رُوح، عذابِ قبر اور سماعِ موتیٰ
یہ تو خیر مستفسرین کے سوالوں کے جواب تھے۔ اب زیرِ بحث حدیث کی طرف آئیے۔ جو یہ کہتی ہے کہ مردہ اگر سلام کہنے والے کو پہچانتا ہے تو جوابا س پر سلام ہی کہتا ہے اور اگر نہیں پہچانتا تو صرف اسے لوٹا دیتا ہے اور اسی طرح بعض دوسری روایتوں میں یوں بھی ہے کہ مردہ اپنے واقف کے آنے سے خوش ہوتا ہے اور اس کے بار بار آنے جانے سے مانوس ہو جاتا ہے۔
جعلی حدیث کے نتائج
اب ایسی احادیث سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
(1)قبرستان میں صرف مردے ہی نہیں بلکہ روحیں بھی ہر وقت موجود رہتی ہیں اور وہ ان کے بدنوں میں ہوتی ہیں (علیین یا سجین میں نہیں ہوتیں)
(2) ان مردوں میں شعور بھی ہوتا ہے اور شعور کا تعلق روح سے ہے بدن سے نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مردوں کے اجسام میں روحیں موجود ہوتی ہیں۔ یعنی وہ قبروں میں زندہ ہوتے ہیں۔
(3) وہ سلام وغیرہ سنتے ہی نہیں بلکہ اس کا جواب بھی دیتے ہیں اور چونکہ یہ سوال و جواب قبر پر ہوتا ہے۔ لہذا اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ قبروں میں مردے نہیں بلکہ زندہ اور باشعور انسان تشریف رکھتے ہیں۔
اور یہی وہ بنیاد ہے جس کی طبقہ صوفیاء کو ضرورت تھی۔ لیکن قرآن ان کی ایک ایک بات کی پُر زور تردید کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ دور موت کا دور ہے زندگی کا نہیں۔ قبروں میں پڑے ہوئے لوگ مردہ ہیں، نہ ان میں شعور ہے، نہ یہ سن سکتے ہیں نہ جواب دے سکتے ہیں۔ اب دو ہی راستے ہیں۔ یا تو ان اماموں اور بزرگوں کی روایات اور اقوال اور مکاشفات کو مان لیجئے اور قرآن سے دستبردار ہو جائیے۔ ورنہ ان سب خرافات سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
اللہ تعالیٰ نے جو استثنائی صورت بیان فرمائی کہ "اللہ اگر چاہے تو مُردوں کو سنا سکتا ہے۔" اس استثناء سے اس قدر گنجائش نکالنا کہ قرآنی تعلیمات کے بالکل برعکس ہو جائے۔ آخر کہاں تک گوارا کیا جا سکتا ہے؟
کتاب الروح اور سماعِ موتیٰ
اس کتاب کا آغاز سماعِ موتیٰ پر بحث سے ہوتا ہے۔ لیکن قرآب کی کوئی آیت درج نہیں۔ آغازِ کتاب ابن عبدالبر کی اس روایت سے ہوتا ہے جسے ہم نے موضوع حدیث نمبر 2 کے تحت درج کیا ہے۔ اس کے بعد قلبِ بدر والی حدیث درج ضرور ہے۔ لیکن اس پر حضرت قتادہ یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا تبصرہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ بعد از السلام عليكم دار قوم مؤمنين کی روایت درج ہے اور پھر ابن ابی الدنیا کی روایات مذکور ہیں۔ جس کے متعلق کتاب الروح کے مترجم محمد داؤد، راغب رحمانی پہلے ہی مطلع کر لیتے ہیں کہ ابن ابی الدنیا کی روایتیں بلا تحقیق کے ناقابلِ قبول ہیں؟ یہ پانچ روایات درج کرنے کے بعد بزرگوں کے اقوال اور خوابوں کے واقعات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے آپ خود ہی اندازہ فرما لیجئے کہ کتاب و سنت کے معیار پر یہ کس قدر تحقیق کتاب کہلائیے جانے کی مستحق ہے۔
امام ابوحنیفہ
حیرت کی بات ہے کہ سماع موتیٰ اور اسی طرح سلوک و تصوف، حنفیوں (اور بالخصوص بریلوی طبقہ) میں اتنا مقبول کیوں ہو گیا جبکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سماعِ موتیٰ کے سخت مخالف تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق مشہور واقعہ ہے کہ آپ نے کسی شخص کو ایک قبر پر صاحبِ قبر کو پکارتے دیکھا تو کہنے لگے:
"تجھ پر پھٹکار ہو اور تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، تو ایسے اجساد سے بات کرتا ہے جو نہ آواز سن سکتے ہیں نہ جواب دے سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ اختیار رکھتے ہیں۔" پھر قرآن کی یہ آیت پڑھی:﴿وَما أَنتَ بِمُسمِعٍ مَن فِى القُبورِ ﴿٢٢﴾... سورة فاطر
بایں ہمہ سماعِ موتیٰ کی بنیاد پر پھیلنے والے دوسرے شرکیہ عقائد کی سرپرستی کا حق جس قدر فرقہ بریلویہ نے ادا کیا ہے، کسی نے کم ہی کیا ہو گا۔ دوسرے نمبر پر دیوبندی حضرات ہیں اور ہمیں افسوس ہے کہ اہل حدیث بھی اس میدان میں پیچھے نہیں رہے۔ حصہ رسدی انہوں نے بھی یہ حق ادا کر ہی دیا۔
علامہ وحید الزمان
متاخرین میں ایک عالم شخصیت علامہ وحید الزمان رحمۃ اللہ علیہ ہیں، یہ پہلے شیعہ تھے، پھر حنفی ہوئے، پھر اہل حدیث ہوئے۔ تاہم کچھ نہ کچھ سابقہ اثرات طبیعت میں باقی رہ ہی گئے۔ مثلا آپ آخر عمر تک فضیلتِ علی رضی اللہ عنہ کے قائل رہے اور جہاں کہیں یزید کا نام آیا تو یزید پلید لکھا۔ آپ جب حنفی تھے تو سماعِ موتیٰ کے قائل تھے۔ اہل حدیث ہوئے تو بھی قائل ہی رہے۔ پھر اس سماع موتیٰ کے مسئلہ میں آپ کو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ سے تائید بھی مل گئی۔ تو اس سماعِ موتیٰ کے جواز کا خوب پرچار کیا۔ آپ نے قرآن کی تفسیر موضح القرآن بھی لکھی۔ صحاح ستہ کا اردو میں ترجمہ بھی کیا، لغات الحدیث بھی لکھی۔ تو جہاں کہیں آپ کو اس مسئلہ کو زیر بحث لانے کا موقع ملتا رہا آپ اسی طرح کا انداز اختیار کرتے رہے جیسا کہ ہم کتاب الروح کے ص1 سے متعلق پیش کر چکے ہیں۔ ہم یہاں لغات الحدیث سے سماعِ موتیٰ کے متعلق آپ کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس مسئلہ میں آپ کا طرزِ استدلال کسی قدر سطحی اور جانبدارانہ قسم کا ہے۔ "سمع" کے تحت فرماتے ہیں:
﴿إِنَّكَ لا تُسمِعُ المَوتىٰ﴾
"تو مردوں کو (یعنی کافروں کو) اسلام نہیں قبول کروا سکتا۔"
"اس آیت سے سماعِ موتیٰ کی نفی نہیں نکلتی۔ جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خیال کیا، کیونکہ سماع سے یہاں سماعِ اجابت مراد ہے۔ جیسے ﴿إِنَّكَ لا تُسمِعُ المَوتىٰ﴾
میں اور متعدد احادیث سے سماعِ موتیٰ ثابت ہے جیسے اوپر گزر چکا اور اہل حدیث کے بڑے بڑے امام جیسے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اسی کے قائل ہیں۔ صرف حنفیہ اور معتزلہ نے اس کا انکار کیا۔ مجمع البحار میں ہے کہ انك لاتسمع الموتى
)" کا معنی یہ ہے کہ "تو ان جاہلوں کو نہیں سمجھا سکتا جن کو اللہ تعالیٰ نے جاہل بنا دیا ہے۔" (لغات الحدیث ، ردیف ص163)
اس اقتباس پر تبصرہ کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں، کیونکہ علامہ صاحب کے ان دلائل کے متعلق ہم پہلے ہی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔
اللہ کا شکر ہے کہ اہل حدیث نہ کسی امام کا مقلد ہے اور نہ علامہ کا، وہ ان بزرگوں سے استفادہ تو کر سکتا ہے، مگر روشنی براہ راست کتاب و سنت سے حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے آمین
مولانا مرحوم نے سورۃ احقاف کی آیات نمبر 5-6 (جو ہم آیت نمبر 3 کے تحت درج کر چکے ہیں) کے تحت بڑا جامع اور بصیرت افروز حاشیہ لکھا ہے۔ جس میں قرآنی آیات کا صحیح مفہوم ، استثناء کی صحیح صورت، صحیح احادیث کا لب لباب سب کچھ آ جاتا ہے اور اکثر اشکال بھی دور ہو جاتے ہیں۔ ان کا یہ بیان درج ذیل ہے:
"یعنی ان پکارنے والوں کی آواز سرے سے پہنچتی ہی نہیں، نہ وہ خود اپنے کانوں سے سُن سکتے ہیں، نہ کسی ذریعہ سے ان تک یہ اطلاع پہنچتی ہے کہ دنیا میں انہیں کوئی پکار رہا ہے۔ اس ارشاد الہی کو تفصیلا یوں سمجھئے کہ دنیا بھر کے مشرکین، خدا کے سوا جن ہستیوں سے دعائیں مانگتے رہے ہیں۔ وہ تین اقسام پر منقسم ہیں، ایک بے روح اور بے عقل مخلوقات، دوسرے وہ بزرگ جو گزر چکے ہیں، تیسرے وہ گمراہ انسان جو خود بھی بگڑے ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی بگاڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ پہلی قسم کے معبودوں کا تو اپنے عابدوں کی دعاؤں سے بے خبر رہنا ظاہر ہی ہے۔ رہے دوسری قسم کے معبود، جو اللہ کے مقرب بندے تھے تو ان کے بے خبر رہنے کے دو وجوہ ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کے ہاں اس عالم میں ہیں، جہاں انسانی آوازیں براہ راست ان تک نہیں پہنچتیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی ان تک یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ جن لوگوں کو یہ بزرگ ساری عمر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا سکھلاتے رہے تھے۔ وہ اب الٹی آپ (اس بزرگ) سے دعائین مانگ رہے ہیں۔ اس لیے کہ اس اطلاع سے بڑھ کر ان کو صدمہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی اور اللہ اپنے ان نیک بندوں کی ارواح کو اذیت دینا ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اس کے بعد تیسری قسم کے معبودوں پر غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ ان کے بھی بے خبر رہنے کے دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ملزموں کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی حوالات (سجین) میں بند ہیں جہاں دنیا کی کوئی آواز نہیں پہنچتی۔ دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی انہیں یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ تمہارا مشن دنیا میں خوب کامیاب ہو رہا ہے اور لوگ تمہارے پیچھے تمہیں معبود بنائے بیٹھے ہیں۔ اس لیے کہ یہ خبریں ان کے لیے مسرت کا معجب ہوں گی اور خدا ان کو ہرگز خوش کرنا نہیں چاہتا۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو دنیا والوں کے سلام اور ان کی دعائے رحمت (جیسے قبر پر یا نماز میں) پہنچا دیتا ہے، کیونکہ یہ چیزیں ان کے لیے فرحت کا موجب ہیں۔
اسی طرح وہ مجرموں کو دنیا والوں کی لعنت اور پھٹکار اور زجر و توبیخ سے مطلع فرما دیتا ہے۔ جیسے جنگ بدر میں مارے جانے والے کفار کو ایک حدیث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توبیخ سنوا دی گئی۔ کیونکہ ان کے لیے یہ اذیت کا موجب ہے۔ لیکن کوئی ایسی بات جو صالحین کے لیے رنج کا موجب یا مجرمین کے لیے فرحت کا موجب ہو، ان تک نہیں پہنچائی جاتی۔ اس تشریح سے سماع ماتی کے مسئلے کی حقیقت بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔"
مسئلہ سماع موتی کی پشت پناہی
مندرجہ بالا تصریحات سے یہ نتیجہ نکالنا چنداں مشکل نہ ہو گا کہ قرآن اس مسئلہ کی پرزور تردید کرتا ہے۔ احادیث صحیحہ کو سامنے رکھ کر اگر فریقین کے دلائل کا موازنہ کیا جائے تو بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دلائل راجح معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود بعد کے ادوار میں امت کے ایک بڑے طبقہ نے سماع موتی کے مسئلہ کو درست سمجھا۔ یہ طبقہ دوسری صدی میں صلحا و زہاد کا طبقہ کہلاتا تھا۔ بعد میں گو وہ صوفیاء کہلانے لگا۔ اس طبقہ کا سارا کاروبار ہی سماع موتی کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہ مزارات یہ چلے کشیاں، یہ زیارات و مکاشفات، یہ حاجت روائیاں اور تصرفاتِ امور غرض جتنی اس طبقہ کو سماع موتی کے مسئلہ کی پشت پناہی اور حفاظت کی ضرورت ہے اور کسی مسئلہ کی نہیں۔ اگر قبر میں پڑے ہوئے بزرگ قبر پر بیٹھ کر مراقبہ کرنے والے بزرگ کی بات ہی نہ سن سکیں یا کسی مسائل کی یہ بزرگ درخواست سن ہی نہ سکیں تو آگے کام کیسے چل سکتا ہے؟ یہ طبقہ اس بات سے بے نیاز ہے کہ عام مردے سنتے ہیں یا نہیں؟ انہیں اس معاملہ سے کوئی غرض نہیں، انہیں اگر غرض ہے تو صرف یہ کہ ان کے بزرگ مردوں کو ضرور سننا چاہئے۔
اب دیکھئے صحابہ رضی اللہ عنھم میں اختلاف صرف اسی ایک مسئلہ سماع موتی کے مسئلہ پر ہی نہیں ہوا۔ اور بھی کئی مسائل میں ہوا ہے۔ مثلا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس بات کے قائل نہ تھے کہ اگر پانی نہ ملے تو جنبی شخص صرف تیمم سے بھی پاک ہو سکتا ہے اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں اپنا ذاتی واقعہ بھی پیش کیا اور کہا کہ "میں خود ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسفر تھا کہ جنبی ہو گیا۔ پانی نہ ملا تو مٹی میں لوٹ پوٹ لگائی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف اتنا کر لینا ہی کافی تھا۔ (یہ کہتے ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور اپنے چہرے مبارک اور ہاتھوں پر مسح کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے اس بیان کو تسلیم نہیں کیا اور کسی واضح ضعف کے سبب، جو ان کو اس روایت میں نظر آیا۔ ان کے نزدیک یہ روایت دلیل نہ ٹھہری۔
مگر دوسرے اختلافی مسائل کا یا تو بعد میں اختلاف ختم ہو گیا۔ جیسا کہ مندرجہ بالا جنسی کے تیمم کے درست ہونے کو بعد کے ادوار میں سب نے تسلیم کر لیا۔ یا اگر رہا تو اسی حد تک جس حد تک دور صحابہ رضی اللہ عنھم میں تھا۔ مثلا صبح کی نماز کی سنتیں اگر قضا ہو جائیں تو وہ نماز کے فورا بعد پڑھی جا سکتی ہیں۔ یا سورج نکلنے کے بعد ہی پڑھی جائیں؟ لیکن سماع موتی کا مسئلہ ایسا ہے کہ جو دور صحابہ رضی اللہ عنھم میں تو معمولی قسم کا اختلافی مسئلہ تھا مگر بعد کے ادوار میں یہ سنگین اور بنیادی قسم کا مسئلہ بن گیا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ ایک فرقہ کے وجود کا انحصار ہی سماع موتی کے اثبات پر تھا۔
پھر کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جو مُردوں ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی کوئی بات بھی نہیں کرتا۔ مثلا یہ بات کہ "مردے بولتے ہیں۔" احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جب مردہ نہلا کر کھاٹ پر رکھا جاتا ہے تو اگر وہ نیک ہو تو قدمونى قدمونى یعنی مجھے جلدی لے چلو، جلدی لے چلو، کہتا ہے اور اگر بد ہے تو کہتا ہے کہ "مجھے کہاں لے جا رہے ہو۔" وغیرہ، لیکن کبھی آپ نے سنا ہے کہ یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہو؟ اگر زیر بحث آتا ہے تو وہی مسئلہ جو قبر پرستی اور شرک کی بنیاد ہے جس سے ایک طبقہ کا کاروبار بھی وابستہ ہے اور معاش بھی۔ باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کی پرزور تردید فرمائی تھی، لوگوں نے اس کی راہ نکال ہی لی۔
یہ عرصہ بعث بعد الموت سے لے کر ابد تک مشتمل ہے۔ یہ دور مکمل اور مستقل زندگی ہے۔ روح کو جو جسم اس دور میں مہیا کیا جائے گا اس کی شکل و صورت وہی ہو گی جیسی اس دنیا میں تھی اور وہ سب لوگ خواہ جنتی ہوں یا دوزخی ایک دوسرے کو اسی وجہ سے پہنچانتے ہوں گے کہ ان کی شکلیں اور صورتیں بالکل وہی ہوں گی جو اس دنیا میں تھیں۔ البتہ بعض احادیث سے یہ ثابت ہے کہ اس دور میں جو جسم روح کو عطا کیا جائے گا۔ اس کا سائز اس جسم سے بہت بڑا ہو گا جو اسے دنیا میں دیا گیا تھا۔
اس دور کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ تمام بنی آدم اپنے اعمال کی بنیادوں پر گروہوں میں تقسیم ہوں گے۔ اس دور میں استثنائی صورت یہ ہے کہ دوزخی لوگ تو عذاب کی صورت میں ہر آن موت و حیات سے دوچار ہوتے رہیں گے، جبکہ جنتی لوگوں کے لیے کسی استثنائی صورت کا ذکر نہیں۔
اس دور میں جنتی لوگ اپنے رب کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ وہ اس دن اللہ تعالیٰ کو ایسے دیکھیں گے جیسے اس دنیا میں بدر کو دیکھ سکتے ہیں اور کوئی اڑ پن محسوس نہیں ہو گی۔ جیسا کہ ہم اپنے سابقہ مضمون میں بتلا چکے ہیں کہ ان احادیث کی روشنی میں نہ کہیں تناسخ کی گنجائش نکلتی ہے نہ روح اعظم یا روح کلی کی اور نہ ہی واصل باللہ، فنا فی اللہ، واصل بحق کی یا ایسے ہی کسی کی ذات میں اللہ کے حلول کرنے کی۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے روح کے یہ چاروں مراحل بیان کرنے کے بعد فرمایا ثم اليه راجعون آیت کے یہ آخری الفاظ ایسے تمام باطل نظریات کو رد کرنے کے لیے کافی ہیں اور اس اليه ترجعون کے ضابطہ الہی میں کوئی استثناء بھی نہیں ہے۔
ہم روح کے چاروں مراحل کی ترتیب، اور ان مراحل میں اگر کسی میں کچھ مستثنیات ہیں تو ان کا جائزہ ہم پیش کر چکے ہیں۔ اب ہم ایک ایسے استثناء کا ذکر کریں گے جو مرحلہ نمبر 3 کو سرے سے ہی حذف کر دیتا ہے۔
شہداء کی زندگی
روح کے اس تدریجی سفر میں شہد کی فضیلت یہ ہے کہ ان سے مرحلہ نمبر 3 حذف کر دیا گیا ہے۔ نہ ان کی قبر میں منکر نکیر کے ذریعہ جانچ ہوتی ہے اور نہ محض صبح و شام ان پر جنت کی طرف سے روزن کھلتا ہے۔ بلکہ وہ شہید ہوتے ہی سیدھے مرحلہ نمبر 4 میں یعنی جنت میں چلے جاتے ہیں۔ یہ فرق البتہ ضرور رہ جاتا ہے کہ جنت میں ان کو سبز پرندوں کا جسم عطا کیا جاتا ہے۔ حالانکہ مرحلہ نمبر 4 میں ارواح کو اسی شکل و صورت کے اجسام مہیا کئے جائیں گے جو مرحلہ نمبر 2 یعنی دنیوی زندگی میں تھے۔
اس سے یہ اندازہ لگانا بھی درست ہے کہ انبیاء جو شہداء بھہ ہوتے ہیں۔ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کی بھی قبر میں جانچ نہ ہو اور اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جن باتوں کی جانچ ہوتی ہے ان کے معلم تو وہ خود ہوتے ہیں، لہذا ان کی جانچ کیسے؟ ان کی ارواح بھی اعلیٰ علیین میں ہوتی ہیں۔ انبیاء علیھم السلام کی دوسری خصوصیات یہ ہیں (2) ان کے اجساد مٹی پر حرام ہیں اور (3) وہ عذابِ قبر کی آواز سن لیتے ہیں دوسرا کوئی نہیں سن سکتا۔
روحوں کی واپسی
عام ضابطہ الہی کے مطابق روح کا پچھلے مرحلہ کی طرف واپسی کا کوئی قانون نہیں۔ جو روحیں سجین میں ہیں، وہ تو اس لیے دنیا میں واپس نہیں آ سکتیں کہ وہ اللہ کی حوالات میں مقید ہیں اور جو روحیں علیین یا اعلیٰ علیین (جنت) میں ہیں، وہ مجرموں کی طرح مقید تو نہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جنت کی نعمتیں یا بلند مقام چھوڑ کر آخر زمین کی طرف کیا لینے آئیں گی؟
اس قانون میں استثناء صرف یہ ہے کہ جب فرشتے کسی انسان کی، خواہ نیک ہو یا بد، روح قبض کرتے ہیں تو وہ روح سجین میں رکھی جاتی ہے۔ پھر اس وقت اس کے جسم کی طرف لوٹائی جاتی ہے۔ جب اس کے عزیز و اقارب اس کے دفن کرنے کے بعد واپس جا رہے ہوتے ہیں۔ روح کا اس وقت لوٹانا ایک اضطراری امر ہے کیونکہ جانچ ہر انسان سے کی جاتی ہے، ماسوائے شہد اور انبیاء علیھم السلام کے۔
اس آزمائش کے بعد بھی روحیں سجین اور علیین میں رہتی ہیں۔ ان روحوں کو انہی مقامات پر رہنا ہوتا ہے اور اس کی کیفیت وہی ہوتی ہے جو مرحلہ نمبر 2 میں خواب میں ہوتی ہے۔ پھر کبھی کبھی اس عذاب و ثواب میں کچھ اضافہ کی خاطر روح کو بدن کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ روح کی یہ احیانا فاحیانا بدن کی طرف بازگشت بھی ایک اضطراری امر ہے۔ اسی گاہے بگاہے بازگشت کو احادیث میں صبح و شام سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ اضافہ بدن کی شرکت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے خواب میں کسی شدید واقعہ سے سونے والے کا بدن بھی متاثر ہو جاتا ہے۔
رہا یہ معاملہ کہ روحیں مرحلہ نمبر 3 یعنی علیین اور سجین سے اپنی قبروں پر تشریف لائیں یا ان سے مسلسل رابطہ قائم رکھیں یا اپنی قبروں پر عکس ڈالتی رہیں تاکہ جو کوئی انہیں آ کر سلام کہے، وہ اس کے سلام کو سن کر اس کا جواب دیں، تو حاشاء وکلا ان میں کوئی بات بھی روحوں کے اختیار میں نہیں ہے۔
لیکن ہمارے تصوف زدہ طبقہ نے زیرزمین ایک نئی دنیا آباد کر رکھی ہے۔ ان کے نزدیک عام آدمی نہیں تو کم از کم بزرگ حضرات اپنی اپنی قبروں میں اسی طرح زندہ ہیں جس طرح اس دنیا میں زندہ تھے۔ البتہ ان بزرگوں میں اب تصرف فی الامور کی قدرت دنیا کے لحاظ سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ گویا اس دنیا کے جملہ اختیارات انہی فوت شدہ بزرگان کو تفویض کر دئیے گئے ہیں۔ یہ بزرگ لوگوں کی فریاد سنتے بھی ہیں اور اس تکلیف کو دور کرنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو قبر میں دنیا کی طرح زندہ رہنے کے اور بھی زیادہ حقدار ہیں۔ کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر جا کر سلام پڑھتے ہیں اور ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دینا ہوتا ہے اور جب تک قبر میں زندہ تسلیم نہ کیے جائیں۔ وہ سلاموں کا جواب کیونکر دے سکتے ہیں؟ قرآن نے تو کہا تھا کہ ﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ﴾مگر یہ حضرات بضد ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تو بڑی دور کی بات ہے۔ ہمارے اولیاء بھی قبروں میں زندہ موجود ہیں۔ موت ان کے لیے صرف ایک پردہ ہے۔ بس جونہی قبر میں پہنچتے اور دنیا والوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں تو ان میں یکدم دنیوی زندگی عود کر آتی ہے اور کسی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا کہ "قبر میں رسول اللہ کے وہی اعمال و اشغال ہوتے ہیں جو اس دنیا میں ہوتے تھے۔ حتی کہ قبر میں ان پر ازواجِ مطہرات بھی پیش کی جاتی ہیں۔" نعوذباللہ من ہذہ الہفوات
نگاہِ بازگشت
(1)روح اللہ کی مخلوق ہے۔ حادث ہے، قدیم نہیں اور چونکہ مخلوق ہے، لہذا کسی نہ کسی وقت فنا سے دوچار بھی ہو گی۔ بموجب ارشاد باری تعالیٰ:
﴿كُلُّ مَن عَلَيها فانٍ ﴿٢٦﴾ وَيَبقىٰ وَجهُ رَبِّكَ ذُو الجَلـٰلِ وَالإِكرامِ ﴿٢٧﴾... سورةالرحمان
"ہر چیز جو اس کائنات میں ہے فنا ہونے والی ہے صرف تیرے بزرگ و برتر، پروردگار کی ذات باقی رہ جائے گی۔"
2۔ روح پر چار مراحل آتے ہیں، دوسرے مرحلہ میں جا کر اسے بدن ملتا ہے جو آلہ کار کا کام دیتا ہے کیونکہ یہی عرصہ دارالامتحان ہے، تیسرے مرحلہ میں روح سے بدن کا آسرا چھین لیا جاتا ہے اور چوتھے مرحلہ میں روح کو نیا بدن عطا کیا جائے گا۔ تاکہ مرحلہ نمبر 2 کے اعمال کا بدلہ روح اور بدن مل کر بھگت سکیں۔
3۔ ان چاروں مراحل میں روح زندہ ہی رہتی ہے اور روح ہی وہ شے ہے جو عقل و شعور اور ارادہ و اختیار رکھتی ہے، لیکن اس کے باوجود زندگی کا دور وہ ہوتا ہے جب روح کو بدن بھی نصیب ہوتا ہے۔ بدن اگرچہ بے جان بہت جلد فنا ہونے والی اور عقل و شعور یا ارادہ و اختیار سے عاری ہے۔ تاہم زندگی کا ایک لازمی عنصر ہے۔ جس مرحلہ میں روح کو بدن نصیب نہ ہو وہ موت کا دور کہلاتا ہے۔
4۔ ان چاروں مراحل میں روح چونکہ زندہ رہتی ہے۔ لہذا چاروں مراحل میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ آثار چونکہ روح و بدن کے اتصال والی زندگی کی نسبت نہایت کمزور ہوتے ہیں۔ لہذا ان ادوار یعنی مرحلہ نمبر 1 اور مرحلہ نمبر 3 کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
5۔ جن ادوار میں زندگی ہی غالب ہے یعنی مرحلہ نمبر 2 اور مرحلہ نمبر 4 ان میں بھی موت کی استثنائی صورتیں پائی جاتی ہیں۔ جیسے احیائے موتیٰ بطور خرقِ عادت اور خواب بطورِ عام ضابطہ الہی، تاہم یہ موت کے کمزور سے آثار غیر مسلسل اور غیر مستقل ہوتے ہیں۔
6۔ بعینہ موت کے دور یعنی مرحلہ نمبر 3 میں بھی استثنائی صورتوں میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ آثار حقیقی زندگی کے مقابلہ میں نہایت کمزور ہوتے ہیں۔ جیسے عذابِ قبر جو آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں ہلکا اور غیر مسلسل ہوتا ہے اور سماع موتی کا مسئلہ بطور خرق عادت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کسی مردہ کی روح کو سنا دیتا ہے۔ اس میں اس مردہ کی روح کے ارادہ و اختیار کو کچھ دخل نہیں ہوتا۔
7۔ مرحلہ نمبر 3 میں روح کا مستقر علیین یا سجین ہے۔ اس مرحلہ میں عذاب و ثواب قبر کا تعلق براہ راست روح سے ہوتا ہے اور یہ عذاب و ثواب آخرت کی نسبت ہلکا اور غیر مسلسل ہوتا ہے۔ پھر کبھی کبھی یہ عذاب بواسطہ روح جسم تک بھی پہنچ جاتا ہے۔
8۔ شہداء اور انبیاء علیھم السلام سے مرحلہ نمبر 3 حذف کر دیا گیا ہے۔ اس دور میں بھی ان پر موت کے بجائے زندگی کے آثار غالب ہوتے ہیں۔ لیکن یہ زندگی دنیاوی زندگی کی طرح نہیں ہوتی۔ اس زندگی کی کیفیت کو سمجھنا ہمارے شعور سے ماوراء ہے۔
9۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوۃ و سلام، دور سے ہو یا قبر پر، صیغہ غائب سے ہو یا مخاطب سے، جیسے نماز میں، فرشتوں کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سلام کہنے والے کو جواب دیں۔ یہ سلام امت کی طرف سے اجتماعی طور پر فرشتوں کے ذریعہ پہنچائے جاتے ہیں اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجتماعی طور پر جواب کے طور پر امت کے لیے سلام کہتے یا سلامتی کی دعاء کہتے ہیں۔ کیونکہ راجح قول یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سلام و صلوۃ کہا جاتا ہے۔ وہ سلام دعاء ہے نہ کہ سلام تحیۃ، اسی طرح قبرستان میں جا کر مسلمانوں کو جو السلام علیکم کہا جاتا ہے وہ بھی سلام و دعاء ہے، سلام تحیۃ نہیں۔
10۔ قرآن، سماع کی پر زور تردید کرتا ہے۔ صحیح احادیث استثنائی صورت پیش کرتی ہیں۔ ضعیف اور وضعی احادیث سماع موتی کا جواز ثابت کرتی ہیں اور بزرگان کرام کے اقوال اور ان کی خوابیں اس جواز کو تائید مزید بخشتی ہیں۔ اب مشکل یہ پیش آتی ہے کہ اگر ان بزرگان کرام کا احترام ملحوظ رکھ کر یہ سب درست تسلیم کر لیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جعلی احادیث اور بزرگوں کی خوابیں اور اقوال دراصل قرآنی آیات کا رد پیش کر رہے ہیں۔
هذی ما عندی والله اعلم بالصواب
حوالہ جات
جب ترجمہ ہی بدل دیا تو نفی نکل بھی کیسے سکتی ہے؟ پھر ترجمہ بدل دینے کے بعد از سر نو سماع موتی کا ذکر ویسے ہی کھٹکتا ہے۔
فقہی اختلافات کی اصلیت، شاہ ولی اللہ دہلوی ترجمہ و نشر و اشاعت علماء اکیڈمی، لاہور ص9، طبع اول سئہ 1981)
فقہی اختلافات کی اصلیت، شاہ ولی اللہ دہلوی ترجمہ و نشر و اشاعت علماء اکیڈمی، لاہور ص9، طبع اول سئہ 1981)