کیا اجتہاد صرف منتخب نمائندوں ہی کا حق ہے؟
آج کل بہت سے سیکولر اہل قلم جن میں علامہ اقبالؒ کے فرزند جاویداقبال ؒبھی شامل ہیں ۔فکر اقبال ؒ کے حوالے سے ایک شرعی اصطلاح ۔اجتہاد ۔کے بارے میں ایسی باتیں کہہ اور پھیلا رہے ہیں کہ جن سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ گمراہ اور صراط مستقیم سے انحراف پر مبنی ہیں ۔
علامہ اقبالؒ بلاشبہ ایک قومی نہیں ملی شاعرہیں اور ملکی نہیں آفاقی شاعرہیں ۔ان کی شاعری میں جذبہ و عمل کی جو توانائی ہے اقدام اور ولولے کی جو فراوانی ہے اور دلوں کو حرارت ایمانی سے بھر دینے والی جو خوش نوائی ہے اس نے یقیناً ان کو انفرادیت کا ایسا مقام عطا کیا ہے جس میں کو ئی بھی شاعر ان کا شریک وسہیم نہیں اور نہ بظاہر آئندہ اس کا کو ئی امکان ہی نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے وہ ملت اسلامیہ کے ایک عظیم محسن اور تاریخ اسلام کی ایک نہایت تاب ناک شخصیت ہیں اوران کا کلام ہمارا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے جس سے حامد قوتوں کو حرکت و عمل کا درس ملتا رہے گا ۔بےجان جذبوں کو توانائی ملتی رہے گی ۔اور جو روح کو تڑپ اور دلوں کو حرارت بخشتا رہے گا ۔رحمتہ اللہ رحمتہ واستہ ۔
علامہ کی عظمت کے لیے ان کی جذبوں اور ولولوں سے بھر پور اور ایمان و عمل سے سر شار شاعری ہی کا فی ہے۔بنا بریں راقم ان لوگوں سے جو ان کے بعض افکار سے یاان کے شاعر انہ کلام سے ان کو ایک عظیم فکری رہنما بھی باور کرانا ان کی عظمت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں اتفاق نہیں کرتا ۔کیونکہ علامہ اقبالؒ ایک نابغہ عصر شاعر تو ضرورتھے ۔لیکن مسلمہ اسلامی مفکر انہیں مشکل ہی سے قرار دیا جا سکتا ہے اور اب تو اس سے بھی بڑھ کر انہیں "امام معصوم "بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔جیسا کہ اہل قلم کے بیانات ومقالات سے مترشح ہے ۔یہ حضرات علامہ اقبالؒ کے وہ خیلات جن سے ان میں مضمر خطرات کی بناء پر اہل علم وفکر نے خاص اعتناء نہیں کیا انہیں نہ صرف نہایت بلند آہنگی سے پیش کررہے ہیں بلکہ ان کے خیال میں علامہ اقبالؒ کے زیر بحث افکار سے بے وفائی ہی کا نتیجہ ہے کہ ۔
"قدرت نے اس قوم کو فرقہ واریت صوبائیت ،لسانیت علاقائیت ،غربت ،جہالت اور بیماری کے دردناک عذاب میں مبتلا کردیا۔۔۔(روزنامہ نوائے وقت18نومبر1986ء مضمون ڈاکٹر محمد یوس گواریہ طلوع اسلام لاہور اکتوبر 1992ء)حالانکہ یہ نتیجہ ان افکار اقبال سے روگردانی و بے وفائی کانہیں ہے جو جناب ڈاکٹر گورایہ صاحب نے پیش فر ما ئے ہیں بلکہ یہ نتیجہ تو اسلام سے بے وفائی اور غڈاری کا ہے ۔معلوم ہو تا ہے کہ خطبات میں پیش کردہ فکر اقبال ان حجرات کے نزدیک اسلام کے ہم معنی یا اس کی کامل تعبیر ہے ۔ورنہ شاید اس سے بے اعتنائی پر ڈاکٹر گورایہ صاحب وہ تبصرہ نہ فر ما تے جو مذکورہ بالا اقتباس میں گزرا ہے خیال رہے کہ گورایہ صاحب کا یہ مضمون چھ سال قبل "نوائے وقت "اور "جنگ " میں بھی شائع ہوا تھا اور اب ماضی قریب میں "طلوع اسلام" میں شائع ہوا ہے۔
ڈاکٹر گورایہ صاحب کے اس مقالے میں فکر اقبال کے حوالے سے جو باتیں کہی گئی ہیں ذیل میں انکا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جا تا ہے لیکن قبل اس کے کہ اصل موضوع پر گفتگو ہو "تمہیدا "یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ علامہ کے افکار اور کلام میں اسلام سے والہانہ وابستگی اور اسلامی تہذیب و تمدن کے برتروبہتر ہو نے کا تصور تو قدم قدم پر ملتا ہے۔
لیکن موجودہ دور میں اسلامی نظام و تہذیب کی صورت گری اور عملی تشکیل کس طرح ہو؟اس سلسلے میں علامہ کے کلام وافکارسے واضح انداز میں رہنمائی نہیں ملتی بلکہ ایک گونہ تضاد سامحسوس ہوتا ہے غالباًیہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ انہیں اشتراکیت کا ہمنوا ثابت کرتے ہیں تو دوسرے اس کے مخالف ۔کچھ انہیں تصوف کا رمز آشنا باور کراتے ہیں تو کچھ اس کو کوچے سے نابلد ۔ایک طبقہ انہیں "ملائیت "کا دشمن قراردیتا ہے تو دوسرے انہیں علماء کا کفش بردار اور خادم ۔کو ئی انہیں مغربی جمہوریت کا علم بردار ثابت کرتا ہے تو دوسرا اس سے متنفر اور گریزاں ۔حتیٰ کہ بعض لوگ افکار حدیث تک کا انتساب ان کی طرف بڑے فخر سے کرتے ہیں جب کہ دوسرے انہیں سچاعاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شیدائی سمجھتے ہیں ۔راقم کے نزدیک وہ پکے مسلمان تھے اور اشتراکیتکی ہمنوا ئی کے الزام سے اُنھوں نے خود ہی اپنی زندگی میں برات کا اظہار کردیا تھا ۔جن مغرب زدہ افراد نے علمائے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے "ملائیت "کی اصطلاح گھڑی ہے علامہ کا دامن ان کی ہمنوائی سے بھی پاک ہے وہ علمائے حق سے خصوصی تعلق خاطر اور ان کے بارے میں احترام و عقیدت کے جذبات رکھتے تھے اور انہیں ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے جس طرح عشق تھا اسی طرح سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وہ دین کا ماخذاور قرآن کریم کی طرح حجت تسلیم کرتے تھے ۔
لیکن پھر سوال پیدا ہو تا ہے کہ یاران سرپل نے اس کے برعکس خیلات ان کی طرف کیوں منسوب کردئیے ہیں ؟اس کی وجہ راقم کے نزدیک وہی ہے جو ابھی اوپر عرض کی گئی ہے کہ ان کے کلام میں مربوط فکری راہنمائی کا فقدان ہے ۔نہ وہ اس میدان کے آدمی تھے۔نہ اُنھوں نے ایک متعین فکر ہی دیا ہے مختلف احساسات وتصوراتکے تحت اُنھوں نے مختلف قسم کے خیلات کا اظہار کیا ہے جس طرح کہ بالعموم شعراء کرتے ہیں ۔انہیں ان کے کلام اور شخصیت کے مجموعی تناظر میں دیکھا جا ئے تو ان کی تردید یا توجیہ و تطبیق زیادہ مشکل بات نہیں ۔لیکن مفاد پرستوں نے اپنے مفاد کے لیے ان کے مجموعی کلام کو نظر انداز کر کے جس طرح ان کے ایک ایک مصر عے ایک ایک شعر یا ایک ایک بند کو اپنے پورے پورے مجموعی نقطہ نظر پر چسپاں کیا ہے وہ بددیانتی کا بھی شاہکار ہے اور علامہ اقبال کی شخصیت اور افکار پر بھی ایک بہت بڑا ظلم جس کی وجہ سے وہ ایک چیستاں بن کر رہ گئے ہیں۔جو اقبال جذبہ و توانائی کا سر چشمہ تھا حرکت وعمل کا پیامبر تھا اسلام کا شیدائی تھا اور اسلامی نظام وتہذیب ہی کو ملت اسلامیہ کے تحفظ و بقا کی ضمانت سمجھتا تھا وہی اقبال نعُوذُ باللہ بعض لوگوں کے نزدیک اشتراء کی تھا بعض کے نزدیک منکر سنت تھا اور بعض کے نزدیک علمائے اسلام کا دشمن اور اب یہ آواز اور اٹھی ہے کہ علامہ اسلامی ملکوں کے لیے نظام سیاست اگر کو ئی پسند کرتے تھے اور اسی میں ان کی نجات اور ترقی سمجھتے تھے تو وہ صرف اور صرف مغربی جمہوریت اور مغربی طرز حکومت ہے ۔ع
دوسری بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ مذکورہ اہل قلم علامہ اقبال کی جس کتاب کو بنیاد بناتے ہیں اس میں بہت سی باتیں ان کے عمر بھر کے مجموعی کلام ونظریات کے بالکل مخالف ہیں جس کی وجہ سے علامہ سید سلیمان ندویؒ جیسے شخص بھی جو علامہ کے نہایت قدر دان اور مزاج شناس تھے اور علامہ بھی ان کا نہ صرف نہایت درجہ احترام کرتے تھے اور دینی و علمی مسائل و معاملات میں ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے بلکہ علامہ نے انہیں "علوم اسلام کی جو ئے شیر کا فرہاد"(اقبال ۔سید ندوی کی نظر میں ۔ص23طبع بزم اقبال لاہور) بھی قرار دیا۔علامہ کی اس کتاب کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ یہ لیکچر شائع نہ ہو ئے ہو تے تو اچھا تھا جیسا کہ مولانا سید ابولحسن علی ندویؒ نے روائع اقبال کے اُردوترجمہ: نقوش اقبال "کے مقدمہ میں لکھا ہے ۔چنانچہ وہ فر ما تے ہیں ۔"میں اقبال کو کو ئی معصوم و مقدس ہستی اور کو ئی دینی پیشوا اور امام مجتہد نہیں سمجھتا اور نہ میں ان کے کلام سے استناد اور مدح سرائی میں حد افراط کو پہنچا ہوا ہوں جیسا کہ ان کے غالی معتقد ین کا شیوہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ حکیم سنائی عطار اور عارف رومی آداب شریعت کے پا س اور لحاظ اور ظاہر و باطن کی یک رنگی اور دعوت و عمل کی ہم آہنگی میں ان سے بہت آگے ہیں اقبال کے یہاں اسلامی عقیدہ و فلسفہ کی ایسی تعبیریں بھی ملتی ہیں جن سے اتفاق کرنا مشکل ہے میں بعض پر جوش نوجوانوں کی طرح اس کا بھی قائل نہیں کہ اسلام کو ان سے بہتر کسی نے سمجھا ہی نہیں اور اس کے علوم و حقائق تک ان کے سوا کو ئی پہنچا ہی نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں اپنی زندگی کے ہر دور میں اس کا قائل رہا کہ وہ اسلامیات کے ایک مخلص طالب علم رہے اور اپنے مقتدر معاصرین سے برابر استفادہ ہی کرتے رہے (مولانا انور شاہ کشمیری مولانا سید سلیمان ندوی مولانامسعود ندوی کے نام خطوط سے ان کے اخلاق وتواضع اور علمی ذوق کا پتہ چلتا ہے)ان کی نادر شخصیت میں بعض ایسے کمزور پہلو بھی ہیں جوان کے علم وفن اور پیغام کی عظمت سے میل نہیں کھاتے اور جنہیں دور کرنے کا موقع انہیں نہیں ملا ۔(انکے مدارس کے خطبات میں جو انگریزی میں reconstruction of isiamic thought" کے نام سے شائع ہو چکے ہیں اور ان کا اردو اور عربی میں ترجمہ بھی ہوا ہے بہت سے ایسے خیالات و افکار ملتے ہیں جن کی تاویل و توجیہ اور اہل سنت کے اجماعی عقائد سے مطابقت مشکل ہی سے کی جا سکتی ہے یہی احساس استاذ محترم مولانا سید سلیمان ندوی کا تھا ان کی تمنا تھی کہ یہ لیکچر شائع نہ ہوئےہو تے تو اچھا تھا)("نقوش اقبال " ص39۔40۔مطبوعہ مجلس نشریات اسلام ۔کراچی
تیسر ی بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کےیہ " خطبات" ایک ایسا چیستان ہے جسے کو ئی اور تو کیا خود "خطبات " کے شارحین بھی مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر رہے ہیں جس کا اعتراف خود ایک ماہر اقبالیات ڈاکٹر وحید عشرت نے کیا ہے چنانچہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے خلیفہ عبد الحکیم کی "فکر اقبال "محمد شریف بقا کی "خطبات " اقبال پر ایک نظر" اور اسی نام سے مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی کتاب ڈاکٹر سید محمد عبد اللہ کی مرتبہ کتاب "خطبات اقبال "اور پروفیسر محمد عثمان کی کتاب "فکر اسلامی کی تشکیل نو" ان تمام کتابوں کا جائزہ لے کر سب کو ناقص ناتمام اور نامکمل قرار دیا ہے ۔ملاحظہ ہو مجلہ شش ماہی "اقبالیات" "اقبال نمبر"جنوری تاجون 1986ءص 177۔185۔مطبوعہ اقبال اکادمی پاکستان ۔
جب "خطبات "کا ماہرین اقبالیات کے نزدیک بھی یہ مقام ہے کہ وہ ابھی تک ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا کی حیثیت رکھتے ہیں تو ایسی کتاب کو بنیاد بنا کر اس میں پیش کردہ مبہم اور غیر واضح باتوں کو صحیفہ آسمانی کی طرح پیش کرنا کیوں کر صحیح ہے؟جیسا کہ گورایہ صاحب اور ان جیسے بعض "دانشور "کر رہے ہیں ان تین بنیادی تنصیحات کے بعد اب ہم مقالہ مذکورپر اپنی گزارشات پیش کرتے ہیں ۔پورے مقالے کا خلاصہ حسب ذیل سات باتیں ہیں ۔
1۔ترکی کا اجتہاد جس میں خلافت ایک منتخب اسمبلی کو تفویض کرنے کا نظریہ پیش کیا گیا ہے روح اسلام کے عین مطابق ہے ۔
2۔جمہوری طرز حکومت روح اسلام کے عین مطابق ہے ۔
3۔قانون سازی کا صحیح اور جا ئز حق صرف منتخباسمبلی کو ہے حتیٰ کہ تعبیر شریعت کا بھی کلی اختیار منتخب نمائند گی کو ہے کسی نامزد علامء کو نہیں ہے۔
4۔اجتہاد کا دروازہ بند ہو نا محض ایک افسانہ ہے ۔
5۔انفرادی اجتہاد صحیح نہیں عہد حاضر میں اجتہاد تعبیر نو قانون ساز اسمبلی کا اختیار ہے۔
6۔قومی اسمبلی کو فقہی مسالک سے بالا ہو نا چاہیے اور کسی بھی فقہی مسلک کی بالادستی اس پر نہیں ہو نی چاہیے ۔
7۔کسی امر قانونی کے بارے میں صحابہ کا اجماع حجت نہیں ۔
اب ہم تر تیب داران پر بحث کریں گے ۔
(1)ترکی"اجتہاد" کی حقیقت :
سب سے پہلے ترکی کے اس اجتہاد کی نوعیت و حقیقت واضح ہو نی چاہیے جسے روح اسلام کے عین مطابق قرار دیا گیا ہے ۔ظاہر ہے یہ وہی اجتہاد ہے جس کی روسے خلافت کا خاتمہ کر کے مغربی جمہوریت کو نافذ کیا گیا اور سٹیٹ کو سیکولر (نامذہبی ریاست) قرار دیا گیا انگریزی ہیٹ کو لازم کر دیا گیا ۔دینی تعلیم حتیٰ کہ عربی میں اذان تک ممنوع قرارا پائی پردے کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا عربی حروف کی جگہ لاطینی حروف (رستم الخط )جاری ہو ئے مخلوط تعلیم کا نفاذ ہوا اور شرعی اداروں اور محکموں اور اسلامی قانون شریعت کو ملک سے بے دخل کر کے سو ئرز لینڈ کا قانون دیوانی اٹلی کا قانون فوجداری اور جرمنی کا قانون بین الاقوامی تجارت نافذ کیا گیا اور پرستل لاء کو یورپکے قانون دیوانی کے مطابق و تحت کر دیا ۔غرض مصطفیٰ کمال کے انگریز سوانح نگار h.c.armstrong کے بقول :
"ترکی قوم اور حکومت کی دینی اساس کو توڑ پھوڑ کر ختم کردیا اور قوم کا نقطہ نظر ہی بدل دیا" grey woif190 p.بحوالہ "اسلامیات اور مغربیت کی کشمکش "ص64۔طبع لکھنؤ)
ریاست کو نامذہبی (سیکولر) بنانے کا بل پیش کرتے ہو ئے مصطفیٰ کمال نے پارلیمنٹ میں جو تقریر کی اس کا خلاصہ پیش کرتے ہو ئے عرفان اور گالکھتا ہے "اس بنیاد پر خوموشی اور خوبصورتی کے ساتھ عمل کرتے ہو ئے مصطفیٰ کمال نے 3مارچ 1924ء کو ایک بل پیش کیا۔ اس بل نے ترکی کی ریاست کو نامذہبی شکل secuiar دے دی اور خلیفہ کے منصب کو ختم کردیا ۔بل کو پیش کرتے ہو ئے مصطفیٰ کمال نے اس موضوع پر کھل کر بحث کی۔اس نے کہا کہ عثمانی سلطنت اسلام کے اصول پر قائم ہو ئی تھی اسلام اپنی ساخت اور اپنے تصورات کے لحاظ سے عرب ہے ۔وہ پیدائش سے لے کر موت تک اپنے پیروؤں کی زندگی تشکیل کرتا ہے اور ان کو اپنے مخصوص سانچے میں ڈھالتا ہے وہ ان کی امنگوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے اور ان کی جرات و اقدام پسندی میں روڑے انکاتا ہے ریاست کو اسلام کے مسلسل باقی رہنے سے خطرہ لا حق رہے گا ۔
نئے فیصلوں اور ان اصلاحات کا اسلام کے مستقبل پر جو اثر پڑا اور ان سے دور رس تبدیلیاں واقع ہو ئیں ان کی نشاندہی کرتے ہو ئے لکھتا ہے ۔
"پارلیمنٹ نے جو فیصلے کئے اور جن کا بہت کم نوٹس لیا گیا حقیقت میں وہ اسلام کے حق میں کاری ضرب اور پیام موت کی حیثیت رکھتے تھے تعلیم کی وحدت کا قانون نظام تعلیم میں دور رس تبدیلیوں کا باعث بنا تعلیمی نظم و نسق جو اس جمہور یئے کہ حدود کے اندر پایا جا تا تھا وزارت تعلیم کے قبضہ و اقتدار میں آگیا ۔اس تبدیلی نے مدرسوں کی سرگرمیوں اور ان علماء واساتذہ کی آزادی کو ختم کردیا جو ان میں تعلیم دیتے تھے دوسرا قدم امور مذہبی کے محکمے کا قیام تھا جو ایک ڈائرکٹر کے ماتحت تھا اور جو شریعت اور اوقاف کی قدیم وزارت کی قائم مقامی کرتا تھا اس وزارت کا کا م مذہبی یا خیراتی مقاصد کی تکمیل اور مسجد اور یتیم خانے کی دیکھ بھا ل تھا ۔لیکن اس کے نظام اور طریقہ کار کا نہایت غلط اور شرمناک استعمال ہوتا تھا ۔"(بحوالہ اسلامیات اور مغربیت کی کشمکش ص65۔66۔)
مولانا ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں ۔"تنہا عربی رسم الخط کے بجائے لاطینی رسم الخط کے اجراء نے ترکی قوم کی زندگی میں انقلاب عظیم برپا کر دیا اور ایک ایسی نئی نسل کو جنم دیا جس کا رشتہ اپنی قدیم تہذیب و ثقات سے کٹ چکا ہے ۔قدیم تہذیب و ثقات اور علم و ادب پر اس کا جو انقلاب انگیز اثر پڑا ہے اس کو ہمارے زمانے کے مقبول مغربی مورخ و مفکر آر نلڈ ٹائسن بیarnoib Toynbee نے اپنی کتاب a study.of history میں بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ لکھتا ہے "ایک قدیم روایت کے مطابق اسکندریہ کی لا ئبریری کا کل ذخیرہ جو نو سو سال سے زائدکی محنت کا نتیجہ تھا پبلک حماموں کو گرم کرنے کے لیے ایندھن کے کا م میں لے آیا گیا ۔ہمارے زمانے میں کتابوں کے جلاڈالنے کے سلسلے میں ہٹلر نے وہ سب کچھ کیا جو وہ کرسکتا تھا اگرچہ چھا پہ خانوں کے قیام کے باعث آج کل کے ظالم حکمرانوں کے لیے جو اس سمت قدم اٹھا ئیں نتائج کے اعتبار سے مکمل کا میابی حاصل کر لینا بہت زیادہ دشوار ہو گیا ہے ۔ہٹلر کے ہم عصر مصطفیٰ کمال اتاترک نے ایک زیادہ موزوں طریقہ اختیار کیا ترکی ڈکٹیٹر کا مقصد اپنے ہم وطنوں کے ذہن کو ایرانی تمدنی ماحول سے رہا کر کے جو ان کو ورثے میں ملا تھا زبردستی مغربی تمدن کے سانچے میں ڈھالنا تھا اور انہوں نے کتابیں سوخت کرنے کے بجائے حروف تہجی کو بدل ڈالنے پر قناعت کر لی۔
اس قانون کے نفاذ کے بعد ترکی غازی کے لیے چینی شہنشاہ یا عرب خلیفہ کی نقل کرنا غیر ضروی ہو گیا تھا ۔فارسی عربی اور ترکی لٹریچر کے کلا سیکی ذخائر اب نئی نسلوں کی دسترس سے باہر سے ہو گئے تھے اب کتابوں کو جلانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی تھی کیونکہ وہ حروف تہجی جو کہ ان کی کنجی کی حیثیت رکھتے تھے وہی منسوخ کر دیئے گئے تھے ا ب یہ ذخائر اطمینان کے ساتھ الماریوں میں بند پڑے رہ سکتے تھے ۔علاوہ چند سن رسیدہ علماء کے ان کو ہاتھ لگانے والا اب کو ئی نہ تھا "
A stidy of history.p.518.519)اسلامیات اور مغربیت کی کشمکش ص۔66۔67)
یہ تھا وہ ترکی "اجتہاد"جس کے نتیجے میں نہ صرف خلافت کا وہ ادارہ ختم ہو گیا جو چودہ و سال سے مسلمانوں کی مرکزیت کی علامت اور عالم اسلام کے تحفظ و بقا کی ضمانت تھا بلکہ ترکی قوم اپنی اسلامی اقدار و روایات سے بھی بیگانہ ہو گئی ۔
کیا جا رہا ہے کہ ترکی کا یہ اجتہاد روح اسلام کے عین مطابق تھا اور اب ہمیں بھی اسی کی پیروی کرنی چاہیے (عربی)حالانکہ یہ مصطفیٰ کمال کی سراسر مغرب زدگی کا نتیجہ تھا جس پر خود علامہ اقبال نے بھی جاوید نامہ (ص(72)میں حسب ذیل تنقید فر ما ئی تھی ۔
علاوہ ازیں علامہ نے اس مغربی تہذیب اور اس کے دل دادگا ن پر بھی بڑی زور دار تنقید یں کی ہیں جس سے اہل علم باخبر ہیں جو ترکی اجتہاد کے نتیجے میں ترکی کا مقدربتی۔
"اجتہاد "یا اسلام سے بغاوت و انحراف ؟:
زیر بحث ترکی "اجتہاد" کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے کہ کیا اسے فی الواقع "ترکی اجتہاد" کہا بھی جا سکتا ہے ؟کیا اس "اجتہاد" میں ترکی کے سب یا قابل ذکر نمایاں اہل علم و فکر شامل تھے یایہ صرف مصطفیٰ کمال اور اس کے چند رفقاء کی مطلق العتانیت اورجبرو استبدادکا نتیجہ تھا ؟
حضرت علامہ تو اب اس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کی ایک غیر واضح بات کو بنیاد بنا کر اس پر ایک پورے فلسفے اور نظر یئے کی عمارت کھڑی کرنے والے دانش وروں سے ہم ضرور یہ استفسار کریں گے کہ ترکی کے اس "اجتہاد " کی نوعیت واضح کریں کہ مذکورہ "اجتہادات "مصطفیٰ کمال کی زاتی خواہشات کا نتیجہ تھے یا وہ پوری تر کی قوم کی سوچ کے علاس تھے؟ اگر اس میں پوری قوم یااس کے نمائندے شامل تھے تو کس طرح ؟ان اجتہادی مباحث میں کس نے کیا حصہ لیا ؟کس طرح سوچ بچار ہوا ؟کو ن کو ن سے زاویئے بحث و نظر کی گرفت میں آئے ؟اور پھر کس طرح پوری قوم یا اس کے نمائندگا ن ایک رائے یا "اجتہاد "پر متفق ہو ئے ؟ نیز پوری قوم اس "اجتہاد "میں اس کی ہمنوا تھی تو پھر اس اجتہاد کے نفاذمیں اسے جبرو استبداد کا سہارا کیوں لینا پڑا؟
اس نے دارو گیر کا بازار کیوں گرم کیا ؟
ان تمام سوالات کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ راقم کے علم کے مطابق یہ "ترکی اجتہاد" ہی نہیں تھا یہ صرف ایک مطلق العنان حکمراں کی اسلام سے بیزاری اور مغربی تہذیب پر فریفتگی کا شاخستا نہ تھا اور ترکی میں جو کچھ ہوا ہے وہ ترکی قوم کی خواہشات کے علی الرغم ہوا ہے سنگینوں کے سائے میں ہوا ہے جبرو تشدد کے ذریعے سے ہوا ہے اور زبانوں پر پہرے بٹھا دینے اور ضمیروں پر نقل چڑھادینے کے بعد ہوا ہے جس شخص نے بھی اس دور کی کچھ تاریخ پڑھی ہے یا اس دور کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں کے مشاہدات سنے ہیں وہ یقیناً اس کا اعتراف کریں گے ،ہو سکتا ہے کہ بہت سے لو گوں کے لیے راقمکی یہ صراحت ایک " انکشاف "کا درجہ رکھتی ہو اس لیے مناسب معلوم ہو تا ہے کہ اس موقع پر ایک پاکستانی صاحب علم وقلم بزرگ کے دورہ ترکی کے مشاہدات سے چند اقتباسات قارئین کرام کی خدمت میں پیش کر دئیے جا ئیں تا کہ مصطفیٰ کمال کے "اجتہادات "اور اس پر ترکی قوم کے رد عمل کی وضاحت ہو جائے ۔
یہ بزرگ ہیں جناب خلیل حامدی صاحب جنہوں نے آج سے چوبیس سال قبل 1986ءمیں ترکی کا دورہ فر ما یا تھا اور اپنے مشاہدات وتاثرات قلم بند فر ما ئے تھے ۔جناب خلیل حامدی صاحب ایک ترکی عالم شیخ الاسلام عمر نصوحی سے ملاقات کی تفصیل اور ان کی زبانی ترکی میں الادینیت کی تاریخ پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں ۔
"شیخ عمر نصوحی کا پورے ملک میں بڑا زبردست احترام پایا جا تا ہے ۔۔۔اسلامی فقہ پر موصوف کو زبردست عبور حاصل ہے اُنہوں نے اس دور میں بھی تعلیم وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا ہے جب یہ مشغل جاری رکھنے والوں کے سر قلم ہو تے رہے اور دین کو پکڑ کر رکھنا آگ کا نگارہ مٹھی میں لینے کے مترادف تھا ۔
میں نے شیخ عمر نصوحی سے اس دور کے حالات سننے کی خوہشظاہر کی جب ترک قوم کو دین سے بیگانہ کرنے کی مہم چل رہی تھی کیونکہ شیخ نصوحی نہ صرف یہ کہ اس دور کے عینی شاہد ہیں بلکہ خود ان حالات کو بھگت چکے تھے
شیخ نصوحی پچھلے حالات کو چھیڑ نا پسند نہ کرتے تھے اُنھوں نے اس پر مسرت کا اظہار کیا کہ ان کی آنکھوں کے سامنے دین پر جو طوفان خیز آزمائشیں ٹوٹیں اور پورا ملک ایک شب تاریک میں تبدیل ہوگیا وہ اب ختم ہو رہی ہیں اور قبل اس کے کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوں وہ اپنی آنکھوں سے نوجوانوں کے اندر دین کی عم بیداری کے ایمان افروز منظر دیکھ رہے ہیں شیخ نے بتایا کہ ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک جو ملک اسلام کا گہوارہرہا بلکہ اسلام کا محافظ رہا ۔اسے صرف آٹھ سال کے اندر اسلام سے بیگانہ کرنے کی کو شش کی گئی 1924ءسے تبدیلی کا یہ سلسلہ شروو ہوا اور 1932ء تک جاری رہا ۔موضوع نازک تھا سب کے دلوں کے تارہل گئے ۔مجلس میں ایک اور صاحب علم بیٹھے ہوئے تھے اُنھوں نے تاریخی ترتیب کی رعایت سے بتایا کہ سلطان وحیدالدین آخری عثمانی خلیفہ تھے مصطفیٰ کمال نے 29اکتوبر 1923ء کو انہیں اختیارات سے محروم کردیا اور صرفامور مذہبی کے سر براہ کی حیثیت سے ان کو باقی رکھا ۔3مارچ 1924ء کو بالآخر نیشنل اسمبلی نے خلافت پر بھی خط تنسیخ پھیر دیا ۔اسمبلی نے اسی اجلاس میں وزارت شریعت اور وزارت اوقاف کو بھی منسوخ کر دیا ۔کچھ دنوں بعد شرعی عدالتیں ختم کر کے انہیں سول عدالتوں کے اندر ضم کر دیا گیا اس کے بعد مصطفیٰ کمال نے دوسرا بھر پورقدم اٹھا یا اور تمام دینی مدارس اور دینی اداروں کو بند کر دیا اور ایک بے اختیار اور نیم مردہ سا مذہبی ادارہ "محکمہ امور مذہبی "کے نام سے کھول دیا بلکہ حکومت نے دینی تعلیم کے معاملے میں یہاں تک تشدد برتا کہ پرائمری سکولوں کے اندر چھوٹے چھوٹے بچوں کو یہ سکھانا شروع کر دیا کہ ہماری پسماندگی کا اصل سبب دین ہے ۔ترکوں کو جتنے مصائب و حوادث کا سامنا کرنا پڑا ہے ان سب کا ذمے دار دین ہے ۔حکومت نے باقاعدہ سابقہ دستور کے اندر سے یہ فقرہ حذف کر دیا کہ۔۔۔۔ "رییاست کا مذہب اسلام ہو گا "۔۔۔۔اس تبدیلی کے بعد تمام اسلامی قوانین منسوخ کر دیئے اسلامی شریعت کو یہ لو گ "شریعت عتیقت "کہتے تھے یعنی بوسیدہ قانون اسلامی قوانین کے بجائے ان لوگوں نے سوئرزلینڈ کا سول لاء اور اٹلی کا فوجداری قانون عوام الناس کی روایات و عادات کا لحاظکئے بغیر ٹھونس دیا شروع شروع میں تو خود جج ان نئے اور نامانوس قوانین کی وجہ سے سخت ذہنی اور فکری پرا گندگی میں مبتلا ہو گئے اور عدالتوں کے اندر کئی کئی سال تک مقدمات فیصلے کے بغیر پڑے رہے ۔علیٰ ہذا القیاس صوفیاء کے تمام سلسلے بھی ممنوع قرار دے دئیے اور عیسائی پادریوں کی طرح علماء کے لیے ایک خاص یونیفام مقرر کیا یعنی سیاہ جبہ اور سفید عمامہ ۔عوام الناس کو ہیٹ اور سوٹ پہننے پر مجبورکیا گیا ایک کروڑ باشندوں کے لیے یکا یک اتنی بڑی مقدار میں ہیٹ فرا ہم کرنا آسان نہ تھا اس غرض کے لیے یو رپ بھر سے ہر طرح کا ردی ( condemmed) مال در آمد کیا گیا ۔جمعۃ المبارک کی بجا ئے اتوار کو چھٹی کا دن قراردیا گیا ۔ حکومت نے مذہبی احساسات کو یہاں تک کچلنے کی کوشش کی کہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے اجتماعات بھی اسے گوارانہ تھے اس نے ان اجتماعات کو بھی پہلے خلاف قانون قرار دے دیا اور پھر اس قانون پر جب بہر اضطراب پیدا ہوا تو پھر اسے تبدیل کر دیا گیا ہجری جنتری کو ختم کردیا گیا عربی اذان ممنوع قرار دے دی وراثت کے قانون میں بنیادی تبدیلی ڈالی اور مرد عورت کو وراثت میں برابرا کا حصہ دار ٹھہرا دیا گیا ۔وراثتکے اصل حصے داروں (ذوی الارحام ) کو فروع بنا دیا اور قانونی نظام کے اندر ایسا انتشار پیدا ہوا کہ تو بہ ہی بھلی ۔ ترکی کا اسلام سے ہر طرح کا رشتہ کا ٹنے کے لیے بالآخر دارالحکومت کو استنبول سے انقراہ تبدیل کر دیا گیا کیونکہ اسنبول مسجدوں اور مذہبی اداروں کا شہر ہے اور یہاں کے چپے چپے سے عثمانی تہذیب جھلک رہی ہے اس لیے ایک نئی زندگی کا افتتاح کرنے کے لیے یہ شہر موزوں نہ سمجھا گیا انقرہ ایک معمولی سا قصبہ تھا اسے دارالحکومت بنا دیا گیا اور شہر کے اندر مسجد کی تعبیر ممنوع قرار دی گئی ۔۔۔۔اس ملک پر سب سے زیادہ آزمائش کی گھڑی وہ تھی جب عربی رسم الخط کے بجائے لاطینی رسم الخط نافذ کیا گیا ۔تبدیلی چونکہ تاریخ فطرت اور روایات کے سراسر خلاف اور معقولیت کے ہر پہلو سے عاری تھی اس لیے نے صرف عوام کے لیے اس کو قبول کرنا آسان نہ تھا بلکہ خود حکومت کو بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔حکومت نے اپنے تمام ذرائع اس تبدیلی پر لگا دئیے اور ان تمام لوگوں کو جو لاطینی حروف کا علم رکھتے تھے جمع کیا گیا اور انہیں عوام کی تعلیم کے لیے بہ جبر مامور کیا گیا ۔2اگست 1928ء کو پہلی مرتبہ انقرہ کے اندر لاطینی حروف کے رواج کا اعلان کیا گیا اور اس اعلان کے ساتھ وہ تمام مطبوعہ کتابیں جو عربی زبان میں موجود تھیں انہیں جمع کر کے مصر ایران اور دوسرے ممالک کو برآمد کر دیا گیا چھا پہ خانہ والوں کو حکم دے دیا گیا ۔کہ وہ عربی حروف کی پلٹیں چھاپہ خانوں میں نہیں رکھ سکتے ۔کالجوں کے نصاب میں سے عربی اور فارسی زبانیں نکال دی گئیں کیونکہ اب ان کی ضرورت باقی نہ رہی تھی ۔اسی پر اکتفاء نہ کیا گیا بلکہ ترکی زبان کے اندر سے عربی اور فارسی کے الفاظ کو چن چن کر نکالاگیا اور ان کے بجا ئے ترکی زبان کے عامی الفاظ کو شامل کیا گیا یا فرانسیسی الفاظ کو اختیار کیا گیا ۔1945ء میں ترکی کا دستور لاطینی زبان میں شائع ہوا ۔("ترجمان القرآن " لاہور،جلد70شمارہ6بابت فروری1969ء بعد میں یہ سفر نامہ ۔۔۔ترکی قدیم وجدید۔۔۔کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہو گیا ہے۔ملاحظہ ہو ص44۔40طبع دوم)
اس کے بعد جناب حامدی صاحب نے"لادینیت کے نفاذ کا رد عمل "عنوان سے ترکی کے مسلم عوام کی اس مزاحمت اور عمل کا تذکرہ کیا ہے جس کا ظہور مصطفیٰ کمال کے "اجتہادات" کے بعد ہوا اور اپنے "اجتہادات "کے نفاذ کے لیے جو جبر و تشدد بانی انقلاب کی طرف سے کیا گیا اس کی تفصیل بیان کی ہے یہ کتاب مارکیٹ میں دستیاب ہے چونکہ صفحات زیادہ تفصیل کے متحمل نہیں اس لیے شائقین اصل کتاب ملاحظہ فر ما سکتے ہیں تاہم دینی تعلیم اور دینی اداروں پر پابندی کے بعد ترکوں نے دینی تعلیم کا سلسلہ جس خفیہ طریقے سے جاری رکھا اس سلسلے میں بھی ایک اقتباس پیش کئے بغیر آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا جناب حامدی صاحب شیخ یشار کی زبانی لکھتے ہیں ۔"شیخ یشار نے بتایا انہوں نے ثانوی تک ترکی کے سیکولر اسکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے اس کے بعد انہیں دینی تعلیم اور عربی کا شوق پیدا ہوا ۔مگر یہ شوق کیسے شرمندہ تکمیل ہو؟ملک کے اندر سیکولر تعلیم کا غلبہ تھا اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے ملک سے باہر نکلنے کی بھی اجازت نہ تھی ۔یہ مشکل صرف شیخ یشار کے لیے پریشانی کی موجب نہ تھی بلکہ تمام ترک مسلمانوں کے لیے قلق واضطراب کاسبب بن چکی تھی ۔مگر ترک مسلمان اس لحاظ سے غیر معمولی وادو تحسین کا مستحق ہے کہ اُ س نے" روز سیاہ "میں بھی "پیر کنعان "سے تعلق نہ توڑا اور اپنی ہر مشکل کا کو ئی نہ کو ئی حل نکال لیا ۔جب عربی اذان ممنوع تھی تو گھروں کے اندر چھپ چھپ کر عربی میں اذان دیتے اور نماز پڑھتے شادی بیاہ کے قوانین اسلامی شریعت کے خلاف دیکھے تو اس میں بھی بڑا دلچسپ راستہ پیدا کر لیا (جس کی تفصیل کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے )دینی اور عربی تعلیم کے لیے بھی اُنھوں نے خطر پسندی کا ثبوت دیا اور زمین دوز دینی مدرسےقائم کر دئیے ۔زمین دوز دینی مدرسوں کا وسیع نظام تھا اور پولیس بڑی جدو جہد اور جبرو تشدد کے باوجود ان کا سراغ لگانے میں ناکام رہتی تھی ان مدرسوں میں عظیم دینے والے اور تعلیم حاصل کرنے والے دونوں اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے پھر تے تھے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ ان پر کماحقہ صادق آتے تھے کہ (عربی)(گویا آگ مٹھی میں لے رکھی ہے )شیخ یشار نے بتایا کہ انہوں نے بھی ایسے ہی ایک مدرسے میں چار سال تک تعلیم حاصل کی ہے ان کی دینی معلومات اور عربی کا ذوق اسی مدرسے کا رہین منت ہے ۔شیخ بتانے لگے ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اندر درس ہو رہاتھا استاذ طلبہ کے سامنے فقہ کے کسی مسئلے پر بحث کر رہے تھے میں بھی ان میں شریک تھا دریں اثناء یکا یک باہر کا دروازہ کھٹکایا گیا ہمیں متعلقہ آدمی نے اشارہ کر دیا کہ پولیس دروازے پر ہے اور وہ اس مدرسے پر چھاپہ مارناچاہتی ہے چنانچہ ہم تمام طلبہ معکتابوں کے ایک ایسے خفیہ دروازے سے نکل گئے ہم" ایمرجنسی گیٹ "کہا کرتے تھے ہمارے استاذ نے دروازہ کھولا پولیس کے سپاہی دندناتے ہو ئے اندر داخل ہو ئے اور بڑی چابک دستی کے ساتھ ادھر اُدھر اُنھوں نے ہاتھ مارے مگر انہیں کو ئی ایسی چیز ہاتھ نہ لگی جس سے یہ ثابت کر سکیں کہ یہاں "رجعت پسندوں "اور "انقلاب دشمنوں "کا کو ئی اڈا ہے استاذ کو دھمکیاں دیں مگر انہوں نے کہا کہ یہ ذاتی رہائش گا ہ ہے تم جس شبہ کی بناء پر یہاں آئے ہو وہ درست نہیں ہے آخر کار پولیس کا دستہ خائب و خاسر واپس لوٹ گیا ۔اگر اس وقت ذرا بھی غفلت یا سستی ہو جا تی یا" رصد گاہ" کا نظام ڈھیلا ہو جا تا تو یقیناً ہم پولیس کے قبضے میں ہو تے اور موت کی سزا سے لے کر عمر قید کی سزا تک سے دوچار ہو تے ۔۔۔وہ دور سخت مشکلات کا دور تھا میں نے ان مشکلات کی طوفان خیز فضا میں چار سال گزارے ہیں حکمرانوں کو ضد تھی کہ ترکی میں عربی کا ایک لفظ سنائی نہ دے اور ہم دریشوں کو ضد تھی کہ عربی سے ہمیں کو ئی محروم نہیں کر سکتا یہ ہمارا سرمایہ ایمان ہے اور ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور ۔۔۔اس وقت "اس سر زمین کا بطن اس کے ظاہر سے بہتر تھا" کیونکہ ظاہر "(عربی)
(ترکوں کا باپ یہ کہتا ہے) پکاررہاتھا اور بطن"قَال اللہ قَال الرسول "(خدا اور اس کے رسول نے فر ما یا )کہہ رہا تھا شیخ یشار نے بتایا کہ زمین دوز خفیہ عربی مدد سے ارض روم اور مشرقی علاقے میں بکثرت پھیلے ہو ئے تھے اور ان علاقوں میں آج بھی ایسے لوگ کثیر تعداد میں ملیں گے جنہوں نے ان مدرسوں میں تعلیم پائی ہے "
(ماہنا "ترجمان القرآن "لاہور ۔جلد 72شمارہ 2۔بابت اکتوبر 1969ء ص 55،54ترکی ۔قدیم وجدید ص191۔188طبع دوم ۔لاہور)
ان مذکورہ تفصیلات سے ہر شخص بہ آسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مصطفیٰ کمال کے ہاتھوں ترکی میں جو تبدیلیآئی وہ "اجتہاد "تھا یا اسلام سے انحراف و بغاوت کی منظم سازش اور جد و جہد ؟اس کے بعد یہ فیصلہ بھی آسانی سے ہو سکے گا کہ اسے "اجتہاد "کہا بھی جا سکتا ہے؟علاوہ ازیں خود علامہ اقبال بھی مصطفیٰ کمال کے بارے میں جو حسن ظن رکھتے تھے اس کے بعد کے اقدامات سے اس میں فرق آگیا تھا اور اپنی رائے تبدیل کر لینے پر مجبور ہو گئے تھے چنانچہ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں "ترکی کے مصطفیٰ کمال اور ایران کے رضا شاہ پہلوی سے بھی اقبال وقتی طور پر متاثر ہو ئے لیکن بالآخر ان دونوں سے ناامید اور مایوس ہو ئے اور اس ناامیدی اور مایوسی کے عالم میں فر ما یا :
(2)جمہوری طرز حکومت کیا روح اسلام کے عین مطابق ہے؟
یہ دعویٰ کہ جمہوری طرز حکومت روح اسلام کے عین مطابق ہے اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے نظام خلافت وسیاست میں جمہوری اقدار موجود ہیں اس میں اظہار را ئے پر پابندی نہیں ہے خلفاء و عمال کو حکومت پر تنقید کی اجازت ہے حکمران احتساب سے بالا نہیں ہیں حکمران عوامکے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے ذمے دار ہیں اور اہل صلاح افراد سے مشاورت کا اہتمام ان کے لیے ضروری ہے تو یہ "جمہوریت " بلا شبہ اسلام میں ہے ۔اور اگر فاضل مقالہ نگار کے نزدیک اس سے مراد مغربی جمہوریت ہے تو رقم علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہے کہ اسے روح اسلام کے عین مطابق قرار دینا حقائق کے یکسر خلاف ہے ۔بلاشبہ شاطران مغرب نے "جمہوریت " کا ناداس زور سے پھونکا ہے کہ بڑے بڑے اہل علم بھی اس زلف گرہ گیر کے اسیر ہو گئے ہیں اور شاید جمہوریت کی عشوہ طرازیوں نے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت کی جو عام تعریف کی جا تی ہے ۔۔۔عوام کی حکومت عوام کے ذریعے سے عوام کے لیے اس کا عملاً دنیا میں کہیں بھی وجود نہیں ہے بلا شبہ عوام کو ووٹ دینے کا حق ضرور حاصل ہے اور اس طرح انہیں حکومت میں شریک اور حصے دار بھی باور کرا یا جا تا ہے لیکن :
1۔ایک تو وہ حضرات جو خطبات وطلاقت لسانی کے جوہر سے فیض یا ب دولت کی فراوانی اور ہر طرح کے وسائل سے بہرہ ور اور وسیع اثر و رسوخ یا اونچے جا ہ و منصب کے حامل ہوں عوام کی رائے کو نہ صرف بری طرح متاثر کر لیتے ہیں بلکہ بسا اوقات انہیں سخت گمراہ کرنے میں بھی کامیاب ہو جا تے ہیں اور اس طرح عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت اپنی رائے کا شعوری یا غیر شعوری طور پر غلط استعمال کرتی ہے جس کا سارا فائدہ ابن الوقت خود غرض مخصوص مفادات کے اسیراور شاطر عیار قسم کے لوگوں کو ہی پہنچتا ہے۔ہمارے اپنے ملک کی 45سالہ سیاست اس پر شاہد عدل ہے۔
2۔دوسرے منتخب شدہ افراد انتخاب کے بعد عوام کی رائے ان کے مسائل اور ان کے جذبات کو قطعاً کو ئی اہمیت نہیں دیتے وہ اپنا تمام حق حکمرانی یا حق نیابت مخصوص اغراض و مقاصد کے لیے یا مخصوص مفادات کے حامل ٹولے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور یو ں یہ اسمبلیاں بالعموم عوامی مسائل کے حل کے بجائے جنگ زرگری یا اقتدار کی رسہ کشی کے اڈوں میں تبدیل ہو جا تی ہیں ۔
3۔علاوہ ازیں اور بھی خرابیاں ہیں جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہو سکتا ہے بعض لو گ کہیں کہ یہ خرابیاں صرف ایشیائی اور ترقی پذیر ملکوں میں ہی پائی جا تی ہیں جہاں ابھی تعلیم اور سیاسی شعور کی کمی ہے جو تعلیم کی شرح میں اضافے اور سیاسی پختگی سے ختم ہو جا ئیں گی۔لیکن جن اہل نظر کو خود انگلینڈ اور یورپ جا کر "جمہوریت "کے مشاہدے کا موقع ملا ہے انھوں نے وہاں بھی یہی کچھ دیکھا ہے چنانچہ پاک و ہند کی مسلمہ اسلامی علمی شخصیت مولانا سید سلیمان ندوی اپنے دیار فرنگ کے تاثرات میں لکھتے ہیں ۔
"یورپکی جمہوریت کا ساری دنیا میں غلغلہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں بھی ایک طبقے کی حکومت رہتی ہے جس میں عوام کو کو ئی دخل نہیں ہوتا اور حقیقی جمہوریت وہاں بھی منقود ہے ہندوستان میں بیٹھ کر یورپ کی جمہوریت اور آزادی و حریت کے بڑے قصے سنے تھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ عملاًیہاں بھی ارباب حکومت اسی درجہ مستبد ہیں جس درجہ مشرق میں ۔عوام کو صرف یہ اختیار ہے کہ ممبر منتخب کر لیں ممبروں کو یہ اختیار ہے کہ وزراء کومنتخب کریں اس کے بعد عوام کو ممبروں پر اور نہ ممبروں کو وزراء پر اختیار ہے ۔فرانس جو ری پبلک کہلاتا ہے وہاں کی حالت انگلینڈ سے بھی بر تر ہے عوام کو حکومت کی پالیسی میں ذرہ برابر دخل نہیں ا ب سمجھ میں آیا کہ یہاں سوشلزم کے برگ وبار پیدا کرنے کے کیا اسباب ہیں ؟ یہاں امیر و غریب طبقوں میں معاشرتاً اس درجہ بُعد ہے جس قدر خدا اور بندے میں "(حیات سلیمان از شاہ معین الدین احمد ندوی ص197)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں ۔"یورپ کی جمہوریت کا رعب تو یہاں آکر فوراً اتر گیا یورپ کی جمہوری ترقی کی اصلیت صرف اس قدر ہے کہ ابتدائے ایام میں صرف مالک بادشاہ ہوتا تھا اس کے بعد زمین دار اور تعلقہ دار و نواب مالک ہو گئے جن کو یٹوریز یا کنسر ویٹوز کہتے ہیں اب تمام تر قوت تاجروں دولت مندوں اور سوداگروں کے ہاتھوں میں ہے جن کے نام لبرل ہے ان کی سیاست کا مقصد صرف اپنی تجارت کی رونق اور دولت کا حصول ہے اور بس (حیات سلیمان ۔ص205)جمہوریت کے معلم فرانس کی جمہوریت کے بارے میں لکھتے ہیں ۔"فرانس کی جمہوریت اور آزادی کا افسانہ تو بہت سن چکا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ قوم انگریزوں سے بھی زیادہ مستبد اور اقتدار پسند ہے عوام کو سلطنت میں کو ئی دخل نہیں صرف ارباب جاہ و ثروت کے ہاتھوں میں حکومت ہے پہلے یہ سن کر بہت خوشی تھی کہ فرنچ اپنی حکومت کو شہشاہی و بادشاہی اور نو آباد شہر یوں کو محکوم اقوام اور دیگر اقوام محکومہ کو انگریز وں کی طرح رعایا نہیں کہتے بلکہ اپنی حکومت کو کامن ویلتھ (دولت مشترکہ )اور رعایا کو سٹیزن یعنی شہری کہتے ہیں ۔گویا فرانس کے زیر سایہ بسنے والے ایک ملک و شہر کے سب بھا ئی بھا ئی ہیں ۔لیکن افسوس یورپ آکر معلوم ہوا کہ ہر لفظ سے اس کا صل مفہوم مراد لینا ضروری نہیں جیسے لیگ آف نیشنز (مجلس اقوام ) انڈی پینڈنٹ (استقلال و خود مختاری) مانڈیٹ (حکم برداری) سلف ڈٹرمینیشن(اختیار ذاتی )وغیرہ الفاظ کے معنی یورپ میں وہ نہیں سمجھے جا تے جو ایشیاء میں ازروئے لغت سمجھے جا سکتے ہیں فرانس کا حق شہریت فرنچ ۔انڈیا ،مراکش ،الجریا اور تیونس وغیرہ کے باشندوں کو آپ جانتے ہیں کب حاصل ہو سکتا ہے؟ جب وہاں کے باشندے فرنچ قانون اختیار کر لیں فرنچ حکومت تسلیم کر لینے کے بعد فرنچ قانون اختیار کرنے کے معنی آپ سمجھے ؟ یعنی دیگر قوانین حکومت کے ساتھ نکاح ۔طلاق وراثت اور دیگر معاملات میں اپنا مذہبی و قومی قانون چھوڑ دیا جا ئے جس کہ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اسلام یا ہندو دھرم کو خیر باد کہو ۔تب فرانس کے حق شہریت کی دولت عظمیٰ مل سکتی ہے اور تب نو آباد کاری کا باشندہ ایک فرنچ کے برابر اور مساوی حقوق پا سکتا ہے اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اپنی قومیت و جنسیت چھوڑ کر فرانسیسی قومیت اختیار کر لو۔ظاہر ہے کہ مسلمان اس کو قبول نہیں کرسکتے اس لیے وہ حق شہریت سے محروم ہیں اور حقوق میں ایک فرنچ مین کے برابر نہیں ہو سکتے ۔جمہوریہ فرانس کا شعار (موٹو) یہ چار الفاظ ہیں ۔
حکومت کے ہر دفتر اور ایوان کے صدر دروازے پر یہ الفاظ آپ کو کندہ ملیں گے لیکن اس کے معنی وہ نہ سمجھیں جو لغت کی زبان آپ کو بتاتی ہے۔
ایک مشہور فرانسیسی مستشرق لوئی مسینان کی مجھ سے خط و کتابت ہو ئی تو میں نے پوچھا کہ ان الفاظ کے کیا معنی ہیں اس نے سچ کہا کہ ان الفاظ کو نہ دیکھو جو دیوار و درپر کندہ نظر آتے ہیں بلکہ ان کو دیکھو جو دلوں میں منقوش ہیں ۔(حیات سلیمان ۔ص208طبع اعظم گڑھ )
یہ ہے فرانس یورپ اور انگلینڈ کی جمہوریتوں کا حال جن کی صدائے باز گشت سے ساری دنیا گونج رہی ہے اور اشترا کی ملکوں کی جمہوریتوں کا جو حال ہے وہ تو محتاج و ضاحت ہی نہیں ۔
جمہوریت کے بارے میں علامہ کی رائے ۔۔۔انہی جمہویتوں کے بارے میں جن کا مشاہدہ علامہ نے بھی خود یورپمیں رہ کر کیا تھا ۔یہ فرمایا اور بالکل بجا فرمایا :
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردے میں نہیں فیراز نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلس آئین و اصلاح ورعایات وحقوق طب مغرب میں مزے بیٹھے اثر خواب آوری
گری گفتار اعضائے مجالس الاماں یہ بھی سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگر ی
"ضرب کلیم" میں مرد فرنگی کی زبان میں جمہوریت کی تعریف اس طرح کرتے ہیں ۔
یہ اشعار اپنے مفہوم میں واضح ہیں اور انہی امور کی تا ئید کرتے ہیں جن کی طرف ہم اشارہ کر آئے ہیں نیز مغربی جمہوریت سے علامہ کی بیزاری بھی ان سے عیاں ہے کلام اقبال کے شارحین بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں چنانچہ ہم ذیل میں صرف دو انتہائی معتبر شارحین کی صراحت پیش کرنے پر فی الحال قناعت کریں گے ۔ایک ڈاکٹر یوسف حسین خاں جو خود بھی قدیم و جدید تعلیم سے آراستہ اور فرانس کے تعلیم یافتہ ایک بلند پایہ اہل علم و اہل قلم تھے ۔ان کی "روح اقبال "اقبالیات میں ایک نہایت ونیع اور کراں قدر کتاب سمجھی اور مانی جا تی ہے اور دوسرے خود علامہ کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال جن کے مستند ہو نے میں شک ہی نہیں کیا جا سکتا ۔
چنانچہ ڈاکٹر اجوید اقبال فر ما تے ہیں ۔
"جمہوری طرز حکومت پر ایک مفکر کی حیثیت سے ان کا اعتراض خالصتاً اخلاقی اور اُصولی تھا کیونکہ اس میں انتخاب کی بنیاد ووٹروں کی گنتی پر رکھی جا تی ہے اور اس گنتی میں ایک صحیح مناسب امید وار محض ایک ووٹ کم پڑنے سے کسی غلط یا غیر مناسب امیدوار کے مقابلے میں شکست کھاسکتا ہے ۔جمہوری نظام کے اس سقم کا عتراف ہر سیاسی مفکر نے کیا ہے اسی طرح وہ برصغیر میں ایسے جمہوری نظام کے انعقاد کے بھی خلاف تھے جس سے مسلمان مِنَ حَیثُ القوم ایک اقلیت میں منتقل کر دئیے جا ئیں ۔نیز انہیں یہ خدشہ تھا کہ کسی بھی پسماندہ ملک میں جس کے عوام زیادہ تر ان پڑھ غیر منظم اور فاقہ کش ہوں وہاں جمہوریت کا تعارف سیاسی ابتری معاشی تباہی قومی انتشار اور ملک کے ٹوٹنے کا سبب بن سکتا ہے ۔۔۔اقبال نہ مغرب کے سیکولر جمہوری نظام کے حامی تھے نہ آج کے دور میں اسلام کے روایتی تصور ریاست (یعنی خلافت ) کو کو ئی اہمیت دیتے تھے" (زندہ رود ج3ص661۔660)
1931ء میں علامہ اقبال جب انگلستان جا نے لگے تو ایک صحافی نے علامہ کا انٹرویو لیا اور اس میں اس نے حضرت علامہ سے مختلف سوال کیے ڈاکٹر جا وید اقبال لکھتے ہیں ۔
"سوال کیا گیا کہ وہ شاہی نظام کے حق میں ہیں ؟ جواب دیا کہ وہ شاہی نظام قائم رکھنے کے حق میں نہیں ہیں مگر جمہوریت کے بھی دل سے قائل نہیں وہ جمہوریت کو محض اس لیے برادشت کرتے ہیں کہ اس کا کو ئی نعم البدل نہیں ہے "(زندہ رود ج3ص440)
اپنے سال وفا ت کی یکم جنوری 1938ء کو علامہ نے نئے سال کا ایک پیغام دیا جو آل انڈیا ریڈیو لا ہور سے نشر کیا گیا اس میں آپ نے فر ما یا ۔
"عہد حاضر علم و دانش اور سائنسی اختراعا ت میں اپنے بے مثال ترقی پر بجا طور پر (لفظ مٹا ہوا ہے )ہے آج زمان و مکان کی تمام وسعتیں سمٹ رہی ہیں اور انسان قدرت کے راز افشا کر کے اس کی قوتوں کو اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرنے میں حیرت انگیز کا میاں حاصل کر رہا ہے لیکن تمام ترقی کے باوجود اس زمانے میں ملوکیت کے جبرو استبداد نے ڈیمو کریسی (جمہوریت )
نیشنلزم (قومی پرستی ) کمیونزم (اشتراکیت) فاشیزم (فسطائیت ) اور نہ جا نے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں ان نقابوں کی آڑ میں دنیا کے کو نے کو نے میں قدر حریت اور شرف انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہو رہی ہے کہ تاریخ عالم کا کو ئی تاریک سے تاریک ورق بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا نام نہاد سیاست دان جنہیں قیادت عوام اور انتظام حکومت کی ذمے داری سوپنی گئی تھی قتل و غارت اور ظلم واستبداد کے سیامین ثابت ہو ئے ہیں اور ان حاکموں نے جن کا فرض ایسی اقدار کی سر بلندی اور تحفظ تھا جو اعلیٰ انسانیت کی تشکیل و تعمیر کا سبب بنتی ہیں اپنے اپنے مخصوص گروہوں کے طمع اور حرص کی خاطر لاکھوں انسانوں کا خون بہا یا ہے اور کروڑوں کو اپنا محکوم بنا لیا ہے (زندہ رود ج3ص634)
مذکور ہ اقتباسات میں علامہ اقبال کی اپنی تصریحات بھی آگئی ہیں جن سے ان کے ان اشعار کی تائید ہو تی ہے جن میں انھوں نے مغربی جمہوریت پر تنقید کی ہے اور اب ملا حظہ فرمائیے ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی تصریخ فر ما تے ہیں "اقبال جدید مملکت کی جمہوری تنظیم کو ہر ملک کے لیے موزوں نہیں سمجھتا یہی جمہوریت جو کمزور قوموں کے حقوق کی علم بردا بن کر اٹھی تھی آج ملوکیت کے پست ترین مناظر دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے فرانسیسی جمہوریت کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے انقلاب کے وقت "قوم زندہ باد " کا جو نعرہ بے بس مخلوق کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے بلند کیا گیا تھا وہی بعد میں جمہوری فرانس کی سلطنت کو وسیع کرنے اور دوسروں کو غلام بنانے کے لیے استعمال کیا گیا قوت و اقتدار کا جذبہ متمدن دنیا کا سب سے زیادہ مؤثر جذبہ ہے جس کا شکار خود جمہوریتیں بن گئیں ۔پھر موجودہ جمہوریت کے خارجی مظاہر ایسے پھسپھسے زندگی کی دشواریوں سے گریز کرنے والے اور غیر مستحقوں کو سیاسی اقتدار کی گدی پر بٹھا نے والے ہیں کہ اگر اقبال بھی اس دور کے دوسرے نامور مفکروں کی طرح ان سے بیزار ہے تو اس میں کو ئی تعجب کی بات نہیں "۔۔۔انسانیت کے تمام اہم فیصلوں کو جو زندگی کے رخ بدلنے والے ہوں محض تعداد کے تابع کردینا انسانیت کے لیے باعث ننگ ہے جمہوریت کا بڑا عیب جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے یہ ہے کہ وہ شمار کرنا تو جانتی ہے لیکن وزن کرنا نہیں جانتی جس کے بغیر ہئیت اجتماعیہ میں عدل و اعتدال قائم نہیں رہ سکتا ۔۔۔(روح اقبال "میں ص 228۔229۔ادارہ اشاعت اردو ۔حید ر آباد دکن )
کیا جمہوریت کی مخالفت کا کوئی مخصوص پس منظر تھا؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ علامہ اقبال نے متحدہ ہندوستان میں ایک مخصوص پس منظر کی وجہ سے جمہوریت کو ناقابل قبول قرار دیا تھا اور اس پر سخت تنقید یں کی تھیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو بالغ رائے و ہند گی کی بنیاد پر اقتدار کی باگیں ہندو اکثریت کے ہاتھوں میں چلی جا تیں اور مسلمان ایک محکوم قوم کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہو تے اس لیے اس پس منظر میں جمہوریت کی مخالفت بالکل صحیح تھے تاہم علامہ کی اس مخالفت جمہوریت کو اسلامی ممالک پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا کیو نکہ اسلامی ملکوں کے لیے تو انھوں نے جمہوری طرز حکومت ہی کو روح اسلام کے عین مطابق قرارد یا ہے علاوہ ازیں وہ آمریت و شہنشاہیت کے بھی خلاف تھے بنا بریں اب جمہوریت کے سوا کو ئی چارہ کا ر نہیں ہے یہ بات بلا شبہ اپنی جگ صحیح ہے کہ متحدہ ہند میں جمہوریت کا مطلب ہندو اکثریت کا غلبہ ہی تھا یہ بھی صحیح ہے کہ علامہ آمریت و ملوکیت کے بھی خلاف تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واقعہ ہے کہ وہ مغرب کی سیکولر جمہوریت کے بھی قطعاً حامی نہیں تھے اس لیے ایک مخصوص پس منظر کے باوجود جمہوریت پر ان کی تنقید ایک اصول کے طور پر تھی کہ جمہوریت شمار کرنا جانتی ہے وزن کرنا نہیں جانتی اور علامہ کا یہ اعتراض علیٰ حالہ قائم ہے ۔علاوہ ازیں علامہ کا یہ خدشہ بھی کہ "کسی بھی پسماندہ ملک میں جس کے عوام زیادہ تران پڑھ غیر منظم اور فاقہ کش ہوں جمہوریت کا تعارف سیاسی ابتری معاشی تباہی قومی انتشار اور ملک کے ٹوٹنے کا سبب بن سکتا ہے ( زندہ رود ج3 ص660)
ایک امر واقعہ کی صورت میں رونما ہو چکا ہے۔ہماراملک اس مغربی جمہوری تماشے کی بدولت دولخت ہو چکاہے ۔ اور یہ جمہوری تماشہ اگر اسی طرح جاری رہا تو نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ ہمیں اور کیا کچھ دیکھنا پڑے گا ؟اگرچہ ہماری دعا اور خواہش ہے کہ اللہ تعا لیٰ ہمیں مزید کو ئی روز بد نہ دکھائے لیکن محض ہماری خواہشوں سے حقائق تو تبدیل نہیں ہو سکتے تا آنکہ ہم حالات وواقعات کا دھا را بدلنے کے لیے کو ئی موثر اور مفید اقدام نہ کریں ۔
پس چہ باید کرو؟
اس لیے ضرورت ہے کہ مغرب کی نقلی اور اندھا دھند تقلید کی بجائے ہم کو ئی ایسا طرز حکومت وضع اور اختیار کریں جس میں جمہوری روح بھی کار فرما ہوا اور مغرب کی متعارف خرابیوں سے پاک بھی ہو راقم کے نزدیک موجودہ اسلامی ملکوں کا مغربی جمہوریت کی اندھا دھند تقلید کرنا فساد کابہت بڑا منبع ہے ۔اس جمہوریت کی بدولت ۔
1۔تمام اسلامی ممالک بر طرح نظریاتی و فکری انتشار کا شکار ہیں کیونکہ ہر نظر ئیے اور فکرکی تبلیغ و اشاعت کی عاماجازت ہے اور اس پر پابندی"جمہوریت "کے خلاف سمجھی جا تی ہے ۔حلانکہ ایک اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو رہنے کا حق تو ضرور حاصل ہے اسلامی مملکت ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمےدار بھی ہے اور انہیں اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہبی مراسم ادا کرنے کی بھی پوری آزادی ہے لیکن انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ اور چار کی اجازت نہیں فسطائیت نہیں بلکہ ایک نظر یاتی مملکت کا حق ہے اس کے بغیر وہ اپنی نظر یا تی بنیادوں کو محفوظ و مستحکم بنا سکتی ہے نہ رکھ سکتی ہے ،لیکن اس جمہوریت کے سبب اسلامی ممالک نظریاتی اکھاڑوں میں تبدیل ہو گئے ہیں جہاں ازم کا پہلوان اپنے ازم اور نظر ئیے کے کیل کاٹنے سے لیس ہو کر ڈنٹرپیل رہا ہے دعوت مبارزت دے رہا ہے اور پہلوان ایک دوسرے کو بچھاڑ نے میں اپنی تمام توانا ئیاں صرف کر رہے ہیں ۔
2۔اس جمہوریت کی بدولت ہر اسلامی ملک میں ہر قسم کے کاروبار کی اجازت ہے اور ہر شخص کو ہر قسم کا پیشہ اختیار کر نے کا حق حاصل ہے ۔صحافت اگر مادر پدر آزادی کا مظاہرہ کرتی ہے اور وہ اس سطح تک پہنچ جا تی ہے کہ ۔۔ع
تب بھی اس پر کو ئی قد غن عائد نہیں کی جا سکتی کہ قدغن جمہوری حق کے منافی ہے کوئی مرد یا عورت یا گروہ کو ئی حیا سوز اور مخرب اخلاق پیشہ اختیار کرتا ہے اور مسلمانوں کی نوجوان نسل میں بےحیا ئی و بے دینی کے زہریلے اثرات پھیلاتاہے تو یہ بھی ان کا جمہوری حق ہے جس پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ۔
3۔۔۔کوئی مذہب کے نام پر بدعت ایجاد کرتا ہے اور اس کا مظاہرہ بھی سڑکوں پر کرتا ہے اور گلی کوچوں میں اس کا مظاہرہ فسادات اور امن شکنی کاباعث بھی بنتا ہے مگر اس پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی کہ اس طرح جمہوری حق متاثر ہو تا ہے ۔
4۔انتخابات کے موقع پر لسانی و علاقائی تعضبات یا برادری اور قبائلی تعضبات پھیلا کر ملک کی جڑیں کھو کھلی کی جا تی ہیں بردریوں اور خاندانوں کو باہم لڑایا جا تا ہے اور گھر گھر بگاڑ اور فساد پھیلا یا جا تا ہے اور یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر کیا جا رہا ہے ۔
وعلیٰ ہذاالقیاس اس قسم کی متعدد خرابیاں ہیں جو جمہوریت کو جوں کا توں اختیار کر لینے کے نتیجے میں اسلامی ملکوں میں عام ہیں اور اس وجہ سے وہ امن واستحکام سے محروم ہیں
کیا یہ جمہوریت ہمارے دکھوں کا علاج ہو سکتی ہے؟ ہمارے درد کا درماں ہو سکتی ہے؟ ہمارے مسائل کا حل ہو سکتی ہے ؟ملک کی سالمیت و بقاء کی ضامن ہو سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر کیا اسلام کا نفاذ اس کے ذریعے سے ممکن ہے؟ نہیں ہرگز نہیں ۔اگر ہم نے مسلمان رہتے ہو ئے اس ملک کی ترقی میں حصہ لینا ہے اس کی نظریاتی بنیادوں کو مستحکم کرنا ہے علاقائی و صوبائی تعصبات سے ملک کو محفوظ کرنا اور رکھنا ہے اسلامی تہذیب وتمدن کو فروغ دینا ہے اور اسلامی اخوت و مساوات اور عدل وانصاف کا نظام قائم کرنا ہے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم کو ئی ایسا نظام حکومت اختیار نہ کریں جو آمریت اور جمہوریت دونوں کی خرابیوں سے پاک ہو۔
جمہوریت کی مخالفت کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ راقم آمریت کا حامی ہے یا فوجی حکومت کی تحسین کر رہا ہے بلکہ مقصود صرف اس حقیقت کا اظہار ہے کہ جس طرح آمریت یا فوجی حکومت ہمارے مسائل کا حل نہیں اسی طرح مغربی جمہوریت بھی ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے جس طرح کہ باور کرایا جا رہا ہے ۔ راقم کو تسلیم ہے کہ موجودہ دور کے لیے آمریت اور فوجی حکومت قطعاً ناقابل قبول ہے اس کا متبادل نظام ہمیں سوچنا ہو گا لیکن " جمہوریت "کو جو ں کا توں اس کا بدل سمجھ لینا بھی غلط ہے اس پر نظر ثا نی کی شدید ضرورت ہے اور متناسب نمائدگی کا اصول یا اور اسی قسم کا کوئی معقول طرز انتخاب اختیار کرنے کی شدید ضرورت ہے اگر اس پہلو پر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا اور اس کا منا سب اور معقول حل تلا ش نہ کیا گیا تو یاد رکھئے جمہوریت کی یہ ناؤ ہمیں کبھی ساحل مراد سے ہمکنار نہیں کرے گی اور ہم انہی گردابوں میں پھنسے رہیں گے جن میں ہم پینتالیس سال سے پھنسے چلے آرہے ہیں ۔
(3)کیا تعبیر شریعت کا کلی اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہے نامزد علماء کو نہیں ؟
تیسری بات فاضل مقالہ نگار نے حضرت علامہ کے حوالے سے یہ بیان فرمائی ہے کہ اجتہاد اور تعبیر شریعت کا حق منتخب نمائند گان کو ہے نامزد علماء کو یہ حق نہیں دیا جا نا چاہیے ۔سارے مقالے کی اصل بنیاد یہی نکتہ ہے اور یہی وہ نقطہ نظر ہے جس میں علامہ اقبال منفرد ہیں ان کی اس رائے کو اہل علم و فکر میں پذیرائی نصیب نہیں ہو ئی ۔کیونکہ انتظامی سماجی سیاسی اور معاشرتی امور و معاملات میں منتخب نما ئندگان کا حق قانون سازی تو سب تسلیم کرتے ہیں ان کے اس حق کا کسی نے انکار نہیں کیا ۔لیکن اس سے بڑھ کر انہیں اجتہاد اور تعبیر شریعت کا بھی واحد اہل اور حق دار قرار دینا یکسر ناقابل قبول ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ "اجتہاد "ایک شرعی اصطلاح ہے جس کامطلب ہے "شرعی ماخذ کی روشنی میں کسی پیش آمدہ شرعی مسئلے کے حل کرنے کی پوری دیانت داری اور خدا خوفی کے ساتھ بھر پور کو شش کرنا اور غور و فکر میں تمام علمی صلاحیتوں کو بروئے کا ر لا نا "اور اس کام کا اہل وہی ہو سکتا ہے جس میں مخصوص قسم کی صلاحیت و استعداد ہو گی اور مخصوص اوصاف و شرائط کا وہ حامل ہو گا ۔محض سرمائے کے بل بوتے پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کے اندر یہ مخصوص استعداد اور مخصوص اوصاف پیدا نہیں ہو جا ئیں گے کہ انہیں "مجتہد "بھی اور شریعت کی تعبیر نو حق دار بھی تسلیم کر لیا جا ئے ۔
زیر بحث نقطہ نظر کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ اس میں "اجتہاد" کے اصطلاحی مفہوم کو نظر انداز کر کے اس کی خود ساختہ تعریف کی گئی ہے کہ کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کی کوشش کا نام اجتہاد ہے۔۔۔(تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ۔ص228)
حالانکہ ہر علم و فن کی اصطلاح کا وہی مفہوم لیا جا تا ہے جو اس علم و فن کے ماہرین رواضعین نے متعین کیا ہے نماز اور زکوٰۃ ایک مخصوص اصطلاح ہے جس کا ایک متعین مفہوم ہے لیکن آج کل ایک گروہ نےان کے لغوی معنی مراد لے کر صلوٰۃ و زکوٰۃ کی وہ حیثیت ختم کرنے کی کو شش کی ہے جو چودہ سوسال سے متفقہ طور پر ملت مسلمہ کے اندر تسلیم ہو تی آئی ہے ۔ظاہر ہے صلوٰۃ و زکوٰۃ کی ایسی خود ساختہ تعریف جس سے ان کی وہ حیثیت ختم ہو جا ئے جو شریعت میں انہیں حاصل ہے بتلائیے !ایسا کرنا زکوٰۃ و صلوٰۃ کاماننا ہے یا اس کا انکار کرنا ہے ؟مرزائی بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ختم نبوت کے قائل ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین مانتے ہیں لیکن ختم نبوت اور خاتم النبیین کا خانہ ساز معنی مراد لیتے ہیں وہ مفہوم نہیں لیتے جو خود صاحب ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلائے ہیں تو ان مرزائیوں کو تمام مسلمان ان کے اس دعوے میں جھوٹا تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ختم نبوت کا وہ اصطلاحی مفہوم نہیں مانتے بلکہ لغت کی روسے اس کا خود ساختہ مفہوم مراد لیتے ہیں اسی طرح اجتہاد کے اصطلاحی مفہوم سے گریز کر کے اس کے لغوی مفہوم کو بنیادبنا کریہ کہنا کہ آزاد انہ کو شش کرنے کا نام اجتہاد ہے نہ اس کے لیے خاص قسم کی اہلیت کی ضرورت ہے نہ خاص اوصاف و شرائط کی جو شخص بھی منتخب ہو کر اسمبلی کے نگار خانے میں پہنچ گیا اسے "اجتہاد" کا حق قانونی طور پر حاصل ہو گیا ۔!!!
یہ وہ بنیادی فکری کجی ہے جس کی وجہ سے اس پر تعمیر ہونے والی عمارت بھی
بہر حال "اجتہاد" کا یہ نظریہ ہر لحاظ سے غلط ہے جس کی درج ذیل وجوہ ہیں
1۔۔۔منتخب نمائند گان کی اکثریت اس عملی اہلیت و صلاحیت سے عری اور ان اوصاف و شرائط سے بے بہرہ ہو تی ہے جو شرعی اجتہاد کے لیے ضروری ہیں ان کی اکثریت قرآن کریم کے سادہ ترجمے تک سے نا آشنا ہوتی ہے ۔چہ جائیکہ وہ اصول تفسیر علوم قرآن اور احکام قرآنی کی علتوں اور غایتوں کو سمجھ سکیں اسی طرح وہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بے خبر ہوتی ہے اسے اصول حدیث اور اسماء الرجال کی باریکیوں کا کیا پتہ؟فقہ اسلامی کا ذخیرہ بھی ان کی دسترس سے باہر ہے جب صورت واقعہ یہ ہے تو منتخب افراد قرآن و حدیث کی روشنی میں اجتہاد جیسے نازک اور کٹھن کام سے کس طرح عہدہ برآ ہو سکتے ہیں ؟ جبکہ اجتہاد کے لیے مذکورہ علوم میں مہارت اور مجتہدانہ درک وبصیر ت ضروری ہے ۔
2۔۔۔دوسری خرابی اس سے یہ پیدا ہو گی کہ ہر پانچ سال بعد شریعت کا نیا ایڈیشن تیار کر نا پڑے گا ۔کیونکہ یہ بات عام تجربہ و مشہدہ حصہ ہے کہ جو نئی حکومت آتی ہے اس کے مفادات و صالح پچھلی حکومتوں سے مختلف ہو تے ہیں اور وہ اس کی روشنی میں قوانین میں رد و بدل اور ترمیم یا نئی قانون سازی کرتی ہے اگر شریعت کو بھی موم کی ناک بنا کر اس کی تعبیر اور تدوین جدید کا حق اسمبلیوں کے نمائندگان کو دے دیا گیا تو یقیناً ۔۔۔ع
کے مطابق شریعت کے ایڈیشن بھی بدلتے رہیں گے اور اس اکھاڑ پچھاڑ میں شریعت کا جو حال ہو گا محتاج وضاحت نہیں ۔علاوہ ازیں ہر اسلامی ملک میں تعبیر شریعت کا اختیار ماہرین شریعت کے بجائے نمئندگان اسمبلی کو مل گیا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مصر کی شریعت اسلامیہ اور ہو گی پاکستان کی اور ترکی کی اور سعودی عرب کی اور ہر اسلامی ملک اپنے اپنے حالات اور مصالح کے تحت شریعت کی تعبیر کرے گا ذرا سوچئے یہ تجویز اپنےاندر کتنے خطر ناک مضمرات رکھتی ہے؟
راقم کا خیال ہے کہ علامہ کی اس تجویز کے یہ مضمرات خود ان کو بھی ناپسند ہیں جس کی تصریح ان کے اشعار اور خیالات میں ملتی ہے مثلاً مثنوی اسرار و رموز میں وہ "راہ آاباء "سمجھتے ہیں نیز زمانہ انحطاط میں "عالمان کم نظر "کے اجتہاد کے مقابلے میں اسلاف کی اقتداء کو محفوظ تر اور اجتہاد کو ملت کے لیےنہایت خطر ناک تصور کرتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں ۔
اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں ۔ع
اس کے بعد پھر اسرار دین سے بیگانہ لوگوں کو اسلاف کے ایک ہی راستے پر مضبوطی سے چلنے اور اختلاف سے بچنے کی تاکید کرتے ہیں ۔