مکتوبات کی روشنی میں

مولانا شبلی نعمانی نے "الکلام' میں شاہ ولی اللہ کے حوالے سے اسی انداز کی بات تحریر کی تھی۔کہ امام وقت کو حالات وضروریات کے تحت شعار تعزیرات اور انتظامات وغیرہ میں تعبیر جدید کا حق حاصل ہے۔علامہ اقبال کو یہ عبارت بڑی کھٹکی اور میں مضمر خطرات سے وہ چونک پڑے جس کا اظہار انہوں نے مولانا سید سلیمان ندوی کے نام ایک مکتوب میں کیا فرماتے ہیں۔

"جناب کا ارشاداس بارے میں کیا ہے؟علی ھذ القیاس ارتفات میں شاہ ولی اللہ صاحب کی تشریح کے مطابق تما م تدابیر جو سوشل اعتبار سے نافع ہوں،داخل ہیں۔مثلاً نکاح وطلاق کے احکام وغیرہ۔اگر شاہ صاحب کی عبارت کی یہ تشریح صحیح ہے۔توحیرت انگیز ہے۔اگر ان معاملات میں تھوڑی بہت ڈھیل بھی دی جائے۔توسوسائٹی کا کوئی نظام نہ رہے گا،ہر ایک ملک کے مسلمان اپنے اپنے دستور ومراسم کی پابندی کریں گے۔"(اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں "ص198۔199)

اس کے جواب میں مولانا سیدسلیمان ندوی نے حسب ذیل جواب دیا۔

"مولانا شبلی مرحوم نے شاہ (ولی اللہ) صاحب کے الفاظ کے جو وسیع معنی قرار دیئے ہیں،صحیح نہیں"(حوالہ مذکور)

مولاناسیدسلیمان ندوی"الکلام" کے حاشیے پر بھی اپنے استاد علامہ شبلی نعمانی کی رائے کی تردید کی ہے۔مولاناشبلی نعمانی نے شا ہ ولی اللہ کی عبارت نقل کرکے اس سے حسب ذیل استدلال کیا تھا۔

"اس اصول سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ شریعت اسلامی میں چوری،زنا،قتل،وغیرہ کی جوسزائیں مقرر کی گئی ہیں،ان میں کہاں تک عرب کے رسم ورواج کا لحاظ رکھا گیا ہے اور یہ کہ ان سزاؤں کا بعینہ او بخصوصاً پابند رہنا کہاں تک ضروری ہے؟

مولانا سید سلیمان ندوی اس کی تردید میں لکھتے ہیں۔

"مصنف نے شاہ صاحب کے مقصود میں بڑی وسعت پیدا کردی ہے چوری،زنا اور قتل کی سزائیں ہیں وہ قرآن پاک کے منصوص احکام ہیں،جن میں تغیر نہیں ہوسکتا۔مقصود تعزیرات سے ہے جو امام کی رائے کے سپرد ہیں جیسے یہ کہ شرابی کی سزا یا اور دوسرے غیر منصوص انتظامی احکام،جیسے زوراء کاتقرر امراء کانصب اورجنگ کے سامان و اسلحہ اور طریقے وغیرہ دوسرے سیاسی وانتطامی مسائل،جن میں عربی خصائل ودستورکی پابندی کی ضرورت نہیں۔۔۔(الکلام ص120 مطبع اعظم گڑھ 1941ء)

علامہ اقبال نے شبلی نعمانی کے استدلال سے متعلق تو استفسار نہیں فرمایا،لیکن یہ استدلال شاہ ولی اللہ کی جس عبارت پر مبنی تھا۔اس کی بابت استفسار فرمایا اور اپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ اس استدلال کو اگر وسعت دے دی گئی اور اس میں ڈھیل دے دی گئی تو اسلامی سوسائٹی کا سارا نظام ٹوٹ پھوٹ کررہ جائے گا۔اس کے علاوہ اور بھی متعدد خطوط ہیں جن سے واضح ہوتاہے کہ علامہ اس بارے میں علمائے اسلام کے باکل ہمنوا تھے کہ قرآن وحدیث کے منصوص احکام میں تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا۔ایک اور مکتوب میں ترکی کے اس "اجتہاد" کے بارے میں جس کی رو سے قرآن کے منصوص حکم میں تبدیلی کرکے مرو وعورت کو وراثت میں یکساں قرار دے دیا گیا تھا۔مولانا سید سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں۔

"میں نے جو حصص کے متعلق آپ سے دریافت کیا تھا۔اس کا مقصد یہ نہ تھا کہ میں ان حصص میں ترمیم چاہتا ہوں بلکہ خیال یہ تھا کہ شاید ان حصص کی ازلیت وابدیت پر آپ کوئی روشنی ڈالیں گے۔میرے نزدیک اقوام کی زندگی میں "قدیم" ایک ایسا ہی ضروری عنصر ہے جیسا کہ"جدید" بلکہ میراذاتی میلان قدیم کی طرف ہے۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ اسلامی ممالک میں عوام اور تعلیم یافتہ لوگ دونوں طبقے علوم اسلامیہ سے بے خبر ہیں۔اس بے خبری سے آپ کی اصطلاح میں یورپ کے "معنوی استیلاء" کا اندیشہ ہے جس کا سدباب ضروری ہے ۔میرا ایک مدت سے یہ عقیدہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان جوسیاسی اعتبار سے دیگر ممالک اسلامیہ کی کوئی مدد نہیں کرسکتے دماغی اعتبار سے ان کی بہت کچھ مدد کرسکتے ہیں۔کیا عجب ہے کہ اسلامی ہند کی آئندہ نسلوں کا نگاہوں میں "ندوہ" علی گڑھ سے زیادہ کارآمد ثابت ہو۔"(اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں ص188)

علامہ کے ان مکاتب سے واضح ہے کہ وہ

1۔اسلاف کی تعبیر سے ہٹ کر شریعت کی ایسی تعبیر کو پسند نہیں کرتے تھے۔جس سے تجدو مال وپر مہیا ہوں اور یوں ملت اسلامیہ کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے اور ہر اسلامی ملک میں جدا جدا شریعتیں بن جائیں جیسا کہ منتخب نمائندگان کو حق اجتہاد عطا کردینے کے نتیجے میں اس کا غالب امکان ہے۔

2۔وہ"جدید" کے مقابلے میں "قدیم" کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان کاقلبی میلان اسی طرف تھا ،جس کا مطلب بھی یہی ہے کہ شوق جدت میں وہ ورثے اور اسلامی روایات واقدار سے ہاتھ دھونا پسند نہیں کرتے تھے۔بلکہ جدید سے اس طرح استفادے کے قائل تھے کہ جس سے قدیم سے کوئی تعلق نہ ٹوٹے جیسا کہ علمائے کرام کا موقف ہے۔

3۔نیز علوم اسلامیہ سے بے خبری ان کے نزدیک یورپ کے "معنوی استیلاء" کے مترادف تھی،جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قانون سازی ،اجتہادی اور تعبیر شریعت جیسے نازک اور کٹھن فرائض کی ادائیگی کے ذمے د ار اگرایسے لوگ ہوگئے جو انگریزی اوردنیوی تعلیم سے توآراستہ ہوں لیکن دینی علوم سے بے بہرہ ہوں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مغرب کی ہرچیز کو اپنانے کے جنون میں مبتلا ہوجائیں گے اور فرنگی مدنیت کی تقلید ہی ان کا منتہائے مقصود اور مطلوب نظر بن جائے گی۔اپنے اشعار میں انہوں نے اس نکتے کی خوب وضاحت کی ہے۔چنانچہ علامہ اسلامی ممالک میں تجدید کے علمبرداروں کے بارے میں اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ تجدید جسے اب اجتہاد کا عنوان دیا جارہا ہے کہیں تقلید فرنگ کا بہانہ بن جائے۔

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ


وہ تجدید واصلاح کے علمبرداروں کی بے بضاعتی اور تہہی مائیگی کا ذکر اسطرح کرتے ہیں۔

میں ہوں نومید تیرے ساقیان سامری فن سے
کہ بزم خاوراں میں لے کے آئے سانگیں خالی
نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب ودامن میں
پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی


وہ مشرق کی اسلامی اقوام کو ملامت کرتے ہیں جن کا منصب قیادت وامامت کا تھا لیکن وہ پست درجہ کی شاگردی اور ذلیل قسم کی نقالی کا کردار ادا کررہی ہیں۔

کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو


مولانا ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ یہ"غالباً ترکوں کی طرف اشارہ ہے"۔۔۔(نقوش اقبال ۔ص81)

اس ضمن میں مصطفےٰ کمال کے انقلاب واصلاح کی سطیحت اوراس کی فکری کہنگی اور یورپ کی نقالی کی مذمت علامہ نے "جاوید نامہ" میں کی ہے وہ اشعار پہلے نقل کئے جاچکے ہیں۔

اوراسرار خودی میں فرماتے ہیں:

عقل تو زنجیری افکار غیر درحملوئے تو نفس ازتارغیر
بر ذہانت گفتگو ہا مستعار دردل تو آرزو ہامستعار
قمریانت را نوا ہا خواستہ سرو ہایت راقباہا خواستہ
بادہ می گیری بجام از دیگراں جام ہم گیری بوام از دیگراں
آفتاب استی یکے درخود نگر از نجوم دیگراں تابے مخر
تاکجا طوف چراغ محفلے زآتش خود سوزاگرواری دلے

(ص۔160۔161)

اس کا مطلب ڈاکٹر یوسف حسین خاں بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں۔

"جب کوئی گروہ اپنی تہذیب اور اپنی روایات ملیہ پر اعتماد نہیں رکھتا توضرور ہے۔کہ وہ حوصلہ مند قوم کاغلام ہوجائے،جوقوم اپنی عقل کو دوسروں کے افکار کی زنجیر میں گرفتار کرلے اور اپنے دل کی آرزوؤں تک کو دوسروں سے مستعار لینے میں تامل نہ کرے،وہ دنیا میں نیابت الٰہی کے حق سے کبھی عہدہ برآمد نہیں ہوسکتی۔اقبال کو اپنے ہم مشربوں سے شکایت ہے۔ کہ ان کے خیالات دوسروں کے افکار کے رہین منت ہیں،ان کی گفتگو دوسروں سے مستعار لی ہوئی ہے اور ان کی قمریوں کی نوا اورسروکی قبا تک دوسروں سے مانگی ہوئی ہے۔بھلا اس طور پر وہ کیسے عروج وترقی کاخواب دیکھ سکتے ہیں"(روح اقبال ص143۔144)

اور غلامان یورپ سے گلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک
بے چارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے
جاں بھی گرو غیر ،بدن بھی گروغیر
افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے


ترکی کے مصطفےٰ کمال اور ایران کے رضا شاہ پہلوی کےاقدامات سے بھی بالاخر علامہ ناامید ہوگئے تھے۔جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔اسی سلسلے میں انہوں نے درج ذیل شعر میں بھی اپنے جذبات کااظہار کیا ہے۔

نہ مصطفےٰ نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح مشرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی


خالدہ ادیب خانم(ترکی کی مشہور صحافیہ) جو مصطفےٰ کمال کی شریک کار تھیں۔اورہندوستان میں آکر اس نے کئی لیکچر دیئے تھے۔جن میں کمالی اصلاحات واجتہادات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی تھی،علامہ نے اس پر بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیاتھا۔

چنانچہ جاوید اقبال لکھتے ہیں۔

"خالدہ ادیب خانم کے چند لیکچر جامعہ ملیہ میں ہوئے جن کا ہندوستان کے اخبارات میں خوب چرچا بھی ہوا کیونکہ ان کازاویہ نگاہ خالصتاً سکیولر تھا۔اقبال کی رائے ان کے متعلق یہ تھی کہ:

"مشرق کی ر وحانیت اور مغرب کی مادیت کے متعلق جن خیالات کااظہار خالدہ ادیب خانم نے اپنے لیکچروں میں کیا ہے ،ان سے معلو م ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ بہت محدود ہے۔"(زندہ رود ج3 ص54 6)

اس تفصیل سے واضح ہے کہ کہ علامہ کے نزدیک بھی اسلامی قضا یا معاملات میں اجتہاد صرف انہی اہل علم و ماہرین شریعت کا حق ہے۔جن کی عمریں قرآن وحدیث کی تعلیم وتدریس اوراس پر غور وفکرمیں گزری ہیں۔ہر کہ ومہ کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا اگر ایسا کیا گیا تو اس کا نتیجہ تقلیف فرنگ کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔

حالات کے مطابق شریعت کی تعبیر نو یا اس کا انطباق؟

اس مقام پرمناسب معلوم ہوتاہے۔ کہ اس امر کی بھی وضاحت کردی جائے کہ عصری مسائل ومشکلات کے حل کے لئے جو مساعی اور جدوجہد کی جائے اس کا عنوان کیاہوگا؟ راقم کے خیال میں اس کا عنوان تطبیق شریعت ہونا چاہیے تعبیر شریعت نہیں۔کیونکہ شریعت کی تعبیر تو عہد رسالت وعہد صحابہ میں مکمل ہوچکی ہے۔البتہ ہر دور میں شریعت کا انطباق حالات ومقضیات کے مطابق علمائے کرام اور فقہاء ومجتہدین کرتے رہے ہیں اب شریعت کی اس سلفی تعبیر سے انحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔جس کے مطابق اسلام کے ادوار خیر القرون میں عمل ہوتارہے۔ تاہم اس کی روشنی میں عصری مسائل کا انطباق بھی ایک اجتہادی امر ہے۔جو اجتہاد کے مسلمہ اصول و قواعد اور اسلام کے کلیات وضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے بروئے کار لایا جائے گا۔

"تعبیر شریعت ایک مغالطہ انگیز اصطلاح ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔اس کامتبادر مفہوم یہ نکلتا ہے۔کہ اب زمانہ بہت تبدیل ہوچکا ہے۔اورآج کامعاشرہ عہد رسالت وعہد صحابہ کے معاشرے سے بہت مختلف ہے۔اس لئے اس دور کے احکام قوانین بعینہ آجکل کے دور اور معاشرے میں نہیں چل سکتے۔اس لئے ان کی نئی تعبیر ضرور ی ہے۔اور اس طرح ہراہم اسلامی حکم میں ردو بدل ترمیم اور تنسیخ کا جواز تلاش کیا جارہا ہے۔اور تعبیر شریعت کی اصطلاح استعمال کرنے والوں کے ذہن میں فی الواقع یہی جذبہ وروح کار فرما ہے۔وہ مقتضیات وضروریات وقت کو شریعت کے سانچے میں ڈ ھالنا پسند نہیں کرتے۔بلکہ شریعت کو توڑ مروڑ کر یا اس میں کتربیونت کرکے اپنے پسندیدہ سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔

یہ نقطہ نظر بنیادی طور پر ایک دائمی وابدی دین کے خلاف ہے۔ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دین اسلام اللہ تعالیٰ کانازل کردہ ہے۔اور قیامت تک کے لئے انسانیت کی نجات اسی دین سے وابستہ کردی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ قیامت تک آنے والے حالات سے بھی آگاہ تھے۔وہ ایسے دین کو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے ضروری قرار نہیں دے سکتے تھے۔جس کی تعلیمات چند صدیوں کے بعدد مقتضیات زمانہ کے ساتھ دینے سے اور نئے نئے پیش آمدہ حالات سے عہد برآ ہونے کی صلاحیت سے عاری ہوتیں۔بنا برین ہمارا پختہ یقین ہے کہ اسلامی تعلیمات میں کسی دور میں بھی ترمیم وتنسیخ کی ضرورت نہیں۔ہر دور کے تقاضے اس سے پورے کیے جاسکتے ہیں۔ بشرط یہ کہ ایمان واخلاص کادامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔کوئی مشکل ایسی نہیں جس کا حل نہ نکل سکے۔ اور کوئی تقاضا ایسا نہیں جس سے وہ عہدہ برآنہ ہوسکے۔اگر ہمارے حکمرانوں کے فکر ونظر کے پیمانے کارگہ مغرب کے ڈھلے ہوئے نہ ہوتے،اگر ان کے قلب ودماغ شاید تہذیب مغرب کی عشوہ طرازیوں سے مسحور نہ ہوئے ہوتے اور انکے ذہن ساحران یورپ کے افسوں سے مرعوب نہ ہوئے ہوتے تو عصر حاضر میں بھی شریعت اسلامیہ کا انطباق چنداں مشکل کا نہیں تھا۔اور نہ ہے۔

بیان میں نکتہ توحید آتو سکتا ہے
ترے دماغ میں بت خانہ ہوتو کیا کہیے
مسلمہ اسلامی تعبیرات کے خلاف نئی تعبیر
کی کوشش "اجتہاد" نہیں 'انتشار" ہے


چند سال قبل مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور کے زیراہتمام شائع ہونے والے سہ ماہی "منہاج" نے ایک "اجتہاد نمبر" شائع کیا تھا۔اس موقعے پر ادارہ "منہاج" نے ایک سوال نامہ بھی مرتب کیاتھا۔جس کےجوابات اہل علم سے طلب کئے تھے۔اس میں ایک سوا ل یہ بھی تھا۔

"قیاس واستنباط کے علاوہ،کیا قرآن وسنت کے احکام کی تعبیر بھی اجتہاد کہلائے گی؟" اس کا جو جواب راقم نے اس وقت دیا تھا۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں بھی نقل کردیا جائے۔چنانچہ یہ جواب حسب ذیل تھا۔

"قرآن وسنت کے احکام کی جو تعبیر اسلاف امت یعنی صحابہ وتابعین وتبع تابعین کے دور (جسے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں دور خیر القرون کہا جاتاہے)سے مسلم چلی آرہی ہے۔اس کے خلاف دوسری تعبیر کی قطعاً اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ قرآن وسنت کے مفاہیم ومطالب کو ان سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔جن کی آنکھوں کے سامنے قرآن اترا اور اس کی عملی تشکیل انہوں نے نمونہ محمدی اورتشریح محمدی کی صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھی یا اپنے کانوں سے سنی اور تابعینؒ وتبع تابعینؒ کا زمانہ بھی چونکہ صحابہ کرام سے متصل ہے ۔نیز خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس زمانے میں خیروبھلائی کی وضاحت کی ہے۔ «خيرالقرون قرنى ثم الذين يلونهمثم الذين يلونهم»

اس لئے تابعین وتبع تابعین کا فہم قرآن بھی معتبر ہےکہ انہوں نے براہ راست قرآن وحدیث کے احکام کی وہ تعبیر دیکھی اور سنی جو صحابہ کرام نے بلا واسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی۔اور اس کے مطابق اسلامی معاشرے کی عملی تشکیل کی۔

اس لئے قرآن واحادیث کے احکام کی وہی تعبیر معتبر ہے جو دور خیر القرون سے مسلم چلی آرہی ہے۔اس تعبیر کےخلاف کسی د وسری تعبیر کی کوشش "اجتہاد" نہیں "انتشار" کہلائے گی۔اور متجددین اور مغرب ذدہ طبقہ اسی "انتشار" کو "اجتہاد" کے نام پر اسلامی معاشرے میں فروغ دے رہا ہے۔جس کا سد باب انتہائی ضروری ہے۔ورنہ دین اسلام بازیچہ اطفال بن کر رہی جائے گا۔(سہ ماہی منہاج لاہور اجتہاد نمبر ص271 جنوری 1983ء)

4۔اجتہاد کی اہمیت وضرورت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔

چوتھی بات مقالہ زیر بحث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہونا محض فسانہ ہے یہ بات بالکل درست ہے۔اجتہاد کی اہمیت ہردور میں مسلم رہی ہے اورحالات ومقتضیات کے مطابق اجتہادی عمل بھی جاری رہا ہے اور آج بھی اس کی اہمیت افادیت اور ضرورت کا کوئی منکر نہیں ہے۔اسی اجتہاد نمبر میں ایک سوال یہ بھی تھا۔

"قانون سازی کے عمل میں اجتہاد کو کیا مقام حاصل ہے؟"

اس کے جواب میں راقم نے جوکچھ کہا تھا حسب ذیل ہے:۔

"غیر منصوص معاملات میں شارح کی مرضی ومنشا کے مطابق قانون سازی ہی کا نام قیامس واستنباط اوراجتہاد ہے۔ جس کی ضرورت عہد صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین بلکہ عہد رسالت سے اب تک مسلم ہے۔جب اجتہاد ایسی اہم چیز ہے کہ ہر دور میں اس کی ضرورت ہے تو ظاہر بات ہے۔کہ اس کا مقام بھی بہت اونچاہے۔اس لئے اجتہاد کو فقہ اسلامی کی روح اور اس کے لئے سرچشمہ ء حیات قرار د یا جائے تو بجا ہے۔کیونکہ اجتہاد کو مقصداسلام اور اس کے خصائص کے ساتھ خصوصی تعلق ہے۔اسکے لئے ضروری ہے کہ پہلے اسلام کے مقصد اوراس کی خصوصیات کو سمجھ لیاجائے اس کے بعد اجتہاد کی اہمیت اوراس کا مقام بھی از خود واضح ہوجائےگا۔

اسلام کا مقصد پوری انسانیت کی صلاح وفلاح ہے۔جو اس کے تمام انفرادی و اجتماعی حالات کو شامل اور اس کے حاضر ومستقبل پر حاوی ہو۔اسلام کےمتعلق ہر مسلمان کا بجا طور پر یہی عقیدہ ہے اور ہونا چاہیے۔اور اسلام کی خصوصیات یہ ہیں کہ یہ آخری شریعت ہے۔اس کانبی آخری نبی اور اس پرنازل شدہ کتاب آخری کتاب ہے اب نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ کوئی نئی کتاب اور شریعت۔قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی نجات وفلاح اب اسی آخری شریعت اسلامیہ سے وابستہ ہے۔

دوسری خصوصیت اس کی عالم گیریت ہے اس کی تعلیمات کسی زمان و مکان کے ساتھ مخصوص نہیں کسی زبان ونسل تک محدود نہیں بلکہ اس کی تعلیمات آفاقی اورعالم گیر ہیں۔

تیسری خصوصیت اس کی استیعابیت ہے یعنی شرعی احکام اور اس کے قواعد و ضوابط تمام پیش آمدہ مسائل اور جملہ ممکن الوقوع حوادث کو محیط ہیں اور اس لائق ہیں کہ ہر زمانے اور ہر جگہ کی قانونی ضروریات کو پورا کرسکیں۔چنانچہ علمائے اسلام نے کتب فقہ اور دیگر مقامات میں اس امر کی تصریح فرمائی ہے۔کہ موجودہ اور آئندہ زمانے میں کوئی ایسا حادثہ وقوع پزیر ہونے والا نہیں ہے۔جس کے حل کے لئے شریعت اسلامیہ میں کوئی ایسی نص نہ ہو جس کی روشنی میں اس کا حل ممکن نہ ہو۔اور وہ فقہ اسلامی کے احکام پنجگانہ یعنی ایجاب (وجوب) استحباب۔اباحت۔کراہت یا تحریم کے تحت نہ آسکتا ہو۔

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام کا مقصد تمام انسانیت کی فلاح وبہود ہے اور اس کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ممکن الوقوع حادثے اور مسئلے کاحل اس میں موجود ہے تو اس سے از خود یہ بات متحقق ہوجاتی ہے کہ اسلام میں اجتہاد ناگزیر امر ہے۔کیونکہ اس کے بغیر پیش آمدہ مسائل کا حل ممکن ہی نہیں۔مسائل وحوادث تو غیر متناہی ہیں،جب کہ آیات و احادیث متعلقہ احکام محدود ہیں۔اس صورت میں اجتہاد کا دروازہ بند کردینے کامقصد یہ ہوگا کہ فقہ اسلامی پر جمود طاری ہوجائے اور وہ نئے حوادث اور جدید مشکلات کا حل پیش کرنے سے قاصر رہے اور ظاہر بات ہے کہ یہ بات اسلام کے اس مقصد اور خصوصیات کے منافی ہے جس کی وضاحت سطور بالا میں کی گئی ہے۔اس پہلو کی وضاحت علامہ شہرستانی اس طرح کرتے ہیں۔

"وبالجملة نعلم ايضا ويقينا ان الحرادث والوقائع فى العبادات والتفرقات مما لا يقبل الحصروالعد ونعلم ايضا قطعا انه لم يروفى كل مسألة نص ولا يتصور ذلك ايضا والنصوص اذا كانت متناهية والوقائع غير متناهية ولا يتناهى لا يضبطه ما يتناهى علم قطعا ان الاجتهاد والقياس واجب الاعتبار حتى يكون يصدر كل حادله اجتهاد"الملل والنحل ج1ص248، طبع 1948ء مصر)"

یعنی "عبادات اور معاملات میں حوادث اس کثرت سے پیش آتے ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔اور ہم یہ قطعی طور پر جانتے ہیں کہ ہر حادثے میں نص موجود نہیں ہے۔اور نہ ایسا ہونا ممکن ہی ہےکہ ہر حادثے سے متعلق نص ہو پس جب نصوص متناہی ہیں اور حوادث غیر متناہی اور یہ بھی مسلم ہے کہ متناہی چیز غیر متناہی کو ضبط نہیں کرسکتی اور نہ اس پر حاوی ہوسکتی ہے۔تو اس سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ"قیاس واجتہاد" کااعتبار ضروری ہے تاکہ ہر حادثے کے لئے اجتہاد کیا جاسکے"(مجلہ منہاج لاہور ۔اجتہاد نمبر ص 269،270)

اسلامی مملکت میں قانون سازی کادائرہ عمل محدود اور مشروط ہے:

یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اسلامی ریاست میں قانون سازی کی گنجائش ضرور ہے۔لیکن مغربی جمہوریتوں کی طرح اس میں قانون سازی کا یہ حق غیر محدود نہیں۔محدود ہے۔غیر مشروط نہیں۔مشروط ہے۔مغرب کے جمہوری نظام میں قانون سازی کا یہ حق عوام کو حاصل ہے۔ان کی اکثریت جس چیز کو پسند یانا پسند کرے گی اس کو قانون کی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔لیکن ایک اسلامی ریاست میں قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کے لئے تسلیم کیا گیا ہے۔اس لئے وہاں کے مسلم عوام اللہ کے پسند وناپسند کو نظر انداز کرکے اپنے طور پرکوئی قانون سازی نہیں کرسکتے۔وہاں قانون سازی کا دائرہ عمل محدود ومشروط ہے۔

چنانچہ اسلامی معاشرے وریاست میں حسب ذیل صورتوں میں قانون سازی (اجتہاد) کی گنجائش ہے۔

1۔جن معاملات میں شریعت بالکل خاموش ہے۔نہ براہ راست ان کے متعلق کوئی حکم ہے اور نہ ان سے ملتے جلتے معاملات ہی کے متعلق کوئی ہدایت ملتی ہے۔

2۔ایسے معاملات،جن کے بارے میں اگرچہ کوئی شرعی نص نہیں ہے لیکن ان سے ملتے جلتے معاملات کے بارے میں شریعت کا حکم موجود ہے۔

اول الذکر معاملات میں اس انداز سے قانون سازی کی جائے گی جو اسلام کی روح اور اس کے اصول عامہ سے مطابقت رکھتی ہوگی۔

ثانی الذکرمعاملات میں قانون سازی کی صورت یہ ہوگی کہ احکام کی علتوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ان تمام معاملات میں ان کو جاری کیا جائےگا جن میں وہ علتیں پائی جائیں گی۔اور ان معاملات کو ان سے مستثنیٰ ٹھہرایا جائے گا جن میں وہ علتیں نہیں پائی جاتیں۔

3۔علاوہ ازیں ایک تیسری قسم قانون سازی کی یہ بھی ہے کہ اسلامی احکام کی تدوین نو کی جائے اور ہر ہر باب کو شق وار اوردفع وار مرتب کیا جائے۔جس طرح آج کل کے وساتیر اور قوانین ہیں۔اس کی مثال قانون قصاص ودیت وغیرہ ہیں جو اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر حکومتی اداروں نے مل کر مرتب کئے ہیں۔

تاہم یہ اجتہاد یا قانون سازی صرف وہ اہل علم اور ماہرین شریعت کریں گے جو اجتہاد کے اوصاف وشرائط کے حامل ہوں گے کسی پارلمینٹ یا اسمبلی کے نمائندے محض نمائندگی کی بنیاد پر اس کے اہل نہیں ہوں گے جیسا کہ مقالہ زیر بحث میں اس امر پرزور دیا گیا ہے۔

5۔عصری مسائل ومشکلات کا حل اجتماعی اجتہاد ہی میں مضمر ہے:۔

پانچویں بات مقالے میں یہ کہی گئی ہے کہ انفرادی اجتہاد صحیح نہیں ،عہد حاضر میں اجتہاد وتعبیر نوقانون ساز اسمبلی کا اختیار ہے۔

جہاں تک اس بات کاتعلق ہے کہ اجتہاد انفرادی ہو یا اجتماعی واقعہ یہ ہے کہ جب تک اجتماعی اجتہاد کی کوئی صورت نہیں بنتی۔عصر ی مسائل ومشکلات کا حل ممکن نہیں اس لئے اجتماعی اجتہاد ناگزیر ہے۔لیکن فاضل مقالہ نگار نے فکراقبال کے حوالے سے اجتماعی اجتہاد کی جو صورت تجویز کی ہے وہ انتہائی غیر معقول اور ناقابل قبول ہے جس پر تفصیلی بحث گزر چکی ہے۔

اجتماعی اجتہاد کی صحیح صورت یہ ہے جسے راقم اس سے قبل بھی "منہاج" کے "اجتہاد نمبر" میں پیش کرچکا ہے کہ:۔

"عالم اسلام کے فاضل علماء کی ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو اپنے اسلامی کردار اور زہد ورع میں بھی ممتاز ہوں اور اس لحاظ سے مسلم عوام میں قابل اعتبار گردانے جاتے ہوں۔اور وہ قرآن کے علوم اوراحادیث ر سول صلی اللہ علیہ وسلم پرگہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ چاروں مذاہب فقہ کی کتابوں پر بھی دسترس رکھتے ہوں۔وہ ہر ہر فقہ کی دو دو اہم اور بنیادی کتابیں سامنے رکھیں۔مثلاً فقہ حنفی سے المبسوط اورالبدائع والصنائع فقہ مالکی سے موطاامام مالک اور المدونہ الکبریٰ فقہ شافعی سے کتاب الام اورشرح مہذب فقہ حنبلی سے المغنی لابن قدامہ اور کشاف القناع اورفقہ ظاہری سے المحلیٰ بن حزم اور فقہ الحدیث سے صحیح بخاری اوردوسری کتب صحاح ستہ اور ان کی شروح۔ان کتابوں میں ردو بدل یامزید کمی بیشی ممکن ہے۔یہ ایک سرسری ساخاکہ ہے جس میں مزید رنگ وروغن بھراجاسکتا ہے۔

ان متبحر علماء کی کمیٹی میں جدید علوم وفنون یعنی اقتصادیات واجتماعیات قانون تجارت وغیرہ جملہ عوام عصریہ کے ایسے ماہرین بھی شامل کئے جائیں جو عقیدہ وعمل کے لحاظ سے سچے اور کھرے مسلمان ہوں۔تعلیم جدید نے ان کی ایمانی بنیادوں کو متزلزل نہ کیاہو۔بلکہ و ہ عصری مسائل کا ادراک وشعور رکھنے کے ساتھ ان کے شرعی حل کا احساس وجذبہ اوردلی تڑپ بھی رکھتے ہوں تاکہ علمائے شریعت جدید عصری معاملات اورفنی (ٹیکنیکل) مسائل میں ان کی رائے اور تفصیلات پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔اور جدید مسائل کی تہہ تک پہنچنے میں علماء کو آسانی ہو۔

مذکورہ فقہی کاوشوں سے استفادہ کرتے ہوئے اور علم جدید سے بہرہ وردیانت دار لوگوں کی رائے اور معلومات کو سامنے رکھ کر کھلے دل ودماغ سے اجتہادی مسائل کا حل اس اجتماعی طریقے سے نکالاجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم عصری مسائل کو شرعی احکام کے ساتھ تطبیق نہ دے سکیں اور ان کامناسب حل تلاش نہ کرسکیں۔"(سہ ماہی منہاج لاہور ص285۔286)

6۔اجتہاد کا صحیح طریقہ:۔

چھٹی چیز مقالے میں یہ بیان کی گئی ہے کہ:۔

"قومی اسمبلی کوفقہی مسالک سے بالا ہوناچاہیے اور کسی بھی فقہی مسلک کی بالادستی اس پر نہیں ہونی چاہیے۔

یہاں قومی اسمبلی کی بجائے اہل علم وفکر کی کمیٹی ہونی چاہیے۔کیونکہ ارکان اسمبلی اجتہاد کے اہل نہیں۔اجتہاد صرف وہی کریں گے جو اس کے اہل ہوں گے۔قطع نظر اس بات سے کہ منتخب ہوں یانامزد۔بلکہ ایسے اونچے درجے کے اہل علم کو تلاش کرکے نامز د ہی کرناپڑے گا۔وہ انتخابی عمل کی کھکڑوں اور اس کی گھٹنائیوں سے گزرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔

البتہ جہاں تک اس بات کاتعلق ہے کہ اجتہادی کمیٹی کو فقہی مسالک سے بالا ہونا چاہیے۔ اور کسی بھی فقہی مسلک کی بالا دستی اس پر نہیں ہونی چاہیے۔بالکل صحیح ہے۔اجتہاد کسی ایک فقہ کے محدود دائرے میں محصور ہوکر کرنا صحیح نہیں ہوگا۔اس نکتے کی وضاحت بھی راقم "منہاج" کے اجتہاد نمبر" میں ایک سوال"اجتہاد کا صحیح طریق کیا ہے؟"کے جواب میں کرچکاہے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں دوبارہ پیش کردیا جائے۔راقم نےلکھا تھا کہ اجتہاد کے دوطریقےچلے آرہے ہیں۔جس کی وضاحت شاہ ولی اللہ کے الفاظ میں حسب ذیل ہے۔

باید دانست کہ سلف وراستنباط مسائل وفتاویٰ بردو وجہ بووند،یکے آنکہ قرآن وحدیث وآثار صحابہ جمع می کروند وازاں چااستنباط می نمووند وایں اصل راہ محدثین است۔ودیگرآنکہ قواعد کلیہ کہ جمع ازائمہ تنقیح وتہذیب آں کردہ اند یا وگیرند بے ملاحظہ ماخذ آنہا۔بس ہر مسئلے کہ وارومی شد جواب آں از ہمہ قواعد طلب می کروند وایں طریقہ اصل راہ فقہا است وغالب بربعض سلف طریقہ اولیٰ بوووبر بعض آخرطریقہ ثانیہ(مصفی ج1 ص4)

ترجمہ:۔سلف میں استنباط مسائل (اجتہاد ) کے دو طریق تھے۔پہلا یہ کہ قرآن وسنت اور آثار صحابہ جمع کئے گئے۔اور ان کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل پرغور کیاگیا۔یہ محدثین (اہل الحدیث) کاطریقہ تھا۔دوسرا طریقہ یہ کہ(قرآن وحدیث اور آثار صحابہ کی بجائے) ائمہ کے منقح اور مہذب کردہ قواعد کلیہ کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کیاگیا۔اور اصل ماخذ(قرآن وحدیث) کی طرف توجہ کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی۔یہ فقہاء کاطریقہ ہے سلف میں سے ایک گروہ پہلے طریق کا پابند ہے اور ایک گروہ دوسرے طریق کا"

اور "عقدالجید " میں شاہ صاحب نے اہل الحدیث (محدثین) کے بھی دو گروہوں کا ذکر کیا ہے۔ایک محققین فقہاء اہل حدیث اوردوسرے ظاہری اہلحدیث اور اہل الظواہر کو محققین اہل حدیث سے الگ قرار دیا ہے۔اور ان ظاہریوں کی علامت یہ بتلائی ہے کہ وہ قیاس واجماع کے قائل نہیں۔چنانچہ شاہ صاحب محققین اہل حدیث کے طرز اجتہاد واستنباط مسائل کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں۔

"محققین فقہائے اہل حدیث (محدثین) کا یہ طریقہ تھا اورایسے لوگ کم ہیں،اور یہ لوگ علیحدہ ہیں ظاہری اہل حدیث سے جو نہ قیاس کے قائل ہیں نہ اجماع کے"(عقدل الجید مع ترجمہ مسلک مروارید۔ص44 طبع مجتبائی دہلی)

اور حجتہ البالغہ میں شاہ صاحب نے انہی محققین فقہائے اہلحدیث کے ان قواعد کا تذکرہ فرمایا ہے جو انکے نزدیک تطبیق بین النصوص ،استنباط،مسائل اجتہاد ورائے کے لئے معیار اور بنیادی اصول ہیں۔جن کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے۔

"جب قرآن مجید میں کوئی حکم صراحتہً موجود ہوتو اہل حدیث کے نزدیک کسی دوسری چیز کی طرف توجہ کی ضرورت نہیں۔

اگر قرآن مجید میں تاویل کی گنجائش ہو اورمختلف مطالب کا احتمال ہو تو حدیث کا فیصلہ ناطق ہوگا۔قرآن کا وہی مفہوم درست ہوگا۔جس کی تائید سنت سے ہوتی ہے۔

اگر قرآن مجید کسی حکم کے متعلق خاموش ہوتو عمل حدیث پر ہوگا۔وہ حدیث چاہے فقہاء کے درمیان مشہور ومعروف ہو یاکسی شہر کے ساتھ مخصوص ہویا کسی خاندان یا کسی خاص طریقے سے مروی ہو اور چاہے اس پر کسی نےعمل کیا ہو یا نہ کیا ہو وہ حدیث (بشرط صحت) قابل استناد ہوگی۔جب کسی مسئلے میں حدیث مل جائے تو کسی امام اور مجتہد کی پروانہ کی جائے گی۔نہ کوئی اثر قابل قبول ہوگا۔جب پوری کوشش کے باوجود کسی مسئلے میں حدیث نہ ملے تو صحابہ وتابعین کے فتووں پر عمل کیا جائے گا۔اور اس میں کسی قوم اور شہر کی قید یا تخصیص نہیں ہوگی۔

اگرخلفاء اور جمہور فقہاء متفق ہوجائیں تو اسے کافی سمجھا جائے گا۔اگر فقہاء میں اختلاف ہوتو زیادہ متقی وعالم اور زیادہ حفظ وضبط رکھنے والے شخص کی حدیث قبول کیجائے گی یا پھر جو روایت زیادہ مشہور ہوگی اسے لیا جائے گا۔

اگرعلم وفضل ورع وتقویٰ اور حفط وضبط میں سب برابر ہوں تو اس مسئلے میں متعدد اقوال متصور ہوں گے۔جن میں ہرایک پرعمل جائز ہوگا۔

اگر اس میں بھی اطمینان بخش کامیابی نہ ہوتو قرآن وسنت کے عمومات اقتضاء اور ایماء ات(اشارات) پر غور کیا جائے گا۔اور مسئلہ زیر بحث کے نظائر کے حکم کودیکھا جائے گا۔اور حکم استخراج کیاجائے گا۔اصول فقہ کے مروجہ قواعد پر اعتماد نہیں کیاجائے گا بلکہ طمانیت قلب اورضمیر کے سکون پر اعتماد کیا جائے گا۔جسطرح متواترروایات میں اصل چیز راویوں کی کثرت اور ان کی حالت نہیں بلکہ اصل شے دل کا اطمینان اور سکون ہے۔یہ اصول پہلے بزرگوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعینؒ) کےطریق کار اور ان کی تصریحات سے ماخوذ ہیں۔"

اس کے بعد شاہ صاحب ؒ نے ان آثار کا ذکر کیا ہے۔جن میں ان اصولوں کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔جن میں اولیت قرآن وحدیث اور آثار صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دی گئی ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ۔ج1 ص149)

ہمارے خیال میں اجتہاد کا یہ طریقہ جسے شاہ صاحب نے تفہیمات میں بین بین اور عقد الجید میں محققین فقہائے اہل حدیث کا طرز بتلایاہے جس میں ظاہریوں کی طرح قیاس صحیح اور باقاعدہ اجتہاد کا انکار ہے۔نہ اہل علم فقہاء کی صحیح فکری کاوشوں سے اعراض ہے اور نہ جامد مقلدین کی طرح نصوص قرآن وحدیث سے بے اعتنائی اور ان میں توجہیات بعیدہ اور تاویلات رکیکہ کی ترغیب ہے یہی طریقہ اجتہاد صحیح ہے۔

اس تفصیل کا یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ ہم فقہ حنفی(جس کے ماننے والوں کی ہمارے ملک میں اکثریت ہے)اور دیگر فقہوں سے استفادے کے قائل نہیں۔ہمارے نزدیک فقہاء کی یہ فقہی کاوشیں صد احترام ہیں۔جن کا استخفاف مقصود نہیں۔تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ فقہاء نے اپنے اپنے حالات اور عرف کے مطابق اجتہاد کیا اور شرعی احکام مستنبط کیے۔اب حالات کے تقاضے اور ان کی نوعیتیں مختلف ہیں۔عرف بدل چکےہیں۔اور نئی تہذیب وتمدن اور ان کی بو قلمونیت نے بہت سی نئی مشکلات اورپیچیدگیاں پیدا کردی ہیں۔ ان حالات میں گزشتہ صدیوں کے فقہاء کے اجتہادی احکام کو من وعن نافذ کرنے پر اصرار کوئی معقول طریقہ نہیں ہوگا۔نہ اکثریت واقلیت کا راگ الاپنا مناسب ہے۔ اصل چیز قرآن وحدیث کی برتری اور عوام کی سہولت ہے۔اس نقطہ نظر کے بعد چاہے بنیاد فقہ حنفی کو بنا لیا جائے لیکن استفادہ دیگر فقہوں سے بھی کیا جائے۔اور جو فقہی مسئلہ موجودہ زمانے کے مقتضیات سے زیادہ ہم آہنگ اور ارفق بالناس ہوا سے اپنا لیا جائے قطع نظر اس سے کہ وہ مسئلہ فقہ حنفی کا ہو یافقہ شافعی کا فقہ مالکی کا ہو یا فقہ حنبلی کا۔اس طریقے سے اس تقلیدی جمود،حزبی،تعصب،اور گروہ بندی کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی جس کو اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ باور کرایا جاتاہے۔اور جس سے لادینی عناصر غلط فائدہ اٹھا کر اسلامی نظام کے نفاذ کو ٹالتے چلےآرہے ہیں اور اس طرح عصری مسائل کاحل بھی سہل تر ہوجائے گا۔"(سہ ماہی منہاج ص281۔285)

7۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اجماع حجت شرعیہ ہے جس سے انحراف کی اجازت نہیں۔

ساتویں بات مقالے میں یہ کہی گئی ہے کہ کسی امر واقعی کے بارے میں تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اجماع حجت ہے۔جیسے معوذ تین کے بارے میں اختلاف ہوا کہ یہ قرآن کا حصہ ہیں یا نہیں،تو صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے متفقہ فیصلہ دیا کہ یہ قرآن کا حصہ ہیں۔ لیکن کسی امر قانونی کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اجماع حجت نہیں۔اس صورت میں یہ مسئلہ محض تعبیر واجتہاد کا ہے جس میں ان سے مختلف اجتہاد کیا جاسکتاہے۔

لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اجماعی مسائل میں امر واقعی اورامر قانونی کے درمیان تفریق کرنے کی کوئی دلیل نہیں دلائل شرعیہ مطلقاً ہر معاملے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اجماع کوحجت گردانتے ہیں۔اوراس سے انحراف کی اجازت نہیں دیتے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بعد منعقد ہونے والے اجماع کی حجیت پر تو پھر بھی اختلاف ہے۔لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اجماع حقیقی پر اہل سنت کے کسی بھی مکتب فکر اور کسی بھی مجتہد کا ا ختلاف نہیں۔بنا بریں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ا جماع سے گریز کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔جس طرح شریعت کی تعبیر میں ان کی رائے اور تعبیر سب سے زیادہ اہم ہے۔جس کی موجودگی میں دوسری تعبیرصحیح نہیں اس طرح کسی بھی مسئلے میں صحابہ کی اجماعی رائے سے گریزغیر صحیح اور ناقابل قبول ہے۔

علامہ کانظریہ اجتہاد مسلم قوم کے لئے ناقابل قبول ہے:۔

مقالہ مذکور میں باتیں تو اور بھی ہیں۔ جن پر گفتگو ہوسکتی ہے۔لیکن جو باتیں زیادہ اہم تھیں۔ان پر ضروری گزارشات پیش کردی گئی ہیں۔آخر میں دوبارہ راقم علامہ اقبال کے افکار کے بارے میں یہ عرض کرے گا کہ ان کے وہ افکار جس میں وہ جمہور امت سے منفرد رائے رکھتے ہیں۔ ان کو زیر بحث لانے سے گریز کیاجائے۔کیونکہ ان کی عظمت تو ان کی لازوال شاعری کی مرہون منت ہے۔ان کے تفردات وشذوذ کی وجہ سے نہیں۔ہرعظیم شخصیت سے کچھ فکری تسامحات کا صدور بھی ہوجاتا ہے۔ جن سے ان کی عظیم شخصیت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔البتہ اس کے فکری تسامحات کو ہی اس کی عظمت کی بنیاد ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو اس سے یقیناً اس کی عظمت متاثر ہوتی ہے۔اس لئے علامہ کے شذوذ وتفردات پر جو ان کے مجموعی فکر وفلسفے ۔نظریات وخدمات اور حیات وشخصیت سے مطابقت نہیں رکھتے۔نئے نئے نظریے اور فلسفے کی بنیاد رکھنا نادان دوستی ہی کی ذیل میں آتا ہے۔

اگرکسی کو یہ شبہ ہو کہ زیر بحث نظریہ اجتہاد ان کے شذوذ میں شمار کیے جانے کے قابل نہیں بلکہ وہ توان کی فکری عظمت اور بالغ نظری کی دلیل ہے۔تو راقم سوال کرے گا کہ اگر ایسا ہے تو پھر مسلمانوں کے اہل علم وفکر میں اس نظرئے کو پزیرائی نصیب کیوں نہیں ہوئی؟حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ علامہ کے پیش کردہ اس نظریے کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے۔لیکن اب تک اسے سنجیدہ غوروفکر کا مستحق ہی نہیں سمجھا گیا۔ اور کسی بھی حلقے نے اسے قبول ہی نہیں کیا۔جس کا اعتراف خود ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی کیا ہے۔ چنانچہ وہ علامہ کے نظریہ اجتہاد اوراس میں ان کے تفردات پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

"اجتہاد کے معاملے میں انہوں نے اس قسم کی وسعت نظر کامظاہرہ کیا ہے۔ اور فقہ میں قرآن وسنت کی حدود میں رہتے ہوئے ایسی انقلابی تعبریں ان کے ذہن میں تھیں جنھیں قبول کرنے کے لئے اب تک نہ تو تقلید پسند اور تنگ نظریہ علماء تیار ہیں۔نہ مسلم قوم۔۔۔اقبال اپنی تحریروں میں یہاں تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ان کے نزدیک مسلمانوں کی ہر نسل گزشتہ نسلوں کے فقہی تعبیر یا اجماع کی پابند نہیں۔بالفاظ دیگر وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی ہر نسل فقہی مسائل کا حل وقت کے جدید تقاضوں اور اپنی بدلتی ہوئی ضروریات کو مد نظر رکھ کر کرے۔ اقبال یہ حق جدید جورس پروڈنس کے ماہر اور اسلامی فقہ کے اصولوں سے شناسا وکلاء اور ججوں(قاضیوں) کو دیتے ہیں۔اس سلسلے میں وہ جس جرائت فکر یا تحریک پر اصرار کرتے ہیں یا جس لبرل ازم کی طرف مسلمانان جدید کو لے جانا چاہتے ہیں۔اسے ابھی تک کوئی بھی قبول کرنے پر رضا مند نہیں ہوا۔"(زندہ رود۔ج3،ص658)

ڈاکٹر جاوید اقبال کی یہ صراحت۔مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری۔

کی آئینہ دار ہے۔جس کے بعد اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ علامہ اقبال کا نظریہ اجتہاد بالکل اچھوتا،منفرد اور شاذ ہے۔اوراسے علماء اور مسلم قوم نے جس طرح اب تک قبول نہیں کیا ہے۔آئندہ بھی اسے قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ جو لوگ ایسی ناقابل قبول شاذ رائے کے منوانے پر اصرار کرتے ہیں۔وہ علامہ اقبال کے ساتھ نا انصافی کا ارتکاب کررہے ہیں۔اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں مولانا سید سلمان ندویؒ نے ایک موقعے پر تنبیہ فرمائی تھی۔

"آج کل ڈاکٹر اقبال کے نام سے متعدد رسائل نکل رہے ہیں۔اور مجلسیں قائم ہورہی ہیں۔یہ سب کو معلوم ہے کہ اشخاص بھی بہ تدریج ترقی کرکے منزل مقصود کے احاطے میں داخل ہوتے ہیں۔اور ان کے خیالات بھی اس تدریج کے ساتھ کمال کو پہنچتے ہیں۔اس لئے اگر کہا جائے کہ ہر شے جو ڈاکٹر اقبال کے کلام کے فائل میں نکل آئے وہ ان کی تعلیم ہے تو وہ سراسر غلط ہوگا۔بلکہ وہی چیزیں ان کی تعلیمات کے عناصر ہوں گی جن پر ان کے قلم نے ایک مدت کی تلاش کے بعد آرام کی سانس لی۔اور جس منزل پر پہنچ کر ان کے خیال کے مسافر نے اقامت ا ختیار کی۔اس بناء پر آجکل رسالوں کےکارخانوں میں جو مال تیار ہوتا ہے۔اس پر ڈاکٹر اقبال کے نام کا مارکہ لگا کر جو دکان داری کی جارہی ہے۔وہ ہمت افزائی کے لائق نہیں۔ع۔کبھی فرصت سے سن لینا بڑی ہے داستان میری"(معارف اعظم گڑھ مئی 1942ءبحوالہ اقبال سید سلمان ندوی کی نظر میں "ص112۔113)

علامہ کا اپنے "نظریہ اجتہاد" سے رجوع:۔

مولانا سید سلمان ندوی نے جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس نقطہ نظر سے اگر علامہ کے نظریہ اجتہاد کاجائزہ لیاجائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے اپنے اس نظریے اجتہاد سے رجوع کرلیا تھا کیونکہ اس کے بعد انہوں نے اس کے برعکس خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔

مولانا سید سلمان ندوی کےنام ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کے یہ "خطبات" 1922ءمیں انگلستان میں زیر طبع تھے(اقبال سید سلمان ندوی کی نظر میں ص167) جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ خطبات 1922ء سے بھی کئی سال قبل تحریر کئے گئے تھے۔اور یہ دور وہ تھا جب ترقی میں انجمن اصلاح وترقی اور اس کے سرکردہ رہنما مصطفےٰ کمال اور انکے دیگر ہمنوا ایک طرف ترکی کی اصلاح ترقی کے لئے مختلف کوششوں میں سرگرم تھے اور دوسرے ترکی کی بعض ریاستوں(بلقان ویونان وسمرنا وغیرہ) پر اتحادی فوجوں نے جو قبضہ کرلیا تھا۔ان کے خلاف حرب وضرب میں مصروف تھے۔اور اس میں انہوں نے خاصی کامیابی حاصل کی اور اتحادی فوجوں کو مار بھگایا۔مصطفےٰ کمال کی یہی شہامت وشجاعت تھی جس نے اسے ترکی کی بازیافتہ ریاستوں میں ہیرو کا مقام عطا کردیاتھا۔

لیکن جب 1924ء میں مصطفےکمال نے خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کرکے اور ترکی کی اسلامی حیثیت ختم کرکے اسے سیکولرازم اور مغربیت کے راستے پر ڈال دیا۔(جس کچھ تفصیل پہلے گزر چکی ہے)تو علامہ نے مصطفےٰ کمال سے بھی مایوسی کا اظہار کیا اور اس پر تنقید کی جیسا کہ علامہ کے یہ اشعار وخیالات پہلے نقل کئے جاچکے ہیں۔اسی ضمن میں ان کایہ شعر بھی ہے۔

چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا

سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

جس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ علامہ نے پہلے ترکی اجتہاد کی جو تعریف کی تھی۔بعد میں مصطفے کمال کے اقدامات دیکھ کر اس پر انہوں نے نظرثانی کرلی تھی۔اس کی تائید ان خطوط سے بھی ہوتی ہے۔جو مولاناسید سلمان ندوی کے نام پر جن کے بعض اقتباسات گزر چکے ہیں۔ جن سے ان کے نظریے کا پتہ چلتا ہے۔کہ وہ ایسی تعبر وتشریح جدیدکے قائل نہیں رہے تھے۔جس کے نتیجے میں ہر اسلامی ملک میں الگ الگ احکام شرعی مرتب ہوجائیں اور یوں ملت اسلامیہ کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے جیسا کہ ان کے اس نظریہ اجتہاد سے مستفاد ہوتاہے۔جسے اب بعض حلقے"تشکیل جدید الٰہیت اسلامیہ" کے حوالے سے پیش کر رہے ہیں۔

بہرحال اس توجیہ وتطبیق سے اگر کوئی حلقہ مطمئن نہیں ہوتا اور اس کا اصرار یہ ہے کہ علامہ اپنے نظریہ اجتہاد پر ہی قائم رہےتو ہم پھر یہی عرض کریں گے کہ علامہ کا یہ نظریہ اپنے اندر نہایت خطرناک مضمرات رکھنے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے۔اس سے تجدد اور مغربیت ہی کی حوصلہ افزائی ہوگی جس کو وہ خود بھی سخت ناپسند کرتے تھے۔اور اپنے اشعار میں ان پر زور دار تنقیدیں کی ہیں۔اور مسلمانوں کی نئی نسل کو اس سے بچانے کی بھرپور سعی کی ہے۔اس لئے ہم مولانا سید سلمان ندوی کی زبان میں اس امر کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ اقبال ؒ

"ہندوستان کی آبرو"مشرق کی عزت اور اسلام کا فخرتھا۔۔۔ایسا عارف فلسفی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم،شاعر،فلسفہ اسلام کا ترجمان اور کاروان ملت کا حدی خواں صدیوں کے بعد پیدا ہواتھا۔اور شاید صدیوں کے بعد پیدا ہو۔اس کے زہن کا ہر ترانہ بانگ درا اس کی جان حزیں کی ہرآواز ذبور عجم،اس کے دل کی ہر فریاد پیام مشرق اور اس کے شعر کا ہر ہر پر پرواز بال جبریل تھا۔اس کی عمر گو ختم ہوگئی لیکن اس کی زندگی کا ہر کارنامہ جاوید نامہ بن کر ان شاء اللہ زندہ رہےگا۔"

(معارف مئی 1938ء بحوالہ اقبال سید سلمان ندوی کی نظر میں ص116۔117)

لیکن اس کے ساتھ ہم یہ بھی کہیں گے کہ اس کی ہر بات آسمانی نہیں۔ہرفکروحی وتنزیل نہیں،اور ہر فرمودہ خطاء وذلل سے محفوظ نہیں۔انسان کتنا بھی بڑا ہو لیکن انسانوں میں یہ مقام عصمت صرف انبیاء علیھم السلام ہی کو حاصل ہے۔ہمیں اقبال کو اقبال ہی رہنے دینا چاہیے۔اسے پیغمبر معصوم بنانے سے گریز کرناچاہیے۔

وماعلینا الا البلاغ المبین۔

من آنچہ شرط بلاغ است باتومی گویم۔