ناموسِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانونِ توہینِ رسالت

ایک گراں قدر لائق مطالعہ کتاب


"ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہین رسالت"۔۔۔ اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی منفرد کتاب ہے جس میں حضور رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے اپنی بے پناہ عقیدت و محبت کے ساتھ مصنف نے اپنے موضوع اور دعویٰ کے ثبوت میں قرآن و سنت ، قانون و نظائر اور تاریخ کے حوالہ سے علمی حقائق کو متكلمانه انداز میں پیش کیا ہے۔مصنف کتاب جناب محمد اسماعیل قریشی، پاکستان کے ممتاز اور معروف قانون دان ہیں جن کا طبقہ و کلاس بہت بلند ہے اور اسلامی کاز کی وکالت کے حوالے سے وہ مقبولِ عوام بھی ہیں۔ موصوف کو نہ صرف موجودہ قوانین پر دسترس حاصل ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کا وسیع مطالعہ اور بنیادی انسانی حقوق پر ان کی گہری نظر ہے۔ مسلم ماہرینِ قانون کی عالمی تنظیم کی جانب سے بلادِ اسلامیہ اور یورپ کی علمی اور فکری کانفرنسوں میں انہوں نے اس نقطہ نظر کو بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اسلام ہی کی بدولت دنیا انسانی حقوق سے آشنا ہوئی ہے۔

زیر نظر کتاب میں ناقابل تردید دلائل سے یورپ اور یورپ سے مرعوب ذہنیت کے اس غلط تاثر کو دور کیا گیا ہے کہ "قانون توہین رسالت ، بنیادی حقوق انسانی کے منافی ہے۔" بلکہ پُر زور استدلال سے اس حقیقت کو ذہن نشین کرانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے کہ یہ قانون انسانی عظمت و تکریم (Dignity of Man) کے لئے فی الحقیقت ضرروی ہے جو یو-این کے چارٹر کی ایک نہایت اہم شق ہے۔ فاضل مصنف نے پاکستان میں اسلامی قانون کے نفاذ کے لئے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ اعلیٰ عدالتیں بھی پیچیدہ اور اہم اسلامی قانونی نکات کی تعبیر اور تشریح کی خاطر اپنی معاونت کے لئے انہیں بلاتی رہتی ہیں لیکن توہینِ رسالت کے قانون کی تنفیذ کے لئے انہوں نے جس جانفشانی اور محنت سے اور اعلیٰ جذبہ اور ولولہ سے اس مقدمہ کی وکالت کا حق ادا کیا ہے وہ ان کی ایمانی بصیرت کی دلیل ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کتاب اسی مقدمہ کی دل نشین اور دلچسپ روداد ہے۔ اس کتاب کی تقاریظ بھی سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ اور ہائی کورٹ کے سر بر آوردہ جج صاحبان کے علاوہ اسلامی فکرونظر کے پرجوش داعی پروفیسر مرزا محمد منور اور ایک روحانی دینی شخصیت سید نفیس حسینی شاہ نے لکھی ہیں۔ ان سب حضرات نے کتاب کی اصل روح کو قاری پر منکشف کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج جناب جسٹس محمد رفیق تارڑ جن کا نام ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی عقیدت اور عدلیہ کے وقار کی علامت ہے، نے اس کتاب پر نہایت جامع پیش لفظ لکھا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:

"تاجدارِ ختم نبوت کی غلامی اور ان کی حرمت اور ناموس پر کٹ مرنا ہر مسلمان کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہے اور یہ کتاب اسی رمز مسلمانی کی تفسیر بن کر ہمارے ہاتھوں تک پہنچی ہے"

کتاب کے بارے میں اپنی جچی تُلی رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے:

"قرآن و حدیث کے اوامر و نواہی انتہائی معظم اور حیات و کائنات سے متعلق ہیں قانون کا معاملہ، جب تاریخ درمیان ہو تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ جہاں قدم قدم پر حزم و احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ فاضل مصنف نے ادب کی آمیزش اور خاص اسلوبِ نگارش سے ان سارے موضوعات کو دل نشین اور آسان بنانے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ اس کتاب کا خصوصی وصف اور امتیاز یہ ہے کہ اس میں قانون و ادب اور تاریخ کو قرآن و سنت کے سایہ میں ایک عظیم تر مقصد یعنی ناموشِ رسالت کے تحفظ کے لئے یک جا کر دیا گیا ہے۔۔۔ فاضل مصنف نے نلاس فیمی سے متعلق امریکن سپریم کورٹ کے ایک معرکة الآراء فیصلہ کا اقتباس بھی اس کتاب میں شامل کر دیا ہے جس میں بلاس فیمی قانون کو بنیادی حقوق انسانی ، آزادی تحریر و تقریر اور آزادی پریس کے منافی قرار دینے کی سٹیٹ اپیل کو مسترد کر دیا گیا تھا۔۔۔ یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی نہایت اہم اور فکر انگیز ہے کہ یہ اس ملک کی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے جہاں چرچ اور سٹیٹ، دین اور سیاست جُدا جُدا ہیں"

فیڈرل شریعت کورٹ کے عالم جج جناب جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان اپنی تقریظ میں فرماتے ہیں:

"تاریخ شاہد ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان نے بھی اپنے خونی رشتہ داروں کے ضمن میں چشم پوشی یا عفو ودرگزر سے کام لیا ہو گا مگر ختم المرتبت رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کبھی بھی رو رعایت کا روادار نہیں ہوا، اس لئے اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں حدودوقصاص اور تعزیرات کے ضمن میں جرائم کی مختلف اقسام کے لئے سزائیں موجود ہیں، ان میں گستاخِ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی قرارِ واقعی سزا موجود ہو تاکہ نہ امن و امان کا کوئی مسئلہ کھڑا ہو اور نہ فدایانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی آزمائش سے دوچار ہوں"

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ توہین رسالت کے مقدمہ میں جناب اسماعیل قریشی فیڈرل شریعت کورٹ میں بطور مدعی اور وکیل پیش ہوئے اور اس کے فیصلہ میں جناب جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خاں بطور ممبر فل کورٹ شامل رہے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس میاں مھبوب احمد نے "حدیثِ دل" کے عنوان سے زیر نظر کتاب کے بارے میں جن خیالات اور احساسات کا اظہار کیا ہے، ان سے انہوں نے صحیح کہا ہے:

"یہ کتاب جمالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دلکش تذکرہ اور قانون توہیش رسالت کا تاریخی مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ مسلمانوں میں اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی اور گہری وابستگی پیدا کرے گا اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے نبٹنے کے لئے انہیں تیار کرے گا، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے کامل وابستگی کے بغیر دین کا دفاع ممکن نہیں"

ملک کے مایہ ناز وارثِ لوح و قلم جناب پروفیسر مرزا محمد منور نے ایک نئی جہت سے کتاب کے مطالعہ کی دعوت دی ہے۔ اپنے مخصوص ادیبانہ طرز نگارش سے بیسویں صدی کی مادی عقلیت پسندی کی پیدا کردہ محرومی کا علاج یہ بتلایا ہے کہ امت کی روحوں میں سوزِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تپش تیز کر دی جائے۔ جناب محمد اسماعیل قریشی کی زیر نظر تصنیفِ نفیس و لطیف اس امر کی جانب ایک مخلصانہ کوشش ہے۔

پیر طریقت سید نفیس حسینی شاہ کا کتاب کے بارے میں تبصرہ نہایت وقیع ہے۔ فرماتے ہیں:

"ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ اور گستاخِ رسول کی سزا کا مسئلہ قرنِ اول ہی سے مسلسل و متواتر اور قطعی و اجماعی چلا آ رہا ہے۔ قریشی صاحب نے قانونِ توہینِ رسالت کے سلسلہ میں، عدالت کے ایوانوں میں اپنے قوی عقلی اور شرعی دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب کی سزا موت اور صرف موت ہے"

مصنف نے کتاب کا آغاز، اپنے ایک حاصل زندگی خوابِ جمیل سے کیا ہے جس میں انہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفشِ پا کی زیارت نصیب ہوئی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں اس حقیقت کو دل نشین پیرایہ اظہار میں بیان کیا ہے کہ مسلمانوں کی کائناتِ ہستی کا محور و مرکز ذاتِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس سے ان کا اپنا اور ان کی ملت کا وجود اور تشخص وابستہ ہے۔ اس لئے وہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور ناموس پر دنیا کی ہر چیز حتیٰ کہ اپنی جان عزیز بھی قربان کرنے کو دنیا کی سب سے بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔ مسلمان دنیا میں جہاں کہیں ہوں۔۔۔ رنگ، نسل، زبان، ملک و نسب کے اختلاف کے باوجود اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی کی وجہ ہی سے ایک دوسرے سے وابستہ اور پیوستہ ہیں جو ایک ایسی زندہ قوت ہے جس سے یورپ اور امریکہ کی عالمی طاقتیں خوف زدہ اور لرزہ براندم ہیں۔ انہوں نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ قوت جبرو قہر کی مظہر نہیں بلکہ اسلام کی اجتماعی طاقت دنیا کے لئے امن و سماتی کا پیغام ہے اور اسی قوت نے دنیا کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم و حکمت کی روشنی سے منور کیا ہے۔

"ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قانون توہینِ رسالت" سات ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب میں موضوع کی مناسبت سے عنوانات قائم کئے گئے ہیں۔ پہلے باب میں نام و ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ثبات میں اسلامی منابع کے علاوہ نہ صرف الہامی اور غیر الہامی مذاہب کی مقدس کتابوں (توریت، زبور، انجیل، سام وید، اتھروید) سے شہادت پیش کی گئی ہے بلکہ اس بارے میں غیر مسلم منتخب روزگار شخصیتوں کے تاثرات بھی قالم بند کئے گئے ہیں۔ دوسرا اور تیسرا باب قانون توہینِ رسالت سے متعلق ہے جس میں اس قانون کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا جس پر سیر حاصل بحث نہ کی گئی ہو۔ مصنف نے کمالِ ہُنر مندی سے ان ابواب میں عہد نبوی، دور خلافت، ایشیاء اور یورپ میں مسلمانوں کے دور حکومت کے فیصلے، فقہائے امت اور علمائے جدید و قدیم کے فقیہانہ اجتہاد کے سمندر کو گویا کوزہ میں بند کر دیا ہے، چوتھے باب میں اہانتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورِ ارتداد زیر بحث لایا گیا ہے۔ ارتداد کی سزا کے بارے میں ایک سابق چیف جسٹس پاکستان ایس اے رحمان کے افکار و خیالات پر کڑی تنقید کی گئی ہے اور صحیح اسلامی نقطہ نظر کو واضح کیا گیا ہے۔ کتاب کے باب پنجم میں قانونِ توہینِ رسالت کا بینُ الاقوامی اور بینُ الممالک قوانین کے تناظر میں تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ قانون توہین رسالت کوئی نیا قانون نہیں ہے بلکہ انجیلِ مقدس میں بھی توہین انبیاء کے جرم کی یہی سزا مقرر ہے۔ یورپ، امریکہ اور روس میں بھی صدیوں تک یہ قانون رائج رہا ہے۔ برطانیہ میں اب تک یہ قانون سزا کی ترمیم کے ساتھ وہاں کے کامَن لاء کا حصہ ہے۔ اس باب میں انہوں نے بڑے پتہ کی بات کہی ہے کہ ان ملکوں میں اب خدا یسوع مسیح علیہ السلام اور پیغمبر کی جگہ سٹیٹ نے لی ہے جس سے غداری اور ارتداد کی سزا موت مقرر ہے۔ باب ششم میں توہین رسالت کی مقدمات اور قبل از تقسیم ہند اور پاکستان کے مشہور مقدموں کے فیصلوں کی تفصیلات درج ہیں۔ ان میں اس معرکة الارا مقدمہ کا فیصلہ مکمل متن کے ساتھ شامل ہے جو مصنف نے فیڈرل شریعت کورٹ میں دائر کیا تھا اور اس پٹیشن پر سپریم کورٹ، ہائی کورٹس کے نامور سابق جج صاحبان، دینی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کے دستخط موجود ہیں جن کے اسمائے گرامی بھی اس پٹیشن پر درج ہیں۔ اسی مقدمہ کا فیصلہ موجودہ قانون توہین رسالت کی بنیاد ہے۔ ساتواں باب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ میں شیدایانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے جن کا سلسلہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے شروع ہو کر مولانا محمد علی جوہر رحمة اللہ علیہ، قائداعظم رحمة اللہ علیہ، اور علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ پر ختم ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ ان شہیدانِ رسالت کی خونچکاں داستان ہے جو عہد نبوت سے لے کر دور حاضر تک نام و ناموس رسالت پر جی جان سے قربان ہو گئے جن میں بچے، بوڑھے، جوان مرد اور عورتیں سبھی شامل ہیں۔ اس میں بعض ایسے فدایانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ بھی موجود ہے جو ماضی کے گرد وغبار میں نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ ان سب کی سرگذشت بڑی حسین اور حیات افروز ہے۔ ایک گم نام شہید کا واقعہ جو سر شفیع کے حوالہ سے برطانوی دور کی عدلیہ سے متعلق ہے نہایت دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ مصنف نے اپنی کتاب کا انتساب بھی ماضی و حال اور استبال کے شہیدانِ رسالت کے نام کیا ہے۔ اس طرح اس کتاب کے موضوع کی تمام کڑیاں ایک دوسرے سے مربوط ہو گئی ہیں۔ اس کتاب کی ایک اور بات جو قابل زکر ہے وہ یہ کہ اندلس کے چیف جسٹس ابوالفضل عیاض رحمة اللہ علیہ نے ایک ہزار سال قبل اور مجددِ اسلام امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے سات سو سال قبل اس موضوع پر "كتاب الشفا" اور "الصارم المسلول علي شاتم الرسول" جیسی مستند اور بے مثل کتابیں تصنیف کی ہیں لیکن یہ کتابیں عربی زبان میں مسلمانوں کے دورِ اقتدار و عروج میں لکھی گئیں تھیں، اس لئے ان میں وہ تنقیحات زیرِ بحث نہیں آ سکیں جو بیسیوں صدی کے لادینی ذہن کی پیداوار ہیں جن کا زیر نظر کتاب میں احاطہ کیا گیا ہے اور تمام اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ سلمان رُشدی کی مردہ متعفن کتاب "شیطانی خرافات" کا ایک ماہر سرجن کی طرح پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے جس سے یورپ کی معتصبانہ ذہنیت کے چھپے ہوئے گوشے بھی ظاہر ہو گئے ہیں۔

کتاب میں کچھ فروگذاشتیں بھی ہیں جن کا ذکر ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ اسپین کی اسلامی سلطنت میں شمانتِ رسول کے جرم و سزا کے واقعات کا مخذ متعصب عیسائی مؤرخین کی کتابیں ہیں۔ اگرچہ مصنف نے ان کے بارے میں وضاحتی نوٹ لکھ دیا ہے لیکن ان پر پوری طرح جرح و تنقید سے کام نہیں لیا گیا۔ بعض کتابت کی غلطیاں بھی ہیں۔ صفحہ 408 پر سال 1909 ہجری درج ہے جو غالبا 1409 سن ہجری ہو گا۔ اچھا ہوتا اگر مصنف حوالہ جات کو کتاب کے آخر میں دینے کی بجائے متعلقہ صفحہ پر فُٹ نوٹ کے طور پر درج کرتے تاکہ قاری کو ریفرنس معلوم کرنے میں سہولت ہوتی۔ ہمیں امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن تمام فروگذاشتوں سے پاک ہو گا۔

کتاب کی زبان شُستہ، پاکیزہ اور کوثر و تسنیم میں دُھلی معلوم ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو یہ ساقی کوثر کے باب میں رقم ہوئی ہے۔ کتاب کی ظاہری خوبیاں بھی دل آویز ہیں۔ سرورق مُوجد صاحب جیسے استادِ فن آرٹسٹ کے موئے قلم کا نتیجہ ہے۔ جو بہت ہی دلکش اور جاذبِ نظر ہے، اس میں شانِ نبوت کے جلال و جمال کو رنگوں کی زبان میں ظاہر کیا گیا ہے۔ الفصیل پبلیشرز اردو بازار لاہور نے کتاب کو بڑی آب تاب کے ساتھ شائع کیا ہے۔ 470 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت ظاہری اور باطنی خوبیوں سے آراستہ ہونے کے باوجود -/130 روپے رکھی گئی ہے جو ہر خاص و عام کے استفادہ کے لئے نہایت موزوں اور مناسب ہے۔

حکایت چونکہ لذیذ تھی، اس لئے دراز تر ہو گئی۔ حرفِ آخر کے طور پر ہماری دیانت دارانہ رائے بھی سپریم کورٹ کے لائقِ احترام جسٹس محمد رفیق تارڑ کی طرح یہی ہے اس کتاب سے اہلِ قانون اور عدلیہ دونوں براہِ راست استفادہ کر سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ علم و دانش کے خوشہ چین حضرات کے لئے بھی اس میں معارف اور بصائر کے خزینے موجود ہیں۔ اور ہر مسلمان کے لئے اس کا مطالعہ ایمان افروز ہو گا۔ غیر مسلم میں بھی اگر حقیقت پسندی سے اس کا مطالعہ کریں تو قانون توہینِ رسالت کے بارے میں ان کی غلط فہمیاں دور ہوں گی۔ اس کتاب کو ہر لائبریری کی زینت ہونا چاہیے۔ یونیورسٹی اور کالج کے طلباء، سیاست داں، سفارت کار، دانشور، اربابِ صحافت اور تمام مکاتبِ فکت کے اصحاب کے لئے یہ ایک لائق مطالعہ کتاب ہے۔ اگر اسے مبالغہ پر محمول نہ کیا جائے تو یہ تصنیف بھی موجودہ صدی کے ان تصانیف میں شمار ہونے کے لائق ہے جو مسلمان مصنفین کی جانب سے آئندہ صدی کے لئے گراں مایہ سوغات ہیں۔