انسانی پیدائش کے لیے مصنوعی تخم ریزی

(ٹیسٹ ٹیوب بے بی)


لادین معاشروں سے جو طریقے درآمد ہوتے ہیں ان کو بلا حیل و حجت "ترقی" کے نام پر اپنانے کے آزادانہ طرزِ عمل کی حوصلہ افزائی تو نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ دورِ حاضر میں مادہ پرستی کے فروغ نے ایمان و اخلاق کی اقدار کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ تاہم رب العالمین کی شریعت میں ہر نوع کی ایجادات اور تبدیلیوں کے لیے مکمل ہدایات موجود ہیں، جو اس کے کمال و دوام کا ثبوت بھی ہیں۔

اسی قسم کے مسائل میں ایک اہم مسئلہ "ٹیسٹ ٹیوب بے بی" کا ہے جس پر مجمع بحوث اسلامیہ (عصر) اور مجمع فقہ اسلامی مکہ مکرمہ کے بھی اجتماعات منعقد ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کی نظریاتی کونسل بھی اس پر غور کر رہی ہے۔ مجلس التحقیق الاسلامی نے اسی سلسلہ کے ایک سوال نامے کے سلسلہ میں علماء کا خصوصی اجلاس بلایا جس میں مولانا کیلانی نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا جو انہوں نے تبادلہ خیالات کے بعد نئی صورت میں ترتیب دیا ہے۔چنانچہ زیر بحث مسئلہ کی بعض صورتیں جائز ہیں۔ بعض محض ایک تکلف اور بے فائدہ کہ جن سے بہ ظاہر بے اولاد لوگوں کی با اولاد ہونے کی خواہش پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ حالانکہ در حقیقت ایسا نہیں ہے۔۔۔اور بعض صورتیں ناجائز بلکہ حرام اور ایک مسلم معاشرہ کے لیے انتہائی خطرناک نتائج کی حامل ہیں۔ تفصیل سوال و جواب کی صورت میں ہدایہ قارئین ہے۔ (مدیر)

جناب نور احمد صاحب، مصطیٰ آباد۔لاہور سے لکھتے ہیں:

"السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔بعد!

جناب کی خدمت میں گزارش ہے کہ درج ذیل مسائل میں شریعت مطہرہ کا حکم مدلل و مفصل بیان فرمائیں۔۔۔ ان مسائل کی وضاحت روزنامہ "جنگ" لاہور 25 مئی کی ایک خبر کے سلسلے میں مطلوب ہے، جس کا عنوان تھا کہ "اب پاکستان میں بھی ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیدا کی جائے گی۔"

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش کا طریقہ یہ ہے کہ: عورت اور مرد دونوں سے جرثومے حاصل کئے جاتے ہیں، جنہیں اصطلاح میں Eggs اور Sperms کہتے ہیں۔ ان کو ایک ٹیوب میں 12 ہفتے رکھا جاتا ہے، جس میں کہ وہ تمام لوازمات (Ingredients) پائے جاتے ہیں جو کہ رحمِ مادر (Womb)میں ہوتے ہیں۔ پھر ان جرثوموں کو غیر فطری طریقے سے (نذریعہ انجکشن) رحم مادر میں داخل کیا جاتا ہے۔ اور یوں نو ماہ بعد بچے کی پیدائش عمل میں آتی ہے۔

یہ عمل حسب ذیل صورتوں میں انجام پاتا ہے:

1۔ وہ عورت جو بچے کی پیدائش کے عمل سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے تو ایسی عورت اور اس کے شوہر کے جرثومے کسی دوسری خواہشمند عورت کے رحم میں داخل کئے جاتے ہیں۔ اس کے عوض وہ خواہشمند عورت خطیر رقم بطورِ معاوضہ لیتی ہے اور نو ماہ بعد وہ بچہ ان کے حوالے کر دیتی ہے جن کے جرثومے ہوتے ہیں۔

2۔ جو عورت بانجھ ہوتی ہے اس سے جرثومے اور پھر اس کے شوہر کے جرثومے حاصل کئے جاتے ہیں۔ اور پھر دوبارہ 12 ہفتے بعد اس بانجھ عورت کے رحم (womb) میں داخل کر دئیے جاتے ہیں۔

3۔ عورت سے یہ جرثومے ایک معمولی آپریشن کے ذریعے حاصل کئے جاتے ہیں جبکہ مرد سے یہ جرثومے بھی غیر فطری طریقے یعنی جلق کے ذریعے حاصل کئے جاتے ہیں یا پھر عزل کے ذریعے۔

اس ضمن میں حسب ذیل سوالات ابھرتے ہیں:

1۔ اس طریقہ کار کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

2۔ کیا یہ جدید تحقیق فطری عمل کے مطابق ہے یا فطرت سے بغاوت؟

3۔ اس طریقہ سے پیدا ہونے والی نسلوں کی قانونی و شرعی حیثیت کیا ہو گی اور نسب کس کا ہو گا؟

4۔ کیا بانجھ میاں بیوی اس کے ذریعے اولاد حاصل کر سکتے ہیں جبکہ جرثومے (Eggs, Sperms) ان دونوں کے اپنے ہی ہوتے ہیں؟

5۔ جس عورت کے رحم میں یہ جرثومے داخل کئے جاتے ہیں کیا اس کے لیے جائز ہے کہ اپنا رحم معاوضہ کسی دوسرے کی اولاد کے لیے دے دے؟ نیز پیدائش کے بعد اس عورت کا نومولود سے کس قسم کا رشتہ ہو گا؟ جبکہ اس نومولود کی پرورش اس عورت کے خون سے ہوتی ہے۔

6۔ اس ایجاد کے معاشرتی اور اخلاقی نظام پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟

آپ سے گزارش ہے کہ مندرجہ بالا اہم مسائل کے بارے میں شریعت اسلامیہ کا موقف مکمل تفصیل سے مدلل طور پر واضح فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ جزاکم اللہ۔۔۔والسلام"

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


الجواب بعون الوھاب

بشرطِ صحت مہیا کردہ معلومات مستفسر صاحب کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

1۔ پہلے سوال کہ۔۔"اس طریقہ کار کی شرعی حیثیت کیا ہے"۔۔۔کا جواب یہ ہے کہ یہ محض طریقہ کار ہی نہیں بلکہ ایک طریقہ علاج بھی ہے (خصوصا بانجھ میاں بیوی کے اولاد پیدا ہونے کے سلسلہ میں) لہذا ضرورت کے وقت اس کی شرعی حیثیت وہی کچھ ہے جو عام سائنسی ایجادات کی ہوتی ہے۔ جیسے ریڈیو، ٹیلی ویژن، لاؤڈ سپیکر وغیرہ۔ یہ چیزیں بذات خود نہ اچھی ہیں نہ بری، بلکہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں۔ اگر ان چیزوں کا استعمال بھلائی کے کاموں میں یا شریعت کی منشاء کے مطابق کیا جائے تو یہی چیزیں خیر ہیں، جائز اور درست ہیں۔ اور اگر یہی چیزیں برے کاموں یا برائی کی نشر و اشاعت یعنی شریعت کی منشاء کے خلاف استعمال کی جائیں تو یہی اشیاء عین شر اور ناجائز قرار پائیں گے۔

2۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ "کیا یہ جدید تحقیق فطری عمل کے مطابق ہے، یا فطرت کے خلاف بغاوت ہے؟"

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ جدید تحقیق فطری عمل کے مطابق تو یقینا نہیں ہے لیکن ہم اسے فطرت کے خلاف بغاوت بھی قرار نہیں دے سکتے۔ خصوصا اس صورت میں کہ اس طریقہ علاج یا طریقہ کار میں کچھ نہ کچھ خیر کا پہلو بھی موجود ہے۔ ہمارے روز مرہ کے مسائل میں سے کئی ایسے مسائل ایسے ہیں جنہیں ہم فطرت کے مطابق نہیں کہہ سکتے۔ مثلا آپریشن کے ذریعہ بچے کی پیدائش، بچے کو اپنی حقیقی ماں کے بجائے دوسری انا سے دودھ پلوانا۔ یا بچے کی تربیت گائے یا بکری کے دودھ یا ڈبے کے خشک دودھ سے کرنا۔ اسی طرح پچھنے لگوانا (فصد)، آپریشن اور چیر پھاڑ بھی فطری عمل کے مطابق نہیں۔ لیکن ان تمام امور کو کسی نے فطرت کے خلاف بغاوت قرار نہیں دیا۔ اور حسب حال مثال یہ ہے کہ جس جوڑے کے ہاں اولاد نہ ہوتی تو ڈاکٹر صاحبان زوجین میں سے ہر ایک کا مادہ تولید مصنوعی اور غیر فطری طریقوں سے حاصل کر کے یہ ٹسٹ کرتے ہیں کہ میاں کے مادہ میں نقص واقع ہوا ہے یا بیوی کے مادہ میں۔ اس طریق کار پر بھی کبھی کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا یہ فطرت کے خلاف بغاوت ہے۔ ان مثالوں سے البتہ یہ اصول ضرور مستنبط ہوتا ہے کہ ہر ایسا طریقِ کار یا طریق علاج، جو شریعت کے خلاف نہ ہو، وہ شرعا مباح اور جائز ہو گا۔

3۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ اس طریقہ سے پیدا ہونے والی نسل کی قانونی اور شرعی حیثیت کیاہو گی، اور نسب کس کا ہو گا؟

اس سوال کا جواب دراصل اس طریق کار کے مختلف قسم کے استعمال پر منحصر ہے۔ ان اقسام میں سے دو کی طرف تو مستفسر صاحب نے سوال نمبر 4 اور نمبر 5 کے تحت وضاحت کر دی ہے، باقی کچھ اور اقسام بھی ہیں۔ لہذا اس سوال کا جواب اگلے سوالات کے جوابات میں از خود آ جائے گا۔

4۔ چوتھا سوال یہ ہے کہ "کیا بانجھ میاں بیوی اس کے ذریعہ اولاد حاصل کر سکتے ہیں، جبکہ جرثومے ان دونوں کے اپنے ہی ہوتے ہیں؟"

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر اس طریق کار سے بانجھ میاں بیوی کے ہاں اولاد پیدا ہو جائے تو یہ چیز ان دونوں میاں بیوی کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔ اور سائنس کی یہ ایجاد بنی نوع انسان کے لیے ایک نوید مسرت ہے۔ عورت کے بانجھ پن کی وجہ سے جہاں اس کے علاج پر کثیر اخراجات اُٹھتے ہیں وہاں بہت سے دوسرے تلخ معاشرتی مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلا دوسری شادی کی ضرورت، پہلی بیوی کی طلاق یا اسے معلق رکھنا، بیویوں کی آپس میں رقابت اور اس سے میاں کی زندگی کا ناخوشگوار ہونا اور بعض دفعہ خاوند کے خلاف دونوں بیویوں کی مشترکہ محاذ آرائی، بانجھ عورت کا اپنے آپ کو ایک حقیر اور کمتر مخلوق سمجھنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن سے اس طریق کار کی بدولت نجات حاصل ہو سکتی ہے۔

اس طریق کار سے اگر بانجھ میاں بیوی کے ہاں اولاد پیدا ہو جاتی ہے، تو (؟) ان دونوں کی اپنی ہی ہوتی ہے، لہذا نسب یادداشت کا کوئی نیا مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔

5۔ پانچواں سوال یہ ہے کہ "جس عورت کے رحم میں یہ جرثومے داخل کئے جاتے ہیں کیا اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنا رحم معاوضہ کسی دوسرے کی اولاد کے لیے دے دے؟ نیز پیدائش کے بعد اس عورت کا نومولود سے کس قسم کا رشتہ ہو گا، جبکہ اس نومولود کی پرورش اس عورت کے خون سے ہوئی ہے؟"

مستفسر صاحب کے پورے سوال نامہ ہیں، ہماری نظر میں یہی سوال سب سے زیادہ اہم ہے۔ لہذا اس کا جواب ہم ذرا وضاحت سے دیں گے۔

عربی زبان اور اسی طرح قرآن کریم میں لفظ "ماں" کے لیے دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایک "والدۃ" اور دوسرے "اُم" لغوی لحاظ سے لفظ "والدۃ" کا اطلاق صرف اس عورت پر ہو گا جو بچہ جنتی ہے۔ بالفاظ دیگر نومولود کی والدۃ وہ عورت ہے جس نے اس کو جنا ہے، نہ کہ وہ جس کا جرثومہ یا بیضہ تھا۔

ماں کے لیے دوسرا لفظ "اُم" ہے۔ جو والدۃسے وسیع تر مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی حقیقی والدہ کے لیے بھی اور دادی، پڑ دادی، نانی، پڑ نانی وغیرہ کے لیے بھی۔ اس لفظ کے اور بھی بہت سے معانی ہیں جن سے ہمیں سرِ دست سروکار نہیں۔ فی الحال ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے "اُم" کا لفظ بھی اس عورت کے لیے استعمال فرمایا ہے جس نے بچہ جنا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِن أُمَّهـٰتُهُم إِلَّا الّـٰـٔى وَلَدنَهُم...﴿٢﴾... سورة المجادلة

"اور ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنا ہے۔"

دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿حَمَلَتهُ أُمُّهُ كُر‌هًا وَوَضَعَتهُ كُر‌هًا...١٥﴾... سورة الاحقاف

"اس (یعنی انسان) کی ماں نے اسے مشقت سے پیٹ میں اُٹھائے رکھا اور مشقت ہی سے جنا"

پہلی آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ماں وہ ہے جو بچہ جنتی ہے۔ اور دوسری آیت میں تو مزید صراحت آ گئی کہ ماں وہ ہے جو حمل کو پیٹ میں رکھتی اور پھر اسے جنتی ہے۔

ان آیات سے معلوم ہو گیا کہ نومولود کی ماں حقیقتا وہی ہے جس نے اسے جنا ہے نہ وہ کہ جس کا جرثومہ تھا۔

اب اس صورت حال پر شرعی احکام کے اطلاق کو سمجھنے کی سہولت کے مدنظر ہم ذیل میں ایک مثال یا خاکہ پیش کرتے ہیں

(خاکہ شمارے کی پی ڈی ایف فائل کے صفحہ 33 پر موجود ہے)

فرض کیجئے کہ زید اور اس کی بیوی جمیلہ۔ ہندہ نامی ایک عورت کا رحم معاوضۃ لے رہے ہیں۔ ہندہ کے خاوند کا نام عمر ہے اور اس طریق کار کی بدولت ہندہ کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے۔ اس کا نام بکر ہے۔

اب شرعی نقطہ نظر سے صورت مسئلہ یہ ہو گی کہ:

1۔ قرآن کریم کی رُو سے بکر ہندہ کا بیٹا ہے، جس نے اسے رحم میں اُٹھائے رکھا اور جنا ہے۔

2۔ بکر کے نسب سے مشابہ دو طرح کے واقعات دورِ نبوی میں ملتے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی عتبہ نے مرتے  وقت اپنے بھائی سعد رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت کی کہ زمعہ (ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کا باپ) کی لونڈی کا بیٹا عبدالرحمن میرے نطفہ سے ہے۔ لہذا تم اس کو لے لینا۔ چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ جب بچہ کو لینے گئے تو زمعہ کا بیٹا عبد کہنے لگا کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے پاب کی لونڈی کا بچہ ہے۔ آخر دونوں لڑتے جھگڑتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مقدمہ سن کر فرمایا:

الولد للفراش وللعاهر الحجر

"بچہ تو اس کا ہے جس کےبستر پر پیدا ہوا (یعنی زمعہ کا) اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔" اور ساتھ ہی اپنی بیوی حضرت سودہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

احتجبى منه ياسودة لماراى من شبهه لعتبة(بخارى كتاب البيوع بات التفسير المشتبهات

"سودہ رضی اللہ عنہ، اس سے پردہ کیا کرو۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس بچہ کی صورت عتبہ سے ملتی تھی۔"

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ باوجودیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبدالرحمان (بچہ) کی شکل و صورت سے یہ معلوم ہو گیا تھا، کہ وہ عتبہ کا ہی بیٹا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو زمعہ کا بیٹا قرار دیا، جس کی لونڈی نے اسے جنا تھا۔ اس لحاظ سے مذکورہ بالا مثال میں بکر (نومولود) ہندہ (جس نے اسے جنا ہے) کے خاوند عمر کا بیٹا قرار پائے گا نہ کہ زید کا (جس کا جرثومہ تھا) یا جس پر نومولود کی شکل و صورت اور عادات و اطوار کا انحصار ہو گا۔

دوسرا واقعہ مسجدِ نبوی میں عویمر عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کے ذریعہ جدائی کا ہے۔ ابن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد یہی مشہور ہو گیا کہ جہاں میاں بیوی نے لعان کیا دونوں میں جدائی ہو گئی۔ اگر عورت پیٹ سے ہوتی تو اس کا بچہ اپنی ماں کا بیٹا کہلاتا۔ پھر لعان کرنے والی عورت میں یہ قاعدہ بھی جاری ہوا کہ وہ اللہ کے مقرر کئے ہوئے حصوں کے موافق اپنے بچہ کی وارث ہو گی اور بچہ اس کا وارث ہو گا۔

لعان کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "دیکھتے رہو اگر بچہ لال لال، پست قد پیدا ہو تو تب میں گمان کروں گا کہ عورت سچی اور مرد نے جھوٹی تہمت باندھی۔ اور اگر بچہ سانولے رنگ کا، بڑی آنکھ والا اور بڑے چوتڑوں والا پیدا ہو تو میں گمان کروں گا کہ مرد سچا ہے۔" جب بچہ پیدا ہوا تو اس سے بھی زیادہ بدشکل تھا (یعنی اس مرد کی صورت پر تھا جس سے عورت کو تہمت لگائی گئی تھی۔ (بخاری، کتاب الطلاق باب التلاعنی المسجد)

اب دیکھئے اس واقعہ میں قانونا بچہ سے لاتعلق ہونے کی بناء پر، نسب باپ کی طرف نہیں بلکہ ماں کی طرف ہو گا۔ اور وراثت کا تعلق بھی ماں ہی سے ہے۔

اب مسئلہ متعلقہ پر نگاہ ڈالئے رحم معاوضہ پر دینے کی شکل میں اگرچہ ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے کہ یہ نطفہ زید کا ہے لیکن پہلی مثال کے مطابق قانونا بچہ زید کا نہیں ہو گا، بلکہ نومولود (بکر) عمر کا بیٹا ہی قرار پائے گا۔ لہذا یہ سارا سلسلہ محض تکلف اور بے فائدہ ہو گا۔

3۔ زید اور اس کی بیوی جمیلہ زنا کی پوری تعریف صادق نہ آنے کی بناء پر زانی اور زانیہ تو شمار نہ ہوں گے اور نہ ہی ان پر حد لگائی جائے گی۔ البتہ گنہگار ضرور ہیں۔ حسبِ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:

«لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقي ماء زرع غيره»(مشكوة كتاب النكاح باب الاستراء)

"کسی شخص کے لئے، جو اللہ اور یوم الآخرت پر ایمان رکھتا ہے، یہ حلال نہیں کہ وہ کسی غیر کی کھیتی کو پانی دے"

اور یہ تو واضح ہے کہ ہندہ عمر کی کھیتی ہے، زید اور جمیلہ دونوں نے مل کر غیر (عمر) کی کھیتی میں تخم ریزی یا آبیاری کی ہے۔ لہذا یہ ناجائز ہے۔

4۔ اگر زید اور جمیلہ کو اپنے ہاں لا کر اس کی تربیت کرتے ہیں، تو بکر کی حیثیت محض متبنیٰ کی ہو گی۔ کیونکہ شرعی نطہ نظر سے ان دونوں کے جرثومے ہونے کے باوجود، بکر نہ جمیلہ کا بیٹا ہے اور نہ زید کا۔

5۔ بکر، عمر اور ہندہ کے ترکہ کا حصہ رسدی وارث ہے، اور وہ اس کے وارث ہیں۔ بلحاظِ احکامِ وراثت بھی بکر سے زید اور جمیلہ کا کوئی تعل نہ ہو گا۔

6۔ چھٹا سوال یہ ہے کہ "اس ایجاد کے معاشرتی اور اخلاقی نظام پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر اس ایجاد کا ضرورت (جیسے بانجھ عورت کے ہاں اولاد کی ضرورت ہے) کے بجائے خواہشات کی تکمیل کے لیے آزادانہ استعمال کیا جائے تو معاشرتی اور اخلاقی نظام میں ایسی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو اسلامی تعلیمات کی عین ضد ہیں۔ اسلام اپنی منکوحہ بیوی کے علاوہ سفاحت کے تمام طریقوں کو باطل اور حرام قرار دیتا ہے اور اس حکمت عملی سے درج ذیل مقاصد حاصل ہوتے ہیں:

(1)تحفظِ نسب (2) عائلی نظام کی پائیداری (3) شکوک و شبہات سے پاک نظامِ وراثت اور (4) فحاشی کا سدِ باب اب اگر اس طری کار کا آزادانہ استعمال کیا جائے تو مندرجہ بالا تمام مقاصد میں سخت گڑبڑ واقع ہو جائے گی اور اسلام کے معاشرتی اور اخلاقی نظام کی چولیں تک ہل جائیں گی۔

جہاں تک مستفسر صاحب کے سوالات کا تعلق تھا تو ان کا جواب ہو چکا۔ اب ایک اور بات جس کی طرف مستفسر صاحب نے توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ عورت کے جرثومے بذریعہ معمولی آپریشن حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ غیر فطری طریق ہے۔ مرد کے جرثومے جلق یا عزل کے ذریعے حاصل کئے جاتے ہیں، یہ بھی غیر فطری طریق ہے۔ پھر مرد اور عورت کا ملا ہوا نطفہ 12 ہفتے بعد جو رحمِ مادر میں بذریعہ انجکشن داخل کیا جاتا ہے تو یہ بھی غیر فطری طریق ہے۔ ایسے تمام غیر فطری طریقوں کی طرف توجہ مبذول کرانے سے مستفسر صاحب کا رجحان یوں معلوم ہوتا ہے کہا ایسے طریق کار کو حرام ہی قرار دیا جانا چاہئے۔ اس بات کی چند مثالوں کے ذریعے سوال نمبر 2 کے تحت وضاحت کی جا چکی ہے کہ محض طریق کار یا طریق علاج کا غیر فطری ہونا اس کو حرام قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اور اس کا اظہار ہمارے فقہائے کرام کی اس قسم کی بحثون سے بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی عورت کسی بھی طریقے سے اپنے خاوند کا نطفہ اپنے رحم میں داخل کر لے تو اس صورت میں خاوند سے نسب ثابت ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی کنیز اپنے آقا کے نطفے کو رحم میں داخل کر لیتی ہے اور حمل کے بعد بچہ پیدا ہو جاتا ہے، تو اس کا نسب آقا سے چلے گا اور وہ "ام الولد" قرار پائے گی، اگرچہ ملاپ کا فطری طریق صرف زوجین کا جنسی و جسمانی اتصال ہے۔

دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مستفسر صاحب نے اس غیر فطری تخم ریزی کی صرف دو قسمیں بیان کی ہیں۔ جبکہ اس کی اور بھی کئی قسمیں ہیں۔ اور اس کے طریق کار بھی الگ الگ ہیں۔ ایک طریق تو داخلی ہے، یعنی پچکاری کے ذریعہ مرد کے نطفہ کو عورت کے رحم میں داخل کرنا (Artificial Insemination) اور دوسرا خارجی، یعنی زوجین کے جرثوموں کا ٹیسٹ ٹیوب میں ملاپ کرنا، جسے (In vitro ertilisation) کہتے ہیں۔ مستفسر صاحب نے جو سوالات لکھے ہیں وہ اسی طریق کار سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب ان دونوں طریقوں کو اور مختلف صورتوں کو ملانے سے بہت سی اقسام بن جاتی ہیں۔ مثلا:

1۔ کسی بیماری یا عارضہ کی وجہ سے زوجین مباشرت صحیح طور پر کر ہی نہیں سکتے۔ یا بیوی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ تو مرد کا نطفہ بذریعہ پچکاری یا انجکشن (بطریقِ اول) عورت کے رحم میں داخل کر دیا جائے۔ یہ صورت جائز اور درست ہے۔ اس سے نہ نسب میں فرق پڑتا ہے نہ وراثت کے احکام متاثر ہوتے ہیں۔

2۔ اگر کسی وجہ سے مندرجہ بالا طریق ممکن نہ ہو تو طریق نمبر 2 یعنی ٹیسٹ ٹیوب والا طریق اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ بھی جائز درست ہے۔ بشرطیکہ جرثومے زوجین کے اپنے ہوں۔ اور اس کی وضاحت سوال نمبر 4 کے تحت آ چکی ہے۔

3۔ ایک مرد کی دو یا دو سے زائد بیویاں ہیں۔ جن میں سے کوئی ایک بانجھ ہے۔ اس بانجھ عورت کا بیضہ حاصل کر کے ٹیسٹ ٹیوب میں مرد کا نطفہ شامل کر کے کسی تندرست بیوی کے رحم میں یہ نطفہ امشاج رکھ دیا جائے۔ یا اس کے برعکس یعنی اگر بانجھ عورت کے بیضہ یعنی جرثومہ میں نقص ہے تو وہ کسی دوسری بیوی کا لے کر یہی طریق کار استعمال کر کے بانجھ عورت کے رحم میں رکھ دیا جائے۔ اس طریق کار میں کچھ قباحت نہیں۔ اس کا نسب تو بہرحال باپ سے ہی چلے گا۔ لیکن وراثت کا تعلق اس ماں سے ہو گا جس نے اسے جنا ہے۔

ان تین صورتوں کے علاوہ باقی جتنی بھی شکلیں بنتی ہیں (اور وہ بہت سی بن جاتی ہیں) سب قطعی طور پر حرام ہیں۔ مثلا عورت تو تندرست ہے مگر مرد بیمار ہے۔ اب وہ اپنے خاوند کی مرضی سے اپنا بیضہ دیتی اور ٹیوب میں کسی غیر مرد کا نطفہ ملاپ کروا کر اس کو اپنے رحم میں رکھ لیتی ہے، یا کسی غیر مرد کا نطفہ پچکاری کے ذریعہ یا کسی دوسری غیر فطری ذریعہ سے اپنے رحم میں ڈال یا ڈلوا لیتی ہے۔ تو یہ سب صورتیں حرام ہیں۔

اسی طرح اگر کوئی عورت اپنا رحم عاریۃ یا معاوضۃ دینے پر آمادہ ہو جائے۔ تو تخم ریزی اور خواہشات کی تکمیل کی بیسیوں شکلیں نکل آتی ہیں۔ جو سب حرام ہیں۔ اگر اس قسم کی حرام کاری کی ایک دفعہ راہ کھل گئی تو یہ اتھاہ گہرائیوں تک پہنچ کر ہی دم لے گی۔ جس کی تباہ کاریوں اور ہولناک نتائج کا ہم سرِ دست تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لہذا حکومت کو چاہئے کہ ایسی تمام ناجائز صورتوں کو قانونا بند کر دے۔ رہی جائز صورتیں تو ان کا استعمال بھی صرف مجبوری کی صورتوں میں اور نہایت محتاط طریقہ سے ہونا چاہئے۔ ورنہ جائز صورتوں کے آزادانہ استعمال سے بھی یہ خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کہ اس طرح آہستہ آہستہ ناجائز صورتوں کی بھی کہیں راہ نہ کھل جائے۔هذا ماعندى واالله اعلم بالصواب

 

حاشیہ

1. کہا جا سکتا ہے کہ اگر محض جرثومے کی بناء پر مرد کو والد کہا جا سکتا ہے تو اسی بناء پر عورت کو والدہ کیوں نہیں کہا جا سکتا؟۔۔۔بالفاظِ دیگر اگر لغوی معنی کا اعتبار کیا جائے تو اس لحاظ سے تو ہم کو بھی والد نہیں کہہ سکتے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ازروئے لغت مرد فی الواقعہ جننے والا یا والد نہیں ہوتا۔اسے شوہر یا صاحب نطفہ ہونے کی حیثیت سے ہی والد کہا جاتا ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ لیکن عورت کی جسمانی ساخت ہی چونکہ لڑکا جننے کے لیے بنائی گئی ہے۔ لہذا اس کی طرف ولادت کی نسبت حقیقی ہوتی ہے۔ اس کی طرف مجازی نسبت درست نہیں ہو گی۔

2. اسی سلسلہ کے ایک فتویٰ میں شیخ الازہر نے اسے زنا قرار دیا ہے اور اسی بناء پر بعض علماء نے اس پر حد جاری کرنے کا فتوٰی دیا ہے، جو درست نہیں۔کیونکہ زنا کی تعریف صرف ادخال و استدخال نطفہ نہیں ہے، بلکہ جنسی ملاپ وغیرہ بھی ضروری ہے۔

3. رابطہ عالمِ اسلام مکہ مکرمہ میں مجمع فقہ اسلامی نے بھی اپنے متعدد اجلاسوں میں غوروفکر کر کے متذکرہ بالا تین صورتوں کے جواز کا میلان دیا ہے۔ تاہم اسی اجلاس میں سعودی عرب کے متدین اور محتاط علماء نے "جواز" کی بجائے "توقف" کا رویہ اختیار کیا ہے، جس میں سعودی عرب کے مفتی اعظم سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز بھی ہیں۔ متذکرہ بالا تینوں صورتوں میں بھی آراء مختلف ہیں۔ لہذا ایسی گنجائش ضروری علاج ہی کی بناء پر نکالی جا سکتی ہے۔ چنانچہ تیسری صورت جس میں ایک مرد کی دو بیویوں کا باہمی ایسا معاملہ کہ ایک سے نطفہ امشاج دوسرے کے رحم میں پرورش پائے، بے جواز نظر آتا ہے، جبکہ بچہ پھر بھی اسی کا ہو گا جس نے جنم دیا۔ یہ علاج نہیں بلکہ حصولِ اولاد کی خواہش ہے جو پھر بھی پوری نہ ہو سکی۔ (مدیر)

4. ہندوؤں میں ایسی صورتِ حال کا حل ان کا مشہور مسئلہ "نیوگ" ہے۔ نیوگ یہ ہوتا ہے، کہ ایسا بیمار خاوند اپنی بیوی کو کسی مندر کے ایسے پروہت کے پاس لے جاتا ہے جس کی اسی غرض کے لیے تربیت کی جاتی ہے۔ یہ میاں بیوی اس پروہت کو نذرانہ گزارتے ہیں۔ پھر میاں اپنی بیوی کو اس کے پاس چھوڑ جاتا ہے، تاکہ وہ پروہت اس عورت سے ہمبستری کرے۔ اس طرح عورت کے ہاں جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ نسبی لحاظ سے بھی میاں کا بچہ ہی متصور ہوتا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے۔ جیسے بھینسوں کی بہتر نسل کشی کے لیے سانڈ پالے جاتے ہیں۔ پھر جس طرح سانڈ کا مالک بھینس سے ملاپ کی اجرت وصول کرتا ہے ۔ بعض جاہل صوفیاء میں "نوراتا" کا تصور یہیں سے آیا ہے کہ اسی غرض سے نوراتوں کے لیے بیوی درویش کے پاس چھوڑ دی جاتی ہے، جو واضح زنا ہونے کے باوصف نذرانہ کے نام پر صریح حرام کمائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے موجب تو ایسی کمائی جانوروں میں بھی منع ہے۔ اسے کسب الفحل کہتے ہیں یعنی نر سے جفتی کرانے کی کمائی۔

5. اس کے برعکس اسلام میں ایسی صورت حال کا حل یہ ہے کہ عورت اگر ایسے بیمار مرد کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے تو فبہا، ورنہ مرد کو چاہئے کہ اسے طلاق دے دے اور اگر مرد طلاق نہیں دیتا، تو عورت بذریعہ عدالت طلاق لے سکتی ہے۔ بعد ازاں وہ کسی تندرست مرد سے شادی کر لے۔