نفاذشریعت بذریعہ مسلّح جدوجہد!!

مالا کنڈ کے سانحہ پر مندرجہ بالا عنوان سے ڈاکٹر محمد فاروق خان نے 23 نونومبر کے روزنامہ جنگ میں تجزیہ کرتے ہوئے جو سوالات اٹھائے ہیں اور صورت حال کا جو حل پیش کیا ہے ، اصل حقیت اس سے با لکل مختلف ہے ۔تحریک نفاذ شریعت جو وہاں کئی سال سے پر امن طور پر جا رہی تھی ، کے درجنوں افراد کو شہید کر کے اس پر مسلح جددجہد کرنے کا الزام لگا دینا قرینِ انصاف نہیں ہے خصوصا جب کہ تحریک کے سر براہ صوفی محمد مبیّنہ طور پر عدم تشدد کا پرچار اور اعلان کر رہے تھے ۔ تحریک کے والبستگان کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں قتل کیا گیا ، ان کے گھروں اور بازاروں کو بلڈوز کیا گیا اور آگ لگائی گی شریعت پسندوں کو شرپسند کا خطاب دیا گیا اور عالمی نشریاتی اداروں کو پرستی اور مسلم عسکریت کے نام پر مذموم پراپیگینڈا کرنے کا موقع فراہم کیا گیا لکین حالات کو اس نہج تک پہنچانے والے عوامل کا ازالہ نہیں ہوا اور نفاذ شریعت میں تاخیر کا موجب بننے والے عناصر سے کوئی جواب طلبی نہیں کی گئی تجزیہ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ 1970 میں اس علاقہ میں پاٹا کے ظالمانہ قوانین نافذ تھے ، جس سے اختلاف شروع ہوا ہائی کورٹ نے ان قوانین کو منسوخ کرنے کا فیصلہ دیا یہ فیصلہ 1988 میں ہو ا لیکن اس پر فوری عمل درآمد نہ کیا گیا اور رہاں پاکستانی قوانین بلکہ اسلامی قوانین کا نفاذ نہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں تحریک نفاذ شریعت کی جانب سے پر امن مظاہروں کی نوبت آئی انہیں کچلنے کے لیے صوبائی حکومت نے بھر پور قوت استعمال کرتے ہوئے 94 میں 11 افراد کو شہید کر کے تحریک کو مسلح جدوجہد میں تبدیل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا اس کے باوجو د تحریک پر امن رہی اور اس نے کوئی جوابی کاروائی نہ کی ۔ ان بے مثال قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مزید چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی اعلان کے مطابق شرعی قوانین کا نفاذ نہ ہوا تو تحریک نے دوبارہ پر امن مظاہر ے شروع کیے لیکن ارباب اقتدار ٹس سے مس نہ ہوئے اس دوران ایک ممبر صوبائی اسمبلی مظاہرین سے ٹکراو بنا پر ہلاک ہوئے اتظامیہ نے جو آج تک بے حسی کا شکار تھی مسئلہ کو پر امن طور پر حل کرنے کی بجائے آرمی ایکشن کا سہارہ لیا اور ملیشیا کے ذریعہ تحریک کو کچلنے کے لئے قوت استعمال کی جس کے نتیجہ میں بے شمار افراد شہید ہوئے اتنے بڑے واقعہ کے تحقیق کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں وسیع اختیارات کے حامل کمیشن کا قیام فوری طور پر ضروری تھا جس سے تا حال پہلو تہی کی جا رہی ہے ایک نظریاتی ملک ہونے کی بنا پر شریعت اسلامیہ کا نفاذ لازمی امر تھا آزادی کے بعد استعمار کی باقیات اور غیر ملکی آقاؤں کے اشار ے پر رقص کرنے والے جانشینوں نے قیام پاکستان مقاصد کو پورانہ ہونے دیا جس کے نتیجہ میں ملک دو لخت ہو گیا لیکن ارباب حل و عقد نے کو ئی عبرت حاصل نہیں کی جس نہج پر ملکی سیاست چل رہی ہے اس میں بہتری کے آثار نظر نہیں آتے اگرچہ موجودہ آئین میں نمائشی طور پر بطور واقعہ 24 قرار داد کو شامل کر دیا گیا لیکن اس کے مطابق آئین میں ترمیم اور قانون سازی نہیں کی گی یہاں تک کہ بپریم کورٹ نے اس انر کی شہادت پیش کر دی کہ قرار داد مقاصد کو دیگر دفعات آئین پر کوئی برتر ی حاصل نہیں ہے چنانچہ الاما ئزیشن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اس طرح ایک ایسا ملک جو دنیا بھر میں اپنی نظریاتی اساس کی وجہ سے مشہور تھا اسلامی نظریہ کی آبیاری کرنے سے قاصر رہا نوبت بہ اینجار سید کہ نصف صدی گزرنے کے باوجود یہاں شریعت کے نفاذ کے لیے مطالبات کا سہارا لینا پڑھا اور مطالبہ کرنے والوں کو جواب میں سینوں پر گولیاں کھانا پڑیں یہ تاریخ عالم کا بہت بڑا المیہ تھا کیونکہ کہ اپنے بنیادی نظریہ سے رو گردانی اور وجہ قیام سے گریز کی بنا پر کوئی بھی ملک اپنے وجود کا جواز کھو دیتا ہے وطن عزیز کو تاریک راہوں پر چلانے والے کسی طرح بھی اس کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ۔
جہاں تک باقائدہ اسلامی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کے لئے تین شرائط کا سوال ہے تو یہ بات صاحب مضمون نے بہت شدومد کے ساتھ پیش کی ہے کہ اگرچہ ہماری حکومتیں انتہائی غیر معیاری سست اور کرپٹ رہی ہیں اور عملا گنہگار ہیں لیکن وہ کھلے بندوں کفر کا ارتکاب نہیں کرتیں صرف دین کے ہر کام میں حیلہ بازیاں اور ٹال مٹول کرتی ہیں لیکن انکار نہیں کرتیں
گویا عملی مزاحمت کے لئے دین کی پہلی شرط یعنی کھلے کفر ( کفرِ بواح) کا ارتکاب نہیں کرتیں یہ ان کا اپنا مؤقف تو ہو سکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ شریعت کے نفاذ سے گریز سب سے بڑا کفر بواح ہے کھلی منافقت اور باغیانہ معصیت ہے اللہ تعالی نے کتاب اللہ میں نازل کردہ قوانین نافذ نہ کرنے والوں کو کافر ، ظالم اور فاسق قرار دیا ہے سورۃ مائدہ کے اس حکم سے بڑی گواہی پیش نہیں جا سکتی اس طرح قرآن کا حکم ہے کہ سود تر ک نہ کرنے کی صورت میں اللہ اور اس کےرسول ﷺ کے لئے جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ سود کے حکم کو عملی طور پر معطل کر کے یہ چیلنج بھی عرصہ دراز سے حکومت نے قبول کیا ہو ا ہے سود تر ک کے بارے میں وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلہ کو تین سال گزر چکے ہیں لیکن سپریم کورٹ میں دائرشدہ اپیل کی سماعت کی نوبت ابھی تک نہیں آئی گذشتہ سال راقم الحروف کی طرف سے فوری سماعت کی درخواست پر نوٹس جاری ہوئے تو سر کار نے مؤقف اختیار کیا کہ اٹارنی جنرل کیس کی تیاری نہیں کر سکے اور سماعت مؤخر کر والی تیار ی نہ ہو سکنے کا بہانہ پیش کرنے کے بجائے اصل حل تو یہ تھا کہ اپیل واپس لی جاتی لیکن اللہ اور اس رسول ﷺ سے جنگ جاری رکھنے کی پالیسی بر قرار ہے علاوہ ازیں ایسی حکومتیں کو جو شرعی قوانین کو فرسودہ اور ظالمانہ قرار دے چکی ہو ں اور اپنے پکے مسلمان ہونے کا اعلان کر چکی ہوں کس بنا پر اسلامی کہا جاسکتا ہے دورِ حاصر کے مفکر مولانا ابوالحسن علی ندوی اس سیکولر رویہ کو ذھنی ارتداد کا نام دے دیا ہے ۔ جس کے وبال میں ہمارے حکمران مبتلا ہیں ۔
دوسری شرط مضمون نگار نے یہ قرار دی ہے کہ صرف اس حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جاسکتا ہے جو نہ تو عام مسلمانوں کی رائے سے قائم ہوئی اور نہ ہی عام مسلمانوں کے لئے اس حکومت کو تبدیل کرنے کا پر امن رستہ موجود ہو کیو نکہ بحکم قرآن .
﴿وَأَمرُهُم شورىٰ بَينَهُم... ﴿٣٨﴾... سورة الشورىٰ
ان کے معاملات آپس کے مشورہ سے چلتے ہیں اس ضمن میں اسلام کے تصور شوری سے قطع نظریہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ ہمارے ہاں قائم ہونے والی حکومتیں عام مسلمانوں کی نمائند ہ بھی نہیں ہوتی ہیں کجا یہ کہ اسلام کا شورائی نظام موجود ہو مثلا ووٹر اور امید وار ایک اہل مسلمان کے معیار پر کہاں تک پورے اترتے ہیں ؟ پھر پچاس فیصد ووٹ لینے والے حکمران بن بیٹھتے ہیں اس لئے بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ ہماری پارلمینٹ منتحب کہلوانے کے باوجود نمایندہ نہیں ہوتی ۔
تیسری شرط انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ جس رہنما کی قیادت میں مزاحمت شروع کی جائے اس کے متعلق یہ بات بالکل اعتماد کے ساتھ واضح ہو کہ قوم کی بہت بڑی اکثریت اس کے ساتھ ہے اس کے احکام کو حکومتی حکم کے طور پر قبول کرتی ہے اور عملا اس رہنما نے اپنی حکومت تشکیل دے دی ہے لیکن واقعہ کربلا اس شرط کی نفی کرتا ہے کیونکہ حضرت حسین نے مطلوبہ قوت کے بغیر مزاحمت کا فیصلہ کیا تھا تا ہم اس شرط پر صوفی محمد سوفی صد پورا اترتے ہیں جن کے حق میں علاقہ کی عوام نے عملی اعتماد کا اظہار کر دیا تھا اور مکمل نظم و ضبط کے ساتھ اپنے غلبہ کا مظاہرہ کیا قومی پریس نے بھی انہیں مالا کنڈ کے خمینی کی حثیت سے پیش کیا اس کے باوجود انہوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان نہیں کیا بلکہ اپنی تحریک کے ذریعہ نفاذ شریعت کا مطالبہ کر کے ایک دینی فریضہ ادا کیا ابتدا انہوں نے مالا کنڈ اور ضلع کو ہستان سے کی کیونکہ وہاں سرے سے کوئی قانون ہی موجود نہیں تھا اگلی منزل کے دوسرے حصوں میں شریعت کا نفاذ ہو سکتی تھی جس کے لئے انہیں پورے ملک کے علماء کی تائید و حمایت حاصل ہے مسئلہ کے حل کے طور پر مضمون نگار نے یہ تجوید پیش کی ہے کہ اگر حکومت مطالبات ماننے میں ٹال مٹول سے کام لے تو انتحاب کے وقت اس کا جواب دیا جائے اس وقت تحریک نفاذ شریعت اپنے نمائندے بھی کھڑے کر سکتی ہے اور دوسری دینی پارٹیوں یا بڑی سیاسی پارٹیوں سے اتحاد بھی کر سکتی اس طرح انہوں نے فرسودہ نظام کا حصہ بننے کا مشورہ دیا ہے تاکہ وہ بھی نمک کی کان میں جا کر نمک بن جائیں ووٹوں کی سیاست جو نوٹوں کے بغیر اک قدم نہیں چل سکتی اس رستہ میں کیسے مدد معاون بن سکتی ہے جبکہ سابقہ تجربے بار بار اس کی نفی کر چکے ہیں خودشریعت کورٹ میں فیصلہ د ے چکی ہے کہ ہمارا انتحابی نظام غیر شرعی ہے اس کی تاصلاح کی جائے لیکن صد حیف کہ اس پر عمل پیرا ہونے کی بجائے بپریم کورٹ میں اپیل کر کے اسے بھی طاقِ نسیاں پر رکھ د یا گیا ہے حکومتوں کی مدح سرائی کو ئی نئی بات نہیں ہے جابر حکومتوں کو ظلّ الہی کا درجہ دینے اور ان کے فال و فر کی حفاظت کے لئے عوام کو تلقین کرنے کا سلسلہ سرکاری درباری دانشوروں نے فقہ ملوکیت کے دور میں شروع کیا تھا اس طرح کی ناصحین کو علامہ اقبال نے فتنہ فرار دیتے ہوئے فرمایا تھا
فتنہ ملت ِِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلمان کو سلاطیس کا پرستار کرے
اس مقابلہ میں انہوں نے دین ملت کے ان رہنماوں کو ترجیح دی ہے جو غلبہ اور اشاعت حق کی خاطر اپنے جان مال کے ساتھ جدوجہد کرنے کی تلقین کرتے ہیں :
ہے وہی تیرے زمانے کا امام بر حق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دیکھا کر رُخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
بخاری اور مسلم کی احادیث میں حکمرانوں کا اتباع اس شرط کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے کہ صرف اس وقت تک ان کا حکم مانا جائے جب تک وہ دین کو قائم کریں اور عدل و انصاف کریں یہاں دین کے قیام سے مراد صرف نماز کا قیام نہیں بلکہ مکمل دین جس میں قوانین شریعت کا نفاذ زکوٰۃ و جہاد کا قیام اور سود کا خاتمہ شامل ہے ، مراد۔ لیا گیا ہے خلفائے راشدین کا اپنی رعایا کے ساتھ تعامل یہ تھا کہ اکثر فرمایا کرتے تھے
'' اگر مجھ میں غلطی پاو تو مجھے سیدھا کر دو ''
جبکہ رعایا بھی اس قدر جری تھی کہ جلیل القدر سے واضح طور پر کہہ دیا گیا کہ
'' اگر ہم آپ میں کوئی کجی پائیں گے تو تلوار سے سیدھا کر دیں گے ''
امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب '' الحسبۃ فی الاسلام '' فصل دوم میں محکمہ دفاع عدلیہ اور مالیات وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے انہیں مصائب دینیہ قرار دیا ہے اور ایسے مسلمان حکمران کو جو ان فرائض کی ادائیگی میں اسلامی اصولوں کی پیروی نہیں کرتا ظالم اور فاجر شمار کرتے ہوئے قرآن کی اس آیات کا مصداق ٹھہرایا ہے .
﴿إِنَّ لِلمُتَّقينَ عِندَ رَبِّهِم جَنّـٰتِ النَّعيمِ ﴿٣٤﴾... سورة القلم
اور
﴿وَإِنَّ الفُجّارَ لَفى جَحيمٍ ﴿١٤﴾... سورة الانفطار
''بے شک نیکو کار نعمتوں کی جنت میں اور فجار دوزخ میں ہو ں گے ''
شاہ اسماعیل شہید نے ''منصب امامت '' میں ایسے مسلمان حکمرانوں کو حکومت کو جن جن سے احکام شرع کی مخالفت اور عناد ظاہر ہو سلطنت کفر قرار دیا ہے مصر کے جید عالم سید قطب شہید نے موجودہ مسلمان ممالک کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بزور بازو قیادت کی تبدیلی اور غلبہ اسلام کی مساعی کو ناگزیر قرار دیا ہے پاکستان میں ان کے ہم عصر مولانا مودودی مرحوم نے '' اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے '' کے عنوان سے تحریر کیا ہے :
''وہ قومی حکومت جس پر اسلام کا نمائشی لیبل لگا ہو گا ، اسلامی انقلاب کا رستہ روکنے میں اس سے بھی جری دبے باک ہو گی جتنی غیر مسلم حکومت ہوتی ہے غیر مسلم حکومت جن کاموں پر قید کی سزا دیتی ہے ، مسلم قومی حکومت ان کی سزا پھانسی اور جلاوطنی کے دے گی ''
اس اجمال کے تفصیل آج مصر سے الجزائر تک پھیلی ہوئی ہے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے اٹھنے والی تحریکوں کو یہی مشکل در پیش ہے اس صورت حال کا حل انہوں نے ایک صالح جماعت کی ضرورت میں اس طرح پیش کیا ہے :
رفتہ رفتہ ان تمام نقصانات تکلیفوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنا ہو گا جو نظام غالب کے خلاف بغاوت کرنے کا لازمی نتیجہ ہیں پھر انہیں وہ سب کچھ کرنا ہو گا جو ایک فاسد نظام مٹانے اور صحیح نظام کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے اس انقلابی جدوجہد میں اپنا مال بھی قربان کرنا ہوگا اپنے اوقات عزیز بھی صرف کرنے پڑیں گے اپنے دل و دماغ اور جسم کی ساری قوتوں سے بھی کام لینا پڑے گا قید اور جلا وطنی اور ضبط اموال اور تباہی اہل و عیال کے خطرات بھی سہنے ہوں گے اور وقت پڑے تو جانیں بھی دینا ہوں گی ان راہوں سے گزرے بغیر دنیا میں نہ کوئی انقلاب آیا ہے اور نہ آسکتا ہے ''
اس تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ زوال امت کے اس دور میں خرابیوں کی اصلاح کی گنجائش کہیں زیادہ ہے ہمارے پڑوسی ملک ایران میں ایسی ہی ایک کوشش ہو چکی ہے شاہ ایران کی سیکولر حکومت کے مقابلہ میں خمینی مرحوم کے انقلاب پر امت مسلمہ زیادہ متفق ہے ۔
مالا کنڈ میں اسلام کے نام پر اشک شوئی کے لیے جن پاکستانی قوانین کے نفاذ کے اعلان کیا گیا ہے ان میں بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں قانون شہادت اغلاط سے پر ہے شریعت ایکٹ میں نظام سیاست و معیشت کو قرآن و سنت کی بالا دستی سے مستثنی رکھا ہے گیا ہے اسی وجہ سے شریعت کورٹ نے اس کی تین دفعات کو منسوخ قرا ر دے دیا تھا زکوۃ و عشر آرڈ ینس خود ساختہ گمراہ کن دفعات پر مبنی ہے قصاص و دیت آریئنس کئی سال سے پارلیمنٹ کی مظوری کے بغیر چلا آرہا ہے اس بناء پر قصاص کے علاوہ تعزیرا سزائے موت اور قید کی سزائیں تجوید کی گئی ہیں جو خلاف اسلام ہے گویا اختلافات کے خاتمہ کی جانب کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا صرف وعدوں پر گزارہ کیا گیا ہے جبکہ اس دور میں صرف وعدوں کے سہارے زندہ رہنا بہت مشکل کام ہے
پاکستان کی دینی سیاسی جماعتوں کی سابقہ کا رگردگی اتنی اچھی نہیں رہی فرقہ ورایت کا پیغام ان کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے چالیس سال قبل کاتب فکر کے 31 علماء نے نفاذ اسلام کے لیے متفقہ طور پر 22 نکات طے کیے تھے باہمی تعاون کا یہ سلسلہ جاری رہتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی ناکامی کی بڑی وجہ دینی عناصر کی طرف سے مغربی جمہوری سیاست کا حصہ بننا ہے جسے سیکولر بنیادوں پر اپنا لیا گیا ہے غیروں سے مستعار قوانین اور اصولو ضوابط کے تحت وہ کسی اور کی وکٹ پر اس کی مرضی کے مطابق کھیلنے پر مجبور ہیں سابقہ انتخابی نتائج اس پر شاہد ہیں اس نظام کو شریعت کے مطابق ڈھالنے کے لیے انہیں اپنی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا خطبات جمعہ میں موضوعات کی یکسانی اور لگے بندھے فروعی مسائل کی تکرار کی بجائے ازلی ابدی اصولوں توحید رسالت اور آخرت سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے غیر مصدقہ ( ضعیف) روایات اور آراء کو تر ک کر کے اجتہاد کی روشنی میں نئے دور کے مسائل کا حل تلاش کیا جائےنئی نسل کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے دورِ حاضر کا مسلمان جب تک خود دینی تعلیمات سے آراستہ اور مطمن نہیں ہوگا اسلام کا پیغام دیگر اقوام تک نہیں پھیل سکتا اشتراکیت کے خاتمہ کے بغد عالمی افق پر جو نظریاتی خلا پیدا ہوا ہے اسلام اسے بہتر طور پر پُر کر سکتا ہے اور اس کی کامیابی کے روشن امکانات موجود ہیں شرط یہ ہے کہ اسلام کو اپنے گھر میں اجنبی نہ بنایا جائے بلکہ اسے پھلنے پھولنے کا بھر پور موقع فراہم کیا جائے ۔
ڈاکٹر محمودالرحمن فیصل