اپریل 2004ء

اسکارف/حجاب کا مسئلہ

نائن الیون ((11/9 کے بہانے امریکہ کو مسلمان ملکوں پر چڑھ دوڑنے کا جو موقع ملا، اس سے مسلم حکمران تو سپر انداز ہو ہی رہے ہیں لیکن مسلمان ملکوں کے عوام میں مغرب (نام نہاد عالمی اتحاد) کے خلاف ردِ عمل روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ سیکولر قوتوں نے اس کا توڑ یہ سوچا ہے کہ ثقافتی اثر و نفوذ کے لئے مسلم معاشروں میں کچھ بزعم خویش ترقی پسندوں کی خدمات حاصل کر لی جائیں، دوسری طرف مغرب میں آباد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر سرکاری دباؤ بڑھا دیا جائے۔ اسکارف و حجاب کی ممانعت، تصویر و موسیقی کی اباحت کے علاوہ لفنگوں اور اوباشوں کے ذریعہ بسنت اور ویلنٹائن ڈے کا شور و غوغا اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔
ان دنوں یورپی مغرب کے ملک فرانس نے اسکارف کی قانونی ممانعت کر کے جو بےچینی پیدا کی ہے، وہ دراصل اسلام کے تہذیبی شعائر کے خلاف ہے جس میں سردست خواتین کے سر ڈھانپنے کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اگرچہ یہ تحریک اسکارف کے اسلامی شعار کے حوالہ سے چل رہی ہے لیکن بہت جلد اس کا دائرہ پوری اسلامی ثقافت کی پامالی کی طرف وسیع ہوتا نظر آ رہا ہے جس کا بڑا ذریعہ 'یہود' کے زیر تسلط الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ہے۔ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جو آزاد خیال لوگ ستر و حجاب اور اختلاطِ مرد و زن یا بسنت اور ویلنٹائن ڈے کو اسلامی بنیاد پرستی اور تشدد سے تعبیر کرتے ہیں یا بالفاظِ دیگر ایسی چیزوں کو دین و مذہب سے لاتعلق بتاتے ہیں خود ان کا آقا مغرب بھی اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں، وہ نہ صرف اسکارف کو مذہبی شعار سمجھتا ہے بلکہ سیکولر ثقافت میں دخل اندازی کا فساد بھی قرار دیتا ہے جس سے کم از کم یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین و ثقافت کو الگ نہیں کیا جا سکتا خواہ سیکولر ازم اس کے لئے کتنے ہی بلند بانگ دعوے کر لے۔ اسی پہلو سے مسلم دنیا کے ترکی و تیونس اور مغرب کے فرانس و جرمنی وغیرہ میں تہذیبوں کے تصادم (clash of Civilization) کے تازہ اُبھرتے ہوئے مسئلہ 'اسکارف و حجاب' کا مطالعہ فرمائیے۔ (محدث)
11 ستمبر 2001ء کو تاریخ عالم میں ایک یادگار دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہی وہ دن ہے کہ جس دن مسلم اور غیر مسلم دنیا کے درمیان ایک طویل اور خون آشام تہذیبی ٹکراؤ کا آغاز ہوا۔ اس دن کو کرہ ارض پر 'نائن الیون' کے مخفف نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ اس دن اٹھارہ بیس نوجوانوں نے دنیا کی واحد سپر پاور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے جدید ترین اور حساس ترین سیارہ رسا حفاظتی نظام کو ناکارہ بنا کر ایک ایسی تباہی سے دوچار کیا کہ کائنات گیر سائنسی مہارت کے تمام امریکی دعوے دھڑام سے زمین بوس ہو گئے اور اس کا بزعم خود فلک نشان اقتصادی ڈھانچہ کھوکھلا ہو کر بنیادوں پر لرزنے لگا۔
امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے اعلان کیا کہ یہ حیران کن کاروائی کرنے والے تمام کے تمام جانفروش نوجوان مسلمان تھے، عرب نژاد تھے، 'تشدد پسند' تھے اور افغانستان میں قائم اسامہ بن لادن کی جماعت القاعدہ نے انہیں منصوبہ اور سرمایہ فراہم کیا تھا۔ جارج بش نے یہ بھی اعلان کیا کہ امریکہ اپنے ان ہزاروں شہریوں کے نقصان اور ہلاکتوں کا بدلہ لے گا جو اس کاروائی کا نشانہ بنے اور اس مقصد کے لئے شدت پسندوں کا پوری دنیا میں سرگرم تعاقب کیا جائے گا۔ اس کے بعد وقت کی بوڑھی آنکھوں نے پورے افغانستان کو امریکی کارپٹ بمباری تلے ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ بعد ازاں امریکی بربریت نے مسلم ملک عراق کا رخ کیا اور صدام حسین کی حکومت کو روندتے ہوئے عرب دنیا میں تیل کے اعلیٰ ترین ذخائر پر قابض ہو گیا۔
11 ستمبر اور دیگر مغربی ممالک
ظلم اور بربریت کی اس اندھی جنگ میں برطانیہ سمیت بہت سے مغربی ممالک نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ یورپ کے کچھ ممالک نے اگرچہ بوجوہ امریکہ کی پرتشدد اور جنگی کاروائیوں کی مخالفت کی لیکن بعد کے حالات سے ثابت ہوا کہ یہ ممالک بھی مسلم اور غیر مسلم تہذیبوں کی باہمی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کے بجائے اسلام مخالف تہذیبی ریلے سے نہ صرف متاثر ہوئے ہیں بلکہ خود کو بہ اندازِ دگر اسی سیلِ نا معقولیت کے سپرد کر چکے ہیں۔ یورپ کے ان ممالک نے مسلمان تہذیب کے خلاف بندوق اٹھانے کے بجائے انسانی حقوق، سماجی تحفظ اور سیاسی نظام کی غیر جانبداریت کے خوش رنگ نعروں جیسے ہتھیاروں سے اپنی حدود میں مسلم شناخت کو نابود کر دینے کے پروگرام وضع کئے اور ان پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ یورپی مفکرین نے اپنے سیاسی قائدین کی توجہ مسلمان معاشرے میں عورت کی اہمیت اور اس کی عصمت، عزت و وقار کی حفاظت جیسے احکامات کی طرف مبذول کروائی۔ اور ایک دین دار عورت کے اگلی نسلوں پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ کرتے ہوئے مسلمان عورت کو بے توقیر کرنے اور اپنی دینی شناختوں سے محروم کرنے کی صلاح دی۔ نتیجہ یہ کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امریکہ اور یورپ میں رہنے والی مسلمان عورت کو بے توقیر کرنے کی سازش تیار ہوئی، اس طرح اسلام دشمن مغربی مفکرین کا اسلامی تہذیب کو مٹانے کا وہ خواب تعبیر کے سانچے میں ڈھلنے لگا جو وہ زمانہ قدیم سے دیکھ رہے تھے۔
مسلمانوں کے اجتماعی تشخص کو ڈھانے کا فلسفہ
1600 عیسوی میں اس وقت کے دانشور پیڈرو فرانکیزا نے مسلمانوں کے طرزِ حیات اور ان کی تہذیبی اثر پذیری کو عیسائیت کے لئے ایک خطرہ گردانتے ہوئے تختِ حکومت پر متمکن شاہ فلپ سوم کی خدمت میں 'شفارشات' پیش کی تھیں۔ پیڈرو فرانکیزا کی مرتب کردہ تجاویز میں کہا گیا تھا کہ
"ہمیں ہر ممکن اقدام کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس بات سے روکنا ہو گا کہ وہ اپنے مردوں کو اپنے دینی رواج کے مطابق دفن کریں۔ ہمیں ان کی زبان، ان کے مذہبی لباس اور حلال گوشت پر ان کے اصرار کو ختم کرنا ہو گا۔ ان کی مساجد، مدارس اور حمام ڈھا دینا ہوں گے۔"
علامہ اقبال نے کہا تھا ع عقل عیار ہے، سو بھیس بدل لیتی ہے !!
1600 عیسوی سے سن 2004ء تک آتے آتے تری یافتہ اور 'تہذیب یافتہ' یورپی ممالک نے عقل کی عیاری کو کام میں لاتے ہوئے اسلامی تہذیب و تمدن کے خلاف اپنے قدیم تعصب کو 'بے تعصبی'، 'انسانی آزادی' اور 'سب کے لئے قابل قبول معاشرے' کے قیام جیسے دل کش مقاصد کا لباس پہنا دیا۔ اس طرح مسلم دنیا کے خلاف غیر مسلم طاقتوں کی تہذیبی جنگ دو صورتوں میں اُبھر کر سامنے آئی۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے کچھ ممالک نے تو طاقت کے بل بوتے پر منتخب اسلامی ممالک کے کلچر تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا۔ جبکہ فرانس اور جرمنی جیسے ممالک نے اپنی جغرافیائی حدود کے اندر بسنے والے مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کو ختم کرنے کی مہم آغاز کی۔ یورپ میں تقریبا دو کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ ان میں سے 20 لاکھ سے زائد برطانیہ میں اور 30 لاکھ سے زائد جرمنی میں رہائش پذیر ہیں۔ جبکہ فرانس میں ان کی آبادی سب سے زیادہ یعنی 60 لاکھ سے بھی متجاوز ہے۔ ان میں سے 50 فیصد آبادی باضابطہ طور پر فرانس کی شہریت رکھتی ہے۔
فرانس میں مسلمان
یورپ میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی کے خود اسلام کی تاریخ قدیم ہے۔ پہلی صدی ہجری ہی میں مسلمان یورپ میں پہنچ گئے تھے۔ اندلس کی فتح کے بعد اسلامی فوج جنوبی فرانس تک اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتی چلی گئی تھی۔ 1492ء میں سقوطِ غرناطہ کا سانحہ ہوا تو مسلمانوں کی یہاں سے ہجرت کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ اس طرح پندرہویں اور سولہویں صدی تک کم از کم تین لاکھ مسلمان فرانس میں آباد ہوئے۔ ایک طرف مسلمانوں کی فرانس میں آمد کا یہ سلسلہ تھا اور دوسری جانب خود فرانس نے اپنے قرب و جوار میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ اور اقتدار قائم کرنے کے لئے اپنی افواج کو استعمال کیا۔ اور بہت سے مسلمان ممالک مثلا شام، لبنان، الجزائر، مراکش، سینی گال، موریطانیہ، تیونس اور متعدد افریقی ممالک پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ اس طرح ان ممالک کے مسلمان بھی کثرت سے فرانس میں آتے جاتے رہے۔ فرانس کی تعمیر و ترقی میں مسلمان محنت کشوں کا کردار نہایت اہم ہے۔ فرانس کی تاریخ گواہ ہے کہ نقل مکانی کر کے اس سرزمین پر آنے والے مسلمانوں نے نہ صرف فرانسیسی قوانین کا احترام ملحوظِ خاطر رکھا بلکہ فرانس کے قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے کردار کا تعین کیا، خود فرانس نے بھی اس سلسلے میں کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کیا اور اپنے ہر شہری کو دین اور اعتقاد کی آزادی کی ضمانت دی۔
1917ء میں فرانس میں باضابطہ طور پر ایک اسلامی کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ 1926ء کے دوران فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک بڑی اور مرکزی مسجد تعمیر ہوئی۔ 1982ء میں مسلمانوں کو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعہ مسلم تنظیمیں اور فلاحی ادارے رجسٹر کروانے کا حق دے دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں فرانس بھر میں لاتعداد تعلیمی ادارے، تربیتی مراکز اور مسلم ثقافتی سینٹر عالم وجود میں آ گئے جو اب تک کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔
انقلابِ فرانس کے بعد سے فرانسیسی حکومت کا عمومی رویہ تحمل اور فراخ دلی کے اُصولوں پر مشتمل رہا ہے اور ماضی قریب میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اگر کسی ادارے یا فرد نے فرانس میں آباد مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر کوئی قدغن لگانے کی کوشش کی تو خود حکومتی سطح پر اس کا نوٹس لیا گیا اور اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔
فرانس اور مسئلہ حجاب
ایک مرتبہ 1989ء میں اور دوسری مرتبہ 1992ء میں فرانس پر کچھ متعصب عناصر نے سیکولر ازم کے نام پر مسلمان طالبات کو حجاب سے منع کرنے کی تحریک شروع کی تو عدلیہ سے منسلک اعلیٰ ترین ادارے 'سٹیٹ کونسل' نے فیصلہ صادر کیا اور قرار دیا کہ دینی شعائر کا اہتمام اور تسلسل فرانس میں قائم سیکولر نظام سے متصادم نہیں ہے۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت میں موجود مؤثر حلقوں نے امریکہ میں ہونے والے نائن الیون واقعہ کے بعد اپنی رائے بدل لی ہے اور امریکہ نے اسلامی تہذیب کے خلاف در پردہ اور بظاہر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو مہم آغاز کی تھی، یورپ کے ترقی یافتہ ممالک نے اس میں اپنا کردار اس طرح ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہ وہ یورپ میں عرصہ دراز سے رہنے والے مسلمانوں کی طرزِ زندگی اور شعائرِ اسلامی پر مبنی اطوار و خصائل کو بدل ڈالنے کی مہم پر چل چکلے ہیں۔
اس مہم کا آغاز جرمنی اور فرانس سے کیا گیا ہے۔ 27 مارچ 2003ء کو پیرس کے قریب فرانس کی حکمران جماعت کے ارکانِ اسمبلی اور وزرا کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں حجاب اور مذہبی علامات پر پابندی لگانے کے سلسلے میں غور و خوض کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق حکومتی جماعت کے 90 فیصد ارکان نے ایسی پابندیوں کی حمایت کی۔ اجلاس کے بعد اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے فرانس کے وزیراعظم جین پیری رافرین نے اعلان کیا کہ حکومت سرکاری اداروں میں کام کرنے والی مسلم خواتین پر یہ پابندی عائد کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران حجاب ترک کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی جائے گی تاکہ لباس میں سیاسی تعلق یا مذہبی لگاؤ سے تمام نشانات کو مٹایا جا سکے۔ فرانسیسی سیکولرازم کی حفاظت کی جا سکے اور فرانس میں بسنے والی تمام خواتین کو 'بنیاد پرستی کے دباؤ' سے محفوظ رکھا جا سکے۔
وزیراعظم فرانس نے اسلام کے خلاف تہذیبی جنگ پر بہانہ سازی کا حجاب ڈالنے کے لئے مزید وضاحت کی کہ حجاب کے خلاف یہ قانون کسی مذہب کے خلاف ہرگز نہیں ہو گا۔ بلکہ اس کا مقصدِ وحید عورتوں کو پابندیوں سے آزاد کروانا ہے۔ اس کے بعد فرانسیسی حکومت کے ایک سابق وزیر برنر سٹازے کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اسے حجاب کے مسئلے کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کرنے کا فریضہ تفویض کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ فرانس کے سیاست دانوں کی جانب حجاب کی مخالفت میں ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا۔ حکومتی جماعت کے چئیرمین اور سابق وزیراعظم فرانس السین جپٹی نے کہا کہ سرکاری سکولوں میں مذہبی علامات کی نمائش اور استعمال کے خلاف ایک سخت گیر قانون وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ فرانس کے سابق وزیر تعلیم کلوڈالاجر نے حجاب کے مسئلے پر ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیکولرازم کو اسلام کے مطابق نہیں ڈھلنا بلکہ اسلام کو فرانسیسی سیکولرازم کے مطابق ڈھلنا ہو گا۔ فرانسیسی قیادت کی جانب سے مذکورہ بالا طرز کے بیانات سے فرانسیسی معاشرے میں بہت سے سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اور 'خاص مذہبی علامات' جیسی اصلاحات پر بحث عروج پر ہے۔ ایسے سوالات بھی اُٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا حجاب کے بعد داڑھیوں، خاص طرز سے بال بڑھانے اور سکھوں کی پگڑیوں پر بھی پابندی لگائی جائے گی۔ اس ضمن میں فرانس کے وزیر تعلیم لک فیری کے اس بیان کو مرکزی نقطہ بحث بنایا جا رہا ہے جس میں انہوں نے پابندی کے قانون کی حمایت کرتے ہوئے سکھوں کے حوالے سے کہا کہ پابندی کا دائرہ وسیع ہوا تو سکھوں کو غیر مرئی یعنی نظر نہ آنے والی پگڑیوں کا انتظام کرنا ہو گا۔ فرانس کے صدر شیراک نے تیونس کے دورے کے دوران ایک تقریر کرتے ہوئے مندرجہ ذیل بیان جاری کیا:
"مکمل سیکولر فرانسیسی حکومت طالبات کو اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ اپنے ہدایت یافتہ ہونے کا اعلان کرتی پھریں۔ حجاب میں جارحیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی اکثریت سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں اور ہماری حکومت فرانس میں ہجرت کر کے آنے والوں کو اپنے ماحول اور معاشرے میں ڈھالنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ لیکن ظاہری مذہبی علامتوں کے ذریعے دوسروں کو کھلم کھلا اپنے دین کی طرف بلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔"
فرانسیسی حکومت کی جانب سے قائم کی جانے والی برنر سٹازے کمیٹی نے 11 دسمبر 2003ء کو اپنی سفارشات حکومت کو پیش کیں۔ ان سفارشات میں حجاب کو دینی علامت گردانتے ہوئے اسے ممنوع قرار دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ حجاب کے ساتھ ساتھ مذکورہ کمیٹی نے عیسائیوں کی صلیب کے نشان اور یہودیوں کی مخصوص ٹوپی کیپا کو بھی دینی علامات قرار دیتے ہوئے تعلیمی اداروں میں ان سب چیزوں کی ممانعت کی سفارش کی۔ البتہ عید الاضحیٰ پر فرانس میں بسنے والے مسلمانوں اور عید غفران پر عیسائیوں کے لئے سرکاری تعطیل کرنے کی بھی سفارش کی۔
کمیٹی کی سفارشات آتے ہی یورپی مسلمان دنیا میں عمومی طور پر اور فرانس میں خصوصی طور پر ایک وسیع احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دس ہزار سے زائد مسلمان فرانسیسی خواتین نے کمیٹی سفارشات کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا۔ جبکہ فرانس میں بسنے والے تین ہزار سکھ نمائندگان نے بھی حکومت کو احتجاجی یادداشت پیش کی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ فرانس میں رہنے والے سکھوں کے خلاف نہ تو دہشت گردی کا کوئی الزام ہے اور نہ ہی یہ لوگ بنیاد پرست ہیں۔ اس لئے اگر بال اور داڑھیاں کٹوانے پر مجبور کیا گیا یا پگڑیوں پر پابندی عائد کی گئی تو یہ ان کی مذہبی آزادی میں ایک صریح مداخلت کے مترادف ہو گا۔
مسلم دنیا کا رد عمل
اس کے ساتھ ہی پوری دنیا کے مسلم ممالک میں ردِ عمل ظاہر ہونا شروع ہوا۔ مصر کے مؤثر اور معروف اسلامی گروپ 'دی مسلم برادرہوڈ' کی طرف سے ایک سخت بیان میں کہا گیا کہ فرانس کا یہ قانون مسلمانوں کی ذاتی اور مذہبی آزادی پر ایک ناروا قدغن کا درجہ رکھتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر محمد خاتمی نے اپنے احتجاجی بیان میں حجاب جیسی مذہبی علامت پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے حکومتِ فرانس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے فیصلے پر پوری نظرثانی کرے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی خاتون ارکان نے 28 جنوری 2004ء کو فرانسیسی سفارت خانہ اسلام آباد کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکومتِ فرانس سے مطالبہ کیا کہ حجاب پر پابندی سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ اس موقع پر فرانس کے سفیر کو ایک یادداشت بھی پیش کی گئی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ حکومتِ فرانس بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کرے اور کسی مذہب یا نسل یا کلچر کا امتیاز کئے بغیر فرانس میں رہائش پذیر تمام لوگوں کو یکساں حقوق مہیا کرے۔ جماعتِ اسلامی پاکستان نے ایک قرارداد میں حکومت فرانس سے مطالبہ کیا کہ وہ اظہار کی آزادی، دین کی آزادی، ضمیر کی آزادی اور طرزِ بودوباش کی آزادی جیسے اپنے اُصولوں سے انحراف نہ کرے اور ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق تبلیغ کرنے اپنے شعائر کو زیر عمل لانے اور اپنی عبادات کو اپنے طریقوں کے مطابق بجا لانے پر کسی طرح کی پابندیاں لگانے سے باز رہے۔ قرارداد میں یہ خدشہ طاہر کیا گیا ہے کہ حجاب پر پابندی کے نتیجے میں بےشمار مسلمان عورتیں تعلیم اور ملازمت کے مواقع سے محروم ہو جائیں گی جو سراسر ایک ناانصافی ہو گی۔
30 جنوری کو الجزائر کی 'الجرین اسلامک پارٹی' نے فرانسیسی سفارت خانے میں یادداشت پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ پابندی کا مجوزہ قانون بجائے خود انتہا پسندی کی ایک مثال ہے لہذا اس کے نفاذ سے پرہیز کیا جائے تو بہتر ہے۔
اس سے قبل جنوری 2004ء کے دوسرے ہفتے میں براعظم امریکہ اور یورپ کے بہت سے ممالک میں قائم مسلمان اداروں اور تنظیموں کی طرف سے بھی مربوط اور منظم احتجاجی مظاہرہ ترتیب دیے گئے۔ یہ مظاہرے امریکہ اور کینیڈا میں زیر تعلیم مسلمان طلبا کی سب سے بڑی تنظیم 'مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن' کی جانب سے منعقد کئے گئے۔ اس تنظیم کے زیر اہتمام واشنگٹن، اٹلانٹا، ہیوسٹن، میامی، سان فرانسسکو، ٹورنٹو کے علاوہ برطانیہ اور جرمنی کے مختلف شہروں میں جو مظاہرہ کئے گئے، ان مظاہروں میں مسلم طلبا کے علاوہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لئے کام کرنے والی بہت سی مشہور متحرک اور غیر مسلم تنظیموں نے بھی شرکت کی۔
فرانس سمیت دنیا بھر میں ہونے والے ان مظاہروں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے فرانس کے صدر شیراک نے برنر سٹازے کمیٹی کی مرتب کردہ تجاویز کی پرزور حمایت کی اور کہا کہ انہیں اُمید ہے کہ حکومتِ فرانس آئندہ کیلنڈر سال شروع ہوتے ہوئے ان پابندیوں کو قانونی شکل دے دے گی۔ اس طرح یہودی ٹوپیوں، بڑی کسچین صلیبوں اور حجاب کا ملبوساتی استعمال غیر قانونی قرار پا جائے گا۔
یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ 28 جنوری 2004ء کو جب پاکستان کی قومی اسمبلی کی منتخب خاتون ارکانِ پارلیمنٹ فرانسیسی سفارت خانے کے سامنے اسلام آباد میں حجاب پر پابندیوں کے خلاف یادداشت پیش کر رہی تھیں، عین انہی اوقات کے دوران فرانس میں پوری فرانسیسی کابینہ ان پابندیوں کی باضابطہ منظوری دے رہی تھی۔ اس منظوری کے بعد 10 فروری کو یہ مسودہ قانون فرانسیسی پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں پیش ہو گا اور وہاں سے پاس ہونے کے بعد آئندہ تعلیمی سال سے نافذ العمل ہو گا۔
اسی طرح سکولوں میں زیر تعلیم مسلمان طالبات آئندہ سال کے اوائل سے حجاب نہ پہننے کی پابند قرار پائیں گی۔ پابندیوں سے متعلق اس بل کی کابینہ میں منظوری کے بعد صدر فرانس جیکوٹس شیراک نے تقریر کرتے ہوئے کہا:
"اس بل سے فرانس کے سکولوں کی غیر جانبداری مستحکم ہو گی۔ اس بل کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کے زیر اثر عام زندگی میں روزمرہ مذہبی علامت کے استعمال کو ممنوع قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ پابندی صرف سکولوں کی حد تک نافذ کی جا رہی ہے۔ اس اقدام سے ہماری تاریخ، ہماری روایات اور ہماری اقدار کو تحفظ فراہم ہو گا اور یہ سب کچھ ہم پوری ذمہ داری سے کر رہے ہیں۔ تاکہ دین اور حکومت کو علیحدہ علیحدہ رکھ کر فرانسیسی سیکولرازم کو مضبوط بنایا جا سکے۔"
جرمنی
فرانس کے بعد جو یورپی ملک حجاب پر پابندی کے سلسلے میں سرگرم ہے وہ جرمنی ہے۔ جرمنی کے چانسلر نے ایک بیان میں کہا کہ حجاب پر پابندی کے قانون کا نفاذ ہمارے 2004ء کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ جرمن اخبارات کے مطابق صدر جوہانس ریاڈ کا خیال ہے کہ جرمنی کی تمام ریاستوں کو حجاب پر پابندی کے قانون کے دائرہ کار میں لانا ضروری ہے۔
جرمنی کی سب سے بڑی اور قدامت پسند ریاست بویریا میں بھی سکولوں میں حجاب پر پابندی سے متعلق ایک مسودہ قانون تیار کیا گیا ہے۔ لیکن فرانس کے برعکس اس مجوزہ قانون میں عیسائیوں اور یہودیوں پر کوئی پابندی نہیں ہو گی اور وہ صلیب یا خصوصی ٹوپی پہن سکیں گے۔ بویریا کی وزیر تعلیم مونیکا ہولمائر نے مجوزہ قانون کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ بویریا میں سیاسی اور مذہبی علامت کے طور پر حجاب کا استعمال فزوں تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اگر اس پر پابندی نہ لگائی گئی تو خدشہ ہے کہ طلبا مذہبی شدت پسندی کا شکار نہ ہونے لگیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون طلبا کے والدین اور سرپرستوں کی اکثریت کے مطالبے پر وضع کیا جا رہا ہے۔
بویریا کے آئین کے مطابق وہاں کوئی بھی قانون علاقائی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن پارلیمنٹ میں کٹر کرسچین یونین جماعت کی اکثریت کی وجہ سے مجوزہ قانون کی منظوری کو محض ایک رسمی کاروائی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل جرمنی ہی کی ایک اور ریاست Baden-Wuerrmderg میں بھی حجاب پر پابندی کا مسودہ قانون پیش کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی ہی کے ایک شہر Darrmstard میں جرمنی کی سولہ ریاستوں کے وزرائے تعلیم، ثقافت و مذہبی اُمور کا اجلاس منعقد ہو چکا ہے جس میں حجاب کے مسئلے پر تفصیلی بحث مباحثے کے بعد 16 میں سے 7 ریاستوں نے حجاب پر پابندی لگانے کی حمایت کی۔ جرمنی کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ 2004ء کے دوران حجاب پر پابندی کے قانون کو جرمنی کے اکثریتی علاقوں میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے نافذ کر دیا جائے گا۔ اس سے قبل جرمنی کے تیرہ صوبوں میں سے سات میں مسلمان اُستانیوں پر پہلے ہی یہ پابندی عائد کی جا چکی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں حجاب پہن کر نہ آیا کریں۔ جبکہ بہت سے سکولوں میں طالبات سے بھی کہا جا چکا ہے کہ اگر اُنہیں تعلیم جاری رکھنا ہے تو وہ اسکارف پہن کر سکول میں مت آیا کریں۔ یاد رہے کہ جرمنی کے آئین کے آرٹیکل 4 کی رو سے جرمنی میں رہائش پذیر ہر فرد کو اپنے مذہبی شعائر کے مطابق زندگی گزارنے کی ضمانت مہیا کی گئی ہے۔
ناروے: ناروے کی حکومت بھی فرانس اور جرمنی کے زیر اثر حجاب پر پابندی لگانے کے معاملے کو رفتہ رفتہ آگے بڑھا رہی ہے۔ لیکن بنیادی انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے دباؤ کے سبب اس پابندی کو فی الحال تجارتی مراکز اور سپر سٹورز پر کام کرنے والی مسلمان خواتین تک محدود رکھنے پر غور کر رہی ہے۔ اس محدود پابندی پر ناروے کے عوام کا رد عمل جاننے اور پرکھنے کے بعد مزید اقدامات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ناروے کے ایک وزیر کا بیان اس دباؤ کا مظہر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ناروے حکومت مذہب کی بنیاد پر امتیازات اجاگر کرنے کے خلاف ہے۔ لیکن جہاں تک حجاب کا مسئلہ ہے تو اس کا استعمال بظاہر قابل اعتراض نہیں ہے لیکن اگر اس سے ہائی جین اور انسانی صحت کو کچھ مسائل درپیش ہوں تو حجاب پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ جہاں تک پرائیوٹ کاروباری اداروں اور سٹورز کا تعلق ہے تو وزیر موصوف نے ان اداروں کی توجہ ناروے کے فوجی قوانین کی جانب مبذول کروائی اور کہا کہ ناروے کی فوجی یونیفارم مذہبی رواداری اور دینی عقائد کے احترام کی آئینہ دار ہے اور اس احترام کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی دفعات فوجی قوانین میں گذشتہ دس سال سے نہ صرف شامل ہیں بلکہ ان پر کامیابی سے عمل بھی ہو رہا ہے۔ پرائیوٹ تجارتی اداروں کو اس قانونی روایت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
بلجیم: ناروے کے وزیر نے حجاب پر پابندی کے لئے اس کے ہائی جین اثرات اور انسانی صحت کو لاحق اَن دیکھے خطرات کی طرف اشارہ کیا ہے تو بلجیم میں ایک نئے جواز کو حجاب پر پابندی کی بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ بلجیم کے حجاب مخالف حلقے اسلامی شدت پسندی کے علاوہ یہ اعتراض بھی پیش کر رہے ہیں کہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈوں کے اجرا میں تمام خواتین کا ننگے سر ہونا ضروری ہے تاکہ ان کی درست شناخت میں کسی ابہام یا شک و شبے کی گنجائش نہ رہے۔
سویڈن: یورپ کے آزاد خیال ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ اس ملک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں انسانی آزادیوں پر کسی طرح کی قدغن لگانا بنیادی انسانی حقوق کے یکسر خلاف سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ اس ملک میں امن و سکون سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لیکن بین الاقوامی اخبارات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سویڈن میں بھی حجاب مخالف قوتوں نے قومی سطح پر اس مسئلے کے حوالے سے مباحث کا آغاز کر دیا ہے اور حجاب پر پابندی کے مختلف منصوبے آشکار کئے جا رہے ہیں۔ گو کہ حکومتی سطح پر حجاب پر پابندی سے متعلق ابھی تک کوئی معتبر بیان سامنے نہیں آیا۔ لیکن سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگر فرانس، جرمنی، ناروے اور بلجیم میں حجاب پر پابندیاں عائد ہو گئیں تو اس کا یقینی اثر سویڈن پر بھی پڑے گا اور سویڈن حکومت بھی مسلمان خواتین کے حجاب پر کسی نہ کسی حد تک پابندی لگانے پر مجبور ہو جائے گی۔
مسلم ممالک میں حجاب پر پابندی
حجاب سے متعلق مغربی ممالک کا مندرجہ بالا رویہ درست ہے یا غلط؟ ۔۔ اس بحث کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ حجاب کے حق میں بات کرتے ہوئے علمائے کرام سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ حجاب مسلمان عورتوں کے محض لباس کا ایک حصہ نہیں ہے بلکہ حجاب میں رہنا ایک مسلمان عورت کے مذہبی فرائض میں داخل ہے۔ مغربی ممالک کے دانشور اور حجاب مخالف حلقے اس دلیل کے جواب میں بہت سے اسلامی ممالک کی مثال پیش کرتے ہیں اور استدلال کرتے ہیں کہ اگر خود بعض اسلامی ممالک میں حجاب پر پابندی کے قوانین اور ضوابط موجود ہیں تو مغرب کے ان ممالک پر انگشت نمائی کیوں؟ جہاں نہ تو مسلمانوں کی حکومت ہے اور نہ ہی ان کا معاشرہ حجاب کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ معترض حلقوں کا کہنا ہے کہ فرانس میں تو صرف سرکاری سکولوں کی حد تک طالبات کو پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ حجاب ترک کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس شمالی افریقہ کے مسلم ممالک میں مدارس سے آگے بڑھ کر یونیورسٹیوں تک میں حجاب پر پابندی عائد ہے۔ مزید یہ کہ سرکاری اور پرائیوٹ دفاتر میں بھی کسی مسلمان عورت کو حجاب میں فرائض سر انجام دینے کی اجازت نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے باحجاب خواتین کا سرکاری ہسپتالوں میں علاج تک کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ عوام سے درخواست کی جاتی ہے کہ ان ٹیکسی کاروں میں سفر نہ کریں جن کی ڈرائیور باحجاب عورتیں ہیں۔
فرانس میں حجاب پر پابندی کے خلاف مسلمان عورتوں نے جلوس نکالے تو فرانسیسی اخبارات نے تحقیقی مضامین شائع کئے اور بے پردہ تیونس کے عنوان سے جلی سرخیوں والے اخبارات عوام میں مفت تقسیم کئے گئے۔ ان اخبارات نے انکشاف کیا کہ مسلم ملک تیونس کے آئین کی شق نمبر 108 حجاب پر پابندی لاگو کرتی ہے۔ اس شق کی روشنی میں حجاب والی خواتین کو تعلیم، ملازمت اور علاج کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ترکی کی مثال بھی بہت نمایاں ہے۔ جہاں ملک کی اعلیٰ ترین تعلیمی کونسل کے احکامات کے تحت اسکارف پہننے پر پابندیاں عائد ہیں اور سکول یونیورسٹی اور سرکاری دفاتر میں خواتین کے لئے حجاب پہننا قانونا ممنوع ہے۔ اکتوبر 2003ء میں ہونے والا ایک واقعہ بھی اس سلسلے میں مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جب ترکی کے صدر نے حکمران جماعت کے وزرا اور ارکان کو دعوت دی۔ لیکن ان وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کی بیگمات کو دعوت میں بلانے سے انکار کر دیا جو حجاب کی پابندی کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں جن باحجاب خواتین کو ترکی کے صدر نے نظر انداز کیا۔ ان میں وزیراعظم اور ترکی کے آئینی کورٹ کے چیئرمین جیسی اہم شخصیات کی بیگمات بھی شامل تھیں۔ صدر نے اپنے اس اقدام کا جواز بتاتے ہوئے کہا کہ صدر سیکولر نظام کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں اور آئین میں درج سیکولرازم کے تحت جمہوری حقوق کے نگہبان ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حجاب پہننے اور اس کی سرکاری تقریبات میں نمائش سے ایک سیاسی اسلام اور اس کے غلبے کا تصور اُجاگر ہوتا ہے۔
اس ضمن میں گاہے گاہے پاکستان کی بات بھی اب ہونے لگی ہے اور کہا جانے لگا ہے کہ پاکستان بھی اپنی قومی ہوائی سروس پی آئی اے میں کام کرنے والی خواتین کو دوپٹہ کی پابندی سے آزاد کرنے کے لئے ضوابط تیار کر رہا ہے۔ حجاب مخالف مہم میں مصر کے مفتی ازہر شیخ محمد سعید طنطاوی کا 'فتویٰ' بھی شدومد سے پیش کیا جا رہا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے:
"اسکارف کے خلاف احکامات فرانس کا اندرونی مسئلہ ہے، ہم مداخلت نہیں کر سکتے۔ فرانس کو اپنی مرضی کے مطابق قانون سازی کا حق ہے۔ جو مسلمان خواتین فرانس میں رہتی ہیں، وہ اضطرار کی حالت میں اسکارف چھوڑ سکتی ہیں۔"
اس کے برعکس ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر نے فرانس کی حجاب پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مسلم خواتین کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق سر پر اسکارف کا استعمال کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں مسلمان خواتین کو اس امر کی آزادی حاصل ہے۔
اگر مذکورہ بالا ساری بحث کو سمیٹا جائے تو حاصل کلام یہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک کے احتجاج کے باوجود فرانس میں اس سال ایک ایسا قانون لاگو کیا جا رہا ہے جس کے تحت مسلمان طالبات سکولوں میں اور مسلمان خواتین سرکاری دفاتر میں حاضری کے دوران حجاب استعمال کرنے کے حق سے محروم ہو جائیں گی۔ اسی سال جرمنی میں بھی یہ قانون کچھ تبدیلیوں کے ساتھ روبہ عمل آ جائے گا اور غالبا اگلے ایک دو سالوں میں اس پابندی کا دائرہ ناروے، بلجیم اور سویڈن تک پھیل سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس گھمبیر اور سنجیدہ صورت حال میں کیا کیا جائے۔ اور اگر کچھ کرنا ہے تو یہ کون کرے ۔۔؟
پس چہ باید کرد؟
ہماری رائے میں مسلمان ممالک کو فرانس اور دوسرے یورپی ممالک کے خلاف کسی تحریک کا آغاز نہیں کرنا چاہیے۔ اس اقدام سے حجاب کے خلاف مہم کو حجاب مخالف عناصر آسانی سے اسے مسلم اور غیر مسلم تہذیبوں کی جنگ ہی کا ایک حصہ قرار دے سکتے ہیں۔ جبکہ اس مہم کی کامیابی کے امکانات صرف اس صورت میں ہیں جبکہ اسے اسلام اور کفر کے دائرے سے نکال کر خالصتا انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کے اُصول کے تحت آگے بڑھایا جائے۔ یہ درست ہے کہ حجاب ہمارے دینی شعائر کا حصہ ہے اور یہ محض ایک ملبوساتی علامت یا پہناوا نہیں ہے۔ لیکن اسلام سے متصادم مغرب میں یہ دلیل شاید ہی کوئی پذیرائی حاصل کر سکے۔
اگر حجاب کے خلاف پابندیوں کو ان ممالک کے اپنے دساتیر اور قوانین کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے اس چارٹر کے حوالے سے چیلنج کیا جائے جس پر تمام ترقی یافتہ ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں تو عالمی سطح پر جذبات کو برانگیختہ کئے بغیر بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں اور غیر مسلم لیکن بڑی اور بین الاقوامی طور پر مؤثر این جی اوز کو بھی حجاب کے حق میں متحرک کیا جا سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے فرانس کے حجاب مخالف قانون کی زد میں یہودی، سکھ اور رومن کیتھولک عیسائی بھی آ رہے ہیں۔ جو اپنے لباس کے ساتھ بڑے سائز کی صلیب آویزاں کرنے کا شعار اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر انسانی بنیادوں پر اس قانون کی مخالفت کی جائے تو عیسائیوں کے روحانی مرکز ویٹی کن سٹی یورپ میں قائم تمام سکھ تنظیموں اور غیر مسلم لیکن انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کی ہمدردیاں بھی حاصل کی جا سکتی ہیں اور اقوام متحدہ کے متفقہ طور پر جاری کردہ 'یونیورسل ڈکلریشن آف ہیومن رائٹس' کے آرٹیکل 18 کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔ جس میں بنیادی انسانی حقوق اور شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی کے احترام کی گارنٹی بھی دی گئی ہے۔ فرانس، جرمنی، سویڈن، بلجیم اور ناروے میں وہاں کے قوانین کے مطابق رجسٹرڈ اور تسلیم شدہ اداروں مثلا سرکاری طور پر تسلیم شدہ 'اسلامی کونسل' اور مسلم ثقافتی سینٹروں کو چاہیے کہ وہ مذکورہ ممالک کے دائرہ قانون میں رہتے ہوئے قابل ترین قانون دانوں کی خدمات حاصل کریں اور ہر ملک کی وزارتِ تعلیم و ثقافت کے سامنے اپنا کیس پیش کر کے حجاب پر پابندی کے ضوابط کو خود ان ممالک کے آئین اور قوانین سے متصادم قرار دلوائیں۔
یورپ کے ان ممالک میں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، مسلمانوں کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ سیاسی طور پر اسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان ممالک کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ آئندہ الیکشن میں اپنا ووٹ حجاب مخالف لیڈروں اور جماعتوں کے خلاف ڈالنے کا واضح عندیہ دے دیں۔ اس حربے سے کم از کم فرانس اور جرمنی میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے اور اس مجوزہ کامیابی کے امکانات ان ممالک کی سیاسی فضا میں پہلے ہی سے اپنی جھلک دکھا رہے ہیں۔
حجاب پر پابندی کی مخالفت
فرانس کے ایک مقتد اخبار 'لی فگارو' نے فروری 2004ء کی اپنی ایک اشاعت کی صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فرانس کے اہم وزیر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ حجاب پر پابندی سے فرانس کی خارجہ پالیسی پر برے اثرات مرتب ہوں گے اور اگر ایسا کیا گیا تو حکومت کی جانب سے یہ ایک غلط اقدام ہو گا کیونکہ بین الاقوامی تناظر میں یہ مسئلہ انتہائی حساس نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ اسی طرح جرمنی کے ایک معتبر سیاسی راہ نما رونڈز چاؤ نے بعض حکومتی حلقوں کی اس رائے کو خوش آئند قرار دیا ہے، کہ حکومت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسروں کے مذہبی شعائر کے درست یا نادرست ہونے کا فیصلہ کرتی پھرے یا پھر کسی مذہبی روایت سے امتیازی سلوک کو روا رکھے۔ 'لی فگارو' نے لکھا ہے کہ اگر جرمنی کے صدر اس اصول کو اپناتے ہیں تو انہیں اگرچہ حجاب مخالف قوتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بننا پڑے گا لیکن وہ راست باز اور بہادر رہنما کی حیثیت سے تا دیر یاد رکھے جائیں گے۔
جرمنی ہی کے روزنامہ Die Welt کا تجزیہ ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ صلیب انسانی آزادی اور امن کا نشان ہے اور حجاب محض ایک دین اور سیاسی علامت ہے تو بھی حجاب پر پابندی سے معاشرے میں ایک مکمل بے دین سیکولرازم کے پھیلاؤ کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اس لحاظ سے ان سیاسی قوتوں کا استدلال زیادہ بہتر اور مضبوط دکھائی دیتا ہے، جو حجاب پر پابندی کی مخالفت کر رہی ہیں۔ بہ نسبت ان عناصر کے جو جنونی طور پر حجاب مخالفت میں مہم چلا رہے ہیں۔ فرانس کے وزیر خارجہ جنوری 2004ء کے آخری ہفتے میں دبئی کے دورے پر آئے تو اخبار نویسوں نے ان سے حجاب پر پابندی کے حوالے سے سوالات کئے۔ ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزیر موصوف مسٹر ڈویمنی کیوڈی ویلی پن (Dominique De Villepin) نے کہا کہ فرانس ایک جمہوریت نواز ملک ہے اور انسانی حقوق کا احترام اس کے منشور میں شامل ہے اور ہم نے فرانس میں مسلم معاملات سے متعلق ایک اعلیٰ اختیاراتی کونسل بنا رکھی ہے۔ جس کا نام "Conseil Francais Du Culte Musalman" ہے۔ اس کونسل میں شامل مسلمان لیڈروں سے ہم نے مسلسل کئی ماہ تک بڑا تفصیلی اور دوررس مکالمہ جاری رکھا ہے۔ اس کونسل کے قیام کا مقصد ہی اسلام اور فرانسیسی حکومت کے درمیان اچھے تعلقات کو استوار رکھنا ہے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ اسلام کا فرانس میں حقیقی طور پر ایک اہم مقام ہے اور وہاں اس مذہب کا احترام کیا جاتا ہے۔ فرانس کی قومی پالیسی کا مرکزی نقطہ بھی یہی ہے کہ مذاہب، اعتقادات اور دینی شعائر کے معاملے میں غیر جانبدار رہا جائے اور ہم اسی غیر جانبداری کی روایت کو فرانس میں بسنے والے تمام شہریوں کے درمیان مساوات کے اُصولوں کے مطابق آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ فرانس میں مذہبی علامات پر پابندی کا جو قانون وضع کیا جا رہا ہے، وہ اسی تاریخی روایت کا حصہ ہے۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس قانون کا نشانہ بطورِ خاص اسلام ہے اور دراصل یہ پابندی صرف حجاب کے خلاف لگائی جا رہی ہے۔
وزیر موصوف نے زور دے کر کہا ہے کہ میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسکارف پہننے پر مکمل پابندی ہرگز عائد نہیں کی جا رہی ہے۔ یہ پابندی صرف سرکاری سکولوں اور حکومتی ملازمین پر عائد ہو گی اور وہ بھی صرف اس وقت تک جب تک طالبات سکول میں پڑھیں گی یا پھر مسلم ملازم خواتین کے دفاتر کے اوقات تک محدود رہے گی۔ پرائیویٹ سکول،یونیورسٹیاں، سرکاری عمارت اور مقامات پر یہ پابندی غیر مؤثر رہے گی اور مسلمان طالبات اور خواتین حسبِ معمول حجاب استعمال کرنے میں پوری طرح آزاد ہوں گی۔
فرانسیسی اخبار 'لی فگارو' ہی نے اپنے ایک اور تبصرے میں لکھا ہے جب حجاب پر پابندی کا قانون پارلیمنٹ میں پیش ہو گا تو اس پر سیاسی اختلاف رائے کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ حکومت میں شامل سینئر رائٹ ارکان اس کی حمایت یا مخالفت میں تین یا چار گروہوں میں بٹ جائیں۔ اگرچہ حجاب کے معاملے پر وسیع پیمانے کی بحث مذہبی جذبات کو ٹھنڈا کرنے لئے اہم ہے اور سیکولرازم کی برتری کے لئے ضروری ہے۔ لیکن حجاب پر پابندی کے مجوزہ قانون کی مخالفت کرنے والی قوتیں بھی بہت مضبوط ہیں اور اگر یہ سب ایک جگہ جمع ہو گئیں تو فرانسیسی سیاست میں مؤثر کردار ادا کرنے والے 'فار رائٹ نیشنل فرنٹ' کے لئے یہ ایک سیاسی تحفہ ہو گا۔
اس سارے پس منظر سے ایک اور اہم سیاسی پہلو بھی اُبھرتا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ فرانس میں آباد مسلم آبادی کا تعلق ہے اپنے آبائی وطن کے حوالے سے بہت دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ مثلا فرانس میں بسنے والے مسلمان پوری مسلم دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن میں شام، عراق، لبنان، الجزائر، مراکش، موریطانیہ، سینی گال، تیونس، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان شامل ہیں۔ ان تمام ممالک سے فرانس کے اقتصادی، تجارتی اور سیاسی روابط قائم ہیں۔ اگر یورپ میں رہنے والی تسلیم شدہ تنظیمیں سیاسی سطح پر اس تاثر کو اُبھار سکیں کہ حجاب پر پابندی کا قانون فرانس اور دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے درمیان دوستانہ روابط کو ناقابل نقصان پہنچا سکتا ہے تو اس سے فرانس کی رائے عامہ اور سیاست میں مؤثر تجارتی حلقوں کو مذکورہ قانون کے خلاف خالصتا سیاسی تجارتی اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے بھی متحرک کیا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے لئے فرانسیسی عوام کی اس تہذیبی نفسیات سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جس کے زیر اثر فرانسیسی اپنے آپ کو تہذیب روشن اور کشادہ ظرف کا نقب خیال کرتے ہیں اور وسیع خیالی کو اپنا شعار قرار دیتے ہیں۔
فرانسیسی انقلابِ فرانس کی بہت تعریف کرتے ہیں اور انقلاب کے بعد یعنی اٹھارہویں صدی سے فخر کے ساتھ پوری دنیا کو یہ جتانے سے گریز نہیں کرتے کہ رواداری، مساوات اور حریتِ انقلاب، فرانس کے بنیادی اصول ہیں اور انہی اصولوں پر چل کر فرانس نے جدید دنیا میں موجودہ اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے۔ انقلابِ فرانس کے ان بنیادی اصولوں پر اصرار اور فرانس کی مذہبی مداخلت سے بھری آئینی تشریحات کو بنیاد بنا کر اگر فرانس میں حجاب کو برقرار رکھنے کے حق میں کوئی تحریک شروع کی جائے جس کا مرکز فرانس ہی میں ہو تو قوی امکان ہے کہ وہاں اسلام کو ایک شدت پسند مذہن کے طور پر پیش کرنے والے فرانسیسی عناصر خود اپنے آئین، اپنے قانون اور اپنے اُصولوں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ اور اس طرح حجاب پر پابندی کو بالآخر ختم کروایا جا سکتا ہے یا اسے صرف سرکاری سکولوں اور سرکاری دفاتر تک محدود رکھ کر یورپ میں بسنے والے مسلمان عورتوں کی زندگی کے شب و روز کے ہر لمحے تک محیط ہونے کے عمل کو روکا جا سکتا ہے۔ اور حجاب پر پابندی کے اس ناپسندیدہ قانون کو پہلے قدم پر ہی زنجیر ڈال کر اگلے اقدامات سے باز رکھا جا سکتا ہے۔