’زھق الباطل‘ کے بعد ’جاء الحق‘ کب ہوگا؟

18؍ اگست 2008ء پاکستان کے کروڑوں دین پسند، محب ِوطن اورباطل دشمن افراد کے لئے زہق الباطل کی نوید لے کرآیا۔ یہی وہ مبارک اور تاریخ ساز دن تھا جب پوری دنیا کے اَربوں مسلمانوں نے ٹیلی ویژن پر براہِ راست (دو بجنے سے صرف دو منٹ پہلے) جنرل پرویز مشرف کی زبان سے صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان سنا۔ بالآخر 12؍ اکتوبر 1999ء کو ایک نادیدنی اور ہنگامی صورتِ حال میں پاکستان کی مسند ِاقتدار پرایک آسیب کی طرح مسلط ہونے والا کج فہم، شیخی باز، شقی القلب، سیکولر اور اِلحادپسند، جمہوریت شکن، فوجی ڈکٹیٹر منظر سے غائب ہوگیا اور ایسا غائب ہوا ہے کہ ہفتوں گذر جانے کے باوجود پاکستانی ستم رسیدہ قوم اس کی شکل دیکھنے اور آواز سننے کی اذیت سے اب تک محفوظ ہے اور ان شاء اللہ اس عافیت کوشی کا تسلسل قائم رہے گا۔

یہ سنت ِالٰہی ہے کہ قوموں کو ان کے گناہوں کی سزا ظالم حکمرانوں کی صورت میں دی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے پرویزمشرف کا آٹھ سال، دس ماہ اور 6 دنوں پرمحیط دور اہل پاکستان کے لئے ایک عذابِ الٰہی سے کم نہ تھا۔ اپنی پالیسیوں اور ان کے نتائج کے اعتبار سے یہ ایک سیاہ ترین دور تھا جس کے بھیانک اثرات ایک طویل عرصے تک محسوس کئے جائیں گے۔ پاکستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی منظر پر وحشت و بربریت، ناآسودگی، غارت گری، دین سوزی، بے حیائی اوراِفلاس کے ایسے تاریک بادل چھا گئے ہیں کہ آفتابِ حق کا چہرہ نظر آنے کا دور دور تک امکان دکھائی نہیں دیتا۔

پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے بھی بعض طالع آزما جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، ان سے نفرت کرنے والے بھی بہت تھے، مگر جنرل (ر) پرویزمشرف کے خلاف پاکستان کی سڑکوں ، بازاروں اور گلیوں میں جس طرح عوامی نفرت اور غیظ و غضب کے مناظر دیکھنے میں آئے، اس کی مثال نہیں ملتی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قدر گالیاں کھانے کے بعد جس قدر ضد اور ڈھٹائی سے اس آخری ڈکٹیٹر نے اقتدار کے ڈولتے سنگھا سن پر پنجے گاڑے رکھے، یہ بھی اسی کا حوصلہ تھا۔

اس کی الوداعی تقریرکے آخری جملے سننے والے تھے۔ اس نے اداکاری کرتے ہوئے یہ آخری تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ مستعفی ہوکر اس قوم پر احسانِ عظیم فرمارہے ہیں ۔ ایسے موقعوں پر کہاجاتا ہے کہ ؎ گر مجھ پر احسان نہ کرتے تو یہ احسان ہوتا!!

سچی بات یہ ہے کہ عہد ِمشرف کا تصور ہی حد درجہ کربناک ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس کا تذکرہ نوکِ قلم سے نہیں بلکہ خونِ دل سے تحریر کیاجائے، تب بھی شاید مذمت اور ابطالِ باطل کا حق ادا نہ ہوسکے۔ خارجہ پالیسی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پاک دھرتی کا سینہ خون سے لتھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ عظیم دھرتی جس پر بھارتی بزدلوں نے 1965ء میں قدم رکھنے کی کوشش کی تھی تو اس کے بہادر بیٹوں نے اپنی جانیں وار کر اس کی عصمت کی چادر میلی نہ ہونے دی تھی۔ آج اس دھرتی پرامریکی فوجیوں کے بوٹوں کی دھمک کان پھاڑے جاتی ہے، مگر قوم بے بس ہے۔ 11؍9 کے بعد سرزمین پاک کو امریکی جنگی جہازوں کی پروازوں کے لئے کھلا چھوڑ دیاگیا۔ نتیجتاً پاکستان سے 54 ہزار امریکی پروازیں افغانستان کے نہتے اور کمزور مسلمانوں پر بمباری کرنے کے لئے اُڑائی گئیں ۔ ابھی یہ 4؍ستمبر 2004ء ہی کی بات ہے کہ رات کی تاریکی میں دو امریکی ہیلی کاپٹر شمالی وزیرستان میں انگور اڈّہ پربمباری کرکے چلے گئے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی ہیلی کاپٹر سے اُتر کر چن چن کربیگناہ شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بناتے رہے۔ آئے دن پاکستان کے سرحدی علاقوں کی آبادیوں پر میزائل سے حملے ہورہے ہیں ،مگر ان کو روکنے والا کوئی نہیں ۔ یہ سب مشرف کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہی تو ہے کہ آج پاکستان کی خود مختاری Sovereignthکو امریکی جی بھر کرپامال کررہے ہیں ۔ حکومت ِپاکستان بے بس ہے اور عوام خون کے آنسو رو رہے ہیں ۔

جنرل پرویزمشرف اپنے بہادر ہونے کا مصنوعی اشتہار دینے کا عادی تھا۔ اس نے شائستگی اور سارے پارلیمانی آداب کو بالاے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی پارلیمنٹ میں مکا لہرا دیا تھا مگر 11؍9 کے بعد امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ادنیٰ درجے کے اہل کار رچرڈ باؤچر کے ایک فون کی تاب نہ لاتے ہوئے امریکی جارح افواج کو ہر طرح کی سہولتیں دینے کی حامی بھرلی اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ یا دیگر شرکاے اقتدار سے مشاورت بھی ضروری نہ سمجھی۔

11؍9 کے ذمہ داروں کا آج تک تعین نہیں ہوسکا، خود امریکہ میں متعدد ایسی رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں جن میں قرار دیاگیا ہے کہ القاعدہ میں اتنابڑا کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ فرض کیجئے یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ یہ ان 19 نوجوانوں کی کارگزاری تھی جن کے نام امریکیوں نے مشتہر کئے، تب بھی اس بات کاعسکری یااخلاقی جواز نہیں بنتا کہ ایک آزاد اور خود مختار مسلمان ملک پر جدیدہولناک بموں اور ہتھیاروں سے کارپٹ بمباری کرتے ہوئے اس کی آبادیوں اور ہنستے بستے شہروں کو کھنڈرات میں بدل دیاجائے۔ اس کے لاکھوں بے گناہ مردوں ، عورتوں اور بچوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا وحشیانہ اقدام اُٹھایا جائے اور اس ملک پر باقاعدہ فوجی قبضہ کر لیا جائے۔ افغانستان تو ایک مسلمان اور ہمسایہ ملک ہے، اگر امریکہ مسلمانوں کے بدترین دشمن یہود و ہنود کے خلاف بھی ایسی ظالمانہ کارروائی کرے تب بھی اسلام اس کی حمایت کی اجازت نہیں دیتا۔ چہ جائیکہ کہ ایک مسلمان ملک کاسربراہ بے حد غلامانہ انداز میں اپنے کندھے جارح افواج کے لئے پیش کردے اور اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا دست و بازو بن جائے۔ ہمارا ضمیر ہمیں سونے نہیں دیتا کہ افغانستان کے لاکھوں مسلمانوں کے خلاف دورِ حاضر کی بدترین ریاستی دہشت گردی اور وحشیانہ جارحیت میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت امریکہ کے ایک اہم فرنٹ لائن پارٹنر کاکردار ادا کرتی رہی ہے۔ اور اس طرح جنرل پرویز مشرف نے اسلامی اُخوت کے تصور پرکاری ضرب لگائی اور مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔

اقوامِ عالم کی تاریخ پڑھ جائیے۔پوری انسانی تاریخ میں ریاستی سطح پر آپ کو یہ پالیسی کہیں پڑھنے کو نہیں ملے گی کہ کسی حکمران نے اپنے ملک کے باشندوں کو پکڑ پکڑکر دشمن کے حوالے کیا ہو اور اس کی قیمت بھی وصول کی ہو۔ یہ سیاہ بختی بھی پرویزمشرف کے نامۂ اعمال میں لکھی گئی تھی کہ اس نے ہزاروں پاکستانیوں کو دہشت گرد قرار دے کر گرفتار کرایااور اسے امریکہ کے حوالے کردیا جو گوانتاناموبے جیل کے جہنم زار میں انسانیت سوز مظالم کا شکار ہیں ۔ اس بے غیرتی میں سفارتی آداب بھی فراموش کردیئے گئے اور پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو بھی امریکی فوج کے حوالہ کردیا گیا۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ اس بہیمانہ فعل پر شرمسار ہونے کی بجائے پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں بڑے غلامانہ فخر کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حکومت ِپاکستان نے چھ سو سے زیادہ افراد کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیااور ہرقیدی کے بدلے پانچ ہزار ڈالر وصول کئے۔ پاکستان جیسی عظیم اسلامی ریاست کا صدر اخلاقی پستی میں اس قدر گرسکتا ہے،
اس کا تصور ہی روح فرسا ہے !! ؎ تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو

اور پھر اُس روح و بدن کو لرزا دینے والے واقعہ کاذکر دل گرفتگی اور حزن کے بغیر کیونکر کیا جاسکتا ہے۔ 10؍ جولائی 2007ء پاکستان کی تاریخ کاالم ناک ترین دن تھا جب لال مسجد کو شہید کیا گیا اورجامعہ حفصہ کی ہزاروں معصوم بچیوں کے جسموں کو فاسفورس کے بموں سے تحلیل کردیاگیا۔ اسلام کی ان مقدس بیٹیوں کے جسموں کے ٹکڑے دیر تک ساتھ بہتے گندے نالے سے ملتے رہے۔ قرآنِ مجید کے صفحات بھی اسی ناپاک مقام میں جا بجا بکھرے نظر آئے۔ صحافیوں نے بتایا کہ ان معصوم طالبات کے جسموں کے لوتھڑے اور بوٹیاں ٹرکوں میں لاد کر کہوٹہ اور کلر کہار کے قریب برساتی نالوں اور کھائیوں میں پھینک دیئے گئے تھے۔ غازی عبدالرشید شہید اور ان کے ساتھی آخری لمحات میں لال مسجد چھوڑنے کو تیار ہوگئے تھے۔ مصدقہ اطلاع کے مطابق معاہدہ طے ہوگیاتھا مگر اس درندہ صفت اور شقی القلب حکمران کی جھوٹی اَنا کی تسکین اور امریکی خوشنودی کے حصول کی غلامانہ خواہش کے سامنے کسی کی نہ چل سکی۔ بعض وفاقی وزیر ٹیلیویژن پربے بسی سے روتے دکھائی دیئے۔ ظلم وبربریت کی تاریخ دہرائی گئی اور پانچ روز سے پانی پر گزارا کرنے والے فاقہ کش اور پناہ گزیں مسلمانوں اور معصوم بچیوں کو اس قدر بھی ظالموں نے رحم کے قابل نہ سمجھا کہ ان کی لاشوں کو صحیح سلامت ان کے ورثا کے حوالے کردیتے۔ اُنہیں ریزہ ریزہ کردیاگیا۔چنگیزخان اور ہلاکو خان جیسے ظالم حکمرانوں کی اَرواح بھی شاید معصوم بچیوں کے اس بہیمانہ قتل عام پر تڑپ اُٹھیں ، مگر ایوانِ صدر پر قابض حکمران کو ذرا بھر رحم نہ آیا۔ پوراپاکستان سوگوار تھا، درودیوار ماتم کناں تھے، پاکستانی قوم پر سکتے کی کیفیت طاری ہوگئی،مگر یہ وحشی، یہ سفاک اور شقی القلب جو کل تک اس مملکت ِخدادا کے سیاہ و سفید کا مالک تھا، اُس کا ضمیر...؟ وہ تو مرچکاتھا۔

اگر ایسانہ ہوتا تو پورے ایک سال کے بعد۷؍جولائی 2008ء کو کراچی میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے وہ یہ کبھی نہ کہتا کہ میں ان فوجیوں کوسلام کرتاہوں جنہوں نے جامعہ حفصہ کاآپریشن کیا۔اگر لال مسجد کو ختم نہ کیاجاتا تو پورے پاکستان میں ایسی مساجد بن جاتیں ۔ ایسے شخص کی اس سفاکانہ ذہنیت پر انسانیت نوحہ کرتی رہے گی اور یہ اس دنیا اور آخرت دونوں میں لعنت کا استعارہ بنے رہے گا۔

یہ محض سوے اتفاق نہیں کہ اب تک پاکستان کے جتنے بھی صدور یا چیف آف دی آرمی سٹاف گذرے ہیں ، ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے پرویزمشرف کسی کے پاسنگ میں بھی نہیں ۔ شاید ہی کسی جرنیل کے جثے پر وردی اتنی بدنما لگتی ہو، مگر اُسے اس وردی پر بہت گھمنڈ تھا، وہ اسے اپنی کھال کہتا تھا۔ 9؍ مارچ 2007ء بھی پاکستانیوں کو ہمیشہ یاد رہے گا جب پرویز مشرف نے وردی میں ملبوس ہوکر پاکستان کے چیف جسٹس محمد افتخارچوہدری سے جی ایچ کیو میں استعفیٰ طلب کیا۔ اس نے رعب ڈالنے کے لئے دو تین جرنیل بھی پاس بٹھارکھے تھے۔ مگر اس دن پاکستان کے چیف جسٹس نے انکار کرکے ایک بدخو ڈکٹیٹر کا غرور خاک میں ملا دیا۔ جسٹس افتخارچوہدری کاحرف ِ انکار آمریت کے بھونڈے چہرے پرایک طمانچے سے کم نہ تھا۔ آمر کو اس جسارت کی توقع نہ تھی۔ وہ چیف جسٹس کو اس جسارت کا مزہ چھکانے پرتل گیا، اُسے اور اس کے بچوں کو ان کے گھر میں قید کردیا گیا۔ اُنہیں ذلیل کرنے کی ہر صورت آزمائی گئی، بے گناہ بچوں کو سکول جانے سے روک دیاگیا۔ ان کی گھر کے اندر بھی نقل وحرکت بس ایک کمرے تک محدود تھی، وہ کچن تک نہیں آسکتے تھے، پہرہ داروں کا غول خوف مسلط کرنے کی غرض سے ایستادہ کردیاگیا، ملاقاتیں اور فون پررابطے یکسر منقطع کردیئے گئے۔ مگر بددماغ آمر یہ بات بھول گیا کہ اللہ جسے چاہتاہے، عزت یاذلت عطا کرتا ہے۔ اُسے یاد نہ رہا کہ عزت اور اعزاز کا تعلق وردی یا کرسی سے نہیں ہے، یہ خدا کی عطا ہے جسے وہ عطا کردے۔ بالآخر اللہ نے جسٹس افتخار چوہدری کو 'قومی افتخار' کی علامت بنادیا، اس کو پاکستانی قوم نے وہ عزت ، احترام اور دلی محبت دی جس کاتصور ہی محال ہے۔ بے چہرہ آمر کے مقدر میں ذلت لکھ دی گئی۔ وکلا اور سول سوسائٹی کے ہزاروں کارکن میدان میں نکلے اور آمر پر وہ تھوتھو کی کہ جس کا بیان بے سود ہے، سب جانتے ہیں ، اُسے کن کن 'القابات' سے نوازاگیا۔ حیرت تو یہ ہے کہ سابق فوجیوں کی تنظیم 'ایکس سروس مین سوسائٹی' کے صدر نے یہاں تک کہہ دیا کہ پرویز مشرف باؤلا جانور ہے، اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جانا چاہئے جیسا کہ ایک باؤلے جانور کے ساتھ کیا جاتاہے۔ اخبارات نے بھی اس کا یہ بیان چھاپ دیا۔یہ خداکی طرف سے ذلت و نکبت تھی جو اس 'کھال پوش' آمر کے مقدر میں لکھ دی گئی۔

میں نہیں جانتا کہ حالیہ تاریخ میں کوئی ایک بھی دوسرا حکمران ہے جسے اپنی قوم کی طرف سے اس قدر نفرت اور تحقیر کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف بڑے آہنی اعصاب کا مالک ہے، ورنہ کوئی اور ہوتا تو کب کامرچکاہوتا۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر یہ ضد اور ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کے جذبات پیداکردیئے تاکہ اسے طویل عرصہ تک یوں ذلیل کروا کر اس ظالم اور شقی القلب حکمران کو لوگوں کے لئے نشانۂ عبرت بنادے۔ مشہور ارشادِ ربانی ہے کہ
قُلِ ٱللَّـهُمَّ مَـٰلِكَ ٱلْمُلْكِ تُؤْتِى ٱلْمُلْكَ مَن تَشَآءُ وَتَنزِعُ ٱلْمُلْكَ مِمَّن تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُ ۖ بِيَدِكَ ٱلْخَيْرُ‌ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ‌﴿٢٦... سورة آل عمران
''اللہ عزوجل جسے چاہتا ہے، عزت عطا کرتا اور جسے چاہتا ذلیل ورسوا کردیتا ہے۔ خیر کی کنجیاں اس کے پاس ہیں اور وہ ہر شے پر قدرتِ کاملہ رکھتا ہے۔''

20؍ جولائی 2007ء کو سپریم کورٹ کے فل بنچ نے، جس کی صدارت جسٹس خلیل الرحمن رمدے کررہے تھے، غیرفعال چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب کو ایک متفقہ فیصلے کے ذریعے بحال کردیا۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان باوردی صدر کے سامنے قانون کی بالادستی اور عدلیہ کے وقار کو بلند رکھنے کا عزم کئے ہوئے تھے۔ قوم نے ان کے اس جرات مندانہ اور تاریخ ساز فیصلہ کو بے حد سراہا۔ فوجی آمر کو اپنا مستقبل ڈانواں ڈول نظر آنے لگا۔ اب وہ بے چین رہنے لگا کہ کس طرح قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں سے اپنے آپ کو آئندہ پانچ سال کے لئے صدر منتخب کرالے۔ آئینی ماہرین کاخیال تھا کہ یہ اسمبلیاں جن کی مدت ختم ہورہی تھی، جنرل پرویز مشرف کو دوبارہ صدر منتخب کرنے کا اختیار نہیں رکھتی تھیں ۔ اُدھر وردی اُتار دینے کا مطالبہ بھی شدت اختیارکرگیا، اس معاملے میں جنرل صاحب کے بیرونی دوستوں کا دباؤ بھی کم نہ تھا۔ عوامی مطالبے کے علیٰ الرغم جنرل پرویز مشرف نے صدارتی انتخابات کا اعلان کردیا۔ سپریم کورٹ میں اُس کی اہلیت کو چیلنج کردیا گیا کہ آیاوہ تیسری بار صدارتی انتخاب کے لئے آئین کی رو سے امیدوار ہو بھی سکتا ہے یا نہیں ؟ سپریم کورٹ میں رِٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران لگ رہا تھا کہ اس دفعہ عدلیہ میرٹ پر فیصلہ دے گی۔ ۲۰؍ جولائی والے فیصلے نے ہی ظاہر کردیاتھا کہ اب یہ ماضی کی 'نظریۂ ضرورت' کی رعایت رکھنے والی عدلیہ نہیں ہے۔ فوجی آمر کیس کی پیش رفت پرعقابی نگاہیں رکھے ہوئے تھا، وہ اپنے 'قانونی ماہرین' سے مشورے کے بعد آگے بڑھ کر اقدام کرنے کا بندوبست کرچکاتھا۔ نجانے کس ذریعے سے اُسے بھنک پڑی کہ سات ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کا فاضل بنچ اُس کے خلاف فیصلہ دینے کے لئے ذہن بناچکاہے۔ کمانڈو صدر نے ایک دن کی بھی تاخیر گوارا نہ کی اور ۲؍ نومبر ۲۰۰۷ء کو ایمرجنسی لگادی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور اس بنچ کو معزول کردیا۔

عدالت ِعظمیٰ اور عدالت ہائے عالیہ کے جج صاحبان سے تقاضاکیا گیا کہ وہ پی سی او کے تحت نیا حلف اٹھائیں ۔ انکار کرنے والے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ۶۰ جج صاحبان کو گھر بھیج دیا گیا۔ ایک فوجی آمر نے اپنی نااہلی کے فیصلے کے خوف سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو دوسری مرتبہ توڑا اور دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی اتنی کثیر تعداد کو گھر بھیجنے کا انتہائی اِقدام اٹھا کر بدترین رسوائی مول لی۔ اس کے باوجود موصوف کو جب مؤاخذے کاسامناکرنا پڑا تو اپنی آخری تقریرمیں من جملہ دیگر بے بنیاد دعوؤں کے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس نے ہرفیصلہ محض قومی مفاد کے لئے کیا، اپنی ذات کے لئے نہیں ۔ حیرت ہے کہ یہ بات قوم اور پوری دنیا کے سامنے کہتے ہوئے اُسے یہ خیال بھی نہ آیا کہ اس کی اس بات کی بڑی آسانی سے تردید کی جاسکتی ہے۔ اگرچہ وہ خود اس بات کا اعتراف کرچکا تھاکہ ۲؍نومبر کااس کااقدام ماوراے آئین تھا۔ اسکے باوجود اپنی آخری تقریر میں بڑے دھڑلے سے پرویز مشرف نے کہا کہ اس نے کوئی ایسا Misconductنہیں کیاکہ جس کی بنیاد پر اس کا مؤاخذہ کیا جائے۔ گویاآئین کی دھجیاں بکھیرنا اُس کے نزدیک بازیچۂ اطفال تھا۔کیاکوئی شخص بقائم ہوش و حواس ایسی باتیں کرسکتا ہے؟ کیاصدارت پر فائز کسی شخص کو اس طرح کی باتیں زیب دیتی ہیں ؟

17؍ اگست 2008ء کے اخبارات نے رپورٹ کیا کہ حکمران اتحاد نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف چارج شیٹ (فردِ جرم) مرتب کرلی ہے اور اس میں تیس سے زیادہ الزامات کو شامل کیاگیاہے اور اس کی ضخامت 200 صفحات سے بھی زیادہ ہے۔مگر جونہی مشرف نے مستعفی ہوکر گوشہ عافیت میں پناہ لی، اس کاذکر ہی گول کردیاگیا۔ لوگ منتظر تھے کہ اس کی تفصیلات منظر عام پر لائیں جائیں مگر اسے ایک 'خفیہ دستاویز' کی حیثیت دے کر چھپا دیاگیا اور اُلٹاآصف علی زرداری نے بیان داغ دیا کہ سابق صدر پرویز مشرف کو Indemnity (معافی) دینے کے لئے پارلیمنٹ میں بل لایاجائے گا۔

یقین نہیں آیا کہ یہ وہی آصف علی زرداری ہے جس نے 2؍ ستمبر 2000ء کو بیان دیاتھا کہ ''پرویز مشرف نے امریکہ سے ملنے والی سالانہ امداد سے ہرسال صرف 25 کروڑ ڈالر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کئے ہیں ، باقی 75 کروڑ ڈالر سالانہ خورد برد کئے ہیں ، ہم اس کاحساب لیں گے۔'' اگر آصف علی زرداری کا بیان درست ہے تو گذشتہ چھ سالوں میں خوردبرد کی جانے والی رقم تین ارب 75 کروڑ ڈالر بنتی ہے، اسے روپوں میں منتقل کریں تو یہ تین کھرب روپے سے زیادہ کی رقم ہوگی۔ جاننا چاہئے کہ اتنی بڑی خورد برد کا الزام لگانے والے صاحب اب خود صدرِ مملکت ہیں اور الزام علیہ سابق صدر ہیں مگر پاکستان میں ابھی تک موجود ہیں ؟ کیا یہ محض ایک بے بنیاد الزام تھا؟ اگر ایسا تھا تو کیایہ مناسب نہ تھا کہ آصف علی زرداری صدارت کاحلف اُٹھانے سے پہلے پرویز مشرف اور قوم سے اس کی معافی مانگتے؟ اگر اس الزام میں ذرّہ برابر بھی صداقت ہے تو پھر یہ معافی کا اعلان کیامعنی رکھتا ہے؟ یہ کیسا سنگین مذاق ہے جو اس بدقسمت قوم کے ساتھ کیاگیا ہے۔ایک ایسا شخص جس نے آئین کو دو مرتبہ پامال کیا اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ۶۰ جج صاحبان کو معزول کرکے اُنہیں گھروں میں قید کیا ، اس کے لئے ابھی سے معافی کی باضابطہ تیاری؟... بے حد تعجب ہے!!

7؍اگست 2008ء کو میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے اعلان کیاکہ صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے مؤاخذے کی تحریک عنقریب پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی ، مطلوبہ ارکان کی تعداد میسر ہے اور تحریک ِمؤاخذہ کی بحالی کے فوراً بعد غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام جج صاحبان کو بحال کردیا جائے گا۔ مگر یہ ایک شاطرانہ چال تھی جو آصف علی زرداری نے چلی۔

18؍ اگست کی شام پرویز مشرف نے ایوانِ صدر سے جونہی قدم نکالا، تو زرداری نے ایک دفعہ پھر آئینی پیچیدگیوں کی پٹاری کھول دی اور ججوں کی بحالی کے وعدے سے نہ صرف مکر گئے بلکہ نہایت افسوس ناک بیان بھی دے دیا کہ'' معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔'' میاں نوازشریف صاحب پریس کے سامنے زرداری کے دستخط شدہ معاہدے کی کاپیاں لہراتے رہ گئے۔ وہ صحافیوں کے سوال پر بے حد شرمندہ ہوتے ہوئے محض ایک فلمی گیت کے مصرعہ یعنی ''کیاہوا تیرا وعدہ'' دہرانے کے علاوہ آخر کربھی کیاسکتے تھے؟ میاں صاحب نے پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ ''اب ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں استعمال کیاگیاہے۔'' موصوف نے صحافیوں کے سامنے یہ بھی انکشاف کیا کہ ''آصف علی زرداری تواپنے بیڈ روم سے قرآن مجید بھی اُٹھا لائے تھے کہ ہمیں ہر طرح کااعتماد دلا سکیں ۔ لیکن میں نے روک دیا کہ سیاسی باتوں میں قرآن اٹھانا درست نہیں ۔''

میاں صاحب نے وضاحت کی کہ''آصف علی زرداری نے اب تک ان سے کئے گئے دس وعدوں سے انحراف کیا ہے، محض تین دفعہ نہیں ۔'' کاش کہ میاں صاحب وہ حدیث شریف ذہن میں رکھتے کہ ''مؤمن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔''

معلوم ہوتا ہے کہ ایوانِ صدر میں جلوہ گر ہونے کے لئے آصف علی زرداری نے طویل منصوبہ بندی کررکھی تھی۔ وہ مسلسل شاطرانہ سیاست کے پتے کھیلتا رہا جسے اُس کے حواری میڈیا میں 'تدبر' کا نام دے کر گذشتہ چند ماہ میں اس کا تاثر بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہے، نواز شریف صاحب کو بھی اس کی گیم کم ہی سمجھ آئی۔ اس نے ثابت کیا کہ چالبازی، ہوشیاری اور چالاکی میں اس کا کوئی ثانی نہیں ۔ سیاست میں مخالف کو فریب دینے کے عمل کو اس نے 'آرٹ' کے درجے تک پہنچادیا۔ جج بحال نہ کرنے کے لئے وہ مسلسل حیلے تراشتا رہا اور مسلم لیگ (ن) کو اس وقت تک اپنے دائرے سے باہر نہ نکلنے دیا جب تک کہ مشرف کو نکال کر ایوانِ صدر میں پہنچنے کا راستہ بالکل صاف نہ ہوگیا۔ جب آصف علی زرداری نے جج بحال کرنے کے وعدہ سے انحراف کردیاتو مسلم لیگ (ن) نے حکمران اتحاد سے حتمی علیحدگی کا اعلان کردیا۔اسی دن آصف علی زرداری نے میڈیا پرآکر میاں صاحب کے فیصلے پر 'افسوس' کااظہار کیااور اُنہیں فیصلہ واپس لینے کی 'درخواست'کی۔ زرداری نے خود اپنی اُمیدواری کا اعلان کرنے کی بجائے اپنی پارٹی کے لوگوں کے ذریعے 'مطالبے' کی فریب انگیز مہم چلائی۔

بہت کم لوگوں کوتوقع تھی کہ آصف علی زرداری صدارت کے لئے خود اُمیدوار بنیں گے۔ ماضی میں کرپشن کے الزامات کی وجہ سے وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کافی بدنام اور متنازعہ فیہ ہوچکے تھے۔ یہی وجہ ہے آصف علی زرداری کے صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آتے ہیں انٹرنیشنل میڈیا میں ہاہا کار مچ گئی۔ 4؍ ستمبر کی شام جیو ٹی وی پر معروف اینکر پرسن کامران خان نے بتایاکہ بین الاقوامی پریس اور الیکٹرانک میڈیا میں ساڑھے چار ہزار سے زائد مضامین، تبصرے اور خبریں شائع ہوئیں جن میں آصف علی زرداری کی شخصیت کو تنقیدکا نشانہ بنایاگیاتھا۔

لندن سے شائع ہونے والے معروف روزنامہ' فنانشل ٹائمز' نے آصف علی زرداری کی ایک سال پہلے کی میڈیکل رپورٹ کی نقول شائع کیں جن کی رو سے وہ امریکہ کے ذہنی امراض کے ایک معروف ڈاکٹر کے زیرعلاج رہے تھے۔ ان کے شدید ڈپریشن اور Demensim (یادداشت کا ختم ہونا) کی بیماری کی وجہ سے ایک سال پہلے برطانیہ کی عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ اُنہیں عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ قرار دے۔پاکستانی اخبارات نے نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن ٹائمز، گارڈین، ڈیلی ایکسپریس، ٹائم اور نیوز ویک جیسے عالمی شہرت یافتہ اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین کودوبارہ شائع کیا۔ الیکٹرانک میڈیا کاشاید ہی کوئی معروف ٹاک شو ہو جس میں ان خبروں کو زیربحث نہ لایاگیاہو۔ بین الاقوامی اخبارات نے آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات کی تفصیلات دیں ۔ بعض اخبارات نے اُسے جوانی میں 'پلے بوائے' کے طور پر پیش کیا۔

28؍اگست کو صدارتی انتخابات کے لئے کاغذات جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔ ٹھیک ایک دن پہلے سوئٹرز لینڈ کی عدالت نے بیان کیاکہ حکومت ِپاکستان کے تفتیشی افسرنے آصف علی زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس واپس لینے کی درخواست کی ہے جو منظور کرلی گئی ہے اور عدالت ۶۰ ملین ڈالر (تقریباً ساڑھے پانچ ارب روپے) آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں واپس کردے گی۔

عمران خان، مشاہد حسین سید جومسلم لیگ (ق) کے صدارتی اُمیدوار تھے، اورکئی دیگر شخصیات نے بار بار مطالبہ کیا کہ آصف علی زرداری وضاحت کرے کہ یہ ۶۰ملین ڈالر کہاں سے آئے تھے۔ مشاہد حسین سید نے تو زرداری کو ٹیلیویژن پرباقاعدہ مجادلے اورمباحثے کا باربار چیلنج دیا مگر اس طرف سے وضاحت نہ آئی۔ البتہ پیپلزپارٹی کے ذمہ داران بار بار آصف زرداری کی بے گناہی کا ڈھونڈورا پیٹتے رہے۔۴؍ ستمبر کو روزنامہ ' نوائے وقت' میں خبرشائع ہوئی کہ آصف علی زرداری کے اثاثہ جات کی مالیت ۶؍ارب ڈالر (۷۸۰ ارب روپے تقریباً) ہے۔ تادم تحریر اس خبر کی تردید آئی ہے، نہ مذکورہ اخبار کے خلاف کاروائی کاکوئی نوٹس موصول ہوا ہے۔

جنرل مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد بعض حلقوں کو اُمید تھی کہ شاید فاٹا اور سوات کی صورتحال میں بہتری آئے، توقع کی جارہی تھی کہ امریکی ایجنڈے پرعمل درآمد کی رفتار میں کمی آجائے گی مگر بسا آرزوے خاک شد۔ جولوگ ایسا سوچ رہے تھے، اُنہیں یہ دیکھ کربے حد مایوسی ہوئی کہ وزیرستان، سوات اور باجوڑ میں فوجی آپریشن میں اضافہ ہوگیا۔ماہِ رمضان شروع ہونے سے تین دن پہلے اعلان کیاگیا کہ احترامِ رمضان میں آپریشن بند کردیئے جائیں گے۔مولانا فضل الرحمن نے بھی ٹیلیویژن پر انٹرویو میں قوم کو یقین دلایا کہ اس بارے میں حکومت سے ان کی بات ہوگئی ہے اور اُنہوں نے اسے آصف زرداری کو ووٹ دینے کے لئے پیشگی شرط بھی قراردیا۔ مگر بدنصیب قوم کو ان اعلانات اور وعدوں کی اصل حقیقت تب معلوم ہوئی جب باجوڑ میں سیکورٹی فورسز کی شدید بمباری اور تباہی کے بعد چار لاکھ سے زیادہ افراد ہجرت کرکے مردان، مالاکنڈ، چارسدہ، پشاور اور دیگرمحفوظ مقامات پر بے خانماں برباد قافلوں کی صورت میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور ہوئے۔

بے گناہ شہریوں پر یہ ظلم تو مشرف کے عہد میں بھی نہیں ہوا تھا۔ مشیرداخلہ رحمن ملک جس کے امریکی ایجنٹ نہ ہونے میں بہت کم لوگوں کو شک ہے، نے ایک تابع فرمان غلام کی طرح اعلان کیا کہ ۱۱۰۰ طالبان کو ہلاک کردیاگیا ہے۔ اس نے یہ نہیں بتایاکہ اس ہولناک گولہ باری میں جان بحق ہونے والے بچوں اور عورتوں کی تعداد کتنی ہے؟ ادھر گذشتہ ہفتے سے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں امریکی افواج بلاناغہ بے گناہ شہریوں کو میزائلوں کا نشانہ بناکر شہید کررہی ہیں ۔ اب تو ان کی جارحانہ کارروائیوں نے باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ چند روز سے انگوراڈہ پر رات کی تاریکی میں امریکی ہیلی کاپٹروں سے اتر کر امریکی فوجیوں نے ۲۲ بے گناہ پاکستانی قبائلی عورتوں اور بچوں کو فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اُتار دیا اور پھر بڑے آرام سے واپس چلے گئے۔ ارضِ پاک پرناپاک قدم رکھنے والے ان ظالموں کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرناپڑا۔ آئے روز کے ان امریکی حملوں نے پاکستان کی حاکمیت ِاعلیٰ کو ایک سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔اخبارات کے تبصروں میں جب یہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ نیٹو افواج کو سابق صدر پرویز مشرف کے دور سے خفیہ اجازت ملی ہوئی ہے، تو دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتاہے۔ دھیمے انداز میں مصنوعی احتجاج بھی ہورہا ہے، مگر اس کے اثرات مرتب نہیں ہو رہے ہیں ۔ایک دن خبر شائع ہوئی کہ پاکستان نے امریکی افواج کے لئے سازوسامان اور خوراک پہنچانے والے ٹرکوں کو طورخم بارڈر پر روک دیا ہے۔کس قدر اطمینان ہواکہ کچھ تو قومی حمیت کااظہار ہوا ہے۔ مگر افسوس! دوسرے دن مشیر داخلہ نے وضاحت کی کہ اس خبر میں کوئی صداقت نہیں ۔ ۱۱؍ ستمبر کو جنرل پرویزاشفاق کیانی کا بیان شائع ہوا کہ پاکستان کی سالمیت کاہر قیمت پردفاع کیا جائے گا۔

خودکش حملوں کو مشرف کے خلاف ردّعمل کہاجاتا تھا، مگر موجودہ حکومت نے فاٹا، سوات اورباجوڑ میں جب پرانی پالیسی کو تبدیل نہ کیا اور آپریشن کی شدت میں اضافہ کردیا تو گذشتہ دنوں بہت ہی خوفناک خود کش حملوں کاسلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ واہ کینٹ، پشاور کے ہسپتال اورکوہاٹ روڈ پر ہونے والے المناک خود کش حملوں میں سینکڑوں بے گناہ مزدور، محنت کش، غریب لوگ شہیدہوگئے۔ فاٹا کے علاقوں میں ہونے والے آپریشنز میں بلاشبہ ظلم ہورہا ہے مگر اس طرح کے خود کش حملے بھی ظلم اور بدترین فساد کے زمرے میں آتے ہیں ۔

ہم نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی طرف سے یہودیوں کے خلاف خودکش حملوں کے متعلق عرب و عجم کے علما کی آرا دیکھی ہیں ، مگر پاکستان میں ہونے والے خودکش حملوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسا ظلم کرنے والے طالبانِ شریعت نہیں ہوسکتے بلکہ ظالمانِ بربریت ہیں ۔ اس سلسلے میں پوری تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہ حملے فاٹا کے مظلوم مسلمانوں کی طرف سے ہورہے ہیں یا بھارتی 'را' اور دیگر پاکستان دشمن عناصر ان کو استعمال کررہے ہیں ۔

6؍ ستمبر کو صدارتی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے، اس کے بارے میں کوئی تجسّس تھا، نہ کسی کو حیرت ہوئی۔ یہ نتیجہ پہلے سے معلوم تھا۔ آصف علی زرداری نے ۴۷۹، مسلم لیگ (ن) کے امیدوار جسٹس (ر) سعیدالزماں صدیقی نے 153 اور مسلم لیگ (ق) کے مشاہد حسین نے 43 ووٹ حاصل کئے۔ 8 ستمبرکو تقریب ِحلف وفاداری ہوئی۔اس تقریب میں ایک ایسا شخص بھی موجود تھا جو ابھی چند ہفتے پہلے طالبان کے تعاقب میں پاکستان حدود میں افغان فوجی بھیجنے کی دھمکی دیتارہاتھا۔ افغانستان سے آئے ہوئے اس جبہ پوش مسخرے اور امریکہ کے وفادار غلام کی موجودگی سے آصف علی زرداری نے بحیثیت ِصدر پاکستان جو تاثر دیناچاہا، اسے قاضی حسین احمد نے بجا طور پر امریکہ کو 'پہلا سلیوٹ'قرار دیا۔ حامد کرزئی کے ساتھ آصف علی زرداری کی 'پریس کانفرنس' کے خلاف ہمارے میڈیا نے کافی ناگواری کا اظہار کیا ہے، حتیٰ کہ روزنامہ 'جنگ' بھی اپنے تحفظات پیش کئے بغیر نہ رہ سکا۔

بات بہت طویل ہوگئی ہے مگر پھر بھی چند تاثرات کا بیان ضروری ہے۔ بہت سے لوگ توقع کررہے تھے کہ آصف علی زرداری منصب ِصدارت پر پہنچنے کے بعد این آر او کے بارے میں عدمِ تحفظ سے باہر آجائیں گے اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام جج صاحبان کو بحال کرکے 'نیک نامی' کمائیں گے، مگر ایسا نہ ہوا، کیوں ؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک امریکہ سے منظوری نہیں آئے گی، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب بحال نہیں کئے جائیں گے۔ اس 'منظوری' کے آنے کافی الحال کوئی امکان نہیں ، کیونکہ پرویز مشرف نے امریکہ کو یقین دلایا تھاکہ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان غائب شدہ سینکڑوں افراد کی بازیابی اور عدالت میں پیش کرنے کے احکامات صادر کئے تھے جو 'دہشت گردی' میں ملوث ہیں ۔جن 'مقتدر قوتوں ' نے ان افراد کوغائب کیا، ان کی ناراضگی کاکوئی بھی سیاستدان خواہ وہ صدر کیوں نہ بن جائے، متحمل نہیں ہوسکتا۔ابھی چند دن پہلے وزیرقانون نے بیان دیاتھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اگر بحال بھی ہوئے تو پہلے صرف جج کے طور پر حلف اٹھائیں گے، ان کے چیف جسٹس ہونے کا فیصلہ بعد میں کیاجائے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس غیر منطقی اور لغو بیان کی ضرورت کیاتھی؟ آخر یہ لوگ افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس کے طور پر بحال کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ بعض لوگوں کاخیال ہے کہ یہ ایسا چیف جسٹس کبھی نہیں چاہیں گے جس سے اُنہیں ہمیشہ خدشہ لاحق رہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق بنچ تشکیل دے گا۔

آصف علی زرداری نے کچھ عرصہ پہلے دینی مدارس پر پابندیوں کے متعلق جو بیان دیا تھا وہ ان کی سیکولر سوچ کا عکاس ہے۔ جون 2008ء میں موصوف کو' سوشلسٹ انٹرنیشنل' کا نائب صدر بھی منتخب کیاگیا۔ ان کے صدر بنے کے بعد پاکستان کی سیاست میں اشتراکی الحادپسندوں کے اثرورسوخ بڑھنے کے امکانات بھی ہیں ۔ ان کے دورمیں مشرف کی سیکولرائزیشن کی پالیسی کے تسلسل کااحتمال بھی ہے۔ ان حالات میں دین پسندوں کو ناساز گار حالات کاسامنا کرنا پڑسکتاہے جس کی تیاری ابھی سے ہونی چاہئے۔ دیکھنا ہے کہ فوجی آمریت کے بعد سیکولر جمہوریت کے پاکستان کی معاشرت و سیاست پرکیا اثرات پڑتے ہیں ؟

دورِحاضر میں حکومت ِالٰہیہ (خلافت) تو ایک خواب اور ناتمام آدرش ہے ہی، یہ سلطانی ٔ ٔجمہور (جمہوریت) بھی ایک خواب سے کم نہیں ہے۔ اس ملک میں اسلام کے نام پرعوام کے استحصال کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں ، مگر جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہت کے قیام اور عوام کے بدترین استحصال کی بات کرنے کا حوصلہ کسی ہے؟

۷ ستمبر کے اخبارات اُٹھا لیجئے اور آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ایک شخص جس کے بارے میں کل تک کیاکیا باتیں شائع نہیں ہوئی تھیں ، آج ایک اعلیٰ درجہ کا مدبر اور قوم کا عظیم مسیحا بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ خدا کرے کہ وہ اپنے آپ کو ایسا ثابت کرسکے، مگر مرغِ باد نما جیسی صحافت کے علمبردار سب کچھ پہلے ہی ثابت کررہے ہیں ۔

آج (25 ستمبر کو) جب اس مضمون کی اختتامی سطور تحریر کی جا رہی ہیں ، حالات میں بہتری کی بجائے مزید خرابی میں تیزی آئی ہے۔۲۰؍ستمبر کو اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا دھماکہ ہوا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایک ہزار کلو گرام بارود سے بھرا ٹرک افطاری کے کچھ دیر بعد سیکورٹی کے تمام 'ریڈ الرٹس' کو توڑتے ہوئے ہوٹل کے گیٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔اس خوفناک دھماکے نے اسلام آ باد شہر کو لرزا کے رکھ دیا۔اس میں 53؍ افراد جاں بحق ہونے کے علاوہ اڑھائی سو سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔اس دھماکے سے کوئی تین گھنٹے پہلے صدر آصف زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوان سے خطاب کیا تھا۔مشیر داخلہ نے ایک دفعہ پھر ذاتی تشہیر کے لیے بیان دیا کہ اس شام سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے صدر، وزیر اعظم اور ارکانِ پارلیمنٹ کے اعزاز میں میریٹ ہوٹل میں افطار ڈنر کا اہتمام ہونا تھا جو دہشت گردی کی اطلاع پانے کے بعد وزیر اعظم ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا۔اس بیان کو میڈیا میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور کئی سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں ۔ادھر سپیکر اسمبلی کی طرف سے بیان آیا کہ ایسا کوئی پروگرام نہ تھا۔۲۵؍ستمبر کے 'نواے وقت' کی شہ سرخی ہے کہ وفاقی کابینہ نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور یہ بھی بیان دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔

گذشتہ دنوں آرمی چیف جنرل پرویز اشفاق کیانی کی طرف سے پہلی مرتبہ قدرے جرأت مندانہ بیان دیا گیاکہ بیرونی اَفواج کو پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔افواجِ پاکستان کے ترجمان نے بھی بیان دیاکہ پاکستان کی حدود میں داخل ہونے والے جہازوں کو نشانہ بنانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔محب ِوطن حلقوں کی طرف سے خیال ظاہر کیا گیا کہ ایسا بیان صدر آصف زرداری یا وزیر اعظم کی طرف سے آنا چاہیے تھا۔بعد میں وزیر اعظم نے اگرچہ بیان دیا کہ حکومت اور فوج کی پالیسی ایک ہے،مگر اس کا وہ تاثر قائم نہ ہوسکا۔وزیر اعظم نے تو یہ بیان دے کر قوم کے حوصلوں پر پانی پھیر دیا کہ ہم امریکہ کے ساتھ نہیں لڑ سکتے۔

9؍ستمبر کو صدارتی حلف لینے کے فوراً بعد صدر آصف زرداری نے بیان دیا کہ وہ اپنا پہلا دورہ چین کا کریں گے مگر اس کے دو تین دن بعد ہی وہ برطانیہ چلے گئے، وہاں برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن سے ملاقات کی او رامریکی حملوں کے خلاف ان کی حمایت لینے کی کاوش کی جس میں اُنہیں کامیابی نہیں ملی۔23؍ستمبر کو اُنہوں نے نیویارک میں امریکی صدر جارج بش سے غیر رسمی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں اُنہوں نے امریکی صدر سے پاکستان کی خود مختاری کے احترام کی دوبارہ در خواست کی۔ صدر بش کا بیان آیا کہ امریکہ پاکستان کی خود مختاری کا خیال رکھے گا، مگر اس 'خیال' کی عملی تعبیر کے طور پر اسی دن امریکی طیاروں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی حدود میں پروازیں کیں اور میزائل برسائے۔امریکیوں کی نفسیات عالمی غنڈہ گردوں کی نفسیات ہے، وہ نہ تو اقوامِ متحدہ کے کسی قانون کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی کسی ملک کی خود مختاری کی اُنہیں پرواہ ہے۔گذشتہ دنوں جس وقت امریکی افواج کا چیف ایڈمرل مائیکل مولن اسلام آباد میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کر رہا تھا،عین اسی وقت میڈیا پر اطلاع دی جا رہی تھی کہ امریکی جہازوں نے وزیرستان میں بمباری کر کے ۲۰ سے زیادہ معصوم عورتوں اور بچوں کو شہید کر دیا ہے۔

آج یعنی ۲۵؍ستمبر کے اخبارات میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس سے ایک دفعہ پھر متنبہ کیا ہے کہ '' پاکستان پرلازم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نئی امریکی پالیسی کا ساتھ دے۔''ادھر نیو یارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر کرزئی نے بیان دیاہے کہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں مقیم انتہا پسند، افغانستان کو غیر مستحکم کر رہے ہیں ،دہشت گردی کے خلاف جنگ ان کے ٹھکانوں تک پھیلائی جائے۔''

حالات بے حد پریشان کن ہیں ۔ پاکستانی عوام توقع کر رہے تھے کہ جنرل مشرف کے جانے کے بعد امریکہ سے تعاون کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے گی،مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نئی حکومت نے اس تعاون کومزید بڑھانے کی ہی یقین دہانی کرائی ہے۔ باجوڑ میں شروع کیا جانے والا افسوس ناک آپریشن ابھی تک جاری ہے۔ وہاں کے لاکھوں بے گھر افراد نے ماہِ رمضان مہاجرت کے مصائب سے گذرتے ہوئے گذارا ہے۔ابھی تک لو گ نقل مکانی کر رہے ہیں ۔ سوات میں بھی حالات خراب ہیں ۔ بار بار معاہدے کے اعلان کے باوجود نہ آپریشن ختم کیا گیا ، نہ نام نہاد طالبان کی طرف سے خود کش حملوں کا سلسلہ بند کیا گیا ہے۔یہ ایک برائی کا چکر ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

وزیر اعظم گیلانی صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان امریکہ سے نہیں لڑ سکتا۔ہمارا خیال ہے کہ امریکیوں سے جنگ لڑنے کی شاید ضرورت ہی پیش نہ آئے، اگر پاکستان صرف دو باتوں کا اعلان کر دے۔اوّل یہ کہ امریکہ کو اب تک دی جانے والی لاجسٹک سپورٹ واپس لے لی جائے۔ اس اعلان کے بعد کراچی سے انڈس ہائی وے سے گذر کر افغانستان جانے والے روزانہ چار سو سے زیادہ ٹرک روک لیے جائیں توپھر امریکی افواج سخت مشکلات سے درپیش ہوں گی کیونکہ ان کے پاس فی الحال کوئی متبادل انتظام نہیں ہے۔ثانیاً، حکومت ِپاکستان یہ اعلان کر دے کہ قبائلی علاقوں میں تعینات پاکستانی فوج کے ایک لاکھ 20 ہزار جوان واپس بلائے جائیں گے۔ 25؍ستمبرکے اخبار میں امریکی فوج کے جنرل جیمز کارٹ کا بیان شائع ہوا ہے جو اس نے امریکی سینٹ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے دیا ''پاکستان کی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر افغانستان میں موجودگی ایک چیلنج ہو گی۔'' مزید یہ کہ '' امریکہ نے افغانستان میں فوج کو سپلائی کے لیے متبادل روٹ کی تلاش شروع کر دی۔''1

اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اس امکان کے تصور ہی سے وحشت زدہ ہو گیا ہے کہ پاکستان اس کی افواج کو سپلائی بند کرنے کی سہولت واپس لے سکتا ہے۔برطانوی وزیر انصاف جیک سٹرا چند روز پہلے پاکستان کے دورہ پر آئے تھے، ان کا یہ بیان بھی توجہ طلب ہے
'' پاکستان اتحادی ممالک کی مجبوری تو ہو سکتا ہے، اتحادی ممالک پاکستان کی مجبوری نہیں ۔ اگر آج پاکستان ان احباب کو ہر قسم کی اِمداد فراہم کرنے سے صاف انکار بھی کر دے تو آپ اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔''2

اس وقت پاکستان کو ایک این آر او صدر کی بجائے ایک جرأت مند حکمران کی ضرورت ہے جو امریکیوں کی ان کمزوریوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے مملکت ِپاکستان کی خود مختاری اور پاکستانی عوام کی عزتِ نفس کا تحفظ کر سکے۔ہمیں آج ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے جو امریکہ کے متعلق خوف کی نفسیات سے بار نکل کر غیرت وحمیت کے جذبات سے سرشار ہو کر وطن عزیز کی پالیسیاں مرتب کریں ۔ہم جب تک امریکہ کی غلامی سے نجات حاصل نہیں کریں گے اقوامِ عالم میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔یہ پاکستانی قوم کی بد قسمتی ہے کہ ہرآنے والا حکمران اسے امریکی غلامی میں مزید پختہ کرنے کی تدبیریں کرنا شروع ہوجاتا ہے تا کہ اس کا شخصی اقتدار قائم رکھا جا سکے۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ قوم اس خوے غلامی سے بیزار نظر آتی ہے۔

وائے افسوس! شب ِ دیجور کے چھٹنے کے بعد سپیدۂ سحر طلوع نہ ہوا۔جو لوگ پرویز مشرف کے منظر سے غائب ہونے کو 'زہق الباطل' قرار دے کربلیوں اچھل رہے تھے، وہ آصف علی زرداری کے منصب ِصدارت پرفائز ہونے کو''جاء الباطل' سمجھتے اور اندیشہ ہائے دور و دراز میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں ۔ باطل کے جانے کے بعد 'جاء الحق ' کا مژدئہ جانفرا ان کے لئے اب ایک حیرتِ ناتمام کے سوا کچھ نہیں ۔ وہ سوچ سوچ کر اعصابی اختلال کاشکار ہورہے ہیں کہ یا خدا! یہ کوئی سکینڈے نیویا کا ملک ہے جہاں کی شب ِتاریک نہایت طویل ہوگئی ہے؟ وہاں بس یہ ہوتا ہے کہ ہر بارہ گھنٹے کے بعد گھٹا ٹوپ اندھیرے کی جگہ ملگجی اندھیرے لے لیتے ہیں ، سورج طلوع نہیں ہوتا، دن کااُجالا دیکھنے کو نہیں ملتا... یہ کوئی اندھیروں کے نہ ختم ہونے والا پھیر ہے؟ سکینڈے نیویا کے لوگ تو پھر بھی خوش نصیب ہیں کہ چھ ماہ کے بعد وہاں دن 'طلوع' ہوجاتا ہے؛ مگر اہل پاکستان؟ ... ۱۴؍گست ۱۹۴۷ء کی صبح دل پذیر کو 'آفتابِ حق' کا ظہور سمجھ کر بیدار ہوئے تھے۔ اُنہیں یقین تھاکہ زھق الباطل ہوگیا اور جاء الحق کی نوید پوری ہوئی۔ مگر واے حسرت! کہ رہبروں کے بعد رہزنوں نے اُجالوں کے چمن کو لوٹ لیا۔ شاید ان کے مقدر کا اَبر ِکرم پھر برسے اور وہ نورِ حق کے سیلاب میں ان تاریک حسرتوں کی بار آوری کا سامان پھر سے کرسکیں ۔ ہم مسلمان ہیں ، جاء الحق کی اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ آج نہیں ... تو کل نورِ حق کا ظہور ضرور ہوگا۔ان شاء اللہ!
شاید پاسبان مل جائیں کعبے کو صنم خانے سے... شاید!!


حوالہ جات
1. روزنامہ 'نوائے وقت' لاہور
2. نوائے وقت