فتاویٰ جات

*چوتھے دن قربانی *ننگے سر نماز *نماز جمعہ سے قبل چار رکعتیں؟۔۔وغیرہ


ماسٹر گل مان شاہ صاحب راولپنڈی سے لکھتے ہیں:

1۔ کسی عذر کے بغیر قربانی چوتھے روز جائز ہے یا نہیں؟

2۔ کپڑا (رومال) ہوتے ہوئے ننگے سر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

3۔ میرے سسر حاجی خان بہادر صاحب کٹر اہل حدیث ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جمعہ کی فرض نماز سے پہلے چار سنتیں پڑھنا صریح بدعت ہے۔ جب کہ ان کے مخالف حنفی پیش امام صاحب ابنِ ماجہ کی ایک حدیث کا حوالہ سے فرض نماز سے پہلے چار رکعات سنت ثابت کرتے ہیں، صحیح کیا ہے؟ جوابِ باصواب سے مطلع فرمائیں۔۔۔ جزاکم اللہ تعالیٰ

الجواب:

1۔ چوتھے دن قربانی: ""كل ايام التشريق ذبح"

"تشریق کے دن (تیرہ تاریخ تک) قربانی کے ہیں۔" بعض کا کہنا ہے کہ یہ منقطع ہے۔۔۔لیکن ابن حبان نے اسے موصولا بیان کیا ہے۔

2۔ ننگے سر نماز: جائز ہے، ہاں ڈھانک کر پڑھنا افضل ہے، کیوں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا زیادہ معمول یہی تھا۔۔اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿خُذوا زينَتَكُم عِندَ كُلِّ مَسجِدٍ ...﴿٣١﴾... سورة الاعراف

کہ "ہر مسجد میں (جاتے وقت یا نماز پڑھتے وقت) زینت کر لیا کرو۔"

سر پر کچھ لے کر حاضر ہونا عموما مؤدبانہ بات تصور کی جاتی ہے اور یہ پورا لباس بھی ہے، اس لیے اگر کوئی چاہے تو اس کے عموم سے سر ڈھانکنا بھی اخذ کر سکتا ہے۔ واللہ اعلم

3۔ جمعہ سے قبل چار رکعتیں: پہلے تو یہ بات مختلف فیہ ہے کہ جمعہ سے قبل "معروف سنتین" ہیں بھی یا یہ صرف نوافل ہیں، جتنی کوئی چاہے پڑھ لے؟

(كان ابن عمر يطيل الصلوة قبل الجمعة ويصلى بعدها ركعتين فى بيته!(دراية)

جہاں تک حدیث مرفوع کی بات ہے، اس کا کوئی صحیح ثبوت نہیں ہے۔ حنفی عالمِ دین نے ابن ماجہ کی جس روایت کا ذکر کیا ہے، وہ بالکل ہی بے کار ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:

اسناده واه-(الدارية)

اس کی سند میں تین راوی خاص طور پر قابلِ مطالعہ ہیں:

1۔ بقیہ: کثرت سے تدلیس کرتا ہے اور وہ بھی ضعیف راویوں سے:

(كثير التدليس عن الضفاء(تقريب)

ب۔ مبشر بن عبید: یہ راوی متروک ہے، حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر حدیثیں گھڑنے کا الزام لگایا ہے:

متروك ورماه احمد بالوضع-(تقريب)

ج۔ عطیہ عوفی: یہ صاحب شیعہ بھی تھے اور مدلس بھی:

(كان شيعيا مدلسا(تقريب التهذيب ابن حجر عسقلانى)

صریح بدعت کہنا زیادتی ہے: جناب حاجی خان بہادر صاحب کا یہ ارشاد کہ نماز جمعہ سے پہلے چار رکعتیں (سنت کر کے) پڑھنا بدعت ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنھم سے یہ ثابت بھی ہے۔ چنانچہ درایہ میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا ذکر بھی کیا ہے:

1۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق عبدالرزاق نے بیان کیا ہے، وہ اس کا حکم بھی دیا کرتے تھے:

واخرج عبدالرزاق عن ابن مسعود انه كان يامر بذلك(رواته ثقات)(دراية)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے فعل کا ذکر بھی آیا ہے کہ وہ چار پڑھا کرتے تھے۔ مگر سند ضعیف ہے۔ (درایہ) "(وهو ضعيف جدا)" (نیل)

2۔ وعن صفية بنت حيى انها صلت قبل الجمعة اربعا اخرجه ابن سعد فى ترجمتها-(دراية)

"صفیہ بنت حسیی رضی اللہ عنہا جمعہ سے قبل چار رکعتیں پڑھا کرتی تھیں"

3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا آیا ہے۔ (درایۃ والتلخیص)

دو رکعتیں: ہاں نماز جمعہ سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھنی چاہئیں۔ (فتح الباری)

(2)


عطاء الرحمن شاکر بلتستان سے لکھتے ہیں:

1۔ کرامت و معجزہ میں کیا فرق ہے؟

الجواب:

ایسے شخص سے امرِ خارق للعادۃ کا ظہور، جو حاملِ نبوت ہے، تو وہ معجزہ ہے، ورنہ کرامت۔۔اگر کسی بے ایمان کے ہاتھ پر اس کا ظہور ہو تو یہ استدراج ہے۔

2۔ شیعہ لوگ یزید کو گالیاں دیتے ہیں، کیا گالی دینا جائز ہے؟ اور ماتم بھی کرتے ہیں، یہ ماتم کب ایجاد ہوا؟

الجواب: گالیاں دینا تو شرک و کفر کے دیوتاؤں کو بھی جائز نہیں، یزید کو کب جائز ہو سکتی ہیں؟۔۔گالیاں دینا دین نہیں ہے، سسب بکنا اگر کارِ ثواب ہے تو صرف شیعہ دوستوں کے ہاں۔۔احادیث میں، بلا استثناء گالی دینا منع آیا ہے۔

ماتم مروجہ: اس کا آغاز معز الدولہ دیلمی سے ہوا، جو شیعہ تھا۔ اور المتکفی عباسی کے دور میں امیر تھا۔ یہ ماتم اسی کی ایجاد ہے۔ 946 تا 974 کے دوران اس کو فروغ ملا ہے۔

3۔ کھانا کھانے کے بعد دعا کرنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟

الجواب: ثابت ہے، ان میں سے یہ ہے:

کھانا کھا کر پڑھے: "«الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ»ترمذي مشكوة"

دودھ پی کر یہ دعا پڑھے: "للَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ وَزِدْنَا مِنْهُ

"﴿أَلَيسَ اللَّـهُ بِأَحكَمِ الحـٰكِمينَ ﴿٨﴾... سورة التين......﴿فَبِأَىِّ ءالاءِ رَ‌بِّكُما تُكَذِّبانِ ﴿١٣﴾... سورة الرحمان

)" کے بعد کرنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟

الجواب: (ا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب "﴿أَلَيسَ اللَّـهُ بِأَحكَمِ الحـٰكِمينَ ﴿٨﴾... سورة التين پر آؤ تو "بلى وانا على ذلك من الشاهدين" پڑھو۔ (فتح القدیر بحوالہ ترمذی و ابن مردویہ)

(ب) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم "﴿فَبِأَىِّ ءالاءِ رَ‌بِّكُما تُكَذِّبانِ ﴿١٣﴾... سورة الرحمان" پڑھتے تو جن "لابشئى من نعمك ربنا نكذب ولك الحمد" کہہ کر جواب دیتے۔ (فتح القدیر للشوکانی)

بعض کہتے ہیں، پڑھنے والا یہ جواب دے، نہ کہ سننے والا، مگر صحیح یہ ہے کہ دونوں جواب دیں۔

5۔ گردن کا مسح کرنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟

الجواب: ناقابلِ احتجاج روایات سے ثابت ہے، کچھ حضرات کثرتِ طرق کی وجہ سے قابلِ گزارہ کہتے ہیں، اس کے لیے مولانا عبدالھی لکھنوی کا رسالہ ملاحظہ فرمائیں:

6۔ تراویح کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "نعمت البدعةهذه" اس کا کیا مطلب ہے؟

الجواب:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے لوگوں کو الگ الگ ٹولیوں میں تراویح پڑھتے دیکھا تو ایک ہی امام کے پیچھے تراویح پڑھنے کو فرمایا۔ اگلے دن جب ان کو ایک امام کے پیچھے پڑھتے دیکھا تو فرمایا:

"(نعمت البدعةهذه)"

"یہ کیا ہی عجیب شئی ہے۔" یعنی جدا جدا کے بجائے ایک امام کے پیچھے عجیب بات ہے۔

7۔ فرض و سنت میں کیا فرق ہے؟ داڑھی رکھنا فرض ہے یا سنت؟

الجواب: دلیلِ قطعی سے جو بات ثابت ہو وہ فرض ہے، فرائض کے سوا جو بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، اور تقریر سے ثابت ہو، وہ سنت ہے:

(ا)۔ الغرض ماثبت بدليل لاشبهة فيه

(ب)۔ (السنة مافعله ﷺسوى الفرائض

8۔ تعویذ دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟

الجواب: حضور صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے، ورنہ لکھتے بھی، تعویذ کے معنیٰ اللہ کی پناہ لینے کے ہیں۔ اس کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں "تھو تھو" کر کے دم کرنا۔ دیوانے پر سورہ فاتحہ پڑھی۔ تین دن صبح و شام، فاتحہ ختم کرتے تو تھوک منہ میں جمع کر کے اس پر تھوکتے (حصن حصین بحوالہ ابی داؤد۔نسائی) نماز وغیرہ میں وسواس کے لیے تعویذ بتایا کہ "(اعوذ بالله)" پڑح کر بائیں طرف تھو تھو کریں (ایضا)۔ جعفر بن محمد بن علی نے فرمایا کہ تعویذ گلے میں لٹکا سکتے ہو (زاد المعاد)۔۔۔الغرض تعویذ دم کرنا، دعا کرنا، لکھ کر باندھنا اسلاف سے ثابت ہے۔ (زاد المعاد)

9۔ ختمِ قرآن کرنا اور مخصوص کر کے جمعرات کے دن مسجد میں ایصالِ ثواب کے لیے کچھ لانا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: دعا ہو یا نیابت، ایصالِ ثواب کا مروجہ طریقہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ ویسے بھی اس سے زندوں کی بے عملی کی حوصلہ افزائی ہو گی۔۔۔ "﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾" نیز "﴿وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى﴾" (قرآن)۔

حج اور روزہ میت کے ذمہ رہ گئے ہوں تو وارث اس کی طرف سے قائم مقام ہو کر ادا کریں۔

10۔ کسی آدمی نے جان بوجھ کر روزہ توڑا تو کیا اس پر قضاء ہے یا کفارہ؟ کوئی شخص بیمار ہو یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے روزہ توڑا تو اس پر قضاء ہے یا کفارہ؟

الجواب: جماع کے سوا کسی اور طرح سے روزہ توڑا ہے تو صرف قضاء ہے کفارہ نہیں۔۔۔جماع سے ہے تو قضاء اور کفارہ دونوں ہیں۔ حنفی ہر صورت میں قضاء اور کفارہ کہتے ہیں۔

11۔ حائضہ، حاملہ اور دودھ پلانے والی۔ ان تینوں کے روزہ کا کیا حکم ہے؟

الجواب: حاملہ اور دودھ پلانے والی۔ ان دنوں میں وہ چاہیں تو روزہ نہ رکھیں۔ بعد میں قضاء دیں:

(والظاهر انهمافى حكم المريض فيلزم عليهاالقضاء(تحفة الاحوذى)

حائضہ روزہ نہ رکھے، بعد میں قضاء دے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب


حوالہ جات

مفصل بحث کے لیے ملاحظہ فرمائین محدث جلد 9، عدد 1-2