فساد و بد امنی کا اِنسداد اور احادیثِ نبویہﷺ
بد امنی اور فساد خاندانوں، معاشروں اور ممالک کو تباہی وبربادی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ فساد کی صورت میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی امن درہم برہم ہو جاتا ہے۔ بد امنی کی فضا میں علوم وفنون کی ترقی رک جاتی ہےاور صنعتی ترقی کے لیے فضاسازگار نہیں رہتی۔ بلند تراقدار پنپ نہیں سکتیں اور معاشرے کا ہر فرد مستقل طور پر خوف وہراس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر افراد زیادہ دیر تک خوف وہراس کی کیفیت میں مبتلا رہیں تو ان کی صلاحیتیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ افراد نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں ،علوم وفنون کی ترقی مطلوب ہو یا صنعتی ترقی کا پروگرام ہو، صرف پُر امن فضا میں ہی ممکن ہو سکتا ہے، فساد اور بد امنی کی فضا میں تو کوئی شخص رہنا بھی گوارا نہیں کرتا حتیٰ کہ لوگ فساد زدہ علاقوں سے نقل مکانی کر جاتے ہیں۔
اسلام ایک روشن فکر اور فطری دین ہے۔ وہ علو م وفنون اور معاشرت ومعیشت میں ترقی چاہتا ہے۔ اسلام یہ بات گوارا نہیں کرتا کہ انسانی زندگی اور اعلیٰ اقدار کے فروغ میں کسی بھی طرح جمود اور تعطل پیدا ہو۔ اس لیے اس نے فتنے فساد کے استیصال اور خاتمے کے لیے مؤثر اور مثبت لائحہ عمل دیا ہے۔ قرآن مجید فتنے فساد کی مَذمت بھی کرتا ہے اور اس کے انسداد کے لیے لوگوں کی ذہنی تربیت بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عبرت کے لیے حدود وتعزیرات کی صورت میں سزائیں بھی نافذ کرتا ہے تاکہ جن پر کوئی نصیحت اثر نہ کرے، اُنہیں قانون کے شکنجے میں جکڑ کر لا قانونیت سے روکا جاسكے۔
انتشار وافتراق سے بچنے کا حکم
نبی کریم ﷺ نے لڑائی سے بچنے کا حکم دیا۔ جو شخص لڑائی سے بچتا ہے، آپﷺ نے اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی فرمائی۔
1. ابوداؤد شریف میں في كراهية المراء یعنی لڑائی، جھگڑے کی ناپسندیدگی کے عنوان کے تحت یہ حدیث بیان کی گئی ہے کہ نبی ﷺ جب کسی عامل کو کسی جگہ تعینات فرماتے تو اسے ہدایت کرتے کہ «بشّروا ولا تنفروا، يسّروا ولا تعسّروا»1 ''خوشخبری دینا، نفرت پیدا نہ کرنا ۔ آسانیاں پیدا کرنا، مشکلات اور دقتیں پیدا نہ کرنا۔'' اس حدیث کو اس عنوان کے تحت بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی فضا پیدا کرنا جس میں لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑا نہ ہو،لوگ آپس میں ایک دوسرے کےلیے سہولتیں پیدا کرنے والے ہوں، جھگڑالو نہ ہوں ، مسلمان ولی الامر کی ذمہ داری ہے۔
2. نبی کریم ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپﷺ نے کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
«مَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَهُوَ بَاطِلٌ بُنِيَ لَهُ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ وَمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَهُوَ مُحِقٌّ بُنِيَ لَهُ فِي وَسَطِهَا وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ بُنِيَ لَهُ فِي أَعْلَاهَا»2
''جس نے باطل چیز (جس پر اس کا حق نہیں تھا) کے لیے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ،اللّٰہ اس کے لیے جنّت کے کنارے پر محل تیار کرے گا اورجس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے اجتناب کیا تو اللّٰہ جنّت کے وسط میں اس کے لیے محل تیار کرے گا اور جس نے (نہ صرف جھگڑا کرنے سے اجتناب کیا بلکہ) حسن خلق کا مظاہرہ کیا تو اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں محل تیار کردیا جائےگا ۔''
3. سنن ابوداؤد میں روایت ہے کہ حضرت سائب کہتے ہیں:
'' میں رسول اللّٰہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لوگ میرا ذکر اور تعریف کرنے لگے۔ آپﷺنے فرمایا: میں تمہاری نسبت اس سے زیادہ واقف ہوں۔ میں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ سچ فرماتے ہیں۔ آپﷺ میرے شراکت دار تھے،اور بہت ہی خوب شراکت دار تھے۔ نہ آپ لڑائی کرتے نہ جھگڑا کرتے۔ ''3
مسلمانوں کی مرکزیت اور نظم اجتماعی سے جدا ہونے کی ممانعت
نبی کریمﷺنے اس بات سے منع فرمایا کہ لوگ اتحاد کی بجائے تفرقے میں پڑ جائیں۔ ظاہر ہے جب لوگ گروہوں میں بٹ جائیں تو فتنہ فساد ہی برپا ہو گا۔
1. صحیح بخاری ومسلم میں حدیث ِنبویؐ منقول ہے، آپﷺ نے فرمایا:
«مَنْ خَرَجَ مِنْ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»4
''جو کوئی سلطان کی اطاعت سے بالشت بھر دور ہو ا اور اس حال میں اس کی موت واقع ہوئی تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ ''
2. صحیح مسلم میں فرمانِ نبویﷺ ہے:
«مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ فَاقْتُلُوهُ»5
''کوئی شخص تمہارے پاس آئے اور تم اپنے معاملے میں ایک شخص پر متفق ہو۔ تم میں پھوٹ ڈالنا چاہے تمہاری اجتماعیت کو پارہ پارہ کرنا چاہے تو اسے قتل کر دو۔''
بد امنی اور فتنے کے زمانے میں نبی کریمﷺ نے ہمیں یہی تلقین فرمائی ہےکہ ہم اتحاد ویگانگت اور نظم وضبط کو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔
3. حضرت حذیفہ بن یمان روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اپنے بعد آنے والے فتنوں کا ذکر فرمایا تو میں نے پوچھا کہ اگر میں اس زمانے میں موجود ہوں توکیا کروں؟ آپ نے فرمایا: «تلزم جماعةَ المسلمين وإمامَهم»
''مسلمانوں کی جماعت سے منسلک رہنا اور ان کے امام سے تعلق قائم رکھنا۔
حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اگر مسلمانوں کی جماعت اور ان کا امام موجود نہ ہوں تو پھر کیا کروں؟ آپﷺنے فرمایا تو پھر سب فرقوں کو چھوڑ دے اور اگرچہ ایک درخت کی جڑ چباتے چباتے تو مر جائے۔''6
آپ کے بیان کا مقصود و مدعا یہ ہے کہ مرتے دم تک مسلمانوں کی جماعت کا ساتھ دینا اور امام کی اطاعت کرتے رہنا۔ کیونکہ اس سےطوائف الملوکی،بد نظمی اور انتشار پیدا ہوتا ہے جس سے مملکت کمزور یا مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ دیگر روایات موجود ہیں جن میں آپﷺ نے فرمایا کہ امیر کی اطاعت ہر حالت میں جاری رکھی جائے۔ فتنے وفساد کے حالات میں نبی کریم ﷺ نے ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے کی تلقین فرمائی جس میں فرد کا نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔
4. فرد اگر جماعت سے کٹ جائے تو اس میں اس کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ آپﷺ نے افراد کو فرداً فرداً بکھر جانے کی کسی صورت اجازت نہیں دی ،بلکہ اپنے آپ کو نظم میں پروئے رکھنے کا حکم دیا۔ نبی کریم ﷺ نے واشگاف الفاظ میں ہمیں متنبہ فرمایا کہ میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں نہ کاٹنے لگ جانا۔ فرمایا:
«لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ»7
''میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ۔''
فتنہ اور قتل وغارت سے گریز
1. آ پﷺ نے فتنے فساد کے دور کی نشاندہی فرمائی اور اس دور میں ایک مسلمان کے طرزِ عمل کے بارے میں راہنمائی بھی فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا:
«مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ الْتَقَيَا بِأَسْيَافِهِمَا إِلَّا كَانَ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ»8
''جب دو مسلمان آپس میں تلوار لے کرلڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔''
آپﷺ نے مقتول کے جہنمی ہونے کا سبب یہ بیان فرمایا کہ وہ بھی تو دوسرے کو قتل کرنے کے لیے تلوار لے کر نکلا تھا۔ اگر اس کا داؤ چلتا تو یہ اسے قتل کر دیتا ۔اب دوسرے کا داؤ چل گیا۔
2. نبی کریم ﷺ نے فتنے اور بد امنی کے ماحول میں خصوصی طور پر ہدایات دی ہیں۔ آپ نے فرمایا: «إِيَّاكُمْ وَالْفِتَنَ فَإِنَّ اللِّسَانَ فِيهَا مِثْلُ وَقْعِ السَّيْفِ»9
''فتنوں سے بچو کیونکہ ایسی صورت میں زبان تلوار سے بھی بد تر کردار ادا کرتی ہے۔''
3. جب مسلمانوں کے اندر فتنہ فساد پیدا ہو جائے اور اس بات کی وضاحت نہ ہو رہی ہو کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ، تو ان سب سے کنارہ کشی اختیار کر لو۔آپﷺ نے فرمایا:
«الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْقَائِمِ وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنْ السَّاعِي فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ وَاضْرِبُوا سُيُوفَكُمْ بِالْحِجَارَةِ فَإِنْ دُخِلَ يَعْنِي عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ»10
''فتنے کے زمانے میں جو شخص بیٹھا ہے وہ کھڑےہوئے شخص سے بہتر ہے اور کھڑا ہوا شخص اس شخص سے بہتر ہے جو چل رہا ہے اور جو چل رہا ہے وہ بہتر ہے اس سے جو دوڑ رہا ہو۔ ان فتنوں میں اپنی کمانیں توڑ ڈالو۔ کمانوں کے چلّے کاٹ ڈالو اور اپنی تلواریں پتھر پر مار کر کند کر دو۔ اگر کوئی فتنہ باز کسی کے گھر میں گھس آئے کہ اسے قتل کرے تو وہ ایسا ہی کرے جیسا آدم کے بیٹوں میں سے اُس نے کیا تھا جو بہتر تھا۔ ''
ان تمام فرامین کا مفہوم ومقصود یہی ہے کہ ان فتنوں میں شریک نہ ہوا جائے، اگر کوئی زیادتی کر بھی جائے تو محض امن وامان کی خاطر اس کی زیادتی کو برداشت کر لو۔
4. آپﷺ نے فرمایا: ''عنقریب ایک فتنہ پیدا ہوگا اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو گا جب یہ زمانہ آئے تو اپنی تلوار لے کر اُحد پہاڑ پر چلا جا اور تلوار کو اس پر مار یہاں تک کہ یہ ٹوٹ جائے۔11
مسلمانوں میں تعصّبات اور گروہ بندی کی مذمت اور اس کا خاتمہ
پوری دنیا میں اس وقت مختلف عصبیتوں سےزہر آلود ہو چکی ہے۔ لوگ رنگ ونسل، مذہب اور زبان کی عصبیتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان تمام عصبیتوں کا بڑی شدت سے خاتمہ فرمایا۔
1. آپﷺ نے فرمایا:
بے شک اللّٰہ عزوجل نے جاہلیت کا عیب اور اپنے آبا پر فخر کرنا تم سے دور کر دیا ہے، یعنی تمہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ انسان دو طرح کے ہی ہیں:متقی مؤمن اور دوسرا بد کردار، سخت دل والا۔ تم سب آدم کی اولاد ہواور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔''12
اس کے مقابلے میں قرآنِ مجید نے ہمیں یہ تصور دیا کہ سب مسلمان آپس میں برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر کوئی برتری نہیں کہ وہ دوسروں سے اپنے آپ کو برتر سمجھ کر اُنہیں ادنیٰ انسان سمجھنے لگے۔
2. آپﷺ نے فرمایا:''عصبیتِ جاہلیہ یہ ہے کہ تو ظلم وزیادتی کے کاموں میں بھی اپنی قوم کی حمایت کرے۔''13
گویا نبی کریمﷺ نے قوم کا ساتھ دینے کی حدیں بھی بیان فرما دیں کہ قوم کی مدد صرف اس حد تک ہو کہ قوم کا موقف حق وانصاف پر مبنی ہو۔ جتھے بندی، گروہی سیاست اور پریشر گروپ تشکیل دے کر ذاتی گروہی اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کی خاطر دوسر وں کی مدد کرنا اور جومفاد پرست اپنی قوم کی حمایت کرے وہ اس اونٹ کی مانند ہے جو کنویں میں گر پڑے اور اسے دم سے پکڑ کر باہر نکالا جائے۔14
نبی کریمﷺ اپنے فہم وفراست کی بنیاد پر اس بات سے آگاہ تھے کہ اگر پرانے قبائلی تعصبات نے دوبارہ سر اُٹھا لیا تو ان تعصّبات کو دبایا نہیں جا سکے گا۔ اس لیے آپﷺ نے بڑی سختی کے ساتھ تعصّبات کا استیصال فرما دیا ۔
ان تمام احادیث کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آپﷺ نے تمام عصبیتوں کا استیصال فرما دیا ہے۔ سیاسی مفادات اور جتھا بندی کی خاطر لسانی، علاقائی اور نسلی تعصب کو اُچھالا جاتا ہے۔ ان تعلیمات کی روشنی میں پاکستان میں قوانین تشکیل دیے جائیں کہ کسی بھی مذہبی، سیاسی جماعت اور گروہ کو اس بات کی اجازت نہ ہو کہ گروہی بنیادوں پر کوئی تحریر اور لٹریچر طبع کروائے۔ اس سلسلے میں حکومت ایک مخصوص شعبہ تشکیل دے کر یہ ذمہ داری اس کے سپرد کر دے کہ وہ کسی بھی طرح کی عصبیت اور گروہ بندی کا مواد منظر عام پر نہ آنے دے۔ موجودہ سنسر شپ کے نظام کا دائرہ وسیع کیا جا سکتا ہے۔ کوئی گروہی تحریر چھپوانے پر پابندی لگا دی جائے اور اشتعال پیدا کرنے والے مواد کو چھاپنے والے پریس کو پابند کر دیا جائے کہ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں شدید سزا دی جا سکتی ہے۔ اس طرح کا مواد تقسیم کرنے والے، لکھنے والے اور اس کام میں کسی بھی طرح کی معاونت کرنے والے کو سزا کا مستوجب قرار دیا جائے۔
اسلام بد امنی اور فتنے فساد کو ناپسند کرتا ہے۔ وہ کسی ایسی حرکت اور فعل کوروا نہیں رکھتا جو بد امنی پر منتج ہو۔ عربوں کی عادت تھی کہ جب جنگ کے لیے نکلتے تو راستے میں لوگوں کو تنگ کرتے۔ بد امنی پھیلاتے، شوروہنگامہ کرتے، لوگوں کے لیے راستہ پرچلنا مشکل ہو جاتا۔ آپ کے پاس اس کی شکایت پہنچی۔ اس پر آپﷺ نے اعلان فرما دیا:
«أَنَّ مَنْ ضَيَّقَ مَنْزِلًا أَوْ قَطَعَ طَرِيقًا فَلَا جِهَادَ لَهُ »15
''جس نے راستے کو تنگ کیا یا راہگیروں کو تنگ کیا اس کا جہاد نہیں ہو گا۔''
ابو ثعلبہ خشنی کا بیان ہے کہ اس کے بعد کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ جب کبھی فوج کسی جگہ اُترتی تو اس کا گنجان پڑاؤ دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر ایک چادر تان دی جائے تو سب اُسکے نیچے سما جائیں گے۔16
اسی طرح جنگ کے سفر کے دوران شوروہنگامہ بپا ہوتا۔ اس کا نام ہی دغی پڑ گیا تھا۔ نبی کریم ﷺنے اس طریق کار میں بھی اصلاح فرمائی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول اللّٰہ ﷺ کے ساتھ تھے جب کسی وادی میں پہنچتے تو زور وشور سے تکبیر وتہلیل کے نعرے بلند کرتے۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ لوگو! وقار کے ساتھ چلو تم جس ہستی کو پکار رہےہو، وہ نہ بہرا ہے اور نہ غائب۔ وہ تمہارے ساتھ ہے، وہ سب سنتا ہے اور بہت قر یب ہے۔17
دنیا کو شائستگی اور تہذیب سکھانے میں ان اصلاحات نے بڑا مؤثر کردار ادا کیا۔ ان تعلیمات سے لوگوں کے ذہن اس انداز سے ڈھل گئے کہ وہ معمول کی زندگی میں بھی تہذیب وشائستگی کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔نبی کریمﷺ نے وہ تمام بنیادیں مسمار فرما دیں جو باہم عداوتیں پیدا کرتی اور فتنہ فساد کا سبب بنتی ہیں۔
ابوداؤد شریف میں روایت ہے کہ صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر پر تھے۔ ایک شخص سو گیا اور کسی دوسرے نے اس کی رسّی جو وہ اپنے ساتھ لے کر سو رہا تھا، مذاق میں اٹھالی تاکہ وہ پریشان ہو۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا»18
''مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو مرعوب وخوفزدہ کرے۔''
فساد کا سبب بننے والا کام بھی نہ کیا جائے
مولانا بدر عالم میرٹھی 'ترجمان السنۃ' میں واقدی اور ابن عساکر کے حوالے سے یہ واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت خندق کے موقع پر کھدائی کر رہے تھے۔ اس وقت ان کی عمر 15 برس تھی۔ انہیں نیند آ گئی اور وہ سو رہے تھے کہ کسی نے مزاحاً اُن کے ہتھیار اٹھا لیے۔ بیدار ہونے کے بعد اُنہوں نے نبی کریم ﷺ سے شکایت کی۔ آپﷺ نے پوچھا: اس نوجوان کے ہتھیاروں کی کس کو خبر ہے؟ عمارہ بن حزم بولے کہ میں نے لیے ہیں۔ وہ اُنہوں نے واپس کر دیے۔
''آپ ﷺ نے منع فرمایا کہ کسی مؤمن کو پریشان کیا جائے اور اس کا سامان ہنسی میں یا حقیقت میں اُٹھا لیا جائے۔''20
سنن ابوداؤد میں روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
«لَا يَأْخُذَنَّ أَحَدُكُمْ مَتَاعَ أَخِيهِ لَاعِبًا وَلَا جَادًّا »21
''تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی کوئی چیز ہنسی مزاح یا اس کی اہانت کرنے یا تنگ کرنے کے لیے نہ اُٹھائے۔''
مسند بزار میں روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کا جوتا اُٹھایا اور اسے غائب کر دیا۔ وہ اس سے مزاح کر رہا تھا ،اس بات کا ذکر رسول اللّٰہ ﷺ کے سامنے کیا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا: «لَا تُرَوِّعُوا الْمُسْلِمَ ، فَإِنَّ رَوْعَةَ الْمُسْلِمِ ظُلْمٌ عَظِيمٌ »22
''تم مسلمان کو نہ ڈراؤ،بے شک مسلمان کو ڈرانا بہت بڑا ظلم ہے۔''
کسی بھی فتنے اور بد امنی کی فضا سےبچنے کے لیے اسلام کی حکمت عملی کمال احتیاط پر مبنی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کوئی شخص اسلحہ یا اور ایسی چیز جس سے کسی کو تکلیف یا زخم پہنچنے کا خدشہ ہو سکتا ہو، غیر محتاط انداز سے لے کر نہ چلے۔ابوداودمیں روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو حکم فرمایا جو مسجد میں تیر لے کر جا رہا تھا کہ وہ جب تیروں کو لے کر نکلے تو ان کی نوکوں کو پکڑ کر رکھے، ایسا نہ ہو اس کی نوک کسی کو لگ جائے۔23
مسلم شریف میں روایت ہے کہ ایک شخص تیر لے کر مسجد میں آیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ انہیں پیکانوں سے پکڑ لو۔ دوسری حدیث میں وضاحت ہے کہ پیکانوں سے پکڑ لو ایسا نہ ہو کہ کسی کو لگ جائے۔ ابوموسیٰ ؓ کہتے ہیں کہ ''خدا کی قسم! ہم نہیں مرے کہ اس کے بعد ہم نے تیر دوسروں کے منہ پر ہی مارا۔ یعنی تیر چلایا تو جنگ کے دوران ہی چلایا۔''24
اس بے احتیاطی کی عملی شکلیں ہم اخبارات میں پڑھتے رہے ہیں کہ بے احتیاطی سے بندوق صاف کرتے ہوئے سامنے والے کو گولی لگ گئی۔ نبی کریم ﷺ کے ان فرامین کا اطلاق اگر ہم اس طرح کی صورت حال پر کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص بندوق وغیرہ صاف کرتے ہوئے اس بات کی احتیاط کر لے کہ پہلے اچھی طرح دیکھ لے کہ کہیں اس کے اندر کوئی گولی تو موجود نہیں۔ اسی طرح آپﷺ کے ان فرامین کا اطلاق شادی بیاہ کے موقع پر ہونے والی آتش بازی اور فائرنگ پر بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس موقع پر خوشی اور جذبات میں کئی دفعہ من چلے نوجوان حادثات کر بیٹھتے ہیں۔ باشعور شہریوں میں اتناشعور ہونا چاہیے کہ کیا خطرناک کام کر کے ہی خوشی کا اظہار ہو سکتا ہے؟ اسی طرح بسنت وغیرہ کے موقع پر ہونے والی آتش بازی کے حوالے سے ان احادیث سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے کہ اس طرح کے مواقع پر بھی غیر ذمہ دارانہ انداز سےفائرنگ کی جاتی ہے۔
اس کے برعکس نبی کریم ﷺ نے تو مسلمان کو تلقین کی ہے کہ وہ اس بات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے کہ اگر وہ کوئی ایسی چیز دیکھے جس سے دوسرے کو تکلیف ہو سکتی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس اذیت دینے والی چیز کو راستہ سے ہٹا دے۔ اس سلسلے میں ایک روایت میں ایک پتھر ہٹانے، ایک میں ایک درخت کی ٹہنی ہٹانے جو لوگوں کو تکلیف دیتی تھی، ایک روایت میں راستے میں کانٹا ہٹا دینے پر انسان کو مغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔
گویا ان احادیث میں فرمایا گیا کہ اسلام اس بات کو بھی گوارا نہیں کرتا کہ کسی مسلمان کے ہاتھ سے غیر ارادی طور پر کسی دوسرے مسلمان کو نقصان اور تکلیف پہنچے۔ چہ جائیکہ مسلمان دوسروں کے خلاف ہتھیار بند ہو کر لڑے۔ فرمایا گیا کہ ایسا نہ ہو کہ غیر ارادی طور پر تیر کی نوک کسی کو لگ جائے اور وہ تکلیف کی حالت میں مشتعل ہو کر جوابی حملہ کر دے حالانکہ اس میں دوسرے شخص کی نیت داخل نہ تھی۔اسی طرح نبی کریم ﷺ نے ننگی تلوار لے کر چلنےسے بھی منع فرمایا۔ حضرت جابر روایت کرتے ہیں:
«نَهَى رَسُولُ الله ﷺ أَنْ يُتَعَاطَى السَّيْفُ مَسْلُولًا»25
''نبی ﷺ نے کسی کو ننگی تلوار دینے (پکڑانے) سے منع فرمایا (مبادا اس کو اچانک لگ جائے)۔''
شریعتِ اسلامیہ کا مزاج یہ ہے کہ وہ ان اسباب کا بھی تدارک کرتی ہے جو کسی خرابی کا سبب بنتے ہیں۔ زیر بحث موضوع کے حوالے سے نبی ﷺ کا یہ حکم بڑا اہم ہے کہ آپ نے فتنے فساد کے زمانے میں ہتھیاروں کے عام کا روبار کو ممنوع قرار دیا ہےتاکہ فساد کی جڑ کٹ جائے۔
نبی کریمﷺ کے احکام پر عمل درآمد کرانا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس بنا پر یہ اُصول اَخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فتنے فساد کے زمانے میں ہتھیاروں کی تیاری، ان کی خریدوفروخت پر سرکاری طور پر پابندی لگا دے۔ اگر تحفظ کے لیے اسلحہ عوام کی ضرورت ہو تو اسے محدود دائرے میں خصوصی اجازت اور لائسنس کے ساتھ ان کے درست استعمال کی ضمانت کے ساتھ اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اسلحہ کی سمگلنگ روکنا بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام یہ بات گوارا نہیں کرتا کہ اسلحہ کی نمائش کی جائے۔ نمائش کے دوران کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔ ایسا اکثر اسلحہ کی نمائش کے دوران ہوتا ہے، ان احادیث میں اس بات کی واضح ممانعت موجود ہے۔ اس رجحان کا ایک مزید برا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ اگر دوسرا فریق بھی اسی طرح اسلحہ لیکر نکل آئے تو فساد برپا ہو سکتا ہے۔ اسلحہ کی نمائش کا برا نتیجہ یہ بھی ہے کہ دوسرے کو مرعوب کرنا غرور اور تکبر کا مظاہرہ بھی ہے۔
مل جل کر زندگی گزارتے ہوئے لوگوں کے درمیان اختلافات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کے لیے بڑے انعام کا ذکر فرمایا جو باہمی نزاعی معاملات میں ضبط وتحمل اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے کشیدگی سے اجتناب کرتا ہے۔بلکہ اس موقع پر تو شریعت اسلامیہ میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے اگر کچھ جھوٹ بھی بولنا پڑے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ مسلم شریف میں روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَنْمِي خَيْرًا أَوْ يَقُولُ خَيْرًا»26
''وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں میں صلح کروائے اور بہتر بات کہے۔''
صلح کے لیے جھوٹ بولنے کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ صلح کروانے والا دنوں فریقوں کو عمدہ اور صلح کی طرف آگے لے جانے والی باتیں بتلائے کہ ان کے درمیان بدگمانیاں اور اشتعال پیدا کرنے والی باتیں کم ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا:
''کیا میں تمہیں روزے نماز اور صدقے سے بھی بڑھ کر ایک عمل کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہ نے کہا کہ بتائیں۔ فرمایا: دو بندوں کے درمیان صلح کروانا۔''27
اشتعال انگیز رویے کی ممانعت
نبی کریم ﷺ نے فتنے فساد کے محرکات کا مستقل طور پر سدِ باب کر کے ان اسباب کا تدارک فرما دیا جو اس کا سبب بنتے ہیں۔اس سلسلے میں اسلام کا نظامِ اخلاق سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ غصہ وہ بنیادی جڑ ہے جو فساد کے آغاز کا سبب بنتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ غصے کو قابو میں رکھنے والے اللّٰہ کو بہت محبوب ہیں۔ فرمایا:
﴿وَالكـٰظِمينَ الغَيظَ وَالعافينَ عَنِ النّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ المُحسِنينَ ﴿١٣٤﴾... سورۃ آل عمران
''وہ لوگ جو اپنے غصہ پر قابو رکھتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اور اللّٰہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔''
قرآنِ مجید اور احادیثِ نبوی میں واضح کیا گیا ہے کہ غصہ شیطان کے اشتعال کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿وَإِمّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطـٰنِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللَّهِ...﴿٢٠٠﴾... سورۃالاعراف
''جب شیطان تمہارے دلوں میں اشتعال پیدا کرے تو تم اللّٰہ کی پناہ طلب کیا کرو۔''
نبی کریمﷺ نے بھی اس کی توضیح فرمائی کہ شیطان اس بات سے تو مایوس ہو گیا ہے کہ اس کی پوجا کی جائے لیکن یہ لوگوں کو آپس میں بھڑکائے گا۔ فرمایا کہ شیطان اپنے کارندوں کو بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بھڑکائیں اور اس کے نزدیک سب سے بڑا مقرّب وہ کارندہ ہوتا ہے جو لوگوں کو بھڑکاتا ہے۔ اس کے کارندے اس کے سامنے اپنی اپنی کارگزاری پیش کرتے ہیں اور جن جن جرائم کا ارتکاب انہوں نے لوگوں کو اکسا کر کروایا ہوتا ہے ان کا ذکر کرتے ہیں لیکن بڑا شیطان لڑائی کے لیے بھڑکانے والے کارندے پر سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔28
نبی کریمﷺ نے دشمن کے اس وار کو ناکام بنانے کا حکم فرمایا کہ
«لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَالْغَضَبِ»29
''پہلوان وہ شخص نہیں جو بدلہ لینے میں زیادہ سخت ہو بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔''
آپﷺ نے غصے کا علاج بھی مختلف طریقوں سے بیان فرمایا۔ غصے کی حالت میں نبی کریمﷺ نے وضو کرنے کا حکم بھی دیا۔ اس سے شیطان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ غصے کی حالت میں اگر کوئی کھڑا ہے تو بیٹھ جائے۔''30
بہت سے جرائم کا محرک فوری اشتعال ہوتا ہے جسے قانون کی زبان میں Sudden Provocation کہا جاتا ہے۔ یہ کیفیت غصّے سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ قرآن نے اس کے مقابلے میں صبر، عفو ودرگزر اور احسان کی تعلیم دی اور لوگوں کو ترغیب دی کہ اگر وہ غصہ کی حالت میں انتقامی کاروائی نہ کریں تو یہ بات اللّٰہ کو بات پسند آتی ہے۔31
قرآن مجید کہتا ہے کہ ''اگرتم زیادہ کابدلہ لینا چاہو تو لے سکتے ہو لیکن اگر تم معاف کر دو تو یہ باعثِ اجر ہو گا۔'' لیکن بدلہ لینے میں بھی تمہیں اس بات کو ملحوظ رکھنا ہو گا کہ ''جس قدر زیادتی تمہارے ساتھ کی گئی ہے، بدلہ اسی قدر لیا جائے۔''32 اس سلسلے میں قرآن مجید کا نظریہ یہ ہے کہ برائی کا بدلہ برائی کی صورت میں دینے کے بجائے برائی کو اچھائی اور حسن سلوک سے مٹاؤ۔ اس طریق کار کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا بدترین دشمن بہترین دوست بن جائے گا۔''33
قرآن اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ''کسی کی زیادتی پر صبر کرجانا اپنے نتیجے کے اعتبار سے بدلہ لینے سے بہتر نتائج پیدا کرے گا۔''34
قرآن یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ ''اگر تم لوگوں کی غلطیاں معاف کرو گے تو اللّٰہ تعالیٰ تمہاری غلطیوں پر بھی پردہ ڈالیں گے۔''35
غرض قرآنِ مجید نے کسی بھی طرح کے اشتعال کی حوصلہ شکنی ہی نہیں کی بلکہ اشتعال کا سبب بننے والے کاموں کا سد باب کرتے ہوئے کسی کو گالی دینے کی ممانعت فرمائی، زبان کا غیر ذمہ دارانہ استعال ممنوع قرار دیا۔ کسی کو کافر قرار دینے سے روکا۔ لعنتی کہنے،تہمت لگانے، چغلی کرنے، کسی کا تمسخر اُڑانے، دوسروں کو حقیر جاننے، بے جاپروپیگنڈہ کرنے، افواہیں پھیلانے، کسی کو نسب کا طعنہ دینے اور دیگر مشتعل کرنے والی حرکات کی شد ت سے ممانعت کر دی گئی۔ حسد بھی اس سلسلے میں بڑا منفی کردار ادا کرتا ہے، قرآن وسنت میں اسے بھی بہت بڑا اخلاقی مرض قرار دیا گیا۔
ظلم وزیادتی کا استیصال
معاشرے میں بد امنی اور فساد بے چینی کا ایک سبب معاشرتی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں ظلم وزیادتی اور حقوق کی پامالی بھی ہے۔ ظالم اپنے اقتدار، معاشرتی برتری، یا معاشی شعبے میں بالا دستی کی بنا پر دوسروں کو زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔ ان کا استحصال کرتا ہےتو متاثرہ افراد یا طبقات احتجاج کرتے ہیں۔ اگر احتجاج غیر مؤثر ہو جائے تو وہ ظالم سے خود نمٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ بد امنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسلام اس سلسلے میں معاملات کو جڑ سے پکڑتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ حقوق کی عدم ادائیگی دنیوی اعتبار سے قابل دست انداز آئین وقانون ہے اور آخرت میں بھی قابل مؤاخذہ جرم قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اپنے آپ کو مظلوم کی بد دعا سے بچاؤ کیونکہ مظلوم کی آہ اور اللّٰہ تعالیٰ کے درمیان کوئی آڑ اور رکاوٹ نہیں ہوتی۔ آپﷺ نے فرمایا:
«انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا»36
''اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔صحابہ نے پوچھا کہ مظلوم بھائی کی تو مدد سمجھ میں آتی ہے، ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ظالم کا ہاتھ روکنا اور اسے ظلم سےباز رکھنا اس کی مدد ہے۔ ''
اس سلسلے میں شاہ ولی اللّٰہ فرماتے ہیں کہ
''جن مقاصد کے لیے انبیاے کرام کو دنیا میں مبعوث کیا گیا ان میں سے ایک عظیم مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان مظالم کو روکنے اور ان کے تدارک کے لیے تدابیر عمل میں لائیں۔ کیونکہ اگر ظلم وزیادتی کا سد باب نہ کیا جائے تو نظامِ زندگی میں ابتری واقع ہو جائے۔''37
استحصال بھی امن وامان کو تہہ وبالا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اسلام نے اس کا استیصال بھی کیا ہے اور محض نصیحت کر دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اللّٰہ کی ناراضگی اور آخرت کی مسئولیت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ قانونی تحفظات کے ذریعے استحصال کو روکا گیا ہے ۔استحصال زدہ طبقہ اندر ہی اندر اپنی کمزوریوں اور محرومیوں میں جلتا رہتا ہے۔ استحصال کرنے والوں کے خلاف ان کے دل میں لاوا پکتا رہتا ہے۔ مغرب میں سرمایہ داری کے تحت غریب کا استحصال ہوا تو کمیونزم کی شکل میں ردعمل ظاہر ہوا اور اس انقلاب میں لا تعداد انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ استحصال زدہ طبقے جب رد عمل ظاہر کرتے ہیں تو پھر کشت وخون کی ندیاں بہہ جاتی ہیں۔ اسلام نے ہر طرح کے استحصال کی راہیں بند کر دیں۔
فساد کے خاتمے کے لیے اسلام نے جو ذرائع اختیار کیے ہیں ،ان میں سے ایک مؤثر ذریعہ حدود و تعزیرات کا نظام ہے۔ اسلامی حدود کے بارے میں شاہ ولی اللّٰہ لکھتے ہیں:
''شریعت نے بعض جرائم پر حدود مقرر کی ہیں۔ یہ وہ جرائم ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں فتنہ وفساد پیدا ہوتا ہے اور مسلم معاشرے کا امن وسکون غارت ہو جاتا ہے۔ دوسرے ان جرائم کے بار بار ارتکاب سے نفس انسانی کو ان جرائم کی لت پڑ جاتی ہے۔ پھر اس جرم سے باز رکھنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثر اوقات بے چارے مظلوم کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ان مجرموں کے مقابلے میں اپنا تحفظ کر سکے۔ اگر ان جرائم کی روک تھام نہ کی جائے تو پھر ان جرائم کے خاتمے کیلیے محض آخرت کے خوف اور وعظ وتلقین سے کام نہیں چلتا بلکہ اس کیلئے سخت سزاؤں کا نفاذ ضروری ہوتا ہے تاکہ مجرم کا انجام سب کے سامنے ہو جسے دیکھ کر دوسرے لوگ جرم سے باز رہیں۔ ''38
شاہ ولی اللّٰہ اس کی وضاحت زنا کے فعل بد سے کرتے ہیں کہ اس فعل کے نتیجے میں عورت کے خاندان کو سخت رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس سلسلے میں کشت وخون ہوتا ہے۔ اس لیے شریعت نے اس کی بھی سخت سزا مقرر کی ہے۔ اگر سزا عبرتناک نہ ہوتی تواس جرم کو پھیلنے سے روکا نہیں جا سکتا تھا۔
معاشرے کو فتنے فساد سے بچانے کے لیے اسلامی حدود بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں اس سلسلے میں جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن لکھتے ہیں:
''تمام حدود کے نفاذ سے معاشرے کی حفاظت مقصد ہے کیونکہ یہ اللّٰہ کے حقوق میں سے ہے کہ اجتماعی زندگی کو محفوظ رکھا جائے۔ اسی طرح وہ تمام اُمور جن میں فقہاے اُمّت نے اللّٰہ تعالیٰ کے حق کو غالب تصور کیا ہے، ان میں اشخاص کے انفرادی حقوق کا لحاظ نہیں رکھا جاتا بلکہ اجتماعی زندگی کا مفاد پیش نظر رکھا جاتا ہے اور اشخاص کے انفرادی مفاد کو اس کے تابع قرار دیا جاتا ہے۔''39
قرآنِ مجید مختلف جرائم کا ذکر ان کی خرابیوں کے سیاق وسباق میں بیان کر کے اُن کی برائی ہمارے ذہن نشین کرواتا ہے۔ مثلاً قتل نفس کا ذکر اس انداز سے کیا:
﴿مَن قَتَلَ نَفسًا بِغَيرِ نَفسٍ أَو فَسادٍ فِى الأَرضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النّاسَ جَميعًا...﴿٣٢﴾... سورةالمائدة
''جس نے کسی جان کو بغیر حق کے قتل کیا تو اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر ڈالا۔''
ہم ذرائع ابلاغ کے ذریعے جانتے ہیں کہ ایک قتل بہت سے قتلوں کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ خاندانوں کے خاندان ختم ہو جاتے ہیں ،لیکن انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو پاتی۔ اسلام سے قبل کی زندگی اور آج کے دور کے میں مذہبی اور قبائلی تعصبات کی بنیاد پر ہونے والے قتل اس کی مثال ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید نے عمداً کسی کو قتل کرنے کی سخت ترین سزا سنائی ہے:
﴿وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خـٰلِدًا فيها وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذابًا عَظيمًا ﴿٩٣﴾... سورةالنساء ''جس نےکسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کر دیا اس کی سزا یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا اوراس پر اللّٰہ کا غضب اور لعنت ہو گی اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔''
اسی طرح قرآن حکیم میں حرابہ (رہزنی) کی سزا بھی بہت سخت رکھی ہے۔حرابہ میں کچھ لوگ مل کر منصوبہ بنا کر قتل یا ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ مسافروں اور بے گناہوں کو قتل کرنے اور ان کا سامان چھیننے کے علاوہ خوف وہراس پھیلاتے ہیں۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر 33 میں رہزنی کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
''حاکم کا فرض ہے کہ وہ راہزنوں کی جماعت کے مکمل استیصال کے لیے پوری جدوجہد کرے اور اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو اس جماعت کے سرغنہ کو قتل کروا دے۔ اکثر فقہا کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ اگر ڈاکوؤں کی جماعت طاقت پکڑ رہی ہو اور حکومت بے بس ہو رہی ہو تو اس کے گروہ کو قتل کروا دیا جائے۔''40
خریدارانِ محدث توجہ فرمائیں !
خریدارانِ محدث کو مدتِ خریدار ی ختم ہونے کی اطلاع محدث کے لفافہ پر چسپاں پتہ میں درج تحریر[مدت خریداری....... سے ختم ہو.....ہے] کی خالی جگہ پُرکرکے دی جاتی ہے ۔ لہٰذا جن حضرات کو یہ اطلاع دی گئی ہے ،از راہِ کرم اولین فرصت میں زرِتعاون بھیج کر تجدید کروائیں۔ یاد رہے ادارہ محدث کی طرف سے زرِتعاون ختم ہونے پر رسالہ بذریعہ وی پی نہیں بھیجا جاتا ۔قارئین بذریعہ بنک ڈرافٹ ،منی آرڈر،اور ایزی پیسہ زرِتعاون بھیج سکتے ہیں۔رابطہ کرتے وقت اپنے خریداری نمبرکا حوالہ ضروردیں۔ شکریہ!
حوالہ جات1. صحيح مسلم: 4525
2. جامع ترمذی: 1993
3. سنن ابو داؤد: 4836
4. صحيح بخاری: ۷۰۵۳
5. صحيح مسلم: ۴۸۹۰
6. صحيح مسلم: ۴۸۹۰
7. سنن ابو داود: ٤٢٤٤
8. سنن ابن ماجہ:۳۹۶۳
9. سنن ابن ماجہ: 3968
10. سنن ابو داؤد: 4259
11. سنن ابو داؤد: 4246
12. سنن ابو داؤد: 5116
13. سنن ابن ماجہ:3949؛سنن ابو داود:5119
14. سنن ابو داود:5117
15. سنن ابو داود:2629
16. سنن ابو داود:2628
17. صحیح بخاری : 2992
18. سنن ابو داؤد: 5004
19. تاریخ مدینہ دمشق:۱۹؍۳۱۳
20. صحیح مسلم: 5003
21. مسند بزار:٣٨١٦، ضعیف الترغیب و الترہیب:۱۶۶۱
22. سنن ابو داود:٢٥٨٧
23. صحیح مسلم:6662،6664
24. جامع ترمذی: 2163
25. صحیح مسلم: 6633
26. سنن ابو داود:4919
27. مسند احمد: ٣؍٣١٤
28. صحیح بخاری: 6114
29. سنن ابو داود:۴۷۸۲
30. آل ِعمران:١٣٤
31. النحل: 126 ﴿ وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ﴾ ''اگر تم بدلہ لو تم تو اتنا ہی جتنا تم پر زیادتی کی گئی۔'' (البقرۃ:194)؛﴿فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ﴾ ''پھر اگر کوئی تمہارے اوپر زیادتی کرے تو تم بھی اتنی ہی زیادتی اس پر کرو۔''
32. حم السجدہ: 34 ﴿اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ﴾
33. النحل: 126﴿وَ لَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ﴾ ''اگر بدلہ لینے کی بجائے صبر کرو تو یہ بات صبر کرنے والوں کے لیے انجام کے اعتبار سے بہتر ہو گی۔''
34. النور: 22 ﴿ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ﴾''کیا تم پسند نہیں کرتے کہ (تم لوگوں کو معاف کرو اور) اللّٰہ تمہارے گناہ معاف کر دے۔''
35. صحیح بخاری:2443
36. حجۃ اللّٰہ البالغہ:2؍ 611
37. حجۃ اللّٰہ البالغہ:2؍ 158
38. 'جرم و سزا كا اسلامی تصور' از جسٹس تنزیل الرحمٰن:۱۲۰
39. السیاسۃ الشرعیہ از علامہ ابن تیمیہ : ص29