انتہا پسندی کے انسداد میں سلفی عقائد کا کردار
سوویت یونین کے زوال اور امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کے بعد اقوامِ عالم کے مابین ٹکراؤ کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔ گذشتہ صدی کا بیشتر حصہ مغربی اقوام کے مابین اختلافات اور جنگوں کی نذر ہوا:جنگِ عظیم اوّل، دوم اور پھر سرد جنگ۔ جبکہ 1990ء کے بعد سے اسلام ومسلمان اور مغرب کے مابین براہِ راست مسلح کشمکش جاری ہے۔جنگِ خلیج،عراق کی پہلی،دوسری جنگ اور افغانستان میں یہی صورتحال ایک عشرے سے زیادہ عرصہ تک رہی۔ اور اس کے بعد دشمن نے اپنے ممالک میں بیٹھ کر بلادِ اسلامیہ میں باہمی تصادم اور خانہ جنگی کو فروغ دیا۔ اس عرصہ کے دوران ہونے والے تشدد ومظالم کا نتیجہ مسلم نوجوانواں کے افکار ونظریات میں بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا اور آج 25 برس بعد مسلم دنیا کا اہم ترین مسئلہ ’تشدد اور انتہاپسندانہ نظریات کا فروغ ‘بن چکا ہے۔ جس کوملکی اور عالمی سطح پر بہ کثرت زیر بحث لایا جارہا ہے۔
عالم کفر کے مظالم ، تشدد اور ریشہ دوانیاں اپنی جگہ قابل مذمت ہیں اور ان کا بہر طور مداوا ہونا چاہیے، ظلم کو کسی صورت بھی جاری نہیں رہنا چاہیے، تاہم افکار ونظریات میں انتہاپسندی معاشرے کے رخ کو بدل دیتی ہے، اس کے صالح اور مفید پہلو کو دبا دیتی ہے۔اس لئے اسلام کے اصل اور معتدل نظریات کو واضح اور نمایاں رہنا چاہیے۔ افراد کے مسائل ہوں یا معاشرے کے، کوئی بھی شدت اور انتہاپسندی سے حل نہیں ہوتے، بلکہ مزید بگڑ جاتے ہیں۔ جس کا نقشہ ہم امریکہ اور بھارت کی حالیہ انتہاپسندانہ قیادتوں ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بظاہر اس انتہاپسندی سے بعض پہلوؤں میں پیش قدمی ہوبھی جائے لیکن افراد و معاشرے غلط طرزِ عمل کے عادی ہوکر آخر کار ٹکراؤ اور تخریب کی طرف چل نکلتے ہیں، جس کا نتیجہ بنی نوع انسان کی تباہی وبربادی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
اسلام اپنی خالص صورت میں کتاب وسنت میں محفوظ ہے ، اور ہردور کے مسلمان اپنے فکر وعمل کی اصلاح کے لئے اسی چشمہ صافی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ہر دور کے بدلتے حالات سے پڑنے والی گرد، قرآن وسنت کے براہِ راست مطالعے سے صاف ہوجاتی ہے اور اسلام کا پیغام اصل سرچشموں سے واضح ہوتا رہتا ہے۔ مسلمانوں میں وہ لوگ جو کتاب وسنت سے خالص تمسک اور پابندی اختیار کرتے ہیں، سَلَف اور اس نظریہ کے حامل ’سلفی‘ کہلاتے ہیں۔ سلفیہ کے دیگر ناموں میں اہل حدیث، اہل السنّہ ،اہل اثراور اہل اتباع بھی ہیں اور انہی کو طائفہ منصورہ، فرقہ ناجیہ ، اَنصار السنّہ بھی کہا جاتا ہے۔ واضح ہے کہ اعمال کے پس پردہ اصل طاقت عقائد ونظریات کی ہوتی ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم دیکھتے ہیں کہ سلفی عقائد میں انتہاپسندی کی کوئی گنجائش ہے؟ اور صدیوں سے چلے آنے والے مسلمہ سلفی عقائد کس طرح اُمّتِ مسلمہ کو توازن واعتدال کا درس دیتے ہیں۔
’سلفیت‘ سے کیا مراد ہے؟
سلف کا لفظ تاریخی طور پر ان تین طبقات : صحابہ کرام ، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللّٰہ کے لئے بولا جاتا ہے جن کے بارے میں نبی کریم ﷺنے بطور ِخاص ’اُمّت میں سے بہترین ‘ہونے کی خوش خبری دی ہے۔ سیدنا عمران بن حصین سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ» - قَالَ عِمْرَانُ: لاَ أَدْرِي أَذَكَرَ النَّبِيُّ ﷺ بَعْدُ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلاَثَةً - قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «إِنَّ بَعْدَكُمْ قَوْمًا يَخُونُونَ وَلاَ يُؤْتَمَنُونَ، وَيَشْهَدُونَ وَلاَ يُسْتَشْهَدُونَ وَيَنْذِرُونَ وَلاَ يَفُونَ، وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَّنُ»[1]
’’تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ( صحابہ ) ہیں ۔ پھر وہ لوگ جو اُن کے بعد آئیں گے (تابعین) ،پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے ( تبع تابعین )‘‘ ۔عمران نے بیان کیا کہ میں نہیں جانتا،حضورﷺنے دو زمانوں کا ( اپنے بعد ) ذکر فرمایا یا تین کا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ’’تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو خائن ہوں گے، جن میں دیانت کا نام نہ ہوگا ۔ ان سے گواہی دینے کے لیے نہیں کہا جائے گا ، لیکن وہ گواہیاں دیتے پھریں گے ۔ نذریں مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے۔ موٹاپا اُن میں عام ہوگا ۔‘‘
’سلفی منہج ‘ ان عقائد کواختیار کرنے کا نام ہے جس پر فرقوں اور اَحزاب سے علیحدہ رہتے ہوئے اس اُمت کے نمایاں اسلافِ کرام کاربند رہے ،چاہے وہ اللّٰہ تعالیٰ، انسان اورکائنات وزندگی کے بارے میں اساسی عقائد ہوں، یا فہم اسلام کے حوالے سے فکری مباحث ہوں یا ایسے اسلامی اوصاف ہوں جن سے متصف ہوتے ہوئے ان ائمہ کرام نے اُنہیں اختیار کیا۔ چنانچہ سلفی دعوت کی تعریف یوں ہے:
"الدعوة إلى الكتاب والسنة وما كان عليه السلف الصالح من الصحابة الكرام رضوان الله عليهم والتابعين لهم بإحسان وأتباعهم وأئمة الدين ممن شُهِد لهم بالإمامة في الدين، وتلقى الناس كلامهم خلفًا عن سلف." [2]
’’کتاب وسنّت اور اس منہج کی دعوت دینا جس پر صحابہ وتابعین ،تبع تابعین اور ایسے ائمہ دین کاربند رہے جن کی امامت وقیادت دین میں مسلّمہ ہے، اور مسلمانوں نے اپنا دین اُن سے حاصل کیا ہے۔ ‘‘
الغرض سلف سے اصلاً مراد تو صحابہ وتابعین ہیں اور پھر وہ ائمہ اسلاف جو اُن کے نقش قدم پر چلے: جیسے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام سفیان ثوری، امام ابن عیینہ،حماد بن سلمہ، حماد بن زید، امام بخاری، امام مسلم، اور سنن اربعہ کے مؤلف محدثین، اور وہ جلیل القدر ائمہ کرام رحمہم اللّٰہ جن کے علم وفضل اور زہد وورع کی بنا پر اُنہیں درجہ امامت حاصل ہوا، اور اُمت نے اُن کو قبول عام بخشا۔ پھر جن لوگوں نے ان صحابہ کرام اور ائمہ اسلاف جیسا فکری وعملی رویہ اختیار کیا، وہ سلفی کہلائے ۔ اور انہی کو ’اہل السنہ والجماعۃ‘ اور’ اہل الحدیث والسنّہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جیساکہ حافظ ابن حزم کہتے ہیں:
الصحابة -رضي الله عنهما- ومن سلك نهجهم من خيار التابعين رحمة الله عليهم، ثم أصحاب الحديث ومن تبعهم من الفقهاء جيلا فجيلا إلى يومنا هذا، ومن اقتدى بهم من العوام في شرق الأرض وغربها رحمة الله عليهم[3]
’’صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اور بہترین تابعین جو اُن کے منہج پر چلے، پھر وہ اصحابِِ حدیث اور ہر دور میں ان کے منہج کو اختیار کرنے والے فقہاے کرام اور تاحال زمین کے شرق وغرب میں اُن کے نقش قدم پر چلنے والے پیروکار، یہ سب اہل السنہ والجماعہ ہیں۔ رحمۃاللّٰہ علیہم‘‘
1.چنانچہ سلفیت میں کسی زمانے کی تحدید نہیں بلکہ ہر دور میں جو مسلمان ائمہ کرام صحابہ اور تابعین کے مسلک ومنہج پر کاربند رہے، وہ سلف کے منہج کو اختیار کرنے والے سلفی ہیں۔
2.سلف میں وہ گمراہ فرقے اور ان کی طرف بلانے والے اشخاص شامل نہیں جنہوں نے سنّتِ نبوی اور صحابہ کرام کے مجموعی طرزِ فکر وعمل کی مخالفت کی، مثلاً رافضی، خارجی، قدری، جبری، معتزلہ، جہمی اور مشبّہہ ومعطلہ وغیرہ۔
3. سلفیت یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ایسے عقائد کی طرف بلایا جائے جنہیں نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ نے اختیار نہیں کیا۔ نہ لوگوں کو ایسی آزمائش میں ڈالا جائے جس سے اللّٰہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے اُنہیں نکالا ہے۔
4. سلفیہ کا شرعی منہج یہ ہے کہ وہ مرادِ شارع پر عمل کرتے ہوئےظاہر نص سے انحراف نہیں کرتے، کسی مسئلہ میں تمام نصوص کو جمع کرکے موقف کو اختیار کرتے اورنصوصِ شریعت کے مابین تعارض دور کرکےجامع مفہوم پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ وہ محکم پر عمل کرتے اور متشَابہ پر ایمان لاتے ہیں، اور متشَابہ نصوص کو محکم پر پیش کرتے ہیں۔قرآنِ کریم کی تفسیر قرآن، سنت،صحابہ کرام اور عربی لغت سے کرتے ہیں اور مجرّد ذاتی رائے پر ہونے والی تفسیر کو نظر انداز کرتے ہیں۔ سلفیہ کا انحصار ومیزان کتاب وسنت ہے۔ عقائد میں خبرواحد کو قبول کرنا سلف صالحین کا منہاج ہے اور کتاب وسنت پر اکتفا کرتے ہوئے علم کلام وفلسفہ میں زیادہ نہ اُلجھنا سلف کا شعار ہے۔ اور اپنے مقابل موقف والوں پر طعن وتشنیع سے بچنا، اور عدل وانصاف پر کاربند رہنا اُن کی مسلّمہ روایت ہے۔
5. یہ بھی سلفیت نہیں ہے کہ جو آیات واحادیث قرآنی معانی کو متعین کرتی ہیں، ان کو نظر انداز کرکے من مانی تعبیر کی جائے۔اور لغت ِ عرب اور صحابہ کرامؓ کی تفسیرات سے بالا ہی قرآن کریم کی فاسد تاویلات اختیار کرلی جائیں۔ قرآن وسنت کو باہم ٹکرا کر، بعض دلائل کو اختیار اور بعض کو ترک کردیا جائے۔ یا صرف متفقہ اُمورکو اختیار کیا جائےاور احتمالی نصوص کو ترک یا اُن کی تاویل کرلی جائے۔ یا نصوصِ شریعت کی من مانی اور ذاتی رجحانات کے مطابق تعبیر وتوجیہ اختیار کی جائے۔
6.مسلمانوں کو آپس میں اختلاف اور فرقہ واریت کی دعوت نہ دینا ’سلفیت‘ ہے۔ ان میں کسی ایک امام فقیہ کو اپنی اتباع کے لئے متعین کرلینا اور اُس کے نام پر فرقے قائم کرلینا بھی سلفیت نہیں۔ چنانچہ سلفیہ کا موقف ہے کہ ہر فقیہ وامام کا قول لیا او رترک کیا جاسکتا ہے، سوائے امام امّتِ محمدیہ، محمد ﷺ کے جو خواہش نفس کی بجائے صرف وحی کی بنا پر ہی بولتے ہیں اور آپ کی ہر بات ہی قابل اتباع ہے۔ گویا کسی خاص فقہی مکتبِ فکر یا فقہی شخصیات کی طرف ہی منسوب ہوجانا، اور ان کے اقوال کو شرعی نص کا درجہ دے دینا، اور اس بنا پر کتاب وسنت کی نصوص کو نظر انداز کردینا سلفیت نہیں ہے۔ چنانچہ اہل السنہ اور اہل الحدیث کے امام وقائدنبی کریم ﷺہیں، اور سلفیہ تمام اہل علم کے اقوال کو نبی مکرّم کے اقوال پر پیش کرکے صرف اُسی کی اتباع کرتے ہیں۔
[4]
7. سلفیہ ، نصوص شریعت میں سلَف کا اجماعی مفہوم لیتے ہیں۔ اگر کسی جگہ سلف میں اختلاف ہے، تو غور کرکے ’اقرب الیٰ الکتاب والسنہ ‘پر عمل کرتے ہیں۔
8. مسلمانوں کے قابل احترام اور مسلّمہ ائمہ کرام کے بارے میں غیر محتاط انداز اور زبان بولنا اور اُن ائمہ سے یہ کہہ کر مستغنی ہونا بھی سلفیت نہیں کہ ’’ہمارے لئے صرف قرآن وسنت کافی ہیں اور ہمیں کسی مفسر ومحدث اور فقیہ کی ضرورت نہیں‘‘
[5] ہے۔ بلکہ تفسیر وحدیث اورفقہ میں صحابہ کرام اورائمہ اسلاف نے جوعظیم خدمات انجام دی ہیں:روایت واسماء الرجال، احادیث کی صحّت وضعف، ترجیح وتطبیق، توحیداور اس کی اقسام، غیبی اُمور، عقائد ماقبل و بعد الموت ، نسخ، تخصیص، اطلاق، اجماع وقیاس کے باب میں اُن کی خدمات سے استفادہ کرنا ضروری ہے، تاہم میزان کا درجہ صرف قرآ ن وسنت کو حاصل ہے۔ ائمہ اسلاف کو شریعت کی وضاحت میں اتنی حیثیت دینی چاہیے اور یہ ملتِ اسلامیہ میں اتحاد کا اچھا طریقہ ہے۔
سلفیت یہی ہے جس کا تذکرہ مذکورہ بالا سطور میں کیا گیا۔اور بعض کتب ِمثلاً ’تاریخ مذاہب اسلامیہ‘ از محمد ابوزہرہ، ’تاریخ دولتِ عثمانیہ‘ از محمد فرید بک، ’فکر اسلامی کا ارتقا‘ از محمد بہی،’رحلہ حجازیہ ‘از محمد لبیب بتنونی، اور حاشیہ جلالین وحاشیہ ابن عابدین وغیرہ میں سلفیت اور اس کے حاملین پر جو الزامات لگائے گئے ہیں، سلفیت ان سے برئ الذمہ ہے۔ ایسے ہی بعض جماعتیں مثلاً الاخوان الالمسلمون، حزب التحریر اور تبلیغی جماعت ’وہابیت‘ کے نام سے جس طرح سلفیت کی تضحیک وتحقیر کرتی ہیں، یہ بھی درست نہیں اور قابل اصلاح رویہ ہے کیونکہ سمع وطاعت، تکفیر وخروج اور جہاد ودعوت کے میدان میں سلفیوں نے ان جماعتوں کے ایسے نقطہ نظر کی اصلاح کی جس میں یہ اہل السنّہ والجماعۃ کے مناہج پر کاربند نہیں رہ سکے۔
علاوہ ازیں فی زمانہ بہت سی جماعتوں اور تحریکوں نے اپنے تئیں اپنے آپ کو سلفیت کا علم بردار قرار دیا ہے، حالانکہ یہ حقیقتِ واقعہ کے خلاف ہے۔ چنانچہ ’القاعدہ‘ او ردنیا بھر میں اسکی شاخیں، ’داعش‘ اور اسکی شاخیں، مصر کی الجماعة الإسلامية اورتنظیم الجہاد الاسلامی، جزائر كی الجماعة المسلحة اورالجماعة السلفية للدعوة والقتال، ایران کی سنّی جماعت ’جند اللّٰہ ‘، صومال کی ’شباب المجاہدین‘،لیبیا کی ’جماعتِ لیبیا ‘ وغیرہ سلفی مناہج پر کاربند نہیں ہیں۔ فی زمانہ سلفیت کی پہچان کا اُصول یہ ہے کہ ہر وہ جماعت جو مسلمانوں کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کی داعی ہو، اور کبیرہ گناہ کی بنا پر کافر قرار دیتی ہو، وہ سلفیت سے خارج ہے۔
محدثِ زماں شیخ محمد ناصر الدین البانی سے ’سلفیت ‘ اور اس نام کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
’’سلف کا کلمہ نبی کریمﷺ نے خود استعمال فرمایا ہے، چنانچہ سیدہ فاطمہ ؓکو کہا :
«فاتقي الله واصبري ونعم السلف أنا لك»[6] ’
’اللّٰہ سے ڈر اور صبر کر، اور میں تیرا بہترین سلَف (پیشرو) ہوں۔‘‘... اور یہ کلمہ سلف علماے اسلام کے ہاں بے پناہ استعما ل ہوا ہے ، جس کی ایک مثال ہی کافی ہے کہ بدعات کی تردید کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
وكل خير في اتباع السلف وكل شر في ابتداع من خلف
’’سلف کی پیروی میں ہی ہر قسم کی بھلائی ہے اور بعد میں آنے والوں کی بدعات میں ساری خرابیاں ہیں۔‘‘چنانچہ جو شخص سلفیت کا منکر ہے، گویا کہ وہ شخص اس صحیح اسلام سے براءت کا اظہار کرتا ہے جس پر ہمارے سلف صالح او ران کے سرخیل محمدﷺ کاربند تھے، چنانچہ صحیحین میں یہ متواتر حدیث موجود ہے کہ
«خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ»‘‘
[7]
واضح رہے کہ سعودی عرب (اور اس کے بالتبع خلیجی ممالک کی اکثریت) بھی باضابطہ طور پر سلفیت پر ہی کاربند ہے اور یہی شرعی منہج سعودی عرب کے دستور اور سرکاری جامعات میں اختیار کیا گیا ہے۔ بعض لوگ جو سعودی عرب کو حنبلی مسلک پر کاربند اور حنبلی فقہ کا مقلد قرار دیتے ہیں تو ان کا یہ دعویٰ حقائق کے منافی ہے۔ دراصل اس طرح حنفیت پر کاربند مقلدین اپنے تقلیدی رجحان کا سعودی عرب میں فروغ دکھانا چاہتے ہیں۔ جبکہ سعودی عرب کے سرکاری ادارے، کبار علما کونسل، دار الافتا، عدالتیں اور قانونی دستاویزات ، خطابات اور جامعات میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی۔ ان سرکاری اداروں کی طرف سے شائع ہونے والی کتب میں بھی صرف کتاب وسنت کو ہی میزان قرار دیا جاتا اور جملہ علماے اسلاف (محدثین وفقہا) کی تعلیمات سے کھلا استفادہ کیا جاتا ہے ۔ حرمین شریفین اور حج وعمرہ کے موقع پر سرکاری مطبوعات اور فتاوی وارشاد کے ادارے اسی کتاب وسنت کے سلفی منہاج کی پیروی کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے مفتیانِ کرام سے جب کسی متعین امام کی فقہی تقلید کے بارے میں دریافت کیا جاتا ہے، تو ان کا جواب اس صورت حال کو پوری طرح واضح کردیتا ہے، چنانچہ مدینہ یونیورسٹی کے استاذ، محدث مدینہ شیخ عبد المحسن عباد ﷾لکھتے ہیں:
"وعلى هذا فهم لم يتخلّوا عن المذهب الحنبلي ولكنهم تخلوا عن التعصب له. وإذا وجد الدليل الصحيح على خلاف المذهب صاروا إلى ما دل عليه الدليل"[8]
’’علماے نجد نے حنبلی مذہب کو نہیں، اس کے لیے تعصّب کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اور جب صحیح دلیل مذہب حنبلی کے خلاف ہو تو وہ دلیل پر عمل کرتے ہیں۔‘‘
الغرض اسلام میں انتہاپسندی کی کوئی گنجائش نہیں ، اسلام کا مزاج اعتدال وتوازن اور توسط و وسَطیّت پرمبنی ہے، اور سلفی جو برصغیر میں اہل حدیث کے نام سے معروف ہیں ، اورخالص کتاب وسنت پر مبنی اسلام کے داعی ہیں، ان کے عقائد ونظریات میں بھی شدت وتشدد کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ چیز ان کے عقائد سے بھی واضح ہوتی ہے، اور مختلف مسائل میں ان کے رجحانات بھی اسی کے غماز وعکاس ہیں۔ جیسا کہ یہاں پہلے توازن واعتدال کی شرعی حیثیت واضح کرنے کے بعد سلفی عقائد ومسائل میں اس کی عملی مثالیں پیش کی جائیں گی۔
انتہاپسندی اور میانہ روی (وسطیت)
فی زمانہ تشدد وانتہا پسندی کے رجحانات بہ کثرت پھیلتے جارہے ہیں، واضح رہنا چاہیے کہ سلفیت کا شعار وسطیت اور میانہ روی ہے، یعنی انتہاپسندی سے گریز اور توازن واعتدال کی دعوت اور یہی اسلام کی مسلمہ خصوصیت ہے۔ اسلام ایک معتدل ووسط، میانہ رو دین ہے جس میں غلو، شدت وتشدد، سختی، خشکی، افراط وتفریط کا شائبہ تک نہیں ۔ اس توازن واعتدال کو وَسَط کی شرعی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
1.مشہور ماہر لغت ابن فارس(م395ھ) وسط کا لغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الواو والسين والطاء يدل على العدل، والنصف وأعدل الشيء أوسطه ووسطه[9]
’’وسط عدل وانصاف کا مفہوم دیتا ہے ۔ سب سے متوازن چیز وہ ہے جو سب سے زیادہ عدل اور میانہ روی پر قائم ہو۔‘‘
2. وَسْط سین پر جزم کے ساتھ ’درمیانی جگہ‘ کا مفہوم دیتا ہے، جبکہ وَسَط سین پر فتحہ کا مفہوم : ’بہترین، افضل، عدل پر قائم، دو انتہاؤں کے درمیان‘ کا ہے۔
[10]
3. قرآن کریم میں وسط، وسطیٰ، اوراوسط کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جیسے :
﴿وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا﴾ [11]’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین يا عدل پر قائم اُمت بنایا۔‘‘
4. مولانا عبد الرحمٰن کیلانی اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’امتِ وسَط سے مراد ایسا اشرف اور اعلیٰ گروہ ہے جو عدل و انصاف کی روش پر قائم ہو اور افراط و تفریط، غلو اور تخفیف سے پاک ہو اور دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو ۔‘‘
5. اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ﷾اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں:
’’١ وسط کے لغوی معنیٰ تو درمیان کے ہیں لیکن یہ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اوریہاں اسی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے یعنی جس طرح تمہیں بہتر قبلہ عطا کیا گیا، اسی طرح تمہیں سب سے افضل امت بھی بنایا گیا اور مقصد اس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو ۔‘‘
6. اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری میں مروی ہے کہ روزِ قیامت سیدنا نوح کو بلاکر ان سے پیام رسالت پہنچانے کے بارے میں پوچھا جائے گا، وہ اثبات میں جواب دیں گے، لیکن ان کی قوم اس دعوت کے پہنچنے کا انکار کردے گی، پھر اللّٰہ تعالیٰ سیدنا نوح سے گواہ لانے کا مطالبہ کریں گے:
فيقول: "محمّد وأمته، فيشهدون أنه قد بلغ."﴿وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا١ؕ﴾، فذلك قوله: ﴿وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا١ؕ﴾[12] والوسط: العدل.
[13]
’’تو نوح کہیں گے کہ محمدﷺ اور آپ کی اُمّت میری گواہی دے گی کہ نوح نے پیغام پہنچا دیا ۔ اورقرآن میں ہے کہ ’’رسول تم پر گواہی دیں گے۔‘‘ یہ مراد ہے اس آیت سے کہ ’’اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں اُمتِ وسط بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو اور رسول تم پر گواہ ہو۔‘‘ اور وسَط کا مطلب عدل ہے۔‘‘
7. احادیثِ مبارکہ میں وسَط کا لفظ متعدد بار آیا ہے، جہاں وسط سے مراد ’صراطِ مستقیم‘ ہے، جیساکہ سیدنا عبد اللّٰہ بن مسعود سے مروی اس حدیث میں ہے:
خَ
طَّ لَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: «هَذَا سَبِيلُ اللهِ»، ثُمَّ خَطَّ خُطُوطًا عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ: «هَذِهِ سُبُلٌ عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ»، ثُمَّ قَرَأَ:﴿وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ١ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ١ؕ
[14]﴾
[15]
’’ہم نبی کریم کے پاس تھے کہ آپ نے ایک لائن کھینچی، پھر فرمایا کہ یہ اللّٰہ کا راستہ ہے، پھر اس کے دائیں بائیں لائنیں کھینچیں اور کہا کہ یہ راستے ہیں ، ہر راستے کے سر پر ایک شیطان بیٹھا اس کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی کہ ’’میرا راستہ سیدھا راستہ ہے، اس کی اتباع کرو اور (دیگر) راستوں کے پیچھے مت چلو ، وہ تمہیں اللّٰہ کے راستے سے دور کردیں گے۔‘‘
8. اس حدیث میں متعدد لائنوں کے درمیان جس خط کو کھینچا گیا ، وہ صراطِ مستقیم تھا جو درمیان میں تھا، اور سیدنا جابرسے مروی حدیث میں اس کے لیے الخَطّ الأوسط کا لفظ استعمال
[16] ہوا ہے۔ یعنی صراطِ مستقیم افراط وتفریط اور شدت وتلیین کے مابین ایک راستہ ہے جس میں سراسر اعتدال ہے۔
9. اس کی مزید وضاحت سیدنا نواسؓ بن سمعان سے مروی یہ حدیث کرتی ہےکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
ضرب الله مثلا صراطًا مستقيمًا، وعلى كنفي الصراط سوران فيهما أبواب مفتحة، وعلى الأبواب ستور مرخاة، وعلى الصراط داع يدعو يقول: يا أيها الناس! اسلكوا الصراط جميعًا ولا تعرجوا، وداع يدعو على الصراط، فإذا أراد أحدكم فتح شيء من تلك الأبواب قال ويلك لا تفتحه فإنك إن تفتحه تلجه، فالصراط الإسلام والستور حدود الله، والأبواب المفتحة محارم الله، والداعي الذي على رأس الصراط كتاب الله، والداعي من فوقه واعظ الله يذكر في قلب كل مسلم»[17]
’’اللّٰہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کی مثال بیان کی ہے جس کے دونوں طرف دیواریں اور ان میں کھلے دروازے ہیں۔ ان پر پردے لٹکے ہوئے ہیں جبکہ اس راستے کے سرے پر ایک پکارنے والا ہے جو کہتا ہے کہ اس راستے پر آؤ، غلط راستوں کا انتخاب مت کرو۔ اور ایک دوسرا داعی ہے جو راستے پر کھڑا پکار رہا ہے ، جب کوئی ان دروزاوں سے پردہ ہٹانے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ روکتا ہے کہ خبردار! اس پر مت جاؤ، اگر اُن پر چلے تو گر جاؤ گے۔صراطِ مستقیم سے مراد اسلام ہے، پردے اللّٰہ کی حدیں ہیں ، کھلے دروازے اللّٰہ کی حرام کردہ چیزیں ؍ممنوع کام ہیں اور صراطِ مستقیم کے سرے پر پکارنے والی اللّٰہ کی کتاب ہے۔ اور دوسرے داعی سے مراد اللّٰہ کی طرف سے ایک نصیحت کرنے والا (ضمیر) ہے جو ہر مسلمان کے دل کو یاد دہانی کراتا رہتاہے۔‘‘
10. ’اسلام‘ صراطِ مستقیم ہے ، جیسا کہ سورۃ فاتحہ میں صراطِ مستقیم کو مغضوب علیہم:یہود اور ضالین: نصارٰی دونوں سے جدا قرار دے کرمتوسط ومعتدل راستہ قرار دیا گیا ہے۔
11. اسلام ہر مقام پر توسط واعتدال کا داعی ہے، چنانچہ برکت بھی کھانے کے وسط میں اُترتی ہے۔ امام کو اپنے درمیان میں کرنا چاہیے۔ جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ فردوس ہے جو أوسط الجنّة ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جھگڑا چھوڑنے والے کو وسطِ جنت میں گھر کی بشارت دی۔ اورزکوٰۃ میں درمیانہ مال ہی لینا چاہیے۔
12. اسلامی عقائد کا جوہر بھی وسطیت یعنی عدل وتوسط ہے، امام حسن بصری لکھتے ہیں:
"دين الله وُضع فوق التقصير ودون الغلوّ"[18]
’’اللّٰہ کا دین ، نقص وکمی سے اونچا اور شدت و انتہا سے نیچے بنایا گیا ہے۔‘‘
13. نامور تابعی فقیہ ، امام عامر شعبی (م 100ھ)لکھتے ہیں:
"أحب أهل بيت نبيك ولا تكن رافضيا، واعمل بالقرآن ولا تكن حروريا، واعلم أن ما أصابك من سيئة فمن نفسك ولا تكن قدريا، وأطع الإمام وإن كان عبدًا حبشيا ولا تكن خارجيا، وقِف عند الشبهات ولا تكن مرجيا، وأحب صالح بني هاشم ولا تكن خشبيا، وأحب من رأيته يعمل الخير وإن كان أخرم سنديا." [19]
’’ اپنے نبی ﷺکے اہل بیت سے محبت کر اور رافضی مت بن، قرآن پر عمل کر او رحروری نہ ہوجا،اور جان لے کہ جو بھی تجھے مشکل آتی ہے تو تیرے اپنے عمل کی بنا پر ہے، اور ’قدری‘ نہ بن۔حاکم کی اطاعت کر اگر چہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اور خارجی مت بن۔ شکوک وشبہات کو چھوڑ دے اور مرجئی نہ ہو جا۔ بنو ہاشم میں سے نیک افراد سے محبت کر اور خشبی (وہ غالی رافضی جو امام معصوم کے بغیر لڑنے کے قائل نہیں) نہ ہوجا۔ اور ہر نیکوکار سے محبت کر، اگر چہ وہ ناقص اور عیب دار ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
14.شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
فإن الفرقة الناحية أهل السنة والجماعة يؤمنون بذلك، كما يؤمنون بما أخبر الله به في كتابه من غير تحريف ولا تعطيل، ومن غير تكييف ولا تمثيل، بل هم الوسط في فرق الأمة، كما أن الأمة هي الوسط في الأمم فهم وسط في باب صفات الله تعالى بين أهل التعطيل الجهمية وأهل التمثيل المشبهة. وهم وسط في باب أفعال الله بين الجبرية والقدرية وغيرهم، وفي باب وعيد الله بين المرجئة والوعيدية من القدرية وغيرهم، وفي باب أسماء الإيمان والدين بين الحرورية والمعتزلة وفي أصحاب رسول الله ﷺ بين الرافضة والخوارج[20]
’’فرقہ ناجیہ اہل السنّہ والجماعہ اِن باتوں پر ایمان رکھتے ہیں، جس طرح وہ ہر اس بات پر ایمان رکھتے ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے، بلاکسی تحریف وتعطیل اور کیفیت وتمثیل کے بلکہ وہ اُمت کے گروہوں میں وسَط ہیں جیسا کہ یہ امت محمدیہ دیگر امتوں کی وسط ہے۔ اہل السنّہ اللّٰہ کی صفات میں تعطیل وتمثیل کرنے والوں کے درمیان ہیں، اللّٰہ کے افعال میں جبریہ وقدریہ کے مابین ہیں، اللّٰہ کی وعید میں مرجئہ اور وعیدی قدریہ کے مابین ہیں، دین او رایمان کے ناموں میں حروریہ اور معتزلہ کے درمیان ہیں، اور صحابہ کرام کے بارے میں رافضہ اور خوارج کے مابین ہیں۔ ‘‘
15. مزید اہل السنہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
"فهذه الفرقة الناجية أهل السنة والجماعة هي وسط في النحل كما أن ملة الإسلام وسط في الملل"[21]
’’فرقہ ناجیہ ’اہل السنّہ والجماعہ‘اسی طرح ہی مسالک ومکاتبِ فکر کے وسط میں ہے، جس طرح ملت اسلام ، دیگر ملتوں کے وسط میں ہے۔‘‘
اسلام میں شد ت پسندی نہیں ہے!
شدت ،تشدد اور انتہاپسندی کے لئے یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں : غلُوّ، عُنف، تَطرُّف
اور اسلام ان سب رویّوں کی مذمت کرتاہے ، یعنی انتہاپسندی کی ہر صورت کا مخالف ہے۔ قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ میں اُن کی مخالفت وتردید بیان ہوئی ہے۔
1. غلو کا مطلب حد سے تجاوز کرنا جیسے کہ سورۃ النساء میں ہے:
﴿يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ﴾(آیت 171)
[22]
’’اے اہل کتاب! اپنے دین میں حد سے نہ گزرو اور اللّٰہ پر مت کہو مگر حق۔‘‘
یہی جملہ سورۃالمائدة میں بھی بیان ہوا ہے :
﴿يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ ...﴾ (آیت 77 )
’’کہہ دے اے اہل کتاب! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو۔‘‘
2. سورۃ النساء والی آیت کی تفسیر میں مولانا عبد الرحمٰن کیلانی لکھتے ہیں:
’’ غلو کا معنیٰ ایسا مبالغہ ہے جو غیر معقول ہو ۔ خواہ یہ مبالغہ افراط کی جانب ہو یا تفریط کی جانب۔ جیسے عیسیٰ کے متعلق نصاریٰ کا یہ عقیدہ تھا کہ اللّٰہ کے بیٹے تھے اور اس کے بالکل برعکس یہود کا یہ عقیدہ کہ وہ نبی نہ تھے بلکہ یہود (معاذ اللّٰہ ) اُنہیں ولد الحرام سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر انہوں نے آپ کو سولی پر چڑھانے میں اپنی کوششیں صرف کر دیں ۔ گویا ایک ہی رسول کے بارے میں غلو کی بنا پر اہل کتاب کے دونوں بڑے فرقے گمراہ ہو گئے۔‘‘
3. سورۃ النساء والی آیت کی تفسیر میں حافظ عبد السلام بھٹوی ﷾لکھتے ہیں:
’’بعض علمانے لکھا ہے کہ یہ خطاب یہود و نصاریٰ دونوں سے ہے، اس لیے کہ ’ غلو‘ راہ ِاعتدال کے چھوڑ دینے کا نام ہے اور یہ افراط و تفریط (زیادتی اور کمی) دونوں صورتوں میں ہے۔ ایک طرف نصاریٰ نے مسیح کے بارے میں افراط سے کام لے کر ان کو اللّٰہ کا بیٹا قرار دے رکھا تھا، تو دوسری طرف یہود نے مسیح سے متعلق یہاں تک تفریط برتی کہ ان کی رسالت کا بھی انکار کر دیا، قرآن نے بتایا کہ یہ دونوں فریق غلو کر رہے ہیں۔ اعتدال کی راہ یہ ہے کہ عیسیٰ نہ تو اللّٰہ کے بیٹے ہیں کہ ان کو معبود بنا لیا جائے اور نہ جھوٹے نبی ہیں، بلکہ وہ اللّٰہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
4. اسی آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف ﷾ لکھتے ہیں:
’’غلو کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینا۔ جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہ انہیں رسالت وبندگی کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کردیا اور اُن کی اللّٰہ تعالیٰ کی طرح عبادت کرنے لگے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ کے پیروکاروں کو بھی غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم بنا ڈالا اور ان کو حرام وحلال کے اختیار سے نواز دیا۔ ...اللّٰہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل کتاب کو دین میں اسی غلو سے منع فرمایا ہے۔ نبی ﷺ نے بھی عیسائیوں کے اس غلو کے پیش نظر اپنے بارے میں اپنی امت کو متنبہ فرمایا:
«لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ»[23] ’
’تم مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم کو بڑھایا، میں تو صرف اللّٰہ کا بندہ ہوں، پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہنا۔‘‘ لیکن افسوس اُمتِ محمدیہ اس کے باوجود بھی اس غلو سے محفوظ نہ رہ سکی جس میں عیسائی مبتلا ہوئے اور امت محمدیہ نے بھی اپنے پیغمبر کو بلکہ نیک بندوں تک کو خدائی صفات سے متصف ٹھہرا دیا جو دراصل عیسائیوں کا وطیرہ تھا۔ ‘‘
5. سیدنا ابن عباس سے مروی ہے کہ ’’حج کے دوران نبی کریمﷺ نے رمی جمار کے لئے برابر کنکریوں کو جمع فرمایا اور انہیں ہاتھ میں لے کر فرمانے لگے:
«أَمْثَالَ هٰؤُلَاءِ، فَارْمُوا» ثُمَّ قَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ»[24]
’’ان جیسی کنکریاں مارو۔‘‘پھر فرمایا:’’لوگو!دین میں غلو (حد سے بڑھنے )سے پرہیز کرو۔تم سے پہلے لوگوں کودین میں غلو ہی نے تباہ کیا ہے۔‘‘
6. سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْءٍ مِنَ الدُّلْجَةِ»[25]
’’بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا ( اور اس کی سختی نہ چل سکے گی ) پس اپنے عمل میں پختگی اختیار کرو۔ اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتو اور خوش ہو جاؤ ( کہ اس طرز عمل سے تم کو دارین کے فوائد حاصل ہوں گے ) اور صبح شام اور کسی قدر رات میں (عبادت سے ) مدد حاصل کرو۔ ‘‘
حافظ ابن رجب اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
والتسديد: العمل بالسداد، وهو القصد والتوسط في العبادة، فلا يقصر فيما أمر به، ولا يتحمل منها ما لا يطيقه[26]
’’سیدھا کرنے سے مراد عمل میں سدھار ہے۔ یعنی عبادات میں توسط اور میانہ روی اختیار کرنا، جس کا حکم ہے اس سے کمی نہ کرنا اور طاقت سے زیادہ کا بوجھ نہ اُٹھانا۔‘‘
7. علامہ ابن تیمیہ غُلوّ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الغلو مجاوزة الحد: مجاوزة بأن يزاد في الشيء في حمده أو ذمه على ما يستحق ونحو ذلك[27]
’’غلو سے مراد ’حد سے تجاوز‘ کرنا ہے۔ یعنی کسی شے کی تعریف یا مذمت میں اس سے اضافہ کرنا جس کی وہ مستحق ہے۔‘‘
8. عُنف اس شدت وسختی کو کہتے ہیں جو نرمی اور سہولت کے برعکس
[28] ہو۔ جیسا کہ فرمانِ رسالت ہے:
« يَا عَائِشَةُ! إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ وَمَا لَا يُعْطِي عَلَى مَا سِوَاهُ»[29]
’’ اے عائشہ! بے شک اللّٰہ تعالیٰ نرمی والا ہے اورنرمی ہی کو پسند کرتا ہے اور نرمی کی بنا پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو درشت مزاجی کی بنا پر عطا نہیں فرماتا، وہ اسکے علاوہ کسی اور بات پر اتنا عطا نہیں فرماتا ۔‘‘
اسی طرح آپﷺ نے فرمایا:
« إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَبْعَثْنِي مُعَنِّفًا وَلَكِنْ بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُيَسِّرًا»[30]
’’بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ مجھے تو تعلیم دینے والا اورآسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
9.
تَطَــرُّف سے مراد:غلوّ ، مبالغہ اورکسی شے کے انتہائی پہلو کو اختیار کرلینا۔
[31]
غلو اور عنف کی مذمت زبان رسالت سے اوپر درج کی گئی ہے، جبکہ تطرف یعنی انتہاپسندی کا لفظ عربی زبان میں انہی مذموم معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔جبکہ اسلام نے درجنوں مقامات پر نرمی کی تلقین کی ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں سیدنا موسیٰ کو دربار فرعون میں جاتے ہوئے حکم ربانی ہوا:
﴿فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى﴾[32]
’’پس اس سے بات کرو، نرم بات، شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرلے، یا ڈر جائے۔‘‘
مولانا عبد الرحمن کیلانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’فرعون سے جو بات کہیں نرمی کے لہجہ میں کہیں ۔ کیونکہ سختی سے بات کرنے سے بسا اوقات الٹا اثر ہوتا ہے۔ مخاطب اصل بات سمجھنے کی بجائے طرزِ تخاطب اور لہجہ کی بنا پر ضد اور مخالفت پر اتر آتا ہے۔ گویا تبلیغ اور دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لئے یہ ایک نہایت اہم سبق ہے۔‘‘
اور ایک فرمانِ رسالت ہے:
«إنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ»[33]
’’نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے، اس کو زینت بخش دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نرمی نکال دی جاتی ہے ،اسے معیوب کر دیتی ہے۔‘‘
’ارہاب‘ کا مفہوم
اسلام نے توازن واعتدال کے لئے وسط، وسطیٰ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور اس کی ہرپہلو سے ترغیب دی ہے، جبکہ شدت پسندی کے لئے غلو اورعنف وغیرہ کے لفظ بولے ہیں، اور ان کی مذمت کی ہے۔ انہی معانی سے ملتا جلتا لفظ إرهاب ہے۔عربی زبان میں اس رَهَب کا مطلب ’ڈرانا، خوف دلانا او ردوسرے کو متفکر کرنا‘
[34] ہے۔ اسی لفظ کو’دہشت گردی‘ کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں باره مقامات پر استعمال ہوا ہے۔اس کو تین بڑے معانی میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1. اللّٰہ سے ڈر اور اس کی خشیت پر 5؍آیات
2. ڈر میں زیادتی کی بناپر عبادت میں غلو اختیار کرنا 4؍آیات
3. لوگوں میں رعب اور خوف قائم کرنا 3؍آیات
اجمالاً یہ پانچ آیات مندرجہ ذیل ہیں، جن میں پہلا مطلب پایا جاتا ہے :
1.
﴿وَ اِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ﴾[35] ’اور صرف مجھ سے ہی ڈرو۔‘‘
2.
﴿فَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ﴾[36] ’’پس صرف مجھ سے ہی ڈرو۔‘‘
3.
﴿لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُوْنَ﴾[37] ’’وہ اپنے ربّ سے ہی ڈرتے ہیں۔‘‘
4.
﴿وَ يَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا﴾[38] ’’اوروہ ہمیں اُمید اور خوف (کی ملی جلی کیفیت )سے پکارتے ہیں۔‘‘
5.
﴿وَّ اضْمُمْ اِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ﴾[39] ’’اور خوف سے (بچنے کے لئے) اپنے بازو اپنی طرف ملا لے۔‘‘
جبکہ ڈر میں زیادتی کی بنا پر عبادت میں ’رہبانیت‘ کے معنی میں چار آیات آئى ہیں:
1.
﴿مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَ رُهْبَانًا﴾[40]
’’ ان میں علماء اور عبادت کے لئے گوشہ نشین درویش پائے جاتے ہیں۔‘‘
2.
﴿اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾[41]
’’ان لوگوں نے اللّٰہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو ربّ بنایا ہے ۔‘‘
3.
﴿اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ﴾[42]
’’ بہت سارے عالم اور راہب ؍درویش لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں ۔‘‘
4.
﴿وَ رَهْبَانِيَّةَا۟بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ ﴾[43]
’’رہبانیت (ترکِ دنیا) تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کرلی ، ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا ۔‘‘
تیسرے معنی یعنی خوف ودہشت او ررعب قائم کرنے کے معنی میں آنے والی آیات تین ہیں:
1.
﴿سَحَرُوْۤااَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ﴾[44]
’’ تو لوگوں کی نگاہوں پر جادو کردیا اور اُن پر دہشت غالب کردی۔‘‘
2.
﴿لَاَانْتُمْ اَشَدُّ رَهْبَةً فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ﴾[45]
’’(مسلمانو!) تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں بہ نسبت اللّٰہ کی ہیبت کے بہت زیادہ ہے۔‘‘
3.
﴿وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ﴾[46]
’’تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی مقدور بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کو تیار رکھ کر اس سے تم اللّٰہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ رکھو ۔‘‘
قرآن كریم میں ’رہب‘ کے مذکورہ اطلاقات کا جائزہ لیا جائے تو پہلی پانچ آیات میں اس کو مثبت مفہوم میں لیا گیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ اسی سے ’رہبت‘ کرو۔اگلے چار اطلاقات ان معانی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو عیسائیوں نے رہبانیت کے نام پر خرافات گھڑ لی تھیں، پھر آیات10 اور 11 میں اللّٰہ تعالیٰ نے اسے کفار کا وصف بتلایا ہے کہ وہ ڈر گئے۔ جبکہ آخری آیت میں اہل اسلام سے اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ اتنی تیاری رکھو کہ دشمنوں پر اپنا خوف اور رعب قائم کردو۔ چنانچہ علم ہوا کہ رہب وارہاب کے الفاظ مثبت اور منفی دونوں معانی کے لئے مستعمل ہیں، اور ’ارہاب‘ کو صرف منفی معنی میں استعمال کرنا قرآنی استعمال کے مخالف ہے۔ اس لئے دہشت گردی او رانتہاپسندی کی مذمت کے لئے ان اصطلاحات کا سہارا لینا چاہیے جو اسلامی لٹریچر میں صرف منفی مطلب کے لئے استعمال ہوئی ہیں (جیسے غلو اور عُنف وغیرہ )اور دین نے مسلمانوں کو ان سے روکا ہے۔ الغرض اصطلاح ’ارہاب ‘کے بارے میں بھی ہمیں انتہاپسندی کو ترک کرنا چاہیے ۔
اسلام میں توازن واعتدال کے مظاہر
1. اسلام سراسر توازن واعتدال کو پروان چڑھاتا ہے، اور یہ توازن زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتا ہے۔ چنانچہ یہ مشہور واقعہ اسی طرف رہنمائی کرتا ہے، جو سیدنا انسؓ بن مالک سے مروی ہے :
جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ ﷺ فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا فَقَالُوا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ. قَالَ أَحَدُهُمْ: أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا. فَجَاءَ رَسُولُ الله ﷺ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: «أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَالله إِنِّي لَأَخْشَاكُمُ لِله وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي».
[47]
’’تین حضرات ( سیدنا علی بن ابی طالب ، عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون ) نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب اُنہیں حضور اکرم ﷺکا عمل بتایا گیاتو گویا اُنہوں نے اپنی روز مرہ کی عبادت کو انتہائی کم کم تر سمجھا اور کہا کہ ہم کہاں اور نبی ﷺ کہاں!! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے عزم کیا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا ۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا ۔ پھر آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور ان سے پوچھا :کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللّٰہ تعالیٰ کی قسم ! اللّٰہ ربّ العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گا ر ہوں لیکن میں روزے رکھتا ہوں اور کبھی نفلی روزے چھوڑ دیتا ہوں۔ رات کی نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کر تا ہوں ۔ میری سنت سے جس نے بے رغبتی کی، وہ مجھ سے نہیں ہے ۔‘‘
2. نبی کریمﷺ نے مؤاخاتِ مدینہ میں سیدنا سلمانؓ اورسیدنا ابو درداؓ کے مابین بھائی چارہ قائم کردیا:
فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبـَذِّلَةً، فَقَالَ لَهَا: مَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: أَخُوكَ أَبُوالدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا، فَجَاءَ أَبُوالدَّرْدَاءِ، فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ فَإِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ، فَأَكَلَ، فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَهَبَ أَبُوالدَّرْدَاءِ يَقُومُ، فَقَالَ: نَمْ، فَنَامَ، ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ، فَقَالَ: نَمْ، فَلَمَّا كَانَ آخِرُ اللَّيْلِ، قَالَ سَلْمَانُ: قُمِ الآنَ، قَالَ: فَصَلَّيَا، فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ: إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «صَدَقَ سَلْمَانُ»[48]
’’ایک مرتبہ سلمان فارسیؓ، ابو درداءؓکی ملاقات کے لئے تشریف لائے اور اُمّ درداءرضی اللّٰہ عنہا کو بڑی خستہ حالت میں دیکھااور پوچھا: کیا حال ہے ؟ وہ بولیں تمہارے بھائی ابو درداءکو دنیا سے کوئی سروکار نہیں ۔ پھر ابو درداءتشریف لائے تو سلمان نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا ۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ کھایئے ، میں روزے سے ہوں ۔ سلمان فارسی بولے کہ میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا، جب تک آپ بھی نہ کھائیں ۔ چنانچہ ابودرداءنے بھی کھایا، رات ہوئی تو ابو درداء نماز پڑھنے کی تیاری کرنے لگے ۔ سلمان نے کہاکہ سو جایئے تووہ سوگئے ، (کچھ وقت گزرا )تو وہ پھر نماز تہجد کے لئے اُٹھے، تو سلمان نے کہا: سوجایئے (تو وہ سو گئے)پھر جب آخر رات ہوئی تو سلمان ؓنے کہا :ا ب اُٹھیے ، بعد ازاں دونوں نے نماز پڑھی ۔ اس کے بعد سلمان نے کہا کہ بلا شبہ تمہارے ربّ کا تم پر حق ہے اور تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے ، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے ، پس سارے حق داروں کے حقوق ادا کرو ۔ اس کے بعد وہ نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آنحضرت ﷺنے فرمایاکہ سلمان نے سچ کہا ہے۔‘‘
3. مذكوره بالا واقعات معاشرتی زندگی اور عبادات میں توازن واعتدال کا درس دیتے ہیں،عبادات میں توسط کی ایک اور اہم مثال یہ واقعہ بھی ہے ، جسے سیدنا انس بن مالک نے روایت کیا ہے:
دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ فَإِذَا حَبْلٌ مَمْدُودٌ بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ فَقَالَ: «مَا هٰذَا الْحَبْلُ؟» قَالُوا: هٰذَا حَبْلٌ لِزَيْنَبَ. فَإِذَا فَتَرَتْ تَعَلَّقَتْ. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «لَا، حُلُّوهُ لِيُصَلِّ أَحَدُكُمْ نَشَاطَهُ، فَإِذَا فَتَرَ فَلْيَقْعُدْ»[49]
’’نبی کریم ﷺمسجد میں تشریف لے گئے۔ آپ کی نظر ایک رسّی پر پڑی جو دو ستونوں کے درمیان تنی ہوئی تھی۔ دریافت فرمایا کہ یہ رسّی کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کی کہ یہ حضرت زینب ؓنے باندھی ہے، جب وہ ( نماز میں کھڑی کھڑی ) تھک جاتی ہیں تو اس کا سہارا لے لیتی ہیں۔ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ نہیں یہ رسّی نہیں ہونی چاہیے، اسے کھول ڈالو۔ تم میں ہر شخص کو چاہیے کہ جب تک دل لگے نماز پڑھے، تھک جائے تو بیٹھ جائے۔‘‘
اس حدیث پر امام بخاری نے یہ عنوان قائم کیا ہے: باب ما یُکره من التشدید في العبادة یعنی ’’عبادت میں شدت اختیار کرنا ناپسندیدہ ہے۔ ‘‘
4. ایک عورت ساری رات عبادت کرتی رہتی، نبی کریم ﷺنے اسے، اس عمل سے روک دیا۔سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ
كَانَتْ عِنْدِي امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ:« مَنْ هَذِه؟»ِ قُلْتُ: فُلَانَةُ لَا تَنَامُ بِاللَّيْلِ، فَذُكِرَ مِنْ صَلَاتِهَا. فَقَالَ: «مَهْ، عَلَيْكُمْ مَا تُطِيقُونَ مِنْ الْأَعْمَالِ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا».
[50]
’’میرے پاس بنو اسد کی ایک عورت بیٹھی تھی۔ نبی کریم ﷺتشریف لائے تو ان کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ فلاں خاتون ہیں جو رات بھر نہیں سوتیں۔ ان کی نماز کا آپ کے سامنے ذکر کیا گیا۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ بس تمہیں صرف اتنا ہی عمل کرنا چاہیے جتنے کی تم میں طاقت ہو۔ کیونکہ اللّٰہ تعالی تو ( ثواب دینے سے ) تھکتا ہی نہیں ،تم ہی عمل کر تے کرتے تھک جاؤ گے۔‘‘
5. خرچ کرنے میں بھی اسلام اسی توسط واعتدال کا حکم دیتا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَ لَمْ يَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا﴾[51]
’’اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل بلکہ ان کا خرچ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔‘‘
مفسر قرآن مولانا عبد السلام بھٹوی ﷾ اپنی تفسیر میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اسراف کا اطلاق کسی کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے پر ہوتا ہے، مثلاً کھانے پینے یا لباس یا مکان یا شادی بیاہ وغیرہ پر بےدریغ خرچ کر دینا ۔ایک بلب کی ضرورت ہو تو زیادہ بلب لگا دینا، تھوڑے پانی سے کام چلتا ہو تو بےدریغ پانی بہا دینا۔یا اپنی ہمت اور مقدور سے زیادہ خرچ کر دینا ،پھر قرض اتارتے رہنا یا مانگنا شروع کر دینا۔ ایسی فضول خرچیوں سے اللّٰہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ پھر اسراف کی ایک قسم تبذیر ہے، جس کا معنی ہے بلاضرورت خرچ کرنا، مثلاً دن کو بھی گلی میں بلب جلائے رکھنا، یا پانی کی ٹونٹی کھلی چھوڑ دینا۔ اسی طرح ناجائز کاموں میں خرچ کرنا بھی تبذیر ہے، جیسے شراب، زنا، جوئے، گانے بجانے یا آتش بازی وغیرہ ایسے کاموں میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ اسراف کی ضدقتورہے، جوقَتَرَ یَقْتُرُ قَتْرًا وَ قُتُوْرًاسے ہے۔ باب’ افعال‘اور’تفعیل‘سےإِقْتَارٌ اور تَقْتِیْرٌ بھی اسی معنی میں آتا ہے، یعنی خرچ میں تنگی کرنا، شدید بخل کہ مقدور ہوتے ہوئے بھی ضرورت سے کم خرچ کرنا اور مال کو جوڑ جوڑ کر رکھنا، اپنی ذات اور اہل و عیال کی جائز ضروریات میں بھی بخل کرنا۔ اسراف اور تقتیر کے درمیان کی صفت کا نام اقتصاد (میانہ روی) ہے، یعنی اتنا خرچ کرنا جتنی ضرورت ہے اور جتنی ہمت ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اسے بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ قَوَامٌدو چیزوں کے عین درمیان کو کہتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورۃ انعام (١٤٢)، اعراف (٣١) اور بنی اسرائیل (٢٦، ٢٩)۔‘‘
مفسرقرآن مولانا عبدالرحمٰن کیلانی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اسراف اور بخل کے درمیان کی صفت کا نام اقتصاد یا قصد ہے اور اسی صفت کو اسلام نے پسند کیا ہے۔ اقتصاد یہ ہے کہ انسان اپنی جائز ضرورتوں پر خرچ اور اتنا ہی خرچ کرے جتنا ضرور ہو نہ کم نہ زیادہ۔ حتیٰ کہ اگر اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو تو بھی یہی بات مدنظر رکھنی چاہئے۔ چنانچہ رسول اللّٰہ ﷺنے فرمایا کہ ’’صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد انسان خود محتاج نہ ہوجائے۔‘‘
[52]اور اعتدال کی روش اختیار کرنے کے بعد اگر کسی کے پاس مال بچ رہتا ہے تو اسے اپنے اقربا اور دوسرے حاجت مندوں کی ضرورتوں پر خرچ کرنا چاہئے۔‘‘
عقائد میں توسط واعتدال
اسلام ہر پہلو سے توازن واعتدال کا درس دیتا ہے، یہ اعتدال اسلامی تعلیمات میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ عقائد، ارکانِ ایمان ، عبادات و معاملات اور نکاح وطلاق میں اس کی دسیوں مثالیں موجو دہیں۔ عقائد ونظریات چونکہ انسانی اعمال کی اساس ہیں، اس لئے اسلامی عقائد میں یہ توازن وتوسط ، عملی رویّہ کی بنیاد ہے۔ چنانچہ ذکر ہوچکا ہے کہ مسلمان مغضوب علیہم یعنی یہود اور ضالین یعنی نصاری ٰ کے مابین ہیں۔ اور اسلام نام ہی صراطِ مستقیم کا ہے جو مختلف انتہائی راستوں کے مابین ہے۔ سیدنا عیسیٰ اور سیدہ مریم علیہما السلام کے بارے میں اسلامی عقیدہ جو مبنی بر حق اور قرآن کریم میں بیان ہوا ہے، اسے سیدنا جعفر ؓطیار سے سن کرنجاشی یہ کہہ اُٹھا تھا کہ اس میں کوئی افراط وتفریط نہیں اور یہی عین حق ہے۔ اسی طرح امام شعبی اور اما م ابن تیمیہ رحمہم اللّٰہ کی زبانی مختلف فرقوں کے رجحانات کے مابین متوسط اعتقاد کا حامل اہل السنہ اور سلفیہ کو قرار دیا گیا ہے۔
ماضی میں کبیرہ گناہ کے ارتکاب کے مسئلے پر مسلمانوں میں کئی فرقے بنے۔ معتزلہ اور خوارج کا موقف یہ تھا کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب خارج از اسلام ہے، اور آخرت میں وہ جہنمی ہے۔ مرجئہ اس کے بالمقابل اس عقيده كے قائل ہیں کہ کبیرہ گناہ کرنے والے کے ایمان میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ جبکہ سلفیہ اور اہل السنہ والجماعہ کا مشہور موقف ’دونوں کے مابین‘ ہے۔ چنانچہ عقائد کی مستند ترین کتاب شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے :
فَهَؤُلَاءِ فِي طَرَفٍ، وَالْخَوَارِجُ فِي طَرَفٍ، فَإِنَّهُمْ يَقُولُونَ نُكَفِّرُ الْمُسْلِمَ بِكُلِّ ذَنْبٍ، أَوْ بِكُلِّ ذَنَبٍ كَبِيرٍ، وَكَذَلِكَ الْمُعْتَزِلَةُ الَّذِينَ يَقُولُونَ يَحْبَطُ إِيمَانُهُ كُلُّهُ بِالْكَبِيرَةِ، فَلَا يَبْقَى مَعَهُ شَيْءٌ مِنَ الْإِيمَانِ. لَكِنَّ الْخَوَارِجَ يَقُولُونَ: يَخْرُجُ مِنَ الْإِيمَانِ وَيَدْخُلُ فِي الْكُفْرِ! وَالْمُعْتَزِلَةُ يَقُولُونَ: يَخْرُجُ مِنَ الْإِيمَانِ وَلَا يَدْخُلُ فِي الْكُفْرِ، وَهَذِهِ الْمَنْزِلَةُ بَيْنَ الْمَنْزِلَتَيْنِ!! وَبِقَوْلِهِمْ بِخُرُوجِهِ مِنَ الْإِيمَانِ أَوْجَبُوا لَهُ الْخُلُودَ فِي النَّارِ!... أَنَّ أَهْلَ السُّنَّةِ مُتَّفِقُونَ كُلُّهُمْ عَلَى أَنَّ مُرْتَكِبَ الْكَبِيرَةِ لَا يَكْفُرُ كُفْرًا يَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّةِ بِالْكُلِّيَّةِ، وَأَهْلُ السُّنَّةِ أَيْضًا مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُ يَسْتَحِقُّ الْوَعِيدَ الْمُرَتَّبَ عَلَى ذَلِكَ الذَّنْبِ، كَمَا وَرَدَتْ بِهِ النُّصُوصُ، لَا كَمَا يَقُولُهُ الْمُرْجِئَةُ مِنْ أَنَّهُ لَا يَضُرُّ مَعَ الْإِيمَانِ ذَنْبٌ، وَلَا يَنْفَعُ مَعَ الْكُفْرِ طَاعَةٌ! وَإِذَا اجْتَمَعَتْ نُصُوصُ الْوَعْدِ الَّتِي اسْتَدَلَّتْ بِهَا الْمُرْجِئَةُ، وَنُصُوصُ الْوَعِيدِ التي استدلت بها الخوارج والمعتزلة، تبينت لَكَ فَسَادُ الْقَوْلَيْنِ![53]
’’مرجئہ ایک انتہا پر ہیں اور خوارج دوسری انتہا پر۔ خوارج کا کہنا ہے کہ ہر گناہ یا کبیرہ گناہ کی بناپر ہم مسلمان کی تکفیر کریں گے، اور ایسے ہی معتزلہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہر کبیرہ گناہ کے ساتھ ایمان ضائع ہوجاتا ہے اورایمان کا کچھ بھی حصہ باقی نہیں رہتا۔ تاہم خوارج کہتے ہیں کہ وہ شخص اسلام سے نکل کر کفر میں داخل ہوگیا اور معتزلہ کہتے ہیں کہ ایمان سے تو نکل گیا لیکن کفر میں داخل ہونے کی بجائے منزلہ بین المنزلتین میں ہے۔اور دونوں کا موقف ہے کہ ایمان سے نکل جانے کی بنا پر اب وہ آخرت میں دائمی جہنمی ہوگا۔جبکہ اہل السنّہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرتکبِ کبیرہ ایسا کافر نہیں جو کلی طور پر ملت ِاسلامیہ سے خارج ہو جائےاو راہل السنّہ کا اس پر بھی اتفاق ہےکہ گناہ کرنے کی بنا پر وہ اس وعید کا مستحق ہے جو احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔ نہ کہ مرجئہ کی طرح کہ ایمان کے ساتھ گناہ کا کوئی نقصان ہی نہیں ہوتا او ر کفر کے ساتھ طاعت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اور جب آپ وعدۂ نجات کی نصوص کو جن سے مرجئہ استدلال کرتے ہیں اور وعید وسزا والی نصوص کو اکٹھا کریں گے تو دونوں کے موقفوں کی غلطی آپ پر واضح ہوجائے گی۔‘‘
معتزلہ او رخوارج کا یہ موقف کہ گناہ گار شخص لازمی جہنمی ہے، اس موقف سے بھی اہل السنّہ کو اتفاق نہیں اور وہ کہتے ہیں کہ گناہ نہ تو زندگی میں کسی مسلمان کے کافر ہونے کی دلیل ہیں اور نہ ہی یہ اس کے لازمی جہنم میں جانے کی وجہ ہے، اس سلسلے میں اہل السنّہ صحیح بخاری کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ
أَنَّ رَجُلًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ كَانَ اسْمُهُ عَبْدَ اللَّهِ وَكَانَ يُلَقَّبُ حِمَارًا وَكَانَ يُضْحِكُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ قَدْ جَلَدَهُ فِي الشَّرَابِ، فَأُتِيَ بِهِ يَوْمًا فَأَمَرَ بِهِ فَجُلِدَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ: اللَّهُمَّ الْعَنْهُ مَا أَكْثَرَ مَا يُؤْتَى بِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «لَا تَلْعَنُوهُ فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»[54]
’’نبی کریم ﷺکے زمانہ میں ایک شخص، جس کا نام عبداللّٰہ تھا اور ’حمار‘ ( گدھا) کے لقب سے پکارے جاتے تھے، وہ آنحضرت ﷺکو ہنساتے تھے اور آنحضرت ﷺنے اُنہیں شراب پینے پر مارا تھا تو اُنہیں ایک دن لایا گیا اور آنحضرت ﷺنے اُن کے لیے حکم دیا اور اُنہیں ماراگیا۔ حاضرین میں ایک صاحب نے کہا: اللّٰہ اس پر لعنت کرے! کتنی مرتبہ تجھے اس سزا کےلئے لایا جاتا ہے۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ اس پر لعنت نہ کرو واللّٰہ ،میں نے اس کے متعلق یہی جانا ہے کہ یہ اللّٰہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اس واقعہ اور فرمان سے علم ہوا کہ گناہ گار شخص کے لئے لازمی نہیں کہ اس کو کافر قرار دیا اور اس پر لعنت کی جائے۔ ایسے ہی کسی گناہ گار کے جہنمی ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرنا چاہئے، جیسا کہ نبی مکرمﷺ نے فرمایا:
«كَانَ رَجُلَانِ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ مُتَوَاخِيَيْنِ فَكَانَ أَحَدُهُمَا يُذْنِبُ، وَالْآخَرُ مُجْتَهِدٌ فِي الْعِبَادَةِ، فَكَانَ لَا يَزَالُ الْمُجْتَهِدُ يَرَى الْآخَرَ عَلَى الذَّنْبِ، فَيَقُولُ: أَقْصِرْ، فَوَجَدَهُ يَوْمًا عَلَى ذَنْبٍ، فَقَالَ لَهُ: أَقْصِرْ، فَقَالَ: خَلِّنِي وَرَبِّي! أَبُعِثْتَ عَلَيَّ رَقِيبًا؟! فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ- أَوْ- لَا يُدْخِلُكَ اللَّهُ الْجَنَّةَ، فَقَبَضَ أَرْوَاحَهُمَا، فَاجْتَمَعَا عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَقَالَ لِهَذَا الْمُجْتَهِدِ: أَكُنْتَ بِي عَالِمًا؟ أَوْ كُنْتَ عَلَى مَا فِي يَدِي قَادِرًا؟ وَقَالَ لِلْمُذْنِبِ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِي، وَقَالَ لِلْآخَرِ: اذْهَبُوا بِهِ إِلَى النَّارِ». قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَوْبَقَتْ دُنْيَاهُ وَآخِرَتَهُ![55]
” بنو اسرائیل میں دو آدمی آپس میں بھائی بنے ہوئے تھے ۔ ایک گناہوں میں ملوث تھا جب کہ دوسرا عبادت میں کوشاں رہتا تھا ۔ عبادت میں راغب جب بھی دوسرے کو گناہ میں دیکھتا تو اسے کہتا کہ باز آ جا ۔ آخر ایک دن اس نے دوسرے کو گناہ میں پایا تو اسے کہا کہ باز آ جا ۔ اس نے کہا : مجھے رہنے دے ، میرا معاملہ میرے ربّ کے ساتھ ہے ،کیا تو مجھ پر کوئی چوکیدار بنا کر بھیجا گیا ہے ؟ تو اس نے کہا : اللّٰہ کی قسم ! اللّٰہ تجھے معاف نہیں کرے گا یا تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا ۔ چنانچہ وہ دونوں فوت ہو گئے اور رب العالمین کے ہاں جمع ہوئے ، تو اللّٰہ نے عبادت میں کوشش کرنے والے سے فرمایا: ” کیا تو میرے متعلق ( زیادہ ) جاننے والا تھا یا جو میرے ہاتھ میں ہے تجھے اس پر قدرت حاصل تھی ؟ اور پھر گناہ گار سے فرمایا : جا میری رحمت سے جنت میں داخل ہو جا ۔ اور دوسرے کے متعلق فرمایا : اسے جہنم میں لے جاؤ ۔ “ سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس نے ایسی بات کہہ دی جس نے اس کی دنیا اور آخرت تباہ کر کے رکھ دی ۔‘‘
سنن ابو داود کی اس حدیث پرشارح لکھتے ہیں:
’’امربالمعروف نہی عن المنکر کے مبارک اعمال میں مشغول افراد کو حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ نیز اُنھیں اپنے اعمالِ خیر پر کسی طرح دھوکہ نہیں کھنا چاہیئے کہ وہ یقینا َ جنت میں چلے جائیں گے اور گنہگار مسلمانوں کے متعلق یہ وہم نہی ہونا چاہیئے کہ اللّٰہ اُنھیں معاف نہیں کرے گا یا وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ اللّٰہ عزوجل کا میزانِ عدل بڑا دقیق او رعجیب ہے۔ اللّٰہ عزوجل نے جو بھی فیصلے فرمائے اور جو فرمائے گا ،وہ عدل ہی پر مبنی ہیں ۔‘‘ (شرح دار السلام)
مذکورہ بالا احادیث سے استدلال کرنے کے بعد شارح عقیدہ طحاویہ محمد بن ابی العز حنفی لکھتے ہیں:
فَإِنَّهُ مِنْ أَعْظَمِ الْبَغْيِ أَنْ يُشْهَدَ عَلَى مُعَيَّنٍ أَنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ لَهُ وَلَا يَرْحَمُهُ بَلْ يُخَلِّدُهُ فِي النَّارِ، فَإِنَّ هَذَا حُكْمُ الْكَافِرِ بَعْدَ الْمَوْتِ.[56]
’’سب سے بڑی سرکشی اور زیادتی یہ ہے کہ کسی متعین شخص کے بارے میں یہ گواہی صادر کردی جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ نہ تو اسے معاف کریں گے اور نہ ہی رحم کریں گے، بلکہ اس کو ہمیشہ کے لئے جہنم رسید کردیں گے۔ ایسا صرف کافر کے بارے میں، اُس کی موت کے بعد کہا جاسکتا ہے۔‘‘
عقیدہ طحاویہ کے متن پر سلفیہ کے امام شیخ ابن باز یوں حاشیہ لکھتے ہیں:
أن أهل السنة والجماعة لا يكفّرون المسلم الموحد المؤمن بالله واليوم الأخر بذنب يرتكبه كالزنا وشرب الخمر والربا وعقوق الوالدين وأمثال ذلك ما لم يستحل ذلك فإن استحله كفر لكونه بذلك مكذباً لله ولرسوله خارجاً عن دينه أما إذا لم يستحل ذلك فإنه لا يكفر عند أهل السنة والجماعة بل يكون ضعيف الإيمان وله حكم ما تعاطاه من المعاصي في التفسيق وإقامة الحدود وغير ذلك[57]
’’اہل السنہ والجماعہ کسی مسلم موحد اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے کو کبیرہ گناہ مثلا زنا، شراب، والدین کی نافرمانی وغیرہ جیسے اُمور پر کافر قرار نہیں دیتے، جب تک وہ ان گناہوں کے حلال ہونے کا اعتقاد نہ رکھے۔ اگر وہ ان گناہوں کو جائز سمجھے گا، تو اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺکے صریح احکام کی تکذیب کی بنا پر وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر جائزنہ سمجھے تو اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک اس کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ وہ ضعیف الایمان ہوگا، اور شریعتِ مطہرہ کے احکام کے مطابق اس پر گناہوں کی سزا او رحدود کا نفاذ کیا جائے گا۔‘‘
سلفی اور اہل السنّہ عقائد کے ہرباب میں توسط واعتدال کے قائل وفاعل ہیں ۔چنانچہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو اسلام سے خارج تو نہیں کہا جائے گا، اور آخرت میں اس کے جہنمی ہونے کا فیصلہ بھی نہیں کیا جائے گا، تاہم اس کو ان سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا، جو شریعتِ اسلامیہ میں ذکر ہوئی ہیں۔ اور جب نبی کریم ﷺ نے بعض سنگین جرائم پر کفر کا اطلاق کیا ہے تو اس پر کفر کا اطلاق بھی کیا جائے گا، تاہم یہ کفر ملت سے خارج کرنے والا نہیں، بلکہ کفرعملی یا کفر حقیقی سے چھوٹا کفر (کفر دون کفر) کہلائے گا۔ اس موضوع کی دیگر بہت سی تفصیلات ہیں جو عقائد سلفیہ کی مستند اورمرکزی کتب میں بیان ہوئی ہیں۔
ان تفصیلات کو آئندہ شمارے میں بیان کیا جائے گا۔ان شاء اللّٰہ (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)
حوالہ جات
[1] صحیح بخاری، کتاب الشہادات،باب لا يَشهد على شهادة جور: 2651
[2] الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب المعاصرة: 2/1082، فتاوٰى اللجنة الدائمة: 12/241، بحوالہ السلفية حقيقتها وأصولهاوموقفها من التكفيراز ڈاکٹر سلیمان عبد اللّٰہ ابا الخیل، رکن ہیئۃ کبار علما، سعودی عرب اور وائس چانسلر امام یونیورسٹی، ریاض: ص 40 طبع اوّل، دارالعاصمہ2015ء
[3] الفصل فی الملل والنحل از حافظ ابن حزم:2؍ 113
[4] السلفية حقيقتها وأصولهااز ڈاکٹر سلیمان عبد اللّٰہ ابا الخیل: ص 53
[5] جیسا کہ امام بخاری صحیح بخاری میں ہر مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن وحدیث کے دلائل کے ساتھ ائمہ لغت اور ائمہ مفسرین ومحدثین کے اقوال بھی نقل کرتے ہیں۔ نہ تو اُنہیں معصوم ومیزان سمجھتے ہیں اور نہ ان کی علمی کاوشوں اور وضاحتوں سے مستغنی ہوتے ہیں۔اور یہی رویہ محدثین کے منہج پر چلنے والے ہر سلفی کا ہونا چاہیے۔
[7] مجلہ ’الاصالۃ‘الجزائر... شمارہ 9: ص 86
[8] مجلہ ’الفرقان‘کویت، شمارہ جولائی 2000ء
◄ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز سے دریافت کیا گیا تو جواب دیا: "مذهبي في الفقه هو مذهب الإمام أحمد بن حنبل وليس على سبيل التقليد ولكن على سبيل الاتباع... إما في مسائل الخلاف فمنهجي فيها هو ترجيح ما يقتضي الدليل ترجيحه، والفتوى بذلك سواء وافق مذهب الحنابلة أم خالفه، لأن الحق أحق بالاتباع." (فتاوى المرأة المسلمة 1؍14) ’’فقہ میں میرا مذہب امام احمد بن حنبل کا مذہب ہے، برسبیل تقلید نہیں بلکہ برسبیل اتباع... اور اختلافی مسائل میں میرا طریق یہ ہے کہ میں دلیل کے مطابق ترجیح دیتا ہوں اور اسی طرح فتوی صادر کرتا ہوں، خواہ دلیل حنبلی مذہب کے موافق ہو یا مخالف کیونکہ حق ہی پیروی کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘
◄ شیخ ابن باز مزید فرماتے ہیں: "فإذا کان من خالف السنة لقول أبي بكر وعمر تخشى عليه العقوبة فكيف بحال من خالفها لقول من دونهما او لمجرد رأيه واجتهاد " (مجموع وفتاوى ومقالات:ص99) ’’اگر ابوبکر وعمر کے قول کی بنا پر، سنت کی مخالفت کی وجہ سے عذاب نازل ہونے کا اندیشہ ہوسکتا ہے تو اس شخص کا کیا حال ہوگا جو ابوبکر وعمر رضی اللّٰہ عنہما سے کمتر کسی اور قول یا اس کے مذہب یا اس کے اجتہاد کی بنا پر سنت نبویہ کی مخالفت کرتا ہو۔‘‘
◄ سعودی عر ب کے ممتاز عالم ربانی ومفتی شیخ ابن عثیمین کا موقف ملاحظہ فرمائیں جو سب سے زیادہ واضح ہے: "ولاريب أن مذهب الإمام أبي حنيفة ومذهب الإمام أحمد ومذهب الإمام الشافعي ومذهب الإمام مالك وغيرهم من أهل العلم قابلة أن تكون خطأ وصوابا.. فإن كل أحد يؤخذ من قوله ويترك إلا رسول الله." (مجموع فتاوى ورسائل شيخ ابن عثيمين: 1؍28) ’’بلاشبہ امام ابو حنیفہ، امام احمد، امام شافعی، امام مالک وغیرہ کے مواقف میں غلطی اور درستی دونوں کا احتمال ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا قول لیا اور چھوڑا جاسکتا ہے، سوائے محمدﷺ کے فرمان کے۔‘‘
’’حق ان چار مذاہب میں منحصر نہیں بلکہ حق کسی اور مذہب میں بھی ہوسکتا ہے اور انہی چاروں ائمہ کا کسی مسئلہ میں اتفاق پوری امت کا اجماع قرار نہیں پاسکتا۔ اور خود ان ائمہ کو اپنا مقام ومرتبہ معلوم تھا اور اُنہیں اس بات پر یقین تھا کہ انکی اطاعت اسی مسئلہ میں ہوسکتی ہے جو سنتِ رسول کے موافق ہو، اسی لیے وہ اپنی تقلید سے منع کیا کرتے تھے، الا یہ کہ انکا مذہب سنت کے موافق ہو۔‘‘
(مزید تفصیل کے لئے :’اہل حدیث اور علمائے حرمین کا اتفاق رائے‘ از ڈاکٹر حافظ محمد اسحق زاہد : ص 40 تا 45)
[9] معجم مقاييس اللغۃ: كتاب الواو، باب ’الواو والسین‘: 6؍ 108
[10] الصحاح: 3؍ 1167، لسان العرب :7؍ 430
[13] صحيح بخاری: كتاب التفسیر، باب وكذلك جعلناكم...: رقم 4487
[15] مسند احمد بن حنبل: رقم 4142، قال الارناؤط: اسنادہ حسن
[16] سنن ابن ماجہ ،كتاب السنة، باب اتباع سنة رسول الله ﷺ: رقم 11
[17] مستدرک حاکم: كتاب الايمان:1؍ 145،رقم245،وقال: صحيح على شرط مسلم، ووافقہ الذہبی اور شیخ شعیب ارناؤط نے مسند احمد میں اسے حسن کہا ہے۔(4؍ 183)
[18] الاعتصام از امام شاطبی: 1؍245
[19] تہذیب تاریخ دمشق: 7؍147
[20] شرح العقيدة الواسطيہ :124
[21] عقیدہ اہل السنہ والفرقہ الناجیہ:ص10، ناشر: انصار السنہ المحمدیہ، مصر
[23] صحيح بخارى،كتاب أحاديث الأنبياء، باب قول الله تعالى ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ...﴾: 3445
[24] سنن ابن ماجہ، كتاب المناسك، باب قدر حصى الرمي: رقم 3029، السلسلة الصحيحة: رقم 1283
[25] صحيح بخاری، كتاب الإيمان، باب الدين يُسر : رقم 39
[26] المحجة في سير الدلجة از ابن رجب :ص51
[27] اقتضاء الصراط المستقیم از ابن تیمیہ:1؍ 289
[29] صحیح مسلم، کتاب البروالصلة، باب فضل الرفق: 6601
[33] صحیح مسلم، کتاب البروالصلة، باب فضل الرفق: 6602
[34] خافَه ... وأَرْهَبَهه ورَهَّبَه واستَرْهَبَه: أَخافَه وفَزَّعه (لسان العرب: 1؍436، مفردات القرآن: ص 204 (رهب)
[47] صحیح بخاری،كتاب النكاح، باب الترغيب في النكاح : 5063
[48] صحیح بخاری: 6139، کتاب الادب،باب صنع الطعام والتكلف للضيف
[49] صحیح بخاری: 1150، کتاب التهجد، باب ما یکره من التشدید في العبادة
[50] صحیح بخاری: 1151 کتاب التهجد، باب ما یکره من التشدید في العبادة
[52] صحیح بخاری، کتاب النفقات،باب وجوب النفقة على الأهل و العیال
[53] شرح عقیدہ طحاویہ از محمدابن ابی العزحنفی: 298، طبع وزارت اوقاف، سعودی عرب 1418ھ
[54] صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب ما يُكره من لعن شارب الخمر: 6780
[55] سنن ابوداود، کتاب الادب: 4901، صحیح کما قالہ الالبانی
[56] شرح عقیدہ طحاویہ از محمدابن ابی العزحنفی:ص 299، طبع وزارت اوقاف، سعودی عرب 1418ھ
ا
التعلیقات الأثرية على العقيدة الطحاوية،تحت قَوْلِه: وَلَا نُكَفِّرُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْقِبْلَةِ بِذَنْبٍ، مَا لَمْ يَسْتَحِلَّهُ