جمالِ نبویﷺ اور صحابہ کرامؓ کا شوق و وارفتگی

تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جو ربّ ِکائنات ہے ،جس نے ارض و سما کی تخلیق کے بعد اس کی تدبیر کی ، جو ہر ایک کو رزق دینے والا ہے، جس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا، جس نے ہماری راہنمائی کےلیے پیغمبر بھیجے اورسب سے آخر میں نبی آخر الزمانﷺ کو مبعوث فرما کر ہمیں ان کا اُمّتی بنایا ۔ آپ ﷺ کی زندگی ہمارےلیے نمونہ ہے ۔ اُن ہی کے سانچے میں ہم نے اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ تمام مخلوق سے زیادہ محبت کرنا ہر مسلمان کافرض ہے، صحیحین میں آپﷺ کا یہ فرمان مروی ہے:

«لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ»

کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا ،جب تک اپنی اولاد ،والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو ۔''

 کیونکہ آپ کی ذات ہی وہ مبارک ہستی ہے جن پر اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔

 آپ وہ رسول محترم ہیں جن کے لیے فرشتے دعائے رحمت کرتے ہیں ۔

 جن کی عمر کی قسم اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ مقدس میں اُٹھائی ہے ۔

 جن کی زندگی کو اللّٰہ تعالیٰ نے بہترین نمونہ قرار دیاہے ۔

 جن کے خوش ہونے سے اللّٰہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں

 اور جن کے ناراض ہونے سے اللّٰہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں ۔

 جن کی اطاعت اللّٰہ کی اطاعت ہے اور جن کی نافرمانی اللّٰہ کی نافرمانی ہے۔

a امام بخاری سیدنا عبداللّٰہ بن ہشام سے روایت کرتے ہیں کہ اُنھوں نے کہا :

''ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے ۔ آپ ﷺ نے سیدنا عمر بن خطاب کا ہاتھ تھام رکھا تھا ۔ سیدنا عمر نے کہا: اے اللّٰہ کےرسول! یقیناً آپ مجھے میری جان کےسوادنیا جہاں سے زیادہ عزیز ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ،قسم ہے اس ذات کی جس کےہاتھ میں میری جان ہے ! اس وقت تک کہ میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں ۔ سیدنا عمر نے عرض کیا:

وَاللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ: «الآنَ يَا عُمَرُ»

اللّٰہ تعالیٰ کی قسم! یقینا اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے عمر !اب بات بنی ہے ۔''

b کسی بھی شخصیت کو جاننےاور سمجھنے کےلیے اس کی شکل و صورت اور وجاہت بڑا کردار ادا کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللّٰہ بن سلام نے آپﷺ کا چہرہ دیکھتے ہی کہہ دیا تھا :

''أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ''

''بلا شبہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں ہو سکتا ۔''

c سیدنا ابو رِمثہ تیمی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ حاضر ہوا۔ آپﷺ کے شگفتہ چہرے کو دیکھتے ہی سمجھ گیا اور اپنے بیٹے سے کہنے لگا:

''هذا والله رسول الله'' ''واللّٰہ! یہ واقعی اللّٰہ کے رسول ہیں ۔ ''

آج ہمارے سامنے آپ ﷺ کی کوئی حقیقی تصویر تو موجود نہیں ۔ خود آپ ﷺ نے اپنی اُمت کوتصویر کے فتنے سے منع فرمایا ہے ، کیونکہ اس سے شرک کادروازہ کھلتا ہے ،البتہ آپ کے حسن وجمال کی جھلک دیکھنے والوں نے آپ کے رخِ انور،حسن و جمال ، قدو قامت ، بے مثال خدو خال اور باوقار و پر کشش شخصیت کا نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچ دیا ہے۔ صحابہ کرام کو آپ ﷺ سےکس قدر محبت تھی ۔ کس کس زاویے سے انھوں نے آپ کو دیکھا، جانچا اور کن کن الفاظ سے آپ کی شخصیت کا احاطہ کیا ، اُس سے ان کی محبت کا اندازہ ہوتا ہے ۔

d آپﷺ کا حلیہ مبارک صرف صحابہ کرام نےہی نہیں بلکہ ایک صحابیہ اُمّ معبدنے بڑے زبردست طریقے سے بیان کیاہے ۔ ہجرت کے سفرمیں دوسرے دن آپ کا گزر اُمّ معبد کے خیمے سے ہوا، یہ مکہ سے 130 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ؟ تو اس نے میزبانی سے معذرت کی اور بتایا: بکریاں دور دراز گئی ہوئی ہیں، ایک بکری ہے جو بہت ہی کمزور اور لاغر سی ہے جس میں دودھ کا ایک قطرہ بھی نہیں ۔ تو آپ ﷺ نے اجازت لے کر اس بکری کا دودھ دھویا اور اس بکری نے اتنا دودھ دیا کہ بڑا سا برتن بھر گیا ۔ آپ ﷺ نے امّ معبد کو بھی پلایا ۔اپنے ساتھی کو بھی پلایا ،پھر خود پیا اور دوبارہ دھو کر برتن بھر دیا اور روانہ ہوگئے ۔آپ ﷺ کے جانے کےبعد ام معبد کا شوہر گھر پر آیا ۔ اُس نے دودھ دیکھا تو اسے تعجب ہوا ۔ پوچھا ! یہ کہاں سے آیا؟ تو اُم معبد نے پوری بات بتلا دی۔

اور آپ ﷺ کا سر تا پا وجود، گفتگو اوراحوال کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ اس پر ابومعبد بول اٹھا: واللّٰہ! یہ توصاحبِ قریش ہے ۔ میراارادہ ہے آپ کا ساتھ اختیار کروں اور کوئی راستہ ملا تو ضرور ایسا کروں گا ۔

غور کریں کہ ابو معبد کو صرف آپ کا حلیہ مبارک جان کر ملاقات اور رفاقت کا شوق پیدا ہوگیا ۔ حلیہ کے ساتھ آپ کا اخلاق اورکردار بھی تھا.... اُمّ معبد نے کیاکہا تھا؟

''پاکیزہ روح ،کشادہ چہرہ ، صاحبِ جمال ، نہ نحیف و لاغر، نہ توند نکلی ہوئی ، آنکھیں سیاہ اور فراخ ، یعنی بڑی آنکھیں، بال لمبے اور گھنے ، آواز میں بھاری پن ،بلند گردن ،باریک پیوستہ ابرو ، جب خاموش ہوتے تو وقار بلند ہو جاتا ، بات کرتے تو بات واضح ہو جاتی ، دور سےدیکھنے میں سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت ،بارونق ، قریب سے شیریں اور کمال حسین ، شریں کلام ، فیصلہ کن بات ،تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی ، میانہ قد وقامت، نہ لمبوترا نہ پست قد، دوشاخوں کے درمیان ترو تازہ شاخ کی مانند ،اس کے ساتھی اس پر بچھے جاتے تھے، جب وہ کچھ کہتے تو چپ چاپ سنتے ہیں ۔ حکم دیتے ہیں توتعمیل کے لیےلپک پڑتے ہیں ۔ نہ کوتاہ سخن نہ ترش رو ، نہ فضول گو ۔''

امّ معبد کے کھینچے گئے نقشے میں آپ کا خُلق اور خَلق دونوں شامل ہیں ۔ خَلق Features، سے مراد شخصیت کی پیدائشی خوبیاں اور خُلق سے آپ کی عادات اور اخلاق مراد ہیں ۔

e جابر بن سمرۃ بیان کرتے ہیں :

''میں ایک دفعہ آپ ﷺ کو سرخ جوڑا پہنے چاندنی رات میں دیکھ رہا تھا ۔میں کبھی چاند کو دیکھتا، کبھی آپ کے چہرۂ انور پر نظر کرتا : «فَإِذَا هُوَ عِنْدِي أَحْسَنُ مِنَ القَمَرِ» بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ آپ ﷺ چاند سے کہیں زیادہ حسین ہیں ۔

f کعب بن مالک کا بیان ہے کہ غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے جب میری توبہ قبول ہوئی تو میں آپ کے پاس حاضر ہوا اور سلام کیا ۔ میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ مبارک مارے خوشی کے دمک رہا تھا: «إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ، كَأَنَّ وَجْهَهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ»

اور آپﷺ جب خوش ہوئے تو آپ کا چہرہ ایسے دمکتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہے۔

g سیدنا انس بیان کرتے ہیں کہ«كَانَ رَبْعَةً مِنَ القَوْمِ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلاَ بِالقَصِيرِ» نبی ﷺ نہ دارز قد تھے ، نہ پست قامت ،بلکہ آپ کا قد درمیانہ تھا ۔

h آپ کارنگ نہ تو چونے کی طرح خالص سفید اور نہ گندمی کہ سانولے نظر آتے ۔ بلکہ آپ چمک دار تھے اور آپ کے بال نہ زیادہ پیچ دار اور نہ بالکل سیدھے، بلکہ ہلکا سا خم لیے ہوئے ہوتے تھے ۔ آپ پر وحی کا آغاز چالیس برس میں ہوا ،پھر اس کے بعد آپ ﷺ دس سال مکہ میں رہے، پھر تیرہ سال مدینہ قیام فرمایا ، وفات کے وقت سر اور داڑھی میں بمشکل بیس بال سفید تھے ۔

i سیدنا ابو جحیفہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ کا رنگ سفید تھا ۔ سر مبارک کے کچھ بال سفید تھے، سیدنا حسن شکل و شباہت میں آپ سے کافی ملتے جلتے تھے ۔

j سیدنا ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللّٰہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت کوئی شخص نہیں دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سورج کی روشنی آپ کے رخِ اَنور سے جھلک رہی تھی۔ آپﷺ اس قدر تیز رفتار چلتے گویا زمین آپکے لیے لپٹی جارہی ہو ۔ ہم تو چلتے چلتے مارے تھکن کے چور ہو جاتے لیکن آپ تھکا وٹ سے بے نیاز ، اپنا سفر جاری رکھتے ۔

k سیدنا محرش کعبی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے عمرہ کرنے کےلیے مقامِ جعرانہ سے رات کے وقت احرام باندھا : «فَنَظَرْتُ إِلَى ظَهْرِهِ كَأَنَّهُ سَبِيكَةُ فِضَّةٍ» میں نے آپ کی کمر دیکھی جو رنگت میں سفید گویا کہ چاندنی سے دھلی ہوئی تھی ۔

l نبی کریم ﷺ کے حقیقی چچا ابو طالب آپ کا حلیہ بیان کرتے ہوئے ایک شعر کہتے ہیں:

وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الغَمَامُ بِوَجْهِهِ ثِمَالُ اليَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ

''وہ گورے چہرے والا جس کے روے زیبا کے ذریعے ابرِ رحمت کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ وہ یتیموں کا سہارا ، بیواؤں اور مسکینوں کا سرپرست ہے۔''

m سیدنا ہند بن ابی ہالہ کا بیان ہے کہ رسول اللّٰہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی عالی شان اور دوسروں کی نظروں میں بھی بڑے رتبے والے تھے۔ آپ کا چہرۂ انور چودھویں رات کے چاند کی طرح جگمگاتا تھا ۔

n سیدنا علی کا بیان ہے کہ رسول اللّٰہ کی بڑی بڑی سرخی مائل آنکھیں ،پلکیں دراز اور ڈاڑھی گھنی تھی۔

o سیدنا ابو ہریرہ کابیان ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی آنکھیں سرمگیں تھیں ۔

p امّ معبد رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ کی آنکھیں انتہائی سیاہ اور کشادہ تھیں۔

q سیدنا علیؓ اور سیدنا ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ آپ کی بھنویں اور پلکیں لمبی تھیں۔

r سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آپ کا دہن مبارک بہت حسین اور خوبصورت تھا۔

s سیدنا عبدا للہ بن مسعود کا بیان ہے کہ پہلے پہلے جب مجھے رسول اللّٰہ ﷺ کے متعلق معلوم ہوا تو میں چچاؤں کے پاس مکہ مکرمہ آیا، اہل خانہ نے مجھے سیدنا عباس بن عبد المطلب کی طرف بھیجا ۔ جب میں ان کے پاس آیا تو وہ بئر زم زم پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا ۔اچانک دیکھتا ہوں کہ بابِ صفاسے ایک صاحب نمودار ہوئے جن کا رنگ گورا سرخی مائل ، قدرے خمیدہ بال، جو کانوں کی لوؤں تک بڑھے ہوئے، ناک بلند آگے سے ذرا جھکی ہوئی، اَولوں کی طرح سفید اور آبدار دانت ،گہری آنکھیں اور گھنی ڈاڑھی تھی۔

t سیدنا ابوہریرہ سے کسی شخص نے رسول اللّٰہﷺ کے حلیہ کے متعلق دریافت فرمایا تو آپ نے کہا کہ رسول اللّٰہﷺ بے حد روشن جبین تھے ۔ جب رات کی تاریکی یا صبح کی روشنی پھوٹنے کے وقت آتے ( یا لوگوں کے مجمع میں رونما ہوتے ) تو سیاہ بالوں کے درمیان بالخصوص آپ ﷺ کی تابناک اور کشادہ پیشانی روشن چراغ کی طرح جگمگا اُٹھتی تھی ۔ مزید فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہﷺ کی پیشانی اتنی روشن اور تابندہ تھی گویا اس سے سورج کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں ۔

u سیدنا علی رسول اللّٰہﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ کی گردن لمبی ، پتلی اور چمک دار تھی گویا کہ چاندی کی صراحی ہو۔

v سیدنا ہند بن ابی ہالہ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کی گردن چاندنی کی طرح سفید خوبصورت تھی گویا کسی مورنی کی گردن تھی۔

w سیدنا ابو ہریرہ آپﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی ہتھیلیاں اور پاؤں پر گوشت، پنڈلیاں موٹی اور گداز ، کلائیاں بڑی اور دراز ،بازو کندھے گٹھے ہوے اور مضبوط ، دونوں مونڈھوں کا درمیانی فاصلہ قدرے زیادہ ، سینہ کشادہ، سر کے بال قدرے خم دار ،پلکیں لمبی ، خوبصورت اور گھنی ڈاڑھی ، کان لمبے اور دلکش ،درمیانہ قد نہ زیادہ طویل، نہ بالکل پست ، رنگت میں گل لالہ ، میں آپ سے زیادہ حسین و جمیل نہ کسی کو دیکھا ، نہ سنا۔

x سیدنا عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ کے بازو موٹے اور کلائیاں اعتدال کے ساتھ بڑی تھیں ۔

y سیدنا عائشہ بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ کا سینہ مبارک کشادہ ، حلق کے نیچے کا حصہ ناف تک بالوں کی باریک دھاری سے ملا ہوا ، سینے اور پیٹ پر اس کے علاوہ کہیں بال نہ تھے ۔

z سیدنا انس فرماتے ہیں کہ میں نے ریشم کا کوئی دبیز یا باریک کپڑا ایسا نہیں چھوا جو آپ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم اور گداز ہو ۔

27۔ سیدنا جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ میں نے مدینہ منورہ میں آپ کے ساتھ نماز ظہر پڑھی، پھر آپ اپنے اہل خانہ کے ہاں تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ ہو لیا،بچوں نے آپ کا استقبال کیا،آپ ﷺ کمالِ شفقت اور پیار سے ایک ایک کے رخسار تھپکاتے ۔چونکہ میں بھی بچہ تھا ،آپ نے نے میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا، میں نے آپ کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس کی گویا آپ نے ابھی عطر دان سے ہاتھ نکالا ہے۔

28۔سیدنا ابو جحیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہ وادئ بطحا میں تھے کہ لوگ تبرک کے طور پر آپ کے ہاتھ مبارک پکڑتے اور اُنھیں اپنے چہروں سے لگاتے ،میں نے بھی آپ کا ہاتھ اپنے چہرے پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اورمشک سے زیادہ خوشبو دار تھا۔

29۔سیدنا علی کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللّٰہ نے یمن بھیجا، میں ایک دن لوگوں کو وعظ و نصیحت کر رہا تھا کہ ایک یہودی عالم ہاتھ میں کتاب لیے آیا اور مجھے کہنے لگاکہ ابو القاسم کا حلیہ بیان کرو ۔سیدنا علی کہتے ہیں: میں نے بتایا کہ آپ ﷺ نہ تو پست قد ہیں اور نہ ہی زیادہ دراز قد بال، مبارک نہ زیادہ پیچ دار، نہ بالکل کھڑے بلکہ بال گھنے سیاہ قدرے خمیدہ ہیں۔ سرمبارک اعتدال کے ساتھ بڑا، رنگ گورا سرخی مائل، جوڑوں کی ہڈیاں بڑی بڑی، ہاتھ اور قدم پر گوشت، پلکیں دراز، پیشانی کشادہ اور ہموار دونوں کندھوں کے درمیان قدرے زیادہ فاصلہ ۔ جب آپ ﷺ چلتے تو قدرے جھک کر گویا کسی ڈھلوان سے اُتر رہے ہوں،میں نے آپ ﷺ سے پہلے اوربعد میں کوئی آپ ﷺ سانہیں دیکھا۔ سیدنا علی کہتے ہیں: پھر میں خاموش ہوگیا، یہودی عالم کہنے لگا :کیا ہوا؟ میں نے کہا: مجھے تو اسی قدر یاد ہے، وہ کہنے لگا: آپ کی آنکھوں میں سرخی، خوبصورت ڈاڑھی، خوب رو، مناسب کان ، آگے پیچھے دیکھتے تو پورے وجود کے ساتھ، سیدنا علی کہنے لگے کہ اللّٰہ کی قسم! رسول اللّٰہ کا یہی حلیہ مبارک ہے ۔

30۔ سیدنا انس کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک دفعہ ہمارے گھر تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا ۔اس دوران آپ کو پسینہ آیا ،میری والدہ (امّ سلیم ) ایک شیشی لائیں اور آپ کا پسینہ پونچھ کراس میں جمع کرنے لگیں ۔اتنے میں آپ بیدار ہوئے تو پوچھا: امّ سلیم یہ تم کیا کر رہی ہو؟ اُنھوں نے کہا: ہم اس پسینہ کو خوشبو میں ملائیں گے ، اس سے بہترین خوشبو تیار ہوتی ہے۔

31۔ سیدنا جابر بن سمرہ فرماتے ہیں : میں نے آپ کی مہر نبوت کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان دیکھا جو مقدار میں کبوتر کے انڈے جتنی اور (رنگت میں)سرخ غدور (رسولی) جیسی تھی۔

نبی کریم ﷺ سے محبت اور اس کی علامتیں

نبی کریم ﷺ کے ساتھ تمام مخلوق سے زیادہ محبت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔

a امام بخاری اور مسلم سیدنا انس سے روایت کرتےہیں کہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا :

''جس شخص میں تین خصلتیں ہوں، وہ ایمان کی لذت سے بہرہ مند ہوگا۔ اللّٰہ تعالی اور رسول اسے سب سے زیادہ پیارے ہوں ، جس سے محبت کرے صرف اللّٰہ تعالی کی رِضا کے لیے کرےاور کفر کی طرف پلٹنے کو اسی طرح نا پسند کرے جس طرح آگ میں پھینکے جانے کو ناپسند کرتا ہے ۔''

b ایک صحابی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی:

یارسول اللّٰہﷺ! میں آپؐ کو اپنی جان و مال اور اہل و عیال سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں،جب گھر میں ہوتا ہوں اور شوقِ زیارت بے قرار کرتا ہے تو دوڑا آتا ہوں، آپ ﷺ کا دیدار کرکے سکون حاصل کرلیتا ہوں ۔ لیکن جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ آپ ؐ تو جنت میں انبیاے کرام کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا بھی تو آپ ﷺ تک نہیں پہنچ سکوں گا اور آپ ﷺ کے دیدا ر سے محروم رہوں گا تو بے چین ہوجاتا ہوں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًاؕ۰۰۶۹﴾ ''جو لوگ اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ سے اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللّٰہ نے انعام فرمایا ہے ۔ یعنی انبیا ، صدیقین ، شہدا اور صالحین ، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں ۔''

c ربیعہ بن کعب اسلمی کہتے ہیں:

''میں رات کو نبی ﷺ کے لیے وضو کاپانی لاتا تھا، ایک رات آپ نے فرمایا : ربیعہ کسی چیز کی فرمائش کرو ۔ میں نے عرض کی: میں جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا کوئی اور فرمائش ہے؟ میں نے عرض کی: صرف یہی ایک ۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا :پھر سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔''

d سیدنا انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ

''ایک شخص رسول اللّٰہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی :قیامت کب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے قیامت کے لیےکیا تیاری کر رکھی ہے ؟ اس نے عرض کیا: اللّٰہ اور اس کےرسول کی محبت ۔ آپ نے فرمایا : بے شک تو اسی کے ساتھ ہے جس کے ساتھ تو نے محبت کی۔سیدنا انس فرماتے ہیں کہ ہمیں اسلام لانے کےبعد کسی بات سے اتنی زیادہ مَسرت نہ ہوئی جتنی آپ کی اس بات سے ہوئی ۔''

e سیدنا خبیب بن عدی کی آپ ﷺ سے محبت ...عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ جس دن مشرکین کے آبا و اجداد بدر میں قتل ہوئے تھے۔ جب سیدنا خبیب کو قتل کرنے لگے تو انھیں قسم دے کر پوچھا :'' کیاتمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری جگہ محمد ﷺ ہوتے اور تم پھانسی سے بچ جاتے ؟ سیدنا خبیب نے فرمایا : ''اللّٰہ بزرگ و برتر کی قسم ہے!مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میری جگہ آپ کے قدم مبارک میں کانٹا بھی چبھے۔''

f سیدنا سعد بن ابی وقاص سےروایت ہے کہ (غزوہ اُحدسے) آپ کی مدینہ واپسی پر بنو دینار کی ایک عورت راستے میں ملی جس کا شوہر بھائی اورباپ جنگ اُحد میں شہید ہو چکے تھے ۔ اس نے پوچھا: ''نبی مکرمﷺ کا کیا حال ہے؟ صحابہ نےکہا : وہ بخیریت ہیں۔ اس نے کہا : مجھے دکھاؤ !جب تک میں اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں لیتی مجھے قرار نہیں آئے گا۔ لوگوں نے آپ کی طرف اشارہ کیاکہ وہ رہے۔ جب اُس نے اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھ لیا تو کہنے لگی :آپ کو دیکھنے کےبعد ساری مصیبتیں ہیچ ہیں۔''

g سیدنا یحیی بن سعید کہتے ہیں: اُحد کے دن رسول اللّٰہ نے فرمایا : مجھے سعد بن ربیع کے بارے میں کون خبر لا کردے گا؟ (وہ میدانِ جنگ میں کس حال میں ہیں )۔ ایک صحابی (سیدنا زید بن ثابت )نے عرض کی: یارسول اللّٰہ ! میں خبر لاتا ہوں ۔ چنانچہ وہ گئے اور لاشوں میں سعد بن ربیع کو تلاش کرنے لگے۔وہ زخموں سے چور زندگی کے آخری سانس میں نظر آئے۔صحابی نے کہا: مجھے رسول اللّٰہ نے تمہاری خبر لانے کے لیے بھیجا ہے ۔ اُس نے کہا: رسول اللّٰہ سے میرا سلام کہنا اور میری قوم سے کہنا:

''یاد رکھو! اگر تم میں سے ایک آدمی بھی زندہ رہا اور نبی کریم ﷺ شہید کر دیے گئے تو اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔''

h ابن اسحٰق کہتے ہیں : غزوہ اُحد کے دن جب دشمنوں نے آپ پر ہجوم کر لیا تو آپ نے فرمایا کون ہے جو ہمارے لیے اپنی جان دیتا ہے؟ سیدنا زیاد بن سکن پانچ انصاریوں سمیت کھڑے ہوگئے اور ایک ایک کرکے آپ کا دفاع کرتے شہید ہوگئے۔سب سے آخر میں سیدنا زیاد اوراُمّ عمارہ رہ گئے اوروہ لڑتے رہے یہاں تک کہ زخموں نے انھیں گرادیا۔ پھر مسلمانوں کی ایک جماعت پلٹی تو اُنھوں نے زیاد سے دشمنوں کو ہٹایا۔ آپ نے فرمایا:اسے میرے قریب کردو۔ لوگوں نے سیدنا زیاد کو آپ ﷺ کے قریب کیا۔ آپ نے اپنا قدم مبارک ان کی طرف بڑھایا۔ اُنھوں نے اپنا رخسار آپ کے قدم مبارک پر رکھا اور جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔

i سیدنا بلال کی آپ سے محبت ...سیدنا محمد بن ابراہیم تیمی کہتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی وفات کےبعد ابھی آپ ﷺ کی تدفین نہیں ہوئی تھی کہ سیدنا بلال نے اذان دی اور جب أشهد أن محمّد رسول الله پر پہنچے تو صحابہ کرام پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، جب آپ ﷺ کی تدفین ہوگئی تو سیدنا ابو بکر نے بلال سےکہا :اذان دو !سیدنا بلال نے کہا: اگر آپ نے مجھے اپنی خاطر آزاد کرایا ہے تو پھر آپ کو یہ حکم دینے کا حق ہے ،لیکن اگر آپ نے مجھے اللّٰہ کی رضا کےلیے آزاد کرایا ہے تو پھر مجھے کچھ نہ کہیے ۔سیدنا ابو بکر نے کہا: میں نے تمہیں صرف اللّٰہ کی رضا کے لیے آزاد کرایا ہے تو سیدنا بلال نے کہا :تو پھر آپﷺ کی وفات کے بعد اب میں کسی دوسرے کے لیے اذان نہیں کہوں گا ۔ سیدنا ابو بکر نے فرمایا : اچھا تیری مرضی۔ اس کے بعد ایک بار سیدناعمر کے دور میں اذان دینا شروع کی تو رسول اللّٰہ کی شہادت پر پہنچ کر حسبِ عادت چہرہ انور کو دیکھنے کا قصد کیا جب نگاہیں اس مبارک چہرہ کو نہ پا سکیں تو وفورِ جذبات سے آواز رندھ گئی اور جذبات پر قابو نہ رہا اور اذان مکمل نہ کرسکے ۔

j سیدنا علی بن ابو طالب سے پوچھا گیا: آپ کی رسول اللّٰہ ﷺ سے محبت کیسی تھی؟ سیدنا علی نے فرمایا : كان والله أحب إلينا من أموالنا وأولادنا وآبائنا، وأمهاتنا ومن الماء البارد على الظمإ ''واللّٰہ ! رسول اللّٰہ ﷺ ہمیں اپنے مالوں ، اولادوں ، باپوں ، ماؤں اور شدید پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے۔''

k سیدنا سفیان نے ایک بار کہا کہ میں نے کسی کو دوسروں سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محمدﷺ کے ساتھی اور جاں نثار ان سے کرتے ہیں۔

l سیدنا عمر بن خطاب کی نبی مکرم ﷺ سے محبت اور آپ کی رفاقت کی خواہش اس قدر زیادہ تھی کہ اپنی وفات سے قبل اپنے بیٹے سیدنا عبداللّٰہ سے کہا : اُمّ المؤمنین سیدنا عائشہ کے پاس جاؤ اور ان کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنا کہ عمر سلام عرض کرتا ہے اور ہاں دیکھو ،امیر المؤمنین کا لفظ استعمال نہ کرنا۔ سلام عرض کرنے کے بعد درخواست کرنا کہ عمر بن خطاب اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگتا ہے ۔ سیدنا عبداللّٰہ نے حاضر ہوکر سلام عرض کیا اور اندر آنے کی اجازت چاہی دیکھا کہ سیدنا عائشہ رضی اللّٰہ عنہا (امیر المومنین کی بیماری کے غم میں ) بیٹھی رو رہی ہیں ۔ سیدنا عبداللّٰہ نے عرض کی: عمر بن خطاب سلام عرض کرتے ہیں اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگتے ہیں ۔ سیدنا عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے فرمایا :وہ جگہ تو میں نے اپنے لیے رکھی تھی ،لیکن اب میں اپنی بجائے عمر کو ترجیح دیتی ہوں۔ سیدنا عبداللّٰہ واپس ہوئے تو لوگوں نے سیدنا عمر کو بتایا کہ عبداللّٰہ آگئے ہیں۔ سیدنا عمر نے لوگوں سے کہا: مجھے اُٹھا کر بٹھا ؤ ۔ ایک آدمی نے سیدنا عمر کو سہارا دیا ۔ سیدنا عمر ؓنے پوچھا: عبداللّٰہ! کیا خبر لائے ہو؟ سیدنا عبداللّٰہ نے کہا: امیر المؤمنین جو آپ چاہتے تھے سیدنا عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے آپ کو اجازت دے دی ہے ۔ سیدنا عمر نے الحمد للہ کہا،میرے لیے اس سے اہم اور کوئی بات نہیں۔ سیدنا عمر نے اپنی وفات کے بعد بھی سیده عائشہ سے تدفین کی تصدیق کرنے کو کہا، مبادا اُنھوں نے خلافت کے دباؤ میں اس کو قبول کیاہو۔

m جناب رسول اللّٰہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں : سیدنا ابو بکر صدیق خطبے کے اشاروں کنایوں سے اندازہ کرتے ہیں کہ جناب حبیبِ کریمﷺ کی رحلت کا وقت قریب آپہنچا ہے ۔ ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے ہیں ۔بخاری میں ابو سعید خدری سے روایت ہے، جناب رسول اللّٰہ نے خطبہ ارشاد فرمایا : بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے ایک بندے کو دنیا اور جو کچھ اُس کے پاس ہے، دونوں میں سے ایک چیز منتخب کرنے کاموقع عطا فرمایا ۔ اس بندے نے وہ چیز لی جو اللّٰہ کے پاس ہے ۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق نے رونا شروع کردیا ۔ ہمیں ان کے رونے پر تعجب ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک بندے کے متعلق بتایاتو اُنھوں نے رونا شروع کردیا۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ اختیار دیا گیا تھا اور سیدنا ابوبکر ہم سب سے زیادہ بات کو سمجھنے والے تھے ۔

n سیدنا رفاعہ بن رافع نے روایت بیان کرتے ہوئے کہا : میں نے اس منبر پر سیدنا ابو بکر کو فرماتے ہوئے سنا : ''میں نے گذشتہ سال اسی دن رسول اللّٰہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔ پھر ابو بکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔پھر ارشاد فرمایا: میں نے رسول اللّٰہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، پس تم اللّٰہ سے عافیت مانگو۔

o سیدنا ابوہریرہ کا سیدنا حسن کے پیٹ پر بوسہ دینا: صحابہ کو نبی کریم کی ہرادا سے پیار تھا، ایک بار سیدنا ابو ہریرہ نے نواسۂ رسول حسن کو روک لیا اور کہنے کہ میں نے رسول اللّٰہ کو دیکھا تھا کہ انہوں نے آپکے پیٹ پر بوسہ دیا تھا، میرے لیے بھی پیٹ کا وہ حصّہ کھولیں، میں اس جگہ کوچومنا چاہتا ہوں جہاں نبی ﷺنے اپنے لب مبارک لگائے تھے۔ كشف له الحسن وقبّله تو سیدنا حسن نے وہ جگہ کھول دی اور ابوہریرہ نے وہاں بوسہ دیا۔

رفیق اعلیٰ کی طرف

جب آپ ﷺ نے رسالت کی تبلیغ فرمالی اور اُمّت میں خیر کا کام جاری وساری ہوگیا تو آپ کے اَقوال و افعال میں اس کے اثرات محسوس ہونے لگے کہ آپ کا وقت پورا ہو چکا اور مشن مکمل ہو چکا ہے۔ آپ ﷺ نے دسویں سال رمضان میں بیس دن کا اعتکاف کیا اور جبریل نے دو دفعہ آپ کو قرآن کا دور کروایا ۔ آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہاسے فرمایا : میں سمجھتا ہوں، میرا وقت قریب آچکا ہے ۔۔ حضرت معاذ کو یمن رخصت کیا تو اُنہیں وصیت کرنے کے بعد فرمایا: اے معاذ! غالباً اس سال کے بعد تم مجھ سے ملاقات نہ کرسکو گے اور میری اس مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو گے، یہ سنکر حضر ت معاذ رونے لگے ۔ آپ نے حجۃ الوداع میں کئی مرتبہ فرمایا : غالباً میں تم لوگو سے اس سال کے بعد نہ مل سکوں گا ۔

ماہ صفر کے آخری سوموار، بیماری کا آغاز سردرد سے ہوا۔ آپ ﷺ سب بیویوں کے پاس وقت گزارتے رہے، جب مرض زیادہ ہوگیا تو حضرت عائشہ ؓکے پاس منتقل ہوگئے ۔

آپ ﷺ مرض کی شدت کے باوجود نماز خود پڑھایا کرتے تھے لیکن جمعرات کی شام آپ بیماری کی وجہ سے نماز نہ پڑھا سکے تو آپ نے حضرت ابوبکر کو کہلا بھیجا کہ نماز پڑھائیں چنانچہ بقیہ ایام سیدنا ابوبکر نے نماز پڑھائی ۔ آپ کی حیاتِ مبارکہ میں حضرت ابوبکر کی پڑھائی ہوئی نمازوں کی تعداد سترہ ہے۔

سوموار کی صبح سیدنا ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ نے حجرے کا پردہ اُٹھایا اور لوگوں کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ اس پر سیدنا ابوبکر صدیق ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹے اور سمجھا کہ آپ نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں لیکن آپ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ نماز پوری کرو اور پردہ گرا کر حجرے میں تشریف لے گئے۔ اب تکلیف لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی اور اس زہر کا اثر ہونا بھی شروع ہوگیا جو آپ کو خیبر میں کھلایا گیا تھا، آپ اسکی شدت محسوس کرنے لگے ۔ آپ نے اپنے چہرے پر ایک چادر ڈال رکھی تھی، جب سانس پھولنے لگتا تو چہرے سے چادر ہٹا دیتے۔ اسی حالت میں فرمایا :'' یہود اور نصاریٰ پر اللّٰہ کی لعنت اُنہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مسجد بنالیا ۔'' اس سے آپﷺ کا مقصد امت کو ایسے کاموں سے روکنا تھا ۔

اس کے بعد کئی بار فرمایا : «الصلوٰة، الصلوٰة، وماملکت أیمانکم» نماز، نماز اور تمہارے غلام ۔یعنی حقوق اللّٰہ میں سب سے اہم نماز ہے اور حقوق العباد میں سب سے اہم کمزور لوگوں کا حق ہے ۔ اور پھر نزع کی کیفیت شروع ہوگئی۔ سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے آپ کو اپنے گلے اور سینے کے درمیان سہارا دیکر لٹا لیا، اسی دوران ان کے بھائی عبد الرحمٰن آئے، ان کے پاس تازہ کھجور کی تازہ شاخ کی مسواک تھی ۔ آپ ﷺ مسواک کی طرف دیکھنے لگے، حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سمجھ گئیں کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے مسواک چبا کر نرم کی پھر آپ نے اچھی طرح مسواک کی ۔

آپ کے پاس کٹورے میں پانی تھا ،آپ اس میں ہاتھ ڈال کر چہرے پر پھیر تے اور فرماتے «لا إله الا الله ، إنّ للموتِ سکرات» ''اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورموت کی سختیاں ہیں ۔'' یعنی موت کی تکلیف ہوتی ہے۔ پھر آ پﷺ نے اُنگلی بلند کی، ہونٹوں کو حرکت ہوئی، سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے کان لگایا تو فرما رہے تھے: ''ان انبیا، صدیقین، شہدا اورصالحین کے ساتھ جنہیں تو نے انعام سے نوازا۔ اے اللّٰہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچادے ،اے اللّٰہ رفیق اعلیٰ ۔ آخری فقرہ تین بار دہرایا اور روح پرواز کر گئی، ہاتھ جھک گیا۔ آپ رفیق اعلی سے جاملے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون !

یہ سوموار 12 ربیع الاول کا دن اور ہجرت کا گیارھواں سال تھا۔ آپ کی رحلت کی یہ خبر صحابہ کرام میں فوراً پھیل گئی، ان پر دنیا تاریک ہوگئی، قریب تھا کہ وہ اپنے حواس کھو بیٹھتے ۔ کوئی دن اس سے زیادہ تابناک نہ تھا جب رسول اللّٰہ مدینہ تشریف لائے تھے اور کوئی دن اس سے تاریک اور اندھیرا نہ تھا جس میں آپ نے وفات پائی۔ صحابہ کرام رو رو کر بے حال ہو رہے تھے۔ سیدنا عمر کھڑے ہوکر کہنے لگے : ''آپ ﷺ اس وقت تک وفات نہیں پائیں گے جب تک اللّٰہ منافقین کو فنا نہ کردے اور اس شخص کو قتل کی دھمکی دے رہے تھے جو یہ کہے کہ آپ ﷺ وفات پاگئے ہیں ۔ صحابہ کرام مسجد میں ان کے نزدیک حیرت اورغم کی تصویر بنے موجود تھے ۔ حضرت ابوبکر کو آپ کی وفات کی خبر ملی ۔ آئے ، لوگوں سے کوئی بات نہ کی، سیدھے حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کے حجرے میں گئے ۔ آپ کا جسد مبارک دھاری دار یمنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ چہرہ مبارک دیکھا ،اسے چوما اور روئے ۔پھرباہر تشریف لائے اورسورۃ آل عمران کی آیت نمبر 144 تلاوت کی :

﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ١ؕ وَ مَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيْـًٔا١ؕ وَ سَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ۰۰۱۴۴﴾ أَمَّا بَعْدُ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا ﷺ فَإِنَّ مُحَمَّدًا ﷺ قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ، فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ

'' اور نہیں ہے محمد ﷺ مگر اللّٰہ کے رسول ۔ یقیناً آپ سے پہلے اور بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ کیا پھر اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے ۔ اورجو شخص ایسا کرے گا وہ اللّٰہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا اور عنقریب اللّٰہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو اجر دے گا ۔''

اما بعد! تم میں سے جو شخص محمد کی پوجا کرتا تھا تو جان لے کہ آپ ﷺ کی موت واقع ہو چکی ہے اورتم میں سے جو اللّٰہ کی عبادت کرتا تھا تو یقیناً اللّٰہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے ۔''

حضرت عباس کا ارشاد ہے کہ واللّٰہ! ایسا لگتا تھا کہ لوگوں نے اس سے پہلے جانا ہی نہ تھا کہ اللّٰہ نے یہ آیت نازل کی ہے۔

حضرت عمر کا ارشاد ہے :واللّٰہ میں نے جو نہی حضرت ابوبکر کو یہ تلاوت کرتے سنا تو میں جان گیا کہ یہ برحق ہے، پس میں ٹوٹ کر رہ گیا حتی کہ میرے پاؤں مجھے اُٹھا نہیں رہے تھے اور میں ایک طرف لڑھک گیا اور جان گیا کہ واقعی آپ کی وفات ہو چکی ہے ۔

منگل کے روز آپ کو کپڑے اُتارے بغیر غسل دیا گیا، غسل دینے والے حضرت علی ، حضرت عباس اور ان کے دو بیٹے ،آپ کے غلام شُقران اور اُسامہ بن زید تھے ۔آپ کو تین سوتی یمنی چادروں میں کفنایا گیا ۔ ابو طلحہ نے قبر کھودی۔ سيدنا علی، فضل بن عباس اور قثم بن عباس قبر میں اُترے ،شقران نے بچھونا لا ڈالا۔10 ، 10 صحابہ اندر جاتے اور نماز پڑھتے۔ صحابہ کرام میں مہاجر، پھر انصار، پھر عورتوں اور پھر بچوں نے منگل کے دن نماز پڑھی اور بدھ کی رات گزر گئی ۔ رات کے اَواخر میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا ۔


حوالہ جات

صحیح بخاری:۱۵

صحیح بخاری: 6632

سنن ابن ماجہ: ١٣٣٤

مسند احمد:٢؍۲۲۸

المعجم الکبیر للطبرانی:۴؍۴۸

المعجم الکبیر للطبرانی:۴/۴۸

سنن ترمذی: ۲۸۱۱

صحیح مسلم:۲۷۶۹

صحیح بخاری :۳۵۴۷

صحیح بخاری :۳۵۴۸

صحیح بخاری :۳۵۴۸

صحیح ابن حبان:۵ ؍۷۴

مسند احمد:۳؍۴۲۶

صحیح بخاری :۱۰۰۸

المعجم الکبیر للطبرانی:۲۲؍۱۵۵

مسنداحمد:۱؍۸۹

دلائل النبوۃ:۱؍۲۷۵

المعجم الکبیر للطبرانی:۴؍۴۸

الطبقات الکبری لابن سعد: ۱؍۴۱۴

دلائل النبوۃ:۱؍۳۱۷

حلیۃ الاولیا:۱ ؍۱۷۲

سبل الہدی والرشاد،للصالحی:۲ ؍۲۱؛ السیرۃ النبویہ لابن عساکر: ۳؍ ۲۰۲

صحیح ابن حبان:۹ ؍۷۴

طبقات ابن سعد:۴؍۴۱۰

المعجم الکبیر:۲۲؍۱۵۵

دلائل النبوۃ:۱؍۳۱۷

دلائل النبوۃ:۱؍۱۸۱

دلائل النبوۃ:۱؍۲۹۸

صحیح بخاری:۱۹۷۳

صحیح مسلم:۲۳۲۹

صحیح بخاری:۳۳۶۰

البدایہ و النہایہ:۶ ؍۱۸

صحیح مسلم:۶۰۵۵

صحیح مسلم:۶۰۸۵

صحیح بخاری: ۶۵۴۲؛صحیح مسلم:٦٥

تفسیر ابن کثیر،سورۃ النساء : ۶۹

صحیح مسلم:٢٢٦

صحیح مسلم:۲۶۳۹

تاریخ اسلام از ذہبی:۳؍۱۰۹

السیرۃ النبویہ از ابن ہشام:۲؍۱۰۰

موطا مالك از اعظمی:کتاب الجہاد،باب ترغیب الجہاد،حدیث:۱۶۹۱

السیرۃ النبویہ از ابن ہشام:۲؍۱۰۲

الاستيعاب از ابن عبد البر: ١؍١٨١

کتاب الشفا ء بتعریف حقوق المصطفیٰ، قاضی عیاض:۳۸۵

تاریخ طبری: ۲؍۵۴۲

صحیح بخاری:۳۷۰۰

صحیح بخاری:۴۵۴

مسند امام احمد:۱؍۳

مستدرک حاکم:3؍168،باب مناقب حسن... فضائل الصحابہ از امام احمد: 2؍975

صحیح بخاری:2044،4998

صحیح مسلم:2450

مسند احمد :22054

سنن نسائی:3062؛مسند احمد :14946

صحیح بخاری:4442

صحیح بخاری:687

صحیح بخاری: 680

سنن ابو داود:4512، صحیح بخاری: 4428

صحیح بخاری: 435

مسند احمد:788، سنن ابن ماجہ: 2698

حیح بخاری:4449

صحيح بخاری:890، 4438،4449

صحیح بخاری: 4437،4440،4435

سنن ترمذی: 3618،سنن ابن ماجہ:1631

سیرت ابن ہشام:2؍655

صحيح بخاری: باب قول النبیﷺ... 3668،3667،1241و مسند احمد: 25841

صحیح بخاری :4454

سنن ابن ماجہ :1628

صحیح بخاری :1264؛صحیح مسلم:941

سنن ابن ماجہ :1628

موطا امام مالک: کتاب الجنائز،باب ماجاء فی دفن المیت؛طبقات ابن سعد:2؍288،292؛مسند احمد :6؍62،274