فتنۂ انکارِ حدیث کے نئے شبہات کا جائزہ

فتنہ انکارِ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشین گوئی کا مصداق ہے جس کے مطابق ایسے لوگوں کا ظہور ہوگا جو صرف قرآنِ کریم کی اتباع کو ہی کافی و شافی سمجھیں گے۔ 1

چنانچہ ابتداء ًدوسری صدی ہجری میں عراق میں اور بعدازاں تیرہویں صدی ہجری میں برصغیر پاک و ہند میں اس فتنہ کا ظہور ہوا۔

دوسری صدی ہجری میں اس فتنہ کے بانی خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو تاریخ اسلام کا اوّلین فرقہ شمار کیا جاتاہے۔2 خوارج کی وجہ تسمیہ ان کا ائمة المسلمین اور مسلمانوں کے خلاف خروج کو حلال سمجھنا ہے3اس فرقہ کا بنیادی عقیدہ ہی یہ تھا کہ صرف قرآن کی بات تسلیم کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حد ِرجم کا انکار کیا،کیونکہ اس کا ذکر قرآن میں نہیں ۔اسی بنا پر اکثر ائمہ خوارج کی تکفیر کے قائل ہیں ۔ دراصل خوارج نے کچھ ایسے غلو آمیز اورا نتہا پسندانہ نظریات قائم کررکھے تھے جن کی بقا انکارِ حدیث کے بغیر ممکن ہی نہ تھی۔ اس لئے وہ صرف انہی احادیث کو قبول کرتے جو ان کے عقائدکی مؤید ہوتیں اور باقی کا انکار کردیتے تو اس طرح انکارِ حدیث کا آغاز ہوا۔4

انکارِ حدیث کے آغاز کے سلسلے میں دوسرے جس فرقے کا نام لیا جاتاہے وہ معتزلہ ہے۔ معتزلہ کی وجہ تسمیہ حضرت حسن بصریرحمة اللہ علیہ کا یہ قول ہے کہ اعتزل عنا یعنی ’’ وہ (واصل بن عطا) ہم سے الگ ہوگیا۔‘‘ اس کے الگ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے مرتکب ِکبیرہ کے متعلق حضرت حسن بصریرحمة اللہ علیہ کی اس رائے سے اختلاف کیا تھا جس پر مسلمانوں کااجماع تھا۔ چنانچہ واصل اور اس کے ساتھ الگ ہونے والے ’معتزلہ‘ کہلائے۔5اُنہوں نے دراصل یونانی فلسفہ سے متاثر ہوکر عقل کو فیصلہ کن حیثیت دے رکھی تھی۔6 لہٰذا یہ صرف وہی اسلامی احکامات تسلیم کرتے جو عقل کے تقاضوں پرپورے اُترتے۔ یوں اُنہوں نے بھی بہت سی ایسی صحیح اَحادیث کو ردّ کردیا جو ان کے عقائد و نظریات کے خلاف تھیں ۔

ردّ ِحدیث کے لئے اُنہوں نے دو حربے اختیار کررکھے تھے، ایک یہ کہ حدیث کے بارے میں یہ شک دلوں میں ڈالا جائے کہ وہ فی الواقع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں بھی یا نہیں ؟ دوسرے یہ کہ اُصولی سوال اٹھایا جائے کہ کوئی قول یا فعل حضورؐ کا ہو بھی تو ہم اس کی اطاعت و اتباع کے پابند کب ہیں ؟ ان کانقطۂ نظر یہ تھا کہ محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ہم تک قرآن پہنچانے کے لئے مامور کئے گئے تھے، سو اُنہوں نے وہ پہنچا دیا، اس کے بعد محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویسے ہی ایک انسان تھے، جیسے ہم ہیں ۔ انہوں نے جوکچھ کہا اور کیا وہ ہمارے لئے حجت کیسے ہوسکتا ہے؟ 7

یہ فتنہ کچھ ہی عرصہ میں روبہ زوال ہوگیا، کیونکہ اس کے سد ِباب کے لئے ائمہ محدثین نے پوری جستجو سے تحقیقات پیش کیں ۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ ، امام شافعی رحمة اللہ علیہ ، امام بخاری رحمة اللہ علیہ ، امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ ، امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ ، امام غزالی رحمة اللہ علیہ اور امام ابن حزم رحمة اللہ علیہ جیسے جبالِ علم اس کی راہ میں حائل ہوگئے اور عقلی و نقلی دلائل کے ذریعے اس کی تردید کرکے اسے مزید پنپنے سے روک دیا۔ علاوہ ازیں سنت ِنبویؐ کے بغیر بڑی حد تک دین کاحلیہ ہی بدل جانے کے باعث اُمت ِاسلامیہ کے اجتماعی ضمیر نے بھی اس فتنہ کو قبول نہیں کیا جس بنا پر اسے دم توڑنا ہی پڑا اور پھر صدیوں تک اس کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہ آیا۔ 8

تیرہویں صدی ہجری میں اس نے دوبارہ جنم لیا۔ اب اس کا مقامِ پیدائش برصغیر پاک وہند تھا۔ واضح رہے کہ دوسری صدی ہجری کی بہ نسبت اب حالات بہت مختلف تھے۔ اس وقت مسلمان فاتح تھے اور اُنہیں سیاسی غلبہ حاصل تھا اور جن فلسفوں سے اُنہیں سابقہ پیش آیا تھا، وہ مفتوح و مغلوب قوموں کا فلسفہ تھا۔ اس و جہ سے ان فلسفوں کا حملہ بہت ہلکا ثابت ہوا۔ اس کے برعکس تیرہویں صدی ہجری میں یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب کہ مسلمان ہرمیدان میں پٹ چکا تھا۔ اس کی سرزمین پر دشمنوں کا قبضہ ہوچکا تھا۔ معاشی حیثیت سے اُنہیں کچل ڈالا گیا تھا۔ ان کانظامِ تعلیم درہم برہم ہوچکا تھا اور ان پر فاتح قوم نے اپنی تعلیم، اپنی تہذیب، اپنی زبان،اپنے قوانین اور اپنے اجتماعی، سیاسی اور معاشی اداروں کو پوری طرح مسلط کررکھا تھا۔ ایسے حالات میں فاتحوں کے فلسفے اور سائنس نے ان کو معتزلہ کی نسبت ہزار درجہ زیادہ مرعوب کردیا۔ اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ مغرب سے جو افکار و نظریات درآمد ہورہے ہیں ، وہ سراسر معقول ہیں ۔ ان پر اسلام کے نقطۂ نظر سے تنقید کرکے حق و باطل کا فیصلہ کرنا محض تاریک خیالی ہے اور زمانہ کے ساتھ چلنے کی صورت بس یہی ہے کہ اسلام کو کسی نہ کسی طرح ان کے مطابق ڈھال لیا جائے۔ 9

برصغیر میں اس جدید فتنہ کے بانی اور سرخیل سرسید احمد خان تصور کئے جاتے ہیں جنہوں نے مغربی نظریات اورعقل و فلسفہ سے متاثر ہوکر نہ صرف جدید انکارِ حدیث کی داغ بیل ڈالی بلکہ اسلام کے بہت سے متفقہ مسائل کا بھی یا تو کلیة انکار کردیا یا پھر ان میں من مانی تاویل کردی جیسے معجزات کا انکار، فرشتوں کے وجود کاانکار، تجارتی سود کی حرمت کا انکار، پردہ کا انکار اور متعدد خرقِ عادت شرعی اُمور کاانکار وغیرہ۔10 البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ سرسیداحمد خان اَحادیث کی صحت کے منکر نہیں تھے بلکہ وہ احادیث سے استدلال بھی کرتے تھے، تاہم وہ صرف اُن احادیث کا انکار کرتے جوان کے خود ساختہ معیار پرپوری نہ اُترتیں ۔ جیساکہ اُنہوں نے خود بھی یہ وضاحت فرمائی ہے۔11 سرسید کے بعد مولوی عبداللہ چکڑالوی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے حدیث کا کھلا انکار کیا۔ 12انہوں نے نعوذ باللہ حدیث ِنبویؐ کو لھو الحدیث قرار دیا۔13 اور ’اہل قرآن‘ کے نام سے باقاعدہ ایک فرقے کی بنیاد رکھی۔14

عبداللہ چکڑالوی کے بعد مولوی احمد الدین امرتسری اور مولانا اسلم جیراجپوری اس فتنہ کے علم بردار بنے۔ بالآخر غلام احمد پرویز نے اس کی باگ دوڑ سنبھالی اور اسے ایک منظم مکتب ِفکر کی شکل دی اور اسے ضلالت کی انتہا تک پہنچا دیا۔ 15

ان حضرات کے علاوہ برصغیر میں تحریک انکارِ حدیث میں کسی نہ کسی طرح حصہ لینے والوں میں علامہ مشرقی، مستری محمدرمضان گوجرانوالہ، مجبوب شاہ، تمنا عمادی، قمر الدین قمر،سید عمر شاہ گجراتی، خدابخش اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق (جنہوں نے بعد میں رجوع کرلیاتھا)و غیرہ بھی شامل ہیں ۔ 16

حدیث چونکہ اسلام کے بنیادی ماخذ اور قرآن کی شارح کی حیثیت رکھتی ہے اور انکارِ حدیث کی صورت میں اسلام کاوہ حلیہ ہی مسخ ہوجاتا ہے جس کی عملی تصویر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی تھی۔ اس لئے اُمت نے کلیة ً انکارِ حدیث کو کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ لہٰذا برصغیر میں جب بھی یہ فتنہ اُٹھا تواہل علم نے اس کی پُرزور تردید کی۔ اس موضوع پر بیسیوں کتب تالیف کیں ۔ مناظرے کئے، اجتماعات منعقد کئے اور رسائل و جرائد میں بحوث ومضامین قلم بند کیے وغیرہ وغیرہ۔ نتیجة فتنہ انکارِ حدیث کافی حد تک انحطاط کا شکار ہوگیا اور اسے عوام میں پذیرائی نہ مل سکی۔ اور اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ نہ تو آج سرسید کی تفسیر کو قبولِ عام حاصل ہے اور نہ ہی فرقہ اہل قرآن کانام و نشان باقی ہے۔

بہرحال جب منکرین حدیث نے اس قدر شدید ردّعمل دیکھا تو کلی طور پر انکارِ حدیث کی روش ترک کردی۔ بعدازاں مختلف حیلوں ، بہانوں سے حدیث کومشکوک بنانے کی کوشش شروع ہوئی اور ایسے نئے نئے طریقوں سے ردّ ِحدیث کا دروازہ کھولاگیا کہ احادیث کی تردید بھی ہوجائے اور اس کا احساس تک نہ ہو۔ چنانچہ ایک نعرہ یہ لگایاگیا کہ محدثین کا کام غیر جامع اور ناکافی ہے۔

محدثین کاکام غیرجامع اور ناکافی ہے!
اس ضمن میں قبول و ردّ حدیث کے نئے نئے اصول وضع کئے گئے جو متقدم محدثین میں سے کسی نے بھی بیان نہیں کئے تھے جیسے کہ
  • جو روایت نص قرآنی کے خلاف ہو، وہ مردود ہوگی۔
  • جوروایت سنت ِ ثابتہ کے خلاف ہو، وہ مردود ہوگی۔
  • جو روایت عقل عام کے تقاضوں پرپوری نہ اُترے وہ مردود ہوگی وغیرہ وغیرہ، خواہ اس کی سند کتنی ہی صحیح ہو۔

بالفاظِ دیگر ان حضرات کے نزدیک محدثین نے تحقیق سند کے سلسلے میں تو بہت کوشش کی ہے، مگر تحقیقِ متن کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے درج بالاتحقیق متن کے اُصول وضع کرکے گویا محدثانہ کاوش کے اس نقص کی تکمیل کی کوشش کی ہے۔

محدثین اور تحقیقِ متن :یہ بات کہ محدثین نے متن کی تحقیق کو ملحوظ نہیں رکھا، کوئی عالمانہ بات نہیں ، کیونکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چنانچہ جب وہ صحیح حدیث کی تعریف ذکر کرتے ہیں تو اس میں سند کے ساتھ ساتھ متن کی تحقیق کے اُصول بھی شامل کرتے ہیں ۔ محدثین کی ذکر کردہ صحیح حدیث کی تعریف ملاحظہ فرمائیے:
أما الحدیث الصحیح فھو الحدیث المُسند الذي یتصل إسنادہ بنقل العدل الضابط إلی منتھاہ ولا یکون شاذًا ولامعللًا 17
’’صحیح حدیث وہ ہے جس کی سند متصل ہو، اسے نقل کرنے والے عادل و ضابط ہوں اور وہ روایت شاذ و معلول نہ ہو۔‘‘

اس تعریف میں صحت ِحدیث کے لئے محدثین نے جن پانچ شرائط کا ذکر کیاہے، ان میں سے پہلی تینوں کاتعلق تو سند کے ساتھ ہے (لیکن یہ یاد رہے کہ چونکہ مقصود متن ہوتا ہے اور سند محض اس تک پہنچنے کاایک ذریعہ ہی ہوتی ہے، لہٰذا یہ شرائط بھی نتیجة تحقیق متن پر ہی منتج ہوتی ہیں ) تاہم آخری دونوں شرائط کا تعلق براہِ راست متن کے ساتھ ہے۔

چنانچہ امام سخاوی رحمة اللہ علیہ’ شاذ‘ حدیث کی تعریف میں رقم طراز ہیں کہ
ما یخالف الراوي الثقة فیه بالزیادة أو النقص في السند أو في المتن الملأ أي الجماعة الثقات من الناس بحیث لا یمکن الجمع بینھما 18
’’شاذ روایت وہ ہوتی ہے جس میں ایک ثقہ راوی الفاظِ حدیث کی کمی یا زیادتی میں ثقہ راویوں کی ایک جماعت کی مخالفت کرے جبکہ دونوں میں جمع و توفیق بھی ممکن نہ ہو۔ یہ مخالفت بعض اوقات سندمیں اور بعض اوقات متن میں ہوتی ہے۔‘‘

معلول‘ روایت کی تعریف میں امام حاکم رحمة اللہ علیہ ذکر فرماتے ہیں کہ
فإن المعلول ما یوقف علی علته أنه دخل حدیثًا في حدیث أو وھم فیه راو أو أرسله واحد فوصله واھم 19
’’معلول روایت وہ ہوتی ہے جس کی علت کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ اس میں راوی نے ایک حدیث کو دوسری حدیث میں داخل کردیاہے یااس میں راوی کو وہم ہوگیا ہے یا ایک راوی نے اسے مرسل بیان کیا ہے جبکہ وہم میں مبتلا ہونے والااسے موصول بیان کررہاہے۔‘‘

ان تعریفات سے معلوم ہوا کہ صحیح حدیث کی تعریف میں محدثین نے جو آخری دو شرائط (عدمِ علت و عدمِ شذوذ) ذکر کی ہیں ان کا تعلق متن کے ساتھ ہے، اگرچہ بعض اوقات ان کا تعلق سند کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ تحقیق حدیث کے حوالے سے محدثین نے سند و متن دونوں کواہمیت دی ہے اور دونوں کے جامع اُصول مرتب فرمائے ہیں جو بعد کے تمام اَدوار کے لئے یقینا کافی شافی ہیں ۔باوجود اس کے کہ محدثین کی ایک جماعت اِنہی اصولوں کو کافی خیال کرتے ہوئے ان پر کاربند رہی ہے اور کچھ تجدد پسند حضرات نے محدثانہ تحقیق متن کے اُصولوں پر مزیدچند اصولوں کا اضافہ کرکے ائمہ سلف سے انحراف کی راہ اختیار کی ہے۔

متجددین کے اُصولوں کی حقیقت
ہرچند کہ یہ لوگ اپنے اُصولوں کی تائید میں ائمہ محدثین کے ہی مختلف اقوال نقل کرتے ہیں ، لیکن دراصل یہ ائمہ محدثین کی عبارتوں اور موقف کا استحصال ہے۔ کیونکہ ان عبارتوں سے محدثین کی مراد اور ہے جبکہ متجددین کی مراد بالکل مختلف ہے۔ دونوں کے ہاں مختلف علامتوں اور امراض کی حیثیت او رمقام ومرتبہ مختلف ہے۔ چنانچہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان اقوال کی حیثیت محدثانہ اُصولوں سے ٹکراؤ یا ان کے نقص کی تکمیل کی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ محدثین نے جو اَقوال وضع حدیث کی علامات کے بطور بیان کئے تھے، ان متجدد حضرات نے انہیں اُصولی حیثیت دے دی ہے اور انہی کو بنیاد بنا کر متفقہ طور پر صحیح سند احادیث کو بھی ردّ کرنا شروع کردیاہے۔ اس نوعیت کے چند اقوالِ محدثین پیش خدمت ہیں :
خطیب بغدادی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہو
لا یقبل خبر الواحد في منافاة حکم العقل وحکم القرآن الثابت المحکم والسنة المعلومة والفعل الجاري مجرٰی السنة وکل دلیل مقطوع به 20
’’جب خبر واحد عقل کے فیصلے، قرآن کے ثابت اور محکم حکم، سنت ِ معلومہ، سنت کی طرح جاری عمل یا دلیل قطعی کے خلاف آجائے تو وہ غیر مقبول ہوگی۔‘‘
 
امام ابن جوزی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ
کل حدیث رأیته یخالف المعقول أو یناقض الأصول فاعلم أنه موضوع 21
’’ہر وہ حدیث جسے آپ عقل یااُصول کے خلاف پائیں تو یہ جان لیں کہ وہ موضوع ہے‘‘

امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ الجوزیہ نے نقل فرمایا ہے کہ
کل حدیث یشتمل علی فساد أو ظلم أو عبث أو مدح باطل أو ذم حق أو نحو ذلك فرسول اﷲ ﷺ منہ بريء۔ 22
’’ہر وہ حدیث جو فساد، ظلم، بے مقصد اشیا، باطل کی مدح، حق کی خدمت یا اس جیسی کسی چیز پر مشتمل ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہیں ۔‘‘

یہ اور ان جیسے دیگر اقوالِ محدثین محض معرفت وضع الحدیث اور وضع حدیث کے قرائن وآثار کے قبیل سے بیان ہوئے ہیں ۔ ان سے مقصود یہ ہرگز نہیں کہ کوئی روایت کب موضوع یا ضعیف ہوتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ محدثین جب بھی موضوع حدیث کی تعریف کرتے ہیں  تو یہی بیان کرتے ہیں کہ ایسی احادیث جس میں کوئی واضع یاکاذب راوی پایاجائے، ’موضوع‘ کہلاتی ہے۔ 23

حقیقت یہ ہے کہ محدثین کرام نے حدیث میں صحت وضعف کی جانچ پرکھ کے لئے واضح اصولوں کے ساتھ بعض علامتیں اور امکانات کا تذکرہ بھی کیا ہے، جنہیں حدیث کا طالب علم ملحوظ رکھ کر ضعیف حدیث کی پہچان کرسکتا ہے۔ چنانچہ محدثین نے ایک عمومی جائزے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ضعیف اور موضوع روایات کے مردود ہونے کی بنیاد اگرچہ ضعیف اورکاذب راوی ہی ہوتا ہے مگر ایسی تمام روایات کے متون میں بھی کچھ علامات پائی جاتی ہیں جن سے وضع حدیث کااشارہ مل جاتا ہے۔ لہٰذا اُنہوں نے ان علامات کو بھی ذکر کرنا شروع کردیا۔یہی باعث ہے کہ اُنہوں نے یہ علامات قبول و رد حدیث کے قواعد ِکلیہ کے طور پر نہیں بلکہ وضع حدیث کی معرفت کے طور پر ذکر کی ہیں ۔ جیساکہ علامہ جمال الدین قاسمی رحمة اللہ علیہ معرفة الوضع والحامل علیہ کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں کہ
’’ذکر المحدثون أمورًا کلیة یعرف بھا کون الحدیث موضوعا… ‘‘ 24

امام سخاوی رحمة اللہ علیہ نے حافظ عراقی کی یہ عبارت نقل فرمائی ہے کہ
’’یعرف الوضع بالإقرار وما نزل منزلته وربما یعرف بالرکة…‘‘ 25

اسی طرح حافظ ابن صلاح رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ
’’وقد یفھمون الوضع من قرینة حا ل الراوي أو المروي… ‘‘ 26

درج بالا عبارتیں اس بات کی توضیح کے لئے یقینا کافی ہیں کہ ائمہ محدثین کے جو اَقوال عصر حاضر کے تجدد پسند حضرات قبول و ردّ حدیث کے نئے نئے اُصولوں کے طور پر پیش کررہے ہیں ان کی حیثیت محض علامات اور آثار و قرائن کی یہی ہے۔

جدید اُصولوں کی بنیاد ’ضعیف روایات ‘
ان متجددین نے سابقہ اَوراق میں ذکر کردہ چند اقوال محدثین کے علاوہ جن روایات پر اپنے افکارو نظریات کی بنیاد رکھی ہے، ان میں سے اکثر ضعیف اور من گھڑت ہیں ۔ چند ایک ملاحظہ فرمائیے ۔ یہ فرمان نبوی عموماً بیان کیا جاتا ہے کہ
سیأتیکم عني أحادیث مختلفة فما جاء کم موافـقًا لکتاب اﷲ وسنتي فھو مني وما جاء کم مخالفًا لکتاب اﷲ وسنـتي فلیس مني’’ 27
عنقریب تمہارے پاس میری طرف منسوب مختلف احادیث آئیں گی تو جو کتاب اللہ اور میری سنت کے موافق ہو، وہ تو میری طرف سے ہے اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے مخالف ہو وہ میری طرف سے نہیں ۔‘‘
اس روایت کو امام ابن عدی رحمة اللہ علیہ ، امام دارقطنی رحمة اللہ علیہ ، امام شافعی رحمة اللہ علیہ ، امام عجلونی رحمة اللہ علیہ ، امام خطابی رحمة اللہ علیہ ، حافظ ابن حجرعسقلانی رحمة اللہ علیہ ، امام شوکانی رحمة اللہ علیہ اور شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے سخت ضعیف اور من گھڑت قرار دیاہے۔ 28
 
ما حدثتم عني مما تعرفونه فخذوہ وما حدثـتم عني مما تنکرونه فلا تأخذوا به 29
’’اگر تمہیں میری طرف منسوب کرکے کوئی ایسی روایت بیان کی جائے جواس معروف کے مطابق ہو جس سے تم آشنا ہو تو اسے قبول کرلو اور اگر کوئی ایسی روایت بیان کی جائے جسے تم منکر سمجھو، تو اسے قبول نہ کرو۔‘‘
اس روایت کو امام ابن عدی رحمة اللہ علیہ ، امام ذہبی رحمة اللہ علیہ ، امام ابن رجب رحمة اللہ علیہ ، امام ابوحاتم رازی رحمة اللہ علیہ  شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے ’منکر‘ اور بہت زیادہ ’ضعیف‘ قرار دیا ہے۔ 30

إنھا تکون بعدي رواة یرون عني الحدیث فأعرضوا حدیثھم علی القرآن 31
میرے بعد کچھ ایسے رواة ہوں گے جو میری طرف منسوب کرکے حدیث بیان کریں گے تو تم ان کی حدیث قرآن پر پیش کرنا۔‘‘
امام دارقطنی رحمة اللہ علیہ ، امام ابن حزم رحمة اللہ علیہر شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیاہے۔ 32

سند سے قطع نظر متن کی تحقیق
تحقیق حدیث کے سلسلے میں محدثین کے ہاں اصل بنیاد سند ہی ہے۔ اس وجہ سے ان کے نزدیک سند کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ امام ابن مبارک رحمة اللہ علیہ کا قول معروف ہے کہ
الإسناد من الدین ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء 33 
’’اسناد دین کا حصہ ہے۔ اگر اسناد نہ ہوتی تو کوئی جو چاہتا، کہتاپھرتا۔‘‘

امام سفیان ثوری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ
الإسناد سلاح المومن فإذا لم یکن معه سلاح فبأي شيء یقاتل 34
’’اسناد مومن کاہتھیار ہے، اگر اس کے پاس ہتھیار ہی نہ ہو تو وہ کس چیز کے ساتھ جنگ کرے گا۔‘‘

اسی طرح امام شافعی رحمة اللہ علیہ کاقول بھی نہایت اہم ہے کہ
مثل الذین یطلب الحدیث بلا إسناد کمثل حاطب لیل یعمل حزمة حطب وفیه أفعٰی وھو لا یدري 35
’’بلا سند حدیث طلب کرنے والے کی مثال رات کو لکڑیاں چننے والے اس شخص کی طرح جو لکڑیوں کی گٹھڑی اُٹھاتا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس میں ایک سانپ بھی چھپا ہوا ہے۔‘‘

سند کی اسی اہمیت کانتیجہ ہے کہ محدثین کے نزدیک تحقیق حدیث کی اساسی شرائط تین ہی ہیں :’’عدل، ضبط اور اتصال پسند‘‘  36

اور اُنہوں نے جن دو شرائط (شذوذ و علت) کاذکر تحقیق متن کے حوالے سے کیاہے، وہ بھی انتہاے تحقیق کے اعتبار سے درحقیقت سند اور رواة کی طرف ہی راجع ہوتی ہیں کیونکہ شذوذ مخالفت ِثقات اور علت ِوہم الراوی کا نام ہے۔ لہٰذا شذوذ و علت دونوں کا تعلق رواة کے ساتھ ہوااور یہ معلوم ہے کہ رواة کا تعلق سند کے ساتھ ہی ہوتاہے۔

علاوہ ازیں اس موقف کی مؤید یہ بات بھی ہے کہ یہ دونوں شرائط اُن تینوں شرائط میں ہی شامل ہیں جو محدثین نے تحقیق سند کے حوالے سے ذکر فرمائی ہیں (یعنی عدل، ضبط اور اتصالِ سند) یہی باعث ہے کہ محدثین ضبط وجرح کرنے والے اُمور میں کثرتِ اوہام اور شذوذ کا بھی ذکر فرماتے ہیں ۔ 37 البتہ محدثین نے علت و شذوذ کو جو الگ سے ذکر کیا ہے تو اس سے مقصود سواے اس کے اور کچھ نہیں کہ تحقیقِ متن سے متعلقہ اُمور پر قدرے بہتر انداز میں توجہ دی جا سکے۔ معلوم ہوا کہ محدثین کے نزدیک تحقیق حدیث کی اصل بنیاد سند ہی ہے۔ لہٰذا اب اگر کوئی سند سے قطع نظر متن کی تحقیق کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا ہے تو یقینا وہ اس محدثانہ طریق سے بدظنی کا مظاہرہ کررہا ہے جس سے بدظنی کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کے ذریعے {وَيَتَّبِعْ غَيْرَ‌ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ}38 گمراہی کی بنیاد قرار دیا ہے۔

محدثین اور عقلی تقاضے
یہاں یہ وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ سند کواہمیت دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ محدثین نے تحقیق حدیث کے دوران عقل کو ملحوظ ہی نہیں رکھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اُنہوں نے عقل کوبھی خصوصی اہمیت دی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کتب ِاُصول میں صحت ِحدیث کی اوّلین شرط’عدالت‘ مکتوب ہے اور عدالت کے متحقق ہونے کے لئے جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ان میں سے ایک عقل بھی ہے۔ جس کامفہوم یہ ہے کہ صرف اس راوی کی روایت قبول کی جائے گی جو روایت لیتے وقت غفلت، سستی اور لاپرواہی جیسے رذائل سے کنارہ کش ہوتے ہوئے مکمل عقل و فکر سے کام لینے والاہو اور ہر حدیث کو عقل سلیم کے سانچے میں پرکھنے کے بعد ہی قبول کرے۔ علاوہ ازیں ضبط ِراوی سے بھی یہی مراد ہے کہ راوی بیدار مغز ہو، سہو و نسیان اور تساہل کاشکار نہ ہو اور پورے غوروفکر اور توجہ کے ساتھ روایت سن کراسے من وعن آگے بیان کردے۔ یہی وہ اساسی شرائط ہیں جن کی بنا پر کسی راوی کے مقبول یا غیر مقبول ہونے کا حکم لگایا جاتاہے۔ علاوہ ازیں احادیث پر صحت و سقم کا حکم لگاتے وقت بھی محدثین نے عقل کو ملحوظ رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے وضع حدیث کی علامات میں یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ روایت عقل عام کے خلاف نہ ہو۔وغیرہ وغیرہ

بالفاظِ دیگر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ محدثین نے چار مقامات پر بطورِ خاص عقل کو ملحوظ رکھا ہے: 

تحمل حدیث کے وقت

اداے حدیث کے وقت

رواة پر حکم لگاتے وقت   

احادیث پر حکم لگاتے وقت

یہی بات ڈاکٹر مصطفی اعظمی نے ذکر فرمائی ہے۔ 39

یہاں یہ بات واضح رہے کہ عقل کو ملحوظ رکھنے کامطلب محض یہی ہے کہ جو اوپر بیان کردیا گیاہے۔ علاوہ ازیں اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ محدثین نے عقل کو ہی قرآن و سنت پر حاکم بنایا ہوا تھا۔ اور صرف وہی روایت قبول کرتے جو اپنی ذاتی عقل کے مطابق ہوتی (جیساکہ آج کل کے متجددین کانظریہ ہے) بلکہ فی الواقع ایسا ہے کہ محدثین عقل کو ملحوظ تو رکھتے تھے مگر اسے قرآن و سنت کے تابع رکھ کر استعمال کرتے تھے، ان کے ہاں عقل کو حاکمیت حاصل نہیں البتہ شریعت کے احکام کو سمجھنے میں وہ عقل کوبھرپور طریقے سے استعما ل کرتے تھے۔
 
خلاصہ کلام :انکار ِ حدیث کا آغاز اگرچہ دوسری صدی ہجری سے ہی ہوگیا تھا، لیکن اس فتنہ نے پوری آب و تاب اور سحر آفرینی کے ساتھ جس دور میں عوام الناس کو متاثر کیا، وہ تیرہویں صدی ہجری کا دور ہے کیونکہ اس میں برصغیر پر مغربی تسلط کے باعث یہاں اس فتنہ کے پنپنے کے محرکات دوسری صدی ہجری کی بہ نسبت کہیں زیادہ تھے۔ بہرحال ہر دور کی طرح اس دور میں بھی اسے علماے حق کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں کلیة انکارِ حدیث کی روش ایک حد تک ختم ہوگئی، بعدازاں اس فتنہ نے ایک نئے روپ میں رونما ہوکر لوگوں کوگمراہ کرنا شروع کیا۔ جس کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی کہ محدثین کا کام ناکافی ہے اور اُنہوں نے تحقیق سند کے حوالے سے تو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں مگر تحقیق متن پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اس بنیادپر تحقیق حدیث کے بہت سے ایسے جدید اُصول وضع کئے گئے جو متقدمین میں سے کسی نے بھی بیان نہیں کئے تھے۔ اور اگر اس ضمن میں کچھ بیان بھی کیا تھا کہ اس کا مقصد کچھ اور تھا جیسے خلافِ قرآن، خلاف ِ سنت یا عقلِ عام کے خلاف تمام روایات ردّ کردی جائیں گی خواہ ان کی سند کتنی ہی صحیح ہو۔ ان اُصولوں کی ایجاد کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سی متفقہ صحیح احادیث کو بھی ہدفِ تنقید بنا لیاگیا جیسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی بعض احادیث وغیرہ حالانکہ ان کی صحت پر جمہور و محدثین کا اتفاق تھا۔
 
حقیقت ِحال یہ ہے کہ محدثین نے تحقیق سند کے ساتھ ساتھ تحقیق متن پر بھی پھرپور توجہ دی ہے جیسا کہ صحیح حدیث کی تعریف میں علت و شذوذ کا ذکر اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ کیونکہ ان دونوں شرائط کا تعلق براہِ راست متن کے ساتھ ہے۔
 
علاوہ ازیں ان متجددین حضرات نے جن روایات کو تحقیق متن کے جدید اُصولوں کی بنیاد بنایاہے، ان میں سے اکثر ضعیف اور من گھڑت ہیں اور جن اقوالِ محدثین کو تائیدمیں پیش کیا ہے، ان کی حیثیت قبول و ردّ حدیث کے سلسلے میں قواعد ِکلیہ کی نہیں بلکہ محض علامات اور آثار و قرائن کی ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ محدثین کبھی بھی موضوع روایت کی تعریف میں یہ بات ذکر نہیں فرماتے کہ جو روایت قرآن و سنت یا عقل کے خلاف ہوگی وہ موضوع ہے بلکہ وہ ہمیشہ یہی ذکر کرتے ہیں کہ ہمیں روایت کی سند میں کوئی کاذب یا واضع راوی پایا جائے، وہ موضوع ہے۔ بالفاظِ دیگر محدثین کے ہاں تحقیق حدیث کی اصل بنیاد سند ہی ہے اور تحقیق متن کے سلسلے میں جو اُنہوں نے علت و شذوذ کا ذکر کیا ہے، نتیجے کے اعتبار سے ان کا تعلق بھی سند کے ساتھ ہی ہے، کیونکہ علت وہم الراوی اور شذوذ مخالفت ِثقات کا نام ہے اوریہ دونوں چیزیں رواة سند سے ہی متعلقہ ہیں ۔
 
یہاں اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ محدثین نے جو تحقیق حدیث کے سلسلے میں سند کو ہی بنیادبنایا ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اُنہوں نے اس سلسلے میں عقلی تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض محض علم حدیث سے عدمِ واقفیت کا نتیجہ ہے ورنہ محدثین نے روایات کو پرکھنے کے لئے عقل کو بھی ملحوظ رکھا ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ محدثین نے صحیح حدیث کی جو اوّلین شرط ’عدالت‘ بیان کی ہے، اس کے متحقق ہونے کی ایک شرط عقل بھی ہے۔نیز دوسری شرط ’ضبط‘ کا تعلق بھی عقل و فہم اور غوروفکر کے ساتھ ہی ہے۔ لہٰذا فی الواقع ایسا ہے کہ محدثین کا کام جامع ہے اور کسی بھی حدیث کو پرکھنے کے لئے کافی ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس کو پیش نظر رکھنا ہی راہ ِصواب ہے اور ان ائمہ محدثین کے طریق سے انحراف قرآنی آیت{غَيْرَ‌ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ...﴿١١٥﴾...سورة النساء} کے مصداق گمراہی میں مبتلا ہونے کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں راہِ ضلالت سے بچائے اور راہ ِ صواب پر چلائی۔ آمین!

حوالہ جات
1. سنن ابوداؤد (4605)،جامع ترمذی (2663)، سنن ابن ماجہ (13)
2. مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ :3493
3. الخوارج ازشیخ ناصر بن عبدالکریم العقل : ص28
4. ایضاً، مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ :4813،49
5. اعتقاد اهل السنة شرح اصحاب الحدیث :ص 37
6. اعتقاد أئمة الحدیث از ابوبکر اسماعیل :ص6
7. سنت کی آئینی حیثیت، از مولانا مودودی :ص14
8. فتنة إنکار السنة از سمیر عبدالحمید ابراہیم :ص12 تا10
9. آئینہ پرویزیت، از مولانا عبدالرحمن کیلانی :ص69
10. درسِ ترمذی، از مفتی تقی عثمانی :ص26
11. مقالاتِ سرسید،ازمحمد اسماعیل پانی پتی :1713
12. حجیت ِحدیث، از محمداسماعیل سلفی :ص17
13. حجیت ِحدیث اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، از ثناء اللہ امرتسری:ص1
14. درسِ ترمذی، از مفتی تقی عثمانی :ص26
15. سنت کی آئینی حیثیت، از مولانا مودودی:ص16
16. آئینہ پرویزیت، از مولانا عبدالرحمن کیلانی :ص101
17. مقدمة ابن الصلاح :ص7
18. فتح المغیث :ص196
19. معرفة علوم الحدیث :ص119
20. الکفایة في علم الروایة از خطیب بغدادی:ص432
21. الموضوعات ازابن جوزی:1061 v
22. المنار المنیف از ابن قیم :ص65
23. تیسیر مصطلح الحدیث :ص62
24. قواعد التحدیث ازجمال الدین قاسمی :ص11
25. فتح المغیث :ص269
26. مقدمة ابن الصلاح :ص89
27. الکفایة في علم الروایة :ص430
28. بالترتیب حوالہ جات : الکامل:1065 ،سنن الدارقطن:4503 ،الرسالة :ص224 ،کشف الخفاء :861، معالم السنن :97، لسان المیزان :4551، الفوائد المجموعة :ص211، السلسلة الضعیفة (1069)
29. الکفایة في علم الروایة :ص430
30. بالترتیب حوالہ جات: الکامل :3384، سیرأعلام النبلاء :5249، جامع العلوم والحکم:1052، العلل: 3102، الضعیفة (1090)
31. دارقطنی (2084)
32. بالترتیب حوالہ جات: سنن دارقطنی :2084،209، الحکام ازابن حزم :762، الضعیفة(1087)
33. مقدمہ صحیح مسلم :ص87
34. فتح المغیث :ص335
35. المدخل از امام حاکم: ص2
36. النکت علی ابن الصلاح لابن حجر:6532
37. تیسیر مصطلح الحدیث:ص109،102
38. النساء : آیت نمبر 115
39. منهج النقد عند المحدثین:ص83