اکتوبر 2021ء

طالبان اور عالمی اتحاد

 

کیا افغانستان تین سپرپاورز کا قبرستان ہے ؟

   افغانستان کے متعلق جو کچھ ہم دیکھ ، سن اور پڑھ رہے ہیں ،وہ ملت اسلامیہ کی   چودہ  سو سالہ تاریخ کا تسلسل ہے  جیسا کہ  سیرۃ رسول ﷺ کے ابتدائی مرحلہ میں عیسائیوں  کی مشرکین سے شکست کے بعد پھر مشرکین پر فتح اور غزوہ بدر کی کامیابی  پر مسلمانوں کی فرحت و انبساط   کا نقشہ قرآن مجيد سورۃ  الروم میں  یوں  کھینچا   گیا  ہے :

﴿ المّ (1) غُلِبَتِ الرُّومُ (2) فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ (3) فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ (4) بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴾[الروم: 1 - 5]

  رومی قریبی علاقہ میں    مغلوب ہوگئے ہیں    لیکن وہ  دوبارہ  چند سال میں ہی  غالب آ جائیں گئےکیونکہ اول و آخر اللہ تعالیٰ کا حکم ہی نافذ ہو کر رہتا ہے ۔انہی دنوں جب    اللہ کی نصرت خاص سے غزوہ بدر کی کامیابی بھی ہو گئی تو مسلمان  دونوں فتوحات پر شادمان ہوں گے،اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں  اپنی نصرت عطا کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لئے   زبردست اور مہربان ہے ۔

سقوط کابل سے صرف افغان جنگ کا خاتمہ نہیں ہواجو امریکا  اور نیٹو وغیرہ  نے بیس سال پہلے ایک مستقل ریاست اور باضابطہ حکومت کے خلاف شروع کی تھی ، بلکہ10 محرم 1443ھ( 19؍اگست 2021ء) کو  امارت اسلامیہ  كی بحالی کی نوید پر  اس صدی کے اختتام کا اعلان  ہے جسے ’امریکا کی صدی‘ کہا جاتا ہے ۔افغان طالبان کا کابل پر کنٹرول سنبھالنا اور امریکا کا  معاہدے میں طے شدہ وقت سے بھی پہلے افراتفری کے عالم میں اپنی فوجوں کو وہاں سے نکالنا اس کی  سپر پا ور  والی حیثیت  کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ہے ۔

امریکی ظلم و ستم کی طویل  تاریخ    بڑی لرزہ خیز ہے ،بیسویں صدی کی   دوسری جنگ عظیم  میں  امریکا نے 6 اگست 1945ء کو جاپان کے صنعتی شہر ’ ہیرو شیما‘  اور 9؍ اگست کو اس کے دوسرے صنعتی شہر’  ناگا ساکی‘ پر دنیا کا پہلا ایٹمی بم  گرایا  تھا ۔ جس میں ایک اندازے کے مطابق سوا دو لاکھ انسان ہلاک ہوگئے تھے۔ ایٹم بم کے تابکاری اثرات کی وجہ سے   آج بھی وہاں بہت سے  بچے  پیدائشی اپاہج   ہوتے ہیں ۔ یہ دنیا میں امریکا کی سپر پاور بننے کا آغاز تھا  ۔

اس کے بعد امریکا نے U N O  کے ذریعے    دنیا کو کنٹرول  کرنے کے لیے طاقت ، دہشت  اور قتل و غارت کے جو  ہتھیار بے دریغ  استعمال کیے، ان کے مناظر ہم کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں   ۔

امریکا   گزشتہ 76 سالوں سے انقلابی تحریکوں کے بہانے   جس طرح  افراد اور حکومتوں  کا غلط  سمبل دکھا  کر  تیسری دنیا کو  سیاسی اور اقتصادی غلامی کا طوق پہنانے کے لئے کوشاں ہے، اس کا راز بھی عیاں ہے۔ ماضی قریب  کی پانچ جنگیں امریکہ کے لئے کلنک کا ٹیکہ ثابت ہو چکی ہیں ،  جن میں کوریا ، ویت نام ، خلیجی جنگ ، عراق اور افغانستان تو معروف ہیں  جبکہ ان پر صومالیہ ، یمن اور لیبیا وغیرہ  کی جنگیں اضافہ ہیں  ۔   

  امریکا ویت نام کے خلاف جنگ میں کود تو گیا، لیکن ویت نامی عوام اور جنگ جوؤں کا مقابلہ نہ کرسکا اور  30اپریل 1975ء کو بدترین شکست کے بعد وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا ۔

پھر اکتوبر 1993ء میں صومالیہ کے دار الحکومت  ’موغادیشو‘ پر حملہ آور ہوا  تو  اس کا مقصد صرف صومالیہ کے  جنرل  محمد فرح اور  اس کے حواریوں  کو پکڑنا تھا لیکن امریکی فوج کو محمد فرح کی ملیشیا کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ موغادیشوکی سڑکوں پر مردہ امریکی فوجیوں کی گھسیٹنے کی ویڈیوز وئرل ہوئیں  تو امریکی  عوام یہ منظر   برداشت نہ کر سکے ۔کچھ ہی وقت کے بعد سپر پاور  امریکا نے وہاں سے بھی اپنی فوجوں کی  واپسی  کا اعلان کردیا۔

  افغانستان کی ’امارت اسلامیہ ‘ کو تباہ کرنے کے لئے 11 ستمبر2001ء کاڈرامہ تراشہ گیا  تو     امریکا میں  چار طیارے اغوا ہوئے، جن میں سے   دو طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر   کی فلک  بوس  عمارت سے ٹکرائے  اور  ایک  پینٹاگان کے ایک حصے پر گرا  جبکہ  ایک طیارہ صحرا میں   تباہ کردیا گیا۔ امریکا نے اس کا الزام’ اسامہ بن لادن ‘پر عائد کیا، حالانکہ تفتیش و  تحقیق سے اسامہ کا اس میں ملوث ہونا ابھی تک  ثابت نہیں ہو سکا، بلکہ حقیقت  تو یہ ہے  کہ اسامہ کے پاس یہ صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ امریکا میں اتنی بڑی کار روائی کر ے ۔   محققین نے بہت سارے ایسے سوالات اٹھائے ہیں جو اشارہ کرتے ہیں کہ یہ کارروائی   امریکہ    کے کارندے کی  تھی ، لیکن امریکہ نے آگے بڑھ کر اس کا ذمہ دار ’اسامہ ‘کو قرار دے دیا اور  اس وقت  اسامہ      افغانستان میں تھا جہاں طالبان کی حکومت تھی۔

جب امریکا نے  طالبان سے اسامہ کی گرفتاری اور امریکہ کے حوالے کرنےکا مطالبہ کیا  تو طالبان نے اسامہ کے خلاف ثبوت مہیا کرنے کی بات کی  تا کہ امارت اسلامیہ کی عدالتیں اسامہ  کے مجرم ہونے کا فیصلہ کر سکیں ۔ 

چنانچہ امریکا  نےاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے   مسلمانوں کی نام نہاد  دہشت گردی کے خاتمے کے ایجنڈے پر دنیا کو جمع کرلیا ، اور اسلامی ممالک کے لئے  اعلان کردیا کہ اس مہم میں جو ہمارا ساتھ نہیں دے گا وہ ہمارا دشمن  ہو گا ۔ ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘  والی ضرب المثل مشہور ہے ، لہذا  دنیا کے  44 ممالک نے امریکا کا ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر کردی ۔ 7؍  اکتوبر 2001ء کو امریکی صدر جارج بش کے عالمی اتحاد نے   افغانسنان کی باضابطہ حکومت کے خلاف ’اعلان جنگ‘ کردیا کہ ’ افغانستان میں دہشت گردوں کے اڈوں اور طالبان کی  حکومت  کو کچلنا ہے ‘۔ 44 ممالک کی فوجیں امریکی جلوے میں تھیں  اور عالم کفر  کی خفیہ  ایجنسیاں کتوں کی طرح ایک ایک دروازہ سونگ رہی تھیں ،جس پر ذرا بھی شک پڑتا ،اسے اٹھا کر ’گوانتاموبے جیل‘ میں ڈال دیا جاتا ۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں اٹھائے گئے لوگوں کے بنیادی حقوق اس طرح  معطل کردیئے گئے کہ دنیا کی کوئی عدالت  بھی ان کی درخواست  تک نہیں سن سکتی تھی۔

 اس طرح پوری دنیا کی حکومتیں ، فوجیں اور ایجنسیاں امریکا کے ہم رکاب ہو گئیں ۔سب مل کر   ایک  چھوٹے سے ملک اور کمزور  حکومت پر امڈ پڑے ، جو ساتھ تھا وہ تو ساتھ تھا  ہی  لیکن  جو ساتھ نہیں تھا اس میں بھی اس اقدام کو غلط کہنےکی جرأت نہ تھی  ، دہشت کا یہ عالم تھا کہ محسوس ہورہا تھا کہ ان کے ر ستے میں آنے والی ہر چیز کچل دی جائے گی ، لیکن اللہ پر اعتماد کرنے والے ماحول سے  متأثر ہوئے بغیر   دور رس نگاہ رکھنے والے اس وقت بھی کہہ رہے تھے کہ بالآخر امریکا ہزیمت اٹھائے گا  اور   انجام افغانوں کے حق میں ہو گا ۔

اس وقت تو  طالبان   پسپا ہوگئے ،لیکن وقت گزرنے  کے ساتھ ساتھ  انہوں نے خود کو پھر سےمنظم کیا اور غیر ملکی افواج کے خلاف چھاپہ   مار کارروائیاں شروع کردیں ۔ اس عرصے میں دوسرے ممالک بھی ’ آتش نمرود‘ میں اپنے حصے کا ایندھن ڈالتے رہے  ۔

حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر 20 مارچ 2003 ءکو عراق پر بھی  چڑھائی کردی ۔ صدام کو گرفتار کیااور تین سال کے بعد اسے عید کے دن پھانسی دے دی گئی تا کہ  عراق شیعہ کمیونٹی کے حوالے کیا جا سکے  ۔

2011ء میں  فرانس، برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور یورپ کے دوسرے طفیلی ملکوں نے مل کر’  عومی  جمہوریہ لیبیا‘   پر فضائی حملے شروع کر دیے ۔ اطلاعات کے مطابق قذافی حکومت کے خلاف جن گروہوں نے بغاوت شروع کی تھی ان گروہوں میں سابق شاہ ادریس کے کچھ قبائلی اور’ القاعدہ‘ کے نام پر امریکی لڑاکا شامل تھےجن کی سربراہی کرنے والا  امریکی ’’سی آئی اے‘‘ کا کارندہ تھا ۔

 عراق کے’ صدام‘ اور لیبیا کے’ قذافی ‘کی گرفتاری نے  جونئر بش کو  صدارت کی دوسری مدت کا الیکشن جیتنے کا موقع مہیا کیا  ، لیکن مجاہدین کی استقامت نے سپر پاور کو تھکادیا  تو اس کے  اتحادی آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑنے لگے ۔ اقوام متحدہ نے  اپنے فوجی واپس بلا لیے  اور   امریکا  کے اندر ان جنگوں کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اگلا الیکشن ’ بارک حسین اوبامہ‘ نے جنگوں کوختم کرنے کے نعرہ پر جیتا ۔ عراق اور لیبیاسے تو  فوجیں واپس بلالی گئیں ،لیکن افغان مجاہدین نے امریکا  کو  افغانستان سے  اپنی فوجیں نکالنے کا موقع نہ دیا ۔ان کا زور توڑنے کے لیے امریکی صدر براک اوباما نے  2009ء میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ کردی، لیکن وہ بھی افغان مجاہدین کو سرنگوں نہ کرسکے ۔

 اسی دوران امریکی ایجنسیوں  نے ایبٹ آباد میں’ اسامہ بن لادن‘ پر   حملہ کرکے اسے اگلے جہاں پہنچا دیا  ، جس سے’اوباما ‘کو اگلا الیکشن  جیتنے میں آسانی ہوگئی  ۔

رونالڈ ٹرمپ  نےبھی جنگیں ختم کرنے کے  نام پر الیکشن لڑا اور کامیاب ہوگیا ۔ اس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا ،   بعض وجوہات کے سبب ان میں تعطل بھی آتا رہا ، بالآخر  29 فروری 2020 ء  کو   باہمی معاہدہ پر  دستخط کر کے امریکا کی جان چھوڑائی تو  امریکی افواج کا انخلاء ’جوبائڈن ‘کے عہد میں ہوا   ۔

افغان جنگ میں امریکی فوج کو  2300 جانوں کا نقصان ہواجبکہ  ساڑھے بیس ہزار فوجی زخمی ہوئے، باقی

(  N ATOوغیرہ  )کے 1200 فوجی ہلاک ہوئے ۔

افغانستان میں اقوام متحدہ  کے معاونتی مشن کے مطابق   2009 ءسے  جب منظم طریقے سے شہریوں کی  ہلاکتوں اور زخمیوں کے اعداد و شمار   ہوئے تو اب تک 32000 سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے  تھے اور زخمیوں کی تعداد 60 ہزار تھی، جبکہ  جنوری 2019 میں افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ   2014 ءسے اب تک 45 ہزار افغان سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

براؤن یونیورسٹی میں قائم واٹسن انسٹی ٹیوٹ کے تخمینے کے مطابق طالبان کے 42 ہزار جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔امریکی وزارت دفاع کے مطابق افغانستان میں اکتوبر  2001  ءسے مارچ  2019 ءتک فوجی اخراجات 760 ارب ڈالر  ہوئے،جنگ کے اختتام پر چوتھے  امریکی صدر جوبائڈن نے کہا   کہ افغان جنگ پر روزانہ 20 کروڑ ڈالر خرچہ ہوتا رہا ہے ۔

افغان مجاہدین  طویل ترین جد وجہد کے بعد ایک صدی میں تیسری سپر پاور کو شکستِ فاش دینے میں کامیاب ہوئے  ،  اس طرح   افغانستان نے تین سپر پاورز (برطانیہ ، روس اور امریکا ) کو  شکست دے  کر( سپرپاورز کا

قبرستان) بنانے  کا اپنا   ٹائٹل  برقرار رکھا ۔

 1990  ء میں  دریا ’’آمو‘‘ پار کرتے ہوئے روس کے آخری ٹینک کی تصویر کھینچنے والے تقریباً تیس سال بعد 30  ؍اگست 2021ء کو امریکا کے آخری فوجی  اور آخری جہاز کی افغانستان سے نکلنے کی تصویر دنیا کو بھیج رہے تھے ۔

ع                             بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

اب امریکا  سمیت   پوری دنیا کے دفاعی تجزیہ کار تبصرے کریں   اور پی ایچ ڈی اسکالرز   اپنی تحقیقات کا نچوڑ پیش کریں کہ  دنیا کی جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی افغان مجاہدین کے سامنے کیونکر فیل ہوگئی ؟

افغان باقی‘ کہسار باقی                  الحکم اللہ‘ الملک اللہ

یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ طالبان نے واضح طور پر عاشورہ محرم کے موقع پر ’امارت اسلامیہ‘ کا  اعلان کیا  تو شهرالله المحرم  کی روشنی میں محرم کے  آخری دن عبوری حکومت کا اعلان بھی کر دیا گیا ۔ الحادی اور لبرل  دنیا میدان حرب و ضرب میں شکست فاش کھانے کے بعد اب ان مساعی کو برو ہےکار لا رہی ہیں   کہ کم ازکم امارت اسلامیہ کو’ جمہوریت ‘کے بجائے ’شریعت ‘نافذ کرنے سے روکا جا سکے ۔  [پاکستانی پریس اور الیکڑانک  میڈیا بشمول روزنامہ نوائے وقت  21؍ اگست 2021ء]حالانکہ 29  فرروی0  202  ء کو دوحہ (قطر) میں فریقین(امریکا اور افغان طالبان) کے درمیان جس  امن معاہدہ پر دستخط کیے گئے ہیں ، اس  کے  عنوان میں ہی  USA اور ’’امارت اسلامیہ‘‘   کا نام موجود ہے جبکہ    دو سالہ  ٹیبل ٹاک میں امریکانے   انہی طالبان کو برابر کی قوت تسلیم کر کے علی  الاعلان  معاہدہ کیا   ۔

29  فرروی0  202  ء    کے معاہدے میں  واضح طور پر   افغانستان میں  طالبان کی ’ امارت اسلامیہ‘ کا ذکر موجود ہے ،اسی لئے طالبان نے اب    افغانستان کا نام ہی ’’ جمہوری  ریاست  افغانستان ‘‘کی بجائے ’’امارت اسلامیہ ‘‘ کا اعلان کیا ہے۔  بعض واقفان حال کے بقول یہ دو لفظ ختم کرانے کےلیے امریکا نے  بڑا زور لگایا  تھا  کہ افغانستان میں    طرز حکومت   لادین جمہوریت  ہو تا کہ جمہوریت  اور  لادینیت  کی بجائے    شریعت کا نفاذ نہ ہو     لیکن  طالبان نے   یہ دونوں مطالبے  مسترد کر دیے کیونکہ انہوں نے  افغانستان کی آزادی    مخالفین کی تمام  ترسازشوں اور قوتوں کے باوجود’   جہاد  ‘ سے  حاصل کی ہے جبکہ کسی بھی ریاست یا حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ عالم کفر کے خوف سے اسلامی حکومتیں بھی ابھی تک افغانستان  کی نئی حکومت   کو ماننے کے لئے انتظار  كر رہی  ہیں۔ (محدث)