فروری 2007ء

مولانا قارى عبدالخالق رحمانى كى ياد ميں

راقم كے والد مرحوم حاجى عبدالرحمن پٹوى علماے كرام كے بے حد معتقد تهے، علما كى خدمت و تكريم اور ميزبانى ان كا روزمرہ معمول تها- ہمارے غريب خانہ پرمختلف اوقات ميں جو علماء و صلحا مہمان رہے، ان كى فہرست طويل تر ہے جن ميں سے بعض كے اسماے گرامى كچھ اس طرح ہيں : صوفى محمد عبداللہ اوڈانوالہ، حافظ محمد عبداللہ محدث روپڑى، مولانا عبدالمجيديزدانى ، مولانا عبدالمجيدسوہدرى، علامہ محمد يوسف كلكتوى، مولانا قارى عبدالخالق رحمانى ،حافظ محمد اسماعيل ذبيح ، حافظ محمداسماعيل روپڑى، حافظ عبدالقادر روپڑى، سيد محمد اسماعيل شاہ مشہدى، مولانا احمدالدين گكهڑوى، مولانا على محمد صمصام، مولانا سيدعبدالغنى شاہ، مولانا نور حسين گرجاكهى، حافظ محمد ابراہيم كميرپورى، حافظ محمد شريف سيالكوٹى ، مولانا محمد رفيق خان پسرورى، مولانا محمد يحيىٰ حافظ آبادى، مولانا محمد عبداللہ ثانى ، حافظ عبدالحق صديقى ،مولانا محمد يحيىٰ شرقپورى، حافظ محمد يحيىٰ عزيز حفظہ اللہ، حافظ عبداللہ شيخوپورى، مولانا معين الدين لكهوى مدظلہ العالى،مولانا محى الدين لكهوى، مولانا محمد عبداللہ بوريوالہ حفظہ اللہ، مولانا محمد اسحق بهٹى حفظہ اللہ، قاضى محمد اسلم سيف فيروزپورى اور مولانا محمد صديق  سرگودہوى وغيرہ

ان ميں سے بزرگ اور پاكباز شخصيات صوفى عبداللہ، بڑے حافظ صاحب محدث روپڑى اور مولانا عبدالمجيدہزاروى كا تو ہمارے ہاں ہفتوں قيام رہتا- ان حضرات كے عقيدت مند آتے رہتے اور فيوض و بركات اور دعاؤں سے مستفيد ہوتے- ہمارے گهركے تمام چهوٹے بڑے افراد ان صلحا كے آرام اور خوردونوش كا خيال ركهتے- ذلك فضل الله يوتيه من يشاء، الميہ يہ ہے كہ نہ ايسے مہمان رہے اور نہ ہى ميزبان، اللہ تعالىٰ سب كى مغفرت فرمائے!

مولانا احمد دين گكهڑوى مرحوم مستقل طور پر ہمارے پاس قيام پذير تهے، بس شب و روز اُن كا ساتہ والد عليہ الرحمہ سے تها- مولانا على محمد صمصام جب بهى تبليغى سفر پر جاتے يا واپس آتے، يہ نہيں ہوسكتا تها كہ وہ ہميں ملے بغير چلے جائيں - ان نيك صفات اہل علم كو بهى والد عليہ الرحمہ كے زُہد و تقوىٰ كے سبب ان سے قلبى لگاؤ تها- حافظ محمد اسماعيل روپڑى اور حافظ عبدالقادر روپڑى سے تو ابا جان كوبہت ہى محبت وپيار تها- جن دنوں يہ روپڑى برادران فيصل آباد كى جامع اہلحديث امين پور بازار، مسجد ِمبارك منٹگمرى بازار اور مسجد الفردوس گلبرگ سى ميں خطباتِ جمعہ ديتے رہے، كئى كئى روز تك ان كى نشست و برخاست ہمارے گهر پر رہتى-

حافظ عبدالقادر روپڑى چند سال مسجدالفردوس اور پهر مسجد مبارك منٹگمرى بازار ميں رمضان المبارك ميں قرآن سناتے رہے، وہ اتنے باہمت تهے كہ نمازِ فجر كے بعد درسِ قرآن دے كر روزانہ لاہور جاتے اور وہاں ہفت روزہ 'تنظيم اہلحديث' كى اشاعتى ذمہ دارياں اور ديگر كاموں كى ديكھ بهال كركے نمازِ عصر كے بعد واپس فيصل آباد افطارى كے وقت پہنچ جاتے، اس كے بعد تراويح اور پهرمنزل كا خلاصہ گهنٹہ ڈيڑہ گهنٹہ- گرميوں كے رمضان ميں پورا مہينہ ان كا يہ عمل رہتا- بڑى عمر كے احباب جانتے ہيں كہ روپڑى برادران ميدانِ مناظرہ اور ميدانِ خطابت كے شہسوار تهے، حافظ محمد اسماعيل جيسا شيريں كلام خطيب اور ہردلعزيز و متواضع عالم اس بندہٴ عاجز نے نںيا ديكها- دونوں بهائيوں كے سٹيج پر ہوتے ہوئے كسى اور عالم يا مقرر كى حيثيت ثانوى رہ جاتى، لوگوں كے اشتياق اور توجہات كا مركز يہى رہتے-

تقسيم ہند كے بعد حافظ محمد اسماعيل روپڑى كچھ عرصہ قيوم منزل بالمقابل مزارِ قائد، كراچى رمضان المباك ميں قرآن سناتے رہے- قيوم منزل والے حاجى عبدالقيوم پشاور سے تعلق ركهتے تهے- آپ قيوم ٹيكسٹائل ملز كے مالك تهے اور عرصہ دراز سے كراچى ميں رہائش پذير تهے- بڑے ہى وضع دار و باوقار اور مہمان نواز بزرگ تهے، حافظ صاحب كے خصوصى خدمت گزاروں ميں ان كاشمار ہوتا تها- ملك بهر سے آنے والے سفيرانِ مدارسِ دينيہ سے ضرور تعاون كرتے-

اب آتے ہيں حضرت مولانا قارى عبدالخالق رحمانى  سے ہمارى شناسائى كى طرف، يہ اس لڑكپن كے زمانے كى حسين ياد ہے جب راقم 1955ء ميں دسويں جماعت كا طالبعلمتہا، جون كا مہينہ اورگرميوں كى چهٹياں تهيں -رمضان شريف بهى گزر رہا تها كہ كراچى سے حافظ محمد اسماعيل صاحب نے بصد شفقت حكم ديا كہ كراچى آؤ اور ملك كا سب سے بڑا شہر ديكهو- چنانچہ ميں اپنے دوست شيخ محمد يونس كے ہمراہ كراچى جاپہنچا- ہم دونوں دن كے وقت اِدهر اُدهر سيروتفريح كے لئے نكل جاتے، رات كو حافظ صاحب كى امامت ميں قيوم منزل پہنچ كر نمازِ تراويح ميں شركت كرتے جہاں كراچى كے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے نمازيوں كى ايك كثير تعداد جمع ہوتى- تراويح كے بعد ميزبان حاجى عبدالقيوم تمام شركا كو ٹهنڈے مشروبات اور آئس كريم پيش كرتے- حضرت مولانا قارى عبدالخالق رحمانى جنہيں اب مرحوم لكهتے ہوئے قلم لرزتا ہے اور دل غمزدہ ہے، اپنى مسجد ِخضرا ميں نمازِ تراويح پڑها كر روزانہ قيوم منزل آجاتے-

قارى صاحب بلندپايہ عالم دين، جامع معقولات و منقولات اور درس و تدريس كے قابل ترين اُستاذ تهے- اللہ تعالىٰ نے اُنہيں بارعب شكل و شباہت، لمباقد كاٹہ اور قوى جسم عطا فرمايا تها، مرنجاں مرنج طبيعت اور خوش طبعى و خوش اخلاقى جيسى وافر خصوصيات وديعت كى تهيں ، يوں سمجهئے بسطة في العلم والجسم كے مصداق شخصيت تهے- آپ كى تقريرميں شعلہ نوائى اور خطابت ميں ايك خاص قسم كى يكتائى پائى جاتى تهى، شستہ اور مادرى زبان اُردو اور لحن داؤدى ميں آياتِ قرآنى كى تلاوت بڑى بہار پيدا كرديتى- حافظ محمد اسماعيل اس محفل كشت زعفران كے روحِ رواں ہوتے- حافظ صاحب عليہ الرحمہ علم و عمل كے پيكر اور اسلامى اخلاق و اقدار كامجسمہ تهے- ميٹهى زبان ميں سلجهى ہوئى گفتگو اور سنجيدہ لطائف و ظرائف خوب بيان كرتے چلے جاتے- افطارى كے موقعوں پر جب ان حضرات ميں علامہ محمد يوسف كلكتوى اور حضرت الامام مولانا عبدالستار دہلوى كى شموليت ہوجاتى تو رونق دوبالاہوجاتى- بعض اوقات علمى بحث و تمحيص چهڑ جاتى تو بچپنے كے سبب ہمارے پلے توكچھ نہ پڑتا مگر بڑے محظوظ ہوتے-

قارى عبدالخالق صاحب اور حافظ محمد اسماعيل صاحب كو قرآنِ حكيم كا بہت ضبط تها، دونوں دوست سارا دن قريباً اكٹهے گزارتے- پانچوں نمازوں كے بعد كبهى كسى مسجد ميں اور كبهى كسى كالونى يا كوٹهى ميں وعظ و تقاريركا سلسلہ جارى رہتا، مگر ہم نے نہيں ديكها كہ اُنہوں نے قرآنِ مجيد كھولا ہو اور منزل پر نظر ڈالى ہو- رمضان المبارك ختم ہونے پر ڈيڑہ دو ماہ تك كراچى كے پاركوں ، باغوں اور بڑى بڑى مساجدميں جلسوں كے پروگرام ہوتے- حضرت پيرسيد بديع الدين شاہ مرحوم بهى كبهى كبهار مدعو ہوتے-كراچى كى مكدر فضاؤں ميں توحيد و سنت كى تبليغ واشاعت اور شرك و بدعات كى ترديد ميں ان عظيم رہنماؤں كا بڑا كردار ہے- ايك دفعہ بريلوى مناظر مولانا محمد عمر اچهروى بهى كراچى آپہنچے اور مناظرے كے چيلنج شروع كرديے، بالآخر ايك عام جگہ پر طے شدہ وقت پر دونوں جانب سے سٹيج لگ گئے- قارى صاحب كى صدارت ميں حافظ محمد اسماعيل صاحب نے ابتدائى دو تين مكالموں ميں ہى اچهروى صاحب كى ايسے پكڑ كى كہ اُنہيں جان چهڑانا مشكل ہوگيا- جواباً اينٹوں ، پتهروں كى بارش كردى گئى ليكن سامعين كا بهارى اجتماع سمجھ گيا كہ حق و صداقت كا مسلك كيا ہے-حافظ عبدالقادر ٹرين ليٹ ہوجانے كى وجہ سے دير سے پہنچے، اچهروى صاحب بمع لاؤلشكر جب ميدان چهوڑ گئے تو دونوں بهائيوں نے تادير قرآن و سنت كى بارش سے دلوں كى آبيارى كى اور اس طرح كراچى ميں احاديث كى دہاك بيٹہ گئى-

ہمارے كراچى قيام كے دنوں ہى كا و اقعہ ہے كہ شہر ميں نمازِ تراويح كى مسنون تعداد كا مسئلہ چل نكلا- ديوبندى عالم مولانا احتشام الحق تهانوى معتدل مزاج اور بڑے شريں نوا مقرر تهے، اُنہيں بهى اس بحث ميں گهسيٹ ليا گيا، دونوں طرف سے اشتہارات چهپ گئے، حضرت قارى صاحب ميدان ميں ڈٹ گئے اور مناظرہ كرنے كے لئے تيار ہوگئے- قارى صاحب كى تقريروں اور حافظ محمد اسماعيل صاحب كے اخبارى بيانات پر مولانا تهانوى خاموش ہوگئے- پهر كيا تها جگہ جگہ قارى صاحب كى للكار سنائى دينے لگى نتيجتاً سنت كے شيدائيوں كى تقويت اور فروغ كے لئے فضاسازگار ہوتى چلى گئى

بڑے شوق سے سن رہا تها زمانہ
تمہيں سوگئے داستان كہتے كہتے


يہ كوئى ١٩٧٢ء كى بات ہوگى كہ ملتان كى ايك تنظيم نے قلعہ كہنہ، قاسم باغ ميں بڑے پيمانے پر 'توحيد كانفرنس' كے انعقاد كا اہتمام كيا جس ميں اہلحديث، ديوبندى، بريلوى اور شيعہ ہر ايك ميں سے چوٹى كے مقرر كو دعوت دى گئى- اہل حديث كى طرف سے قارى عبدالخالق رحمانى، ديوبنديوں ميں سے مولاناغلام اللہ خان، بريلويوں ميں صاحبزادہ فيض الحسن اور شيعہ ميں سے علامہ اظہر حسن زيدى مقررين تهے- ايك ايك گهنٹہ وقت تها، راقم خود اس عظيم جلسہ گاہ ميں موجود تها-ان تمام نامى گرامى مقررين ميں سے قارى صاحب كى تقرير اوّل اور سرفہرست شمار ہوئى- ان كى تقرير كا امتياز يہ تها كہ قرآن و حديث كے دلائل كے ساتہ ساتہ منطق و فلسفہ اور سائنسى براہين ايسے اُچهوتے انداز سے بيان كرتے كہ خواص و عوام حيران اور عش عش كراُٹهتے- يوں تو قارى صاحب سے ملك كاتقريباً ہر حصہ متعارف تها مگر ملتان، فيصل آباد اور لاہور ميں اكثر ان كے خطاب اور تقريروں كے پروگرام رہتے-مركزى جمعيت اہلحديث كى سالانہ كانفرنسوں ، فيصل آباد ميں جمعيت شبان اہل حديث اورجامعہ سلفيہ كے جلسوں ميں اور باغ عام خاص ملتان ميں كى گئى ان كى معركہ آارا اور پرجوش تقريريں تاريخى حيثيت ركهتى ہيں - بس يوں سمجهئے بقول مولانا ظفر على خان

بلبل چهك رہا ہے رياضِ رسول ميں


فيصل آباد ميں جب ان كا آنا ہوتا تو شہر كے علما كے ساتھ ہم ان كى كوئى نہ كوئى مجلس ضرور قائم كرديتے- مولانا عبدالرحيم اشرف، مولانا محمد صديق، مولانا محمد اسحق چيمہ اور مولانا محمد شريف اشرف رحمتہ اللہ عليهم اجمعين جيسے علم و عمل كے پہاڑ اور فہم و فراست كے لوگ اب كہاں پيدا ہوں گے

پيدا كہاں ہيں ايسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم كو مير سے صحبت نہيں رہى


اسى حلقہ علما ميں قارى صاحب كى شركت ہوتى- جنرل ضياء الحق كے دور ميں اسلامائزيشن كے جو اقدامات كئے گئے، ان دنوں اسلام آباد ميں ہونے والے علما كنونشنوں ميں مركزى جمعيت كے وفود ميں قارى صاحب كى شموليت لازمى ہوتى- دو تين ايسے موقعوں پر راقم بهى ان وفود ميں جاتا رہا، بهرحال يہ صحبتيں اور رفاقتيں بهلاے نہيں بهو ل سكتيں -

قارى صاحب روزِ اوّل سے مركزى جمعيت اہلحديث كے ساتھ وابستہ رہے، مولانا لكهوى كے دورِ امارت ميں سينئر مركزى نائب امير تهے- جمعيت كى شورىٰ و عاملہ كے اجلاسوں ميں ان كى آراء و تجاويز فيصلہ كن ہوتيں - كراچى ميں بڑے بڑے جماعتى مدارس ميں وہ صدر مدرّس كے طور پر اعلىٰ كتب پڑهاتے رہے اور پهر تبليغ و تنظيم جمعيت ميں خاصا وقت لگاتے-

ائمہ سلف كى طرح قارى صاحب ايك كامياب تاجر بهى تهے- ميرٹ روڈ پر ان كا امپورٹ ايكسپورٹ كا دفتر تها- نمازِ ظہر تك تعليمى و تدريسى ذمہ دارياں نبها كر دفتر آكر كاروبار كرتے كچھ عرصہ سے تنظيمى تنازعات سے دل برداشتہ ہوكر گوشہ نشين ہوچكے تهے، تاہم ان كى تعليمى سرگرمياں بدستور جارى تهيں -

١٩٧٠ء ميں مركزى جمعيت كے ناظم اعلىٰ مياں فضل حق كى سربراہى ميں ايك وفد مولانا محمود احمد ميرپورى (جو ابهى انگلينڈ نہيں گئے تهے) اور راقم پر مشتمل سندہ كے دورہ پر گيا- سكهر، ميرپورخاص اور حيدر آباد سے ہوتے ہوئے كراچى پہنچے جہاں قارى صاحب اور حكيم محمد يعقوب اجملى كو ساتھ ملا كر شہر بهر كے علما سے رابطہ ہوا اور ايك ہفتہ قيام كركے آخر ميں نمائندہ اجلاس مںي حكيم اجملى مرحوم كو امير جمعيت بنايا گيا- جنہوں نے چند ہفتوں كے بعد قارى صاحب كى سرپرستى ميں مركزى جمعيت كو ايك فعال اور موٴثر تنظيم كردكهايا-اس كام ميں سيدعبدالرحيم غزنوى، حاجى محمد احمد لوہيا،حاجى طلحہ كريانہ والے اور حاجى اسماعيل مہ پارہ حفظہ اللہ جيسے تجار كى دامے درمے سخنے معاونت اُنہيں حاصل رہى- انہى كوششوں كے باعث ہى آج كراچى ميں مساجد و مدارس كا جال بچها ہوا ہے-

حافظ محمد اسماعيل روپڑى 1962ء ميں انتقال كرگئے تهے ليكن گذشتہ ايك لمبا عرصہ سے قارى صاحب كى شفقت ہميں حاصل رہى- ان سے آخرى ملاقات چوہدرى ظفر اللہ مدير جامعہ ابو بكر، كراچى كے جنازہ پر ہوئى تهى- مولانا حافظ مسعود عالم، حافظ محمد شريف، مولاناعتيق اللہ ستيانہ بنگلہ اور حاجى غلام محمد و غلام رسول ہمارے رفقا تهے- كئى ماہ سے قارى صاحب كى علالت كى خبريں آنے جانے والوں كے ذريعے معلوم ہوتى رہيں ليكن افسوس كہ قدرت كو مزيد ملاقات منظور نہ تهى- حال ہى ميں مولانا عبدالرشيد حجازى تبليغى پروگرام كے سلسلہ ميں كراچى گئے تو اُنہوں نے واپسى پربتايا كہ قارى صاحب كى تيمارى دارى كى تهى، وہ اس بندہٴ عاجز كى خير خيريت پوچھ رہے تهے اور دعائيں ديتے تهے- اب ہم ان كے لئے دعاگو ہيں كہ اللہ تعالىٰ ان كى بشرى لغزشوں سے درگزر فرما كر اپنے جوارِ رحمت ميں جگہ دے اور اہل و عيال وپسماندگان و احباب و شاگردوں كو صبر و حوصلہ كى توفيق بخشے- آمين ثم آمين!