے، اسی طرح رسول اکرم کو پہچانتے تھے کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ اس معرفت اور علم کے باوجود انکار کیا۔ یہ یہود تھے جنہوں نے عناد اور سرکشی کی راہ اختیار کی۔ ضالین وہ ہیں جو بغیر علم کے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، علم ہی حاصل نہیں کیا۔ نصاریٰ میں یہ وصف نمایاں ہے۔ ان میں معاندین بھی ہوں گے لیکن زیادہ وہ ہیں جنہوں نے علم کے بغیر گمراہی کی راہ اختیار کی۔ اسی لئے نصاریٰ میں بدعات زیادہ پیدا ہوئیں۔
بدعت اور بغاوت میں فرق : بدعات زیادہ وہاں پیدا ہوتی ہیں جہاں جہالت زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں سرکشی اور عناد ہے وہاں بغاوت پیدا ہوتی ہے۔ بغاوت اور بدعت میں فرق ہے۔ بغاوت کے معنی ہیں: دین سے نفرت اور بدعت وہ ہے جہاں بدعتی دین سے محبت رکھتا ہے، اتنی زیادہ محبت رکھتا ہے کہ پھر وہ دین کے معاملہ میں غلو کرجاتاہے۔ اور اپنی طرف سے کچھ ایسے طریقے ایجاد کرتا ہے جن سے وہ چاہتا ہے کہ وہ اور آگے بڑھ جائے۔اسی لئے قرآنِ مجید میں فرمایا: ﴿وَرَهبانِيَّةً ابتَدَعوها ما كَتَبنـٰها عَلَيهِم إِلَّا ابتِغاءَ رِضوٰنِ اللَّهِ فَما رَعَوها حَقَّ رِعايَتِها......٢٧ ﴾.... سورة الحديد" کہ رہبانیت یعنی ترکِ دنیا کا طریقہ نصاریٰ نے اختیار کیاتھا، انہوں نے خود اس کو ایجاد کیا ہے۔ یہ بدعت ان کی طرف سے ہے۔ ہم نے یہ طریقہ ان پر لازم نہیں کیاتھا، ہم نے یہ طریقہ ان کو نہیں سمجھایا تھا۔ یہ ان کی اپنی ایجا دہے۔ تو یہ فرق ہے ﴿مَغضوبِ عَلَيهِم﴾اور﴿ضّالّينَ﴾ میں۔ اور ان دونوں کی تفسیر سورة البقرة اور سورة آل عمران میں آگئی۔
دوسری مثال: اسی طرح قرآن مجید میں آتا ہے، فرمایا:﴿وَاعبُد رَبَّكَ حَتّىٰ يَأتِيَكَ اليَقينُ ٩٩ ﴾..... سورة الحجر "اور اپنے ربّ کی عبادت کر یہاں تک کہ تجھے یقین آجائے"۔ اب یہاں بعض لوگوں کو مغالطہ ہوگیا کہ 'یقین' اپنے مشہور مفہوم میں مستعمل ہے۔ جب 'یقین' کامل ہوگیا تو نماز روزہ کی کیا ضرورت ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہمیں پتہ چلا کہ ناظم آباد میں کوئی پیر صاحب تھے۔ انہوں نے اپنے مرید سے کہا کہ "عبادت ہم نے کرلی اور عبادت کرکے اب ایسے مقام پر ہم پہنچ گئے ہیں کہ اس کے بعد اب نماز روزہ کی ضرورت نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص فوج کا سالارِ اعلیٰ بن جائے تو وہ تو پریڈ نہیں کرتا،پریڈ تو نیچے کے لوگ کرتے ہیں۔ پریڈ تو سپاہی کرتے ہیں، سالارِ اعظم یا کمانڈر انچیف تو پریڈ نہیں کرتا۔ وہ اس سے بالاتر ہوگیا۔اسی طرح جب یقین آگیا ہے تو عبادت کے تم مکلف نہیں رہے ہو۔"
یہ کتنا گمراہ کن عقیدہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اسی زندگی میں غیر مکلف ہوگیا۔ اور عبادت کی زحمت سے اپنے آپ کو بچا لیا کیونکہ اسے وہ زحمت سمجھتا ہے حالانکہ رسول اکرم کا یہ حال تھا کہ آپ عبادت کرتے تھے: «حتیٰ تورّمت قد ماہ» یہاں تک کہ آپ کے قدمِ مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ رات کو دیر دیر تک تہجد کی عبادت کرتے تھے، لمبے لمبے قیام کرتے تھے۔ حضرت عائشہ نے ایک بار کہا: آپ کا اتنا بڑا درجہ ہے، آپ بخشے بخشائے ہیں، آپ اتنی محنت کیوں کرتے اور اتنی مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں تو فرمایا: «أفلا أکون عبداً شکورا »"کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں"، مجھ پر اللہ تعالیٰ نے اتنے انعامات اور احسانات کئے ہیں، کیا میں ان کا شکریہ اَدا نہ کروں؟ معلوم یہ ہوتا ہے کہ مراتب کے لحاظ سیجو جتنا اونچا ہوتا ہے ، اتنا ہی وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جاتاہے۔ عبادت میں اتنا ہی اس کا ذوق بڑھ جاتا ہے۔ اور جوجتنا اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا ہے، اسی قدر شیطان کے پھندے میں پھنس کر اللہ تعالیٰ کی عبادت سے محروم ہوجاتا ہے۔
قرآن مجید میں 'یقین' کے معنی ایک اور جگہ بھی آئے ہیں۔ سورة المدثر میں آتا ہے کہ جب جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے اور جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو جنتی جہنمیوں سے سوال کریں گے: ﴿ما سَلَكَكُم فى سَقَرَ ٤٢ ﴾..... سورة المدثر" تمہیں جہنم میں کس چیز نے دھکیل دیا، تم نے کیا کرتوت کئے تھے کہ جن کی بنا پر تم جہنم میں گئے: ﴿وَلَم نَكُ نُطعِمُ المِسكينَ ٤٤ وَكُنّا نَخوضُ مَعَ الخائِضينَ ٤٥ وَكُنّا نُكَذِّبُ بِيَومِ الدّينِ ٤٦ حَتّىٰ أَتىٰنَا اليَقينُ ٤٧ ﴾..... سورة المدثر" انہوں نے کہا کہ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ نمازیوں میں ہمارا شمار نہیں تھا کیونکہ نماز ادا نہیں کرتے تھے اور غریبوں و مسکینوں کو ہم کھانا بھی نہیں کھلاتے تھے، ان کی مدد بھی نہیں کرتے تھے اور گپ شپ کرنے والوں کے ساتھ ہم بھی مشغول ہوجاتے تھے اور ہم الدین یعنی یومِ جزا کے منکر تھے۔ اور ہمارا یہ سلسلہ جاری رہا «حَتّىٰ أَتىٰنَا اليَقينُ» یہاں تک کہ ہمیں 'یقین' نے آلیا۔ یہاں یقین کے معنی 'موت' کے ہیں۔ یعنی آخری سانس تک ہمارا یہی عمل رہا۔
معلوم ہوا کہ ہماری پیش نظر آیت میں 'یقین' کے جو مشہور معنی ہیں وہ تو نہیں لیے جاسکتے جبکہ قرآن مجید کی اصطلاح میں 'یقین' کے معنی موت کے بھی آتے ہیں کیونکہ موت سے زیادہ یقینی چیز اور کوئی نہیں۔ بہت بڑا وصف موت کا یقین ہے۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں، آج اس کو کاندھا دے رہے ہیں، آج اس کے ہاں تعزیت کے لئے جارہے ہیں، آج وہاں سے خبر آئی ہے کہ فلاں کا انتقال ہوگیا ہے۔ آخر یہ کیا ہے؟ کوئی کتنا ہی عقل کا اندھا ہو، بے شعور ہو لیکن یہ چیز ایسی ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
﴿وَاعبُد رَبَّكَ حَتّىٰ يَأتِيَكَ اليَقينُ ٩٩ ﴾..... سورة الحجر"تواس کے معنی یہ ہوئے کہ اپنے ربّ کی آخری سانس تک عبادت کر یہاں تک کہ تجھے موت آجائے۔ تو قرآن مجید کی ایک آیت کی تفسیر دوسری جگہ آئی۔
تیسری مثال : ایک جگہ قرآن مجید میں آتا ہے﴿أَلهىٰكُمُ التَّكاثُرُ ١ حَتّىٰ زُرتُمُ المَقابِرَ ٢ ﴾..... سورة التكاثر" یعنی تمہیں تکاثر نے غافل کردیا۔ یعنی کثرت میں مقابلہ آرائی نے۔ اب یہ تکاثر کیا ہے؟ کس چیز میں تکاثر؟ قرآن مجید نے اس بات کو یہاں نہیں چھیڑا ہے۔ سورئہ حدید میں فرمایا: ﴿اعلَموا أَنَّمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا لَعِبٌ وَلَهوٌ وَزينَةٌ وَتَفاخُرٌ بَينَكُم وَتَكاثُرٌ فِى الأَموٰلِ وَالأَولـٰدِ......٢٠ ﴾...... سورة الحديد"وہاں اس کو کھول دیا کہ 'تکاثر' زیادہ تر مال میں اور اولاد میں ہوتا ہے۔ مقابلہ آرائی اور فخر اس چیز میں ہوتا ہے کہ ہمارا جتھا بڑا ہے، ہمارے پاس غنڈے، بدمعاش اورلڑنے والے زیادہ ہیں۔
جیسا کہ سورة الکہف میں فرمایا: ﴿فَقالَ لِصـٰحِبِهِ وَهُوَ يُحاوِرُهُ أَنا۠ أَكثَرُ مِنكَ مالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا ٣٤ ﴾"سورة الکہف میں ایک کافر اور ایک موٴمن کا مکالمہ درج کیا گیاہے۔ وہاں کافر کہتا ہے کہ میں تجھ سے مال میں زیادہ ہوں اور میری جمعیت اور میرا جتھا بڑا قوی ہے۔
اسی طرح قرآن میں ایک جگہ اجمال ہے اور اس کی تفسیر دوسری جگہ ہے۔ یہاں تفصیل میں جانے کا وقت نہیں، صرف چند اشارات کردیئے ہیں۔ جس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے اتنا کافی نہیں کہ آپ کہیں سے کوئی ایک آیت لے لیں اور یہ سمجھیں کہ بس ہم نے قرآن مجید کو سمجھ لیا ہے بلکہ قرآنِ مجید کو سمجھنے کے لئے پورے قرآن مجید پر نگاہ ڈالی جاتی ہے اور ایک آیت کی تفسیر دوسری جگہ مل جاتی ہے۔
فہم قرآن کا دوسرا ذریعہ...سیاق وسباق
قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے دوسرا ذریعہ اس کا سیاق وسباق ہے۔ قرآن مجید کے آگے پیچھے کی عبارت اور آیات سے بھی مطلب حل ہوجاتا ہے۔ اگر درمیان سے آپ نے کوئی ایک آیت لے لی اور نہ سیاق دیکھا نہ سباق۔ سباق کے معنی ہیں کہ پہلی آیات میں کیا ہے اور سیاق کے معنی کہ بعد کی آیات میں کیا ہے۔ سیاق و سباق سے بے پرواہ ہو کر اگر آپ قرآن مجید میں غور کرتے ہیں تو اس سے قرآن مجید کا اصل مفہوم آپ کو نہیں مل سکے گا اور فہم قرآن میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے بلکہ مغالطہ ہوسکتا ہے
مثلاً قرآنِ مجید میں ایک جگہ آتا ہے: ﴿أَوَلَم يَكفِهِم أَنّا أَنزَلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ يُتلىٰ عَلَيهِم ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَرَحمَةً وَذِكرىٰ لِقَومٍ يُؤمِنونَ ٥١ ﴾..... سورة العنكبوت"فرمایا: "کیا ان کوکافی نہیں ہے کہ ہم نے ان پر کتاب اُتاری ہے جس میں موٴمنوں کے لئیرحمت ہے اور نصیحت ہے "۔ اب اس آیت کو ان لوگوں نے مغالطہ دینے کے لئے چن لیا ہے جو حدیث کو حجت نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے اس آیت کی رو سے قرآن کافی ہے۔ حدیث اور سنت کی کیا ضرورت ہے۔ ان مغالَطوں کی باقاعدہ کتابوں اور رسالوں میں اشاعت ہورہی ہے اور ان نوجوانوں کو جو قرآن مجید کو نہیں سمجھتے یا ان کا قرآن مجید سے تعلق نہیں رہا ہے، مغالطہ میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ اور ان کے ذہن میں یہ بٹھانے کی کوشش ہورہی ہے کہ حدیث و سنت کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں، قرآن خود کہہ رہا ہے کہ ہمارے لئے توبس قرآن کافی ہے۔ لیکن آپ اگر یہ دیکھیں کہ اس کا سیاق و سباق کیا ہے، اس سے پہلے کیا ہے، کس کے جواب میں یہ کہا گیاہے تو سمجھنے میں دقت پیش نہیں آئے گی۔اس سے پہلے یہ آتا ہے﴿وَقالوا لَولا أُنزِلَ عَلَيهِ ءايـٰتٌ مِن رَبِّهِ....٥٠ ﴾..... سورة العنكبوت" اس نبی پر ربّ کی طرف سے نشانیاں کیوں نہیں نازل ہوتیں۔ ان کا مطالبہ معجزوں کے لئے تھا جس طرح حضرت موسیٰ کو معجزہ دیا گیا تھا کہ سمندر پھٹ گیا اور قافلہ گذر گیا۔ حضرت عیسیٰ کو معجزات دیئے گئے تھے جنہیں لوگ آنکھوں سے دیکھتے تھے کہ کس طرح کوڑھیوں کو اچھا کرتے ہیں،اندھوں کو بینا بناتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے معجزات اور اس طرح کی نشانیاں رسولِ اکرم کو کیوں نہیں دی گئیں۔ تویہ تھا ان کا سوال ان آیات کو پھر پڑھئے :
﴿وَقالوا لَولا أُنزِلَ عَلَيهِ ءايـٰتٌ مِن رَبِّهِ ۖ قُل إِنَّمَا الءايـٰتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّما أَنا۠ نَذيرٌ مُبينٌ ٥٠ أَوَلَم يَكفِهِم أَنّا أَنزَلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ يُتلىٰ عَلَيهِم ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَرَحمَةً وَذِكرىٰ لِقَومٍ يُؤمِنونَ ٥١ ﴾..... سورة العنكبوت
" نیز کہتے ہیں کہ اس پر اسکے ربّ سے معجزے کیوں نہ نازل ہوئے آپ کہیے کہ معجزے اللہ کے پاس ہیں اورمیں تو واضح ڈرانے والا ہوں۔کیا انہیں کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ اس میں ایمان لانے والوں کیلئے یقینا رحمت اور نصیحت ہے ۔"
یہ زندہ معجزہ ہے جوقیامت تک کے لئے ہے۔ آخر اس معجزہ کے ہوتے ہوئے پھر وہ کہتے ہیں کہ ایسے معجزے دکھاؤ جیسے کہ دوسرے انبیاء کرام نے دکھائے۔ یہاں وہ بات بنتی نہیں ہے جو منکرین حدیث بنانا چاہتے ہیں۔ یہاں نہ حدیث کے ردّ کا سوال ہے، نہ اس کے عدمِ حجیت کا معاملہ ہے۔ یہاں جو ان کا اصل سوال اور مقصد تھا کہ محسوس معجزات دکھاؤ، تواس کا ردّ کیا گیا ہے۔ تو معلوم یہ ہوا کہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ قرآن مجید کا سیاق و سباق بھی ہمارے سامنے رہے۔ لیکن اگر وہ سامنے نہیں رہتا تو ایسی صورت میں یہ عین ممکن ہے کہ ہم غلط راستے پر چلے جائیں۔ اس سلسلہ میں اور بھی بہت سی مثالیں ہوسکتی ہیں لیکن اس وقت میں اسی مثال پر اکتفا کروں گا۔
قرآن فہمی کا تیسرا ذریعہ...تعامل اُمت
قرآن فہمی کے لئے تیسرا ذریعہ تعامل اُمت ہے۔ یعنی پوری امت کا جو تعامل چلا آرہا ہے وہ بھی قرآن مجید کے فہم میں معاون ہے۔ اگر تعامل اُمت کو آپ نظر انداز کردیں تو پھر ایسی صورت میں قرآن مجید کا فہم حاصل نہیں ہوسکتا۔ تعامل سے مراد ہے عہد ِنبوی سے لے کر صحابہ کے دور میں، تابعین کے دور میں، محدثین اور فقہا کے دورمیں اس پر کیسے عمل کیا گیا۔ مفسرین کے دور سے لے کر اب تک جو بات لوگوں میں دین کے نام سے رائج چلی آرہی ہے، وہ قرآن کے لئے بہترین تفسیر ہے۔ یہ نہیں کہ ساتویں صدی ہجری سے لے کر اب تک جو رسم و رواج اور بدعات رائج ہوگئیں، ان کو ہم تعامل امت کہہ دیں۔ وہ تعامل اُمت نہیں کہلائی جاسکتیں۔ مثلاً قرآن مجید میں آتا ہے﴿ أقِيْمُوْا الصَّلٰوٰةَ﴾ نماز قائم کرو۔ اب یہ نماز کس طرح قائم کریں، کتنی رکعات ظہر کی ہیں اور کتنی عصر کی ۔ یہ تعامل ہے، یہ تواتر ہے جس کا انکار ایسے ہی ہے جیسے قرآن مجید کا انکار۔ جس طرح قرآن مجید تواتر سے ثابت ہے، اسی طرح نماز کی رکعات بھی۔ ایک مرتبہ میں یہی مضمون بیان کر رہا تھا کہ میری زبان سے غلطی سے عصر کی تین رکعتیں نکل گئیں۔ فوراً آوازیں آئیں، چار رکعتیں، چار رکعتیں۔ میں نے کہا کہ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ یہ کتنا مشہور مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح ہم آہستہ آہستہ سنت سے بیگانہ ہوکر بدعات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اذان، نماز کی رکعات کی تعداد تعامل اُمت سے ثابت ہیں۔
پانچ کا لفظ قرآن مجید میں نہیں آیا ہے۔ لیکن تمام اُمت کا تعامل ہے کہ پانچ وقت کی نماز ہے۔ ہاں منکرین حدیث میں سے بعض نے کہا تین وقت، کسی نے کہا دو وقت، کسی نے کہا ایک وقت، کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ، یہ الگ مضمون ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ تعامل کا جو انکار کرتا ہے وہ قرآن مجید کا منکر ہے۔ 'تعامل' حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ امت کے تعامل سے احادیث کے مضمون کی تائید ہوجاتی ہے، اس طرح دونوں کو ایک دوسرے سے تقویت حاصل ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید کے فہم کا یہ تیسرا ذریعہ ہے۔ ورنہ آپ حج کیسے کریں گے؟ حج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، صحابہ کرام نے کیا ہے، جزئیات میں اختلاف ہے لیکن جو بنیادی اور اہم چیزیں ہیں مثلاً طواف، سعی، اِحرام ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
فہم قرآن کا چوتھا ذریعہ... اخبار آحاد
اس کے بعد فہم قرآن کا چوتھا ذریعہ ہے :اخبار آحاد یعنی وہ احادیث جن کا درجہ تواتر کا نہیں ہے لیکن وہ صحیح روایات ہیں۔ ثقہ راویوں سے وہ روایات ہم تک پہنچی ہیں۔ ان روایات کی بنیاد پر ہم یہ کہیں گے کہ اگر قرآن مجید کی کسی آیت کا مطلب ہم سمجھنا چاہتے ہیں جو سیاق و سباق، کسی دوسری آیت یا تعامل امت سے ہم نہیں سمجھ سکے ہیں تو پھر ہم نبی اکرم کی ثابت شدہ سنت کی طرف رجوع کریں گے۔ ثقہ راویوں سے جو چیز ہمیں حاصل ہوئی ہو، اس کی مدد سے ہم قرآن مجید کو سمجھیں گے۔
پہلی مثال: قرآن مجید میں آتا ہے: ﴿وَالَّذينَ يَكنِزونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ وَلا يُنفِقونَها فى سَبيلِ اللَّهِ فَبَشِّرهُم بِعَذابٍ أَليمٍ ٣٤ ﴾..... سورة التوبة "جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں، اوراللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں ان کو دردناک عذاب کی بشارت دے دو"۔
صحابہ کرام تو اہل زبان تھے۔ جب انہوں نے یہ آیت سنی تو پریشان ہوگئے۔ کنز کے معنی جمع کرنے کے ہیں خواہ تھوڑا مال ہو یا زیادہ۔ انہوں نے کہا: أينا لم يکنز ہم میں سے کون ہے جس کے پاس کنز نہیں ہے۔ تھوڑا بہت سونا چاندی تو تقریباً سب کے پا س ہے۔ اب کیا عذاب جہنم کی سب کے لئے بشارت ہے؟ حضرت عمر نے کہا کہ میں رسول اکرم کی خدمت میں جاتاہوں اورپوچھتا ہوں کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ ابوداود کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:« ماأدی منه زکوٰة فلیس بکنز»"جس مال میں سے زکوٰة نکال دی جائے، شریعت کے مطابق غریبوں کا حق دیا جائے، وہ کنز نہیں رہتا۔"
یہاں اگر آپ لغت کے لحاظ سے دیکھیں گے تو کنز بن جاتا ہے خواہ تھوڑا مال ہویا زیادہ۔ لیکن رسول اکرم نے اس کی تشریح کردی اور ایک دوسری حدیث میں آتا ہے، آپ نے فرمایا: «إن الله لم يفرض الزکوٰة إلا ليطيب ما بقي من أموالکم»" اللہ تعالیٰ نے زکوٰة اس لئے فرض کی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے باقی ماندہ مال کو پاک کردے"۔ زکوٰة نکالنے کے بعد جو مال بچے گا وہ مال پاک ہوگا۔
کیا قرآن مجید اپنامفہوم بیان کرنے میں حدیث کا محتاج ہے ؟ یہ ایک مثال ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے سنت اور حدیث کے محتاج ہیں۔ منکرین حدیث یہ کہہ دیتے ہیں کہ کیا قرآن ناقص ہے؟ کیا قرآن ادھورا ہے جو ہم سنت کو مانیں؟ کیا ہمارے لئے قرآن کافی نہیں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید تو اپنے مطالب میں ناقص اور ادھورا نہیں ہے لیکن ہم اس کو سمجھنے کے لئے سنت کے محتاج ہیں جس طرح کہ ہم عربی زبان کے محتاج ہیں۔ کیا کوئی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ بغیر عربی زبان جانے وہ قرآن مجید سمجھ جائیں گے۔ قرآن مجید عربی زبان میں ہے تو عربی زبان بھی سمجھیں۔اس کے معنی یہ نہیں کہ چونکہ آپ عربی زبان کے محتاج ہیں، اس لئے قرآن مجید ناقص ہے۔ قرآن مجید محتاج نہیں، ہم عربی زبان کے محتاج ہیں۔اس طرح ہم محتاج ہیں رسول اکرم کی تشریح و تفسیر کے کہ جس ہستی پر قرآن مجید نازل ہوا تھا، اس ہستی نے اس آیت کا کیا مطلب سمجھا تھا۔ اگر ہم اس سے بے نیاز ہوجاتے ہیں اوراپنی طرف سے مطلب بیان کرتے ہیں تو حقیقت میں ہم سیدھے راستے سے بھٹک رہے ہیں اور قرآن مجید کا جو اصل مقصد ہے کہ﴿لِتُخرِجَ النّاسَ مِنَ الظُّلُمـٰتِ إِلَى النّورِ﴾ کہ بجائے ظلمات سے نکلنے کے ہم ظلمات ہی میں ڈوبے رہیں گے کہ ایک تاریکی سے نکلیں گے، دوسری تاریکی میں چلے جائیں گے۔
دوسری مثال: اسی طرح قرآنِ مجید میں آتا ہے: ﴿يوصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم ۖ لِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ......١١ ﴾...... سورة النساء"یہاں پر کوئی تفصیل نہیں ہے کیسی اولاد ہو۔ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے «لایرث القاتل»کہ بیٹے نے اگر باپ کو قتل کردیا تو وارث نہیں ہوگا۔ مزید برآں حدیث نے یہ مفہوم بیان کردیا کہ اختلافِ دین ہونے کی بنا پر یا قاتل ہونے کی بنا پر وہ اپنے باپ کا وارث نہیں ہوسکتا۔
تیسری مثال: قرآن مجید میں آتا ہے لیکن قرآن میں صرف اشارہ ہے اورحدیث میں وضاحت کردی گئی ہے کہ اس آیت کے کیا معنی ہیں۔ قرآن مجید میں محرماتِ ابدیہ کا بیان ہوا ہے۔ نکاح کے لئے مائیں حرام ہیں، بیٹیاں حرام ہیں اور بہنیں حرام ہیں۔ لمبی آیت ہے اور اس کے بعد فرمایا کہ اس کے علاوہ تمہارے لئے حلال ہے لیکن رسول اکرم نے فرمایا: (آپ کا اجتہاد بھی وحی کی روشنی میں تھا) آپ نے فرمایا:« لايجمع بين المرأة وعمتها وبين المرأة وخالتها»کہ پھوپھی اور بھتیجی ، خالہ اور بھانجی کو بیک وقت ایک شخص کے نکاح میں رکھنا حرام ہے۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر نہیں ہے لیکن قرآن مجید میں یہ ذکر ہے کہ ﴿وَأَن تَجمَعوا بَينَ الأُختَينِ﴾ " دو بہنوں کو جمع کرنا حرام ہے"۔
اس کی وجہ کیا ہے کہ جب دو سگی بہنیں سوکنیں بن جائیں گی تو سوکن کے رشتہ میں ایک قسم کی رقابت اورعداوت ہوتی ہے۔ اوربہنیں ہونے کا رشتہ یہ چاہتا ہے کہ دونوں میں محبت ہو۔ گویا اس طرح سے دونوں میں قطع تعلق ہوجائے گا۔ اسی لئے ایک حدیث میں ہے، ابن حبان کی روایت ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا: «إذا فعلتم ذلك قطعتم أرحامکم» کہ اگر تم نے ایسا کیا تو تم اپنے رشتوں کو کاٹ ڈالو گے۔ دو بہنوں میں محبت ہوتی ہے ،وہ نہیں رہے گی۔ ٹھیک اسی طرح پھوپھی اور بھتیجی، خالہ اور بھانجی ان کا قریبی رشتہ ہے، دونوں میں محبت ہے جو فطری چیز ہے۔ اب اگر دونوں بیک وقت ایک شخص کے نکاح میں ہوں گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ دونوں سوکنیں بن جائیں گی۔ آپس میں رقابت اور عداوت پیداہوگی۔ اور ان کی محبت، نفرت میں تبدیل ہوجائے گی۔ یہ حکیمانہ تعبیر حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔
اس قسم کی روایات کو اگر آپ تسلیم نہیں کریں گے تو اسلامی نظام قائم نہیں ہوگا۔ قرآنِ مجید کو سمجھنے کے لئے اخبار آحاد یعنی وہ روائتیں جن کے بیان کرنے والے ایک یا دو یا تین ثقہ راوی ہیں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صحیح روایات کوبھی قرآن فہمی میں دخل ہے اور ان کے بغیر ہم قرآن مجید کو نہیں سمجھ سکتے۔ اختصار کے پیش نظر انہی مثالوں پر اکتفا کرتا ہوں۔
قرآن فہمی کا پانچواں ذریعہ... آثارِ صحابہ کرام
اس کے بعد ایک ذریعہ آثارِ صحابہ کاہے، صحابہ کرام کے اقوال، بالخصوص عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس ، اُبی بن کعب اوروہ لوگ جنہوں نے قرآن مجید کی خدمت کی ہے۔ ان کے سامنے قرآن مجید نازل ہوا ہے لہٰذا ان کی تفسیر کو مانا جائے گا۔ اگر کہیں ان میں اختلاف ہو تو جو قول قرآن مجید سے زیادہ قریب ہو، اس کو لیا جائے گا۔ یہ بھی ضروری ہے، اس کی مثال لیجئے۔
امام بخاری نے صحیح بخاری میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس آیااور اس نے کہا کہ ہم قرآن مجید پڑھتے ہیں اوراس کیآیات میں تعارض پایا جاتا ہے، ٹکراؤ اور تصادم پایا جاتا ہے۔ ایک جگہ 'ہاں' ہے، ایک جگہ'نہیں' ہے تو وہاں ہم کیا کریں۔ انہوں نے کہا کہ بتاؤ وہ کون سی آیات ہیں تاکہ میں بھی جانوں کہ تمہارے ذہن میں کیا خلجان ہے؟
سائل نے کہا کہ قرآن مجید میں ایک جگہ آتا ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی تو مشرکین اللہ تعالیٰ کے دربار میں جاکر کہیں گے: ﴿وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنّا مُشرِكينَ ٢٣ ﴾..... سورة الانعام "قسم اللہ کی! ہم تو مشرک نہیں تھے۔ ہم نے تو شرک نہیں کیا۔" وہ انکار کریں گے یعنی اس طرح وہ اپنے شرک کو چھپائیں گے جیسے دنیا کے رشوت خور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تو رشوت نہیں لی۔ جبکہ دوسری آیات میں آتا ہے﴿وَلا يَكتُمونَ اللَّهَ حَديثًا ٤٢ ﴾..... سورة النساء" اور وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے۔ یہاں ٹکراؤہوگیا کہ مشرکین نے چھپایا تو ہے جیسا کہ پہلی آیت میں ہے لیکن دوسری آیت میں آتا ہے کہ وہ چھپا نہیں سکیں گے تو اس کا کیا مطلب ہے۔ اس وقت حضرت عبداللہ بن عباس نے وضاحت فرمائی کہ یہ ایک وقت میں نہیں بلکہ ایسا دو اوقات میں ہوگا۔ شروع میں تو کفار یہ سمجھیں گے کہ یہ دربار بھی ہمارے دنیاوی حکام اور بادشاہوں کی طرح ہے۔ اگر ہم یہاں جھوٹ بول دیں اورکچھ چھپالیں تو ہوسکتا ہے کہ کام چل جائے۔ اس بنا پر وہ کہیں گے کہ ﴿وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنّا مُشرِكينَ﴾ وہ اس طرح جھوٹ بول دیں گے کیونکہ انہیں جھوٹ بولنے کی عادت رہی ہے۔ لیکن اس کے بعد پھر یہ ہوگا کہ : ﴿اليَومَ نَختِمُ عَلىٰ أَفوٰهِهِم وَتُكَلِّمُنا أَيديهِم وَتَشهَدُ أَرجُلُهُم بِما كانوا يَكسِبونَ ٦٥ ﴾..... سورة يس "اس دن ہم ان کے مونہوں پرمہر لگا دیں گے ،ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں اس کی گواہی دیں گے جو وہ کسب کیا کرتے تھے" ... اللہ تعالیٰ مہر لگا دیں گے۔ جب مہر لگ جائے گی تو یہ اَعضا و جوارح گواہی دیں گے: منہ بند، زبان بند، مہر لگ گئی۔ اب یہ اعضا و جوارح یہ ہاتھ پاؤں، آنکھ، کان گواہی دیں گے کہ کیا دیکھا تھا، ہاتھوں سے کیا پکڑا تھا۔ قدم کہاں کہاں بڑھائے تھے، اس وقت کوئی بات نہیں چھپائی جاسکے گی۔ تو یہ دو مرحلے اور دو وقت ہیں۔ اب یہ ایک صحابی کی تفسیر ہے۔اس کے بعد اس آدمی نے ظاہراً قرآن کریم کی چند باہم متعارض آیات کا تذکرہ کیا جن کی حضرت ابن عباس نے شافی وضاحت فرمائی جیسا کہ کتب ِحدیث میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔
ایک اعتراض یہ کیا جاتاہے کہ لوگ حدیث میں اتنے مشغول ہوگئے ہیں کہ قرآن بھول گئے اور قرآن سے تعلق کم ہوگیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود محدثین نے جو خدمت کی ہے وہ تو قرآن مجید کی خدمت ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ سائل نے چار آیات پیش کیں اوران سب کا جواب عبداللہ ابن عباس دیتے ہیں۔ امام بخاری اس کو تفسیر سورئہ حم سجدہ میں نقل کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث جو پڑھتے اورپڑھاتے ہیں وہ حقیقت میں قرآنِ مجید سے قریب ہوتے ہیں نہ کہ دور۔
اسی طرح ایک اور تفسیر سنئے: آج کل جو غلط ماحول چل رہا ہے اس میں شائد یہ تفسیر نہایت اچنبھے سے سنی جائے لیکن بہرحال ایک حق بات ہے، جس کو صاف کہہ دینا چاہئے۔ قرآنِ مجید میں آتا ہے: ﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ......٦ ﴾..... سورة لقمان"کہ لوگوں میں سے وہ ہیں جو خریدتے ہیں لهوالحديث یعنی ایسی باتیں جو لھو ہیں۔ لھو کیا چیز ہے: «کل کلام یلھي عن ذکر اللہ»"ہر وہ کلام جو اللہ کے ذکر سے غافل کردے وہ لھو الحدیث "...اس کی تفسیر عبداللہ بن مسعود کرتے ہیں، ترمذی کی روایت ہے۔ وہ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں:
«والله الذي لا إله إلا هو » كى قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ لهوالحديث کیا ہے، اس کا بڑا مصداق الغنا ہی یعنی ناچ گانے، یہ گانے بجانے۔ اس کا وہی نشہ ہے جو شراب کا ہوتا ہے "
اور دوسرے صحابی اس کی تفسیر کرتے ہیں: الغناء ینبت النفاق، غنا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے یعنی انسان اس طرح مست ہوجاتا ہے کہ اسے نہ قرآن میں لذت حاصل ہوتی ہے۔ بس وہ چاہتا ہے کہ ریڈیو، ٹی وی اور دوسرے ذرائع سے اچھے ُسررکھنے والے مغنی اور مغنّیات کا گانا سنتا رہے۔ اس کو اسی میں لطف آتا ہے۔ اسی میں اُسے لذت محسوس ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے لھو کی تفسیر غنا سے کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید کے فہم کے لئے صحابہ کرام کی تفسیر بھی قابل اعتماد ہے۔ بہت سے وہ مقامات جو ہمارے لئے مشکل ہیں، ان کو انہوں نے حل کیا ہے۔ کیونکہ ان کے سامنے قرآنِ مجید نازل ہوا اور وہ جانتے تھے کہ رسول اکرم نے کیا تفسیر کی ہے اورانہیں کس طرح سمجھایا ہے۔
اس کے بعد تابعین کے اَقوال ہیں۔ جوصحابہ کے شاگرد تھے۔ قتادہ اور دوسرے تابعین ہیں۔ ان کے اَقوال کو بھی دیکھا جائے گا کہ انہوں نے کیا کہا ہے۔ تفسیر بالرائے جب بھی کوئی کرے گا تو اس سے قرآن مجید نعوذ باللہ بازیچہ اَطفال بن جائے گا جیسے ایک صاحب نے تفسیر کی تھی :
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم........٥٩ ﴾..... سورة النساء
"اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرواور اولی الامر کی اطاعت کرو"
﴿أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ﴾ سے مراد انہوں نے مرکز ِملت لیا۔ یعنی وہ حکومت جو اللہ تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کو چلانے کے لئے قائم ہو۔ اُولی الأمر سے مراد انہوں نے تھانیدار وغیرہ کو لیا۔ اس طرح آدمی اپنے ذہن سے جوکچھ، اس میں غلط سلط بیٹھ گیا ہے، اس کے مطابق اپنی طرف سے تفسیر کرتا ہے اور قرآن مجید سے دور ہوجاتا ہے۔
قرآن فہمی کا چھٹا ذریعہ... عربی زبان
قرآن مجید کے فہم کے لئے چھٹا ذریعہ عربی زبان ہے۔ تفسیر قرآن کے لئے عربی زبان کا جاننا بھی ضروری ہے۔ بعض لوگ عربی زبان نہیں جانتے لیکن قرآن مجید کے مفسر بن جاتے ہیں۔ بلادِعجم میں بھی ایسے لوگ ہیں اور پاکستان وہندوستان میں بھی پائے جاتے ہیں جو عربی نہیں جانتے لیکن انگریزی یا اُردو ترجمہ دیکھ کر تھوڑی سی ذہانت کی بنا پر مفسر قرآن بن بیٹھتے ہیں۔ یہ انتہائی غیر ذمہ داری ہے کہ آدمی قرآن مجید کی تفسیر بیان کرتا ہو لیکن عربی زبان سے نابلد ہو۔ زبان کا ذوق پیدا کیا جانا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سارے علامہ بن جائیں لیکن جب تفسیر لکھنے بیٹھے یا کوئی تفسیر بیان کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس نے عربی زبان کی تعلیم میں کچھ وقت لگایا ہو۔
اس کی مثالیں ملتی ہیں مثلاً ایک تفسیر قادیانیوں کے خلیفہ نورالدین نے بھی کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تفسیر معاندانہ ہے، جاہلانہ نہیں «فَاضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَرَ» کے معنی یہ ہیں کہ اے موسیٰ! تم لے جاؤ اپنی جماعت کو پہاڑ پر۔ ضرب کے معنی مارنے کے آتے ہیں، اس کے معنی سفر کرنے کے بھی آتے ہیں۔ قرآن میں آتا ہے ﴿إِذا ضَرَبوا فِى الأَرضِ﴾ اور عَصَا کے معنی جماعت کے بھی آتے ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے "شق عصا المسلمين" یہاں عصا کے معنی جماعت کے ہیں۔ تو جماعت بھی انہوں نے لغت سے ثابت کردیا اور ضرب کے معنی بھی عرب لغت سے ثابت ہوگئے۔ حجر کے معنی پتھر کے ہیں یعنی اس سے پہاڑ مراد ہے کیونکہ وہ پتھروں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ قادیانی اور اسی قسم کے لوگ چونکہ حدیث کے منکر ہیں، اس لئے انہوں نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ
"اے موسیٰ !اپنی جماعت کو پہاڑ پر لے جاؤ۔ پہاڑ کا سفر کراؤ، پہاڑ کی سیر کراؤ ۔"
حالانکہ عربی قاعدہ سے دیکھا جائے تو یہ ترجمہ غلط ہوگا۔ اگر تھوڑی سی عربی آتی ہو تو ایسا ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ ﴿اضرِب بِعَصاكَ الحَجَرَ﴾ ضرب کے بعد اگر فی آئے تو اس کے معنی سفر کے آتے ہیں۔ اگر فی نہ آئے تب اس کے معنی چلنے کے اور سفر کرنے کے نہیں آتے۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی آیا ہے تو ضرب فی الارض اور ضربوا فی الارض، جہاں کہیں بھی چلنے اور سفر کرنے کے معنی میں آیا ہے وہاں اس کے بعد فی آیا ہے۔ یہاں چونکہ فی نہیں آیا، اس لئے یہاں سفر کرنے کے معنی نہیں ہوسکتے۔
لغت اور عربی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر یہ ترجمہ کیا گیا ہے، اس لئے عربی جاننا ضروری ہے۔ کم سے کم اتنی عربی تو آئے کہ قرآن مجید کو سمجھ سکیں۔ ترجمہ کی مثال اس طرح سمجھئے کہ ایک چیز تو ہوتی ہے لسی اور ایک ہوتا ہے خالص دودھ۔ جو مزہ خالص دودھ میں ہوتاہے وہ لسی میں نہیں ہے۔ ترجمہ ، ترجمہ ہے، ترجمہ کے اندر بھی مترجم کا کچھ نہ کچھ تخیل آجاتاہے۔ اس کے کچھ خیالات اور جذبات تواس میں آجاتے ہیں لیکن کلام کی اصل معنویت اور فصاحت وبلاغت انسان پا نہیں سکتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عربی زبان کی نزاکتوں سے واقفیت ہو تو پھر قرآن مجید کا فہم، اس کی حلاوت، اس کی مٹھاس اور اس کی شیرینی سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ ورنہ ترجمہ سے صرف یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ حلال کیا ہے، حرام کیا ہے، اللہ تعالیٰ کو کیا چیز پسند ہے اورکیا ناپسند۔ میں سمجھتاہوں کہ بوڑھے بوڑھے لوگ اب اس عمر میں عربی کیا پڑھیں گے لیکن نوجوانوں کو سو چنا چاہئے کہ عربی زبان سیکھیں۔ جتنا وقت وہ معاش اور دوسرے کاموں میں صرف کرتے ہیں اس میں روزانہ یا ہفتہ میں کم ا زکم دو تین گھنٹے عربی زبان سیکھنے کے لئے نکالیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو حقیقت میں وہ قرآن مجید کے بہت قریب ہوجائیں گے۔اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں کہ لوگوں نے غلط انداز اختیار کیا ہے لیکن میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔
ایک عیسائی کے اعتراض کا جواب: 'رحمن' اور 'رحيم' کا مادہ ایک ہی ہے تو یہ دونوں لفظ لانے کی کیا ضرورت تھی؟ رحمن اور رحیم میں فرق ہے۔ رحمان بروزن فعلان جس کے مفہوم میں جوش اور تلاطم پایا جاتا ہے، رَحِيْمٌ بروزن فَعِيْلٌ، اس کے مفہوم میں دوام اور پائیداری پائی جاتی ہے، یعنی رحمن وہ ہے جس کی رحمت بے پایاں ہے گویا رحمت کا سمندر جوش مار رہا ہے، رحیم کا مطلب ہے وہ ہستی جس کی رحمت ہمیشہ رہنے والی ہے، کبھی ختم نہ ہوگی۔
عربوں کے تمدن سے واقفیت : اسی طرح عربوں کے تمدن اور ان کے عادات سے بھی واقف ہونا ضروری ہے۔ جس ماحول میں قرآن مجید نازل ہوا تھا، اس سے بھی ہم باخبر ہوں۔ قرآن مجید میں آتا ہے ﴿وَلَيسَ البِرُّ بِأَن تَأتُوا البُيوتَ مِن ظُهورِها وَلـٰكِنَّ البِرَّ مَنِ اتَّقىٰ ۗ وَأتُوا البُيوتَ مِن أَبوٰبِها......١٨٩ ﴾...... سورة البقرة"یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم مکان کے پچھواڑے سے آؤ بلکہ نیکی یہ ہے کہ تم تقوی اختیار کرو اور دروازہ سے داخل ہو"
اب اس سے کیا سمجھا جائے، اس کا کیا مطلب ہے؟ ایسا کیوں فرمایا گیا ہے۔ اس آیت کو صحیح سمجھنے کے لئے عربوں کی عادات اوران کے تمدن سے واقفیت ضروری ہے۔عربوں کی یہ عادت تھی کہ جب وہ طواف کرنے جاتے تھے اورطو اف کرکے واپس آتے تھے توجس دروازے سے جاتے ، اس سے واپس نہیں آتے تھے۔ مقصد ان کا یہ تھا کہ طواف کرنے کے بعد اب پاک ہوگئے ہیں۔ اس لئے اس ناپاک دروازے سے داخل نہیں ہوں گے بلکہ پچھواڑے سے داخل ہوں گے۔ اب اگر ہمیں ان کی یہ عادت معلوم ہے تو قرآن مجید کا بیان سمجھ میں آجاتا ہے۔ قرآنِ مجید نے نیکی کے اس تصور کی تردید کی ہے کہ اگلے دروازے سے نہ آیا جائے بلکہ پچھواڑے سے آیا جائے، یہ کوئی نیکی نہیں ہے۔ نیکی تو تقویٰ کا نام ہے۔ تقویٰ اوراللہ کا خوف اختیار کرو۔
کتب ِسماویہ کی معرفت : اسی طرح قرآنِ مجید کو سمجھنے کے لئے کتب ِسماوی بھی معاون ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ ایک بڑا لمبا معاملہ ہے، لیکن جو لوگ چاہتے ہیں کہ قرآن مجید کو سمجھیں تو ایسی تفسیر جس میں موازنہ کیا گیا ہو،سمجھنے کے لئے بڑی معاون ثابت ہوتی ہے۔«وبضدھا تبیین الأشیاء» ضد سے اشیا کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے، نور کی قدر ظلمت سے ہوتی ہے۔ جب بجلی چلی جاتی ہے تو روشنی کی قدر ہوتی ہے۔جب بجلی آجاتی ہے تو روشنی ہوجاتی ہے اور خوشی ہوتی ہے۔
اسی طرح بائبل اور تورات میں موجود چیزوں کوسامنے رکھ کر قرآن مجید پڑھیں تو کہیں زیادہ لطف محسوس ہوتا ہے اور بعض الفاظ کے اضافہ کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں آتا ہے: ﴿وَلَقَد خَلَقنَا السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ وَما بَينَهُما فى سِتَّةِ أَيّامٍ وَما مَسَّنا مِن لُغوبٍ ٣٨ ﴾...... سورة ق" کہ "ہم نے آسمانوں ،زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کوچھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی"۔ یہ کیوں فرمایا گیا کہ ہمیں کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ کون ہے مسلمان جو ایسا سمجھے بلکہ یہ مشرکین کا بھی عقیدہ نہیں تھا کہ اللہ عزوجل تھک جاتے ہیں۔ لیکن جب تورات دیکھی تو کتاب پیدائش میں لکھاہوا ہے کہ اللہ میاں نے چھ دن میں آسمان اور زمین بنائے اور ساتویں دن آرام کیا۔ تو قرآن مجید نے کہا کہ ہمیں کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی۔ اگر تورات کا بیان سامنے ہو تو ﴿وَما مَسَّنا مِن لُغوبٍ﴾ کے سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ اللہ میاں کی طرف انہوں نے کیسی صفت منسوب کردی ۔
اسی طرح سورة الشمس میں آتا ہے ﴿فَدَمدَمَ عَلَيهِم رَبُّهُم بِذَنبِهِم فَسَوّىٰها ١٤ وَلا يَخافُ عُقبـٰها ١٥ ﴾..... سورة الشمس "قومِ ثمود کو اللہ تعالیٰ کے عذاب نے تباہ کردیا اور اللہ تعالیٰ کسی کے انجام کا خوف نہیں رکھتا" سو اس نے تباہ کردیا۔ اسے کوئی خوف نہیں ہے،کوئی ڈرنہیں کہ کیوں تباہ کیا ہے۔ یہ اس وجہ سے فرمایا کہ تورات کی کتاب الخروج میں لکھا ہے کہ قومِ ثمود کو تباہ کرنے کے بعد اللہ سبحانہ پچھتائے یعنی خدا پچھتایا، افسوس کیا اور نادم ہوا، ا س لئے قرآنِ مجید میں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے قومِ ثمود کو اس کے گناہوں کی وجہ سے تباہ کردیا۔ اس کے انجام سے اللہ تعالیٰ کو کوئی خوف نہیں۔ پچھتانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ تو قادرِ مطلق ہے، اس کو انسانوں پر قیاس کیوں کرتے ہو؟ یہ مختلف ذرائع ہیں جن کی بنا پر ہم قرآن مجید کو سمجھ سکتے اور اس پر غور کرسکتے ہیں۔
فہم قرآن کے لئے صرف لغت کافی نہیں: قرآن مجید کی تفسیر قرآن مجید سے، حدیث سے اور پھر لغت سے۔ اوریہ بھی سمجھ لیجئے کہ لغت کافی نہیں ہے کہ سنت کو آپ چھوڑکرمحض لغت کو لے بیٹھیں۔ 'قاموس' یا 'المنجد' کولے کر بیٹھ جائیں کہ قرآن کوحل کرلیں گے، یہ بھی غلط ہے۔ بہت سے کلمات، بہت سے اَلفاظ ایسے ہیں کہ جن کی تشریح شارح نے کی ہے لیکن لغت میں اس کے کچھ اور معنی ہیں۔ اَب لغت میں صلوٰة کے معنی دعا (Prayer,Pray)کے آتے ہیں لیکن صلوٰة صرف دعا تو نہیں ہے۔ صلوٰة دین کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ حج کے معنی عربی زبان میں 'قصد کرنے' کے آتے ہیں لیکن شریعت میں اس اصطلاح کے ایک خاص معنی ہیں۔ یہ ایک عبادت ہیجس کے خاص آداب، خاص شرائط اور خاص تعریف ہے۔ اسی طرح زکوٰة اور صوم ہے۔ صوم' صبر'کے معنی میں آتا ہے لیکن شریعت میں اس کے کچھ اور معنی ہیں۔ لہٰذا بہت سے اَلفاظ شریعت کے ایسے ہیں کہ جن کو سمجھنے کے لئے لغت کافی نہیں ہے۔ لیکن بہرحال بہت سے اَلفاظ قرآن مجید میں ایسے بھی ہیں کہ جن کے لئے ہمیں لغت کی ضرورت پڑتی ہے نیز جاہلیت کے اَشعار کی مدد سے بھی ہم قرآن مجید سمجھ سکتے ہیں۔
قرآن فہمی کی راہ میں موانع
1۔ ذہن میں ایک نظریہ/خیال بٹھا کر قرآن سے اس کی تائید تلاش کرنا: کچھ موانع اور رکاوٹیں ایسی ہیں جو قرآن فہمی میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ انسان ایک خیال اپنے دل میں جما لیتا ہے اور پھر قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے کہ میں نے جو خیال اپنے دل میں جمالیا ہے یا کسی قوم سے چرا لیا ہے یا کسی کی نقالی کی ہے۔ وہ خیال، وہ نظریہ، وہ فکر اب میں قرآن مجید سے ثابت کروں حالانکہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے ضروری یہ ہے کہ انسان خالی الذہن ہو کر پڑھے کہ اس مسئلہ میں قرآن مجید کیا رہنمائی دیتا ہے۔ تب تو وہ کامیاب ہوسکتا ہے ورنہ نہیں۔
ایک اشتراکی ذہن رکھتاہے، اب وہ اگر قرآن مجید پڑھے گا تو کوشش یہ کرے گا کہ ہر جگہ وہ ایسی آیت ڈھونڈے یا ایسا معنی بیان کرے کہ جس سے انفرادی ملکیت کی نفی ہو اور قومی ملکیت ثابت ہو۔ اسی طرح ایک سرمایہ دار یا بہت بڑا جاگیردار ہے۔ اس کی خواہش یہ ہوگی کہ میں قرآن سے ایسی آیتیں تلاش کروں اور ایسا مطلب نکالوں کہ جس سے سود بھی جائز ہوجائے اور ساری چیزیں جائز ہوجائیں، حرام بھی حلال ہوجائے۔ یہ رویہ انتہائی خطرناک ہیجس کی بنا پر ہم قرآن مجید سے بہت دور ہوجائیں گے۔
قرآن کریم میں لفظ 'حدیث'کا معنی ؟ : اسی طرح ایک او رمثال دیکھیں کہ جو لوگ حدیث کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے قرآن ہی کافی ہے۔ اب جب وہ قرآن مجید پڑھتے ہیں تو ہر جگہ انہیں نظر آتا ہے کہ حدیث حجت نہیں ہے۔ ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں، انہوں نے کتاب لکھی: "مقامِ حدیث" اس میں لکھا ﴿فَبِأَىِّ حَديثٍ بَعدَهُ يُؤمِنونَ ٥٠ ﴾..... سورة المرسلات" اس کا ترجمہ کیا: کس حدیث پر وہ ایمان لائیں گے قرآن کے بعد ؟ یہاں حدیث کا انکار کردیا۔ حالانکہ یہاں حدیث کے لغوی معنی مراد ہیں 'بات' اور بات کے معنی ہیں یعنی کس بات پر؟
یا مثلاً سورئہ لقمان کی یہ آیت پڑھ ڈالی ﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ.......٦ ﴾..... سورة لقمان
"لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو اس لیے بیہودگی خریدتا ہے کہ بغیر علم کے اللہ کی راہ سے بہکا دے اوراسی کا مذاق اڑائے، ایسے ہی لوگوں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔
اس کا ترجمہ ایک منکر حدیث نے اس طرح کیا ہے کہ "لوگوں میں سے وہ ہیں جو خریدتے ہیں حدیث کے مشغلے " جو دماغ میں پہلے سے لایا ہوا خیال /فتورہے تو لھو الحدیث سے وہی مراد لے لیا۔ حالانکہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ 'لہو الحدیث 'کے معنی ہیں ہر وہ کام/بات جو اللہ کے ذکر سے غافل کرنے والی ہو۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ لفظ حدیث جو قرآن مجید میں آیا ہے اس کے معنی بات کے ، کلام کے ہیں۔ اب یہ کلام اللہ تعالیٰ کا بھی ہوسکتا ہے اور رسول اکرم کا بھی ہوسکتا ہے۔ کلام صحابہ اور موٴمنین کا بھی ہوسکتا ہے اوریہ کلام کافروں، مشرکوں اور منافقوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں لغوی معنی مراد ہیں حدیث کے، شرعی معنی مراد نہیں ہیں۔ شرعی معنی اور ہیں، اصطلاحی معنی اور ہیں اور لغوی معنی اور۔ قرآن مجید میں جو حدیث کا لفظ آیا ہے وہ لغت کے لحاظ سے آیا ہے، اس سے حدیث ِرسول مراد نہیں ہے۔
مثلاً قرآن میں آتا ہے ﴿اللَّهُ نَزَّلَ أَحسَنَ الحَديثِ كِتـٰبًا مُتَشـٰبِهًا مَثانِىَ......٢٣ ﴾..... سورة الزمر"اللہ نے بہترین کلام نازل کیا جو ایسی کتاب ہے جس کے مضامین ملتے جلتے اور بار بار دہرائے جاتے ہیں" یہاں حدیث سے قرآن مجید مراد ہے یعنی تمام کلاموں میں بہترین کلام
یا جیسے قرآنِ مجید میں آتا ہے: ﴿ما كانَ حَديثًا يُفتَرىٰ وَلـٰكِن تَصديقَ الَّذى بَينَ يَدَيهِ وَتَفصيلَ كُلِّ شَىءٍ وَهُدًى وَرَحمَةً لِقَومٍ يُؤمِنونَ ١١١ ﴾..... سورة يوسف
"یہ قرآن کوئی ایسی باتیں نہیں جو گھڑ لی گئی ہوں بلکہ یہ تو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اس میں ہر بات کی تفصیل موجود ہے اورایمان لانے والوں کیلئے یہ ہدایت اور رحمت ہے"
حضرت یوسف کا قصہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ بات جو ہم نے بیان کی ہے، کوئی گھڑی ہوئی نہیں ہے، کوئی افترا نہیں ہے۔
اسی طرح سورة کہف کے شروع میں فرمایا ﴿فَلَعَلَّكَ بـٰخِعٌ نَفسَكَ عَلىٰ ءاثـٰرِهِم إِن لَم يُؤمِنوا بِهـٰذَا الحَديثِ أَسَفًا ٦ ﴾...... سورة الكهف"کہ "اے نبی! تم اپنے آپ کو اسی افسو س میں ہلاک کرلو گے کہ یہ لوگ اس حدیث پر ایمان نہیں لاتے"۔ یہاں حدیث سے مراد کیا ہے: قرآنِ مجید۔
کلام اللہ کو بھی حدیث کہتے ہیں، اسی طرح رسول اکرم ا کی بات کو بھی قرآن مجید میں حدیث کہا گیا ہے۔ سورة التحریم میں فرمایا: ﴿وَإِذ أَسَرَّ النَّبِىُّ إِلىٰ بَعضِ أَزوٰجِهِ حَديثًا......٣ ﴾...... سورة التحريم" کہ "جب نبی اکرم ا نے اپنی ایک بیوی سے ایک بھید کی بات کہی"۔
صحابہ کرام کی بات کو اور موٴمنین کی بات کو بھی حدیث کہا گیا ہے۔ سورة الاحزاب میں فرمایا: ﴿وَلا مُستَـٔنِسينَ لِحَديثٍ ۚ إِنَّ ذٰلِكُم كانَ يُؤذِى النَّبِىَّ فَيَستَحيۦ مِنكُم.........٥٣ ﴾...... سورة الاحزاب
یعنی کھانا کھانے کے بعد نبی اکرم ا کے گھر میں بیٹھ کر گپ شپ مت کرو۔ اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی ہے۔
یہ حدیث کا لفظ کفار اور مشرکین کے اَقوال اور ان کی بات چیت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا: ﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ.......٦ ﴾..... سورة لقمان
اور دوسری آیت میں فرمایا: ﴿وَقَد نَزَّلَ عَلَيكُم فِى الكِتـٰبِ أَن إِذا سَمِعتُم ءايـٰتِ اللَّهِ يُكفَرُ بِها وَيُستَهزَأُ بِها فَلا تَقعُدوا مَعَهُم حَتّىٰ يَخوضوا فى حَديثٍ غَيرِهِ.....١٤٠ ﴾..... سورة النساء"اور جب کوئی ایسی بات کر رہے ہوں جس میں استہزاء ہو، مذاق اڑا رہے ہوں، تو مسلمانوں کو چاہئے ان کے پاس مت بیٹھیں۔ ان کی مجلس میں نہ بیٹھیں یہاں تک کہ وہ دوسری باتوں میں مشغول ہوجائیں۔
لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہمارا جو خیال اور عقیدہ ہے، اس کے مطابق قرآن مجید سے کھینچا تانی کرکے مسئلہ نکالیں۔ دراصل یہ قرآن فہمی نہیں بلکہ قرآن دشمنی ہے۔
2۔ قرآن کریم کو تعصبات سے پاک ہوکر نہ پڑھنا: قرآن مجید کے فہم کے لئے سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر قسم کے تعصب سے اور ہر قسم کی عصبیت سے پاک ہو کر اگر قرآن مجید کو پڑھیں گے تب تو اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی عقیدہ، کوئی فکر، کوئی اِزم اپنے ذہن میں لے کر قرآن مجید کو سمجھنا چاہیں گے تو قرآن مجید سے اور دور ہوجائیں گے۔ لوگوں نے تو یہاں تک مذاق کیا ہے کہ ﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ﴾ میں مذکورہ حدیث کو حدیث ِنبوی قرار دے لیا ہے ، اسے تو آپ پڑھ چکے ہیں۔ اسی طرح ایک چیز اوربھی ہے جوبظاہر ہنسی کی بات ہے لیکن میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس طرح مسلمان فرقہ وارانہ تعصب کی بنا پر قرآن مجید سے دور ہوگئے۔ ایک ایسے صاحب جوحضرت علی کے بہت چاہنے والے تھے، نے کہا کہ حضرت ابراہیم بھی 'شیعہ' تھے اور دلیل میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھ ڈالی﴿وَإِنَّ مِن شيعَتِهِ لَإِبرٰهيمَ ٨٣ ﴾..... سورة الصافات" یعنی حضرت ابراہیم شیعہ تھے۔ 'سنیوں'نے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھ دی ﴿إِنَّ الَّذينَ فَرَّقوا دينَهُم وَكانوا شِيَعًا لَستَ مِنهُم فى شَىءٍ.........١٥٩ ﴾......سورة الانعام "جنہوں نے دین میں تفریق ڈالی وہ سب شیعہ ہیں، اور اے نبی! آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں"۔ اور دوسری آیت پڑھ دی ﴿ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن كُلِّ شيعَةٍ أَيُّهُم أَشَدُّ عَلَى الرَّحمـٰنِ عِتِيًّا ٦٩ ﴾..... سورة مريم
" پھر ہر گروہ میں سے ایسے لوگوں کو کھینچ نکالیں گے جو اللہ تعالی کے مقابلہ پر سخت سرکش تھے ۔"
حالانکہ 'شیعہ' کے معنی جماعت کے ہیں۔ حدیث کے معنی سمجھنے میں جوغلطی کی گئی ہے یہاں بھی وہی کی جارہی ہے۔ شیعہ کا جومفہوم مشہور ہوگیا، اس کو سامنے رکھا گیا ہے ۔ لفظ شیعہ جو قرآن مجید میں آیا ہے اس کے معنی جماعت کے ہیں۔ گروہ کسی کا ہو، وہ اچھے بھی ہوسکتے ہیں اوربرے بھی لیکن وہ اس کو اپنی جماعت پر، اپنے گروہ پر، یا اپنے فرقہ پر چسپاں کرنے کے لئے یا مخالفین کو جواب دینے کے لئے قرآن مجید کو استعمال کرتے ہیں۔ مذہبی فرقہ وارانہ ذہنیت سے بھی انسان قرآن مجید سے دور ہوجاتا اور قرآن کو ایک کھیل بنا لیتا ہے۔
3۔ قرآن مجید کو سمجھ کرنہ پڑھنا: قرآن فہمی کے موانع میں سے ایک یہ ہے کہ انسان قرآن مجید پڑھتا ہے لیکن اس کو سمجھتا نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو بس تبرکا ً پڑھ لینا ہی کافی ہے۔ علامہ اقبال نے ایک بار کہا تھا کہ
"سب سے مظلوم کتاب قرآنِ مجید ہے۔ اس لئے کہ ساری کتابیں اورساری تحریریں سمجھ کر پڑھی جاتی ہیں۔ لیکن قرآن مجید ہی ایک ایسی مظلوم کتاب ہے کہ جس کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم بے سمجھے ہی اس کو پڑھ لیں تو یہ ہمارے لئے کافی ہے۔ اور اس طرح ہی قرآن مجید کا حق ادا ہوجاتا ہے۔"
حالانکہ حقیقتاً 'قراء' کا لفظ جو قرآن و حدیث میں آیا ہے یا مشہور ہے کہحضرت عمر کی مجلس شوریٰ کے ارکان 'قراء' تھے۔ توقرآء سے مراد جاہل قاری نہیں ہیں جوحرف کا مخرج تو نکال سکتے ہیں لیکن قرآن مجید کے معنی نہیں جانتے۔ حضرت عمر کی مجلس شوریٰ کے جو ارکان تھے وہ قراء تھے یعنی وہ علماء تھے ، کتاب وسنت کے عالم تھے، قراء کے معنی پڑھنے والوں کے ہیں کہ آدمی سمجھ کر پڑھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بے سمجھے اگر کسی نے قرآن مجید پڑھا تو ثواب نہیں ملے گا۔ اللہ تعالیٰ ثواب دینے والا ہے۔ اس کے خزانہ میں کیا کمی ہے، میں اس سے بحث نہیں کرتا۔ میں عرض کررہا ہوں کہ قرآن مجید کا تقاضا کیا ہے، وہ ہم سے چاہتا کیا ہے؟
پھر ہم میں ایک اور عجیب بات ہے۔ ہم نے قرآن مجید کو تبرک سمجھا ہوا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ شاہی مسجد لاہور میں ایک صاحب بڑی محنت کر رہے ہیں۔ انہوں نے سونے کے تاروں سے قرآن مجید لکھنا شروع کیا بلکہ ختم کرلیا ہے۔ اب لوگ اس کی زیارت کے لئے آتے ہیں گویا یہ بڑا کمال ہے۔ اب قرآن مجید سونے کے تاروں سے لکھا جارہا ہے۔ حالانکہ سوال یہ ہے کہ آپ قرآن مجید پڑھنے کا اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کا ایسا طریقہ اختیار کیجئے کہ جس سے دل کے تار ہل جائیں ﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ قَد جاءَتكُم مَوعِظَةٌ مِن رَبِّكُم وَشِفاءٌ لِما فِى الصُّدورِ....... ٥٧ ﴾..... سورة يونس
"یہ تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت ہے اور سینوں میں جو روگ ہیں ، ان کے لئے شفا ہے"۔
قرآن مجید تبرک کے لئے ایک کتا ب ہے : ویسے آج کل ایک اوربیماری ہے ۔ وہ یہ کہ آج کل تعویذ گنڈے بہت چل رہے ہیں۔ بہت سی کتابیں لکھ دی گئی ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید نزلہ، زکام، کھانسی، بخار کے علاج کے لئے ہے۔ عورت کے بچہ ہونے والا ہے تو فال کھولی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایسا کرو، ویسا کرو۔ گویا کہ یہ ہمارے حکیم وڈاکٹر سب بیکار ہوگئے اور لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ قرآن مجید بس اسی مقصد کے لئے نازل ہوا تھا۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ توپ تو بنی تھی دشمنوں کو مارنے کے لئے لیکن ہم اس سے مچھر مکھی ماررہے ہیں۔ مچھر اور مکھی اس سے مر تو جائیں گے لیکن توپ اس لئے بنائی نہیں گئی۔ قرآن مجید کی آیتوں کے نقش بنائے جاتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑا کام کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس طرح یہ لوگ قرآن مجید سے مسلمانوں کو دور کر رہے ہیں۔
ایک اور بڑا مسئلہ ہے، جس کا ہمارے ہاں عام رواج ہے۔ ممکن ہے بہت سے حضرات اس کو نامانوس محسوس کریں وہ ہے: قرآن خوانی۔قرآن دانی کی بجائے قرآن خوانی۔ قرآن خوانی کا رواج بہت ہے۔اگر کوئی مر جائے اور اس نے ساری عمر قرآن نہ پڑھا ہو، اور پڑھنے والے کو بھی قرآن پڑھنا نہ آتا ہو لیکن لوگ جمع ہوتے ہیں۔تیجا چالیسواں کیا کچھ ہوتا ہے تاکہ قرآن مجید پڑھ کر مردے کو ثواب پہنچایا جائے۔ میں نے ایک صاحب سے کہا کہ قرآن مجید میں کتنی بار آیا ہے ﴿ أقِيْمُوا الصَّلٰوٰةَ﴾ نماز قائم کرنے پر تو عمل نہیں ہوتا لیکن آپ قرآن خوانی کر رہے ہیں۔ قرآن خوانی کافی نہیں ہے، قرآن دانی ضروری ہے۔ لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ قبر میں جو دفن ہوگیا ہے قرآن مجید اس کے لئے اس کو بخشوانے کے لئے ہے اور بس، ہمارے لئے نہیں ہے۔ حالانکہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہمارے لئے ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں جو روگ، اخلاقی بیماریاں ہیں اور روحانی امراض ہیں، عقائد کی بیماریاں ہیں، ان کو دور کرنے کے لئے قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ یہ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے جو چلتے پھرتے مردے نظر آرہے ہیں، ان کا علاج قرآن میں ہے۔ جوقبر میں چلے گئے، ان کا معاملہ اللہ کے ہاں ہے۔ اب آپ چاہے کتنا ہی پڑھتے رہیں۔ یہ ایسا ہے جیسے عیسائیوں میں رواج ہوا کرتا تھا کہ جب کوئی مرگیا تو نجات نامہ، ویزا ، جنت کاپرمٹ دیا کرتے تھے۔ مردہ کے سینے پر لکھ کر لگا دیا کرتے تھے کہ یہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ سیدھا جنت میں جائے گا۔یسوع مسیح کی بادشاہت میں جائے گا۔ اسی طرح ہمارا بھی یہ عقیدہ ہے، یہ خیال ہے، یہ رواج ہوگیا ہے کہ ہم ایصالِ ثواب کرتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ایصالِ ثواب غلط ہے، ایک تو موجودہ اجتماعی شکل میں جورواج ہے ، یہ بالاتفاق غلط ہے لیکن اگر کوئی انفرادی طور پر کچھ پڑھ لیتا ہے اور ثواب پہنچا دیتا ہے تو یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ سلف میں بعض اس کے قائل ہیں، بعض نہیں۔ جس کو صدمہ پہنچا ہے وہ قرآن مجید پڑھ کر مغفرت کی دعا کرے تو اس کی گنجائش شریعت میں نکل سکتی ہے۔ لیکن یہ طریقہ کہ برادری کے تمام لوگ جمع کرلئے جائیں اور جس کے ہاں غمی ہوئی ہے، اسے کھانا بھی کھلانا پڑے، آخر یہ کیا چیز ہے؟
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ قرآن مجید تو قبر والوں کے لئے ہے۔ جو قبر سے باہر ہیں، ان کے لئے نہیں ہے؟ یہ چیز درحقیقت ہمیں قرآن مجید سے دور کر رہی ہے۔ یہ بڑا افسوسناک طرزِعمل ہے۔ یہ قرآن فہمی اور قرآن دانی میں رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ لوگ قرآن مجید سے فال نکالتے ہیں۔ عدالتوں میں قرآن مجید پر حلف اٹھاتے ہیں۔ سچے ہوں یا جھوٹے ہوں، قرآن مجید کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ دلہن اگر جارہی ہو تو قرآن مجید اچھے غلاف میں لپیٹ کر جہیز میں دے دیا جاتا ہے۔ چاہے وہ اسے ساری عمر نہ پڑھے۔ جذبہ تو بہت اچھا ہے لیکن پہلے اسے پڑھایا تو ہوتا۔ پہلے اس میں قرآن مجید کا ذوق و شوق تو پیدا کیا ہوتا تاکہ بعد میں اپنے شوہر کے ہاں جائے تو سمجھ کر پڑھ سکے۔ اس پر عمل کرسکے اور اپنے بچوں کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تربیت دے سکے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اسلام آئے اور قرآن مجید اور سنت کا نظام جاری ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن مجید کو اسے صحیح معنی میں سمجھایا جائے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے اور جو باتیں میں نے صحیح بیان کی ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائے اور جو غلط بات کہی ہے، اللہ تعالیٰ آپ کے سینے سے اسے محو کردے۔ وآخردعوانا أن الحمد لله رب العالمين
٭٭٭٭٭