افریقہ میں عیسائیوں کی مشنری سرگرمیاں
اسلام اور کفر کی کشمکش صدیوں سے چلی آرہی ہے ۔مسیحی یورپ اس دشمنی میں سب سے پیش پیش ہے۔ اس نے اسلام کے خلاف طرح طرح کے منصوبے بنائے، ہر طرح کے حربے استعمال کئے، حتیٰ کہ اپنی معصوم بیٹیوں کو گناہ کی تربیت دی اور ان کی عصمتیں دائو پر لگائیں ۔ زروجواہرات، شراب اور دلکش لڑکیوں کے ذریعے مسلمان قوم میں غداری کا بیج بویا، خانہ جنگی کرائی اور پھر صلیبی فوجیں طوفان کی طرح پھیل گئیں ۔
صلیبی جنگیں تاریخ انسانی کا سیاہ ترین باب ہیں ۔اس دور میں انسانیت جس ذلت سے دوچار اور جس مصیبت میں گرفتار ہوئی، اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی اور اسلام کی تاریخ میں اس سے زیادہ نازک وقت اور خطرہ کی گھڑی کبھی نہ آئی تھی۔ہر طرف مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا تھا۔ صرف بغداد میں 18؍ لاکھ مسلمان موت کے گھاٹ اُتار دیئے گئے اور اس سے نصف تعداد شام میں تہ تیغ کردی گئی۔ عین اس کشمکش اور مایوسی کے عالم میں عالم اسلام کے افق پر ایک نیا ستارہ طلوع ہوا۔ یہ موصل کے زنگی خاندان کا تربیت یافتہ عظیم جرنیل صلاح الدین ایوبی تھا ۔انہوں نے صلیبیوں کو پے در پے شکستیں دیں اور صلیبی جنگوں کی صورت میں جو طوفان اسلام کی کڑیاں بکھیرنے اُٹھا تھا، تھم گیا۔صلیبیوں کی کمر ٹوٹ گئی اور یہی صلیبی جنگیں مسلمانوں کی بیداری کا سبب بنیں ۔ مسلمان اپنی خواب گاہوں سے نکل کر مؤمن کا عزم لیے اللہ کے دین کا دفاع کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ صلیبی جنگوں میں یورپی ممالک کی ذلت آمیز شکست کے بعد انہوں نے تبشیر کی صورت میں ایک نیا صلیبی محاذ کھولا اور مسلمانوں پر حملوں کا آغازکردیا۔ روز بروز یہ حملے شدید سے شدید تر ہوتے گئے ، جس کے اثرات آج سب کے سامنے ہیں ۔ چنانچہ ضروری ہو گیا ہے کہ صلیبیوں کے منصوبوں اور حربوں کو طشت از بام کیا جائے جنہیں وہ دنیا کے کونے کونے میں عیسائیت کو پھیلانے کے لئے بروئے کار لا رہے ہیں اور واضح کیا جائے کہ اسلام کو چہار سو ے عالم میں کیسے پھیلایا جا سکتا ہے؟
آج براعظم افریقہ عیسائی مشنریوں کی سرگرمیوں اور کاوشوں کا مرکز بنا ہو ا ہے۔ اس لئے زیر نظر مقالہ میں ہم افریقہ میں عیسائیوں کی تبلیغی سر گرمیوں ، ان کے اہداف اور وسائل کا تفصیل سے جائزہ لیں گے اور بتائیں گے کہ ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا کر کس طرح اللہ کا کلمہ بلند کیا جا سکتا ہے ...
براعظم افریقہ اور تبشیری سرگرمیاں
عیسائی مشنریوں نے براعظم افریقہ میں انتہائی دلچسپی لی اور پورے افریقہ کو عیسائی بنانے کے لئے غیر معمولی اور انتھک کوششیں کیں ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ انہوں نے اس عزم کا بر ملا اظہار کیا کہ وہ 2000ء تک پورے افریقہ پر عیسائیت کا علم بلند کر دیں گے۔ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے انہوں نے کانفرنسیں منعقد کیں ،بے بہا مال بے دریغ خرچ کیا۔ راستے ہموار کئے اور اپنے ناپاک مقاصد اور عزائم کو برو ئے کار لانے کے لئے اپنے گھوڑے اور پیادے میدان میں اُتار دیئے ،لیکن اللہ کے حکم سے ان کی یہ تمام تدابیر اُلٹی پڑیں گی، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
وَيَمكُرونَ وَيَمكُرُ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيرُ المـٰكِرينَ ﴿٣٠﴾ انفال
''وہ بھی تدبیر کر رہے ہیں اور اللہ بھی، اور اللہ ہی سب سے اچھی تدبیر فرمانے والا ہے۔''
اور اللہ کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ اللہ کا دین ہمیشہ باقی رہے گا اور حکومت و خلافت اللہ کے راست باز اولیا کے لئے ہی ہے، خواہ باطل کس قدر بھی پھیل جائے۔فرمانِ الٰہی ہے :
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذينَ ءامَنوا مِنكُم وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ لَيَستَخلِفَنَّهُم فِى الأَرضِ كَمَا استَخلَفَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُم دينَهُمُ الَّذِى ارتَضىٰ لَهُم وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِن بَعدِ خَوفِهِم أَمنًا ۚ يَعبُدونَنى لا يُشرِكونَ بى شَيـًٔا ﴿٥٥﴾النور
''اور تم میں سے جو مؤمن ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ یقیناً انہیں زمین میں خلافت عطا فرمائے گا، جیسے ان سے پہلے لوگوں کو عطا کی تھی۔ اور ان کے دین کو مضبوط کرے گا جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کر دے گا۔ پس وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔''
افریقہ میں عیسائی مشنریوں کی دلچسپی کے اسباب
بنیادی طور چند اسباب ہیں جو افریقہ میں عیسائی مشنریوں کی خصوصی دلچسپی کی وجہ بنے۔
1 غربت واِفلاس: افریقہ کے 39 فیصد باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں ۔(مجلہ البیان: عدد141) اور پوری دنیا میں کسی بھی ملک کی اتنی بڑی تعداد غربت و افلاس سے دوچار نہیں ہے ۔ اللہ کے دشمن عیسائی مشنریوں نے اس معاملہ کی نزاکت کو خوب سمجھا،افریقہ کے باشندوں کی شدید ضروریات کا اِدراک کیا اور مالی امداد کے بہانے انہیں عیسائی بنانے کی مہم شروع کی۔ چونکہ انسانی فطرت میں اپنے محسن کی شکر گزاری اور اس کی بات کو قبول کرنے کا رجحان ہے جس سے ان لوگوں نے خوب فائدہ اُٹھایا ۔
2 جہالت: تعلیم کا معاملہ نہایت مہتم بالشان ہے ۔اسی کے ذریعے قومیں اوجِ ثریا تک پہنچیں اور اس سے عدم توجہی ہی قوموں کی پستی کا سبب بنی۔کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ تعلیم ترقی کا ایک اہم زینہ ہے۔ڈاکٹر محمد اقبالؒ لکھتے ہیں:
''تعلیم وہ سلفر ایسڈ ہے جو زندہ چیز کو پگھلا دیتا ہے، پھر اسے ڈھال کر اپنی مرضی کا مجسمہ تیار کرتا ہے۔ یقیناً یہ سلفر ایسڈ تمام کیمیاوی مادّوں سے زیادہ طاقتور اور مؤثر ہے اور ا س کے اندر یہ طاقت ہے کہ وہ کسی عظیم نسل کو مٹی کا ڈھیر بنا دے۔''
(احذروا الأسالیب الحدیثة في مواجھة الإسلام از ڈاکٹر سعد الدین السید الصالح)
عیسائی مشنری تعلیم کی اہمیت سے قطعاً غافل نہ تھے ۔خاص طور پر براعظم افریقہ میں ، جہاں جہالت کا دور دورہ تھا اور غربت وافلاس کے بادل ہر وقت ان کے سروں پر منڈلا رہے تھے ۔ چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے وہاں تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھا یا۔ (جن کی تفصیل آئندہ سطور میں ذکر ہو گی) یہاں ہم صرف مسیو شاٹلین کے قول پر اکتفا کریں گے۔ وہ لکھتا ہے:
"فرانس کو چاہئے کہ مشرقِ اسلامی میں سب سے پہلے اس کی سرگرمیاں مسلمانوں کی ذہن سازی Brain washing پر مرتکز ہوں ۔''(الغارۃ علی العالم الإسلامي، أ لشاتلیة، ترجمہ محب الدین الخطیب ص 15) وہ آگے چل کر لکھتا ہے :
'' جس دن عربی زبان ختم ہو گئی جو کہ افریقی ممالک کی تجارتی زبان ہے، اس دن اسلام کی طرف سے کوئی خطرہ باقی نہیں رہے گا، کیونکہ عربی زبان کے خاتمہ سے اس کے تمام مدارس ویران ہو جائیں گے۔'' (مجلہ ہٰذہ سبیلي : عدد2،ص284)
3 بیماری: افریقہ میں پائی جانے والی غربت، ناخواندگی اور بیماری عیسائی مشنریوں کے لئے ایک سرسبزوشاداب چراگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ عیسائی مشنری اسلامی ممالک خصوصاً افریقہ میں بیماریوں کے علاج کے ذریعے انسانی ہمدردی اور انسانیت نوازی کا دعویٰ کر کے اپنے گھنائونے مقاصد اور ناپاک عزائم کو بروئے کار لانے کا سامان کرتے ہیں ۔ اس لئے آپ انہیں یہ کہتے ہوئے پائیں گے :
''جہاں انسان ہوں گے، وہاں بیماریاں بھی ہوں گی او رجہاں بیماریاں ہوں گی، لامحالہ وہاں ڈاکٹر کی ضرورت بھی پڑے گی اور جہاں ڈاکٹر کی ضرورت ہو گی، وہاں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کا اہم موقع ہے۔ '' (التبشیر والاستعمار از خالدی وفروخ:ص59)
اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ عیسائی مشنریاں لوگوں کو عیسائی بنانے کی خاطر میڈیکل کا اس قدر اہتمام کیوں کرتی ہیں ؟ تو ہمارے علم میں ہونا چاہئے کہ حبشہ (ایتھوپیا) میں اس وقت تک کسی مریض کا علاج شروع نہیں کیا جاتا جب تک کہ وہ جھک کر یسوع مسیح کے سامنے شفا کی التجا نہ کرے ۔ (ایضاً)
4 اسلام کا وجود: ایک متعصب عیسائی مسٹر پلس لکھتا ہے کہ
'' افریقہ میں دین اسلام کا وجود عیسائیت کی ترویج و ترقی کے راستے میں ایک چٹان ہے اور اس وقت صرف اور صرف مسلمان ہمارے جانی دشمن ہیں ۔ کیونکہ اس وقت نہ افریقہ کے جاہل باشندے تبلیغ انجیل کی راہ میں رکاوٹ ہیں ، نہ وہاں کے بت پرست! اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ صرف دین اسلام ہے۔''(الغارۃ علی العالم الاسلامی: ص 25)
فلپ فونڈاسی Philippe لکھتا ہے :
''ہمارا وہ تہذیب و تمدن جو عیسائیت کے پرچار میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، اسلام اس کی ترویج کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے اور اسلام ہی افریقہ میں ہماری ثقافت کا گلا گھوٹنے کے لئے ایک چیلنج بنا ہوا ہے ۔'' (مجلہ ہٰذہ سبیلي: عدد 2، ص 283)
5 عیسائی عقیدہ کی حمایت اور غیر عیسائیوں کو 'گمراہوں 'سے آزاد کروانا: اگر دین حق کا حامل شخص اپنے دین کا دفاع کرتا ہے، اس کی طرف دعوت دیتا ہے اور اس کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتا ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ۔لیکن اگر ایک گمراہ مذہب کا حامل شخص اپنے عقیدہ پر جم جائے، اس کی طرف دعوت دے، اس کی خاطر قربانیاں دے اور اس گمراہ عقیدہ کو تمام انسانیت کا نجات دہندہ سمجھے اور اپنے مخالف عقائد (اسلام) کو حق ہونے کے باوجود گمراہ قرا ردے اور لوگوں کو اس سے نکال کر نصرانیت میں داخل کرنا ضروری سمجھے تو یہ واقعی مقامِ تعجب ہے ۔یاد رکھئے، عیسائی مشنری اسی نظریے کے حامل ہیں ۔ وہ عیسائیت کو انسانیت کا نجات دہندہ اور باقی اَدیان کو گمراہ قرار دیتے ہیں ۔ اپنی تمام تر کاوشوں کو مجتمع کر کے تدلیس و تلبیس سے کام لے کر وہ حقائق کو مسخ کر رہے ہیں ۔
اس کی ایک مثال وہ واقعہ بھی ہے جو ہمیں ایک مصری نے سنایا۔ وہ ایک تعلیمی وفد کے ساتھ امریکہ کے کسی شہر گیا اور ایک مسیحی عورت 'ورعہ' کے مکان میں کرایہ پر ٹھہرا۔ عورت نے اپنے مہمان سے پوچھا کہ آپ کا تعلق کس ملک سے ہے؟ جب عورت کو معلوم ہوا کہ یہ شخص مصری اور مسلمان ہے تو اس نے ہمدردی اور غم کے ملے جلے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس سے کہا :
''کیا تمہارے ملک میں کوئی مشنری نہیں آیا؟'' (نہضۃ أفریقیا:ص103)
6 سیاسی اور اقتصادی مقاصد کا حصول: یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہود و نصاریٰ کی سیاسی شخصیات اپنے استعماری عزائم و مقاصد کو بروئے کار لانے اور پوری دنیا پر سیاسی اور اقتصادی تسلط قائم کرنے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کرنا چاہتی ہیں ،جو ان کے اِمکان میں ہے، خواہ وہ دینی راستے سے ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ یہ سیاستدان اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تبشیری مشنوں کی سرپرستی کر رہے ہیں اور ان کی کانفرنسوں کی صدارت کے فرائض انجام دیتے ہیں ۔(مجلہ ہٰذہ سبیلي: عدد:2،ص287)
افریقہ میں عیسائیت کی آمد، سرگرمیوں کا آغاز اور استعمار سے ملی بھگت
مسلمہ حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ مشنری سرگرمیوں کا استعمار کے ساتھ گہرا رابطہ تھا۔ استعماری طاقتیں انہیں مکمل سپورٹ کر رہی تھیں اور اسی دوران تبشیری سرگرمیوں کو پھیلنے پھولنے کا خوب موقع ملا۔
کیتھولک مشنری پندرہویں صدی عیسوی میں افریقی علاقوں میں داخل ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پرتگال دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا۔
(الغارۃ علی العالم الاسلامی:ص 26)
سترہویں صدی کے اواخر اور اٹھارویں صدی کے درمیان پروٹسٹنٹ تنظیمیں بھی آدھمکیں اور انہوں نے مسلمانوں کو اپنا ہدف بنایا۔ (حاضر العالم الاسلامی: 2؍671 )
سب سے پہلے مشہور سیاح لنٹگسٹن(1873م) نے وسطی افریقہ کے ممالک کا سفر کیا ۔اس کے بعد یورپی مشنری تنظیموں کے لئے افریقہ کے دروازے کھل گئے اور انہوں نے افریقہ کے غربت و افلاس کی چکی میں پسے ہوئے افراد کو اپنی تبشیری سرگرمیوں کا ہدف بنایا ۔ (نہضۃ أفریقیا:ص0 1 1 )
تبشیری سرگرمیوں کے دائرہ کار کی وسعت اور مضبوط وسائل
اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں اور ان کے وسائل کی قوت کس قدر زیادہ ہے اور دیگر کافر ممالک کس قدر ان کو سپورٹ کرتے رہے ہیں ،جب کہ ا س کے بالمقابل مسلم داعیوں کے پاس وسائل کی قلت ہے۔مسلمان حکومتوں کی اس معاملے میں بے بسی او رکمزوری ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
ان سطور میں ہم عیسائی مشنریوں کی تبشیری سرگرمیوں کے متعلق چند اعدادوشمار اور حقائق بیان کرتے ہیں ، جس سے ہمارا مقصد عیسائیوں کے گھنائونے منصوبوں کو واشگاف کرنا اور مسلمانوں کو دعوتِ فکر دینا ہے کہ وہ بھی اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لا کر اپنے دین کے دفاع اور اس کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیں ۔ ہم انہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ ان کی کوششیں بارآور ثابت ہوں گی اور کافروں کی تمام تدبیریں اُلٹی پڑیں گی، کیونکہ ربّ العزت کا فرمان ہے: :
إِنَّ الَّذينَ كَفَروا يُنفِقونَ أَموٰلَهُم لِيَصُدّوا عَن سَبيلِ اللَّـهِ ۚ فَسَيُنفِقونَها ثُمَّ تَكونُ عَلَيهِم حَسرَةً ثُمَّ يُغلَبونَ ۗ وَالَّذينَ كَفَروا إِلىٰ جَهَنَّمَ يُحشَرونَ۔۔۔ ﴿٣٦﴾۔۔۔انفال
''جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیا رکی ہے، وہ اپنا مال اس لئے خرچ کرتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکیں ، تو یہ لوگ آئندہ بھی (اسی طرح) خرچ کریں گے۔ لیکن پھر (وقت آئے گا کہ یہ مال خرچ کرنا) ان کے لئے سراسر پچھتاوا ہوگا اور بالآخر وہ مغلوب کئے جائیں گے ۔اور (یادرکھو) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی تو وہ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے۔''
اب تبشیری سرگرمیوں کے متعلق چند حقائق اور اعدادوشمار ملاحظہ فرمائیے:
• 1986ء کے اَعداد وشمار کے مطابق کیتھولک کلیسا صرف جنوبی افریقہ میں 15؍لاکھ گرجوں کا مالک ہے۔
• افریقہ کے 38 ممالک میں تبشیری مشنوں کی حالیہ تعداد1,11,000ہے۔ ان میں بعض مشنوں کے پاس باقاعدہ ہیلی کاپٹر ہیں ، جن کی مدد سے خانہ جنگی کے دوران نرسوں اور ادویات کو منتقل کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔
• 1416ھ بمطابق 1995ء میں افریقہ میں عیسائی مشنریوں کے پاس 52 ریڈیو ا سٹیشن اور مسلمانوں کے پاس صرف ایک ریڈیو اسٹیشن تھا۔
• 1985ء بمطابق 1406ھ میں افریقہ میں عیسائی مشنریوں کی تعداد ایک لاکھ 13ہزار تھی جو تعلیمی میدان میں 50؍لاکھ طلبا کے تعلیمی اخراجات اٹھائے ہوئے ہے۔
• عیسائی مشنوں کی طرف سے قائم کردہ ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی تعداد 1600 ہے۔
• عیسائی مشنریوں کے لئے مالی تعاون کی مقدار بڑھا کر 35 ہزار ملین ڈالر سالانہ کردی گئی ہے۔
• لاہوتی (مذہبی) مدارس جہاں مشنری اور پادری تیار کئے جاتے ہیں ، ان کی تعداد 500 تک پہنچ گئی ہے اور براعظم افریقہ کے گوشہ گوشہ میں کام کرنے والے بیس ہزار کلیسائی انسٹیٹیوٹ اس کے علاوہ ہیں ،جو تمام کے تمام عیسائی مشنری تیار کر نے میں سرگرمِ عمل ہیں ۔ اور ہر سال معقول تعداد ان اِداروں سے فارغ ہو تی ہے۔
• 1985ء میں پوپ نے مغربی افریقہ کا دورہ کیا اور وہاں اس نے مراکش کے تجارتی شہر کاسا بلانکاکے ایک وسیع میدان میں 80 ہزار مسلم نوجوانوں سے خطاب کیا اور ابیدجان Abidijan میں واقع'اسقف اعظم پولس چرچ' کا افتتاح کرتے ہوئے بطورِ برکت سب سے پہلی نماز پڑھی ۔ ویٹی کن کے بعد یہ عیسائیوں کا سب سے بڑا چرچ ہے، جہاں آٹھ ہزار افراد بیک وقت عبادت کر سکتے ہیں ۔
• 1980ء میں افریقہ کے 14ممالک میں عیسائی مشنریوں کے داخلہ پر پابندی تھی۔ لیکن 1999ء میں صرف تین افریقی ممالک ایسے رہ گئے،جو عیسائی مشنریوں کو اپنے ممالک میں داخل ہونے سے روکتے ہیں ۔
• 1900ء میں افریقہ میں عیسائیوں کی تعداد 10فیصد تھی ،لیکن 1990ء میں یہ تعداد بڑھ کر 57 فیصد ہو گئی ہے۔ اسی طرح 1970ء میں افریقہ میں عیسائیوں کی کل تعداد 12,02,57,000 تھی۔ 9991ء میں یہ تعداد بڑھ کر 33,33,68,000 ہو گئی ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹ ایک ہوشمند مسلمان کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی ہے۔
( ملاحظہ ہو :معاول الہدم والتدمیراز إبراہیم سلیمان الجبہان ص 91 ؍ مجلۃ الرابطة : عدد368 ؍ حاضر العالم الإسلامی:2؍672 اور مجلۃ الکوثر: شمارہ2 ؍ انٹر نیٹ پرایک مشنری ویب سائٹ بعنوان
prayer watch morris cerullo world evangelism)
افریقہ میں تبشیری تحریک کے پیش نظر مقاصد
براعظم افریقہ میں بھی تبشیری تحریک کے پیش نظر عموماً وہی مقاصد ہیں جو دوسرے بر اعظموں میں ہیں ۔ لیکن افریقہ اس لحاظ سے دیگربراعظموں سے ممتاز ہو جاتا ہے کہ وہاں تبشیری تحریک کے پیش نظر ایک خاص ہدف کارفرما ہے اور وہ یہ کہ :
2000ء میں افریقہ کو عیسائی براعظم میں تبدیل کرنے کی مہم پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے تاکہ وہ سیاسی، تعلیمی اور اقتصادی میدان میں تسلط حاصل کر کے بھر پور فائدہ اٹھا سکیں ۔ یہی وہ مقصد تھا جس کا اظہار اسقفِ اعظم ثانی نے 1993ء میں روم میں میلادِ مسیح کے موقع پر اپنے استقبال کے لئے آنے والے افریقی بشپوں کے وفد کے سامنے ان الفاظ میں کیا تھا :
'' اب افریقی کلیسا کی ذمہ داری تمہارے سر ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اہل کلیسا پیغام الٰہی کو لے کر اُٹھ کھڑے ہوں ۔ اے بشپو ! تمہارے سر ایک بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ 2000ء کے اندر اندر تمہیں پورے افریقہ کو حلقہ بگوشِ عیسائیت کرنا ہے''۔ (مجلہ 'الرابطہ' :368)
اور پھر عیسائیوں نے ویٹی کن،عالمی چرچ کمیٹی اور دوسری تبشیری تنظیموں کے درمیان مکمل یکجہتی سے براعظم افریقہ کو اس صدی کے اختتام تک عیسائی بنانے کے لئے اپنی تمام تر تبشیری، مادّی اور علمی قوتیں صرف کر دیں ۔ پوپ نے پانچ سالوں کے دوران افریقہ کے تین دورے کئے اور عیسائیت کا پیغام پہنچانے کے لئے افریقہ کے مشرق و مغرب میں گھوما۔
(حاضر العالم الاسلامي :2؍672)
عیسائی مشنریوں کے عمومی مقاصد
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عیسائی مشنریوں کے یہاں آنے کا سب سے بڑا مقصد دین کی نشرواشاعت ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دین کی نشرواشاعت عیسائی تنظیموں کا حقیقی مقصد نہیں ہے،بلکہ یہ ان کا ثانوی کام ہے۔
ان مشنری تنظیموں کا مقصد ِحقیقی استعماری طاقتوں کے ایجنٹ کی حیثیت سے جاسوسی کرنا ہے۔ اور یہ تمام لوگ ان تمام اخلاقِ حمیدہ سے بالکل عاری ہوتے ہیں ،جو ایک حقیقی مشنری میں ہونے چاہئیں ، ان کے اہداف یہ ہیں :
• عیسائی اور غیر عیسائی اقوام کو اسلام میں داخل ہونے سے روکنا اور اسلام کی نشرواشاعت کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنا ۔
• مسلمانوں کے دلوں سے اسلامی تشخص ختم کرنا کہ وہ بس نام کے مسلمان رہ جائیں ۔ اس مقصد کے لئے تنصیری تحریک نے سب سے پہلے مسلمانوں کی قوت کے سر چشمے 'اسلامی عقائد'پر حملہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے مسلمانوں کے عقائد کی جڑیں کھوکھلی کیں ۔ امریکی مشنری زویمر اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے:
''میں مسلمان کو وہ اہمیت نہیں دیتا جو ایک انسان کو دینی چاہیے ۔وہ اس شرف کا مستحق نہیں ہے کہ اس کو یسوع مسیح کی طرف منسوب کیا جائے ۔ہم انہیں نفسانی خواہشات میں مستغرق کریں گے۔ انہیں شتر بے مہار کی طرح خواہش نفس کا غلام بنا دیں گے، حتیٰ کہ اس کی شخصیت مسخ ہوجائے گی اور وہ کسی کام کا نہیں رہے گا۔''
• ان کا سب سے بڑا مقصد عالم اسلام کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ تمام اسلامی ممالک اگر متحد ہو گئے تو مغرب کے خلاف یہ ایک عظیم قوت ہو گی۔ پوپ سیمون نے کہا تھا:
'' تبشیری تحریک اسلامی وحدت کی شان و شوکت اور طاقت کو تار تار کرنے کے لئے ایک اہم ہتھیار ہے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ ہم تبشیری تحریک کے ذریعے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کریں اور ان کے فکری دھاروں کو بدلیں ، تاکہ عیسائیت مسلمانوں کے درمیان اثرورسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ ''
اس کا اندازہ اس مثال سے کیا جا سکتا ہے کہ مشہور مشنری 'زویمر' جامعہ ازہر کے طالب علم کے طورپرمصری طلبہ میں داخل ہوا، لیکن یہ شخص وہاں مسلمانوں اور قبطیوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کے لئے پمفلٹ تقسیم کیا کرتا تھا ۔
• مغربی استعماری طاقتوں کا تعاون کرنا اور عالم اسلام کے خلاف جاسوسی کرنا:
نابلین کا یہ قول ان کے اس مذموم مقصد کو طشت از بام کرتا ہے :
'' میرا یہ ارادہ ہے کہ غیر ملکی مشنریوں کا ایک ادارہ قائم کیا جائے ۔ایک وقت آئے گا کہ یہ مذہبی قسم کے لوگ ایشیا اور افریقہ میں ہمارے بہت بڑے مدد گار ثابت ہوں گے۔ میں انہیں اکنافِ عالم سے معلومات جمع کرنے کی مہم پر بھیجوں گا اور ان کا لباس اور رہن سہن ان کی حفاظت کرے گا اور ان کے تمام اقتصاد ی او رسیاسی عزائم کی پردہ پوشی کرے گا ۔''
• تجارتی اور مادّی فوائد حاصل کرنا: افریقہ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ وہاں کا چرچ محض ایک تجارتی ادارہ ہے۔ اور افریقی بچوں کو عیسائی مدارس میں داخلہ تعلیم و تربیت کے لئے نہیں دیا جاتا،بلکہ مشنریوں کے کھیتوں میں کام کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔
(یہ تمام معلومات احذروا الاسالیب الحدیثة ص 56 ، التنصیر فی الأدبیات العربىة
از ڈاکٹر علی ابراہیم نملہ ص 34 اور التبشیر والاستعمار ص 34 سے ماخوذ ہیں )
افریقہ میں لوگوں کو عیسائی بنانے کے ذرائع
1۔ بلاواسطہ ذرائع: عیسائی منادوں کا سب سے پہلا میدانِ عمل، جس سے انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا، وہ تھا مسلمان علما سے مناظرہ کے ذریعے اسلام کو براہِ راست چیلنج کرنا ۔ (أجنحة المکر الثلاثة وخوافیها از عبد الرحمن حسن المیدانی: ص 102)
اس کے بعد عیسائی مشنریوں نے اپنی تکنیک بدلی اور براہِ راست اورکھلم کھلا ٹکر لینے کی بجائے انہوں نے خفیہ اور بالواسطہ ہر طریقہ کار اختیار کیا۔ـ(ایضاً:ص 103) عیسائی مشنریوں کے بلاواسطہ ذرائع جنہیں وہ سرعام استعمال کرتے ہیں ، بلند و بالا گرجوں کی تعمیر اور بڑے پیمانے پر انجیل کی نشرواشاعت وغیرہ ہیں ۔
2۔۔ بالواسطہ وسائل: عیسائی مشنریوں کے خفیہ اور بالواسطہ ذرائع بے شمار ہیں ۔ طوالت کے اندیشہ کے پیش نظر ہم اہم ذرائع کو نہایت ا ختصار سے ذکر کریں گے او ران کے حقائق سے پردہ اٹھائیں گے:
1۔۔ طب (ہنگامی حالات اور انسانی آلام سے فائدہ اٹھانا) : یہ حقیقت ہے کہ ایک دکھی انسان اپنے دکھ سے نجات حاصل کرنے کے لئے پسندیدہ سے پسندیدہ شے بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ جب وہ اپنے کسی قریبی یا اپنے لخت ِجگر کو کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا دیکھتا ہے تو اس کی آنکھوں میں اپنے لخت ِجگر، اپنی ماں اور اپنی شریک ِحیات بیوی کی شفا یابی کے مقابلے میں دنیا کی ہر چیز حقیر ہو جاتی ہے۔ عیسائی مشنریوں نے اس انسانی کمزوری کا خوب استحصال کیا۔ انہوں نے انسانی طبیعت کے قفل میں ٹھیک چابی لگائی او راپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے طب کے پیشہ پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ان کا یہ کہنا ہے :
'' جہاں انسان ہوں گے، وہاں بیماریاں بھی ہوں گی۔ اور جہاں بیماریاں ہوں گی ضروری ہے کہ وہاں ڈاکٹر کی ضرورت بھی پڑے گی۔ اور جہاں ڈاکٹر کی ضرورت ہو گی وہاں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کا اچھا موقع ہے۔'' (التبشیر والاستعمار: ص 59)
اس مقصد کے لئے مشنری ڈاکٹروں نے سوڈان کے شہر 'ناصرہ' میں اپنے کلینک کھولے۔ یہ لوگ اس وقت تک کسی مریض کا علاج نہیں کرتے جب تک مریض یہ اعتراف نہ کرے کہ اس کو شفا دینے والا یسوع مسیح ہے۔ (ایضاً : ص62)
ان عیسائی مشنریوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ وادیٔ نیل میں ان کے تین جہاز پھرتے رہتے ہیں ، جنہیں وہ بطورِ سٹریچر استعمال کرتے ہیں اور ڈاکٹر کے آنے سے کافی وقت پہلے اس کی آمد کا اعلان کر دیتے ہیں ۔مصیبت کے مارے لوگ دھڑا دھڑ اپنے مریضوں کو لاکر ان جہازوں میں سوار کر دیتے ہیں او را س کے بعد ڈاکٹر کی آمد کا انتظار کرنے لگتے ہیں ۔ اسی دوران ایک مشنری کھڑا ہو کر عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دیتا ہے۔ سورج کی گرمی اور انتظار کی اذیت اٹھانے والے ان مریضوں کی آہیں اور سسکیاں ان کے ضمیر میں ذرا بھی خلش پیدا نہیں کرتیں ۔
کینیا میں ایک بحری جہاز ملک کا دورہ کرتا ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑا جہاز ہے، جو جدید ڈاکٹری سازو سامان اور تمام امراض کے سپیشلسٹ ڈاکٹروں سے بھرا ہوتا ہے۔ جب کوئی مریض آتا ہے تو ڈاکٹر اس کے متعدد ٹیسٹ کرتے ہیں اور اسے تمام ادویات مفت مہیا کی جاتیں ہیں ۔ ان کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ یہ تمام مریضوں کو ایک لائن میں کھڑا کر دیتے ہیں ، علاج شروع کرنے سے پہلے جہاز کا ایک آدمی آتا ہے اور آلاتِ موسیقی لے کر گانا بجانا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے بعد نوجوانوں کی ایک جماعت آتی ہے جو تبشیری تعلیم پر مشتمل گانے گاتی ہے اور اس کے ساتھ رقص بھی کرتی ہے ۔ اس کے بعد کچھ دیر تک چند فلمیں دکھائی جاتی ہیں جو ان کے ناپاک اور گھنائونے عزائم کی ترجمانی کرتی ہیں ۔
('افریقہ مسلم کمیٹی' کی کلیسائی سرگرمیوں کے متعلق رپورٹ)
2۔۔ تعلیم: عیسائی مشنریوں نے تعلیم کی اہمیت اور انسانی زندگی میں اس کے کردار کا خوب ادراک کیا، پھر ہر طرح سے اس کا غلط استعمال کیا اور اسے اپنے اغراض و مقاصد اور ناپاک عزائم کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ اور اس کے لئے ایسے مشنری اساتذہ مقرر کئے جن کے دلوں میں امانت و استقامت اور سچائی کی رمق تک نہ تھی۔لارڈ کرومر اسکے بارے میں لکھتا ہے
'' وہ مصری جس نے مغربی تہذیب کا اثر قبول کر لیا،بے شک وہ نام کا مسلمان تو ہو سکتا ہے، لیکن در حقیقت وہ ملحد اور بے دین ہے۔'' (احذروا الاسالیب الحدیثة: ص 83)
اپنے اس گھنائونے مقصد کو بروئے کار لانے کے لئے انہوں نے نہایت اہتمام سے افریقہ میں تعلیمی ادارے اور بڑی بڑی یونیورسٹیاں بنانے آغاز کیا۔جیسا کہ پہلے ہم یہ ذکر کر چکے ہیں کہ 985 1ء کے اعدادو شمار کے مطابق مشنری ادارے پانچ ملین سے زائد طلبا کی کفالت کر رہے ہیں او رعیسائی مشنریوں نے مصر میں بلا خوف و خطر جامعہ ازہر سے چھیڑ چھاڑ کے لئے امریکی یونیورسٹی، قاہرہ میں قائم کی۔
اس کے علاوہ اب وہ خاص طورپرچھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔اسکا اندازہ مشہور عیسائی پادری جان موٹ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے ،وہ لکھتا ہے
''ضروری ہو گیا ہے کہ ہم تمام تبشیری میدانوں میں اپنی تمام تر توجہ بچوں کی طرف مبذول کر دیں ۔ یہ بات بڑی اطمینان بخش ہے کہ ہم تمام اسلامی ممالک میں اس نکتہ کو اپنی تبشیری مہم کی بنیاد بنا لیں ، کیونکہ بچے اسلام کے خلاف اس قسم کے [شر انگیز] اثرات کو بہت جلدی قبول کرتے ہیں ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ چھوٹے بچوں کو اسلام سے متنفر کر کے یسوع مسیح کی طرف اُبھارا جائے، اس سے قبل کہ وہ سن شعور کو پہنچیں اور ان کی طبائع اسلامی تعلیمات سے آشنا ہوں ۔ شمالی افریقہ میں منعقدہ کانفرنس کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مختلف جزائر میں ہمارے عیسائی مشنوں کا یہ جدید تجربہ انتہائی اطمینان بخش اور کامیاب رہا ہے۔'' (التبشیر والاستعمار: ص68)
اس مقصد کے حصول کے لئے مشنری کالجز اور مدارس کا ایک جال بچھا دیا گیا ہے۔ بطورِ مثال ہم یہاں چند خطرناک تبشیری کالجز اور تعلیمی مدارس کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو مصر کے طول و عرض میں قائم کئے گئے ہیں ، شاید کہ اس سے ہماری آنکھیں کھل جائیں :
• کامرس کالج عطارین (اسکندریہ میں)
• قاہرہ میں واقع شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ کے سکولز
• سرائے قبہ میں برطانوی بشپوں کے سکولز
• امریکہ یونیورسٹی (قاہرہ)
• امریکہ گرلز کالج (رمسیس روڈ)، قاہرہ
• ازبک گرلز کالج (قاہرہ)
• امریکہ کالج (اسیوط، مصر کا ایک قدیم شہر)
• امریکہ گرلز کالج (اسیوط)
• امریکہ گرلز کالج (اقصر)
3۔۔ سماجی خدمت (سوشل ورک) اور رفاہ عامہ کے کام: مشہور مشنری مر ڈوگلس نے ایک مقالہ لکھا ، جس کا عنوان تھا' 'جزائر میں ہم مسلمانوں بچوں کو اپنے ساتھ کیسے شامل کریں ؟'' اس میں وہ ذکر کرتا ہے کہ
'' اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ شمالی افریقہ کے مختلف جزائر کے متعدد ممالک میں ایسے بے شمار کیمپ لگائے جائیں ، جہاں غریب بچوں کو کھانے، لباس او ر رہائش کی سہولت میسر ہو۔ ''
اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ:
'' اگر ان راستوں سے مسلمان بچے عیسائی نہیں بنیں گے تو کم ا زکم مسلمان بھی نہیں رہیں گے''
اور عیسائی مشنری اس مشن کو مصر اور شمالی افریقہ کے علاقوں میں بھر پور طریقے سے آگے بڑھا رہے ہیں ۔ (التبشیر والاستعمار: ص 1 94)
سینی گال کی صورتِ حال یہ ہے کہ وہاں تبشیری تنظیمیں غریب خاندانوں کے ساتھ ایک معاہدہ کرتی ہیں ،جس کی رو سے وہ انہیں ہر ماہ روٹی اور چاول کی صورت میں معمولی سی مالی امداد مہیا کرتی ہیں ؟ اس شرط پر کہ خاندان کے پانچ سال سے کم عمر بچوں پر انہیں مکمل اختیار حاصل ہوگا ۔اس کے بعد اس بچے کی عیسائی نہج پر تربیت کی جاتی ہے اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے اسے فرانس بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یا تو اسے تبشیری سرگرمیوں میں منہمک کر دیا جاتا ہے، یا پھر مغرب اور عیسائیت کے مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ وائے افسوس کہ جمہوریہ سینی گال کا سابقہ صدر شنگر بھی ان بچوں میں سے ایک تھا جو تبشیری تحریک کا شکار بنا، حالانکہ اس کے والدین او ربھائی بہنیں سب مسلمان تھے۔(احذروا الأسالیب الحدیثة، ص 70)
4۔۔ ذرائع ابلاغ ، میڈیا پر تسلط حاصل کرنا: جہاں یہ لوگ مصنوعی سیاروں کے ذریعے عیسائیت کا پرچار کر رہے ہیں ، وہاں افریقہ میں 52 ریڈیوسٹیشن ان کے زیر ملکیت ہیں ۔یونڈی Yaounde (کامرون کا دارالخلافہ) میں کلیۃ الدّین کا پرنسپل پوپ شالی لکھتا ہے:
''آخر کار ہم ذرائع ابلاغ میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے ہیں ۔ جہاں آج ہم پہنچ چکے ہیں اور جہاں آج عیسائیت کی آواز پہنچ چکی ہے، ہمارے آباؤاجداد کے محدود ذرائع سے وہاں تک پہنچنا شاید دو یا تین سال کے بعد ممکن ہوتا۔ لیکن اب ان وسائل سے وہاں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے، جہاں آج عیسائیت کی آواز پہنچ چکی ہے''۔ (مجلہ الرابطہ : عدد368)
''آخرکار ہم ان ذرائع ابلاغ کی مدد سے مسلمانوں سے بہت آگے نکل آئے ہیں ۔جہاں ہم آج پہنچے ہیں اور دو تین سال میں عیسائی تعلیمات پھیلا دی ہیں ، وہاں وہ بھی پہنچ سکتے تھے۔ لیکن آج وہ اتنے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یسوع مسیح کا شکر ِعظیم ہے کہ اس نے ہمیں اس کی توفیق دی۔''
عیسائی مشنری متعدد روزناموں ، ہفت روزہ اور ماہانہ رسائل کے علاوہ بے شمار کتب، پمفلٹ اور ریڈیو نشریات کے ذریعے عیسائیت کا پیغام پورے عالم میں پہنچا رہے ہیں ۔وہ بر ملا کہتے ہیں کہ :
''ہم نے مسیحی نظریات کے اظہار کے لئے جتنا فائدہ مصری صحافت سے اٹھایا ہے، اتنا کسی بھی اسلامی مملکت کی صحافت سے نہیں اٹھا سکے۔ ''(التبشیروالاستعمار: ص21 3)
5۔۔ انفرادی و اجتماعی بحرانوں اور حوادث سے فائدہ اُٹھانا: عام طور پر مسلمانوں کے لا وارث گم کردہ راہ، بے گھر اور مختلف بحرانوں اور مصائب کا شکار بچے او ربچیاں ، اسی طرح وہ لوگ جو جنگوں ، فتنوں ، قحط سالیوں ، طبعی حوادث اور دیگر بحرانوں میں اپنے اہل و عیال سے بچھڑ جاتے ہیں ، ان لوگوں کی تبشیری سرگرمیوں کا شکار بنتے ہیں ۔ ا س کی مثال وہ تبشیری مہمات ہیں جو مشنری تحریکوں نے صومالیہ میں پناہ گزین مسلمانوں کے بچوں کو عیسائی بنانے کے لئے شروع کر رکھی ہیں ۔اور 1982ء کے اخبارات اس مہم کو بے نقاب کر چکے ہیں ۔
(أجنحة المکر الثلاثة: ص104)
6۔۔ حقیقی مسلمانوں کو سیاسی قیادت سے سبکدوش کرنا: اس کا مقصد سیاسی فضا کو اپنے حق میں سازگار کرنا ہے، تاکہ کوئی طاقت ان کے مقاصد کے سامنے حائل نہ ہوسکے۔ا س کی ایک مثال ملک سیرالین ہے، جہاں مسلمانوں کی آبادی 80 فیصد ہے اور عیسائی آبادی بمشکل 5 فیصد ہو گی، اس کے باوجود وہاں کی وزارت کی 22 نشستوں میں سے 18نشستوں پر عیسائی مسلط ہیں ۔ صدارت، وزارتِ عظمیٰ، وزارتِ خارجہ، وزارتِ خزانہ اور وزارتِ مواصلات کا منصب عیسائیوں کے پاس ہے۔
ا س کی دوسری مثال سینی گال،وسطی افریقہ،گیمبیا ،حبشہ ،تنزانیہ ،چاڈ،والٹا اور لائبیریا کے ممالک ہیں ، جہاں مسلمان غالب اکثریت ہونے کے باوجود عیسائیوں کے زیر تسلط ہیں ۔سینی گال میں مسلمانوں کی آبادی 90 فیصد ہے اور وسطی افریقہ میں 70 فیصد، گیمبیا میں 90 فیصد ، تنزانیہ میں 45 فیصد، حبشہ میں 60 فیصد، اسی طرح چاڈ، والٹا Houte-Valta اور لائبریا میں بھی مسلمان غالب اکثریت میں آباد ہیں ، اس کے باوجود وہاں عیسائی اقلیت حکمران ہے۔ (مجلہ ہٰذه سبیلی: عدد: 2، ص 219)
خفیہ تنظیموں (ایجنسیوں ) کی سرگرمیاں
اس کی مثال وہ خفیہ تنظیمیں ہیں جن کے متعلق 70ء کی دہائی کے آخر میں سوڈانی اخبارات نے یہ رپورٹ پیش کی کہ سوڈان میں پولیس کے حفاظتی دستوں نے ایک ایسی خفیہ تنظیم کا سراغ لگایا ہے جو اسلام کے خلاف سازشیں کرنے اور اسلام کے خلاف غلط نظریات پھیلا کر مسلمانوں کو اسلام سے بر گشتہ کرنے اور پھر انہیں عیسائیت قبول کرنے کی دعوت دینے،ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اس تنظیم کا سرغنہ ڈاکٹر سویسری ہے ،جو خرطوم میں سروس کرتا ہے۔ اور یہ تنظیم ایک بین الاقوامی تنظیم، جس کا ہیڈ کوارٹر سوئٹزرلینڈکے شہر بازل Baselمیں واقع ہے، کی ذیلی شاخ ہے۔ تنظیم کے ہیڈ کوارٹر میں ایسی 200 کتابوں کا انکشاف ہوا جو اسلام کے خلاف لکھی گئی تھیں ، ان میں اسلام کی حقیقی صورت کو مسخ کر کے پیش کیا گیا تھا اور مسلمانوں کو اسلام سے مرتد ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔
اس کے علاوہ اس ہیڈ کوارٹر سے بہت بڑی تعداد میں ایسی کیسٹیں برآمد ہوئیں جو اسلام مخالف موضوعات پر مشتمل تھیں ۔ان میں سے بعض ایسی تھیں جن میں قرآن کی طرز پر تلاوتیں ریکارڈ تھیں ، اس کا مقصد افریقہ اور دیگر علاقوں کے مسلمانوں کو دھوکہ دینا تھا تاکہ وہ اس کو قرآن سمجھ کر قبول کر لیں ۔(أجنحة المکر الثلاثة: ص 107)
7 کانفرنسوں کا انعقاد :ان کانفرنسوں میں دنیا کے کونے کونے سے عیسائی مفکرین جمع ہوتے ہیں ۔جو اسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے، اپنے فاسد عقائد اور تخریب کار مذہب کو فروغ دینے کیلئے اپنی اپنی تجاویز دیتے ہیں اور اس کے بعد مختلف حربوں اور منصوبوں کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا جاتا ہے۔اسکی مثال ایک تو وہ تبشیری کانفرنس ہے جو 1906ء میں قاہرہ میں منعقد ہوئی۔ اور دوسری وہ جو امریکہ کے شہر کولوراڈو Colorado میں 1978ء میں منعقد ہوئی۔
یہ وہ اہم ترین ذرائع ہیں جنہیں عیسائی اپنے من گھڑت دین اور فاسد عقائد کو روئے ارض پر پھیلانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔اور ان کے علاوہ بھی بے شمار ذرائع ہیں جنہیں اس مقصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ،جیسے فحاشی کے بڑے بڑے کلبوں اور محفلوں کا قیام، نوجوانوں کو شکار کرنے کے لئے ان کے ساتھ فرینڈ شپ کے نام پر نوجوان لڑکیوں کا استعمال، بڑے بڑے انٹرنیشنل ہوٹل، مارکیٹیں قائم کر کے معاشرہ کو خواہشاتِ نفسانی میں غرق کرنا وغیرہ وغیرہ۔
مسلمانو! دشمن کی مکاریوں سیبچو، لیکن ا س کے لئے ضروری ہے کہ ان کے منصوبوں اور سازشوں کو بے نقاب کیا جائے ۔ان سے نبردآزما اور برسرپیکار ہونے کے لئے مناسب لائحہ عمل تیار کیا جائے اور ان کے مذہب کے بطلان سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے ۔یہ اللہ کی طرف سے ہم پر ایک فریضہ ہے کہ ہم مجرموں کے راستوں کی نشاندہی کریں ۔ بلکہ قرآن عزیز کی آیات واضح طور پر ہمیں اس بات کا حکم دیتی ہیں کہ ہم دشمنوں کی دسیسہ کاریوں اور سازشوں کو طشت ازبام کریں ۔فرمانِ الٰہی ہے:
{وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ} (الانعام:55)
''اور اسی طرح ہم آیات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہوجائے۔''
اس مقالہ کے اختتام پر میں روئے زمین کے مشرق و مغرب میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ
تبشیری تحریک براعظم مسلم افریقہ کی بیخ کنی کے لئے اُدھار کھائے بیٹھی ہے اور اس کے لئے وہ اپنے تمام وسائل و ذرائع بروئے کار لا رہی ہے۔ تم اس کے منصوبوں ، دسیسہ کاریوں او رسازشوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور یہ بھی دیکھ رہے ہو کہ اس کے لشکر دین اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو ان کے دین سے بر گشتہ کرنے کے لئے کس طرح دن رات ایک کر کے نہایت مستعدی سے کام کر رہے ہیں ۔
لیکن امت ِمحمدیہ! تم نے غفلت کی چادریں تان لیں ۔تمہارے عقیدے او ردین حق کو لوٹاجارہاہے اور تم خوابِ غفلت میں پڑے ہو ۔ دشمن تمہارے دین کو نوچ نوچ کر کھا رہا ہے اور تم بے بسی سے یہ تماشا دیکھ رہے ہو۔ دشمن اپنا الاؤ لشکر لے کر چہار سو تم پر یلغار کر رہا ہے اور تم بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے والے کبوتر کی طرح دشمن کا تر نوالہ بننے کے لئے بالکل تیار بیٹھے ہو۔ اٹھو اپنے دین کے دفاع کا فریضہ انجام دو اور سب مل کر دشمنوں کی تدبیریں ناکام کردو۔ آج دین کو ہماری قربانیوں اور عزمِ صمیم کی ضرورت ہے، جو یقیناً ہمارے لئے اللہ کی نصرت کا سبب ہوں گی۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے کھوئے ہوئے اسلامی تشخص کو واپس لینے کے لئے اپنے قدموں کو تیز کریں او راللہ کے سامنے دست بہ دعا ہوں کہ وہ ہمارے لئے ہدایت کا وہ معاملہ مستحکم کردے ،جس میں اہل طاعت عزت سے سرخرو ہوتے ہیں اور نافرمان اور کافر ذلت سے دوچار ہوتے ہیں ۔
والله غالب على أمره ولكن اكثر الناس لا يعلمون ۔ القرآن
او راللہ کو جو معاملہ کرنا ہوتا ہے وہ کر کے رہتا ہے، لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو نہیں جانتے!!
[لندن سے شائع ہونے والے معروف عربی مجلہ 'البیان' کے شمارہ 153سے ماخوذ]
نوٹ : آئندہ شمارہ میں عراق میں حالیہ امریکی تسلط کے بعد عیسائی مشنریوں کی بڑھتی سرگرمیوں کا جائزہ شائع ہو گا۔