طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ امن اور افکار معاصرین اصل متن (اردو ترجمہ) اس کا تجریہ اور تبصرہ

         تین سپر پاورز (برطانیہ،روس ، امریکہ ) کے بالمقابل افغانستان کی حیثیت ’لڑا دے ممولے کو شہباز سے‘ والی ہے، لیکن اب یہ حقیقت بن چکی ہے اس کا تجزیہ اورتبصرے بھی ایک تاریخ بنے گی جو ’’لله الا مر من قبل ومن بعد‘‘کی تصدیق کرتی رہے گی ۔ چونکہ یہ امن معاہدہ دو    چار سالہ مذاکرات کے نتیجہ کے طور پر معرض وجود میں آیا ہے اور اس کے مستند متن کے لئے پشتو، دری اور انگریزی ہی قانونی حیثیت رکھتی ہے لیکن ہماری قومی زبان اردو ہے اس لئے ہم اس کی ترجمانی اردو زبان میں پیش کر رہے ہیں جبکہ اس مقالے سے متصل بعد انگریزی متن بھی ہدیہ قارئین ہے (محدث)

        طالبان ( امارت اسلامی افغانستان) اور امریکہ کے مابین ہونے والا امن معاہدہ 29 فروری 2020ء ان چار شقوں پر مبنی ہے۔  

  • امن معاہدہ اس بات کا ضامن ہے کہ افغان سرزمین کو امریکہ یا اس کے اتحادیوں کی سکیورٹی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ (کسی فرد یا گروپ کی جانب سے افغان سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی)۔
  • معاہدہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا ایک خاص وقت کے اندر یقینی بنایا جائے گا۔
  • عالمی گواہوں کی موجودگی میں مکمل انخلاکی ضمانت دیے جانے کے بعد یہ یقینی بنایا جائے گا کہ افغان سرزمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ امارت اسلامی کو امریکہ نے بطور ریاست تسلیم نہیں کیا اور انہیں طالبان کے نام سے پہچانا جاتا ہے اس لیے طالبان یقینی بنائیں گے کہ 10مارچ2020سے انٹراافغان مذاکرات شروع کریں۔
  • انٹرا افغان مذاکرات کے ایجنڈے کی ایک دفعہ مستقل سیز فائر ہوگی اور اس کے شراکت دار اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مستقل سیز فائر پر بات چیت کر کے اس پر مشترکہ طور پر عملدرآمد کریں اور افغانستان کے مستقبل کا سیاسی روڈ میپ تیار کریں۔ دستاویز میں واضح کیا گیا ہے کہ معاہدے میں مذکور چاروں شقیں ایک دوسرے سے باہم جڑی ہوئی ہیں، جن پر ایک مخصوص عرصے میں مشترکہ شرائط پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا، پہلی دو شقوں پر عملدرآمد سے آخری دوشقوں کا رستہ نکلے گا۔

معاہدہ حصہ اول

         امریکہ پر عزم ہے کہ افغانستان سے اپنی اور اپنے اتحادیوں کی ساری فوج کو نکالے گا، امریکہ اس بات کا بھی پابند ہے کہ وہ افغانستان سے تمام غیر سفارتی سویلینز، پرائیویٹ سکیورٹی کنٹریکٹرز، ٹرینرز، مشیر اور سپورٹنگ سروس کے لوگوں کو معاہدے کے اعلان کے بعد 14 ماہ میں نکالے گا، اور اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے گا۔

A: امریکہ اور اس کے اتحادی پہلے 135 دنوں میں مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائیں گے۔

1۔         وہ امریکی فوجیوں کی افغانستان میں تعداد کم کر کے 8600 کر دیں گے اور اتحادیوں اور نیٹو فورسز کی تعداد میں بھی مرحلہ وارکمی کریں گے۔

 2۔امریکہ ، اس کے اتحادی اور نیٹو پانچ فوجی چھاؤنیاں مکمل طور پر خالی کر دیں گے۔

B: معاہدے کے دوسرے حصے میں امارت اسلامی افغانستان جنہیں طالبان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امریکہ، اتحادی افواج اور نیٹو فورسز مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائیں گے۔

1۔ امریکہ ، اس کے اتحادی اور نیٹو فورسز باقی کے ساڑھے نو ماہ کے دوران اپنی ساری افواج افغانستان سے نکال لیں گے۔

2۔ امریکہ ، اسکے اتحادی اور نیٹو فورسز باقی بچ جانے والی فوجی چھاؤنیوں سے اپنے تمام فوجی نکال لیں  گے۔

C :  امریکہ باہمی اعتماد کی فضا قائم کرنے کیلئے جنگجو اور سیاسی قیدیوں کو تمام فریقوں کی رضامندی سے فوری طور پر رہا کروائے گا۔ 10 مارچ 2020 کو انٹر اافغان مذاکرات کے پہلے دن طالبان کے 5 ہزار سے زائد اور دوسری جانب کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا، فریقین نے تین ماہ کی مدت میں تمام قیدیوں کی رہائی پر رضامندی ظاہر کی ہے ، رہائی پانے والے طالبان بھی اس معاہدے کے پابند ہوں گےیعنی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

D :  جب انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہو گا تو امریکہ، طالبان رہنماؤں پر حالیہ پابندیوں اور ارکان امارات اسلامیہ کے خلاف عائد الزامات کا جائزہ لے کر 27 اگست 2020ء تک یقینی بنائے گا کہ ایسی کارروائیوں کو ختم کر دیا جائے۔

E : انٹرا افغان مذاکرات شروع ہونے پر امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک سے سفارتی روابط قائم کرے گا اور 29 مئی 2020 تک یہ یقینی بنائے گا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے۔

F  :  امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی علاقائی سلامتی اور سیاسی آزادی کے لیے خطرہ نہیں بنے گا اور اس پر کوئی حملہ نہیں کرے گا اور نہ ہی افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرے گا۔

امن معاہدہ حصہ دوم       

       امن معاہدے کے اعلان کے ساتھ ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ جسے متحدہ ریاست ہائے امریکہ نے بحیثیت ریاست تسلیم نہیں کیا اور وہ طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کیلئے خطرہ بننےوالے القاعدہ اور دیگر گروہوں کو روکنے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائیں گے۔

1     طالبان اپنے کسی رکن، کسی دوسرے شخص یا گروپ کو جس میں القاعدہ بھی شامل ہے افغانستان کی سرزمین امر یکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

2               طالبان ان تمام گروپوں کو جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بنیں انہیں واضح

پیغام دیں گے کہ ان کیلئے افغانستان میں کوئی جگہ نہیں ہے ، طالبان اپنے ارکان کو اس بات کی ہدایت کریں گے کہ وہ کسی بھی ایسے گروپ یا شخص کے ساتھ تعاون نہ کریں جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کیلئے خطرہ بنیں۔

3             طالبان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے خطرہ بننے والے تمام گروپوں یا شخصیات کو نہ توٹریننگ دیں

گے ، نہ ہی انہیں چندہ جمع کرنے دیں گے اور نہ ہی ایسے لوگوں کو بھرتی کریں گے اور نہ ہی معاہدے میں طے پائی شرائط کے مطابق ان کی میزبانی کریں گے۔

4         طالبان ان لوگوںکو جو افغانستان میں سیاسی پناہ چاہتے ہیں عالمی قوانین مہاجرت کے تحت دیکھیں گے اور ایسے لوگوں کو پناہ نہیں دیں گے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے خطرہ بنیں۔

5         طالبان ان لوگوں جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کیلئے خطرہ بنیں کو پاسپورٹ ، ویزہ ، سفری اجازت نامے یا دیگر قانونی کاغذات فراہم نہیں کریں گے۔

امن معاہدہ حصہ سوئم 

1               امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے درخواست کرےگا کہ وہ اس معاہدے کی تائید کرے۔

2        امریکہ اور طالبان انٹرا افغان مذاکرات کے بعد بننے والی اسلامی حکومت کے درمیان بہتر تعلقات قائم کریں گے۔

3         انٹر ا افغان مذاکرات کے بعد بننے والی نئی حکومت کے ساتھ مل کر امریکہ افغانستان کی تعمیر نَو میں مالی تعاون کرے گا اور اس دوران افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔

یہ معاہدرہ 29 فروری 2020، بمطابق 5 رجب المرجب 1441 ہجری کو ووحہ قطر میں سائن کیا گیا ہے، اس کو پشتو، دری اور انگلش زبان میں لکھا گیا ہے اور تمام زبانوں میں لکھی گئی تحریریں ایک جیسی مستند ہیں[1]۔

نوٹ:  چونکہ بعض حضرات سیکولر قوّتوں سے مرعوب ہونے کی بناء پر اس مغالطہ میں ہیں کہ معاہدہ ہذا میں ’انسانی حقوق ‘ اور ’ خواتین کے تحفظ ‘ کی ایسی ضمانت دی گئی ہے  جو ’ لادین قوتوں ‘ کی تعبیر اور نعرہ بازی کی مؤید ہے ، لہذا یہاں روزنامہ ’جنگ ‘کے اینکر جناب انصار عباسی کی ایک خبرمع تبصرہ (19 ؍اگست 2021ء)ملاحظہ ہو:

اسلام آباد (انصار عباسی) طالبان اور امریکا کے درمیان فروری 2020ء میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے معاہدے میں امریکا پہلے ہی اتفاق کر چکا ہے کہ افغانستان میں اسلامی حکومت ہوگی جس کے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مثبت تعلقات ہوں گے۔

اسی معاہدے کے تحت، امریکا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ کھل کر جو پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اس کے برعکس، معاہدے میں مستقبل کے افغانستان میں حقوق انسانی کی کوئی بات تھی اور نہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے کوئی ذکر۔

تاہم، معاہدے کے تحت طالبان اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی شخص یا گروپ کو افغانستان کی سرزمین                          ا مریکا اور اس کے اتحادیوں کیخلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔

امریکا نے بھی اتفاق کیا تھا کہ وہ اور اس کے اتحادی افغانستان کیلئے خطرہ بننے سے گریز کریں گے اور اس کی علاقائی ساکھ یا اس کی سیاسی آزادی کیخلاف طاقت استعمال کریں گے اور نہ ہی اس کے داخلی امُور میں مداخلت کریں گے۔

اگر دونوں فریق دوحہ معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر قائم رہے، جو اب تک نظر بھی آ رہا ہے، تو امریکا نہ صرف افغانستان کی اسلامی حکومت کو تسلیم کرے گا بلکہ افغانستان کی تعمیر نو میں اس کی مدد بھی کرے گا۔ معاہدے کو طالبان کی فتح اور امریکا کی شکست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ معاہدے کے حصہ اول میں امریکا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنی افواج نکال لے گا ۔

دوسرا حصہ طالبان کے وعدوں کے متعلق ہے کہ افراد، گروپس بشمول القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین امریکا یا اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

تیسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور طالبان مثبت تعلقات قائم کریں گے اور توقع ظاہر کی گئی ہے کہ دونوں کے درمیان تعلقات کا تعین انٹرا افغان ڈائیلاگ کے تناظر میں قائم کیے جائیں گے جو مثبت ہوں گے۔ اسی حصے میں کہا گیا ہے کہ امریکا افغانستان کی اسلامی حکومت کے قیام کے بعد تعمیر نو میں تعاون کرے گا اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔

کابل حکومت کے اچانک تحلیل ہو جانے اور افغان صدر اشرف غنی کے بھاگ جانے کے بعد طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا اور اب انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ سب کو ملا کر ساتھ چلیں گے اور حکومت بنائیں گے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ طالبان کے علاوہ اور کون سے سیاسی گروپس نئی حکومت کا حصہ ہوں گے؟ لیکن طالبان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ نئی حکومت اسلامی ہوگی۔

ممکن ہے کہ کئی لوگ یہ چاہتے ہوں گے کہ نئی حکومت سیکولر خیالات کی پاسداری کرے اور انسانی اور حقوق نسواں کیلئے مغربی معیارات پر عمل کرے لیکن امریکا نے دوحہ معاہدے میں پہلے ہی اسلامی حکومت کے قیام پر اتفاق کر لیا ہے اور اس معاہدے میں کہیں بھی انسانی حقوق یا پھر حقوق نسواں کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کی بجائے، امریکا              پُر     عزم ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔

 معاہدہ 29 فروری 2020کا تجزیہ اورتبصرہ

مذکورہ بالا معاہدہ پر عملداری شروع ہوچکی ہے اور فریقین جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں اس کا برابر جائزہ بھی لیا جارہا ہے تاہم اسلام دشمن قوتیں اس انتظار میں ہیں کہ افغانستان کے اندر کوئی ایسی پھوٹ پڑ جائے جس کے بہانے بیرونی مداخلت کا موقع میسر آئے۔ ہماری نظر میں فتنہ کے دو پہلو زیادہ اہم ہیں:

1۔           نام نہاد عالمی اتحاد کو مسلمانوں میں سیاسی ولسانی و غیرہ کی   صورت تقسیم کر کے وہی’’ تورا بورا ‘‘جیسی تباہی کا ’’بہانہ‘‘پھر دے دیا جائے۔

2۔            اُن میں فرقہ ورانہ تقسیم کاہتھکنڈا  استعمال کر کے عالمی اتحاد کو اسی طرح نہ مذہبی جنگ بنادیا جائے جس طرح صلیبی جنگی ہتھیار مقدس جنگ کے نام سے استعمال کیا گیا۔

مسئلہ: چونکہ اس معاہدے میں طالبان کا نام امارت اسلامیہ آیا ہے اس لئے’ امارت اسلامیہ‘ اور اس کے بالمقابل اسلامی جمہوریہ/ دولت اسلامیہ (Islamic State ) و غیر ہ کا بنیادی مفہوم اور مختصر تجزیہ ضروری ہے کیونکہ طالبان کی اسلامی تحریک اور حکومت کے بالمقابل کئی اسلامی تحریکوں یا حکومتوں نے ’اسلامی جمہوریہ‘ اور  ’دولت اسلامیہ‘ نام  بھی رکھے ہوئے  ہیں،  لہذا   ان ناموں کی شرعی اور قانونی حیثیت واضح ہو نی چاہیے۔

جواب:   (1) اسلامیہ کا معنی اور مفہوم تو معروف ہے، البتہ امارۃ کے لفظ کا گہر ا مفہوم عام دانشوروں سے مخفی ہے   اگرچہ  سنت و حدیث اور سیرت پر مبنی کتابوں میں بے شمار دفعہ  ’امارۃ ‘ کا ذکر ہوا ہے اور اسے پہلی دفعہ خلیفہ کا لفظ چھوڑ کر سیدنا عمر بن خطابؓ  نے ’امیر المومنین ‘ کا لقب اختیار کیا  تھا ، آج کل شاہ مراکش ’امیر المومنین‘ کہلاتا ہے ، سعودی عرب کے تمام شہزادے ولی عہد سمیت’ امیر ‘ کہلاتے ہیں، کویت کا حاکم بھی ’امیر کویت ‘ کہلاتا ہے ، جبکہ UAEکا ترجمہ بھی متحدہ عرب امارات ہے۔ کئی اسلامی ملکوں نے اسلامی جمہوریہ  کے ساتھ ریاست کا لقب اپنایا ہوا ہے مثلا پاکستان اور لیبیا جمہوریت اور کئی خلیجی ممالک State کہلاتے ہیں جیسے State Of Qatar یا          State Of Kuwaitو غیرہ ریاستیں کہلاتی ہیں۔ عراق سے اٹھنےوالے داعش دولت اسلامیہ (State Of Islam )   کا دعوی کرتے ہیں جبکہ  ان کا سربراہ’ امیر المومنین‘ کہلاتا ہے۔

        اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں سٹیٹ کے بجائے خلافت یا امارۃ و غیرہ کے الفاظ ہی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اگر اسی  پس منظر میں طالبان نے خلافت کی بجائے ’امارۃ اسلامیہ ‘  کا لفظ اختیار کیا ہے تو اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا۔

        معاہدے کے تیسرے حصے کی شق نمبر 2 میں کہا گیا ہے کہ ’ریاست ہائے متحدہ امریکا‘  اور ’امارت اسلامی افغانستان‘ آپس میں مثبت تعلقات قائم کریں گے اور چاہیں گے کہ ’ریاست ہائے متحدہ امریکا ‘اور ’امارت اسلامی افغانستان‘ باہم معاملات طے کرنے کے بعد بننے والی افغان اسلامی حکومت کے تعلقات اور بین الا قوامی مذاکرات کے نتائج مثبت ہوں۔

                 اسی حصے کی شق نمبر 3 میں تحریر ہے کہ ریاست ہائے متحدہ (امریکہ ) نئی افغان اسلامی حکومت جو بین الافغان مذاکرات اور تصفیہ کے بعد وجود میں آئے گی، اس کے ساتھ مالی تعاون جاری رکھے گا جبکہ اس کے اندرونی معاملات میں دخل انداز نہیں ہو گا۔

 شق نمبر 4: کیا قدیم طالبان سخت آزمائشوں اور قربانیوں کے بعد بدل چکے ہیں؟ یہ اُن کے لیے سب سے بڑاچیلنج ہے، کیونکہ افغانی مزاج آ ر یا پار والا ہے اور فرقہ وارانہ اختلاف جب ابھرے گا تو ماضی کی طرح   تشدّد  اور ’مخاصمت‘ کا رنگ اختیار کرے گا جو قتل و غارت پر منتج ہوگا ۔ الأمان والحفيظ

       اس معاہدے پر مرحلہ وار عمل درآمد کی صورت میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو چکی ہے، اس تمام منظر نامے کو ہمارے دانش ور کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اس پر کیا تبصرہ کرتے ہیں؟ ایک نظر اس پر بھی ڈالیں ، جو درج ذیل ہیں :۔

طالبان اور معاصر آرا    ...محتاط طالبان

       افغانستان کی منظم تحریک طالبان نے جو کامیابی حاصل کی ہے اس پر بجا طور پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔افغان عوام نے اب کی بار نیٹو فوج کو شکست دی ہے اور اس سے قبل دنیا کی بڑی عالمی طاقت روس کو شکست دی تھی اور اس سے بھی پہلے انہوں نے انگریز استعمار کو شکست سے دوچار کیا تھا اور پھر جو فوج وہاں داخل ہوئی تھی ان میں سے صرف ایک فوجی، جو ڈاکٹر تھا اسے بھی زندہ اس لیے چھوڑا تھا کہ وہ دنیا کو انگریز فوج کے بارے میں بتا سکے کہ ان کے لیے افغانستان قبرستان بن گیا ہے۔ افغان عوام کی یہ طاقت اُس کی اسلام کے ساتھ محبت کی وجہ سے ہے۔ اللہ پر ایمان،رسول اللہﷺ کے ساتھ محبت،قرآن کریم کے ساتھ تعلق اور آزادی سے محبت کی بنیاد پر وہ ناقابل تسخیر قوم بن گئی ہے۔صحیح بات تو یہ ہے کہ طالبان تو محض چند ہزار ہیں ،ان کے جنگجو لاکھوں میں بھی نہیں ہیں،لیکن افغان عوام میں ان کی پذیرائی موجود تھی اور ہے ۔جمہور کی طرف سے بھرپور تعاون کے نتیجے میں ان کو یہ کامیابی ملی ہے اور اس بار تو کسی کے پاس کہنے کو یہ عذر بھی نہیں ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں کسی اور طاقت نے ان کو سپورٹ کیا۔اب کی بار تو ساری کامیابی کی شمع کو جلانے کے لیے انہوں اپنا خون پیش کیا ہے۔

       دنیا بھی اس وقت حیران ہے کہ سب سے بڑی جنگی قوتیں کس طرح شکست سے دوچار ہوگئی ہیں،لیکن ظاہر ہے ایک طرف نظریہ اور شوقِ شہادت تھا اور دوسری جانب اسلحہ اور بارود کی آگ اور لوہے کی بارش تھی، تو نظریہ نے لوہے اور بارود کی آگ کو شکست دی ہے، اور جس طرح ابراہیم ﷤ کے لیے آگ گلستان بنی تھی، اسی طرح لاکھوں ٹن بارود،یعنی’ جنگ عظیم دوم ‘سے زیادہ بارود یہاں استعمال کیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر وہی منظر دکھایا کہ ’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق‘ تو پھر آگ بھی گلستان بن گئی ہے۔

       گزشتہ بار جب طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا اور ایک عبوری حکومت قائم کی تھی تو اس وقت وہ مسلسل حالت جنگ میں تھے ۔ انہوں نے دنیا کو نہیں دیکھا تھا،ان کا اس حوالے سے کوئی تجربہ بھی نہیں تھا۔دنیا کی دو سری تحریکوں کے ساتھ ان کا کوئی تعلق بھی نہیں تھا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے خاص مزاج اور مقامی ثقافت کو وہاں لانے کی کوشش کی لیکن اب کی بار وہ خود کہتے ہیں کہ ہم بدل گئے ہیں۔ ہمارا رویہّ وہ نہیں ہے،ہماری سوچ وہ نہیں ہے  اور ہم ماضی کی غلطیوں کو بھی نہیں دہرائیں گے۔ظاہر ہے وہ ’قندھار‘ سے روانہ ہوئے اور چلتے چلتے ’کابل ‘ تک پہنچ گئے اور ان کو ایک آزاد ماحول میں فیصلے کرنے کا وقت بھی نہیں ملا۔ آپ نے دیکھا کہ اس پورے عرصہ میں’ ملا محمد عمر ‘سامنے بھی کبھی نہیں آئے تھے اور نہ ہی کابل میں حکمران کی حیثیت سے بیٹھے تھے۔ایک گوریلا وار کے نتیجے میں سب کچھ ہوا لیکن اب کی بار طالبان کا رویہ بہت محتاط ہے۔ اس میں بہت کشادگی ہے،وسعت قلبی اوروسعت ِ نظر ہے اور اچھا ہوگا کہ اگر وہ اسی تسلسل کو جاری بھی رکھ سکیں۔ساری دنیا کو اب تک انہوں نے ’حیران ‘کیا ہے کہ کس طرح جنگ میں پکڑے ہوئے لوگوں کو انہوں نے عزت دی: لوگوں کو نہ صرف معاف کیا بلکہ انہیں عزت کے ساتھ پیشکش کی کہ آپ بدستور ہمارے ساتھ رہیں اور اپنے ملک و ملت کی خدمت کریں۔انہوں نے دنیا بھر کے افغان عوام سے اپیل کی کہ واپس آکر اپنے ملک کی خدمت کریں۔خواتین کے بارے میں جو ان کا نظریہ تھا،اس کو واضح کیا ہے کہ ان کے تعلیمی ادارے کھلیں گے اور شریعت کی حدود کے اندر وہ ہر وہ کام کرسکتی ہیں جن کی وہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ اب کی بارطالبان کا مزاج بہت زیادہ مثبت ہے اور پوری دنیا کو انہوں نے یہی پیغام دیا ہے کہ ہم دنیا کو ساتھ چلا سکتے ہیں،ہم قیادت کرسکتے ہیں،ہم اختلافی نکتہ نظر کو برداشت کرسکتے ہیں۔یہ بہت ہی مثبت اقدام ہیں جن کو سراہا جانا چاہیے۔

سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان ( بشکریہ جسارت سنڈے میگزین کراچی)

ایک نیا افغانستان

       پورا ملک طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے، طالبان اور چین بھی ایک پیج پر ہیں،ایران نے بھی طالبان کے ساتھ صلح کرلی، افغانستان کے تمام’ اہل تشیع ‘نے طالبان کی حمایت کا اعلان کیا۔ ایران کےلئے اس سے بڑی فتح کیا ہوسکتی ہے کہ اب اس کی مشرقی سرحدیں مکمل طور پر محفوظ ہیں! پاکستان نے مہینوں پہلے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی تھی اور افغانستان کے اندرونی معاملات سے بالکل دور رہا۔ اس طرح طالبان اور پاکستان کے درمیان کوئی تنازعہ پیدانہیں ہوا۔

       اس وقت امریکہ بھارت سے ناراض ہے کہ اس نے افغانستان کے معاملے میں اسے غلط گائیڈ کیا ہے۔ بھارت سے اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ وہ امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت کوتحفظ فراہم کر سکے۔ بھارت نے تو الٹا وہاں اپنے تمام قونصل خانے بند کر دیے ہیں ،اس نے اپنی اربوں ڈالر انوسٹمنٹ ضائع ہونے دی ہے کیونکہ وہ امریکہ کا انجام دیکھ چکا ہے۔

       امریکہ نے اپنے سفارت خانے کو دودن پہلے تمام اہم کاغذات جلادینے کا حکم جاری کردیا تھا، یعنی اسے اندازہ ہوچکا تھاکہ افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہونے والی ہے۔امریکہ کےلئے سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ طالبان نے بغیر کسی لڑائی کے کابل پر قبضہ کرلیا یعنی’ اہل ِ کابل‘ نے طالبان کو ’خوش آمدید‘       کہا ہے۔ طالبان نے بھی عام معافی کا اعلان کیا ہے۔امریکہ کا خیال تھا کہ تقریباً چھ ماہ لگ جائیں گے طالبان کو کابل میں داخل ہوتے ہوتے۔امکان یہی ہے کہ چند دنوں میں امریکہ خود طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلے گا کیونکہ یہ حکومت پہلے والے طالبان جیسی نہیں ہو گی، اب اس کا نظام ِ حکومت سعودی عرب کے قریب قریب ہوگا۔ جتنی آزادی خواتین کوسعودی عرب اور ایران میں ہے، افغانستان میں امکان ہے کہ اس سے زیادہ ہو گی۔ قطر جیسی صورتحال ہو گی۔ بین الاقوامی قوانین کا پورا پورا احترام کیا جائے گا۔

       طالبان نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کے کسی رکن نے اگر کہیں کوئی انتقامی کارروائی کی تو اس کے خلاف باقاعدہ تحقیقات ہونگی اور جرم ثابت ہونے پر اسے سزا دی جائے گی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ اب ان کی حکومت ماضی کی طرح شدت پسند نہیں ہو گی، اعتدال پسند پالیسیاں وضع کی جائیں گی۔ جن کیلئےفریم ورک تیار ہو رہا ہے جس کا سب سے پہلا اظہار اس حکم میں نظر آتا ہے کہ کوئی شخص کسی وقت بھی ملک سے باہر جا سکتا ہے اور کوئی بھی شخص کسی وقت بھی ملک میں آ سکتا ہے۔

منصور آفاق (صحافی و دانشور دنیا نیوز)

فتح مکہ کی یاد تازہ

       کابل میں طالبان کے پرامن داخلے، عام معافی اور امن کی ضمانت نے فتح مکہ کی یاد تازہ کی اور دنیا بھر کی ٹیکنالوجی سے لیس طاقتوں کو عملاً بتادیا کہ ایمان کی قوت کے آگے کوئی طاقت ٹھہر نہیں سکتی بشرطیکہ وہ ہر قربانی کے لئے تیار ہو، کاش ہم اور عالم اسلام اس معجزے سے سبق لے سکیں۔ کابل میں طالبان کے داخلے اور افغان صدارتی محل پر قبضے کے بعد افغانستان پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہو گیا ہے، جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے اپنے عہدے سے استعفی دینے کے بعد ہمسایہ ملک تاجکستان فرار ہونے میں ہی عافیت جانی ہے، پوری دنیا کے میڈیا کی نظریں اس وقت افغانستان پر مرکوز ہیں۔ (مفتی محمد تقی عثمانی)

سپر پاورز کا قبرستان

       امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بیس برس  پہلے اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی پاداش میں’ امارت اسلامیہ افغانستان‘ پر چڑھائی کی تھی  اور اپنی مرضی کی حکومت وہاں لا بٹھائی تھی۔ دنیا کی طویل ترین جنگ میں ہر طرح کا اسلحہ استعمال کیا گیا، ہزاروں ارب ڈالر جھونکے گئے،کٹھ پتلی حکومت کی فوج کھڑی کرنے کے لیے بھی دن رات جتن کیے گئے،لیکن دنیا نے یہ محیر العقول منظر دیکھا کہ سب سے بڑی سپرپاور کو بالآخر انہی کے ساتھ معاملہ کرنا پڑا،جن کو اس نے بزعم خود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقتدار سے نکال باہر کیا تھا۔صدر ’جارج بش ‘ نے جس ”جارحیت“ کا آغاز کیا تھا، صدر ’اوبامہ ‘اور ’ڈونلڈ ٹرمپ‘ سے ہوتے ہوئے وہ ’جوبائیڈن ‘کے سر پڑی  اور انہوں نے یہ بوجھ اتار پھینکا۔

       طالبان نے عام معافی کا اعلان کر کے نئی تاریخ رقم کر دی ہے،جن لوگوں کا خیال تھا کہ وہ خون کے دریا بہا دیں گے، وہ انگشت بدنداں ہیں۔فتح مکہ اور (صلاح الدین ایوبی کی) فتح فلسطین کے بعد مورخ کی آنکھ نے تیسری بار پرامن انقلاب کا نظارہ کیا ہے۔غالب آنے والوں نے اپنے مخالفین بندوقوں کی باڑ کے سامنے کھڑے کئے ہیں،نہ انہیں پھانسیوں پر لٹکایا ہے، نہ ’گلوٹین ‘کیا ہے، نہ ان پر  جیلوں کے دروازے کھولے ہیں۔ سب کا سب کیا دھرا بھلا دیا ہے، انہیں معاف کر دیا ہے، اور آگے بڑھنے کی دعوت دی ہے۔

                 شمالی اتحاد کے کئی رہنما یہاں آ کر اپنے نقطہ نظر کا اظہار بھی کر چکے ہیں،وہ پاکستان جیسا ماحول اپنے ملک میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں کہ جہاں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتیں آزادانہ کام کر رہی ہیں،کسی کو کسی سے ’جان کی امان‘ درکار نہیں ہے۔

       گزشتہ بیس سال کے دوران افغانستان کے جن عناصر نے حملہ آور فوجوں کا ساتھ دیا،ان کی سرپرستی میں حکومتی ڈھانچہ کھڑا کیا  اور ان کے ساتھ مل کر اپنے آپ کو دوام بخشنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، ان سب کے حصے میں ناکامی آئی ہے۔یہ درست ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام باقی رکھنے کے لیے تمام عناصر کو شراکت کا احساس دلانا چاہئے،ایسا دستوری نظام وضع ہونا چاہئے، جس میں سب اپنا اپنا کردار ادا کر سکیں۔

مجیب الرحمٰن شامی ( چیف ایڈیٹر روزنامہ پاکستان)

فتح، طالبان کے انکسار کی

       یہ آہستہ آہستہ...اشرف غنی حکومت کو وقت دیتے دیتے کابل کے قریب آتے گئے تا کہ جو جانا چاہتا ہے وہ آسانی سے چلا جائے۔ جب یہ کابل کے داخلی راستوں کے نزدیک آ گئے تو سجدے میں گرتے چلے گئے۔ آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑیوں نے داخلی راستوں کی زمین کو نم اور تر کیا۔  فاتح مکہ پیارے حضورﷺ کی امت کے افغان حصے پر سلام ہو کہ وہ سجدے کرتے ہوئے داخل ہوئے: پہلا اعلان یہ تھا کہ سب کو معاف کر دیا، فتح مکہ میں فاتح مکہ رحمت دو عالمﷺ کی سنت پر عمل کر دیا، وہ ایوانِ صدر میں داخل ہوئے تو وہاں رب کریم کے حبیبﷺ کی سنت پر یوں عمل ہوا کہ سورہ ’نصر ‘کی تلاوت ہوئی، حضورﷺ پر درود پڑھا گیا، یوں پیغام دیا گیا کہ فساد اور انتقام کا دور                                                       لَد گیا۔

       روسی دور کے پرانے مجاہد لیڈرز (اول ) روس کے خلاف لڑے اور آپس میں بھی لڑتے رہے ( دوم) روس کے نکلنے کے بعد وہ آپس میں لڑتے رہے(سوم) طالبان کے خلاف لڑتے رہے( چہارم) طالبان حکومت کے خاتمے پر وہ امریکہ کے ساتھ مل گئے اور طالبان مخالف کردار ادا کرتے رہے... آفرین ہے طالبان جیسے فاتحین پر کہ وہ ’فاتح ‘ہو کر بھی ’خاکسار ‘بن گئے،مہربان بن گئے،درگزر حوصلے اور برداشت کا شعار بن گئے، پہاڑوں والے کردار کے کوہسار بن گئے۔ اللہ کریم کے حضور دعا ہے کہ اے مولا کریم! ملت پاکستان اور ملت ا فغانستان کو آپس میں برادر بنا، امن اور خوشحالی عطا فرما؟(امیر حمزہ، کالمسٹ، روزنامہ دنیا)

طالبان حکومت سازی، حق بہ حقدار رسید

       طالبان سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ وسیع البنیاد حکومت بنائیں گے جس میں دیگر گروپوں کی مناسب نمائندگی ہوگی، لیکن طالبان کی سابق حکومت کی طرح اس بار بھی نوے فیصد سے زیادہ  وزرا ء  پشتون ہیں۔ یہ البتہ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان نے اپنے کیڈر اور مڈل، لوئر رینکس کو مطمئن کیا ہے۔ مختلف گروپوں کو اچھے انداز میں اکاموڈیٹ کیا گیا۔’ملا حسن اخوند‘ کو ’سربراہ حکومت‘ بنایا گیا ، وہ پرانے آدمی ہیں، ملا عمر کے قریبی ساتھی، مگر لوپروفائل رہنے کی وجہ سے خبروں سے دور تھے۔تاہم اپنی جدوجہد ، علم اور تقوے کی بنا پر ’ملا حسن اخوند‘  کی نامزدگی پر طالبان کی اندرونی دنیا میں کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ سراج حقانی کو وزیرداخلہ بنانا اور ملا یعقوب کو وزیردفاع بنانا اہم فیصلہ ہے۔پکیتا سے تعلق رکھنے والے سراج حقانی کو اہم وزارت ملی، سراج حقانی کے چار بھائی اس جنگ میں شہید ہوئے،انہیں وزیر داخلہ جیسی طاقتور سیٹ ملنا ان کی قربانیوں اور جدوجہد کا ثمر ہے۔ سراج حقانی کے چچا خلیل حقانی کو بھی وزیر بنایا گیا ہے۔ ملا برادر کو نائب وزیراعظم بنایا گیا ہے۔ ایک لحاظ سے ان کے سائز کو کچھ کم کیا گیا۔پہلے ملا برادرہی افغان وزیراعظم سمجھے جا رہے تھے، ان پرمگر ملا حسن اخوند کو ترجیح دی گئی۔ ملا برادر کے ساتھ ایک اور نائب وزیراعظم بھی بنایا گیا، ایک لحاظ سے یہ اس عہدے کی قوت میں مزید کمی کا اشارہ ہے۔ یہ منصب ملا عبدالسلام حنفی کو ملا ہے جو کہ نسلا ً ’اُزبک‘ اور طالبان تحریک کے پرانے ساتھی ہیں، ان کا تعلق شمال کے صوبے ’جوزجان‘ سے ہے۔ ملا عبدالحکیم حقانی کو اب وزارت قانون دی گئی ہے۔ وزارت خارجہ کے لئے ’شیر عباس ستانک زئی‘ کو کنفرم امیدوار سمجھا جا رہا تھا، وہ اچھی انگریزی بول لیتے ہیں اور عالمی سطح پر اچھا خاصا’ ایکسپوژر ‘رکھتے ہیں۔ انہیں بھی توقع سے کم عہدہ ملا۔وزارت خارجہ کی ذمہ داری ملا امیر محمد متقی کو دی گئی : امیر متقی صاحب نرم خو آدمی ہیں، طالبان تحریک کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ہیں، ملا عمر کی حکومت میں وہ وزیر اطلاعات رہے تھے، مذاکراتی کمیٹی میں بھی یہ رہے ہیں۔ دیگر اہم وزارتوں میں ’ملا خیر اللہ خیر خواہ‘ کو اطلاعات کا وزیر بنایا گیا: یہ بھی پرانے طالبان رہنماہیں اور انہوں نے کئی سال تک ’گوانتاناموبے‘ میں جیل کاٹی، سابق طالبان دور میں یہ وزیر داخلہ بھی رہے ۔ ملا ہدایت اللہ بدری کو وزارت خزانہ دی گئی : ان کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ سابق طالبان دور میں زکواۃ جمع کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے ۔ طالبان کی نئی حکومت میں دو اہم چیزیں نظر آئیں: پرانے، تجربہ کار اور قربانیاں دینے والوں کو ترجیح دی گئی ہے، محاذ جنگ میں وقت گزارنے اور’ گوانتا ناموبے‘ میں قید وبند کی سختیاں سہنے والوں کو افغانستان سے باہر وقت گزارنے والوں پر فوقیت دی گئی۔ طالبان کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا کہ ’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘آگے آگے وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر طویل جدوجہد کی تھی۔ یہ ایک مثبت فیکٹر ہے۔ طالبان نے سردست دنیا کو مطمئن کرنے کے بجائے اپنی تنظیم، جنگجوئوں اور کمانڈروں کو خوش اور مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔                                                                                                                                                    عامر خاکوانی( 92 نیوز)

’امارت اسلامیہ‘ افغانستان ’انسانیت‘  کے لیے باعث رحمت ہے

ملت اسلامیہ پاکستان کی بھرپور تائید کا اعلان : متحدہ علماء کونسل کا اجلاس

زیر صدارت مولانا ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی

لاہور (پ      ر )  (مختلف مسالک کے ) جید علماء کرام کا افغانستان میں ’امارت اسلامیہ ‘کے قیام کی تائید پر اجلاس ’آسٹریلیا مسجد لاہور‘ میں خطبہ جمعہ کے بعد ہوا۔ اجلاس میں مولانا منیب الرحمن نعیمی ،مولانا سراج الحق ، مفتی تقی عثمانی ،مولانا فضل الرحمن ، مولانا عبدالقیوم حقانی اور اعجاز الحق کے بیانات کی تائید کرتے ہوئے علماء کرام نے کہا کہ چند دنوں میں امریکہ  کی تربیت یافتہ تین لاکھ افواج کا غرور خاک میں ملنا ،رب کریم  کی نصرت اور جذبہ ایمانی کا اظہار ہے ۔ روس کی شکست کے برعکس اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے’ مجاہدین افغانستان‘ کو جب کامیابی دی تو اس میں کسی اور حکومت کی تائید کا شائبہ بھی نہیں ۔ طالبان قیادت نے کابل میں امن ، سلامتی اور عام معافی کا اعلان کر کے اسلام کے پیغام ’سلامتی‘ کو ظاہر کر دیا  ہے علماء پاکستان کو مجاہدین کی  اس تاریخی کامیابی کے ساتھ قدم ملا کر چلنا چاہیئے ۔ خطباء اور دینی تنظیموں  کے مشترکہ اجلاسوں کے ذریعے نہ صرف افغان بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے بلکہ طالبان قیادت سے ملاقات کر  کے ان کی ہر طرح تائید کرنی چاہیے۔ علماء کرام نے پاکستانی میڈیا  میں طالبان کے حوالے سے پروپیگنڈے اور’ مجاہدین ‘کی بجائے’ جنگجو ‘کی اصطلاح استعمال کرنے پر تنقید کی ۔ مولانا عبدالرؤف ملک (ناظم متحدہ علماء کونسل) کی دعوت پر ہونے والے اجلاس میں: مولانا ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی ، ڈاکٹر محمد امین ، ڈاکٹر سرفراز احمد اعوان ، حافظ عبدالغفار روپڑی ، مولانا عمران طحاوی  ، ڈاکٹرحسن مدنی  اور ڈاکٹر محمد سلیم سمیت بہت سے علماء نے حصہ لیا ۔ طالبان سے کیے جانے والے’ دستور کے مطالبے‘ پر  علماء نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح  (کے خطاب ِحیدر آباد، دکن، 1940ء ) کی طرح  طالبان کو ’قرآن مجید‘ (کے دستور ہونے ) کا اعلان کر دینا چاہیئے ، تا کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پروان چڑھے ۔ ’امارت اسلامیہ‘ نے 10 محرم (1443ھ)کو جس طرح اعلان  کیا، اس سے مسلمانوں میں یکجہتی کا اظہار قابل تعریف ہے ! طالبان کو حسب سابق اتحاد ملی پر کوئی مفاہمت نہیں کرنی چاہیے   اور ملت اسلامیہ بالخصوص عوام کو ان کی تائید اور دعاؤں میں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے ۔

 

ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی                                                                        عبدالرؤوف ملک

معتمد اہل حدیث اتحاد کونسل                                    سیکٹری جنرل متحدہ علماء کونسل پاکستان

 

نوٹ :امریکہ طالبان معاہدہ کا اصل انگلش متن مجلہ کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں ۔                                                                                                                                                                  (ادارہ)

 

[1]https://www.state.gov/wp-content/uploads/2020/02/Agreement-For-Bringing-Peace-to-Afghanistan-02.29.20.