مُحرّم اور عاشوراء صحیح احادیث کی روشنی میں!
محرم کی فضیلت
اللہ تعالی قرآنِ کریم میں فرماتے ہیں
﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ شَهرًا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ مِنها أَربَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ ۚ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم....٣٦ ﴾...... سورة التوبة
"بے شک شریعت میں مہینوں کی تعداد ابتداءِ آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰکے ہاں بارہ ہے ۔ ان میں چارحرمت( اَدب )کے مہینے ہیں۔ یہی مستقل ضابطہ ہے تو ان مہینوں میں(قتالِ ناحق) سے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو" تفسیر جامع البیان، ص ۱۶۷ میں ہے :
«فإن الظلم فيها أعظم وزرا فيما سواه والطاعة أعظم أجرا»
یعنی" ان مہینوں میں ظلم و زیادتی بہت بڑا گناہ ہے او ران میں عبادت کا بہت اجر وثواب ہے"
تفسیر خازن، جلد۳ ص ۷۳ میں ہے کہ ان مہینوں کا نام حرمت والے مہینے اس لئے پڑ گیا کہ عرب دورِ جاہلیت میں ان کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور ان میں لڑائی جھگڑے کو حرام سمجھتے تھے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اپنے بیٹے یا بھائی کے قاتل کو بھی پاتا تواس پر حملہ نہ کرتا۔ اسلام نے ان کے عزت و احترام کو مزید بڑھایا۔ نیز ان مہینوں میں نیک اَعمال اور اللہ کی اطاعت ثواب کے اعتبار سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح ان میں برائیوں کا گناہ دوسرے دنوں کو برائیوں سے سخت ہے۔ لہٰذا ان مہینوں کی حرمت توڑنا جائز نہیں ۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایامِ تشریق میں مقامِ منیٰ میں حجة الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : لوگو! زمانہ گھوم پھر کر آج پھر اسی نقطہ پر آگیا ہے جیسا کہ اس دن تھا جب کہ اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق فرمائی تھی۔ سن لو، سال میں بارہ مہینے ہیں جن میں چارحرمت والے ہیں، وہ ہیں : ذوالقعدہ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب ۔"
حضرت قتادہ نے فرمایا: "ان مہینوں میں عمل صالح بہت ثواب رکھتا ہے اور ان مہینوں میں ظلم وزیادتی بہت بڑا گناہ ہے ۔"
صحیح بخاری کتاب التفسیر میں حضرت ابوبکر سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" بے شک زمانہ گھوم کر پھر اسی نقطہ پر آگیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کئے تھے۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں جس میں تین لگاتار ہیں: ذی قعد، ذی الحجہ اور محرم ، چوتھا رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہوتا ہے"۔
ان حرمت والے مہینوں میں کسی قسم کی برائی اور فسق و فجور سے کلی طور پراجتناب کرنا اور ان کے احترام کوملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔یوں تو چاروں مہینے برکت و فضیلت سے بھر پور ہیں، لیکن ہم یہاں صرف ماہِ محرم کا تذکرہ کریں گے۔ ماہ محرم وہ مہینہ ہے جس میں دس تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کا دن قرار دیا اور اسے سال بھر کے لئے کفارئہ گناہ ٹھہرایا ہے۔
محرم کے روزے
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں ، جواللہ کا مہینہ ہے اورفرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔" (صحیح مسلم: کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرم / مشکوٰة ص:۱۷۸)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے اور جو محرم کے روزے رکھے۔ اسے ہر روزہ کے عوض تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔"
اس روایت کو امام طبرانی نے کتاب الصغیر میں ذکر کیا ہے۔ یہ روایت غریب ہے، اس کی سند اگرچہ اعلیٰ پائے کی نہیں پھربھی قابل قبول ہے۔ (الترغیب والترہیب: ص۳۳۷)
ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ رمضان کے بعد میں کس ماہ میں روزے رکھوں۔ آپ نے فرمایا: محرم کے روزے رکھ کیونکہ وہ اللہ کامہینہ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور ایک اور قوم کی توبہ قبول کرے گا۔ (الترغیب والترہیب:ص ۲۳۶)
عاشوراء محرم کا روزہ
ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کے متعلق اگرچہ عمومی طور پر صحیح احادیث وارد ہیں لیکن خصوصی طور پر 'یومِ عاشوراء' یعنی دس محرم کے روزے کے متعلق کثرت سے اَحادیث آئی ہیں جن سے اس دن کے روزہ کی فضیلت واضح ہوتی ہے ۔ اس سلسلہ میں وارد احادیث ملاحظہ فرمائیں :
ابوقتادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزہ کی فضلیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ "اس سے ایک سالِ گذشتہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔" (مسلم : ج۱ ،ص ۳۶۸)
حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ "آپ چار چیزیں نہ چھوڑا کرتے تھے، ان میں سے ایک عاشوراء کا روزہ ہے۔" (سنن النسائی)
ابن عباس فرماتے ہیں کہ "میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دن کے روزے کا دوسرے عام دنوں کے روزوں پر افضل جاننے کا ارادہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح یوم عاشوراء اور ماہِ رمضان کا اہتمام کرتے ہوئے دیکھا ہے"۔ (بخاری ، مسلم)
حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کے روزے کا حکم فرماتے تھے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور اس کا خیال رکھتے تھے اور تاکید فرماتے تھے لیکن جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم فرمایا اور نہ ہی اس سے منع کیا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے اس کا خیال رکھا"۔(صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل یومِ عاشورہ، مشکوٰة : ۱۸۰)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا لیکن فرضیت ِرمضان کے بعد اس کی فرضیت ختم ہو گئی، اب عاشوراء کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔
بخاری مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ عاشوراء کے روز رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام اجمعین کو فرمایا کہ "آج کا روزہ رکھنا کسی کے لئے ضروری نہیں، میں آج روزے سے ہوں۔ جو شخص چاہتا ہے روزہ رکھے اور اگر روزہ نہ رکھا جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں "۔
ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ "اہل جاہلیت اس دن روزہ رکھتے تھے۔ فرضیت ِرمضان سے قبل مسلمان بھی روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ا نے بھی اس کا روزہ رکھا ۔" پھر فرمایا کہ
"ایام اللہ میں سے یہ بھی ایک عام دن ہے، جو کوئی اس دن روزہ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے"(رواہ مسلم عن ابی قتادہ)
اُمّ المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیا جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"اب جو شخص چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے"۔(صحیح بخاری)
عاشوراء کے ساتھ ۹ یا ۱۱/ محرم کا روزہ
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کاارادہ ظاہر فرمایا تھا"۔چنانچہ صحیح مسلم کی روایت ہے ، ابن عباس اس حدیث کے راوی ہیں کہ
" جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو رکھنے کا حکم دیا تو لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو ایسا دن ہے جس کی یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ آئندہ سال ان شاء اللہ ہم دس محرم کے ساتھ نو محرم کا بھی روزہ رکھیں گے۔اگلا سال آنے سے قبل آپ ا وفات پاگئے"۔ (صحیح مسلم/ مشکوٰة: ص ۱۷۹)
ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ" یہود دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔ تم ان کی مخالفت کرو اور اس کے ساتھ نو تاریخ کا روزہ بھی رکھو"۔
ابن ہمام نے فرمایا کہ "مستحب امر یہ ہے کہ دس تاریخ سے ایک دن پہلےروزہ رکھا جائے پس اگر صرف ایک روزہ رکھا تو مکروہ ہے۔ "
اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کے روزے کا حکم فرماتے ہیں مگر جب رمضان فرض ہوگیا تو فرماتے تھے جو شخص چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے"۔(صحیح بخاری)
اور مسنداحمد کی ایک روایت میں ۱۱/ محرم کا ذکر بھی ملتا ہے یعنی ۹ محرم یا ۱۱/ محرم۔
عاشوراء کا روزہ اور یہود
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قومِ یہود کو عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ جناب رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کون سا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑاعظیم دن ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کوغرق کیا تھا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام اس دن شکر کا روزہ رکھا پس ہم بھی ان کی اتباع میں اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تمہاری نسبت حضرت موسیٰ کے زیادہ قریب اورحقدارہیں۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا"۔ (مشکوٰة المصابیح، ص:۱۸۰، صحیح بخاری باب صوم یومِ عاشورہ)
یوم عاشوراء اور عرب
عاشوراء کے دن کی فضیلت عرب کے ہاں معروف تھی، اس لئے وہ بڑے بڑے اہم کام اسی دن سرانجام دیتے تھے مثلاً روزہ کے علاوہ اسی روز خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکی دور میں یومِ عاشوراء کے روزوں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ
"قریش کے لوگ جاہلیت کے زمانہ میں روزہ رکھا کرتے تھے پھر جب آپ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا لیکن جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو آپ نے عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا اور فرمایا جس کا جی چاہے، اس دن روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔" (صحیح بخاری)
ماہِ محرم میں روزے کے سوا اور کوئی عمل ثابت نہیں۔ اس کے علاوہ جو اعمال و رسوم کئے جاتے ہیں شریعت سے ان کا دور سے بھی تعلق نہیں۔ خیبر کے لوگ اس دن اچھے لباس کا اہتمام کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع فرما دیا تھا چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعریسے روایت ہے کہ
"اہل خیبر یوم عاشوراء کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔ اسی دن لوگ روزے رکھتے تھے اور اس دن کو عید کا دن قرار دیتے تھے اور اس دن اپنی عورتوں کو اچھے اچھے لباس اور زیورات پہناتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا: تم اس دن صرف روزہ رکھو"۔ (صحیح مسلم)
حاصل یہ ہے کہ اللہ ارحم الراحمین اور نبی رحمت للعالمین نے امت ِمسلمہ کوماہِ محرم خصوصاً یومِ عاشوراء کی فیوض و برکات سے مطلع کردیا ہے تاکہ ہم شریعت کی ہدایا ت کے مطابق عمل کرکے سعادتِ دارین حاصل کرسکیں مگر بعض بے علم لوگوں نے ان ثابت شدہ ہدایات پر قناعت نہیں کی بلکہ یومِ عاشوراء کے فضائل میں بے شمار موضوع و مہمل حدیثوں کو گھڑ لیا اور اس کے ذریعے خاص و عام سبھی کو گمراہ کیا۔
ماہ ِ محرم کی بدعات
ہم نے ماہِ محرم سے بہت سے غلط رواج وابستہ کرلئے ہیں، اسے دکھ اور مصیبت کامہینہ قرار دے لیا ہے جس کے اظہار کے لئے سیاہ لباس پہنا جاتا ہے۔ رونا پیٹنا، تعزیہ کا جلوس نکالنا اور مجالس عزا وغیرہ منعقد کرنا یہ سب کچھ کارِ ثواب سمجھ کر او رحضرت حسین سے محبت کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سب چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے صریح خلاف ہیں۔ شیعہ حضرات کی دیکھا دیکھی خود کو سنی کہلانے والے بھی بہت سی بدعات میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ مثلاً اس ماہ میں شادی بیاہ کو بے برکتی اور مصائب و آلام کے دور کی ابتدا کا باعث سمجھ کر اس سے احتراز کیا جاتا ہے اور لوگ اعمالِ مسنونہ کو چھوڑ کر بہت سی من گھڑت اور موضوع احادیث پر عمل کرتے ہیں مثلاً بعض لوگ خصوصیت سے عاشوراء کے روز بعض مساجد و مقابر کی زیارتیں کرتے اور خوب صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور اس دن اہل و عیال پر فراخی کرنے کو سارے سال کے لئے موجب ِبرکت سمجھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
کیا ماہِ محرم صرف غم کی یادگار ہے؟
شہادت ِحسین اگرچہ اسلامی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے لیکن یہ صرف ایک واقعہ نہیں جس کی یاد محرم سے وابستہ ہے بلکہ محرم میں کئی دیگر تاریخی واقعات بھی رونماہوئے ہیں جن میں سے اگرچہ چند ایک افسوسناک ہیں تو کئی واقعات ایسے بھی ہیں جن پر خوش ہونا اور خدا کا شکر بجا لانا چاہئے جیسا کہ نبی اکرم ا نے حضرت موسی کی اقتدا میں عاشورے کے دن شکر کا روزہ رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن موسیٰ کو فرعون سے نجات دی تھی۔ نیز اگر اتفاق سے شہادت ِ حسین کا المیہ بھی اسی ماہ میں واقع ہوگیا تو بعض دیگر جلیل القدر صحابہ کی شہادت بھی تو اسی ماہ میں ہوئی ہے۔ مثلا سطوت ِاسلام کے عظیم علمبردار خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب اسی ماہ کی یکم تاریخ کو حالت ِنماز میں ابولو ٴ لو ٴ فیروزنامی ایک مجوسی غلام کے ہاتھوں شہید ہوئے، اس لئے شہادتِ حسین کا دن منانے والوں کو ان کا بھی دن منانا چاہئے... لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام اسی طرح دن منانے کی اجازت دے دے تو سال کا کوئی ہی ایسا دن باقی رہ جائے جس میں کوئی تاریخی واقعہ یا حادثہ رونما نہ ہوا ہو اور اس طرح مسلمان سارا سال انہی تقریبات اور سوگوار ایام منانے اور ان کے انتظام میں لگے رہیں گے۔ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، اہل بیت ، صحابہ اور سلف صالحین پر ایسی ایسی مشکل گھڑیاں آئیں کہ ان کے سننے سے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ کیا شہادتِ حمزہ ، شہادتِ عمر، شہادتِ عثمان ذوالنورین ، شہادتِ علی اور شہادت عبداللہ بن زبیرکے لرزہ خیز واقعات سننے کی تاب کسی کو ہے؟ تو بتائیے کس کس کا دن منایا جائے ؟؟
اچھے یا بُرے دن منانے کی شرعی حیثیت
اسلام نے واقعاتِ خیرو شر کو ایام کا معیارِ فضیلت قرار نہیں دیا بلکہ کسی مصیبت کی بنا پر زمانہ کی برائی کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایاہے اور قرآن مجید میں کفار کے اس قول کی مذمت بیان کی ہے:
﴿وَما يُهلِكُنا إِلَّا الدَّهرُ.......٢٤ ﴾..... سورة الغاثية یعنی " ہمیں زمانہ کے خیروشر سے ہلاکت پہنچتی ہے"
اور حدیث میں ہے:
"زمانہ کو گالی نہ دو کیونکہ بُرا بھلا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے" (بخاری و مسلم)
یعنی خیروشر کی وجہ لیل و نہار نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کار سازِ زمانہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اچھے یا بُرے دن منانے کی کوئی اصل ہی تسلیم نہیں کی جیسا کہ آج کل محرم کے علاوہ بڑے بڑے لوگوں کے دن یا سالگرہ وغیرہ منائی جاتی ہیں۔
نوحہ اور ماتم ...بزرگانِ ملت کی تعلیم کے خلاف اور ان کے مشن کی توہین ہے!
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پاکباز ہستیاں کس طرح صبر و استقلال کا پہاڑ ثابت ہوئیں۔ ان کے خلفا اور ورثا بھی ان کے نقش قدم پر چلے۔ نہ کسی نے آہ و فغاں کیا، نہ کسی نے ان کی برسی منائی، نہ چہلم۔ نہ روئے نہ پیٹے، نہ کپڑے پھاڑے، نہ ماتم کیا اور نہ تعزیہ کا جلوس نکال کر گلی کوچوں کا دورہ کیا بلکہ یہ خرافات سات آٹھ سو سال سال بعد تیمور لنگ بادشاہ کے دور میں شروع ہوئیں لیکن یہ سب حرکتیں اور رسوم و رواج نہ صرف روحِ اسلام اور ان پاکباز ہستیوں کی تلقین و ارشاد کے خلاف ہیں بلکہ ان بزرگوں کی توہین اور غیر مسلموں کے لئے استہزا ء کا سامان ہیں۔ اسلام تو ہمیں صبر و استقامت کی تعلیم دیتا ہے اور ﴿وَبَشِّرِ الصّـٰبِرينَ﴾ (صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو) کا مژدہ سناتا ہے :
﴿الَّذينَ إِذا أَصـٰبَتهُم مُصيبَةٌ قالوا إِنّا لِلَّهِ وَإِنّا إِلَيهِ رٰجِعونَ ١٥٦ ﴾...... سورة البقرة "وہ لوگ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں"
نوحہ اور ماتم کی مذمت (زبانِ رسالت سے)
نوحہ اور ماتم کی مذمت کے سلسلہ میں اگرچہ قرآن کریم کی کئی آیات اور احادیث ِنبوی سے استدلال کیا جاسکتا ہے بلکہ شیعہ حضرات کی بعض معتبر کتابوں سے ان کی ممانعت ثابت کی جاسکتی ہے لیکن اختصار کے پیش نظر ہم صرف دو فرمان نبوی پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
1۔ «قال رسول الله ﷺ ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوی الجاهلية» (بخاری و مسلم) "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رخسار پیٹے، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کا واویلا کرے، وہ ہم میں سے نہیں ہے"
2۔ «قال رسول الله ﷺ انا بريء ممن حلق وصلق وخرق» (بخاری و مسلم)
"جو شخص سرمنڈوائے، بلند آواز سے روئے اور کپڑے پھاڑے، میں اس سے بیزار ہوں"
لیکن اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی دن ۱۰/محرم کو امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسین ۶۱ہجری کو کربلا کے میدان میں مظلوم شہید کئے گئے۔ اس واقعہ کا روزے کی فضیلت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ روزے کی فضیلت بہت پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک سے ثابت اور محقق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ تمام اہل اسلام کو کتاب و سنت پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اتحاد و اتفاق سے زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین)
دس محرم کی فضیلت پر موضوع احادیث
عموماً اکثر مسلمان صومِ عاشوراء کے بارے میں ان احادیث پر ہی تکیہ کرتے ہیں جو صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں، بے بنیاد و من گھڑت روایات پر عمل سے دور ہی رہتے ہیں مگر تعجب انگیز امر یہ ہے کہ عاشوراء کے سلسلے میں عوام تو درکنار، کئی ایک علماء اپنے خطبات اور تقریروں میں ایسی احادیث اور روایت کا ذکر کرتے ہیں جو اصلاً بے بنیاد اور باطل ہیں۔ اس موقع پر ہمارا دینی فریضہ ہے کہ حتیٰ المقدور ہم اصل کو نقل سے علیحدہ کردیں۔ یہاں ہم عاشوراء سے متعلق مشہور کردہ چند احادیث کا ذکر کریں گے۔ نیز اس پر محدثین اور فقہاء کی آراء بھی ذکر کریں گے تاکہ ہر مسلمان سنت اور غیر سنت میں فرق کرسکے۔
٭ یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ
«من اکتحل بالاثمد يوم عاشوراء لم تدمع عينه أبدا»
"جس نے یوم عاشوراء کو سرمہ لگایا، اس کوکبھی آنکھ کا درد لاحق نہیں ہوگا"
ابن قیم نے المنار میں کہا ہے کہ سرمہ اور عطر لگانے والی احادیث کذابین کی اختراع ہیں۔امام سخاوی نے المقاصد الحسنة میں حاکم اور بیہقی کے اَقوال نقل کئے ہیں۔ حاکم نے کہا کہ یہ حدیث منکر بلکہ موضوع ہے۔ ابن جوزی نے اسی سند کے ساتھ 'موضوعات' میں اس کا ذکر کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یومِ عاشوراء کو سرمہ لگانانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ یہ بدعت ہے جس کو قاتلین حسین نے رواج دیا ہے۔ ملا علی قاری نے بھی الأسرار المرفوعة میں اسی رائے کی موافقت کی ہے اور سیوطی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے اس کی ایک اور سند بھی نقل کی ہے جو ضعف پر مبنی ہے۔ امام شوکانی نے الفوائد المجموعة للحاکمکی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حاکم کہتے ہیں کہ ابن عباس سے شروع ہونے والی اس حدیث کی سند میں جبیر ہے اور میں جبیر کے معاملے میں براء ت کا اظہار کرتا ہوں۔
٭ دوسری حدیث جو بیان کی جاتی ہے ، یوں ہے کہ
«من وسع علی عياله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنة» "جوشخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر فراخی سے خرچ کرے گا، اللہ تعالیٰ سال بھر اس کو فراخی عطا فرمائے گا"
ابن قیم نے 'المنار' میں اس کا ذکر کیا ہے اور کہا کہ امام احمد کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ عاشوراء کے دن سرمہ لگانے، زینت کرنے اور نوافل ادا کرنے اور وسعت ِرزق والی تمام احادیث باطل ہیں، ان میں سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں۔
٭ تیسری حدیث یوں ہے کہ
«من صام يوم عاشوراء کتب الله له عبادة ستين سنة»
"یوم عاشوراء کو جس نے روزہ رکھا، اس کو ساٹھ سال کی عبادت کا ثواب دیا جائے گا"
ابن قیم نے 'المنار' میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے جس میں حبیب بن ابی حبیب ہے جو حدیث وضع کیا کرتا تھا۔
اسی طرح امام شوکانی نے اسی مفہوم کی ایک روایت الفوائد المجموعة میں نقل کی ہے جو یوں ہے : «من صام یوم عاشوراء أعطي ثواب عشرة اٰلاف ملك» "یومِ عاشوراء میں روزہ رکھنے والے کو دس ہزار فرشتوں کا ثواب دیا جائے گا"۔ امام شوکانی کہتے ہیں کہ یہ موضوع حدیث ہے۔
ایک اور روایت انہوں نے نقل کی ہے جس کے الفاظ یوں ہیں کہ : «ان الله افترض علی بني إسرائيل صوم يوم في السنة وهو يوم عاشوراء فصوموا ووسعوا علی أهليکم فيه»
"اللہ تعالیٰ نے قومِ بنی اسرائیل پر سال میں ایک دن روزہ فرض کیا تھا اور وہ دن عاشوراء کا ہے۔ لہٰذا تم اس میں روزہ رکھو اور اپنے اہل و عیال پر فراخی سے خرچ کرو"
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام شوکانی نے اس کو بھی موضوع قرار دیا ہے۔
آخر میں ہم شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کی ۹۹۹ھ میں لکھی گئی کتاب "موٴمن کے ماہ وسال"سے چند مزید ضعیف احادیث کا ذکر کرتے ہیں تاکہ یہ موضوع مکمل ہوجائے:
(۱) مسند فردوس اور دیلمی کے حوالے سے حضرت علی کی ایک روایت ذکر کی جاتی ہے
"انہوں نے کہا کہ تمام انسانوں کے سردار رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور رومیوں کے سردار حضرت صہیب رومی ہیں اور ایرانیوں کے سردار حضرت سلمان فارسی ہیں اور حبشیوں کے سردار حضرت بلال ہیں ، پہاڑوں کا سردار طورِ سینا ہے ، درختوں کا سردار سدرة المنتہیٰ ہے ،مہینوں کا سردار ماہِ محرم ہے ، دنوں کا سردار جمعہ ہے اور تمام کلاموں کا سردار قرآن کریم ہے ۔قرآن کریم کا خلاصہ سورئہ بقرہ ہے اور سورئہ بقرہ کا مغز آیت الکرسی ہے ۔ آیت الکرسی میں پانچ خصوصی کلمے ہیں او رہر کلمے میں پچاس برکتیں ہیں۔"
یہ روایت موضوع ،من گھڑت اور بے سند ہے ۔ کیونکہ دوسری روایاتِ صحیحہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے سردار اور رمضان مہینوں کا سردار ہے۔
(۲) بعض لوگ کہتے ہیں کہ دسویں محرم کے دن سرمہ لگانے سے سال بھر آنکھیں نہیں آتیں، دسویں محرم کے نہانے سے سال بھر بیماری نہیں آتی ، دسویں محرم کو اپنے بال بچوں پر فراخی کرنے والے کواللہ سال بھر وسعت وفراخی دیتا ہے۔ اس دن کی نماز افضل وبرتر ہے ۔دسویں محرم حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تھی۔حضرت نوح کی کشتی اسی دن کو ہِ جودی پر ٹھہری ۔ اسی دن حضرت ابراہیم کو آتش نمرود سے نجات ملی ۔ اسی دن حضرت اسمٰعیل کے ذبح کے وقت آسمان سے دنبہ آیا اور فدیہ بنا ۔ اسی دن حضرت یوسف ، حضرت یعقوب کو دوبارہ ملے ۔ یہ ساری روایات موضوع بے سروپا اور خو دساختہ ہیں۔
(۳) حضرت مجد الدین لغوی صاحب القاموس نے حاکم کے حوالے سے لکھا ہے کہ دسویں محرم کو روزے کے سوا دیگر تمام کام مثلاً دسویں تاریخ کی فضیلت کا عقیدہ رکھنا، اس دن جی کھول کر خرچ کرنا،خضاب ، تیل یا سرمہ لگانا اور خصوصی کھانا یا کھچڑا پکانا ثابت شدہ نہیں او ر اس سلسلے میں مروی تمام احادیث موضوع ، خود ساختہ او ربہتان طرازی کے مترادف ہیں۔
(۴) ایک حدیث حضرت ابن عباس کی طرف منسوب کر کے اس طرح روایت کی جاتی ہے :
۱... جس نے دسویں محرم کا روزہ رکھا اس کے لیے اللہ نے ساٹھ سال کی عبادت لکھ دی جس میں نماز، روزے بھی شامل ہیں۔
۲... جس نے دسویں محرم کا روزہ رکھا، اسے اللہ نے دس ہزار فرشتوں کی عبادت کا ثواب دیا۔
۳... جس نے دسویں محرم کا روزہ رکھا، اسے اللہ نے ہزار حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کا ثواب دیا۔
۴...جس نے دسویں محرم کا روزہ رکھا، اسے اللہ دس ہزار شہیدوں کا ثواب دیتا ہے۔
۵... جس نے دسویں محرم کا روزہ رکھا، اسے اللہ تعالیٰ سات آسمانوں جتنا ثواب دیتا ہے۔
۶...جس نے دسویں محرم کو کسی بھوکے کو کھانا کھلایا گویا اس نے پوری امت ِمحمدیہ کے فقیروں کو کھانا کھلایا ۔
۷...جس نے دسویں محرم کو کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس کے ہر بال کے عوض ہاتھ پھیرنے والے کو جنت میں بلند مراتب دیئے جائیں گے ۔
۸...دسویں محرم کو ہی اللہ نے زمینوں اور آسمانوں کو پیدا کیا۔
۹... دسویں محرم کو ہی اللہ نے جبریل ،فرشتوں، حضرت آدم اور ابراہیم علیہم السلام کو پیداکیا۔
۱۰... دسویں محرم ہی کو اللہ نے لوح وقلم پیدا کیے۔
۱۱...دسویں محرم کو ہی حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا گیا اور آگ ان پر ٹھنڈی ہوگئی۔
۱۲... دسویں محرم کے دن ہی حضرت اسماعیل کو اللہ کے رستے میں قربان کیا گیا اور اللہ نے دنبے کی شکل میں ان کا فدیہ دیا۔
۱۳... اسی تاریخ کوفرعون کو اللہ نے دریائے نیل میں غرق کیا۔
۱۴... اسی تاریخ کو اللہ نے حضرت اِدریس کو بلند درجات دیئے۔
۱۵...اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔
۱۶...دسویں محرم کو ہی حضرت داود کی بھول چوک معاف کی گئی۔
۱۷... دسویں محرم کو ہی اللہ تعالی عرشِ معلی پر بیٹھا۔
۱۸... دسویں محرم کو ہی قیامت آئے گی۔
یہ تمام مذکورہ احادیث موضوع ، خود ساختہ، بے سند اور افترا پردازی کے مترادف ہیں ۔ علامہ ابن جوزی نے بھی ان کو 'موضوعا ت' میں درج کیا ہے۔
(۵) اسی طرح کچھ احادیث اس طرح بیان کی جاتی ہیں کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ رکھو کیونکہ
۱... یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت آدم کی توبہ قبول کی۔
۲...یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت ادریس کو بلند درجات عطا فرمائے۔
۳...یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت ابراہیم کو آتش نمرود سے نجات دی۔
۴... یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت نوح کو کشتی پر سے اتارا۔
۵... یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت موسی پر تورات نازل کی ۔
۶... یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے اسمٰعیل کو ذبح کرنے کی بجائے دنبے کا فدیہ دیا تھا۔
۷... اس دن اللہ نے حضرت یوسف کو جیل سے چھٹکارا دلایا تھا۔
۸... اسی دن اللہ نے حضرت یعقوب کو ان کی قوتِ بینائی واپس کی تھی۔
۹... اس دن اللہ نے حضرت ایوب سے مصیبتیں اور پریشانیاں دور کی تھیں۔
۱۰... اسی دن اللہ نے حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا تھا۔
۱۱... اسی دن اللہ نے دریاکو چیر کر بنی اسرائیل کے لیے راستہ بنایا تھا۔
۱۲... اسی دن حضرت موسی نے دریائے نیل عبور کیا تھا۔
۱۳...اسی دن حضرت یونس کی قوم کو توبہ کرنے کی توفیق ہوئی تھی۔
۱۴... اسی دن حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف کیے گئے۔
۱۵... اور جو اس دن روزہ رکھے گا، اس کے لیے چالیس سال کے گناہوں کاکفارہ ہو جائیگا ۔
یہ ساری احادیث موضوع ، خود ساختہ ، گھڑی ہوئی او رناقابل اعتبار ہیں۔
(۶) کچھ احادیث اس طرح بیان کی جاتی ہیں کہ
۱... سب سے پہلا دن دسویں محرم ہے جس میں اللہ نے دسویں محرم کا دن پیداکیا۔
۲... سب سے پہلا دن دسویں محرم ہے جس میں اللہ نے آسمان سے بارش برسائی۔
۳... جس نے دسویں محرم کا روزہ رکھا، اس نے گویا زمانے کا روزہ رکھا۔
۴... جس نے دسویں محرم کو شب بیداری کی تو اس نے گویا ساتوں آسمانوں کی مخلوق کے برابر اللہ کی عبادت کی ۔
۵...اس دن تمام انبیاء اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا۔
۶... جس نے دسویں محرم کو چار رکعات اس ترتیب سے پڑھیں کہ ہر رکعت میں سورة الفاتحہ ایک دفعہ ، سورة اخلاص پچاس دفعہ پڑھی تو اللہ نے اس کے ماضی ومستقبل کے پچاس پچاس سال کے گناہ معاف کر دیئے اور ملاءِ اعلی میں اس کے لیے ایک ہزار نوری منبر بنا دیئے۔
۷... جس نے دسویں محرم کو ایک گھونٹ شربت پلایا تو اس نے گویا اللہ کی ایک لمحے کے لیے بھی نافرمانی نہیں کی۔
۸... دسویں محرم کو جس نے اہل بیت کے مسکینوں کو پیٹ بھر کر کھلایا تو وہ پل صراط سے بجلی کی چمک کی طرح گزر جائے گا۔
۹... دسویں محرم کو جس نے کچھ بھی خیرات کی تو گویا اس نے سال بھر اپنے در سے کسی سائل کو واپس نہیں کیا۔
۱۰... دسویں محرم کو جس نے غسل کیا تو وہ مرضِ موت کے سوا کبھی بیمار نہ ہو گا۔
۱۱... دسویں محرم کو جس نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا تو گویا اس نے دنیا جہاں کے تمام یتیموں کے ساتھ بھلائی کی ۔
۱۲...دسویں محرم کو جس نے بیمار کی تیماداری کی تو گویا اس نے تمام اولادِ آدم کی تیمار داری کی ۔
یہ ساری روایات اور احادیث موضوع، خود ساختہ اور بعض لوگوں کی اپنی طرف سے تراشی ہوئی ہیں۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ
"ان میں بعض روایات کے سلسلہ رواة میں بعض صحیح اور ثقہ راویوں کا نام بھی ملتا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ احادیث بنانے والوں نے احادیث گھڑ کر ان کو ثقہ راویوں کے نام منسوب کر دیا ہے تا کہ کچھ لوگ غلط فہمی میں ان کی صحت پر یقین کر لیں۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ دسویں محرم کے دن سوائے روزہ رکھنے کے اورکوئی کام مسنون نہیں اور دسویں محرم کی فضیلت میں یہ سب روایات خو د ساختہ ہیں...ماسوائے ان روایات کے جو مستند ذرائع سے ثابت ہیں" ٭٭
اسی موضوع کے مکمل مطالعہ کیلئے محدث میں شائع شدہ یہ مضامین ضرور پڑھیں: (۱) محرم الحرام، غلطی ہائے مضامین مت پوچھ! از حافظ صلاح الدین یوسف، محدث: اپریل ۲۰۰۰ء (۲) یومِ عاشوراء کی شرعی حیثیت از علامہ ابن تیمیہ ، محدث: اپریل ۲۰۰۰ء (۳) سانحہ کربلا میں افراط وتفریط از مولانا عبد الرحمن عاجز ، محدث: مئی ۱۹۹۹ء(۴) محرم کی شرعی حیثیت :مارچ ۱۹۷۲ء
٭٭٭٭٭