دسمبر 1998ء

نماز کے مسائل اور حجام کی کمائی

٭ نماز کےحوالے سےچنداہم سوالات 

٭ مسجد کی دان کاکرایہ لیا جائے یا نہیں ؟ 

٭ حجام کی کمائی ، حلال ہےیا حرام ؟ 

٭ خائن اورفریب کارکوامام بنانا جائز نہیں !! 

٭ حالتِ حمل میں بیک وقت تین طلاق کاحکم ؟ 

٭ کیافرماتےہیں علماء کرام قرآن وسنت کی روشنی میں ان مسائل کی باتب:

(1) اگرنماز عشاء کےساتھ ہی وتر پڑھ لیے جائیں توآخررات نفل پڑھنے کاکیا طریق کارہے؟ کیا ایک رکعت پڑھ کرسجدہ کرے یا نوافل ادا  کرے؟

(2) ایک اذان کاجواب دینے کی صورت میں دوسری طرف سےاذانیں ہورہی ہوں ، کیا ان کا بھی جواب دینا چاہیے یا ایک ہی اذان کاجواب کافی ہے؟ 

(3) کیا ( إن الينا إيابهم ثم إن علينا حسابهم ) کےجواب میں ’’ اللهم حاسبنى  حسابا يسيرا ،، کا ثبوت ہے؟ اوراگر ہے تو صرف امام جواب دے یامقتدی بھی جواب دیں ؟ 

(4) نمازی کےآگے سترہ نہ ہونے کی صورت میں چارپانچ صفیں چھوڑکرگزرناجائز ہے؟ آیا ا س کی دلیل میں کوئی حدیث ہے؟ 

(5) کیاسلام پھیرنے والے تشہد میں پاؤں نکال کربیٹھنا صرف چاررکعت والی نماز میں ضروری ہےیادورکعت میں بھی یہی طریقہ ہے؟ اورکیا ہربڑے تشہد میں پاؤں نکال کربیٹھنا سنت ہے؟ 

(6) کیا صبح کی نماز قضاء پڑھنے کی صورت میں سنتیں بھی ساتھ پڑھی جائیں گی یاصرف فرض  پڑھنا ہوں گے اوراسی طرح مغرب کی نماز قضاء پڑیں گےتو سنتیں بھی ساتھ پڑھیں گے؟ 

الجواب بعون الوھاب : 

(1)اس بارے میں اکثر اہل علم کا مسلک یہ ہےکہ آدمی جتنے نوافل وغیرہ پڑھنے چاہے پڑھ سکتا ہے نقص ِ وتر کی ضرورت نہیں ۔ اس موقف کی بنیاد نبی اکرم ﷺ کایہ فرمان ہے: لا وتران فی لیلۃ یعنی ایک رات میں دو دفعہ وتر نہ پڑھے جائیں ۔ روایت ہذا حسن درجہ  کی  ہےجس کوامام احمد، ترمذی ، ابوداؤد اورنسائی رحمہم اللہ وغیرہ نےذکر کیاہے........ بعض اہل علم وتر کےقائل ہیں کہ وتر کےساتھ ایک رکعت ملا کراسے جفت بنا لیا جائے بعد ازاں جتنی نماز پڑھنا چاہے پڑھ لے آخر میں پھروترپڑھ لے لیکن سجود کی ضرورت نہیں .......... پہلا مسلک راجح ہےکیونکہ نبی اکرم  ﷺ سے کئی روایتوں سےثابت ہےکہ آپ نے وِتر کےبعد نماز پڑھی ہے۔ علامہ مبارکپوری شرح ترمذی میں فرماتےہیں : ’’ میرے نزدیک مختاربات یہ ہےکہ پہلے پڑھے ہوئے وتر کوتوڑا نہ جائے کیونکہ مجھے مرفوع کوئی صحیح روایت نہیں مل سکی جس میں نقض وتر کاثبوت ملتا ہو۔ امام ترمذی نےبھی اپنی جامع میں اسی مسلک کواصح قرار دیا ہے اورصاحبِ مرعاۃ المفاتیح  کےنزدیک بھی یہی مذہب راجح ہے، ملاحظہ ہو : المرعاۃ : 2؍ 204 

(2)اصلا توایک ہی اذان کوجواب دینا ہےلیکن عموم حدیث’’ إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل مايقول ،، کےپیش نظر کوئی متعدد اذانوں کاجواب دینا چاہے تودے سکتا ہے۔

(3)محولہ آیت کےجواب میں اللھم حاسبنی پڑھنے کاثبوت مجھے نہیں مل سکا ۔البتہ بعض روایات میں ثابت ہےکہ آپ ﷺ نےبعض نمازو ں میں اس دعا کوپڑھا ہےلیکن محل کا تعین نہیں کہ سورہ غاشیہ کےاختتام پرپڑہا ہو ۔ 

(4)حدیث میں مطلق نماز کےآگے سےگزرنے سےمنع آیا ہے، حدبندی کی تصریح نہیں ۔ البتہ ابوداؤد کی ایک روایت میں ’ ’ قذفة بحجر ،،  کےلفظ ہیں یعنی ،، پتھر پھینکنے کےبقدر آگے سے  گزر جانے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن اس کامرفوع ہونا مشکوک ہے۔ علامہ البانی نےاس کوضعیف سنن ابی داؤد (رقم 137 ) میں ذکر کیا ہے۔البتہ موقوفا ً ابن عباس   سےبسند صحیح ثابت ہے (  مشکوۃ المصابیح مع حاشیہ علامہ البانی 1؍245 ) 

(5) صحیح بخاری کےباب  سنۃ الجلوس فی التشھد کےتحت ابوحمید الساعدی کی روایت میں الفاظ ہیں و  اذا جلس فى الركعة الآخر ة جس سے امام شافعی ﷫ کااستدلال ہےکہ صبح کی نماز کے تشہد میں تشہد ِاخیر کی طرح بیٹھنا چاہیے ۔

(6) صبح کی نماز کی قضاء کی صورت میں سنتیں بھی ساتھ پڑھنی چاہییں ۔نبی ﷺ نےحضرت وسفر  میں ان کوترک نہیں کیا (احکام رکعتی الفجر ) .......... 

مغرب کی سنتیں پڑھنے کابھی جواز ہے ( ترمذی ص 72 ) 

٭ سوال : مسجد کی دکان کاکرایہ .......... مخصوص صورتحال میں لیا جائے یا نہیں ؟ 

ایک جامع مسجد کےکرائے دار کاانتظامیہ سےدوکان خالی کرانے کا تحریری معاہدہ ہوا جس کےمطابق کرائے دار نے 31جولائی 1998؁ ء کودوکان خالی کرنے کا وعدہ کیا تھا.....  لیکن ان دنوں اس نے انتظامیہ سے رابطہ کرکے اپنی طرف سےیہ تجویز پیش کی ہے کہ اگر اسے مسجد کی مجلس منتظمہ مزید دس سال کےلیے دکان میں بطور کرائے داررہنے دے تو وہ ! 

1) مسجد کولاکھ روپیہ بطور عطیہ دےگا ۔

2) موجودہ کرایہ مزید تین سال تک ادا کرےگا اوراس کےبعد قانون کےمطابق ہر تین برس کےبعد کرائے میں 25 فیصد اضافہ کرتا رہے گا۔

3) یہ معاہدہ دس سال کےبعد ختم ہوجائے گا اور وہ دکان کاقبضہ جامع مسجد کی مجلس شوریٰ کےحوالے کردےگا ۔

4) نئے کرائے نامے میں مذکورہ بالا ایک لا کھ روپے کی رقم کاکوئی تذکرہ نہیں ہوگا۔ اس رقم کی وصولی پرمسجد کی طرف سے ’’عطیہ ،، کی رسید جاری کی جائے گی جس کاکرائے وغیرہ کے  ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔

جواب طلب امر یہ ہےکہ ان حالات میں ایک لاکھ روپیہ مسجد کےلیے وصول کرناجائز ہے؟ کیا اس سے کرائے دار کی مجبوری سےناروا طورپرمالی فائدہ حاصل کرنے کاپہلو تونہیں نکلتا ؟ کیا ان حالات میں دی جانے والی رقم سےثواب کاپہلو تومجروح نہیں ہوتا ؟ 

الجواب بعون الوھاب : موجودہ صورت میں معاملہ طےکرنا درست نہیں کیونکہ کرائے دار نےمسجد کےلیے جوبطورِ عطیہ ایک لاکھ روپے کی پیشکش کی ہے، دراصل وہ رشوت کی طورپر مطلب برآری کاایک وسیلہ ہےاور مسجد کی منتظمہ کےہاں جورغبت پیدا ہوئی،  اس کی بنیاد بھی طمع حرص اور لالچ ہےگویا کرایہ داری کوباقی رکھنے کےلیے ایک باطل حیلہ ہےجوکسی صورت جائز قرارنہیں دیا جاسکتا ۔ دوسری طرف اس کےشرط ہونے کی بظاہر اگرچہ نفی کی جارہی ہےلیکن فی الواقع شرط موجود ہے۔جانبین کی چاہت اس امر کی واضح دلیل ہےاورقرائن واحوال سےبھی ظاہر ہے۔بالفرض کرایہ دار مذکورہ رقم مسجد کوادا نہ کرسکے توپھر انتظامیہ کبھی اسےبرداشت نہیں کرےگی بلکہ دکان چھوڑنے پر مجبورکردے گی ............ اس سےمعلوم ہواکہ  عطیہ کی رسید کاٹ دینا محض خود فریبی ہےجس کاحقائق وواقعات سےکوئی تعلق نہیں لہذا یہ معاملہ کرنے سےاجتناب ضروری  ہے۔

٭ سوال:  میراکام ہیرڈریسر کاہے میں نے پڑھا ہےکہ شیووغیرہ کی کمائی حرام ہےبلکہ اسے جوایاقمار خانہ کی کمائی سےمشابہت دی گئی ہےمیں توعورتوں کےبال بھی کاٹتا ہوں۔ مردوں کےبھی آئےدن نئے فیشن کےبال بناتا ہوں ۔ لیکن جس دن سےیہ پڑھا ہے، اس دن سےپریشان ہوں کہ یہ کام اگرغلط کررہا ہوں توچھوڑدوں ۔ کیونکہ مسلمان ہونے  کےناطے آخرت کی فکر ہے، برائے مہربانی مجھے صحیح مشورہ دے کر ممنون فرمائیں ۔ ( سائل : نصیر احمد ) 

الجواب بعون الوھاب : حجام کی کمائی کی حلت وحرمت کاتعلق اس کے اپنے فعل سے ہے۔ اگر فعل حرام کی اجرت لیتا ہے توکمائی حرام ہےمثلاً داڑھی مونڈتا ہے یاغیر عورتوں کےبال کاٹتا  ہےیاغیر شرعی حجامت کرتاہے توکمائی حرام اوراگر شریعت کےمطابق حجامت بناتا ہے تویہ مباح عمل ہےاور عہد نبوت میں بھی موجود تھا ۔

٭ سوال : ایک شخص نےاپنے بھائی کامکان 47؁ء سےاپنے قبضہ میں ظاہر کرکے1973ء میں اپنے نام انتقال کروالیا ۔ جبکہ مالک مکان کا، جس کی دوبیٹیاں ہیں ، انتقال 1958ء میں ہوا ہے۔ اس طرح مرحوم کی بیٹیوں کوان کےحق سےمحروم کردیا۔ قبضہ کرنے کےبعد اسی جگہ پرلوگوں سےچندہ برائے مسجد وصول کرکے مسجد کی تعمیر شروع کروادی۔ جب مسجد محرابوں اورچھتوں تک پہنچی تومسجد کی محرابوں کوگرادیا اوراس کی جگہ دکانیں بناڈالیں اورنصف حصہ اپنی بیوی  کےنام انتقال کروادیا اوران دکانوں پرایک مسجد بھی تعمیر کرواڈالی ۔ اور لوگوں کےساس چندہ وغیرہ کاحساب بھی نہیں ہے.............. شخص مذکوہر بالا کےپیچھے نمازپڑھنا جائز ہےیاکہ نہیں ؟ ( سائل محمد عبداللہ ، بہاولنگر ) 

الجواب بعون الوھاب : مذکورہ اوصاف کا حالم انسان خائن اورفریب کارہے۔ ایسا شخص قطعا امامت کااہل نہیں ، حدیث میں ہے’’ اجعلو ا أئمتكم خياركم ،، یعنی اچھے باکردار لوگوں کواپنا  امام مقرر کرو ۔ لہذا اس کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے ۔ 

٭ سوال: میرے عزیز نے بیوی سےجھگڑنے پراسے غصے میں بہ یک وقت تین دفعہ طلاق دے دی ، جب کہ اس کی بیوی حاملہ بھی ہے۔ کیا یہ طلاق ہوگئی ؟ 

الجواب بعون الوھاب : صورتِ مرقومہ میں طلاق رجعی واقع ہوئی ہے۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے: كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبى بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة .............. الحديث 

’’ عہد نبوی ﷺ اورعہد ابوبکر   اوردوسال خلافتِ عمر   میں تین طلاقیں ایک شمار  ہوتی تھیں ،، 

اورمسند احمد وغیرہ  میں ہےکہ رکانہ بن عبدیزید اخو بنی مطلب نےایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، فعل پروہ شدید نادم ہوا ۔ رسول اللہ ﷺ نےاس سے دریافت کیاکہ تم نے کس طرح طلاق دی ؟ اس نے عرض کیا ۔ میں نے اس کوتین طلاقیں دیں ، آپ نے فرمایا: ایک مجلس میں ؟ اس نےکہا : ہاں ایک مجلس میں ۔ آپ نےفرمایا :’’ سوائے اس کے نہیں کہ یہ ایک ہےاگر توچاہے تواس سےرجوع کرلے،،۔ ابن عباس   کہتےہیں : چنانچہ اس نے اپنی بیوی سےرجوع کرلیا ۔

امام ابن القیم اعلام الموقعین میں فرماتےہیں : وقد صحح الامام هذا الأسناد وحسنه (امام احمدنے اسے صحیح قرار دیا اور حسن کہا ہے) 

حافظ ابن حجر فتح الباری میں اس حدیث کوذکر کرنے کےبعد فرماتےہیں : 

’’ وهذا الحديث نص فى المسئلة لا يقبل التأويل الذى فى غير ه من الروايات ،، 

’’ یہ حدیث اس مسئلے میں واضح دلیل  ہے، جس میں تاویل کی گنجائش نہیں ، جیساکہ بعض اورروایات کےالفاظ میں تاویل کی گنجائش ہے،، 

یادر رہے حالتِ حمل میں دی ہوئی طلاق سُنی ہوتی ہےچنانچہ منتقی الاخبار میں ابن عمر کی روایت میں ہے’’ ثم ليطلقها طاهرا أو حاملا، ،  پھر اسے حالتِ طہر میں طلاق دے یاحالتِ حمل میں ،،  ( رواہ الجماعۃ الا البخاری ) اس سے معلوم ہوا کہ طہر یاحمل میں دی ہوئی طلاق سنی ہے، بدعی نہیں ۔ 

لہذا وضعِ حمل سے قبل شوہر رجوع کرسکتا ہےاورعدت گزرنے کی صورت میں عقدِجدید بھی ہوسکتا ہے۔