نکاح کے لیے والدین کی رضا مندی ضروری ہے
فیصلہ کے قابل ذکر نکات
22۔ شادی کا وہ مفہوم اور وسعت اور اس کا وہ انداز جو عدالتوں کے ذریعے مشکل ہو رہا ہے، اس ملک میں جنسی بغاوت کے طوفان کا بہت بڑا ذمہ دار ہے۔
26۔ شادی اسلام میں ایک خالصتا دیوانی معاہدہ نہیں ہے۔
(i)اسلام کے مطابق نکاح
اہم ترین اداروں میں سے ایک ہے، اس کے بہت دوررَس نتائج ہیں اور اسے مسلم پرسنل لاء میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
"فقہاء کے درمیان طے شدہ ہے کہ نکاح مذہبی معاملہ ہے"
چونکہ مجتہدین کے درمیان یہ تسلیم شدہ امر ہے اس لئے اس کی مخالف کرنا اجتہادی اصولوں کے مطابق ممنوع ہے۔
لفظ نکاح عربی کے ایک لفظ حِصن (Hisn) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب قلعہ ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ایک شادی شدہ مرد و عورت قلعہ کی حفاظت میں آ جاتے ہیں۔
(Viii) اسلام میں ہر قابل احترام عورت اپنے خاندان/قبیلہ کی حفاظت میں ہوتی ہے۔ شادی سے قبل وہ والدین کی حفاظت میں ہوتی ہے اور شادی کے بعد وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں آجاتی ہے اور وہ عورتیں جن کو اس قسم کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا وہ کسی کی بھی شرارت سے بہک سکتی ہیں۔ قرآن کے مطابق ایسی عورتیں پارسا اور نیک لوگوں سے کوئی تعلق نہ رکھتی ہیں۔ جبکہ دیوانی نوعیت کے معاہدہ میں مذکورہ حقیقتیں نہ پائی جاتی ہیں۔
(ix) معاہدہ عارضی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے اور مستقل نوعیت کا بھی جب کہ اسلام میں عارضی نکاح درست نہ ہے۔
(x) مزید برآں معاہدہ میں یہ ضروری نہیں کہ وہ مخالف جنسوں کے درمیان ہو۔ دو عورتیں بھی معاہدہ کر سکتی ہیں اور دو مرد بھی ایک دوسرے کو معاہداتی پابندی میں جکڑ سکتے ہیں لیکن نکاح میں یہ ضروری ہے کہ خاوند اور بیوی کا تعلق مخالف جنسوں سے ہو۔
ان رشتوں کے مابین شادی کی واضح طور پر ممانعت ہے جب کہ معاہدہ کرتے وقت ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
(xii) معاہدہ خفیہ طور پر بھی کیا جا سکتا ہے جب کہ خفیہ نکاح جائز نہیں ہے۔
لہذا ایک دیوانی معاہدہ اور ایک مسلم شادی میں واضح فرق ہے جب کہ دیوانی معاہدہ کے جائز ہونے کے لئے اعلان ضروری نہیں ہے۔
27۔ فقہاء نے جائز شادی کی کافی شرائط کا تذکرہ کیا ہے لیکن مندرجہ ذیل شرائط پر اتفاق رائے ہے اگر ان میں سے ایک بھی نہ ہو تو درست شادی معرض وجود میں نہیں آتی اور پہلی دو شرائط یعنی ولی کی اجازت اور نکاح کے فریقین کی اجازت کے بغیر اگر شادی کی گئی تو وہ باطل یعنی مکمل طور پر کالعدم ہو گی۔ بڑی بڑی شرائط حسب ذیل ہیں:
(i)ولی یا سرپرست کی اجازت
(ii) مجوزہ میاں بیوی کی اجازت اگر وہ بالغ ہوں اور بعد ازاں ان کی طرف سے ایجاب و قبول۔
(iii) حق مہر کی ادائیگی
(iv) دو مرد گواہوں کی موجودگی یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی
28۔ (i) جہاں تک ولی کی اجازت کا تعلق ہے
کسی شخص کی بھی شادی مجوزہ عورت کے ولی کی اجازت کے بغیر درست نہ ہے اور یہ قرآن پاک کے درج ذیل حکم سے واضح ہے۔
34۔ جہاں تک مجوزہ خاوند بیوی کی رضامندی کا تعلق ہے تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ ولی کی اجازت کے ساتھ ساتھ خاوند اور بیوی کی مرضی بھی اس طرح ضروری ہے اگر بیوی بالغ ہو چکی ہو۔
35۔ تینوں ائمہ کے درمیان یہ بھی اتفاق ہے کہ گواہان مرد ہونا چاہئیں جبکہ حنفیہ کے مطابق ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہو سکتی ہیں۔
36۔ اب حق مہر کے بارے میں جو کہ شادی کے لوازمات میں سے ایک ہے اور کوئی شادی اس کے بغیر جائز نہیں۔
مناسب حق مہر مقرر کئے بغیر کوئی شادی عمل میں نہیں آ سکتی اور اگر یہ شادی کے وقت مقرر نہ کیا جائے تو خاوند اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرنے کا پابند ہو گا۔
37۔ اسلامی قانون اس حقیقت سے بے بہرہ نہیں کہ اگر اپنی بیٹی یا نابالغہ کے ضمن میں ولی یا سرپرست اپنے فرائض کی بروقت ادائیگی میں غفلت کرتا ہے تو اس سے جواب طلبی کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے فرض کی انجام دہی میں کیوں ناکام رہا۔
38۔ ایک غیر شادی شدہ عورت کے لئے یہ انتہائی مشکل اور دشوار ہے کہ وہ اپنے فرائض سے غفلت برتنے والے ولی کے خلاف عدالت میں جائے۔ اس کے لئے ایک سادہ طریق کار طے کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی سائلہ 14 اگست 1991ء کے اعلان کوئٹہ میں "حقوق و فرائض سے آگاہی اور نفاذ سکیم" کی بنیاد پر انصاف حاصل کر سکتی ہے جس کو چیف جسٹسز کمیٹی نے تشکیل کیا دیا تھا۔ اس سکیم کے تحت وہ متعلقہ ڈسٹرکٹ جج کو صرف ایک خط لکھ سکتی ہے جو اسے ایک قانونی درخواست قرار دے کر اور اسے فوقیت دیتے ہوئے ولی کو طلب کرے گا اور مختصر ترین ممکنہ وقت میں اس معاملے کا تصفیہ کرنے کا پابند ہو گا۔ اس مقصد کے لئے ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ جج صاحبان کو "ڈائریکٹرز آف بورڈ آف اوئیرنس اینڈ انفورسمنٹ آف ہیومن رائٹس اینڈ اوبلیگیشنز" (حقوق و فرائض انسانی کی آگاہی اور نفاذ کے بورڈ کے منتظمین) مقرر کیا گیا ہے۔ اور انہیں عدالت عالیہ کی چٹھی نمبر 15397 جی اے زیڈ 1 (مورخہ 30 نومبر 1991ء) کی رو سے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسی درخواستوں/ شکایتوں کو مذکورہ سکیم کے تحت وصول کریں اور مطلوبہ داد رسی مہیا کریں۔ سیشن جج ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج صاحبان ان معاملات کو سن کر فریقین سے کی جانے والی زیادتیوں پر داد رسی مہیا کر سکتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر پدرانہ یا نیم پدرانہ دائرہ اختیار کی طرز پر ہے۔
39۔ اسلام نے بنیادی قانون کے طور پر یہ قرار دیا کہ عورت بھی انسان ہے اور مرد کی طرح وہ بھی ایک روح کی مالکہ ہے۔
ابتدائے آفریشن اور مقام آخرت میں ایک مرد اور عورت بالکل برابر ہیں اور اس لئے ان کے ایک ہی جیسے اور برابر کے حقوق ہیں۔ اسلام نے اسے مردوں کی طرح زندگی، عزت اور جائیداد کے حقوق دئیے۔ اسی طرح دنیا میں مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مردوں اور عورتوں کے حقوق برابر ہیں جس میں جائیداد حاصل کرنے اور اپنی مرضی و منشاء سے خرچ کرنے کے حقوق شامل ہیں۔ عورتیں اپنے فائدے کے لئے جائیداد اور رہن یا کرایہ یا خرید و فروخت یا مفاد کے لئے استعمال کرنے کے لئے کاملا آزاد ہیں۔
40۔ اب ہم مغرب میں عورت کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں۔
41۔ اسلامی قانون افراط و تفریط سے گریز کرتا ہے اور اعتدال کے سنہری اصول کو اختیار کرتا ہے۔ اگر اسلام میں ولی کی مرضی شادی کے لئے ضروری ہے تو دلہا اور دلہن کی مرضی بھی یکساں اہمیت رکھتی ہے اور ان دونوں کی اجازت کے بغیر کوئی شادی جائز نہیں۔
یہ حقیقت کہ ایک قانونی شادی کے لئے ولی کی اجازت ضروری ہے، ایک مستحکم معاشرہ کی موجودگی کی ضامن ہے۔
43۔ شادی کا معاہدہ ان کے ولیوں کی مرضی کے خلاف ہونے کی بناء پر کالعدم ہے۔ لہذا مقدمات درست درج کئے گئے ہیں۔ پولیس مقدمات کی تفتیش کرنے اور ان کو منطقی نتیجہ تک پہنچانے میں آزاد ہے۔
فیصلہ کا مکمل متن
1۔ اس فیصلے کے ذریعے رٹ (آئینی درخواست) نمبر 96/3013 (مسماۃ عائشہ اعجاز بنام اویس ایچ او) اور آئینی درخواست نمبر 96/11995 (مسماۃ شبینہ ظفر بنام ایس ایچ او وغیرہ) کا فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔
2۔ رٹ درخواست 96/13013 کے واقعات مقدمہ مختصرا یہ ہیں کہ اعجاز احمد ولد محمد اقبال آرائیں ساکن B/7 ہاؤسنگ کالونی ٹوبہ ٹیک سنگھ نے رپورٹ ابتدائی نمبر 96/307 زیر دفعہ 11 بجرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس VII/1979ء ٹوبہ ٹیک سنگھ پولیس سٹیشن پر 96-7-18 کو درج کروائی۔
3۔اطلاع دہندہ کے مطابق 96-7-15 کو بارہ بجے دوپہر کے قریب وہ دوپہر کے کھانے کے لئے دوکان سے سے اپنے گھر گیا، اس کی بیٹی عائشہ گھر میں موجود تھی۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ملزمہ مسماۃ غفوراں ساتھ والے گھر سے آئی اور مسماۃ عائشہ کو کچھ بات چیٹ کرنے کے لئے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ وہ دوپہر کے کھانے میں مصروف ہو گیا۔ جب کہ عائشہ نے اسے بتایا کہ وہ پڑوس سے ہو کر چند منٹ میں واپس آ جائے گی۔ کافی وقت گزرنے کے بعد بھی وہ واپس نہ آئی تو مستغیث، غفوراں کے گھر گیا اور اپنی بیٹی کے بارے میں دریافت کیا۔ وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکی چنانچہ وہ عائشہ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اسی دوران محمد اسلم چوہدری علی محمد اور محمد اسلم ولد محمد حسین جو کہ گلی کے آخر پر موجود تھے انہوں نے بتایا کہ شاہد، منظور، ظفر اقبال نامی ملزمان اور عائشہ تھوڑی دیر پہلے ایک کار میں یہاں سے گئے ہیں۔ وہ اس گھر میں گیا جس کے مکیوں نے اس کی بیٹی کو مدعو کیا تھا لیکن وہ غصے سے سیخ پا ہو کر بولے کہ عائشہ (شاہد کے ساتھ) اپنے ناجائز تعلقات کی وجہ سے گھر سے جا چکی ہے۔
مستغیث کی بیٹی مسماۃ عائشہ نے یہ رٹ درخواست اس موقف کے ساتھ دائر کی ہے کہ اس کی پہلے ہی اپنے موجودہ خاوند کے ساتھ اس واقعہ سے دو سال قبل منگنی ہو چکی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ میٹرک کرنے کے بعد وہ شاہد کے ساتھ بیاہ دی جائے گی۔ تاہم سائلہ کا والد اس وعدہ سے پھر گیا اور اس نے کسی اور کے ساتھ اس کی شادی کرنے کا منصوبہ بنایا چونکہ اس کی پہلے ہی منگنی ہو چکی تھی اور وہ ذہنی طور پر شاہد کے ساتھ شادی کے لئے تیار تھی اس لئے اس نے از خود اس کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ملتان گئی شاہد کو بلایا اور دونوں نے شادی کر لی۔ نکاح رجسٹرار نے نکاح نامہ (منسلکہ-اے) کے ذریعے نکاح درج کیا، یہ کہ سائلہ بالغہ تھی اور بحیثیت صائب الرائے وہ بااختیار تھی کہ وہ ازدواجی معاہدہ میں آ جائے۔ ان حالات میں ابتدائی رپورٹ کی درستگی پر اعتراج کرتے ہوئے یہ استدعا کی گئی کہ مسئول علیہ کو ہدایت کی جائے کہ وہ سائلہ کو ہراساں نہ کرے اور اس کی، اس کے خاوند کی اور اس کے رشتہ داروں کی اہانت اور بے عزتی نہ کرے۔
درست بات جاننے کے لئے عدالت نے سائلہ کے والدین کو طلب کیا۔ اس کا والد اعجاز احمد بعمر 44 سال جو ٹوبہ ٹیک سنگھ کا رہائشی ہے نے حلفا بیان کیا کہ مسماۃ عائشہ اعجاز جو کہ عدالت میں موجود ہے اس کی بیٹی ہے۔ اس کی عمر 13 سال 8 ماہ اور کچھ دن ہے۔ کم عمر ہونے کی وجہ سے شاہد، ظفر اقبال، منظور حسین اور مسماۃ غفوراں بی بی نے اسے اپنے ساتھ آنے کے لئے ورغلایا، اس نے تھانہ سٹی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ابتدائی رپورٹ نمبر 96/307 زیر دفعہ بجرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس VII1979ء درج کروائی۔ اغواء کے تیسرے روز مستغیث کو پتہ چلا کہ اسے ملتان میں شادی کے بندھن میں باندھنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ علم نہ تھا کہ اس کی کس کے ساتھ شادی کی جا رہی ہے اور یہ شادی اسے قبول نہیں ہے اور یہ اغواء کا ایک واضح مقدمہ ہے۔ لہذا اس نے اپنے بیان کے آخر میں استدعا کی کہ نابالغ سائلہ کو اس کے حوالہ کیا جائے۔ اس کی زوجہ مسماۃ عابد (سائلہ کی والدہ) نے بھی اس قسم کا بیان دیا۔
رٹ پٹیشن نمبر 96/11995 کے واقعات کچھ مختلف ہیں۔ فریقین فیصل آباد میں رہائش پذیر ہیں اور رپورٹ ابتدائی بٹالہ کالونی فیصل آباد کے ظفر اقبال جٹ سندھو نے درج کرائی۔ اس کے مطابق محلہ دریام سنگھ والا نزد بابر چوک کا محمد اقبال ولد محمد شریف اس کے پاس جز وقتی ملازم تھا۔ کبھی کبھار وہ ان کے گھر میں آتا جاتا تھا اور مورخہ 1996-6-24 کو اقبال اپنی بہنوں شہناز اور شاہدہ پروین کے ہمراہ (جس کے مراسم بھی مستغیث کے خاندان سے اسی نوعیت کے تھے) ان کے گھر آئے ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے اس کی بیٹی شبینہ ظفر کے ساتھ بات چیت کی۔ شام کو انہوں نے اس کی بیوی سے استدعا کی کہ وہ شبینہ ظفر کو مارکیٹ میں ایک شادی کے سلسلہ میں خریدوفروخت کے لئے جانے کی اجازت دے دیں۔ چنانچہ اس کی بیوی نے شبینہ کو اجازت دے دی جو کہ ایک چھوٹا پرس اور ایک شاپنگ بیگ (جس میں کچھ چیزیں تھیں) لے کر گھر سے چلی گئی، پانچ چھ بجے شام اسے معلوم ہوا کہ اقبال اور ایک اور شخص شبینہ ظفر کو رکشہ میں بٹھا کر لے گئے ہیں۔ مستغیث کی بیوی نے الماری کا معائنہ کیا جس میں قیمتی اشیاء ہوتی ہیں، تو وہاں سے ایک لاکھ روپے کے انعامی بانڈ اور اس کے ملکیتی بارہ تولے سونے کے زیورات غائب پائے، شبینہ رات تک واپس نہ آئی بالآخر یہ بات واضح ہو گئی کہ ملزم فریق نے قیمتی اشیاء کے ہمراہ اسے اغواء کر لیا ہے۔
7۔ رٹ درخواست میں شبینہ نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی رضامندی سے نکاح نامہ (الف-اے) کے ذریعے 96-6-25 کو محمد اقبال کے ساتھ شادی کر لی ہے اور اس کے ساتھ اس کی بیوی کے طور پر رہ رہی ہے، یہ کہ مقامی پولیس کی ملی بھگت سے اس کے اور اس کے خاوند کے خلاف اس کے والد کی طرف سے درج کروائی جانے والی ابتدائی رپورٹ 96/256 ان وجوہات کی بنیاد پر قابل منسوخی ہے کہ سائلہ عاقلہ بالغہ ہونے کی بناء پر خود شادی کرنے کی مجاز ہے۔ یہ کہ سائلہ کا نکاح 96-6-25 کو ہوا جب کہ رپورٹ ابتدائی 96-6-29 کو بے معنی الزامات اور جعلی بنیادوں پر درج ہوئی، یہ کہ تاخیر کی کہیں بھی وضاحت نہ کی گئی ہے، یہ کہ وہ مسجٹریٹ درجہ اول کے روبرو پیش ہوئی اور اس نے یہ بیان دیا کہ اس نے اپنی رضامندی سے محمد اقبال سے شادی کی اور کسی قسم کا جبر یا ناجائز دباؤ اس پر نہ ڈالا گیا لہذا F.I.R بے بنیاد اور قابل منسوخی ہے۔
8۔ اس کا والد اور والدہ عدالت میں حاضر ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی محمد اقبال سے کبھی نہ کی اور یہ واضح طور پر اغواء کا کیش ہے۔
9۔ عدالت نے ایس ایچ او سے درخواست کے مندرجات پر تبصرہ کرنے کو کہا۔ اس کے مطابق مقدمہ درج کرنے کے بعد دوران تفتیش یہ بات واضح ہوئی کہ اس کے آشنا کے بہکانے پھسلانے پر اسے شمشاد ہوٹل لاہور میں ٹھہرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا جہاں ملزم نے نکاح نامہ تیار کروایا جس میں سائلہ کے ساتھ اس کی شادی ظاہر کی گئی، یہ (نکاح نامہ) جعلی اور بے بنیاد ثابت ہوا۔ تاہم سامان تفتیش نہ ہوئے لہذا تفتیشی افسر تفتیش مکمل نہ کر سکا۔
10۔ ان دونوں مقدمات میں اگرچہ دونوں سامان یعنی مسماۃ عائشہ اور شبینہ کی عمروں میں معمولی فرق ہے، عائشہ کی عمر 13 سال سے کچھ زائد جب کہ شبینہ کی عمر 19 سال بیان کی گئی ہے پھر بھی سائلان کے وکلاء نے مشترکہ جواز اختیار کیا ہے کہ دونوں عاقلہ ہیں اور اپنی مرضی سے پسند کی شادی کرنے کی اہل ہیں۔ یہ ایک سیدھا سادہ دیوانی معاہدہ ہے اور کوئی بھی مرد اور عورت جو کہ بالغ ہیں وہ اس معاوضہ پر جسے حق مہر کہتے ہیں، معاہدہ کرنے کے اہل ہیں اس لئے ان دونوں سائلان کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہونا چاہئے۔
11۔ دوسری طرف مسئول علیہم کے وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ یہ خالصتا دیوانی معاہدہ نہیں ہے کہ جس میں ایجاب و قبول اور قیمت، معاہدہ کے لئے کافی ہو۔ خاندان ایک ادارہ ہے اور ایک اسلامی ادارہ ہے۔جس کا ایک پس منظر اور تفصیلی تاریخ موجود ہے، اور اگر ہر لڑکی جو سن بلوغت کو پہنچ جائے، اس کو فرار ہونے اور مکار لوگوں کے چنگل میں پھنس جانے کی اجازت دے دی جائے تو خاندانی نظام کا تانا بانا تباہ ہو جائے گا اور معاشرہ میں مکمل انارکی پھیل جائے گی۔ مسئول علیہم کے فاضل وکلاء کے مطابق رٹ درخواتیں بے بنیاد اور فوری اخراج کی مستحق ہیں اور پولیس کو معاملہ کی شفاف اور مناسب تفتیش کی اجازت دی جائے جو اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچا دے۔
12۔ دونوں اطراف کے تفصیلی دلائل سنے گئے اور ریکارڈ ملاحظہ کیا گیا۔ چونکہ بہت اہمیت کا حامل نکتہ اٹھایا گیا ہے لہذا میں اسے تفصیلا زیر بحث لانا چاہوں گا۔
13۔ اپنے موقف کی حمایت میں فریقین کے فاضل وکلاء نے اعلیٰ عدالتوں کے کئی فیصلوں بشمول عبدالقادر بنام سلیمہ (1886, ILR, 8 Allahbad 149) انیس بیگم بنام محمد اصطفیٰ ولی خاں (ILR 1933 Allahbad 55 p-743) خورشید بی بی بنام بابو محمد امین (PLD 1967 SC 97) اور مختلف قرآنی آیات، احادیث اور شریعت کے اصولوں کا حوالہ دیا۔
14۔ ہندوستان میں اس قانونی شاخ کے ارتقاء کی تاریخ اور 1947ء کے بعد پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے دیکھنے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ قانونی حوالوں اور قابل احترام ججوں نے جو نقطہ ہائے نظر قانون کے اس امر کی تشریح اور شریعت کے اصولوں کو اخذ کرتے ہوئے اپنائے، ان کا ایک تفصیلی جائزہ لیا جانا چاہئے۔
15۔ اس نکتہ پر کہ شادی خالصتا ایک دیوانی معاہدہ ہے سب سے پہلا فیصلہ ایک صدی قبل الہ آباد کی عدالت عالیہ کے ایک معروف جج سید محمود کا (بعنوان) عبدالقدیر بنام سلیمہ (1886 ILR, Allahbad 149) ہے اس مقدمہ میں عبدالقادر نے اپنی ناراض بیوی سلیمہ کے خلاف دعویٰ اعادہ حق زن آشوئی دائر کیا۔ دفاع میں دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ یہ موقف اختیار کیا گیا کہ چونکہ اسے اس کا حق مہر ادا نہیں کیا گیا اس لئے دعویٰ ناقابل پیش رفت ہے۔ تاہم سول جج مرزا پور نے دعویٰ ڈگری کر دیا لیکن ماتحت عدالت اپیل نے فیصلہ بدل کر دعویٰ خارج کر دیا۔ معاملہ عدالت عالیہ میں آیا اور جسٹس سید محمود نے اس حکم کو تبدیل کر کے فیصلہ دیا کہ یہ ایک جائز موقف نہ ہے۔ یہ بھی قرار دیا گیا کہ شادی ایک خالصتا دیوانی معاہدہ ہے جس کا اشیاء کی فروخت کے معاہدہ سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر صفحہ نمبر 167-165 سے فیصلہ کے متعلقہ حصہ کو درج کرنا سود مند ہو گا:
"فتاویٰ قاضی خاں اور فتاویٰ عالمگیری کو پرھنے سے وہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے جس کا میں نے اوپر اظہار کیا ہے اور یہی رائے مسلم فقہاء کی بھی ہے۔ فقہاء کے نزدیک شادی مثل بیع ہے اور یہ بیع بعینہ اسی طرح کی ہے جس کی تشریح اور توضیح دفعہ 95 کنٹریکٹ ایکٹ نمبر (1972/IX) میں کی گئی ہے۔ یعنی جب تک واضح طور پر منشائے معاہدہ اس کے خلاف ظاہر نہ ہو ایک بائع کا فروخت اشیاء پر حق قبضہ قائم رہتا ہے جب تک کہ اس کی پوری قیمت ادا نہ کر دی جائے اور اس قاعدہ پر فروخت کردہ اشیاء کو اپنے قبضہ میں رکھنے اور دوران ترسیل روک لینے کا بائع کو اختیار حاصل ہوتا ہے اور بائع کے حقوق بالکل ایسے ہی ہیں جو جسٹس گراس نے ہیمنڈ بنام بارکلے میں بیان کئے ہیں۔ یعنی جب تک اس کے بقایا جات کی ادائیگی نہ ہو جائے۔ لیکن یہ استحقاق اس امر پر موقوف ہے کہ شے کی ملکیت ابھی تک بائع کی ہے اور اس کو لینے کا حق قائم رہتا ہے جب تک خرید کنندہ ان اشیاء کو وصول کر لے۔ اس سلسلے میں، میں نے اصول خرید و فروخت کو ہی پیش نظر رکھا ہے کیونکہ فاضل کونسل مسئول علیہم کے تمام دلائل قریبا قریبا یہی ہیں، جس کا اس سلسلے میں اظہار کیا گیا ہے کہ شادی کا تقابل بیع سے اور حق مہر کا قیمت/مال (Consideation) سے اور بیوی کی خاوند کے ساتھ رخصتی کو میں نے اشیاء کی سپردگی (Delivery) کے مترادف گردانا ہے۔
اصول بالا کو ذہن میں رکھ کر یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگردوں نے یہ قرار دیا ہے کہ اگر ایک شادی شدہ عورت حق مہر کی عدم ادائیگی کے باوجود برضا و رغبت اپنے خاوند سے تعلق زن و شو قائم کر لیتی ہے تو بعد ازاں اسے یہ مطالبہ کرنے کا حق دستیاب نہیں رہتا کہ جب تک حق مہر کی ادائیگی نہ ہو وہ خاوند سے تعلق زوجیت قائم نہ کرے گی۔ اسلامی قانون کی تشریح و تعبیر کے تمام قاعدوں کے مطابق میں ان دو بزرگان کی رائے جو کہ تینوں میں سے اکثریت کی رائے بھی ہے کو قبول کرتے ہوئے یہ واضح کرتا ہوں کہ تعلق زن وشو قائم ہونے کے بعد ایک ناراض بیوی اپنے حق مہر جو کہ معجل ہی کیوں نہ ہو کی عدم ادائیگی کے باوجود اپنے خاوند سے ہم بستری کرنے سے انکار نہیں کر سکتی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس عورت کا دعویٰ کر کے قرض مہر وصول کرنے کا حق یقینا باقی رہتا ہے۔
16۔ شادی کی نوعیت اس مقدمہ میں زیر بحث نہ تھی اور یہ شادی فیصلہ میں جج کی وہ ضمنی رائے معلوم ہوتی ہے جس سے مقدمہ کے سیاق و سباق کا تعلق ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ایک اور مقدمہ انیس بیگم بنام اصطفیٰ ولی خاں (ILR 1933 ALLAHBAD VOL,IV PAGE 743)میں بیوی کے خلوت صحیحہ کے بعد بھی اعادہ حقوق زن آشوئی کے دعویٰ میں عدم ادائیگی حق مہر کی صورت میں بیوی کے حق دفاع پر غور کیا ہے۔ محترم چیف جسٹس سلیمان (جس کے ساتھ تھارن جج نے اتفاق کیا) اس نکتہ پر جسٹس سید محمود کے ساتھ متفق تھے۔ جہاں تک شادی کی نوعیت کا تعلق تھا چیف جسٹس نے جسٹس محمود کے ساتھ مکمل اختلاف کرتے ہوئے کہا:
"بیع کی مماثلت پر مبنی دلیل پر بہت سخت انداز میں نکتہ چینی اودھ بنچ نے واجد علی خاں کے مقدمہ میں صفحہ 149-148 پر کی ہے، اور اسی طرح جسٹس امیر علی نے اپنی کتاب محمڈن لاء جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 60-259 پر تنقید کی ہے، بلاشبہ بعض مسلمان اہل رائے نے وضاحت کے طور پر معاہدہ بیع کے کچھ اصولوں کا اطلاق معاہدہ شادی پر کیا ہے لیکن یہ صرف بطور تقابل ہی ہے۔ اس مماثلت کو (کلی طور پر) زیادہ دور تک نہیں پھیلایا جا سکتا اور نہ ہی قانون بیع کے اصول اپنی پوری تفصیلات کے مطابق لاگو کئے جا سکتے ہیں، بلاشبہ اس مماثلت کا مکمل اطلاق کرنے سے لغو نتائج برآمد ہوں گے"
17۔ اس تھیوری کو دوبارہ شد ومد کے ساتھ رد کرتے ہوئے فاضل جج نے صفحہ نمبر 56-755 پر یوں رائے دی:
"یہ بالکل واضح ہے کہ بیع کی مماثلت دور تک نہیں پھیلائی جا سکتی، شادی کو حق مہر کے عوض خالصتا بیوی کے جسم کی فروخت قرار نہیں دیا جا سکتا اور اگر اس عجیب و غریب مماثلت کو پورے طور پر پھیلا دیا جائے تو یہ لازمی طور پر عبدالقادر کے مقدمہ کے حق میں ممد و معاون نہ ہو گا۔ اس کا جواب اس بات پر موقوف ہے کہ آیا حق مہر صرف شادی کی قیمت ہے یا عائلی زندگی کے دوران بیوی کے ساتھ زندگی گزارنے کا معاوضہ ہے۔ صرف یہ حقیقت کہ خلوت صحیحہ کے بعد پورا حق مہر واجب الادا ہو جاتا ہے، حتمی طور پر صرف یہ رائے قائم کرنے کے لئے بنیاد نہیں بن سکتی کہ حق مہر صرف پہلی خلوت صحیحہ کا معاوضہ ہے۔ فروخت شدہ اشیاء کو روکنے کا حق خریدار کی طرف سے اشیاء کی وصولی کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ حق دوبارہ قبضہ ملنے پر بحال ہو جاتا ہے، مزید برآں اگر اشیاء کے کچھ حصے دینے اور کچھ روکنے پر رکے ہوئے حصہ پر حق تسرف قائم رہتا ہے۔ لہذا اس پر اچھی طرح بحث ہو سکتی ہے کہ اگر بیوی خلوت صحیحہ کے بعد اپنے گھر واپس چلی جائے تو وہ اعادہ حقوق زن آشوئی کا دفاع کر سکتی ہے جب تک کہ اس کا حق مہر ادا نہ کیا جائے کیونکہ اس کا حق ہم بستری ختم ہونے کے بعد بحال ہو چکا ہے۔
یہ بھی وضاحت کر دی جائے کہ معجل حق میر اس وقت تک قابل ادائیگی نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا مطالبہ نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ کوئی مطالبہ نہ کیا گیا ہو گا اور اکثر صورتوں میں یہ خلوت صحیحہ سے پہلے نہیں کیا جاتا۔ حق مہر قابل ادا ہونے سے قبل بیوی کی رضامندی منطقی طور پر اس کے حق مہر وصول کرنے کے حق کو ختم نہیں کر سکتی۔ گو اس کے بعد خلوت صحیحہ وقوع پذیر ہو چکی ہو، اسے مزید خلوت صحیحہ سے قبل ادائیگی پر اصرار کا حق ہونا چاہئے، میں نے یہ نکات بیع کی مماثلت کا نتیجہ نکالنے کے لئے نہیں اخذ کئے بلکہ صرف یہ واضح کرنے کے لئے کہ یہ مماثلت زیادہ دور تک نہیں لے جائی جا سکتی اور اگر یہ دور تک بھی لے جائی جائے تو لازمی طور پر مسئلہ کا حل پیش نہیں کرتی۔ یہاں یہ بیان کرنا غیر ضروری نہ ہو گا کہ مولوی سمیع اللہ نے کچھ نظائر اکٹھے کئے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شادی صرف ایک دیوانی معاہدہ نہیں بلکہ ایک مذہبی تقدس کا حامل معاملہ بھی ہے۔ نتیجتا جسٹس سلیمان نے خالصتا دیوانی معاہدہ کے اصول کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا جو کہ مالیاتی معاملات کے قانون کا ایک حصہ ہے اور مزید وضاحت فرمائی کہ دلائل کی یہ طرز مکمل طور پر اسلامی اصولوں کی روشنی میں قطعی غیر مناسب اور منطقی نتائج کے امتحان پر پورا نہیں اتر سکتی۔
18۔ Institution of Marige یعنی شادی کے ادارے کی مسلم پرسنل لاء میں مرکزی حیثیت سے شادی کا معاملہ بچوں کے جائز ہونے، حقوق وراثت، بعض جنسی حرکات پر فوجداری تعزیر اور نان نفقہ وغیرہ کی پابندی شادی کے لوازمات سے ہیں۔ یہ عام طور پر قرار دیا جاتا ہے کہ عیسائی مذہب کی طرح مسلم شادی ایک مقدس فریضہ نہیں بلکہ ایک دیوانی معاہدہ ہے جو بعض مختلف اسلامی اصولوں پر مبنی کم و بیش معاملات پر منحصر ہے، جسٹس سید محمود کے خیالات کہ مسلم شادی ایک خالصتا دیوانی معاہدہ ہے شمع چرن سرکار کے خیالات سے ملتے جلتے ہیں۔ (ٹیگور لاء لیکچرز 1875)
بہرحال یہ امر قابل غور ہے کہ مسلم معاہدہ شادی، ہندوؤں کے برعکس کسی خاص مذہبی رسم و رواج پر مبنی نہیں ہیں۔ تاہم یہ بات عجیب بلکہ حیران کن ہے کہ آج تک نظام ازدواج کی نوعیت پر قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی احکامات پر مناسب بحث نہیں ہوئی اور عائلی قوانین کے بہت سے گوشے مخفی اور مبہم رہ گئے ہیں۔یہ صرف اسی وجہ سے ہوا کہ جناب جسٹس محمود کا نظریہ ہی ایسے معاملات کے فیصلہ کے سلسلہ میں پیش نظر رکھا جاتا ہے اور اس نظریہ پر اس قدر زور دیا جاتا رہا ہے کہ نکاح کے معاملات کے بہت سے دیگر اہم اور ضروری پہلو پس منظر میں چلے گئے۔
19۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا خورشید بی بی کیس (پی ایل ڈی 1967ء سپریم کورٹ 97) میں فیصلہ ہمیں درست راستے کے تعین میں رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ کہاں سے اور کیسے صحیح قانونی رہنمائی حاصل کی جائے؟ عبدالقادر بنام سلیمہ بی بی کے ابتدائی فیصلہ سے لے کر قیام پاکستان تک قرآن و سنت، جو اسلامی قانون کے بڑے ماخذ ہیں، سے شادی کی دیگر اہم شروط کی طرف مناسب حوالہ جات نہ دیے گئے ہیں اور خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل جو واضح اور غیر مبہم ہونے کے علاوہ قرآن و سنت پر مبنی ہیں کو چھوڑ کر چند فقہاء کے مقدمات کی روشنی میں بحث کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
20۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم نکتہ کی جانب مناسب توجہ نہ دی گئی ہے تاہم یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس ملک کے مقصد تخلیق سے غافل ہو کر ہمارے معاشرہ کو زبردست اخلاقی گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاندانی نظام تیزی کے ساتھ کمزور ہو کر ٹوٹتا جا رہا ہے۔ اگر اس تیز بربادی کو بروقت نہ روکا گیا تو عین ممکن ہے کہ یہ نظام تباہ و برباد ہو جائے۔ شوکت علی بنام الطاف حسین قریشی وغیرہ (1972 SCMR 39B) میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے یہ فیصلہ دیا کہ عدالتیں خلاء میں کام نہیں کرتیں اور انہیں ضرور معاشرہ میں موجود معاشرتی اور اخلاقی حالات جس کے لئے قانون کا اطلاق ہوتا ہے کا مناسب نوٹس لینا چاہئے۔ اس حقیقت کو کہ قانون اس چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ ایک جج حاضر دماغ ہو اور سو سائٹی میں ہونے والی سماجی تبدیلیوں کو کھلی آنکھوں اور گہرے مشاہدے سے پرکھے، لارڈڈیننگ انگلینڈ کے سابق ماسٹر آف رولز کے فیصلہ سے تقویت حاصل ہوتی ہے جو اپنی کتاب "دی کلوزنگ چیپٹر" (مطبوعہ 1993) کے صفحہ 93 پر رقم طراز ہیں:
"اخبارات پڑھنے والے ججوں کی عقل و دانش پر میں معترض نہیں ہوں۔میرا خیال ہے کہ انہیں رائے عامہ سے باخبر رہنے کے لئے اخبار کا مطالعہ کرنا چاہئے کیونکہ قانون کو زمانہ حال اور درست رائے عامہ کے مطابق ہونا چاہئے نہ کہ اس کے مخالف، وگرنہ معاشرے میں قانون کی توقیر باقی نہ رہے گی۔"
21۔ اب ڈش انٹینا کے متعارف ہونے کے بعد اور تقریبا آدھ درجن ہندوستانی ٹی وی چینلز کے پراپیگنڈہ اور ان کے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کے خلاف ثقافتی یلغار جو نہ صرف فحاشی پر مبنی ہے بلکہ اسلامی طرز حیات کو تباہ کرنے کے واضح ہدف پر قائم ہے، کوئی بھی شخص تیزی سے بڑھتے ہوئے اغواء، زنا بالجبر اور خفیہ جنسی تعلقات سے اپنی آنکھیں بند نہیں رکھ سکتا۔ ایسے معاملات کی عدالتوں میں بھرمار ہے اور ایسا نظر آتا ہے کہ عدالتوں میں شریعت کے قوانین کی مناسب طور پر تشریح و توضیح نہ ہو رہی ہے اور یہ صحیح طور پر نافذ العمل نہیں کئے جا رہے۔
22۔ شادی کا وہ مفہوم اور وسعت اور اس کا اندازہ جو عدالتوں کے ذریعے مشکل ہو رہا ہے، اس ملک میں جنسی بغاوت کے طوفان کا بہت بڑا ذمہ دار ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا آج تک اس معاملہ کو قرآن و سنت جو کہ بنیادی اور بڑے ماخذ ہیں کی روشنی میں Reinterpret کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہے۔ خورشید بی بی کیس (پی ایل ڈی 1967 صفحہ 97) میں سپریم کورٹ نے واضح طور پر قرار دیا ہے کہ اسلام کے بنیادی قوانین قرآن میں موجود ہیں اور یہ اسلامی قانون کا بنیادی ماخذ ہے۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے اور اس کے بعد اجتہاد اور اجماع کا نمبر آتا ہے اور یہ ترجیحات معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث سے واضح ہیں جن کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی سلطنت کے ایک صوبے یمنی کے گورنر اور قاضی کی حیثیت سے بھیجا تھا۔ یہاں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے صفحہ 113 پر درج الفاظ کو ہوبہو درج کرنا سود مند ہو گا:
"اسلام کے بنیادی قوانین قرآن کریم میں موجود ہیں اور مسلمانوں کا اس امر پر کامل اتفاق ہے کہ قرآن اسلامی قانون کا بنیاد ماخذ ہے۔ حنفی فقہاء قرآن کے بعد حدیث، اجتہاد اور اجماع کو قانون کے دیگر تین مزید ماخذ تسلیم کرتے ہیں۔ آخری دور دراصل ایک ہی نوعیت کے ذیلی ماخذ ہیں، اجتہاد انفرادی علماء سے اور اجماع ان علماء کی متفقہ رائے سے جو کسی زمانے میں اجتہاد کرتے رہے ہوں، پر مشتمل ہے۔ اہمیت کے اعتبار سے یہ ترتیب بہت مشہور حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جن کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا گورنر اور قاضی بنا کر بھیجا تھا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ وہ مقدمات کا فیصلہ کیسے کریں گے انہوں نے جواب دیا "اللہ کی کتاب" پھر پوچھا گیا کہ اگر کتاب اللہ میں کوئی چیز نہ پاؤ تو پھر کیسے؟ تو جواب دیا کہ "پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے" پھر پوچھا گیا کہ اگر کوئی ایسا طریقہ نہ پاؤ تو جواب دیا کہ پھر میں اپنی عقل و دانش سے خود فیصلہ کروں گا۔" اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے کہ جس نے رسول کے نمائندے (معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ) کو وہ کچھ (فہم و شعور) عطا فرمایا جو اللہ کے نبی کو بہت پسند ہے۔"
سنی فقہ کے چار قدیمی مکاتب فکر کے ائمہ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ حضرات امہ کرام نے کبھی بھی اپنے رائے کو حتمی اور قطعی قرار نہیں دیا۔ لیکن بعض تاریخی وجوہات کی بناء پر ان کے ماننے والوں نے بعد کے ادوار میں تقلید کا فلسفہ وضع کر لیا جس کے تحت ایک سنی مسلمان کو لازمی طور صرف کسی ایک امام کی پیروی کرنا ہو گی اگرچہ دوسری رائے زیادہ معقول اور وزنی ہو۔ قرآن پاک میں یا معتبر حدیث میں ایسی دور ازکار تشریح اور توضیح کی کوئی گنجائش نہیں۔"
23۔ جہاں تک شادی کی نوعیت کا تعلق ہے، اسے کسی تقدس (محض) کا درجہ نہ دیا گیا ہے بلکہ ایک معاہدہ قرار دیا گیا ہے۔ ایسا معاہدہ جو کہ بلاشبہ اخلاقی اور روحانی اقدار کا حامل ہے۔ لیکن قانونی طور پر درحقیقت فریقین کے مابین یہ ایک معاہدہ ہے جو معقول وجہ کی بنا پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملہ میں اسلام جو کہ دین فطرت ہے، انسانی مزاج کے مطابق ہے اور اس چیز کا درس نہیں دیتا کہ ایک مرد اور عورت کو ایسے بندھن میں باندھا جائے جسے "کبھی ختم ہو سکنے والا مقدس بندھن" قرار دیا جاتا ہے۔
24۔ شادی کے ادارے کے ظاہری طور پر کئی مخصوص پہلو ہیں۔ الہ آبادی (ہندوستان) کے الحاج محمد اللہ بن ایس جنگ کی کتاب "مسلم لاء آف میرج" کے صفحہ (19) پر شادی کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
"شادی ایک ایسا ادارہ ہے جو اپنے اندر کئی مقاصد رکھتا ہے جیسا کہ نسل کی بقاء وراثت کا تعین، لوگوں کو بدمعاشی سے بچانا، عصمت کے تحفظ کی حوصلہ افزائی، خاوند اور بیوی کے درمیان محبت و یگانگت اور روزی کمانے میں باہمی تعاون کا فروغ"
25۔ سٹوری کی کتاب “Conflict of Laws” (قوانین کا ٹکراؤ) کے مطابق انسانی معاملات میں سب سے اہم شادی کا معاملہ ہے۔ یہ مہذب معاشرہ کا بہت ہی بنیادی رکن ہے، شادی بین الاقوامی طور پر شرفاء کا معاملہ تصور ہوتا ہے، سر عبدالرحیم کے مطابق مسلمان مجتہدین شادی کے ادارہ کو عبادت اور معاملات دونوں میں شمار کرتے ہیں۔ از روئے اسلام مذہب، قانون اور یہاں تک کہ سیاست کا اس قدر باہمی ربط مسلم عقیدہ میں موجود ہے کہ ان میں حد فاصل کھینچنا از حد مشکل نظر آتا ہے اور خاص طور پر جہاں تمام مجتہدین نے شادی کو ایمان کی بنیاد اور سنت موکدہ قرار دیا ہو۔۔۔ "مسلم شادی" نان و نفقہ اور تنسیخ کے مصنف مسٹر روما کے مطابق اسلامی شادی اصل ہندو نظریہ سے بہت مختلف ہے۔ ہندوؤں کے مطابق موت کے بعد بھی فسخ نکاح واقع نہیں ہوتا۔
26۔ خورشید بی بی کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی طرف لوٹتے ہوئے اب ہم شادی کے اس نظریہ کو قرآن کریم اور سنت نیز اسلام کے عظیم مجتہدین کی رائے کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ "کیا شادی ایک خالصتا دیوانی معاہدہ ہے؟" تفصیلی چھان بین کے بعد یہ واضح ہوتا کہ شادی اسلام میں ایک خالصتا دیوانی معاہدہ نہیں ہے۔ جیسا کہ ٹیگور کے لاء لیکچرز اور بعد ازاں عبدالقادر بنام سلیمہ کے کیس سے واضح ہے۔
(i) اسلام کے مطابق نکاح، جیسا کہ پہلے بتایا گیا، اہم ترین اداروں میں سے ایک ہے، اس کے بہت دور رس نتائج ہیں اور اسے مسلم پرسنل لاء میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ المغنی (جلد 6 صفحہ 446 طبع شدہ قاہرہ، مصر) میں مشہور فقیہ ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ:
"فقہاء کے درمیان طے شدہ ہے کہ نکاح مذہبی معاملہ ہے۔"
چونکہ مجتہدین کے درمیان یہ تسلیم شدہ امر ہے اس لئے اس کی مخالفت کرنا اجتہادی اصولوں کے مطابق ممنوع ہے۔
(ii) جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((النكاح من سنتي ، فمن لم يعمل بسنتي فليس مني))
"نکاح میری سنت ہے پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ مجھ سے نہیں"
یہ حدیث امام بخاری نے نکاح کے باب میں درج کی ہے۔ مزید برآں یہ بھی روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار چیزوں کو انبیاء کی سنت قرار فرمایا: "ختنہ، مسواک کا استعمال، خوشبو کا استعمال اور شادی کرنا"
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ جو یمن کے چیف جسٹس تھے وہ اپنی اصول فقہ کی کتاب میں لکھتے ہیں:
"جسے خوف ہو کہ وہ گناہ کا مرتکب ہو گا اس پر فرض ہے کہ وہ شادی کر لے"
(iii) سید امیر علی سورہ نور آیت نمبر 32 کی تشریح کرتے ہوئے قرار دیتے ہیں کہ "جو شادی کے قابل ہیں وہ ضرور شادی کریں"
(iv) قرآن پاک کے ایک مشہور مفسر نے اپنی تفسیر مواہب الرحمٰن (جلد 6 صفحہ 208 مطبوعہ 1977) میں لکھا ہے کہ "علماء کا ایک گروہ شادی کو ان لوگوں پر واجب کرتا ہے جو شادی کے اہل ہیں اور اپنی بیویوں اور بچوں کے اخراجات کو برداشت کر سکتے ہیں"
(v) نکاح مذہبی فرض کے ساتھ دنیاوی فرض بھی ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے جب کہ صرف دیوانی معاہدہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا موجب نہیں بن سکتا۔
(vi) صحیح مسلم (جلد 2 صفحہ 482 مطبوعہ شیخ محمد اشرف لاہور) کے مطابق اپنی بیوی کے ساتھ جنسی فعل تقویٰ کے مترادف ہے، اس کی جزا اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جائے گی۔
(vii) نکاح کا مقصد خاندان کا قیام ہے اور غیر قانونی جنسی تعلق سے تحفظ ہے۔ غیر قانونی جنسی واہیات اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتی ہیں۔
لفظ نکاح عربی کے ایک لفظ حِصن (Hisn) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب قلعہ ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ایک شادی شدہ مرد و عورت قلعہ کی حفاظت میں آ جاتے ہیں اور کسی برائی کا شکار نہیں ہوتے اور کوئی بھی انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ وہ قلعہ میں محفوظ رہتے ہیں۔ وہ عورتیں جنہیں یہ تحفظ حاصل نہیں ہوتا انہیں خدن کہا جاتا ہے جس کی جمع اخدان ہے جس کا مطلب ہے آشنا اور اس کی محبوبہ۔
(viii) اسلام میں ہر قابل احترام عورت اپنے خاندان/قبیلہ کی حفاظت میں ہوتی ہے۔ شادی سے قبل وہ اپنے والدین کی حفاظت میں ہوتی ہے اور شادی کے بعد وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں آ جاتی ہے اور وہ عورتیں جن کو اس قسم کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا وہ کسی کی بھی شرارت سے بہک سکتی ہیں۔ قرآن کے مطابق ایسی عورتیں پارسا اور نیک لوگوں میں سے نہیں ہیں۔ جبکہ دیوانی نوعیت کے معاہدہ میں مذکورہ حقیقتیں نہ پائی جاتی ہیں۔
(ix) معاہدہ عارضی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے اور مستقل نوعیت کا بھی جب کہ اسلام میں عارضی نکاح درست نہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بخاری شریف میں یوں درج ہے کہ:
"حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ غزوہ خیبر کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح متعہ (عارضی نکاح) اور گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت فرما دی"
اس معاملہ میں اور بھی کئی احادیث موجود ہیں۔ یہاں تک کہ امیر علی جو ایک بڑے شیعہ عالم گزرے ہیں وہ اپنی کتاب "دی امپرٹ آف اسلام" (صفحہ نمبر 229) میں لکھتے ہیں:
"وہ قوانین جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے صادر فرمائے، ان قوانین کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ مشروط شادیوں کے رواج کی ممانعت فرما دی اور اگرچہ شروع میں عارضی شادیوں کے بارے میں ضمنی طور پر سکوت فرما کر اجازت دی تھی، ہجرت ک تیسرے سال ان کی بھی ممانعت فرما دی گئی۔"
شیعہ مکتبہ فکر کا ایک طبقہ اب بھی عارضی شادی کو جائز قرار دیتا ہے لیکن جنہوں نے یہ رائے قائم کی ہے۔ ان مجتہدوں سے پوری عزت کے ساتھ میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے وقت یا حکمرانوں کے مزاج کے مطابق یہ نظریہ اختیار کیا ہے تھا جن کے تحت یہ قانون دان پھلے پھولے، ان کے بہت سے نطریات میں ذاتی جھکاؤ کا اثر نظر آئے بغیر نہیں رہتا"
(x) مزید برآں معاہدہ میں یہ ضروری نہیں کہ وہ مخالف جنسوں کے درمیان ہو۔ دو عورتیں بھی معاہدہ کر سکتی ہیں اور دو مرد بھی ایک دوسرے کو معاہداتی پابندی میں جکڑ سکتے ہیں لیکن نکاح میں یہ ضروری ہے کہ خاوند اور بیوی کا تعلق مخالف جنسوں سے ہو۔
(xi) نکاح کی محرموں سے ممانعت ہے۔ قرآنی حکم ہے:
"تمہارے لئے حرام ہیں (شادی کے لئے) تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہارے باپ کی بہنیں، تمہاری ماں کی بہنیں، تمہارے بھائی کی بیٹیاں، تمہاری بہن کی بیٹیاں ۔۔۔" (سورہ نساء، 23:4)
ان رشتوں کے مابین شادی کی واضح طور پر ممانعت ہے جب کہ معاہدہ کرتے وقت ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
(xii) معاہدہ خفیہ طور پر بھی کیا جا سکتا ہے جب کہ خفیہ نکاح جائز نہیں ہے، اس کا کھلم کھلا اعلان کیا جائے تاکہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ زوجین قانونی طور پر شادی شدہ ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث سنن ابن ماجہ، سنن ترمذی اور مسند احمد بن حنبل کے حوالے سے روایت ہوئی ہے کہ "اپنی شادیوں کا اعلان کرو" لہذا ایک دیوانی معاہدہ اور ایک مسلم شادی میں واضح فرق ہے جب کہ دیوانی معاہدہ کے جائز ہونے کے لئے اعلان ضروری نہیں ہے۔
(xiii) ماقبل شادی کی خصوصیات پر بحث کرتے ہوئے محترم جسٹس قدیرالدین احمد نے کراچی کے ایک کیس محمد یاسین بنام خوشنما خاتون (2 کراچی ویکلی لاء رپورٹر،29، 1960) میں اظہار فرمایا کہ:
"اگرچہ مذہبی رسم، نکاح کا ضروری حصہ نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ شادی مذہبی تقدس اور خوشنودی خدا کے حامل بلند تر مذہبی مقاصد کی حامل نہیں ہے۔ اس میں ابتداء سے لے کر انتہاء تک حقوق و فرائض کے تصور کے ساتھ ایک تقدس وابستہ ہے۔ اس شادی کو اگر مذہبی تقدس کے ساتھ وابستہ نہ کیا جائے جس کی وہ یقینا حامل ہے تو یہ محض غیر اسلامی اور دنیوی عمل ہو گا"
اس نظرئیے پر بحث کرتے ہوئے کیتھ ہاڈکٹن نے اپنی کتاب مسلم فیملی لاء (مطبوعہ کروم ہیلم، لندن اینڈ کینبرا 1984) میں رائے دی:
"اسلامی شریعت میں نکاح صرف ایک دیوانی معاہدہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ مذہبی تقدس بھی وابستہ ہے جو کہ درست بنیاد پر ہے، مسلمان کے لئے نکاح نہ صرف قانونی اور سماجی فوائد رکھتا ہے بلکہ اسے بے شمار مذہبی اور روحانی فوائد بھی مہیا کرتا ہے"
(xiv) اسلامی قانون کے مطابق نکاح ایک مسلمان مرد اور ایک مسلمان عورت کے درمیان ہی جائز ہے۔ ایک مسلمان مرد ایک کتابیہ عورت سے شادی کر سکتا ہے لیکن مسلمان عورت غیر مسلم سے نہیں جبکہ ایک دیوانی معاہدہ میں اس قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
27۔ آئیے اب ایک جائز شادی کی شرائط کا قرآن و سنت کے ساتھ اسلام کے عظیم فقہاء کی رائے کی روشنی میں مطالعہ کریں۔ فقہاء نے جائز شادی کی کافی شرائط کا تذکرہ کیا ہے لیکن مندرجہ ذیل شرائط پر اتفاق رائے ہے اگر ان میں سے ایک بھی نہ ہو تو درست شادی معرض وجود میں نہیں آتی اور پہلی دو شرائط یعنی ولی کی اجازت اور نکاح کے فریقین کی اجازت کے بغیر اگر شادی کی گئی تو وہ باطل یعنی مکمل طور پر کالعدم ہو گی۔ بڑی بڑی شرائط حسب ذیل ہیں:
(i) ولی یا سرپرست کی اجازت
(ii) مجوزہ میاں بیوی کی اجازت اگر وہ بالغ ہوں اور بعد ازاں ان کی طرف سے ایجاب و قبول
(iii) حق مہر کی ادائیگی
(iv) دو مرد گواہوں کی موجودگی یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی
28۔میں ان شرائط پر ترتیب وار بحث کرتا ہوں۔
(i) جہاں تک ولی کی اجازت کا تعلق ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے علاوہ کسی شخص کی بھی شادی مجوزہ عورت کی ولی کی اجازت کے بغیر درست نہ ہے اور یہ قرآن پاک کے درج ذیل حکم سے واضح ہے:
﴿وَٱمْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِىِّ إِنْ أَرَادَ ٱلنَّبِىُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ﴾(سورۃالاحزاب: 33)
"اور مومن عورت جو اپنے نفس کو نبی کے لئے مخصوص کرے اگر نبی اس سے شادی کرنا چاہے یہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے ہے اور عام مومنین کے لئے نہیں"
قرآن مجید کے ایک مشہور مفسر ابن کثیر حضرت قتادہ (ممتاز تابعی مفسر) سے روایت کرتے ہیں کہ
"کوئی عورت ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرنے کی مجاز نہیں ہے، صرف ایک استثناء حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی ہے" (تفسیر ابن کثیر مترجم 4: 263) جیسے قرآن سے واضح ہے شائد اس وجہ سے کہ اللہ کا پیغمبر تمام امت کا ولی ہوتا ہے: "﴿ٱلنَّبِىُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ﴾" فقہ کی مشہور کتاب المغنی میں واضح طور پر درج ہے:
"یہ صرف پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ہے کہ وہ عورت کے ولی کی اجازت کے بغیر خود شادی کر سکتے ہیں۔ کوئی دیگر شخص اس قانون سے مستثنیٰ نہیں"
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "ولی، گواہان اور حق مہر کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی، صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مستثنیٰ ہیں" (سنن دارقطنی، جلد 3 صفحہ 22، مطبوعہ دارالمحاسن، قاہرہ، مصر)
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَلَا تُنكِحُوا۟ ٱلْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا۟﴾(البقرۃ:221)
"مسلمانو! اپنی لڑکیوں کو مشرکین کے نکاح میں نہ دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں"
﴿وَأَنكِحُوا۟ ٱلْأَيَـٰمَىٰ مِنكُمْ﴾(النور:24)
"اور اپنے میں سے بے شوہر عورتوں کا نکاح کر دو"
یمن کے چیف جسٹس امام شوکانی نے اس آیت پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ "یہاں بھی لڑکیوں کے سرپرست مخاطب ہیں"
امام قرطبی اپنی تفسیر (صفحہ نمبر 239 جلد 12 تفسیر قرطبی مطبوعہ مکتبہ الغزالی دمشق) میں لکھتے ہیں کہ
"اس سے یہ دلیل فراہم ہوتی ہے کہ عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرنے کی مجاز نہ ہے"
قرآن کریم مزید حکم دیتا ہے:
﴿فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَٰجَهُنَّ﴾
"اگر وہ دوبارہ شادی کے خواہشمند ہیں تو ان کو روکو مت" (البقرہ: 232)
29۔ "ولی کی اجازت کے بغیر کوئی شادی نہیں" کے موضوع والے باب میں امام بخاری اپنی مشہور اور انتہائی ثقہ کتاب صحیح بخاری میں درج کرتےہیں کہ:
"یہ آیت معقل بن یسار کے واقعہ پر نازل ہوئی۔ ان کی بہن شادی شدہ تھیں اور ان کے خاوند نے انہیں صرف ایک یا دو بار طلاق دی تھی اور عدت مکمل ہو چکی تھی۔ حضرت معقل کی بہن سے دوبارہ شادی کی اجازت لینے کی غرض سے ان کی بہن کا سابقہ خاوند ان کے پاس آیا۔ حضرت معقل رضامند نہیں تھے اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس کی سرزنش کی کہ "انہوں نے پہلے اس کی عزت و تکریم کی لیکن اس نے جوابا اچھا سلوک نہیں کیا بلکہ طلاق دے دی تو انہوں نے قسم کھا لی کہ وہ اس سے دوبارہ اپنی بہن کی شادی نہیں کریں گے۔ جبکہ واقعہ یہ تھا کہ ان کی بہن اپنے سابقہ خاوند سے دوبارہ شادی کرنا چاہتی تھی۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد معقل بن یسار نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرنے کے بعد اپنی بہن کا اس کے سابقہ خاوند سے دوبارہ نکاح کر دیا"
اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رائے کا اظہار یوں کیا ہے کہ بہن کی خواہش سے قطع نظر معقل بن یسار نے اسے دوبارہ شادی کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے جو بہت واضح ہے کہ ایک بیوی یا مطلقہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکتی۔
اس آیت پر بحث کرتے ہوئے امام شافعی (جنہیں یونیورسٹی آف لنڈن کے مشرقی قوانین کے پروفیسر این جے کولسن نے اپنی کتاب اسلامک سروے میں اسلامی فقہ کا عظیم معمار قرار دیا ہے) نے اپنی کتاب "الام" میں درج کرتے ہوئے کہا "یہ ایک واضح دلیل مہیا کرتی ہے کہ یہ ولی کا اختیار ہے کہ وہ عورت کو نکاح میں دے (الام جلد 5 صفحہ 11 مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ) اسی آیت پر بحث کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر نے اپنی مشہور تفسیر میں درج کیا (صفحہ 323 جلد اول، مکتبہ قدوسیہ لاہور 1994ء) یہ آیت واضح طور پر یہ ثابت کرتی ہے کہ عورت از خود نکاح کے بندھن میں داخل نہیں ہو سکتی اور ولی کی رضامندی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہو سکتا۔
ابن جریر نے بھی روایت کی ہے کہ اس حکم کی بناء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرار دیا تھا کہ:
"نہ تو ایک عورت دوسری عورت کے ولی کے طور پر شادی کرانے کی مجاز ہے اور نہ ہی وہ خود ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر سکتی ہے" (حدیث)
امام قرطبی نے قرآن پاک کی اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ:
"یہ آیت واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر کوئی شادی نہیں کیونکہ معقل کی بہن گو مطلقہ تھی لیکن اس کا ولی ہی جائز نکاح کے بندھن میں لایا۔ اگر وہ از خود اس کی اہل ہوتی تو لازم طور پر خود شادی کر لیتی اور اسے حضرت معقل یعنی اپنے بھائی کی بطور ولی اجازت کی ضرورت نہ ہوتی (تفسیر الجامع احکام القرآن جلد3 صفحہ 158 مکتبہ الغزالی دمشق)"
اسی آیت پر بحث کرتے ہوئے امام ابن جریر بیان کرتے ہیں کہ یہ "آیت واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ ولی کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی" (تفسیر طبری جلد دوم صفحہ 501 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
﴿فَٱنكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ﴾
"تم عورتوں کا نکاح ان کے گھر والوں کی اجازت سے کرو" (النساء: 25)
یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ صرف عورت کا ولی ہی مناسب طریقہ سے اس کی شادی کر سکتا ہے۔ امام قرطبی اس آیت پر دوبارہ بحث کرتے ہیں کہ "نکاح صرف ولی کی اجازت سے ہو سکتا ہے"
30۔ یہاں تک صرف قرآن پاک کے احکامات کے حوالے سے تھا۔ آئیے اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں:
٭ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر باطل ہے"، اور اگر ولیوں کے درمیان تنازعہ پیدا ہو جائے یا کوئی بھی ولی نہ ہو تو حکمران یا قاضی اس کا ولی ہو گا" (یہ حدیث صحیح سنن ابن ماجہ، صحیح سنن ابوداؤد، صحیح سنن ترمذی، سنن دارقطنی، الام امام شافعی اور امام شوکانی کی نیل الاوطار میں روایت کی گئی ہے)
٭ دوسری حدیث جو ہم حدیث کی کئی کتابوں میں دیکھتے ہیں، یہ ہے:
(قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا نكاح الا بولى)
یہ حدیث احادیث کی تقریبا تمام معتبر کتابوں میں درج ہے۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "نہ تو کوئی عورت دوسری عورت کی شادی کر سکتی ہے اور نہ ہی وہ اپنی شادی کر سکتی ہے" (یہ بھی ابن ماجہ اور دارقطنی میں درج ہے)
31۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کیا رائے ہے:
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم فرمایا:
"کوئی عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر اور ولی کی عدم موجودگی میں قاضی کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کرے گی"
عکرمہ بن خالد رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک واقعہ پیش آیا۔ سفر کے دوران ایک بیوی/مطلقہ نے اپنے حقیقی ولی کی اجازت کے بغیر شادی کر لی۔ جب معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے دونوں یعنی عورت اور مرد کو قانون کی خلاف ورزی پر کوڑے لگانے کا حکم دیا۔
32۔ ظہران یونیورسٹی سعودی عرب کے پروفیسر ڈاکٹر محمد رواس نے تمام خلفاء کے علیحدہ قانونی آراء پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا شائع کئے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ
٭ ایک حاملہ عورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لائی گئی جس نے مطلع کیا کہ وہ فلاں فلاں شخص سے شادی شدہ ہے۔ جب اس شخص سے آمنا سامنا کرایا گیا تو اس نے خلیفہ کو بتایا کہ اس نے اس سے اس کی بہن اور ماں کو نکاح کے گواہ بنا کر شادی کی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس جوڑے پر حد تو جاری نہ کی البتہ ان میں علیحدگی کردی اور حکم فرمایا کہ "ولی کے بغیر کوئی شادی نہیں"
٭ ایک اور عورت نے ولی کی مرضی کے بغیر شادی کر لی اور جب معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نوٹس میں لایا گیا تو انہوں نے اسے سو کوڑے لگانے کا حکم دیا۔
٭ اور اسلامی ریاست کے تمام صوبوں میں حکم نامہ جاری کیا کہ "اگر کوئی عورت ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرتی ہے تو اسے زانیہ تصور کیا جائے"
٭ اسی طرح خلیفہ وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ایسی شادی جو ایک عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر کی تھی، رد فرما دی (فقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، صفحہ 685 مطبوعہ معارف اسلامی منصورہ لاہور 1994ء)
٭ اسی طرح روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم فرمایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر کوئی شادی نہیں۔ اگر کوئی ایسی شادی کرے تو وہ کالعدم ہو گی۔
٭ امام شعبی سے روایت ہے کہ "حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے خلاف سخت ترین تھے جو ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرتے تھے اور آپ انہیں کوڑے لگوایا کرتے تھے" (سنن دارقطنی جلد 3 صفحہ 229 مطبوعہ دارالمحاسن قاہرہ)
٭ اپنی کتاب الام کے صفحہ نمبر 11 پر امام شافعی ایک واقعہ درج فرماتے ہیں جس میں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو ایک عورت کے ولی نے رپورٹ دی جو کہ اس کی رضا مندی کے بغیر شادی کر چکی تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس شادی کو رد فرمایا اگرچہ خلوت صحیحہ ہو چکی تھی (الام جلد 5 صفحہ 11 مطبوعہ دارلاباز مکہ)
٭ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "ایک عورت کو کسی دوسری عورت کی شادی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اور اگر اس نے ایسا کیا تو ایک قانونی شادی نہ ہو گی" (صفحہ نمبر 566)
انسائیکلو پیڈیا فقہ حضرت عبداللہ بن مسعود مطبوعہ ادارہ معارف اسلامی، منصورہ لاہور 1994ء)
٭ امام دارقطنی نے حضرت ابوہریرہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جو عورت خود شادی کرتی ہے (ولی کی اجازت کے بغیر) وہ زانیہ ہے۔
٭ ایک اور موقع پر اسی حوالہ سے درج ہے کہ "وہ بدکار عورت شمار ہو گی"
٭امام دارقطنی نے اپنی کتاب میں ایک اور حدیث روایت کی ہے جو واضح کرتی ہے کہ دو گواہوں اور حق مہر کے بغیر کوئی شادی نہیں اور صرف حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات عالی اس سے مستثنیٰ ہے۔
٭ یمن کے مشہور چیف جسٹس امام شوکانی نے اپنی کتاب نیل الاوطار میں درج کیا ہے کہ:
"یہ بات کہ ولی کے بغیر کوئی شادی نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت حسن بصری، ابن مسیب رضی اللہ عنہ، ابن شبرمہ رضی اللہ عنہ، ابن ابی لیلیٰ، عترہ (اہل بیت)، امام احمد، امام اسحٰق، امام شافعی، اور دیگر علمائے اسلام نے اس کی تائید کی ہے۔ غرض ابن منذر نے درج کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی نے بھی اس بات سے اختلاف نہیں فرمایا" (نیل الاوطار جلد 5 صفحہ 102 مطبوعہ مصر)
اسی طرح بہت سے دیگر حوالہ جات اس بات کی تائید کر سکتے ہیں لیکن ان کو غیر ضروری طوالت کی وجہ سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
32۔ اب ہم سنی فقہ کے چاروں اماموں کو لیتے ہیں۔ ہم نے پہلے ہی امام شافعی کی رائے بیان کر دی ہے جس کے مطابق ولی کی مرضی کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی۔
مالکی مکتب فکر کے مطابق جس عورت نے ولی کی مرضی کے بغیر شادی کی ہو انہیں علیحدہ کر دیا جائے خواہ خلوت صحیحہ ہو چکی ہو یا نہ ہو ایسی شادی کو منسوخ کر دیا جائے (المدونۃ الکبریٰ جلد دوم صفحہ 166 مطبوعہ دارالصادر، بیروت) مالکی مکتبہ فکر کے علاوہ صالح عبدالسمیع الازہری اپنی کتاب جواہر الاکلیل شرح مختصر الخلیل (جلد اول، صفحہ 277 مطبوعہ (بیروت) میں لکھتے ہیں کہ "ایک جائز شادی کی چار شرائط ہیں جن میں ولی کی اجازت اہم ترین ہے۔"
جہاں تک حنبلی مکتب فکر کا تعلق ہے حوالہ جات پہلے ہی دئیے جا چکے ہیں۔ ابن قدامہ نے اپنی کتاب المغنی میں ایک حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ "ولی کی مرضی کے بغیر کوئی شادی نہیں"
جہاں تک حنفی مکتب فکر کا تعلق ہے الجوہرۃ النیرہ (مشہور کتاب قدوری کی شرح) سے ہم مندرجہ ذیل حوالہ پاتے ہیں جہاں امام ابویوسف اور امام محمد کی رائے بیان کی گئی ہے۔
"امام ابویوسف بیان کرتے ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر کوئی درست شادی نہیں ہوتی لیکن امام محمد کے مطابق ولی کے بغیر نکاح عمل میں نہیں آتا اور معطل رہتا ہے جب تک کہ ولی اس کی توثیق نہ کر دے اور اگر ولی شادی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو ریاست کو بھی کوئی اختیار نہیں کہ وہ اس شادی کو جائز قرار دے تاہم ایک رستہ اس نکاح کو جائز بنانے کا ہے اور وہ ہے پہلے ولی کی منسوخی اور نئے ولی کی تقرری"
امام یوسف کے مطابق جب ولی توثیق سے انکار کردے تو ریاست ولی کو ایسا کرنے پر مجبور کرے گی اور اگر پھر بھی وہ اجازت دینے سے انکار کر دے تو حکمران دخل اندازی کر کے شادی کی اجازت دے گا۔
حنفی مکتب فکر کی ایک اور مشہور کتاب "تحفۃ الفقہاء" میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دونوں شاگردوں کی رائے کو درج ذیل صورت میں بیان کیا گیا ہے:
"امام ابویوسف، امام محمد اور امام شافعی کی رائے ہے کہ ایک بالغ لڑکی کے لئے جو بلوغت پا چکی ہو اور فیصلہ کرنے کی عمر کو پہنچ چکی ہو، ولی کی اجازت ضروری ہے۔ اگر ولی کی اجازت کے بغیر وہ شادی کرتی ہے تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔ اس سلسلے میں تینوں ائمہ کی رائے میں فرق ہے۔ امام چافعی کے مطابق لڑکی چونکہ ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرنے اہل نہ ہے اس لئے کوئی نکاح نہیں اور مابعد توثیق بھی اسے جائز نہیں بنا سکتی ہے۔ امام محمد کی رائے یہ ہے کہ اگرچہ نکاح وقوع پذیر ہو گا لیکن یہ ولی کی توثیق تک معطل رہے گا اور اگر خاوند کے اس کے ساتھ جنسی تعلقات ہوں گے تو بالکل ناجائز ہوں گے اور اگر ان میں سے کوئی ایک مر جائے تو کوئی بھی ان کی جائیداد کا وارث نہ ہو گا" (تحفۃ الفقہاء از علاؤ الدین سمرقندی جلد دوم صفحہ 224 قطر)
حنفی فقہ کی ایک اور مشہور کتاب بدائع الصنائع میں یہ درج ہے کہ امام محمد کے مطابق "ایک عورت کے لئے ولی یا حکمران کی اجازت کے بغیر شادی نامناسب ہے"
امام ابویوسف کی آخری رائے کے مطابق "اگر کسی عورت کا ولی موجود ہو تو اس کے لئے اس کی اجازت کے بغیر شادی کرنا مناسب نہیں۔"
المدایہ اور اس کی شرح فتح القدیر (دونوں حنفی مکتب فکر کی بنیادی کتابیں ہیں) کے مطابق امام ابو یوسف کی رائے یہ تھی کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں۔ اسی طرح امام محمد نے قرار دیا کہ نکاح کا انحصار ولی کی اجازت پر ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کی بھی یہی رائے ہے۔
اس نکتہ پر حنفی رائے کی تشریح کرتے ہوئے موجودہ زمانہ کے ایک بہت بڑے فقیہ علامہ انور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب فیض الباری شرح صحیح بخاری میں درج کیا ہے کہ حدیث "(لا نكاح الا بولى)" حسن حدیث کے زمرے میں آتی ہے لیکن کچھ علماء نے اسے "صحیح" بھی قرار دیا ہے۔ علماء کی تحقیق کے مطابق اس معاملہ میں درست رائے جو مسلم معاشرہ سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ دونوں جانب کا خیال رکھنا چاہئے دونوں طرف احادیث موجود ہیں اور اس لئے معاشرے میں توازن قائم رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ دونوں کو مدنظر رکھا جائے۔ جب عورتوں سے خطاب کیا گیا تو ان پر واضح کر دیا گیا کہ ان کے ولیوں کے ان پر حقوق ہیں یہاں تک کہ یہ گمان ہوا کہ ان کو اس معاملہ میں کوئی حقوق بھی حاصل نہیں جیسا کہ حدیث پاک سے واضح ہے کہ جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرتی ہے وہ شادی باطل، باطل، باطل ہے۔ بادی النظر میں شادی کے باطل ہونے کا تکرار مبالغہ دکھائی دیتا ہے۔ اور جب معاملہ سر پرستوں سے متعلق ہوا تو یہ بیان کیا گیا کہ عورتوں کو ولیوں کے مقابلہ میں حقوق حاصل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود مختار ہیں اور ولیوں کو مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ اگر دونوں موقف اکٹھے پڑھے جائیں تو یہ واضح ہو گا کہ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں اور تمام بحث سے جو چیز واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ولی کی اجازت اور اس عورت کی اجازت کہ جس کی شادی کی جا رہی ہے، دونوں ضروری ہیں تاکہ نہ تو ولی عورت پر جبر کرے اور نہ ہی ایک غیر ذمہ دارانہ طریقہ سے وہ یعنی عورت آگے بڑھے۔ (فیض الباری شرح صحیح البخاری از علامہ انور شاہ کشمیری جلد 4 صفحہ 282 تا 287)
حضرت شاہ ولی اللہ نے نشبتا زیادہ بھرپور طریقے سے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ میں اس رائے کی حمایت کی ہے (صفحہ 515 تا 520 مطبوعہ فرید بک سیلرز، اردو بازار لاہور)
بیمز ہیسٹنگز 38 جارج سٹریٹ نیو یارک کے انسائیکلو پیڈیا آف ریلجئن اینڈ ایتھکس (Religion and Ethics) "مذاہب اور اخلاقیات" کا حوالہ دینا نامناسب نہ ہو گا، جس کے صفحہ نمبر 464 پر درج ہے کہ "والدین کی مرضی انتہائی ضروری ہے جبکہ فریقین کی اجازت خود ضروری نہیں کہ جو بعض اوقات بہت چھوٹی عمر میں اپنے والدین کے ذریعے رشتہ ازدواج میں منسلک کر دئیے جاتے ہیں۔"
34۔ جہاں تک مجوزہ خاوند بیوی کی رضامندی کا تعلق ہے تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ ولی کی اجازت کے ساتھ ساتھ خاوند اور بیوی کی مرضی بھی اس طرح ضروری ہے اگر بیوی بالغ ہو چکی ہو۔ لہذا اس نکتہ پر مزید بحث کی ضرورت نہ ہے۔
شادی کے باب میں امام بخاری نے معاذ بن فضالہ سے روایت کی ہے کہ "بیوہ یا مطلقہ کی اس وقت تک شادی نہ کی جائے جب تک اس کی مرضی نہ حاصل کر لی جائے اور اس طرح کنواری کی شادی بھی اس کی مرضی کے بغیر نہ کی جائے"
ایک اور کیس میں صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر کر دی گئی چنانچہ جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے منسوخ فرما دی۔
اسی طرح کی ایک دوسری حدیث میں عورت کی مرضی کے خلاف شادی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم نہ کیا۔
35۔ جہاں تک دو گواہان کی موجودگی کا تعلق ہے کتاب الفقہ میں یوں واضح کیا گیا ہے (جلد 4 از عبدالرحمٰن الجزیری مطبوعہ محکمہ اوقاف حکومت پنجاب صفحہ 39)
"دلی کے ساتھ دو گواہان کی موجودگی کی شرط ابن صبان رضی اللہ عنہ سے مروی مختلف احادیث پر مبنی ہے کہ سرپرست (ولی) اور دو معقول گواہان کے بغیر کوئی نکاح نہیں اور اگر ان شرائط کے بغیر شادی ہوئی تو کالعدم ہو گی"
(اسی کتاب کے صفحہ 49 پر) مزید یہ تحریر ہے کہ تینوں ائمہ میں یہ اتفاق ہے کہ ایجاب و قبول کے وقت گواہان کی موجودگی ضروری ہے بصورت دیگر نکاح باطل ہو گا۔
مالکی مکتب فکر کے مطابق نکاح کے وقت گواہ کا ہونا ضروری نہیں تاہم میاں بیوی کے درمیان خلوت صحیحہ پر گواہ ہونا چاہئے۔ لہذا ترجیح اسی بات کو دی جائے گی کہ دونوں گواہان شادی کے وقت موجود ہوں۔
تینوں ائمہ کے درمیان یہ بھی اتفاق ہے کہ گواہان مرد ہونا چاہئیں جبکہ حنفیہ کے مطابق ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہو سکتی ہیں۔
منہاج الطالبین (محمڈن لاء کی کتاب جسے سنگا پور کے ڈسٹرکٹ جج ای سی ہاورڈ نے ترجمہ کیا ہے) کے مصنف امام نووی کے مطابق دو ثقہ آزاد مردوں کی موجودگی میں شادی ہونا چاہئے۔
اسی طرح A.I.R 1940 Pesh 2,3 میں یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ:
"محمڈن لاء کے مطابق یہ حتمی طور پر ضروری ہے کہ ایک ہی وقت میں مرد یا اس کا نمائندہ اور عورت یا اس کا نمائندہ شادی پر اتفاق کریں اور یہ معاہدہ دو بالغ گواہان کی موجودگی میں طے پائے"
یہاں (جدہ کے مشہور عالم اور عرب نیوز کے مذہبی ایڈیٹر عادل صلاحی کی تصنیف کردہ) ایک کتاب Our Dialogue –II کا حوالہ دینا مفید ہو گا۔ جائز شادی کے اجزاء کے متعلق وہ لکھتے ہیں:
"شادی کا معاہدہ گواہان اور دلہن کے ولی کی موجودگی میں، حق مہر کی ادائیگی کے ساتھ مناسب طریق سے ہونا چاہئے۔ پھر آپ کو اسے شائد ولیمہ کے ذریعہ زیادہ شہرت دینے کی ضرورت ہے"
وہ مزید (صفحہ نمبر 126) پر تحریر کرتے ہیں:
'آپ یہ احساس کریں کہ شادی دو فریقین کے درمیان ایک معاہدہ ہے جو گواہان اور عورت کے سرپرست کی موجودگی میں طے پاتا ہے۔ اس میں ایسے حق مہر کی ادائیگی بھی شامل ہے جو دونوں فریقین کے درمیان طے پایا ہے اور وہ معاہدہ کے طے پانے کے وقت خاوند کے ذمہ واجب الادا ہوتا ہے"
اسی کتاب کے صفحہ 130 پر وہ مزید تحریر کرتا ہے کہ:
"شادی کا معاہدہ عورت کے والدین یا سرپرست کی طرف سے ایجاب اور مرد کے قبول کرنے پر مبنی ہے۔ یہ لازمی دو گواہان کی موجودگی میں ہونا چاہئے۔ حق مہر کی ادائیگی خاوند نے بیوی کو کرنا ہوتی ہے۔ جس کا تعین دونوں کے درمیان طے پاتا ہے اور وہ بے شدہ رقم یا کوئی اور چیز بیوی کی ملکیت ہوتی ہے چونکہ یہ اس کی ملکیت ہے اس لئے اس کے استعمال پر صرف اسی کا حق ہے۔ مزید برآں یہ بھی ضروری ہے کہ شادی کے بعد خاوند، رشتہ داران اور ہمسایوں کو ولیمہ پر بلائے۔ اس طریقہ سے تشہیر ہوتی ہے جو شادی کے لئے ضروری ہے"
36۔ اب حق مہر کے بارے میں جو کہ شادی کے لوازمات میں سے ایک ہے اور کوئی شادی اس کے بغیر جائز نہیں۔ قرآنی احکامات کے مطابق "(وَءَاتُوا۟ ٱلنِّسَآءَ صَدُقَـٰتِهِنَّ نِحْلَةً)" عورتوں کو ان کا حق مہر خوشی سے ادا کرو"
یہ قرآنی حکم ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ مناسب حق مہر مقرر کئے بغیر کوئی شادی عمل میں نہیں آ سکتی اور اگر یہ شادی کے وقت مقرر نہ کیا جائے تو خاوند اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرنے کا پابند ہو گا۔ جیسا کہ بعض فقہاء نے قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نکاح کی تشہیر کی شرط معتبر احادیث کے ذریعہ بطور حکم ملتی ہے۔
37۔ اس موقع پر یہ ذکر کرنا مناسب خیال کیا جاتا ہے کہ اسلامی قانون اس حقیقت سے بے بہرہ نہیں کہ اگر اپنی بیٹی یا نابالغہ کے ضمن میں ولی یا سرپرست اپنے فرائض کی بروقت ادائیگی میں غفلت کرتا ہے تو اس سے جواب طلبی کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے فرض کی انجام دہی میں کیوں ناکام رہا۔ معقل بن یسار کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے آیت نمبر 2/232 کی تفسیر میں ابن کثیر نے لکھا ہے:
"وہ لوگ جو شریعت پر ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے ہیں ان کو ان حالات میں اپنی عورتوں کو جب وہ شادی کی عمر کو پہنچ جائیں، شادی سے نہیں روکنا چاہئے۔ انہیں شریعت کے احکامات کی پیروی کرنا چاہئے اور اللہ کے حکم کے سامنے اپنی (جھوٹی) انا کو زیر کر دینا چاہئے۔ یہی تقویٰ اور اللہ کے خوف سے قریب تر ہے" (ابن کثیر جلد اول صفحہ 324)
38۔ ایک غیر شادی شدہ عورت کے لئے یہ انتہائی مشکل اور دشوار ہے کہ وہ اپنے فرائض سے غفلت برتنے والی ولی کے خلاف عدالت میں جائے۔ اس کے لئے ایک سادہ طریق کار طے کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی سائلہ 14 اگست 1991ء کے اعلان کوئٹہ میں "حقوق و فرائض سے آگاہی اور نفاذ سکیم" کے تحت وہ متعلقہ ڈسٹرکٹ جج کو صرف ایک خط لکھ سکتی ہے جو اسے ایک قانونی درخواست قرار دے کر اور اسے فوقیت دیتے ہوئے ولی کو طلب کرے گا اور مختصر ترین ممکنہ وقت میں اس معاملے کا تصفیہ کرنے کا پابند ہو گا۔ اس مقصد کے لئے ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ جج صاحبان کو "ڈائریکٹرز آف بورڈ آف اوئیرنس اینڈ انفورسمنٹ آف ہیومن رائٹس اینڈ اوبلیگیشنز" (حقوق و فرائض انسانی کی آگاہی اور نفاذ کے بورڈ کے منتظمین) مقرر کیا گیا ہے اور انہیں عدالت عالیہ کی چٹھی نمبر 15397 جی اے زیڈ 1 (مورخہ 30 نومبر 1991ء) کی رو سے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسی درخواستوں/ شکایتوں کو مذکورہ سکیم کے تحت وصول کریں اور مطلوبہ داد رسی مہیا کریں۔ سیشن جج/ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج صاحبان ان معاملات کو سن کر فریقین سے کی جانے والی زیادتیوں پر داد رسی مہیا کر سکتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر پدرانہ یا نیم پدرانہ دائرہ اختیار کی طرز پر ہے۔
39۔ یہ ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ اسلام دین فطرت ہونے کی بناء پر مسائل کی نوعیت کو سمجھتا ہے اور انتہائی اعلیٰ طریقہ سے ان کا حل پیش کرتا ہے۔ مغرب میں عورت صدیوں کی ذلت و خواری اور پریشانی کے بعد جو حاصل کر سکی، اسلام نے اسے شروع ہی میں اس سے بہت زیادہ عطا کر دیا۔ اسلام نے بنیادی قانون کے طور پر یہ قرار دیا کہ عورت بھی انسان ہے اور مرد کی طرح وہ بھی ایک روح کی ملکہ ہے:
﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٰحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَآءً﴾
"اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان (آدم علیہ السلام) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائے" (سورۃ النساء:1)
پس اس سے واضح ہے کہ ابتدائے آفرینش اور مقام آخرت میں ایک مرد اور عورت بالکل برابر ہیں اور اس لئے ان کے ایک ہی جیسے اور برابر کے حقوق ہیں۔ اسلام نے اسے مردوں کی طرح زندگی، عزت اور جائیداد کے حقوق دئیے۔ اسی طرح دنیا میں مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مردوں اور عورتوں کے حقوق برابر ہیں جس میں جائیداد حاصل کرنے اور اپنی مرضی و منشاء سے خرچ کرنے کے حقوق شامل ہیں۔ عورتیں اپنے فائدے کے لئے جائیداد رہن یا کرایہ یا خرید و فروخت یا مفاد کے لئے استعمال کرنے کے لئے کاملا آزاد ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہے:
﴿لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ ٱلْوَٰلِدَانِ وَٱلْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌ﴾
"والدین اور نزدیکی رشتہ داروں کے ترکہ میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی حصہ ہے" (سورۃ النساء: 7)
مزید برآں : ﴿لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا ٱكْتَسَبُوا۟ ۖ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌ مِّمَّا ٱكْتَسَبْنَ ۚ﴾
"مردوں کے لئے ان کے اعمال کا بدلہ ہے اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال کا بدلہ" (سورۃ النساء: 32)
40۔ اب ہم مغرب میں عورت کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں۔ حالات کا تعین کرنے کے لئے لارڈڈیننگ کا حوالہ دینا مناسب ہو گا جو اپنی کتاب “The Due Process of Law” میں لکھتا ہے:
"قانون میں ہر خاوند کو اس کی بیوی پر (ایک گونہ) حکومت و اختیار ہے۔ پہلی کتابوں میں کہا گیا ہے کہ وہ بزور بازو اسے فرائض کی حدود کے اندر رکھ سکتا ہے اور اس کو مار پیٹ بھی سکتا ہے لیکن ظالمانہ یا تشدد آمیز طریقے سے نہیں۔ عام آدمی نے اس کو یوں سمجھا کہ وہ اسے صرف ایسی چھڑی سے مار سکتا ہے جو انگوٹھے سے موٹی نہ ہو۔ اٹھارہویں صدی کے آخری حصہ میں بلیک سٹون نے لکھا کہ معاشرے کے اعلیٰ طبقات میں اس برتری پر شک و شبہ کیا جانے لگا۔ لیکن وہ مزید کہتا ہے کہ عوام کے نچلے طبقے کے لوگ جو ہمیشہ قدیم روایات/قانون عام کے رسیا رہے ہیں، اب بھی اپنا پرانا استحقاق جتلاتے ہیں اور عمل کرتے ہیں اور عدالتیں اب بھی سخت بدتمیزی پر خاوند کو عورت کی آزادی سلب کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔" 1840ء تک جب ایک بیوی اپنے خاوند کو چھوڑنے کی دھمکی دیتی تھی تو خاوند مجاز تھا کہ اسے اپنے گھر میں قیدی بنا لے اور اس مقصد کے لئے طاقت استعمال کرے۔ 1891ء میں عدالتوں نے اسے اس کی مرضی کے مطابق آنے اور جانے کا حق دیا۔۔۔" "اب میں بیوی کی ذاتی حیثیت سے اس کی جائیداد کی ملکیت (کے موضوع) کی طرف آتا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ شادی کی تقریب میں یہ مرد ہی ہے جو عورت کو یقین دہانی کراتا ہے کہ میں اپنی تمام دنیاوی چیزیں تمہاری ملک کرتا ہوں لیکن قانونا صورت حال بالکل مختلف تھی شادی پر عورت کا تمام سازوسامان اور اس کی رقوم از خود مرد کی ملکیت ہو گئیں ماسوائے اس کے ذاتی کپڑوں اور اس کی متعلقہ اشیاء کے۔ اگر اس کے والدین یا سہیلیوں نے اسے شادی کے تحفے دئیے مثلا لکھنے کی سہولت کے لئے میز یا چند موم بتیاں تو (قانونا) وہ بھی مرد کی ملکیت ہوتیں۔ اگر شادی کے بعد وہ کام کرنے کے لئے باہر جاتی تو اس کی تمام کمائی خود بخود اس کے خاوند کی ملکیت بن جاتی۔ ذرا سوچئے کہ اس نے مرد کو کتنی زبردست طاقت دی اور عورت کو کتنا دست نگر بنا دیا۔ جب بھی اس کو کوئی چیز اپنی ذاتی رقم یا اپنی کمائی سے بھی خریدنی ہوتی تو اسے گھٹنوں کے بل اجازت کے لئے خاوند سے التجا کرنا پڑتی۔ اگر اسے جائزہ وجوہ کی بناء پر خاوند سے علیحدگی اختیار کرنا پڑتی تو وہ اپنی کمائی ہوئی رقم سے بھی نان و نفقہ نہ لے سکتی۔ اسے قانون عام میں صرف یہی داد رسی حاصل تھی کہ وہ اپنی ضروریات کے لئے قرض لے سکتی تھی۔ لیکن پھر بھی اسے اشیاء کی فراہمی کے لئے تاجر ڈھونڈنا پڑتا اور عین ممکن ہوتا تھا کہ کوئی بھی ایسا کرنے پر راضی نہ ہو۔ اکثر تاجر، خواہ وہ کاروبار کے بہت ہی خواہش مند ہوں، رقوم کی تسلی بخش واپسی کے خواہش مند ہوتے وہ اپنے آپ کو ایسے مقدمات میں الجھانے سے گریزاں ہوتے جس میں حل طلب مسئلہ یہ ہوتا کہ بیوی اپنے خاوند کی جمع شدہ رقوم کی گارنٹی پر کوئی مفاد حاصل کر سکتی ہے؟ اگر وہ اس پر رضامند نہ ہوتے تو بیوی کو اپنی ملکیتی اشیاء کے عوض بھی کچھ نہ مل پاتا۔ اسے اپنے طور پر معاہدے کا کوئی اختیار نہیں تھا، کیونکہ وہ صرف اپنے خاوند کے ساتھ ہی اکائی تھی اور اس کے بغیر کسی امر (معاہدہ) میں فریق نہ بن سکتی تھی۔ مزید برآں اس کے پاس کوئی جائیداد یا رقم نہ تھی جس کے ساتھ وہ اپنے کئے گئے معاہدے کو پورا کرتی۔ وہ انتہائی قابل رحم حالت میں تھی"
(صفحات 199تا 200 “The Due Process of Law” 1993ء طبع ثانی)
جیسا کہ پہلے واضح کیا گیا، اسلامی قانون افراط و تفریط سےگریز کرتا ہے اور اعتدال کے سنہری اصول کو اختیار کرتا ہے۔ اگر اسلام میں ولی کی مرضی شادی کے لئے ضروری ہے تو دولہا اور دلہن کی مرضی بھی یکساں اہمیت رکھتی ہے اور ان دونوں کی اجازت کے لئے بغیر کوئی شادی جائز نہیں، جبکہ مغرب میں صرف شادی کرنے والے جوڑے ہی کی رضامندی کو اہمیت دی گئی ہے، ان کے والدین کی اجازت کو نہیں۔ ہندو رواج کے مطابق ایک عورت کی شادی سے قبل کم ہی پوچھا جاتا اسی وجہ سے ہندوستاں کی سیاسی جماعت پی جے پی کے لیڈر اور کچھ عرصہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے اٹل بہاری واجپائی نے کچھ عرصہ قبل اس معاملہ میں ہندو طریق کار کی مذمت اور مسلم قانون نکاح کی حمایت کی۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران یہ کہا کہ "وہ مسلم عائلی قوانین سے بہت خوش ہیں جس میں شادی کی جانے والی لڑکی کی اجازت ضروری ہے۔" جبکہ ہندوؤں میں ایسی کوئی بات نہیں جو انہیں گائے بھینسوں کی طرح بیاہ دیتے ہیں" (روزنامہ "نوائے وقت" مورخہ 96-6-13) یہ حقیقت کہ ایک قانونی شادی کے لئے ولی کی اجازت ضروری ہے، ایک مستحکم معاشرہ کی موجودگی کی ضامن ہے۔ لارڈڈیننگ اسی کتاب “The Due Process of Law” کے صفحہ 201 پر درج کرتے ہے کہ:
"میں بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنے اس نظریہ کو اس طرح بیان کروں گا کہ وہ آزادی جو عورت اب تک حاصل کر چکی ہے اپنے ساتھ برابر کی ذمہ داریاں بھی اٹھائے ہوئے ہے اگر وہ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں تو ان کی مساوات نہ صرف کہ وہ حقیقی انصاف پر مبنی ہے بلکہ نسل انسانی کے لئے مفادت کی حامل بھی ہے۔ ان ذمہ داریوں میں سب سے بڑی ذمہ داری کے لئے دوسرے تمام ذاتی مفادات کو دبانا ہو گا۔ یہاں میں افلاطون سے اختلاف کرتا ہوں کہ وہ عورت کی برابری کو اس حد تک لے جاتا ہے کہ جہاں ایک مرد کی ایک عورت سے شادی نہیں ہو گی بلکہ مردوں اور عورتوں کا باہمی اختلاط برضا ہو گا اور ان کے بچوں کی پرورش حکومت وقت کے ذمہ ہو گی اگر مردوزن کی حقوق میں برابری ان حالات پر منتج ہو تو یہ انسانی تہذیب کے خاتمہ کا پیش خیمہ ہو گی جو ایک بہترین مضبوط عائلی نظام پر قائم ہے۔"
42۔ شادی کے قوانین کا مذکورہ بالا سروے ظاہر کرتا ہے کہ جو لوگ یا قومیں الہامی ہدایت (وحی) کی پیروی نہیں کرتی ہیں وہ اپنے وہم و گمان کی وادیوں میں بھٹکتی رہتی ہیں اور صدیوں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد آخرکار اسی نتیجہ پر پہنچتی ہیں۔
43۔ مندرجہ بالا بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ان مقدمات میں دونوں سائیلان کی شادی کا معاہدہ ان کے ولیوں کی مرضی کے خلاف ہونے کی بناء پر کالعدم ہے۔ لہذا مقدمات درست طور پر درج کئے گئے ہیں۔ پولیس مقدمات کی تفتیش کرنے اور ان کو منطقی نتیجہ تک پہنچانے میں آزاد ہے۔ ان رٹ درخواستوں میں کوئی وزن نہ ہے جو کہ خارج کی جاتی ہیں۔
دستخط
عبدالحفیظ چیمہ (جج)
لاہور ہائی کورٹ لاہور