روزنامہ "جنگ"۔۔۔لاہور نے اپنی 18 ستمبر 1987ء کی اشاعت میں ایک خبر شائع کی ہے۔ جس کا جلی عنوان یوں ہے:
"قرآن پاک کی غلط تفسیر پر سزا دی جائے گی۔۔۔ریکارڈنگ میں غلط تلفظ بھی جرم ہو گا۔ قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر ترمیمی بِل کی منظوری دے دی۔"
جبکہ متن میں لکھا ہے کہ:
"آج قومی اسمبلی نے قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کی غلطیاں ختم کے سلسلے میں ترمیمی بل کی متفقہ طور پر منظوری دی۔ مذہبی امور کے وفاقی وزیر حاجی سیف اللہ خاں، جنہوں نے یہ بل پیش کیا، نے کہا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ قرآن پاک کی سمعی و بصری کیسٹوں کی ریکارڈنگ میں کسی قسم کی غلطی نہ ہو اور یہ بل وزیراعظم کی ہدایت پر ایوان میں پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس بارے میں 1973ء کے ایکٹ کا تعلق قرآن پاک کی غلطیوں اور طباعت سے تھا، اس لئے یہ ترمیمی بل ضروری تھا۔ بل کے تحت ان لوگوں کو سخت سزا دی جائے گی جو طباعت کی غلطیوں کے علاوہ ریکارڈنگ میں قرآن پاک کے غلط تلفظ اور اس کی (غلط) تفسیر کے ذمہ دار ہوں گے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں موجودہ حکومت سے یہ شکایت نہیں کہ وہ خوش کن اعلانات کرنے میں بخل سے کام لیتی ہے، بلکہ ہمیں شکایت یہ ہے کہ وہ محض اعلانات کرتی ہے، بغیر سوچے سمجھے کرتی ہے، اور توقع سے کہ جوں جوں الیکشن قریب آتے جائیں گے، ان اعلانات کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔۔۔چونکہ جمہوریت کی گاڑی پُر فریب وعدوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتی اور یہ اعلانات کئے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ الیکشن جیتا جا سکے، اس لئے ان پر عملدرآمد چنداں ضروری نہیں ہوتا اور اس لحاظ سے یہ اعلانات حکومت، نیز سیاستدان کی مجبوری بھی ہوتے ہیں۔۔۔لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ان جھوٹے وعدوں میں اسلام اور قرآن کو بھی خواہ مخواہ گھسیٹ لیا جاتا ہے۔۔۔قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک اس ملک کا یہی المیہ رہا ہے کہ یہاں اسلام کا نام تو بہت لیا گیا لیکن اسلام سے کوئی مخلص بھی ہو، ایں خیال است و محال است و جنوں۔۔۔اس معاملہ میں پاکستانی حکام اور سیاستدان اس قدر دلیر واقع ہوئے ہیں کہ نہ تو انہیں خدا او رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم کبھی دامن گیر ہوئی اور نہ عوام سے کئے گئے وعدوں ہی کا کچھ پاس انہیں ان کے ایفا پر آمادی کر سکا۔۔۔قرآن پاک کی طباعت و اشاعت اور تفسیر سے متعلق مذکورہ بالا اعلان بھی الیکشن سٹنٹ ہی معلوم ہوتا ہے۔ اور اگر حکومت کی خلوصِ نیتی پر شبہ نہ کیا جائے، جس کا بہ ظاہر کوئی جواز موجود نہیں ہے، تو بھی یہ اعلان بغیر سوچے سمجھے کر دیا گیا ہے۔ کیوں کہ جہاں تک قرآن مجید کی طباعت و اشاعت میں صحت کے اہتمام کا تعلق ہے، تو یہ کوئی ایسا لاینحل مسئلہ نہیں ہے۔ قرآن مجید کے کسی بھی صحیح نسخہ کو سامنے رکھ کر گوہرِ مقصود حاصل ہو سکتا ہے۔ بلکہ بعض پبلشنگ کمپنیاں یہ اہتمام نجی سطح پر پہلے بھی کیے ہوئے ہیں۔ لیکن جہاں تک قرآن مجید کی غلط تفسیر پر سزا دینے کا تعلق ہے، تو اس پر "چھوٹا منہ بڑی بات" والی مثال ہی صادق آئے گی۔۔۔سوال یہ ہے کہ حکومت کی نظر میں صحیح تفسیر قرآن کا معیار کیا ہے اور یہ فیصلہ کون کرے گا کہ قرآن مجید کی فلاں تفسیر صحیح ہے اور فلاں غلط؟ ۔۔۔پھر آخر کس بناء پر یہ سزا دی جائے گی اور یہ سزا کون دے گا؟۔۔۔کیا عجب کہ موجودہ حکومت، جو غلط تفسیر قرآن پر سزا دینے کا اعلان کر رہی ہے، خود ہی اس سلسلہ میں غلطی کی مرتکب ہو کر صحیح تفسیر کو غلط قرار دیدے، اس صورت میں مستوجبِ سزا کون ہو گا؟ چنانچہ بات پھر پھر کر وہیں آ جاتی ہے کہ حکومت نے اولا تو اس بارے میں کوئی معیار قائم نہیں کیا، اور اگر دوسرے مرحلے میں (جس کی نوبت تجربات کی روشنی میں یقینا نہیں آئے گی) وہ کوئی معیار قائم بھی کر دیتی ہے، تو خود اس معیار کی صحت و سقم کی دلیل کیا ہو گی؟۔۔۔یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کو ذہن میں رکھے بغیر اس بارے میں سوچا تک نہیں جا سکتا۔۔۔پھر نہ جانے ان لوگوں نے سبھی کو احمق کیوں تصور کر لیا ہے؟
﴿يُخـٰدِعونَ اللَّـهَ وَالَّذينَ ءامَنوا وَما يَخدَعونَ إِلّا أَنفُسَهُم وَما يَشعُرونَ ﴿٩﴾... سورةالبقرة
قرآن مجید اللہ رب العزت کا وہ مقدس کلام ہے کہ جسے ﴿هُدًى لِلْمُتَّقِينَ﴾ ہونے کا شرف حاصل ہے۔۔۔یہ وہ نسخہ کیمیا ہے کہ خود خالقِ کائنات نے اسے﴿وَشِفاءٌ لِما فِى الصُّدورِ﴾کے لفظوں سے یاد فرمایا ہے﴿وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا﴾ اس کا وہ امتیازی وصف ہے کہ جس کی بدولت اس کے ماننے والے علاقہ، قوم، وطن اور رنگ و نسل کے اختلافات کے باوجود ایک اور صرف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے تھے۔۔۔جاہلی عصبیتیں ملیامیٹ ہوئیں، لسانی، طبقاتی منافرتیں پامال ہوئیں، اور فرقہ واریت و گروہ بندیوں کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر دنیائے انسانیت کو صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے نیز اتفاق و اتحاد، اخوت و محبت اور وحدت و مؤدت کا وہ پیغام ملا کہ جس کے عملی نقوش آج بھی اُمتِ مسلمہ کے ایمان کو جِلا دیتے اور اعدائے اسلام کے ذہنوں کو کچوکے لگاتے ہیں۔۔۔اٹل حقائق اور ابدی سچائیوں پر مشتمل یہ وہ مبارک کلام ہے کہ جس نے یہ اعلان فرمایا:
﴿وَاذكُروا نِعمَتَ اللَّـهِ عَلَيكُم إِذ كُنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخوٰنًا ...﴿١٠٣﴾... سورة آل عمران
تو پڑھنے سننے والوں میں سے کسی ایک کو بھی اس کے جھٹلانے کی جراءت نہ ہوئی۔۔۔یقینا یہ تاریخ انسانی کا ایک حیرت انگیز انقلاب اور عظیم ترین معجزہ تھا۔۔۔یہ معجزہ کیونکر رونما ہوا؟۔۔۔ظاہر ہے کہ قرآن مجید کو اپنی عقل سے سمجھنے کی بناء پر نہیں۔۔اسے تاویلوں کی سان پر چڑھانے سے نہیں۔۔۔کسی وضعی دستور کو اس پر حاکم بنانے سے نہیں۔۔۔کسی اسمبلی میں اس پر بحث کرنے سے نہیں۔۔۔اس کے نفاذ کے لارے لپے سے نہیں۔۔۔اس کے احکام کو زمانے کے تقاضوں کے مطابق ڈھال کر نہیں۔۔۔اور کسی جاہل کی ذہنی اپج "مرکز ملت" کی تلاش کر کے اسے خدا اور رسول کا مقام دے کر یہ انقلاب رونما نہیں ہوا۔ ہاں بلکہ یہ معجزہ، یہ انقلاب ایمان و عمل کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے خدا کے اس کلام کو، خدا ہی کے اس رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔کہ جس پر یہ کلام نازل ہوا تھا۔۔۔کی زبانِ نبوت ترجمان سے سمجھ کر، اسی کے اسوہ حسنہ کو بطورِ نمونہ اپنا کر، اسی کی سنت کو حرزِ جان بنا کر اور اسی کے قول و فعل اور تقریر کو قرآن مجید کی تفسیر کی صحت کا معیار قرار دیتے ہوئے، زندگی کے ہر ہر شعبہ حیات میں اس کی تعلیمات کو جاری و ساری کر دینے سے رونما ہوا۔۔۔کہ قرآن مجید کی صداقتوں کا امین تو وہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔۔۔«كان خلقه القرآن »کی صفت سے موصوف بھی وہی ہے۔۔۔"﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ﴾" کی کامل تفسیر بھی وہی ہے۔۔۔ "﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ﴾" کا مہيط بھی وہی ہے۔۔۔اور "﴿وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾" کے منصب کا تاجدار بھی وہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔۔۔ لہذا اسی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو قرآن مجید کی ابدی، دائمی، متعین اور غیر متبدل تعبیر و تفسیر کی حیثیت حاصل ہے۔۔۔یہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تفسیر کی صحت و سقم جانچنے کا واحد معیار ہے، اور جس سے ذرہ برابر انحراف کی سزا اس دنیا میں گمراہی اور آخرت میں جہنم ہے:
﴿فَليَحذَرِ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِهِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٦٣﴾... سورالنور
جو لوگ ان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈر جانا چاہئے کہ (مبادا) فتنے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیں یا ان پر درد ناک عذاب نازل ہو"
نیز فرمایا:
﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَت مَصيرًا ﴿١١٥﴾... سورةالنساء
"اور جو شخص ہدایت کی تبیین کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا کسی اور راہ پر چلے، تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر اس نے منہ اٹھا لیا ہے اور (یہی نہیں بلکہ) اسے ہم (روزِ قیامت) جہنم میں بھی داخل کریں گے جو (بہت ہی) بری جگہ ہے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ جب اس سنت سے منہ موڑ لیا گیا، قرآن مجید کو اس سے الگ کر دیا گیا، تو گویا ڈوری ٹوٹ گئی اور موتی بکھر کر رہ گئے۔۔۔پھر فتنے نمودار ہوئے، فرقے وجود میں آئے اور گروہ بندیاں ظہور پذیر ہوئیں۔۔۔انہی کو پالنے کے لیے قرآن مجید کی غلط من مانی تفسیریں ہوئیں اور انہی کی تعمیر کے لیے آیاتِ الہی کو بطور اینٹیں اور گارا استعمال کیا گیا۔۔۔"محکمات" کی تاویل کی ضرورت پیش آئی اور "متشابہات" سے فتنوں کی تلاش ہوئی۔۔۔قرآن مجید کو سستی خواہشات کی بھینٹ چڑھایا گیا۔۔۔نتیجہ یہ نکلا کہ:
رافضیہ کو اس میں "امامت" نظر آئی، بُغضِ صحابہ نظر آیا اور کھیعص کے "ک" سے کربلا "ھ" سے ہلاکت "ی" سے یزید "ع" سے عطش" اور "ص" سے صبر مراد لینے کی جراءت ہوئی۔ خوارج کو اس میں بغضِ علی رضی اللہ عنہ نظر آیا۔۔۔سبائیوں کو اس میں سبائیت نظر آئی۔۔۔معتزلہ کو اس میں اعتزال نظر آیا۔۔۔بہائیوں کو اس میں بہائیت نظر آئی۔۔۔قادیانیوں کو اس میں قادیانیت ملی اور ختمِ نبوت کے بجائے نبوت کے تسلسل اور اجراء کا عقیدہ نظر آیا۔۔۔پرویزیوں کو اس میں پرویزیت نظر آئی، قرآن کے نام پر استخفافِ حدیث کی جراءت ہوئی اور "مرکزِ ملت" کی گمراہ کن اصطلاح گھڑنے کی سند ملی۔۔۔اہل قرآن کو اس میں چکڑالویت نظر آئی، نمازیں صرف تین ملیں، ہر نماز کی رکعتیں صرف دو دستیاب ہوئیں، ہر رکعت میں سجدہ صرف ایک نصیب ہوا، مگر احادیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے کی جراءت کثیر ملی۔۔۔قبوریوں کو اس میں شرک، توحید نظر آیا، اہل توحید کافر اور نہ جانے کیا کیا نظر آئے، بدعات کی سند ملی۔۔۔حنفیوں، شافعیوں، مالکیوں، حنبلیوں کو اس میں تقلید ملی۔۔۔سیاستدانوں کو اس میں سیاسی جماعتوں کے وجود کا جواز ملا، اسمبلیاں، جوڑ توڑ، حزبِ اختلاف، حزب اقتدار اور جمہوریت کی شعبدہ گری ملی۔۔۔دانشوروں کو اس میں تجدد ملا اور قرآن مجید کو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا نعرہ ملا۔۔۔مغرب زدگان کو اس میں مغربیت ملی، عورتوں کو قرآن میں بے پردہ گھومنے کا جواز نظر آیا اور اخبارات کو تصویریں ملیں۔۔۔حکمرانوں کو قرآن میں، قرآن ہی کے نام پر جھوٹے وعدے کرنے، عوام کو چکمے دینے، مضحکہ خیز اعلانات کرنے کا جواز نظر آیا اور قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھانا، درباروں میں سلامی دنیا اور مزاروں کو منوں عرقِ گلاب سے غسل دینا عین اسلام دکھائی دیا۔۔۔ذرا سوچیے تو سہی، کیا یہ اسی قرآن مجید کی تصویر ہے کہ جس کے بارے میں یہ اعلان ہوا:
﴿الحَمدُ لِلَّـهِ الَّذى أَنزَلَ عَلىٰ عَبدِهِ الكِتـٰبَ وَلَم يَجعَل لَهُ عِوَجا ﴿١﴾... سورة الكهف
۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔ہاں مگر یہ قرآنی الفاظ ﴿ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا﴾ کی کامل و اکمل تصویر ہے۔۔۔ ﴿وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ﴾ کی وعید کو نظرانداز کرنے کا عبرتناک انجام ہے۔۔۔اور ﴿نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى﴾ کی وہ بھیانک تصویر ہے کہ جس نے ہماری زندگی کو اس دنیا ہی میں جہنم ۔۔۔اور ایک خدا، ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک قرآن کے ماننے والوں کو اغیار کی نظروں میں مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید سے الگ کر دینے کا یہ لازمی نتیجہ تھا کہ ارضِ پاکستان فرقہ واریت اور نت نئے فتنوں کی آماجگاہ بن جاتی۔۔۔اور یہی ہوا بھی ہے۔۔۔قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک اس ملک میں قرآن مجید پر وہ ستم ڈھائے گئے کہ قرآن کے نام پر جس نے جو جی چاہا پیش کیا، لیکن کسی سے کسی نے یہ نہ پوچھا کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی موجودہ، بلکہ اس کی پیش رو مارشل لاء حکومت، قرآن مجید کی دستوری حیثیت کا اعلان کر کے، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی واحد متعین تعبیر قرار دیتے ہوئے جملہ امورِ حکومت کتاب و سنت کی روشنی میں انجام دینے کا اہتمام کرتی اور عوام کو بھی اس کا پابند بناتی، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے زیادہ مذاق اسی دورِ حکومت میں اڑایا گیا۔ چنانچہ قانونِ شہادت، قانونِ قصاص و دیت وغیرہ کے خلاف جلسے جلوس اسی حکومت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔۔۔حتیٰ کہ چند روز قبل ایک شیعہ عالم نے ٹی وی پر خود قرآن مجید ہی کو تحریف شدہ قرار دیا اور احتجاج کے باوجود آج تک حکومت کو اس کا نوٹس لینے کی توفیق میسر نہیں ہوئی۔۔۔ان حالات میں قرآن مجید کی تفسیر وغیرہ سے متعلق مذکورہ بالا اعلان ایک بہلاوا ہی معلوم ہوتا ہے۔۔۔تاہم اگر حسنِ ظنی سے کام لیا جائے اور حکومت اس اعلان میں واقعی مخلص ہے۔۔۔صبح کا بھولا ہوا شام کو گھر آ ہی گیا ہے، تو ابھی پانی سر سے نہیں گزرا۔۔۔بسم اللہ کیجئے، قرآن مجید کی ہر وہ تفسیر، جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں غلط ہے، اسے کالعدم قرار دیجئے اور متعلقہ مفسرِ قرآن کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر کے عبرتناک سزا دیجئے کہ:
حوالہ جات
1. "متقیوں کے لئے ہدایت" (البقرۃ: 2)
2. دل کی بیماریوں کے لیے شفاء ہے۔ یونس
3." اور (اللہ نے) اس میں کسی طرح کی کجی نہیں رکھی" (الکہف: 1)
4. "اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے۔"
5. حضور کا خلق خود قرآن مجید میں ہے
6. "( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم)، ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف یہ ذکر نازل فرمایا ہے تاکہ آپ اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں" (النحل: 44)
7. تمام تعریفیں اللہ (رب العزت) کو لائق ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی۔" (الکہف: 1)
8. "یہ (رسول صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں (مومنوں کو) کتاب و حکمت سکھاتے ہیں۔" (آل عمران: 164)