اتباع سُنّت کے لیے قرآن کے ساتھ صحیح مرفوع احادیث کافی ہیں

إن الحمد للہ، نحمدہ و نستعینه و نستغفرہ ، و نعوذ باللہ من شرور أنفسنا،و سیاٰت أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل له، ومن یضلل فلا ھادي له و أشھد أن لا إلٰه إلا اللہ وحدہ لا شریك له، و أشھد أن محمد اعبدہ و رسوله، و صلاة اللہ و سلامه علیه، وعلی اٰله وصحبه و إخوانه أجمعین إلیٰ یوم الدین۔ أمابعد

اس کتاب کا جب ساتواں ایڈیشن ختم ہوگیا او رکتاب کے طبع کرانے کا مطالبہ زور پکڑ گیاتو میں نے ضروری سمجھا کہ اصرار کرنے والوں کی خواہش کا احترام کیا جائے چنانچہ کتاب کا آٹھواں ایڈیشن قارئین کی خدمت میں پیش کرنے پر مسرت محسوس کررہا ہوں اور پُرامید ہوں کہ اس کے محتویات سے تمام عالم اسلام کو مستفید ہونے کا موقع ملے گا۔

یہ ایڈیشن جو آپ کے زیر مطالعہ ہے سابقہ ایڈیشنوں کی طرح اہم نادر اور جدید معلومات پرمشتمل ہے۔ اس کو توجہ اور محنت شاقہ کے ساتھ منقح کرکے خوبصورت ، پُرکشش انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ شاید قارئین کی دلچسپی میں اس انکشاف سے مزید اضافہ ہو کہ مجھے کتب حدیث کی ورق گردانی اور مسلسل مطالعہ کا بے پناہ اشتیاق دامنگیر ہے چنانچہ مجھے دوران مطالعہ جو اہم معلومات مطبوعہ، غیر مطبوعہ مخطوطوں وغیرہ سے دستیاب ہوئے قارئین حضرات کےمعلومات میں اضافہ کرتے ہوئے انہیں اس ایڈیشن میں سمو دیا ہے اس کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی بے بضاعتی او رکم مائیگی کا پورا پورا احساس ہے اور ارشاد خداوندی ''ومآ أوتيتم من العلم إلا قليلا'' (بنی اسرائیل اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے'' ہروقت ملحوظ خاطر رہتا ہے نیز اس ایڈیشن کے آخر میں مراجع، مصادر کی فہرست بھی شامل کردی گئی ہے۔

کتاب کے چوتھے ایڈیشن کے بعد شیخ حمود بن عبداللہ تو یجری حنبلی نجدی کی تالیف ''التنبيهات علیٰ رسالة الألباني في الصلوٰة'' نظر سے گزری شیخ کا یہ رسالہ چھوٹے سائز کے صرف ستاون صفحات پر مشتمل 1387ھ میں طبع ہوا اسی سال میری اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن اشاعت پذیر ہوا۔

چونکہ اس رسالہ میں اس کتاب پر ناقدانہ تبصرہ تھا اس لیے میں نے پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ اس کا گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ شیخ حمود تویجری نے میری کتاب کے تیرہ مسائل کو مبحث بنایا ہے جن میں چار مسائل کا تعلق کتاب کے حواشی سے ہے۔

چنانچہ میں نے پورے حزم و احتیاط کے ساتھ نہایت بسط اور تفصیل کے ساتھ اس کا ردّ لکھا جس کے صفحات شیخ کے رسالہ سے تین گناہ تھے۔

شیخ کے رسالہ کے مطالعہ کے دوران مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ شیخ صاحب متعصب حنبلی ہیں او رعلم حدیث رجال طرق علل وغیرہ میں کوئی خاص درک نہیں رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جن دوسرے مسائل میں مناقشہ کیا ہے او رمجھ پر زبان دراز کی ہے ان میں وہ راہ صواب سے بھٹک گیا ہے اگرچہ میرا دلی ارادہ یہی تھا کہ ان مسائل کو تفصیل سے بیان کیا جائے اور اس کے غلط مؤقف کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے لیکن مقدمہ چونکہ طوالت کامتحمل نہیں ہوا کرتا اس میں اشارات سے ہی مؤقف کو پیش کرنا ہوتا ہے اس لیے اشارات پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔

البتہ مثال کے طور پر ایک مسئلہ ذکر کرتا ہوں تاکہ قارئین کو معلوم ہوجائے کہ شیخ تویجری کا مبلغ علم کیا ہے؟ اور سنت کے بارے میں اس کی معلومات کا دائرہ کس قدر وسیع ہے۔

مثال: مذکورہ رسالہ کے صفحہ 14۔17 پرمرقوم ہے کہ عبداللہ بن عباس سے مروی حدیث کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا مسنون ہے۔ میں ایک روایت میں زیادتی کہ فاتحہ کے ساتھ کسی دوسری سورت کا بھی اضافہ مسنون ہے۔ کمزور ہے۔ دراصل ان کا روئے سخن میری جانب ہے کہ میں نے اس کتاب کے چوتھے ایڈیشن صفحہ 103 پر اس زیادتی کا ذکر کیاتھا۔

شیخ تویجری نے زیادتی کو صرف ضعیف ہی نہیں کہا بلکہ اس کو شاذ قرار دیا ہے اس لیے کہ ہثیم بن ایوب راوی اگرچہ ثقہ ہے لیکن وہ دورے ثقہ راویوں کی مخالفت کررہا ہے جبکہ وہ اس زیادتی کے ذکر کرنے میں منفرد ہے۔

شیخ تویجری کا رَد: اللہ پاک شیخ صاحب کو راہ صواب پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اس لیے کہ اگر وہ تحقیق کرتے تو ان پر حقیقت آشکارا ہوجاتی۔

سنئیے: ہثیم بن ایوب اس زیادتی میں منفرد نہیں ہیں بلکہ چار ثقہ راوی اس کی متابعت کررہے ہیں۔ ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ ان کے نام اور تخریج پیش کرتے ہیں۔

1۔ سلیمان بن داؤد ہاشمی کی متابعت کو ابن الجارود نے المنتقیٰ رقم (537) میں ذکر کیا ہے۔

2۔ ابراہیم بن زیاد الخیاط البغدادی کی متابعت بھی المنتقیٰ (537؍2)میں موجود ہے۔

3۔ محرز بن عون ہلال کی متابعت کو ابو یعلیٰ الموصلی نے مسند (ق 141؍2) میں ذکر کیا ہے۔

4۔ ابراہیم بن حمزہ زبیری کی متابعت کو بیہقی نے سنن کبریٰ 4؍38) میں ذکر کیا ہے۔

ملحوظ خاطر رہے کہ جن متابعات کا ذکر اوپر ہوا ہے وہ تمام صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں خصوصیت کے ساتھ تیسری معابعت کی صحت کا امام نووی نے صراحتاً ذکر کیا ہے۔ ان سے حافظ ابن حجر عسقلانی نے نقل کرکے اس کی صحت کا اقرار کیا ہے۔ پس ان چار ثقہ رواۃ کی متابعت کے بعد شیخ تویجری کا دعویٰ (کہ ہثیم بن ایوب اس زیادتی کےساتھ منفرد ہے) اس قابل ہے کہ اس کی طرف التفات بھی نہ کیا جائے مزید کچھ کہنے سے ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں اور فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

دوسرے طریق سے متابعت

ان چاروں متابعتوں میں عبداللہ بن عباس سے طلحۃ بن عبداللہ بن عوف راوی ہیں ۔ ان کے علاوہ ایک دوسری متابعت میں عبداللہ بن عباس سے زید بن طلحہ راوی ہیں ان کی روایت میں بھی زیادتی کاذکر ہے۔ اس متابعت کو عبداللہ بن محمد بن سعید بن ابی مریم نے مااسند سفیان بن سعید الثوری: میں او رابن الجارود ن ےالمنتقیٰ میں صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

شاھد: اس زیادتی کی صحت پر اس عام حدیث کی شہادت کفایت کرتی ہے او رتقویت میں مزید اضافہ ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ اور ایک دوسری سورت پڑھنے کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ نماز جنازہ بھی نماز ہے۔ لہٰذا وہ بھی اس عام حکم میں شامل ہوگی بلکہ اسی حدیث کی بناء پر شیخ تویجری کےحنبلی رفقاء نماز جنازہ میں سورت فاتحہ کے پڑھنے کو واجب کہتے ہیں۔

اس حدیث سے نماز جنازہ میں سورت فاتحہ کے بعد کسی دوسری سورت کے پڑھنےکی مشروعیت ثابت ہورہی ہے۔ امام شوکانی نے بھی نیل الاوطار میں اس کاذکر کیاہے ان دلائل کی روشنی میں اگر کہا جائے شیخ تویجری ان دلائل سے بے خبر نہ تھے چونکہ یہ دلائل ان کے مذہب کے خلاف تھے۔ اس لیے انہوں نے ان کو قابل اعتناء نہ سمجھا۔ واللہ اعلم

حقیقت یہ ہے کہ جمود فکری، مذہبیت او راس سے مدافعت سخت خطرناک بیماری ہے۔تمام اسلامی ملکوں میں اس کے جراثیم موجود ہیں۔ کھلے بندوں سنت کا استخفاف ہورہا ہے او رمذہبی تعصب کے پیش نظر امام کے قول کوسنت پر فوقیت دی جارہی ہے۔ إلامن عصم الله و قليل ماهم، البتہ فضیلۃ الشیخ تویجری کا شکریہ ادا کئے بغیر نہیں رہ سکتا جبکہ (بقول اس کے) اس نے میری کتاب کا بغور مطالعہ کیااور قارئین کی خیر خواہی کے جذبہ کے پیش نظر اس نےاغلاط کی نشاندہی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی حالانکہ جن اغلاط کی نشاندہی میں اس نے پورا زور صرف کردیا ہے ان میں اس کا مؤقف صحیح نہیں ہاں صرف چار مسائل می|ں اس کی رائے صائب ہے اور میں اس کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے مؤقف کو چھوڑ کر اس کامؤقف اختیار کرتا ہوں اورمجھے اس میں کچھ حجابنہیں ہے ۔ ذیل میں ان کاذکر کیا جاتاہے۔

چار مسائل

مسئلہ اوّل: اس نے رسالہ میں تحریر کیا کہ میں نے تشہد کی دعا میں المأثم والمغرم کا معنی گناہ اور معصیت کیا ہے اس کا کہنا صحیح ہے لیکن میں نے طبع ثالث میں اس سے رجوع کرلیا تھا اور شیخ کا رسالہ اس کے چھ سال بعد طبع ہوتا ہے پس اس کی جانب سے تنبیہ کرنا درست ہے لیکن اس کی تنبیہ سے قبل ہی میں نے طبع ثالث میں اس معنی کو بدل دیا تھا پس اس کا اعتراض لغو ہے۔

مسئلہ ثانی: اس نے مجھے متنبہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ میں نے اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے مقدمہ میں نماز کو اسلام کا سب سے بڑا رکن قرار دیاہے۔ حالانکہ مجھے مقید کرنا چاہیے تھاکہ شہادتین کے بعد نما زسب سے بڑا رکن ہے۔ مجھے شیخ کی رائے سے اتفاق ہے اور (دع ما يريبك إلیٰ مالا يريبك) شک کو چھوڑ کر یقین کو اختیار کرنا چاہیے، کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بات واضح انداز میں پیش کی جائے اس سلسلہ میں اگر میں یہ مؤقف اختیار کروں کہ جو ارکان اعمال پرمشتمل ہیں ان میں نماز سب سے بڑا رکن ہے تو اس سے اگرچہ کسی حد تک وضاحت ہوجاتی ہے اور اعتراض ختم ہوجاتا ہے۔ تاہم اپنے فاضل دوست کو خوش رکھتے ہوئے میں نے اس سے اگلے ایڈیشن میں اس کو مقدمہ میں قلم زد کردیا جس میں تقیید نہ تھی اور (شبهات وجوابها) کے عنوان میں تقیید کا ذکر کردیا ہے تاکہ اعتراض کی کچھ گنجائش باقی نہ رہے۔

مسئلہ ثالث: والشرليس إلیك کا ترجمہ اولاً میں نے یہ کیا کہ شر اللہ کا فعل نہیں ہے۔ لیکن فضیلۃ الشیخ کی تحقیق کو صحیح باور کرتے ہوئے میں نے اس جملہ کے معنی کو بدل دیا کہ (اللہ کے افعال میں شر نہیں ہے ) اگرچہ ان دونوں معنوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں تاہم میں نے اپنا مؤقف چھوڑ دیا۔

مسئلہ رابع: سجدہ کی رفع الیدین معلق روایت میں البدائع سے نقل کرتے ہوئے راوی کا نام (ابن الاثرم) تحریر کیا حالانکہ صحیح (الاثرم) ہے جیسا کہ شیخ نے اس کاذکر کیا اثرم کا نام احمد بن محمد بن ہائی الطائی ہے او رکنیت ابوبکر ہے واللہ اعلم۔

ان مسائل کے علاوہ شیخ کے دیگر بیان کردہ اعتراضات کے تفصیلی جواب دینے کی ہم اللہ سے توفیق طلب کرتے ہیں تاکہ دلائل کی روشنی میں ان کا رد ہوسکے۔ اس سلسلے میں امام احمد کی جانب منسوب کردہ رسالہ (الصلوٰۃ) کے بارے میں اس سے پہلے ایڈیشن میں بھی ہم نے ذکر کیا تھا کہ اس کی نسبت امام احمد کی طرف درست نہیں چنانچہ اس کے بارے میں امام ذہبی کاقول (کہ اس کی نسبت امام احمد کی جانب خلاف واقعہ ہے) حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔

آخر میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے ملتجی ہوں کہ وہ اس ایڈیشن کو پہلے ایڈیشنوں سے زیادہ شہرت عطاء فرماوے او راس کی اشاعت میں اضافہ فرمائے اور مکتب اسلامی کے مدیر فاصل استاد زہیر شادیش کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ میرے اور اس کے نامہ اعمال میں اجر و ثواب ثبت فرمائے۔ یقیناً اللہ پاک ہی اس لائق ہیں کہ ان سے التجا کی جائے۔

ان چند سطور کے بعد اب ہم کتاب کے مقدمہ میں اہم فوائد ذکر کریں گے اور کتاب کے تالیف کا سبب نیز اس کے دقیق منفرد منہج علمی اور دیگر فوائد سے روشناس کرائیں گے۔

میں نے مقدمہ (13؍6؍1370ھ) کومرتب کیا اور اس کے ساتھ اہم فصل (شبہات و جوابہا) کا اضافہ (30؍5؍1381ھ) کو کیا اللہ کے فضل و کرم سے مقدمہ کے مطالعہ سے بہت سے نیک انسانوں کو فائدہ حاصل ہوا۔ دُعا ہے کہ اللہ پاک قیامت کے روز ہمیں ان کی معیت میں رسول پاکﷺ کے جھنڈے تلے جگہ عطا فرمائے۔ آمین

۔۔۔:::::۔۔۔۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

تمام حمد و ثنا اس اللہ پاک کے لیے ہے جس نے اپنے بندوں پر نماز فرض کی او رانہیں اس کے قائم کرنے او راچھے طریق سے ادا کرنے کا حکم دیا اس کی قبولیت کو خشوع، خضوع پر موقوف فرمایا، ایمان، کفر کے درمیان امتیاز کی علامت قرار دیا اور بے حیائی منکر کاموں سے روکنے کا ژریعہ بنایا اللہ کی حمد و ثنا کے بعد درود و سلام کا ہدیہ نبی پاک حضرت محمدﷺ پر بھیجتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ( النحل:44)

''اور ہم نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (اشارات)لوگوں پرنازل ہوتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو۔''

اللہ پاک کے حکم کی تعمیل ارشاد میں میں آپ کمربستہ ہوگئے ظاہر ہےکہ جو شریعت آپ پر نازل ہوئی۔ بالعموم آپ نے وضاحت کے ساتھ اس کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ لیکن نماز کی اہمیت کے پیش نظر اس کو دیگر ارکان وغیرہ سے بھی زیادہ واضح شکل میں پیش کیا اور قولاً فعلاً اس کا عام پرچار کیا۔ یہاں تک کہ ایک بار آپ نے منبر پر نماز کی امامت کرائی۔ قیام رکوع منبر پرکیا نماز سے فارغ ہوکر فرمایا میں نے اس طرح اس لیے کیاہے تاکہ نماز کے ادا کرنے میں تم میری اقتداء کرسکو اور نماز کی کیفیت معلوم کرسکو نیز اس سے بھی زور دار الفاظ میں اپنی اقتداء کو واجب قرار دیتے ہوئے فرمایا:

صلوا كما رأیتموني أصلي تم نے اسی طرح نماز ادا کرنی ہوگی جس طرح تم مجھے نماز ادا کرتے دیکھ رہے ہو او رپھر اس کی اہمیت میں مزید اضافہ جتاتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص میری طرح نماز ادا کرے گا میں اس کو خوش خبری دیتا ہوں کہ اللہ نے اس کو جنت میں داخل کرنےکا عہد کیا ہے۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں:

"خمس صلوات افترضهن الله، من أحسن وضوءهن وصلاهن لوقتهن، وأتم ركوعهن، وخشوعهن كان له عند الله عهد أن يغفر له، ومن لم يفعل فليس له عند الله عهد، إن شاء غفر له وإن شاء عذبه "
''پانچ نمازیں اللہ نے فرض کی ہیں جو شخص اچھے طریق پر وضو کرے وقت پر نماز ادا کرے او ررکوع، سجود، خشوع کا اہتمام کرے تو اس انسان کا اللہ پر ذمہ ہے کہ اس کو معاف کرے گا اور جو شخص ان باتوں کو ملحوظ نہ رکھے گا اس کا اللہ پر کچھ ذمہ نہیں اگر چاہے اس کو معاف کرے اگر چاہے عذاب میں گرفتار کرے۔''

نبی پاک پر صلوٰۃ و سلام کے ساتھ ساتھ اہل بیت ،صحابہ کرام پربھی صلوٰۃ و سلام ہو جونیکو کار پرہیزگار تھے۔ جنہوں نے آپ کی عبادت، نماز ، اقوال و افعال کو نقل کرکے اُمت تک پہنچایا اور صرف آپ کے اقوال ، افعال کو ہی دیں اور قابل اطاعت قرار دیا نیز ان نیک انسانوں پر جو ان کے نقش قدم پرچلتے رہے اور چلتے رہیں گے۔

امابعد: حافظ نذری کی کتاب الترغیب والترہیب کی کتاب الصلوٰۃ کے مطالعہ اور تدریس سے قریباً چارسال کا عرصہ گزر چکاہے جب میں فارغ ہوا تو مجھے اور میرے درس میں شریک سلفی بھائیوں کو احساس ہوا کہ اسلام میں نماز کا کتنا اہم مرتبہ ہے اور جو شخص اس کو قائم کرتا ہے او راس کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا وہ کس قد راجروثواب اور فضیلت و اکرام کامستحق ہوتاہے۔پھراجروثواب میں کمی بیشی کا معیار یہ ہے کہ جس قدر کسی انسان کی نماز رسول اکرمﷺ کی نماز کے زیادہ قریب ہوگی وہ زیادہ اجروثواب کا حقدار ہوگا اور جس کی نماز آپ کی نماز سے مماثلت میں کچھ مختلف ہوگی۔ اس کو اجروثواب کم حاصل ہوگا حدیث نبوی ملاحظہ فرمائیں:

إن العبد يصلي الصلوٰة ما یکتب له منها بےشک بندہ نماز ادا کرتا ہے لیکن إلاعشرها، تسعها، ثمنها، سبعها ،سدسها ، خمسها،ربعها، ثلثها، نصفها۔

اس کے نامہ اعمال میں اس کا دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں، چھٹا ، پانچواں ، چوتھا ، تیسرا ،نصف حصہ لکھا جات اہے۔ اس حدیث کے پیش نظر میں نے اپنے سلفی بھائیوں کو خبردار کیاکہ ہمارے لیے رسول اکرمﷺ کے نماز ادا کرنے کی مانند نماز ادا کرنا اس وقت ممکن ہے جب ہمیں تفصیل کےساتھ آپ کی نماز کی کیفیت معلوم ہو اور ہمیں نماز کے واجبات ، آداب، ہیات، ادعیہ اذکار کا علم ہو پھر اس کے مطابق ہم نماز ادا کرنے کی کوشش بھی کریں تو ہم امید رکھتے ہیں کہ پھر ہماری نماز بھی اس نوعیت کی ہوگی جو ب ےحیائی او رمنکر باتوں سے روکتی ہے او رہمارے نامہ اعمال میں وہ اجروثواب ثبت ہوگا جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔

مذہبی تقیید میں غلو کے اثرات

جب ہم عوام کی دینی کیفیت کا جائزہ لیتے ہیں تو نہ صرف اکثر عوام بلکہ اکثر علماء نماز کی تفصیلی کیفیات سے نابلد ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ عام طور پر علماء مذہبی تقیید کی جکڑ بندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور وہ غلو کی حد تک ایک امام کی تقلید کو ضروری سمجھتے ہوئے صحیح بات کے مطابق عمل کرنا تو کجا سننا بھی گوارا نہیں کرتے او ریہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جس قدر معاشرہ میں مذاہب موجود ہیں ان میں بلاامتیاز اس قسم کے اعمال دیکھنے میں آتے ہیں جن کی نسبت رسول اکرمﷺ کی طرف کرنا درست نہیں او ران کی کتابوں میں ایسے اقوال تحریر ہیں جنہیں رسول اکرمﷺ کی طرف منسوب کرنا بھی جائز نہیں۔ متاخرین مذہبی پیشہ وروں کی کتابیں اس قسم کے اقوال سے بھری پڑی ہیں اگرچہ سرسری نظر سے اصل حقیقت منکشف نہیں ہوتی لیکن وہ شخص جس کی سنت مطہرہ پر نظر ہے او روہ سنت کی تحقیق او راشاعت میں مشغول رہتا ہے۔ اس کی نظر سے اس قسم کے اقوال ،اعمال مخفی نہیں ہیں چنانچہ جب وہ متاخرین کی کتاب میں بعض اقوال کو غلط طور پر رسول اکرمﷺ کی طرف منسوب دیکھتا ہے تو اس کی حمیت دینی جوش میں آجاتی ہے او روہ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتا جب تک کہ غلط نسبت کو آشکارا نہیں کرپاتا۔ اسی جذبہ کے پیش نظر بعض ائمہ نے موضوع یعنی من گھڑت احادیث کو یکجا جمع کیا تاکہ صحیح اور غیر صحیح احادیث میں امتیاز ہوسکے جزاهم الله خیراً

نیز بعض علماء نےاحادیث کی تخریج میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں او راحادیث کے احوال کا پتہ لگایا او ران کی صحت ،عدم صحت پر دلائل پیش کیے اس موضوع پر العناية بمعرفة أحادیث الهدایة، الطرق والوسائل فی تخریج احادیث ، خلاصۃ الدلائل (جن کے مؤلف شیخ عبدالقادر بن محمد القرشی الحنفی ہیں) نصب الرایہ (احادیث الہدایہ تالیف حافظ زیلعی اس کا اختصار الدرایۃ، تلخیص الجبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر تالیف حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ خاص طور پر ذکر کے قابل ہیں۔ آخر میں ہم اپنے مدعا کے اثبات میں ایک دلیل پیش کرتے ہیں کہ فقہی کتابوں میں نہ صرف ضعیف بلکہ موضوع حدیثوں کو شامل کیا گیا ہے اور تعجب ہےکہ کس طرح ان پر اعتماد کیا گیا ہے۔ کیا کسی کے قول کورسول اکرمﷺ کا قول ثابت کرنا کذب بیانی نہیں ہے؟

علامہ عبدالحئ لکھنوی کا قول

علامہ لکھنوی (النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر) میں فقہ حنفی کی کتابوں کے مراتب بیان کرنے کے بعد ذکر کرتے ہیں:

کل ماذکرنا من ترتیب المصنفات إنما هو بحسب المسائل الفقهیة وأما بحسب ما فیھا من الأحادیث النبویة فلا فکم من کتاب معتمد اعتمد علیه أجلة الفقهاء مملوء من الأحادیث الموضوعة ولا سیما الفتاویٰ فقد وضح لنا  بتوسیع النظر أن أصحابها وإن کانوا من الکاملین لٰکنهم في نقل الأخبار من المتساهلین۔

''جن کتابوں کی ترتیب ہم نے ذکر کی ہے اس کاتعلق فقہی مسائل کے ساتھ ہے او ران میں درج احادیث نبویہ کے لحاظ سے یہ ترتیب نہیں ہے اس لیے کہ کتنی کتابیں ایسی ہیں جو جلیل القدر فقہاء کے ہاں قابل اعتماد ہیں لیکن ضعیف حدیثوں سے بھری پڑی ہیں خصوصاً ا ن میں فتاویٰ کی بھرمار ہے پس ہم غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ان کتابوں کے مؤلفین اگرچہ کامل تھے لیکن وہ احادیث کے نقل کرنے میں سہل انگار تھے۔''

ذیل میں ہم بطور مثال ایک موضوع حدیث پیش کرتے ہیں جس کا ذکر النہایہ وغیرہ کتابوں میں ہے:

موضوع حدیث

من قضیٰ صلوات من الفرائض في آخرجمعة من رمضان كان ذالك جابراً لکل صلوٰة فائتة في عمره إلی سبعین سنة۔

''جس شخص نے رمضان کے آخری جمعہ میں فرائض کی قضا دی تو اس عمر کی قضا شدہ نمازوں ستر سال کے لیے تلافی ہوجائے گی۔''

علامہ لکھنوی نے اس حدیث کو الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة میں ذکر کرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ ملا علی قاری نے موضوعات صغریٰ او رکبریٰ میں اس حدیث کوبالکل باطل کہا ہے اس لیے کہ یہ حدیث اجماع کے خلاف ہے نیز ایک نماز کئی سالوں کی نماز کے قائم مقام کیسے ہوسکتی ہے؟ پس یہ حدیث موضوع ہے اگر ہدایہ کے شارحین یا صاحب نہایہ نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے تو اس سے اس کی صحت ثابت نہیں ہوسکتی اس لیے کہ اولاً تو یہ لوگ محدثین سے شمار نہیں ہوتے ثانیاً انہوں نے حدیث کے مخرج کا ذکر نہیں کیا۔

علامہ شوکانی کا قول

علامہ شوکانی الفواعد المجموعہ میں رقم طرا ز ہیں:

هذا موضوع بلاشك ولم أجد في شيء من الکتب التي جمع مصنفوها فیها الأحادیث المرفوعة ولکن اشتھر عند المتفقهة بمدینة صنعاء في عصرنا هذا وصارکثیر منهم یفعلون ذالك ولا أدري من وضع لهم نقج اللہ الکذابین۔

''بلا شبہ یہ حدیث موضوع ہے اگر چہ موضوع حدیثوں پرمشتمل کتابوں میں اس حدیث کا سراغ نہیں ملتا البتہ ہمارے دور میں صنعاء کے قہا کی ایک جماعت کے ہاں یہ حدیث شہرت پذیر ہے اور اکثر لوگ اس قسم کی قضا نماز پڑھتے ہیں مجھے معلوم نہیں ہوسکا کس شخص نے اس حدیث کو وضع کیا اللہ پاک جھوٹوں کوبرباد کرے۔''

علامہ لکھنوی کا قول

میں نے اس حدیث کے موضوع ہونے پر ایک رسالہ تحریر کیا جس کا نام (ردع الاخوان عن محدثات آخر جمعہ رمضان) رکھا اس میں اس کے موضوع ہونے کو ثابت کیا۔ اگرچہ یہ حدیث اوراد اور وظائف کی کتابوں میں مختصر او رمطول الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔ لیکن دلائل عقلیہ او رنقلیہ کی روشنی میں اس کو موضوع ثابت کیا ہے اس کے علاوہ بہترین فوائد کا اس میں اضافہ ہے جن سے دل و دماغ کو نشاط حاصل ہوتا ہے پس میں قارئین سے اس کےمطالعہ کی سفارش کرتا ہوں وہ رسالہ اپنے موضوع میں نفیس معلومات پر حاوی ہے۔

خیال رہے اس قسم کی باطل حدیثیں کتب فقہ میں موجود ہیں جن پر اعتماد نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ وہ بلا حوالہ جات ہیں یا غیر معتبر کتابوں کے حوالہ سے ذکر کی گئی ہیں۔چنانچہ ملا علی قاری کے کلام سے بھی یہی بات ثابت ہورہی ہے۔لہٰذا ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہحدیث کو محدثین کے حوالہ سے ذکر کرے چنانچہ یہ قول زبان زد خواص و عوام ہے کہ گھر کا مالک ہی گھر کے سامان وغیرہ کے متعلق بہتر جانتا ہے کہ وہ کس قسم کا ہے اس طرح محدثین کا ہی کسی حدیث کی صحت یاعدم صحت کے متعلق ریمارک قابل اعتماد ہوسکتا ہے۔

امام نووی کا قول

امام نووی المجموع شرح المذہب میں رقم طراز ہیں:

صاحب تحقیق علماء او رمحدثین کا قول ہے کہ جب حدیث ضعیف ہو تو اس کو قال رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کے ساتھ نہ ذکر کیا جائے اسی طرح فعل ،امر، نہی وغیرہ جزم کا کوئی جملہ استعمال نہ کیا جائے۔ ہاں روی عنہ،نقل عنہ، یروی تمریض کے صیغوں کے ساتھ ذکر کرنا درست ہے اس لیے کہ جزم کے صیغے صحیح، حسن حدیثوں کے بیان کرنے کے لیے مقرر ہیں اور تمریض کے صیغے غیر صحیح، حسن یعنی ضعیف حدیثوں کے بیان کرنے کے لیے مقرر ہیں جب جزم کے صیغے صحت کے متقاضی ہیں تو ان کے ساتھ غیر صحیح حدیثوں کو بیان کرنا کذب بیانی کے مترادف ہوگا لیکن سخت افسوس کیبات ہے کہ جمہور فقہاء اس قاعدے کی خلاف ورزی کرنے سے نہیں ہچکچاتے بلکہ مطلقاً جمہور علماء کا یہی طور طریقہ ہے۔ البتہ فن حدیث میں مہارت تامہ رکھنے والے محدثین اس قاعدے کی خلاف ورزی کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں وہ کبھی ضعیف حدیث کو قال کے ساتھ او رکبھی صحیح کو روی عنہ کے ساتھ ذکر نہیں کرتے۔

سبب تالیف کتاب

نماز کے موضوع پر میں نےکتابوں کاجائزہ لیا تو کوئی کتاب مبنی برحقیقت او رجامع نظر نہ آئی تو میں نے اس ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر ڈالا اور تیار ہوگیا کہ نماز کے موضوع پر ایک جامع کتاب تحریر کروں تاکہ ان لوگوں کو راہ نمائی حاصل ہو جو نماز جیسی اہم عبادت میں رسول اکرم ﷺ کی اقتداء کو لازمی جانتے ہیں او رجس طرح آپؐ نے تکبری تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک نماز ادا فرمائی ہے اس کاکامل نقشہ کھینچ دیا جائے تاکہ آپ کی محبت کا دم بھرنے والوں کوسہولت حاصل ہو او روہ آپ کے بیان کردہ طریقہ کے مطابق نماز ادا کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں ۔

ارشاد نبوی ہے:

صلوا كمار أیتموني أصلي۔ ''تم نے اسی طرح نماز ادا کرنی ہوگی جس طرح تم مجھے نماز ادا کرتے دیکھ رہے ہو۔''

اس بلند مقصد نے مجھے اس کتاب کی تالیف پر آمادہ کیا او رمیں نے مختلف کتب حدیث سے ان حدیثوں کو الگ کیا جن کا تعلق نماز کے ساتھ تھا ان کو یکجا جمع کرنے سے یہ کتاب مرتب ہوگئی۔ میں نے اس بات کاپورا خیال رکھا کہ اس میں صرف ان احادیث کو درج کروں جواحادیث کی صحت کے قواعد و ضوابط کے معیار کے مطابق ہوں اور جس حدیث میں کوئی ضعیف یا مجہول راوی منفرد تھا (خواہ اس حدیث کا تعلق نماز کی ہیئت کے ساتھ یا اذکار اور فضاول کے ساتھ تھا) اس کے ذکر سے اجتناب کیا اس لیے کہ جب صحیح ثابت شدہ حدیثیں موجود ہیں او ران سے مقصد حاصل ہورہا ہے تو بلا ضرورت غیر صحیح حدیثوں کے ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ایسی حدیثوں سے محض ظن کا فائدہ حاصل ہوتا ہے او ربلا اختلاف ظن کا کوئی فائدہ نہیں وہ بہرحال مرجوح ہے۔

ارشاد ربانی ہے:

وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا(النجم:28)

''اور ظن یقین کےمقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔''

ارشاد نبوی ہے:

إیاكم والظن فإن الظن أكذب الحدیث ( بخاری، مسلم،تخریج الحلال والحرام الاستاذ القرضاوی رقم 412)

''تم |ظن سے بچو ظن تو جھوٹی بات ہے۔''

ظاہر ہےکہ عبادات میں خاص طور پر ظنی چیز معتبر نہیں۔ اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے ہمیں ظن سے دو ررہنے کا حکم دیاارشاد نبوی ہے:

اتقوا الحدیث عني إلاما علمتم

''میری طرف نسبت کرکے حدیث بیان کرنے میں احتیاط کرو ہاں اگر تمہیں یقین ہو تو پھر کچھ مضائقہ نہیں۔''

یہ حدیث ترمذی، احمد، ابن ابی شیبہ میں موجود ہے لیکن شیخ محمد سعید حلبی کا مسلسلات میں اس کو بخاری کی حدیث قرار دینا وہم ہے پہلے تو اس حدیث کے ضعف کا مجھے کچھ علم نہ تھا۔ اس لیے میں اس حدیث کو صحیح سمجھتا رہا بعد میں مزید تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ حدیث ضعیف ہے۔ ترمذی کی بیان کردہ سند میں ضعف موجود ہے۔ مناوی نے ابن ابی شیبہ کی سند کو صحیح کہا ہے حالانکہ سند صحیح نہیں ہے البتہ اس مضمون کی ایک دوسری حدیث صحیح ہے۔ ارشاد نبوی ہے:

من حدث عني بحدیث یریٰ أنه كذب فهو أحد الكاذبین۔

''جو شخص میری طرف نسبت کرکے کوئی حدیث بیان کرتا ہے حالانکہ وہ خیال کرتا ہے کہ وہ جھوٹی ہے تو بیان کرنے والا جھوٹا ہے ۔''

پس جب آپ نے ضعیف روایت کے بیان کرنے سے منع فرما دیا تو اس پر عمل کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے۔

کتاب کی ترتیب

کتاب کو متن اور شرح میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ متن میں احادیث کا ذکر ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ احادیث کے وہی الفاظ بعینہ ذکر کروں جو سنت کی کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں بعض اوقات ایک حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے اس وقت جن الفاظ کا کتاب کے ساتھ زیادہ تعلق ہے ان کو ذکر کروں گا او ربعض اوقات دوسری روایت کے زائد الفاظ کاذکر اتمام فائدہ کے لیے کروں گا نہ ان کے بیان کرنے والے راوی او رنہ ہی مخرج کاذکر کروں گا تاکہ ترتیب میں کسی قسم کا نقص رونما نہ ہو او رمطالعہ کرنے میں دقت پیش نہ آئے۔

شرح میں ان احادیث کی تخریج ذکر ہوگی جو متن میں تحریر ہیں۔ احادیث کے الفاظ ، طرق کے بیان کرنے میں پورا احتیاط کیا جائے گا سند اور شواہد پر جرح تعدیل ، تصحیح، تضعیف کا حکم قواعد وضوابط کی روشنی میں لگایا جائے گا۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بعض طرق میں ایسے طرق ہیں ایسے زائد الفاظ موجود ہیں جو دیگر طرق میں موجود نہیں تو اس وقت ان زائد الفاظ کو اصل حدیث کے ساتھ ملا دیا جائے گا جو متن میں مذکور ہوں گی اشارتاً ان الفاظ کو قوسین خطوط وحدانی کے درمیان ذکر کروں گا تاکہ اس کا پتہ چل سکے لیکن اس بات کے ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ کون راوی اس زیادتی کے بیان میں منفرد ہے لیکن اگر زائد الفاظ کسی دوسرے صحابی سے منقول ہیں تو اس وقت اس کو مستقل حدیث کی حیثیت سے ذکر کروں گا جیسا کہ استفتاح کی ادعیہ میں اس کامشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ کتاب کی ترتیب کا یہ انداز بالکل انوکھا ہے شائد اس قسم کا انداز آپ کو کسی دوسری کتاب میں نظر آئے والحمدلله  بنعمته تتم الصالحات نیز نیچے شرح میں حدیث کی تخریج کے ساتھ ساتھ علماء کے مذاہب، دلائل کو بیان کروں گا او راعتراضات او ران کے جوابات سے بھی روشناس کراؤں گا۔ بعد ازاں صحیح مسلک کی نشاندہی کروں گا جس کاذکر متن میں ہوچکا ہوگا۔ کبھی اس قسم کے مسائل بھی بیان ہو|ں گے جن پر سنت سے تو کوئی نص نہ مل سکی۔ البتہ اجتہاد کی روشنی میں اس کا ذکر ہوگا لیکن خیال رہے کہ یہ ہماری کتاب کا موضوع نہیں ہے۔

جب ہم نے کتاب کے صفحات کا تخمینہ لگایا تو معلوم ہواکہ پانچ سو سے زائد صفحات ہوجائیں گے او راپنی مالی دشواریاں کا احساس ہوا تو فیصلہ کرنا پڑا کہ تکلیف مالایطاق سے بچتے ہوئے متن کو شائع کردیا جائے او رحاشیہ کے طبع کا انتظام سردست نہ کیا جائے اس کے لیے کسی دوسری فرصت کا انتظار کیا جائے تاکہ متن اور شرح دونوں کویکجا کرکے طبع کرایا جائے اس کتاب کا نام تجویز کیا گیا :صفة صلوٰة النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من التکبير إلی التسليم كأنك تراها (نبیﷺ کی نماز کا طریقہ تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک گویا کہ آپ ان دونوں آنکھوں سے آپ کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں)

أسأل الله تعالیٰ أن یجعله خالصاً لوجهه الکريم وأن  ينفع به إخواني المؤمنين أنه سمیع مجیب۔

کتاب کی بنیاد

چونکہ کتاب کا موضوع یہ ہے کہ اس میں رسول اکرمﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کی جائے گی تو پھر یہ بات بالکل واضح ہے کہ نماز کے بیان کرنے کے ضمن میں کسی مذہب یا فرقہ کی تقلید کو قطعاً ملحوظ نہ رکھا جائے صرف اور صرف ان کیفیات کا ذکر ہوگا جو نبیﷺ سے ثابت ہیں او ریہی کتاب کی بنیاد ہے۔ او ریہی نظریہ تمام محدثین کا ہے۔ سنیئے علامہ لکھنوی امام الکلام میں فرماتے ہیں:

ومن نظر بنظر الإنصاف وغاص في بحار الفقه والأصول متجنباً الاعتساف یعلم علماً یقیناً أن أکثر المسائل الفرعیة والأصلیة التي اختلف العلماء فیھا فمذھب المحدثین فیھا أقویٰ من مذاھب غیرھم وافی کلما أسیر في شعب الاختلاف أجد قول المحدثین فیه قریباً من انصاف فلثه وزھم و علیه شکرھم کیف لارھم ورثة النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقا و نواب شرعه صدقا حشرنا اللہ في زمرتھم وأماتنا علی جمھم و سیرتھم۔

''جو شخص بنظر انصاف دیکھے گا ، فقہ اور اصول کے سمندروں میں غوطہ زن ہوگا۔ زیادتی سے کنارہ کش رہنے والا ہوگا تو اسے یقیناً اس سے آگاہی ہوگی کہ اکثر فروعی اور اصولی مسائل جن میں علماء اختلاف کرتے ہیں ان میں محدثین کا مذہب دیگر لوگوں کے مذہب سے زیادہ قوی ہوگا او رمیں جب بھی اختلافی مسائل کی وادی میں قدم زن ہوتا ہوں تو مجھے محدثین مذہب ہی انصاف کے قریب دکھائی دیتا ہے تعجب ہے وہ لوگ کتنے اچھے ہیں کہ اللہ پاک بھی ان کی کوششوں کو بنظر تحسین دیکھتا ہے کیوںنہ ہو جب کہ وہ نبی ﷺ کے صحیح جانشین ہیں اور شریعت اسلامیہ کے پھیلانے میں آپ کے قائم ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی جماعت میں (قیامت کے روز) اٹھائے اور ان کی محبت او رسیرت پر ہماری وفات ہو۔''

علامہ سبکی کا قول

علامہ سبکی (الفتاویٰ ) میں تحریر کرتے ہیں:

((فإنّ، أهمّ أمور المسلمين الصلاة، يجب على كلّ مسلم الإهتمام بها، والمحافظة على أدائها، وإقامة شعائرها، وفيها أمور مجمع عليها لا مندوحة عن الإتيان بها، وأمور اختلف العلماء في وجوبها، وطريق الرشاد في ذلك أمران:إمّا أن يتحرّى الخروج من الخلاف إن أمكن, وإمّا ينظر ما صحّ عن النبي صلى الله عليه وسلّم فيتمسّك به، فإن فعل ذلك، كانت صلاته صوابا صالحة داخلة في قوله تعالى: ((فمن كان يرجو لقاء ربّه فليعمل عملا صالحا))

''حمد و صلواۃ کے بعد واضح ہو کہ مسلمانوں کے تمام کاموں میں سے نماز سب سے اہم ہے ہر مسلمان پر اس کا اہتمام او راس کی ادائیگی پر ہمیشگی اور اس کے شعائر کا قیام ضروری ہے نما زمیں کچھ ایسے افعال ہیں جن پر اجماع ہے ان کے بجا لانے میں کچھ رکاوٹ نہیں او رکچھ ایسے ہیں جن کے وجوب میں علماء کا اختلاف ہے۔ اختلاف کا حل دو طرح سے ممکن ہے ۔ اولاً اگر ممکن ہوا اختلاف کی الجھن سے کنارہ کشی اختیار کی جائے یا پھر جو نبی ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ہو اس پر عمل پیرا ہوجائے جب کوئی شخص یہ کام کرے گا تو اس کی نماز درست اور قبول ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے فرمان (پس جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہے وہ نیک عمل کرے) میں داخل ہوگا۔''

علامہ سبکی کے قول پر غوروفکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پہلی صورت میں تصفیہ ممکن نہیں اکثر مسائل میں اختلاف برقرار رہتا ہے۔ رسول اکرمﷺ کایہ فرمان (کہ تم اسی طرح نماز ادا کرو جس طرح تم مجھے نماز ادا کرتا دیکھتے ہو||) بھی متحقق نہیں ہوتا اور نماز کی کیفیت آپ کی کیفیت کے مخالف ہوتی ہے۔ لہٰذا دوسری صورت قابل عمل ہے اور وہی صحیح ہے اس پر عمل کرنے سے نماز اسی طرح ادا ہوگی جس طرح رسول اکرمﷺ نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔

ایک شاعر ان لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جو آپ کے اقوال، افعال کو زندگی کے تمام شعبوں میں ملحوظ رکھتے ہیں اور اس پر عمل پیرا رہتے ہیں۔

أھل الحدیث ھم أھل الرسول وإن لم یصحبو انفسه ألفاظه صحبوا۔

''اہل حدیث رسول اللہ ﷺ کے اہل ہیں اگرچہ وہ آپ کی زندگی میں تو آپ کے ساتھ نہ تھے آپ کو ملفوظات کے ساتھ تو ان کی رفاقت ہے۔''

اس سعادت سے ہمکنار ہونے کے لیے ان شاء اللہ کتاب میں نماز کی کیفیات اذکار وغیرہ کے سلسلہ میں حدیث اور فقہ کی کتابوں سےمتعلق قیمتی معلومات کواکٹھا کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی اور جو شخص اس کے محتویات کے مطابق عمل کرے گا ان شاء اللہ وہ ان لوگوں کے زمرہ میں داخل ہے جن کو توفیق ایزدی سے ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (البقرہ:213)

مجھے مسرت محسوس ہورہی ہے کہ میں نے نہ صرف اس تالیف میں بلکہ دیگر تمام توالیف میں بھی سنت سے دلائل فراہم کرکے ان پر بنیاد قائم کی ہے او رپوری کوشش کی ہے کہ کسی ایک جزئی میں بھی سنت کی مخالفت نہ ہو اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ میری کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد کچھ لوگ ضرور ایسے بھی ہوں گے جو کتاب کو ناپسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھیں گے بلکہ وہ زبان طعن دراز کریں گے او رمجھے ہدف ملامت بنانے سے گریز نہیں کریں گے لیکن مجھ پر اس کا کچھ اثر نہیں اس لیے کہ میرے دل میں یہ احساس بیدار رہتا ہے کہ تمام لوگوں کوراضی رکھنا ناممکن ہے او رپھر رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے:

من أرضی الناس بسخط الله و کله اللہ إلی الناس۔

''جس شخص نے اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرنا چاہا اللہ اس کو لوگوں کے سپرد کردیتا ہے۔''

اسی مضمون کو ایک شاعر بہترین پیرایہ میں پیش کرتا ہے:

ولیست بناج من مقالةطاعن

ولو کنت في غار علیٰ جبل و عر

ومن ذالذي ینجو من الناس سالما

ولو غاب عنھم بین خافیتی نسر

''میں زبان طعن دراز کرنے والے سے نجات حاصل نہیں کرسکتا اگرچہ میری بود و باش کسی دشوار گزار پہاڑ کی غار میں کیوں نہ ہو کون شخص ہے جولوگوں سے صحیح سالم رہا اگرچہ وہ ان سے اوجھل ہوکر گدھ کے پروں میں چھپ جائے۔''

پس میرے لئے یہی بات قابل فخر ہے کہ میرا اعتقاد درست ہے اور میں اسی راہ پر گامزن ہوں۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے چلنے کا حکم دیا ہے اور جس کو ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ نے بیان فرمایا جو تمام انبیاء کے سردار ہیں او ریہی وہ سیدھی راہ ہے جس پر سلف صالحین، صحابہ کرام، تابعین، ائمہ کرام رواں دواں رہے ۔نیز وہ ائمہ اربعہ جن کے مذہب کے پیرو کار کثرت کے ساتھ موجود ہیں وہ بھی اسی راہ پرگامزن رہے۔ یہ سب لوگ اسی نظریہ پرمتفق ہیں کہ تمام معاملات میں سنت کے ساتھ تمسک اختیار کیاجائے او راسی کی طرف رجوع کیا جائے سنت کے خلاف خواہ کسی کا قول ہو اس کو ترک کیا جائے اس لیے کہ نبیﷺ سے زیادہ عظمت شان والا کون ہے؟ اور آپ کے بیان کردہ راستہ سے کس کا راستہ زیادہ ہدایت والا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ میں ان تمام کو اہل سنت کے زمرہ سے سمجھتا ہوں او ران کی راہ نمائی میں قدم زن ہوں او ران کےنقش قدم پرچلنے کو اپنے لیے سعادت تصور کرتا ہوں او ران کے اقوال کی اتباع کو حدیث کی روشنی میں اپنے لیے عزوافتخار کا سرمایہ تصور کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ ائمہ کے بعض اقوال سنت رسول کے ساتھ متصادم ہیں۔ تاہم صراط مستقیم پرچلنے اور اختیار کرنےمیں میرے لیے ان کے اقوال مؤثر ثابت ہوئے اس لیے کہ وہ درحقیقت راہ سنت کے ہی شیدائی تھے۔ عدم علم کی بناء پر اگر ان کے بعض اقوال سنت رسول سے متصادم ہیں تو وہ عنداللہ معذور اور ماجور ہیں ہمارے لیے صرف اسوہ رسول ہی قابل اطاعت ہے اورائمہ کی اندھی تقلید سے روگرانی کرنا ضروری ہے۔ فجز اہم اللہ تعالیٰ خیراً

ائمہ کے اقوال

ہم ضرورت سمجھتے ہیں کہ آپ کو بتائیں کہ جن ائمہ کی تقلید رواج پذیر ہے ۔ انہوں نے اپنی تقلید سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے او راتباع سنت کی ترغیب دی ہے او رتعجب کا اظہار کیا ہے کہ اتباع سنت کے مقابلہ میں ائمہ کے اقوال کو کیوں وزنی گردانا جاتا ہے کیا ائمہ کے اقوال اور مروجہ مذاہب کی صداقت من جانب اللہ ہے؟ او رکیا اس پر کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے؟ ہرگزنہیں تو پھر کیوں اندھی تقلید سے اعراض نہیں کیاجاتا۔

ارشاد ربانی ہے:

اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (الاعراف:3)

''لوگو! جو کتاب تم پرتمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو اور تم کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔''

امام ابوحنیفہ کا قول

امام ابوحنیفہ کے تلامذہ نے ان سے مختلف اقوال نقل کئے ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ حدیث پرعمل کرنا ضروری ہے او راس کے مقابلہ میں ائمہ کے اقوال کا ترک ضروری ہے۔ چنانچہ سنئے:

إذا صحّ الحديث فهو مذهبي''صحیح حدیث میرا مذہب ہے۔''

شیخ ابن الہمام کا قول

(إذا صح الحديث وكان على خلاف المذهب عُمِل بالحديث ويكون ذلك مذهبَه, ولا يخرج مقلِّده عن كونه حنفيا بالعمل به قفد صح عنه -عن الإمام أبي حنيفة- أنه قال إذا صح الحديث فهو مذهبي) قد حكى ذالك الإمام ابن عبدالبر عن أبي حنیفة وغیرہ من الأئمة۔

''جب کسی امام کے مذہب کے خلاف صحیح حدیث موجود ہو تو حدیث پر عمل کرنے سے حنفیت سے خارج نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ امام ابوحنیفہ سے یہ روایت ثابت ہے کہ صحیح حدیث میرا مذہب ہے۔ ابن عبدالبر نے امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ سے اس طرح کے اقوال نقل کیے ہیں۔''

معلوم ہوا کہ ائمہ کرام کا علم وفضل تقویٰ وطہارت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ حدیث کی مخالفت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے او رانہوں نےکھلے لفظوں میں اظہار کیا کہ چونکہ ہمیں حدیث کا استقصاء نہیں ہے اس لیے ممکن ہے ک ہمارے بعض اقوال حدیث کے مخالف ہوں لہٰذا حدیث کے ساتھ تمسک کرنا ہی ہمارا مسلک ہے۔ امام شافعی سے صراحتاً اس مفہوم کا قول مروی ہے آئندہ اوراق میں اس کا ذکر کیا جائے گا۔

2۔ لا يحل لأحد أن يأخذ بقولنا ما لم يعلم من أين أخذناه.

''کسی شخص کےلیے ہمارے قول پرعمل کرنا جائز نہیں جب تک کہ اسے اس بات کا علم نہ ہو کہ ہمارے قول کاماخذ کیا ہے۔''

اسی قسم کے اقوال امام ابوحنیفہ کے تلامذہ سے مروی ہیں چنانچہ ایقاظ میں امام زفر، امام ابویوسف، عافیہ بن یزید سے اس مضمون کے اقوال مروی ہیں۔ حافظ ابن قیم نے امام ابویوسف سے اس مضمون کا قول نقل کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص میرے قول کی دلیل سے واقف نہیں۔ اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ میرے قول کے مطابق فتویٰ دے اس لیے کہ ہم انسانہیں آج ہم ایک بات کہتے ہیں کل ہم اس سے رجوع کرلیتے ہیں۔

پس جب بلا دلیل ان کاقول واجب العمل نہیں تو جب ان کے قول کے خلاف دلیل موجود ہو تو کیسے ان کے قول پرفتویٰ دینا جائز ہے یااس پر عمل کرنا درست ہے۔ حیرت ہے کہ ا س قدر صراحت کے باوجود کیوں ائمہ کے اقوال پر عمل کیا جاتا ہے جب کہ وہ حدیث صحیح کے خلاف ہوں اگر غور کیا جائے تو ائمہ سے منقول یہی قول تقلید کے پرخچے اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مقلدین مشائخ نے اس قسم کے مروی اقوال کی ان سےنفی کردی ہے۔

امام صاحب سے ایک دوسری روایت میں ذیل کے الفاظ مروی ہیں:

ويحك يا يعقوب (هو أبو يوسف) لا تكتب كلّ ما تسمع منّي، فإنّي قد أرى الرّأي اليوم و أتركه غدا، و أرى الرّأي غدا و أتركه بعد غد.

''اے ابویوسف تجھ پر افسوس تجھے وہ تمام باتیں لکھنی جائز نہیں جو مجھ سے سنتا ہے۔ اس لیے کہ آج میری ایک رائے ہوتی ہے کل بدل جاتی ہے او رکل ایک رائے ہوتی ہے اور پرسوں بدل جاتی ہے۔''

اصل بات یہ ہے کہ امام صاحب کے اقوال کی بنیاد قیاس پر تھی جب انہیں پہلے قیاس سے زیادہ قوی قیاس معلوم ہوجاتا یا حدیث نبوی سے آگاہی حاصل ہوجاتی تو وہ قیاس چھوڑ کر قوی قیاس یا حدیث پر عمل فرماتے۔

علامہ شعرانی کا قول

علامہ شعرانی ، میزان میں رقم طراز ہیں۔

" واعتقادنا واعتقاد كل منصف في الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه ؛ أنه لو عاش دُوِّنَت الشريعة ، وبعد رحيل الحفاظ في جَمْعِها من البلاد والثغور ، وظفر بها ؛ لأخذ بها ، وترك
كل قياس كان قاسه ، وكان القياس قلَّ في مذهبه ، كما قل في مذهب غيره بالنسبة إليه ،لكن لما كانت أدلة الشريعة مفرقة في عصره مع التابعين وتابعي التابعين في المدائن والقرى
والثغور ؛ كثر القياس في مذهبه بالنسبة إلى غيره من الأئمة ضرورةً ؛ لعدم وجود النص في تلك المسائل التي قاس فيها ؛ بخلاف غيره من الأئمة ؛ فإن الحفاظ كانوا قد رحلوا في طلب
الأحاديث وجمعها في عصرهم من المدائن والقرى ، ودوّنوها ؛ فجاوبت أحاديث الشريعة بعضها بعضاً ، فهذا كان سبب كثرة القياس في مذهبه ، وقلته في مذاهب غيره "

''امام ابوحنیفہ کے بارے میں ہمارا اور ہر منصف مزاج انسان کا اعتقاد ہے کہ شریعت کی تدوین (اور جب حفاظ حدیث نے حدیث کو جمع کرنے میں دو دراز کے شہروں کا سفر کیا) تک اگر وہ زندہ رہتے او راحادیث پالیتے تو وہ ہر قسم کے قیاس کو چھوڑ کر احادیث پرعمل پیرا ہوتے او رجس طرح دیگر ائمہ کے مذہب میں قیاس کا وجود کم ہے اسی طرح امام ابوحنیفہ کے مذہب میں بھی قیاس کم ہوتا چونکہ ان کے دور میں شریعت کے دلائل تابعین تبع تابعین کے ہاں متفرق شہروں میں متفرق طور پر موجود تھے (یعنی مدون نہ ہوئے تھے) اس لیے بنسبت دیگر ائمہ کے ان کے مذہب میں قیاس کی کثرت نظر آرہی ہے اس لیے کہ جن مسائل میں انہیں نص نہ مل سکی ان میں انہوں نے قیاس سے کام لیا لیکن دیگر ائمہ کے دور میں حفاظ حدیث نے طلب حدیث میں سفر اختیار کرکے احادیث کو یکجا جمع کیا اور احادیث کا توافق عمل میں آیا اس سبب سے امام صاحب کے مذہب میں قیاس زیادہ نظر آتا ہے اور دیگر ائمہ کے مذاہب میں کم نظر آتا ہے۔''

تقریباً اس حوالہ کو علامہ ابوالحسنات نے النافع الکبیر میں نقل فرما کر اس پر تائیدی نوٹ لکھ کر اس مسئلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے وہاں ملاحظہ فرمائیں۔معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ نے ارادتاً قصداً صحیح حدیثوں کی مخالفت نہیں کی ہے۔ عدم علم کی بناء پر وہ معذور تھے او ران کا عذر قابل قبول ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

لا يكلف الله نفساً إلاوسعها ''خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔''

پس کسی طرح بھی جائز نہیں کہ امام ابوحنیفہ کو مطعون قرار دیا جائے اور وہ لوگ جہالت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں جو ان کے خلاف زبان طعن دراز کرتے ہیں چونکہ امام ابوحنیفہ ان ائمہ سے ہیں جنہوں نے دین اسلام کی حفاظت کے لیے کوششیں فرمائیں او ران کے ذریعہ دین کے فروغ سے ہمیں آگاہی حاصل ہوئی اس لیے ان کاادب و احترام ضروری ہے اور اگر انہوں نے قیاس کیا ہے تو وہ بہرحال عنداللہ اجر و ثواب کےمستحق ہیں خواہ ان کا قیاس صحیح تھا یا ان سے قیاس میں غلطی ہوئی البتہ جو لوگ ان کے ان اقوال کو نہیں چھوڑتےہیں جو احادیث صحیحہ کے خلاف ہیں وہ درحقیقت ان کی تعظیم نہیں کررہے ہیں اور نہ ان کے مذہب کی موافقت کررہے ہیں ان کےمذہب کے بارے میں نصوص موجود ہیں کہ صحیح حدیث میرا مذہب ہے۔ پس نہ تو وہ لوگ راہ صواب پر ہیں جو امام صاحب کے خلاف بے ادبی کے الفاظ نکالتے ہیں او رنہ ہی وہ لوگ جو ان کی اندھی تقلید میں مستغرق ہیں او ران کے اقوال کی حمایت میں حد اعتدال سے متجاوز ہیں حق پرست لوگ وہ ہیں جو اعتدال کی راہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

إذا قلت قولاً يخالف کتاب اللہ تعالیٰ و خبر الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاترکوا قولي

''جب میں ایسی بات کہوں جو کتاب اللہ اور حدیث رسول کے خلاف ہوتو میری بات چھوڑ دو۔''

علامہ فلانی نے اس قول کوامام محمد کی طرف بھی منسوب کیا ہے، مزید لکھا ہے کہ یہ قول مقلد کے لیے ہے کہ وہ تقلید چھوڑ کر صحیح حدیث پرعمل پیرا ہوجائےمجتہد اس سے خارج ہے۔

علامہ شعرانی کا قول ہے

علامہ شعرانی ، المیزان میں رقم طراز ہیں:

"فإن قلت: فما أصنع بالأحاديث التي صحت بعد موت إمامي و لم يأخذ بها؟ فالجواب: الذي ينبغي لك أن تعمل بها؛ فإنّ إمامك لو ظفر بها، و صحّت عنده، لربّما كان أمر بها؛ فإنّ الأئمّة كلّهم أسرى في يد الشّريعة، و من فعل ذلك فقد حاز الخير بكلتا يديه، و من قال : لا أعمل لحديث إلاّ إن أخذ به إمامي، فاته خير كثير كما عليه كثير من المقلّدين لأئمّة المذاهب..." و کان الأولیٰ أھم العمل بکل حدیث صح بعد إمامھم تنفیذاً لوصیة الأئمة فإن اعتقادنا فیھم أنھم لو عاشوا وظفر و ابتلك الأحادیث التي صحت بعدھم لأ خذ وابھا و عملوا بما فیھا و ترکوا کل قیاس کانو قاسوہ و کل قول کانوا قالوہ۔

''اگر معترض اعتراض کرے کہ آپ کے امام کی وفات کے بعد جن حدیثوں کی صحت ثابت ہوجائے کیا ان پر عمل ہوگا؟ جب کہ آپ کے امام نے ان پرعمل نہیں کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان پر عمل کرنا ضروری ہے اس لیے کہ اگرامام صاحب ان حدیثوں پر مطلع ہوجاتے اور ان کے ہاں ان کی صحت ثابت ہوتی تو وہ اپنے تلامذہ کو ان کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیتے اس لیے کہ تمام ائمہ شریعت کے پابند ہوتے ہیں پس جو شخص صحیح حدیث پرعمل کرتا ہے وہ اپنے دامن کو خیر سے بھرلیتا ہے اور جو شخص حدیث پر اس وقت تک عمل نہیں کرتا جب تک کہ اس کا امام اس حدیث پر عمل نہ کرے تو وہ خیر کثیر سے محروم ہوگیا۔ جیسا کہ ائمہ کے اکثر مقلدین کا یہی حال ہے حالانکہ ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے مقتد امام کی وفات کے بعد صحیح حدیث پر عمل کرتے اس لیے کہ ان کے امام کی وصیت یہ ہے (کہ قول کے مقابلہ میں حدیث صحیح پرعمل کرو) اور ائمہ کے بارے میں ہمارا اعتقاد یہی ہے کہ اگروہ زندہ رہتے او ران کے بعد جن احادیث کی صحت معلوم ہوسکی ہے اس سے انہیں آگاہی حاصل ہوتی تو وہ ان پرعمل کرتے او رہر قسم کے قیاس او رقول کو ترک فرماتے۔''

امام مالک کا قول

1۔إنما أنا بشر أخطئ و أصيب، فانظروا في رأيي؛ فكلّ ما وافق الكتاب و السنّة فخذوه، و كلّ ما لم يوافق الكتاب و السنّة فاتركوه.

''میں بشر ہوں مجھ سے کبھی خطا بھی سرزد ہوجاتی ہے او رکبھی درست بات بھی نکل جاتی ہے میری رائے کو دیکھو اگر کتاب و سنت کے موافق ہو تو اس پر عمل پیرا ہوجاؤ اور اگر کتاب و سنت کے موافق نہ ہو تو اس پر عمل نہ کرو۔''

2۔ليس أحد بعد النّبيّ صلّى الله عليه وسلّم إلاّ و يؤحذ من قوله و يترك إلاّ النبّي صلّى الله عليه وسلّم

''رسول اکرمﷺ کے علاوہ جو شخص بھی ہے اس کاقول تسلیم بھی کیا جاسکتا اور رد بھی( لیکن آپ کے قول کو رد نہیں کیا جاسکتا۔)''

متاخرین کے قول کے نزدیک اس قول کی نسبت امام مالک کی طرف عام مشہور ہے۔ ابن الہادی نے ارشاد السالک میں اس کو صحیح کہا ہے۔ تقی الدین سبکی نے الفتاویٰ میں اس کو ابن عباس سے نقل کیا ہے ۔ اس سے مجاہد نے سنا او رمجاہد سے امام مالک نے سنا اب اس کی شہرت ان کی جانب ہوگئی ہے۔ پھر ان سے امام احمد نے سنا چنانچہ امام ابوداؤد مسائل الامام احمد میں فرماتے ہیں:

امام احمد کا قول

سمعت أحمد یقول لیس أحد إلا و یؤخذ من رأیه و یترك ماخلا النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

''امام احمد سے سنا فرماتے ہیں نبی ﷺ کے علاوہ ہر شخص کے قول کو قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رد بھی کیا جاسکتا ہے۔''

3۔ قال بن وهب: سمعت مالكا سئل عن تخليل أصابع الرّجلين في الوضوء؟ فقال: ليس ذلك على النّاس. قال فتركته حتّى خفّ النّاس، فقلت له: عندنا في ذلك سنّة، فقال: و ما هي؟ قلت: حدّثنا اللّيث بن سعد و بن لهيعة و عمرو بن الحارث عن يزيد بن عمرو المعافري عن أبي عبد الرّحمن الحبلي عن المستورد بن شدّاد القرشي قال: رأيت رسول الله صلّى الله عليه وسلّم يدلك بخنصره ما بين رجليه. فقال: إنّ هذا حديث حسن، وما سمعت به قط إلّا السّاعة. ثمّ سمعته بعد ذلك يُسأل، فيأمر بتخليل الأصابع.
''ابن وہب بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے وضو میں پاؤں کی انگلیوں کے مسح کے بارے میں سوال کیا انہوں نے جواب دیا مسح صروری نہیں ( یہ سن کر )میں خاموش رہا جب لوگ ذرا کم ہوئے تو میں نے عرض کیا اس مسح کے بارے میں حدیث موجود ہے اس نے کہا کون سی حدیث ہے۔ میں نےبیان کیا کہ ہمیں لیث بن سعد، ابن لہیعہ عمرو بن حارث نے یزیدبن عمرو معاذی سے نقل کیا۔ اس نے ابوعبدالرحمٰن حبلی سے اس نے مستور بن شداد قریشی سے اس نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنی چھنگلیا انگلی کے ساتھ پاؤں کی انگلیوں کے درمیان کا مسح فرماتے اس نے حدیث سن کر کہا یہ حدیث حسن ہے او رمیں نے یہ حدیث اس سے پہلے نہیں سنی راوی نے بیان کیا اس کے بعد جب بھی ان سے یہ مسئلہ دریافت کیا جاتا تو وہ انگلیوں کے خلال کا حکم فرماتے۔''

امام شافعی کا قول

اس سلسلہ میں امام شافعی سے بہت کچھ منقول ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے پیروکار ان کے قول کوترک کرکے حدیث پرعمل کرتے ہیں سنیئے:

ما من أحد إلاّ و تذهب عليه سنة لرسول الله صلّى الله عليه وسلّم و تعزب عنه، فمهما قلت من قول، أو أصّلت من أصل فيه عن رسول الله صلّى الله عليه وسلّم خلاف ما قلت؛ فالقول ما قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، و هو قولي.

''ہر شخص کا یہ حال ہے کہ کبھی سنت اس کے سامنے ہوگی اور کبھی اس سے مخفی ہوگی لہٰذا جب میں کوئی بات کہوں یا کوئی اصول بیان کروں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے خلاف ہو تو اس وقت رسول اکرمﷺ کے قول کو تسلیم کرو وہی میرا قول ہے۔''

ابن حزم کا قول

ابن حزم امام شافعی کےبارے میں رقم طراز ہیں:

أن الفقهاء الذين قلدوا مبطلون للتقليد، وأنهم قد نهوا أصحابهم عن تقليدهم، وكان أشدهم في ذلك الشافعي، فإنه رحمه الله بلغ من التأكيد في اتباع صحاح الآثار، والأخذ بما أوجبته الحجة، حيث لم يبلغ غيره، وتبرأ من يقلد جملة، وأعلن بذلك نفعه الله به وأعظم أجره، فلقد كان سبباً إلى خير كثير

''جن فقہا کی تقلید ہورہی ہے انہوں نے تقلید کو باطل کہا ہے او راپنے پیروکاروں کو اپنی تقلید سے روکا ہے تمام ائمہ سے زیادہ متشدد امام شافعی ہیں جب کہ وہ سخت تاکید فرماتے ہیں کہ صحیح آثار کااتباع کیا جائے او ردلائل کی روشنی میں چلا جائے اور فی الجملۃ تقلید سے برأت کا واضح طور پر اعلان فرمایا ہے اللہ پاک ان کے قول سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے او رانہیں اجر عظیم سے نوازے حقیقت یہ ہے کہ اس طرح وہ خیر کثیر کا سبب بنے ہیں۔''

2۔ أجمع المسلمون على أن من استبان له سنة عن رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، لم يحل له أن يدعها لقول أحد.

''تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جس شخص کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی سنت آجائے اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی امام کے قول کی بناء پر سنت کاترک کرے۔''

إذا وجدتم في کتابي خلاف سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقولوا بسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ودعوا ماقلت۔

'' جب تم میری کتاب میں رسول اللہ ﷺ کی سنت کے خلاف کوئی بات پاؤ تو سنت کے مطابق چلو او رمیرے قول کو چھوڑ دو۔''

إذ اصح الحدیث فھو مذھبي ''صحیح حدیث میرا مذہب ہے۔''

امام نووی کا قول

چونکہ ہمارے اما م کا قول ہےکہ صحیح حدیث ان کا مذہب ہے اس بناء پر شوافع مسئلہ تثویب او راحرام میں بیماری کے عذر کی وجہ سے حلال ہونے کی شرط لگانے میں حدیث پر عمل کرتے ہیں ابویعقوب بویطی، ابوالقاسم دار کی، امام ابوبکر بیہقی اور دیگر محدثین اسی نظریہ کے حامل تھے اور متقدمین شوافع جب کسی مسئلہ میں اپنے امام کے مذہب کے خلاف صحیح حدیث معلوم کرلیتے تو حدیث پر عمل کرتے اور اس بات کا ذکر کرتے کہ ہمارے امام کا وہی مذہب ہے جو حدیث سے ثابت ہے۔

شیخ ابوعمرو ابن الصلاح کا قول

امام شافعی کا پیروکار اپنے امام کامذہب کے خلاف جو حدیث پائے تو اگر اس میں اجتہاد کے اسباب موجود ہوں یا خاص طور پر اس مسئلہ میں اس کا اجتہاد قابل قبول ہو تو وہ اس کے مطابق عمل کرسکتا ہے لیکن اگر وہ مقام اجتہاد پر فائز نہیں اور وہ حدیث کی مخالفت کرنے سے بھی بچنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ حدیث پرعمل کرے اور اگر امام شافعی کے علاوہ کسی دوسرے امام مستقل سے بھی حدیث کے مطابق قول موجود ہے تو اس کے لیے معقول عذر ہے وہ اپنے امام کے قول کو ترک کرکے حدیث پر عمل کرے۔ واللہ اعلم حافظ ابن الصلاح کے قول میں اس صورت کا ذکر نہیں ہے کہ اگر حدیث پر کسی امام نےعمل نہیں کیا تو پھر کون سی صورت اختیار کی جائے؟ اس کا جواب علامہ تقی الدین سبکی کی زبان سے سنیے کہ وہ رسالہ میں امام شافعی کے قول کی حقیقت بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

علامہ تقی الدین سبکی کا قول

والأولیٰ عندي اتباع الحدیث ولیفرض الإنسان نفسه بین یدي النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقد سمع ذالك منه أیسع التأخر عن العمل به لا واللہ فکل واحد مکلف بحسب فھمه۔

''میرے نزدیک حدیث کی پیروی کرنا مناسب ہے ہر انسان اپنے آپ کو نبی ﷺ کے سامنےسمجھے او ریہ کہ وہ آپ سے حدیث سن رہا ہے کیا (اس تصور کے ہوتے ہوئے) حدیث پر عمل کرنے سے پس و پیش جائز ہے ہرگز نہیں واللہ ہر انسان اپنے فہم کے لحاظ سے مکلف ہے۔''

مزید تحقیق کے لیے اعلام الموقعین ، ایقاظ ہمم اولی الابصار کا مطالعہ کریں۔ خاص طور پر آخر الذکر کتاب اس مسئلہ میں بہترین شاہکار ہے۔ حق تلاش کرنے والوں کے لیے اس کا مطالعہ غوروفکر کےساتھ کرنا چاہیے۔

أنتم أعلم بالحدیث والرجال مني فإذا کان الحدیث الصحیح فأعلموني به أي شيء یکون کوفیا أو بصریا أو شامیاً حتیٰ أذھب إليه إذا کان صحیحاً

''تم حدیث اور اس کے رواۃ کا مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہو جب تمہیں صحیح حدیث مل جائے مجھے بتا دیا کرو خواہ اس کے راوی کوفی ہوں یا بصری یا شامی میں حدیث پرعمل پیرا ہوں گا جبکہ حدیث صحیح ہوگی۔''

امام شافعی کا خطاب امام احمد بن حنبل سے ہے جیسا کہ خطیب نے اس کی وضاحت کی ہے۔

امام بیہقی کا قول

یہی وجہ ہ کہ امام شافعی دیگر ائمہ سے حدیث کے ساتھ زیادہ ارتباط رکتھے ہیں۔ انہوں نےطلب حدیث میں حجاز، شام، یمن، عراق کا سفر اختیار کیا اور وہاں کے علماء سے استفادہ کیا اور جس حدیث کو انہوں نے صحیح سمجھا بلا خوف و خطر اس کو پھیلایا۔ انہوں نے اپنے شہر کے علماء کے مذہب کی طرف بالکل التفات نہ کیا جبکہ وہ صحیح نہ تھا۔ حالانکہ ان سے پہلے ائمہ کا عام طور پر وطیرہ تھا کہ وہ اپنے شہر کے علماء کے مذہب کا بہرحال پرچار کرتے او ران کی مخالفت کا خیال بھی نہ لائے۔ واللہ یغفرلنا ولھم۔

6۔ کل مسئلة صح فیھا الخبر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عند أھل النقل بخلاف ماقلت فأنا راجع عنھا في حیاتي و بعد موتي

''جس مسئلہ میں محدثین کے ہاں میرے قول کے خلاف صحیح حدیث موجود ہو تومیں اپنے قول سے زندگی میں او ربعد از موت رجوع کرتا ہوں۔''

7۔ إذا رأیتموني أقول قولا وقد صح عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلافه فاعلموا أن عقلي قد ذھب

''جب تم مجھے دیکھو کہ میں ایک بات کہتا ہوں حالانکہ نبی ﷺ سے اس کے خلاف قول صحیح ہے تو سمجھ لو میری عقل زائل ہے۔''

8۔ کل لماقلت فکان عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلاف قولي مما یصح فحدیث النبي أولیٰ فلا تقلد ني

''جو بات میں کہوں لیکن نبی ﷺ سے اس کے خلاف صحیح حدیث موجود ہو تو آپ کی بات درست ہے لہٰذا میری تقلید نہ کرو۔''

(امام احمدبن حنبل)

سنت کے ساتھ تمسک اختیار کرنے میں امام احمد کامقام دیگر ائمہ سے بہت اونچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دیگر ائمہ سے حدیث کو جمع کرنے میں نمایاں خدمات سرانجام دیں ہیں اور فروعات ، آراء پر مشتمل کتابوں کو بنظر کراہت دیکھا ۔ ان کامشہور قول ہے:

1۔لا تقلّدني، و لا تقلّد مالكا و لا الشّافعي و لا الأوزاعي و لا الثّوري، و خذ من حيث أخذوا.
''نہ میری تقلید کرنا نہ مالک، شافعی، اوزاعی، ثوری کی تقلید کرنا جہاں سے انہوں نے علم حاصل کیا۔ تم بھی وہیں سے علم حاصل کرو۔''

2۔ رأي الأوزاعي ورأي مالك ورأي أ بي حنيفة کله رأي وھو عندي سواء وإنما الحجة في الآثار۔

''اوزاعی ،مالک،ابوحنیفہ سب کی رائے، رائے ہے او ران سب کی رائے برابرہے حجت تو احادیث ہیں۔''

3۔ من رد حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فھو علیٰ شفا ھلکة

''جو شخص رسول اللہ ﷺ کی حدیث کا رد کرتا ہے وہ بربادی کے کنارے پر ہے۔''

ائمہ کرام کےبیان کردہ اقوال سے یہ بات ثابت ہورہی ہےکہ وہ کس قدر حدیث کے شیدائی تھے اور حدیث کے ساتھ تمسک کا حکم دیتےر ہے اور اندھی تقلید سے منع فرماتے رہے انہوں نےبلا جھجک اعلان فرمایا کہ جو شخص سنت صحیحہ کے ساتھ تمسک اختیار کرے گا اسے ہماری مخالفت کی کچھ پرواہ نہیں کرنی چاہیے اس لیے کہ سنت صحیحہ ہی ہماری مذہب ہے۔ وہ دراصل ہماری مخالفت نہیں کررہا ہے بلکہ ہماری موافقت کررہا ہے او رہمارے طریقہ پر چل رہا ہے لیکن جو شخص بظاہر ہماری مخالفت سے بچاؤ کرتے ہوئےسنت صحیحہ کو ترک کرتا ہے او رہمارے اقوال پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ نافرمان ہے اور دراصل ہمارے اقوال کے خلاف عمل پیرا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

''تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں او رجو فیصلہ تم کرو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سےمان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔'' (النساء:65)

نیز فرمایا:

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ(النور: 63)

''تو جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ (ایسا نہ ہوکہ )ان پرکوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والاعذاب نازل ہو۔''

حافظ ابن رجب کا قول

الواجب على كل من بلغه أمر الرسول صلى الله عليه وسلم ، وعرفه ؛ أن يبينه للأمة،وينصح لهم ، ويأمرهم باتباع أمره ، وإن خالف ذلك رأي عظيم من الأمة ؛ فإن أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أحق أن يعظم ويقتدى به من رأي أي معظم قد خالف أمره في بعض الأشياء خطأ ، ومن هنا ردَّ الصحابة ومن بعدهم على كل مخالفٍ سنة صحيحة، وربما أغلظوا في الرد، لا بغضاً له؛ بل هو محبوبٌ عندهم معظَّمٌ في نفوسهم، لكن رسول الله أحب إليهم، وأمره فوق أمر كل مخلوق، فإذا تعارض أمر الرسول وأمر غيره؛ فأمر الرسول أولى أن يقدم ويتبع، ولا يمنع من ذالك تعظیم من خالف أمرہ وإن کان مغفوراً بل ذالك المخالف المغفورله لا یکره أن یخالف أمرہ إذا ظهر أمر الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخلافه

''جس شخص کو رسول اللہ ﷺ کا حکم پہنچا اور اس نے اس کو معلوم کرلیاتو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کو امت محمدیہ تک پہنچائے۔ امت کی خیرخواہی کرے او راس کو رسول اللہ ﷺ کے حکم پر چلنے کی تاکیدکرے اگرچہ امت میں سے کسی عظیم انسان کی رائے اس حکم کے خلاف کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان اس لائق ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے اور بڑے سے بڑے انسان کے مقابلہ میں آپ کی اقتدا کی جائے (جس نےغلطی سے کسی بات میں بعض اوقات اوقات مخالفت کی ہے) یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین نے سنت صحیحہ کی مخالفت کرنے والوں کا زور دارالفاظ میں رد کیا ہے لیکن کیا انہیں اس انسان کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی تھی نہیں ہرگز نہیں بلکہ حقیقتاً وہ تو ان کے ہاں قابل تعظیم تھا او روہ اس کے ساتھ محبت کادم بھرتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی محبت کا انہیں غلبہ تھا اور آپ کاحکم تمام مخلوق سےمقدم تھا اس لیے جب کبھی رسول اللہ ﷺ کے حکم کےمقابلہ میں کسی بھی انسان کا حکم مخالف ہواتو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کو مقدم سمجھا اور اسی کی اتباع کی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس کا قول آپ کے قول کے مخالف ہے اس کی تعظیم نہ کی جائے وہ تو مغفورلہ ہے اس لیے کہ وہ قطعاً اس بات کو مکروہ نہیں جانتاکہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے ظاہر ہونے کے بعد اس کے مخالف قول پرعمل نہ کیا جائے۔''

معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے خلاف خواہ والدین یا اساتذہ کا فرمان ہو تو پھر بھی وہ اس لائق نہیں کہ اس پر عمل کیا جائے۔ امام طحاوی کاقول ملاحظہ فرمائیں۔

امام طحاوی کاقول

امام طحاوی شرح معانی الاثار میں صحیح سند کے ساتھ سالم سے بیان کرتے ہیں:

قال:
"إنّي لجالس مع ابن عمر رضي الله عنه في المسجد إذ جاءه رجل من أهل الشّام فسأله عن التّمتّع بالعمرة إلى الحج؟ فقال بن عمر: حسن جميل. فقال: فإنّ أباك كان ينهى عن ذلك؟ فقال: ويلك، فإنّ كان أبي قد نهى عن ذلك، و قد فعله رسول الله صلّى الله عليه وسلّم و أمر به، فبقول أبي تأخذ أم بأمر رسول الله صلّى الله عليه وسلّم؟! قال بأمر رسول الله صلّى الله عليه وسلّم. فقال: فقم عنّي".

''سالم بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں ابن عمر کی مجلس میں تھا۔ ایک آدمی شان کے باشندوں میں سے |آیا اس نے تمتع کے بارے میں سوال کیا ابن عمر نے فرمایا تمتع کرنا درست ہے اس نےاعتراض کیاکہ تیرا باپ اس سےمنع کیاکرتا تھا۔ اس نےکہا تجھے افسوس ہے اگرچہ میرا باپ منع کرتا ہو جب رسول اللہ ﷺ نےتمتع کیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے تو کیا میرے باپ کےقول کو تسلیم کرے گا یا رسول اللہ ﷺ کے حکم کو تسلیم کرے گا۔ اس نےکہا رسول اللہ ﷺ کے حکم کوتسلیم کروں گا اس پراس نے اس کو واپس جانے کا حکم دیا۔''

اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہورہی ہے جو ابن عساکر میں ہے:

ابن عساکر کی روایت

عن ابن أبي ذئب ، قال : قضى سعد بْن إِبْرَاهِيم عَلَى رجل برأي ربيعة بْن أبي عبد الرحمن ، فأخبرته عن رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بخلاف ما قضى به ، فقال سعد لربيعة : هذا ابن أبي ذئب ، وهو عندي ثقة ، يحدث عن النَّبِيّ صلى الله عليه وسلم بخلاف ما قضيت به ، فقال له ربيعة : قد اجتهدت ، ومضى حكمك ، فقال سعد : واعجبا أنفذ قضاء سعد ، وأنفذ قضاء رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، بل أرد قضاء سعد بْن أم سعد ، وأنفذ قضاء رَسُول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، فدعا سعد بكتاب القضية فشقه ، وقضى للمقضي عليه . .

''ابن ابی ذئب نےبیان کیاہے کہ سعد بن ابراہیم یعنی ابن عبدالرحمٰن بن عوف نےایک آدمی کے خلاف ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن کی رائے کے مطابق فیصلہ دیا میں نے اس کو بتایاکہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ اس کے خلاف ہے ۔سعد نے ربیعہ سےبیان کیا یہ ابن ابی ذئب ہیں۔میرے نزدیک ثقہ ہیں وہ نبیﷺ سے تیرے فیصلے کے خلاف بیان فرماتے ہیں۔ ربیعہ نے اس سے کہا میں نے اجتہاد کیا اور تیرا فیصلہ جاری ہوگیا۔ سعد نے کہا ہائے رے تعجب میں سعد کا فیصلہ نافذ کروں او رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ نافذ نہ کروں بلکہ میں سعد کے فیصلے کورد کروں گا اور رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کو نافذ کروں گا چنانچہ سعد نے فیصلے کی تحریر منگوائی اور اس کو پھاڑ ڈالا او رجس کے خلاف فیصلہ دیا تھا اس کے حق میں فیصلہ دیا۔''

معلوم ہواکہ دین اسلام میں اجتہاد جائز ہے اور اجتہاد کے غلط ہونےکی صورت میں بھی مجتہد اجروثواب کا حق دار ہے۔ صحیحین میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فیصلہ کرنے والا صحیح اجتہاد کی صورت میں دگنے ثواب کاحقدار ہے اور غلط اجتہاد کی صورت میں بھی ایک ثواب کاحقدار ہےچنانچہ ائمہ کرام نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیاکہ وہ سنت کے خلاف ان کے اقوال کو چھوڑ دیں ۔ اس راہ میں امام شافعی  سب سے آگے نکل گئے ہیں وہ اپنے شاگردوں کو حکم دیاکرتے تھے۔ جب مجھےسنت صحیحہ کا علم نہ ہو اور تمہیں اس کا علم ہوجائے تو میری طرف سے تمہیں اجازت ہے کہ تم اس کو میری طرف منسوب کرو۔ یا اگر میرا قول سنت صحیحہ کے خلاف ہو تو اس کو چھوڑ کر سنت صحیحہ پرعمل پیرا ہوجاؤ وہی میرا قول ہے وہی میرا مذہب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب علامہ ابن دقیق العید نے ان مسائل کو ایک ضخیم جلد میں جمع کیا جن میں آئمہ اربعہ میں سے کسی نہ کسی امام نے انفرادً یا اجتماعاً مخالفت کی ہے تو اس نے کتاب کے شروع میں تحریر کیاکہ ان مسائل کی نسبت آئمہ مجتہدین کی طرف کرنا حرام ہے اور فقہاء مقلدین پر لازم ہے کہ آئمہ کرام کے احترام کرتے ہوئے ان غلط مسائل کو ان کی طرف منسوب نہ کریں ان کا ان کی طرف منسوب کرنا ان پر کذب بیانی او ر بہتان طرازی کےمترادف ہے۔

آئمہ کے اقوال چھوڑ کر سنت کا اتناع کرنے والے اہل علم

آئمہ کےمتبعین کا جائزہ لینے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے پیشوا آئمہ کےتمام اقوال پر کاربند نہ تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کافلاں قول سنت کے منافی ہے تو انہوں نےاس کو چھوڑ دیا ۔غور کیجئے امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد او رامام ابویوسف اپنے استاذ کے 1؍3 مسائل میں مخالفت کرتے ہیں ۔فقہ کے فروعی مسائل پرمشتمل کتابیں دیکھنے سے ہمارا مدعاثابت ہوجائے گا۔

امام مزنی جو امام شافعی کے شاگرد ہیں وہ بھی اپنے استاذ کے اقوال تسلیم نہیں کرتے ہیں جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ سنت کے خلاف ہیں چنانچہ امام شافعی کی مشہور کتاب (الام )کے حاشیہ میں فقہ الشافعی کااختصار پیش کرتے ہوئے امام مزنی رقم طراز ہیں۔

امام مزنی کی وضاحت

اختصرت هذا من علم الشافعي، ومن معنى قوله، لأقربه على من أراده، مع إعلامية نهيه عن تقليده وتقليد غيره لينظر فيه لدينه ويحتاط فيه لنفسه".

''میں نے اس کتاب کو امام محمد بن ادریس شافعی کے علم اور اس کے اقوال کے معانی سے اختصار کرکے پیش کیا ہے مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں آسانی ہو اس کے ساتھ ساتھ اس بات سے مطلع ہونا بھی ضروری ہے کہ انہوں نےواضح لفظوں میں اپنی اور دیگر آئمہ کی تقلید سے روکا ہے۔ دین کی معرفت حاصل کرنے کے لیے مطالعہ کریں اور احتیاط کا دامن کبھی ترک نہ کریں۔

امام محمد کاتقلید کے بارے میں ریمارک

مؤطا امام محمد میں امام محمد فرماتے ہیں :

الإمام أبوحنیفة فکان لایریٰ في الاستسقاء صلوٰة وأما في قولنا فإن الإمام یصلي بالناس رکعتين ثم یدعو ویحول رداءه۔

''امام ابوحنیفہ استسقاء میں کسی نماز کے قائل نہیں لیکن ہماراقول ان کے خلاف ہے کہ امام لوگوں کو دو رکعت پڑھائے پھر دعا کرے او راپنی چادر تبدیل کرے۔''

مؤطا امام محمد کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ انہوں نے امام ابوحنیفہ سے بیس مسائل میں اختلاف کیا ہے۔

عصام بن یوسف بلخی کا امام ابوحنیفہ کے خلاف فتویٰ

عصام بن یوسف بلخی جو امام محمد کے تلامذہ او رامام ابویوسف کے رفقاء سے ہیں ۔ وہ اکثر مسائل میں امام ابوحنیفہ کے خلاف فتویٰ دیا کرتے تھے۔اس لیے کہ جب انہیں امام ابوحنیفہ کے قول کے موافق دلیل نہ ملتی تو وہ ان کے خلاف دلیل کی روشنی میں فتویٰ صادر فرماتے چنانچہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کرتے ۔ جیساکہ سنت متواترہ سے رفع الیدین ثابت ہے او رانہیں تینوں آئمہ کارفع الیدین نہ کرنا رفع الیدین کرنے سے روک نہ سکا اس لیے کہ ہرمسلمان کےلیےضروری ہے کہ وہ آئمہ کے اقوال کے مقابلہ میں سنت پر عمل پیرا رہے جب کہ آئمہ نے خود اقرار کیا ہے کہ سنت کے مقابلہ میں ہمارے اقوال پرعمل نہ کیا جائے۔

معلوم ہوا کہ مکحول کا امام ابوحنیفہ سے روایت کرنا کہ رفع الیدین کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے ، باطل ہے اس لیے کہ عصام بن یوسف بھی تو ایوسف کے رفقاء سے تھےاور وہ رفع یدین کیاکرتے تھے۔ اگر مکحول کی بیان کردہ روایت درست ہوتی تو ابویوسف اور عصام کو اس کا علم ہوتا تو وہ کیوں رفع یدین کرتے۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی حنفی کسی مسئلہ میں اپنے امام کےمذہب کو چھوڑ دیتا ہے اس لیےکہ دلیل اس کی مخالف جانب میں ہے تو وہ تقلید کے دائرہ سے خارج نہیں ہوتا بلکہ ترک تقلید کی صورت میں عین تقلید ہے کیا یہ حقیقت نہیں کہ عصام بن یوسف نے جب امام ابوحنیفہ کے مذہب کے خلاف فتویٰ دیا ہے تو وہ حنفیت سے خارج ہوگئے ہرگز نہیں وہ اب تک آئمہ احناف سے شمار ہوتے ہیں۔ الی اللہ المشتکیٰ۔

تعجب ہے کہ اس دور میں جہلاء ان لوگوں پر زبان طعن دراز کرتے ہیں جو کسی ایک مسئلہ میں اپنے امام کے قول پرعمل کرتے او راس کومقلدین کی فہرست سے خارج کردیتے ہیں۔عوام الناس پرتو اتناتعجب نہیں، انہیں واقفیت نہیں۔ البتہ ان لوگوں پر تعجب ہے جو علماء کےزمرہ میں سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کی سوچ کےزاویے عوام کالانعام سے زیادہ نہیں۔

خلاصۃ المرام

اس کتاب کےمطابق میں قارئین سے امید کی جاتی ہے کہ وہ تقلید کے پیش نظر کتاب سے استفادہ کرنے میں کوتاہی نہیں کریں گے اور ہمارے خلاف زبان طعن دراز نہیں کریں گے اور سنن نبویہ پر عمل پیرا ہونےسے محض اس لیےگریز نہیں کریں گے کہ نماز کی بیان کردہ کیفیت ان کے مذہب کے خلاف ہے اور آئمہ کرام کے اقوال کی روشنی میں سنت پرعمل کریں گے او رسنت کے خلاف آئمہ کے اقوال کو چھوڑ دیں گے اس کے بعد اگر وہ ہمارے مسلک پر طعن دراز کریں گے تو وہ حقیقت اپنے اس امام کی شان میں گستاخی کریں گے جس کی تصدیق میں وہ رطب للسان ہیں۔

نماز کی کیفیت کےبیان میں ہم نے سنت نبوی کو بنیاد قرار دیا ہے جوشخص ہدایت کے راہ سےگریز اختیار کرے گا اور اس کیفیت کےمطابق نماز ادا نہیں کرے گا وہ ہلاکت کےگڑھے میں گرے گا اس لیے کہ وہ سنت سے اعراض کررہا ہے جبکہ ہمیں حکم ہے کہ اختلاف کے وقت سنت کی طرف رجوع کریں او راس پر اعتماد کریں۔ ارشاد ربانی ہے:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا(النساء:65)

''تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اورجو فیصلہ تمؐ کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی کے ساتھ مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔''

آخر میں بارگاہ الہٰی میں التجا ہے کہ وہ ہمیں ان لوگوں کےزمرہ میں داخل فرما جن کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:

إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (51) وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ(النور:51،52)

''مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب خدا اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیااو ریہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اور جوشخص خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اور اس سے ڈرے گا تو ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔''

چند شبہات او ران کے جوابات

دس سال عرصہ گزر چکا ہےجب میں نے اس کتاب کا مقدمہ تحریر کیااس وقت سے لے کر اب تک الحمد للہ مقدمہ کے مطالعہ سے قارئین کو خاصا فائدہ پہنچا ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں نے اچھا اثر قبول کیا انہوں نے محسوس کیاکہ نہ صرف عبادات بلکہ دین کے تمام امور میں اسلام کے سرچشمہ کتاب و سنت کی طرف لوٹنا ضروری ہے یعنی کتاب و سنت کی راہنمائی میں تمام امور سرانجام دیئے جائیں نتیجۃً ان میں دین کاشغف بڑھتا چلا گیا او رعمل بالسنۃ کا جذبہ تیز ہوتاچلا گیا والحمدللہ علی ذالك۔

تاہم کچھ لوگوں کاذہپن ابھی تک صاف نہ تھا وہ توقف اختیار کیے ہوئے تھے۔ مقدمہ میں بیان کردہ دلائل پرتو انہیں قطعاً شک نہ تھا۔ آیات و احادیث کی روشنی میں جن اہم نکات کو صفحہ قرطاس پرقم کیا گیا تھا ان کے مطالعہ سے وہ مطمئن تھے۔ البتہ بعض مشائک مقلدین کی طرف سے اٹھائے گئے چند اعتراضات کی وجہ سے ان کاشک و شبہ میں واقع ہوجانا ناممکن نہ تھا اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ ان شبہات کو اولاً ثابت کیا جائے پھر ان کے مسکت جوابات پیش کئے جائیں تاکہ وہ کہیں شبہات کی دلدل میں ہینہ پھنسے رہیں او ران میں عمل بالسنۃ کا جذبہ سرد نہ پڑ جائے اور وہ فرقہ ناجیہ سے باہر نہ نکل جائیں۔

شبہہ اوّل: اس میں کچھ شک نہیں کہ دین کے تمام امور میں سنت کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے خاص طورپر عبادات میں رائے اجتہاد وغیرہ کا کچھ دخل نہیں اس لیے کہ بالاتفاق عبادات توقیفی ہیں۔ شارع علیہ السلام کی راہنمائی کے سوا کوئی صورت قبول نہیں مثلاً نماز ایک عبادت ہے اس کو بالکل اسی طرح ادا کیا جائے گا جس طرح سنت میں اس کے ادا کی تفاصیل موجود ہیں۔

لیکن کیاکیاجائے ان مشائخ مقلدین کا جو نہ صرف عبادات میں بلکہ دیگر تمام امور اسلامیہ میں بھی اختلاف کو برقرار رکھتے ہیں اور اس کو امت کے حق میں بہتر سمجھتے ہیں وہ اپنے اس خیال کوحقیقیت کا لباس پہنچانے میں مشہور حدیث (اختلاف أمتي رحمة)(میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے) کا سہارا لیتے ہیں او راہل سنت کا ردّ کرتے ہوئے مذکورہ حدیث کو اپنی مجلسوں میں بارہا دہراتے ہیں۔

پہلا جواب : یہ حدیث بظاہر اس انداز کے مخالف ہے جو انداز راقم الحروف اختیار کئے ہوئے ہے اور جس کی طرف دعوت دے رہا ہے او رجس بنیاد پر کتب کی تالیف کاسلسلہ شروع ہے لہٰذا اولاً ہم اس حدیث پر بحث کرتے ہیں۔ سنئے حدیث صحیح نہیں بلکہ باطل ہے اس کا کچھ اصل نہیں۔

علامہ سبکی کا قول: اختلاف امتی رحمۃ حدیث بلا سند ہے اس کی سند صحیح ضعیف تو کجا موضوع بھی نہیں ہے۔

خیال رہے کہ یہ حدیث دو مختلف جملوں سے وارد ہے ایک جملہ یہ ہےکہ (اختلاف أصحابي لکم رحمة) میرے صحابہ کا اختلاف تمہارے لیےباعث رحمت ہے اور دوسرا جملہ اس طرح وارد ہے اصحابی (کالنجوم فبأیھم اقتدیتم اھتدیتم ) میرے اصحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی تم اقتدار کرو گے ہدایت پاجاؤ گے۔ لیکن یہ دونوں حدیثیں غیرصحیح ہیں پہلی حدیث سخت کمزور ہے اور دوسری حدیث موضوع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سلسلة الأحادیث الصعیفة والموضوعة (رقم 58،59،61)

دوسرا جواب : حدیث ضعیف ہونے کےساتھ ساتھ قرآن پاک کےمفہوم کے مخالف ہے اس لیے کہ قرآن میں ایسی آیات موجود ہیں جو دین میں اختلاف کو برداشت نہیں کرتیں اور اتفاق کی تاکید میں تو بلا شبہ متعدد مقامات میں حکم موجود ہے اگرچہ ان کے بیان کی ضرورت تو نہ تھی تاہم بطور مثال چند آیات پیش کرتے ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے:

وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ (الانفال:46)

''اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا۔''

ارشاد ربانی ہے:

وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (31) مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ(الروم :31،32)

''اورمشرکوں میں نہ ہونا (اورنہ ) ان لوگوں میں (ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور فرقے فرقے ہوگئے سب فرقے اس سے خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔''

ارشاد ربانی ہے: وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ (118) إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ(ہود :118،119)

مذکورہ آیات سے ثابت ہورہا ہے کہ جن پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں وہ اختلاف نہیں کرتے۔ اختلاف کرنا تو باطل پرست لوگوں کاوطیرہ ہے۔ پس کیسے ممکن ہے کہ اختلاف کو رحمت قرار دیاجائے اور اثبات میں وہ حدیث پیش کی جائے جو سند اور متن کےلحاظ سے صحیح نہیں ہے او رکتاب و سنت کے روشن دلائل کی موجودگی میں ضعیف حدیث کوملحوظ رکھتے ہوئے دین میں شبہات کا دروازہ کھولا جائے۔

دوسرا شبہہ: اگر دین اسلام میں اختلاف سے منع کیا گیا ہے تو پھر صحابہ کرام کے اختلاف او ران کے بعد ائمہ عظام میں رونما ہونے والے اختلاف کا جواب کیا ہے۔ یا صحابہ کرام اور ائمہ عظام کااختلافصحیح تھا او ران کےغیر میں اختلاف درست نہیں ہے۔

صحابہ کرام میں اختلاف: غور کیجئے دونوں اختلافوں میں سبب اور اثر کےلحاظ سے نمایاں فرق موجود ہے۔ صحابہ کرام کا اختلاف ضرورت کے پیش نظر اور طبعی تھا بلکہ فہم کا اختلاف تھا انہوں نے از خود اختلاف کو ہوانہیں دی ان کے دور میں کچھ ایسے حالات اور واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے اختلاف ناگزیر ہوگیا ان کے بعد وہ اختلاف ختم ہوگیا اور پھر اس قسم کے اختلاف سےمکمل طور پر خلاصی پاناممکن نہیں او رنہ ہی یہ اختلاف وہ اختلاف ہے جس کی مذمت پر سابقہ آیات سے استدلال کیا گیا ہے اس لیےکہ ان کا اختلاف قصداً نہ تھا او رنہ ہی انہیں اس پراصرار تھا یہی وجہ ہے کہ اس اختلاف کی وجہ سے ان سے مواخذہ نہیں ہوگا جبکہ مواخذہ کی شرائط موجود نہیں ہیں۔

مقلدین کا اختلاف: مقلدین کے اختلاف کو صحابہ کرام کے اختلاف سےکچھ نسبت نہیں مقلدین کا حال تو یہ ہے کہ انہیں کتاب و سنت سے دلائل کی آگاہی بھی ہوجاتی ہے اس کے باوجود اپنے امام کے قول کو نہیں چھوڑتے، وہ اپنے نظریات کی سختی سے پابندی کرتے ہیں او ران کے خلاف کتاب و سنت سے پیش کیے جانے والے دلائل کو کچھ حیثیت نہیں دیتے او راپنے مذہب سے سرمو سرکنے کا نام نہیں لیتے۔ ان کے ہا|ں ان کے امام کاقول ہی وہ دین اسلام ہے جس کو محمدﷺ نے پیش فرمایا اس کے علاوہ سب کچھ منسوخ ہے یا وہ دین نہیں ہے کیا جب لوگ اس قدر دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی اختیار کیے ہوئے ہیں تو ان کاعذر عنداللہ قابل قبول ہوسکتا ہے؟ او رکیا اس قسم کے اختلاف کو صحابہ کرام کے اختلاف کے ساتھ ملایاجاسکتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔

بعض مقلدین کے اختلاف کو مستحسن جاننا: بعض مقلدین کی رائے یہ ہے کہ مذاہب کے اختلاف میں کچھ حرج نہیں۔ مذاہب کا اختلاف ان کے ہاں انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں کے مانند ہے جن میں اختلاف موجود تھا۔ بعض متاخرین فقہاء نے وضاحت کے ساتھ اس کاذکر کیاہے۔

پس ہر شخص بااختیار ہے وہ جس مذہب کو اپنانا چاہتا ہے اس پر کوئی قدغن عائد نہیں کی جاسکتی اس لیے کہ تمام مذہب اختلاف کے باوجود شریعت اسلامیہ کہلانے کے مستحق ہیں او راختلاف امتی رحمۃ موضوع حدیث سے ان کے مؤقف کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور اختلاف کے استحسان او راس کے بقاء پر اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں اور اپنے مؤقف کو بلا جھجک پیش کرتے ہیں او رعوام الناس کو اپنی جانب مائل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اختلاف کو اس لیے رحمت قرار دیا گیا ہے تاکہ مسائل میں کچھ تنگی نہ ہو وسعت باقی رہے او رجب ہر لحاظ سے گنجائش پیدا ہوتی رہے گی تو اسی کو رحمت کے لفظ کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔

جواب: بیان کردہ علت مذکورہ صریحہ آیات کے ہی مخالف نہیں بلکہ اومہ کرام کی جانب سے بیان کردہ اقوال کے بھی منافی ہے۔ بعض ائمہ سے صراحتاً اختلاف کی قباحت پر اقوال منقول ہیں۔

اختلاف کی قباحت میں امام مالک او رامام لیث  کا قول: ابن القاسم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام مالک اور امام لیث سے سنا وہ صحابہ کرام کے اختلاف کی بنیاد پر اختلاف کو مستحسن نہیں گردانتے ہیں جس طرح عام لوگوں نے صحابہ کرام کے اختلاف کو بنیاد قرار دے کر اختلاف کو مستحسن کہا ہے انہوں نےصاف صاف اعلان کیا کہ صحابہ کرام کے اختلاف میں بھی دونوں راہ صواب پرنہ تھے۔ بلکہ ایک رائے کو غلط کہنا پڑے گا ظاہر ہے کہ دو متضاد خیالات کو صحیح قرار دینا ممکن نہیں۔

اشہب بیان کرتے ہیں کہ امام مالک سے استفسار کیا گیا اگر کوئی شخص اس حدیث کو قابل عمل سمجھتا ہے جس کو کسی ثقہ راوی نے صحابی سے بیان کیا ہو تو کیا اس کا حدیث کو قابل عمل سمجھنا درست ہے؟ انہوں نے جواب دیا نہیں۔بخدا جب تک کہ وہ حدیث صحیح نہ ہو اس لیے کہ دو متضاد قول تو صحیح قرار نہیں دیئے جاسکتے اور صحابہ کرام میں اختلاف کا تقاضا بہرحال یہ ہے کہ دو صحابی ایک دوسرے کے خلاف بیان دیں او ران کے اقوال میں تضاد ہو لازماً ایک قول کو صحیح کہنا ہوگا اور دوسرا قول باطل ہوگا۔

امام مزنی کا اختلاف صحابہ کے بارے میں ریمارک

وقد اختلف أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فخطا بعضھم بعضاً ونظر بعضهم في أقاویل بعض و تعقبها ولو کان قولھم کله صوابا عندھم لما فعلوا ذالك و غضب عمر بن الخطاب من اختلاف أبي بن کعب و ابن مسعود في الصلوٰة في الثوب الواحد إذ قال أبي أن الصلوٰة في الثوب الواحد حسن جمیل وقال ابن مسعود إنما کان ذالك والثیاب قلیلة فخرج عمر مغضباً فقال اختلف رجلان من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ممن ینظر إليه و یؤخذ عنه وقد صدق أبي ولم یأل ابن مسعود ولٰکن لا أسمع أحداً یختلف فيه بعد مقامي ھٰذا إلا فعلت به کذا و کذا

''رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام میں اختلاف ہوا بعض نے بعض کی رائے کو غلط کہا اور اس کے اقوال پر اعتراضات کیے اور تعاقب کیا اگر ان کے تمام اقوال سبھی کے نزدیک درست ہوتے تو وہ ایک دوسرے کی غلطیاں نہ نکالتے (دیکھئے) حضرت عمر ناراض ہوگئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ابی بن کعب اور ابن مسعود ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں آپس میں الجھ پڑے ابی بن کعب کا نظریہ تھا ایک کپڑے میں نماز ادا کرنابالکل ٹھیک ہے جبکہ عبداللہ بن مسعود کا مؤقف یہ تھا کہ ایک کپڑے میں نماز ادا کرنا اس لیےجائز تھاکہ کپڑے عام طور پر میسر نہ تھے ۔ حضرت عمر خفگی کے عالم میں باہر آئے اور فرمایا رسول اکرمﷺ کے دو اصحابی ایک مسئلہ میں جھگڑ رہے ہیں کس کی رائے درست کو سمجھا جائے؟ (میرا فیصلہ یہ ہے) کہ حضرت ابی بن کعب درست فرما رہے ہیں او رعبداللہ بن مسعود بھی کسی کوتاہی کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن سن لیجئے جو شخص اب اس مسئلہ میں اختلاف کرتا ہوا پایا گیا وہ میرا سزا سے بچ نہ سکے گا۔''

نیز وہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اختلاف کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے او راس کو مستحسن جانتا ہے اور اس بات کا قائل ہے کہ جب دو عالم کسی مسئلہ میں اجتہاد کریں گے ایک اس کو حلال کہتا ہے دوسرا حرام تو کیا دونوں کی رائے صحیح ہے او رکیا دو متضاد خیالات کو درست کہنا کسی نص کی بناء پر ہے یا قیاس پر اس کا انحصار ہے اگروہ کہے کہ اس کی بنیاد نص پر ہے تو ہم قطعاً اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے اس لیے کہ جب کتاب اللہ میں اختلاف کو مستحسن نہیں سمجھا گیا تو وہ کون سی نص ہے جس میں اختلاف کو مستحسن جانا گیا ہے اگر وہ قیاس پر بنیاد قائم کرتا ہے تو ہم کہیں گے کہ نصوص اور اصول تو اختلاف کی نفی کرتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ان پر اختلاف کے جواز کا قیاس کیا جائے کوئی عقلمند انسان اس قسم کی لا یعنی بات نہیں کہتا چہ جائے کہ عالم انسان کی زبان سے اس قسم کی بات نکلے۔

اعتراض : اگر اختلاف مستحسن نہ ہوتا تو امام مالک جیسے انسان سے اس کے استحسان پر قول منقول نہ ہوتا چنانچہ المدخل الفقہی لاستاذ الزرقا میں ہے۔

ولقد ھم أبوجعفر المنصور ثم الرشید من بعدہ أن یختارا مذھب و کتابه الموطأ قانوناً قضائیاً للدولة العباسیة فنھا ھما مالك عن ذالك وقال إن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اختلفوا في الفروع وتفرقوا في البلدان وكل مصيب

''ابوجعفر منصور او رہارون الرشید نے خیال ظاہر کیا کہ کیوں نہ عباسی سلطنت میں امام مالک کے مذہب او ران کی تالیف کردہ کتاب مؤطا کو عدالتوں میں قانونی حیثیت دے دی جائے۔ امام مالک نے انہیں اس سے روکا او رکہا کہ رسول اکرمﷺ کے صحابہ کرام فروع میں اختلاف رکھتے تھے اور وہ مختلف شہروں میں آباد ہوگئے او رہر صحابی راہ صواب پر ہے۔''

جواب: امام مالک کی طرف سے ذکر کردہ قول بہت مشہور ہے ۔ لیکن اس کے آخر میں (کل مصیب) کا جملہ قابل اعتماد روایات میں نہیں ہے۔ جس پر معترض کی بنیاد ہے البتہ ایک روایت حلیۃ الاولیاء میں ہے جس کی سند میں مقدام بن داؤد راوی ہے جس کو امام ذہبی نے ضعفاء میں ذکر کیا ہے نیز اس روایت میں کل عند نفسہ مصیب کے الفاظ ہیں معلوم ہوا کہ مدخل کی روایت یقینی نہیں ہے لہٰذا اعتراض رفع ہوگیا پھر یہ روایت اس ثقہ روایت کےمنافی ہے جس میں امام مالک سے صراحتاً منقول ہے کہ اختلاف کی صورت میں حق ایک جانب میں ہے اور تمام جلیل القدر صحابہ، تابعین عظام اور ائمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے۔

علامہ ابن عبدالبر کی وضاحت: علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں:

ولو كان الصواب في وجهين متدافعين ما خطأ السلف بعضهم بعضًا في اجتهادهم وقضائهم وفتواهم.
والنظر يأبى أن يكون الشيء وضده صوابًا كله

 و لقد أحسن من قال:

إثبات ضدین معاً في حال أقبح مایأتی من المحال۔

''اور دو متضاد صورتوں میں دونوں کو صحیح کیا جائے تو سلف صالحین اجتہادات ، قضایا، فتویٰ میں ایک دوسرے کو خطا کی جانب منسوب نہ کرتے۔ اور عقل سلیم بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ دو متضاد چیزیں دونوں ہی درست ہوں کسی نے کیا خوب کہا ہے:

(دو متضاد نظریات کو معاً صحیح ثابت کرنا بدترین محال چیز کو ثابت کرتا ہے۔)''

اعتراض : اگر یہ روایت صحیح نہیں تو پھر امام مالک نے منصور عباسی کو مؤطا کتاب پر جمع کرنے سے کیوں روکا۔

جواب: اس بارے میں جس قدر روایات مروی ہیں ان سب میں حافظ ابن کثیر کی بیان کردہ روایت نہایت عمدہ ہے ۔ جس میں مذکور ہےکہ امام مالک نے کہا:

إن الناس قد جمعوا واطلعوا علیٰ أشیاء لم نطلع علیھا۔

''لوگوں نے بھی مسائل کو یکجا کیا ہے اور بعض ایسے معلومات فراہم کیے ہیں جن پر مجھے اطلاع نہیں۔''

امام مالک کا مقصود یہ تھا کہ مؤطا امام مالک کو قانون کی حیثیت نہ دی جائے اس لیے کہ دیگر ائمہ نے بھی حدیث کے مجموعے تیار کیے ہیں او ران میں ایسے معلومات موجود ہیں جن کا مجھے علم نہ ہوسکا اس لیے صرف موطا کو قانونی حیثیت دینا صحیح نہیں ہے۔

اگر غور کیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ امام مالک کا یہ قول ان کے اختیار اور انصاف پر مبنی ہے معلوم ہواکہ اختلاف میں قطعاً خیر کا پہلو نہیں ہے وہ شر ہی شر ہے۔ البتہ بعض اختلافات ایسے ہیں جن پر مواخذہ ہوتا ہے جیسا کہ مذہبی تعصب ایک مہلک چیز ہے اور صحابہ کرام ائمہ عظام کا اختلاف اس قبیل سے نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اس پر مواخذہ ہوگا۔ حشرنا اللہ فی زمرتھم ووفقنا لاتباعھم

صحابہ اور مقلدین کے اختلاف میں سبب کے لحاظ سے فرق: پس معلوم ہوا کہ مقلدین کے اختلافات صحابہ کرام کے اختلافات سے کچھ مماثلت نہیں رکھتے۔ صحابہ کا اختلاف اضطراری نوعیت کا تھااس لیے کہ وہ تو اختلاف سے کوساں دور بھاگتے ہیں۔لیکن مقلدین اگرچہ انہیں اختلاف سے بچاؤ کی شکل بھی پیدا ہوجائے پھر بھی اختلاف کو ختم کرنے پر آمادہ نہیں گویا کہ انہیں اتفاق سے سخت نفرت ہے۔

اثرات کے لحاظ سے بھی ان میں واضح فرق کی کیفیت: اس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اگرچہ فروع میں کچھ اختلاف تھا اس کے باوجود وہ کوشاں رہتے کہ ان کی صفوں میں وحدت قائم رہے او راس کے حصول میں ان کی مساعی قابل رشک ہیں۔ وہ ان ذرائع سے کنارہ کش رہتے جن سے ان میں افتراق کی خلیج حائل ہونے کا اندیشہ ہو ،غور کیجئے ان میں اس ذہن کے حضرات بھی موجود ہیں جو جہری نماز میں امام کے لیے بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم جہر سے پڑھنے کو مشروع کہتے جبکہ غیر مشروع کہنے والے بھی موجود تھے۔ ان میں رفع الیدین کے استحباب کے قائل بھی تھے او روہ بھی جو اس کو غیر مستحب سمجھتے ان میں وہ لوگ بھی جو اس کے قائل نہ تھے اس کے باوجود وہ سب ایک صف میں ایک امام کے پیچھے نماز ادا کرتے اور اس امام کی اقتداء میں نماز ادا کرنےسے پش و پیش نہ کرتے جس کامسلک ان کے مسلک کے خلاف ہوتا۔

مقلدین کا آپس میں اختلاف: لیکن مقلدین کا اختلاف اس سےبالکل مختلف ہے اور اس کے آثار بالکل واضح ہیں کیا یہ حقیقت نہیں کہ کلمہ شہادت کے بعد نماز دین اسلام کا بہت بڑارکن ہے۔ اس میں ان کے اختلاف کا اندازہ لگا لیجئے کہ سبھی مقلدین ایک امام کے پیچھے نماز ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ امام چونکہ (بطور مثال) حنفی مسلک کا نہیں ہے اس کی نماز باطل یا مکروہ ہے ۔ اس لیے ہماری نماز بھی باطل ٹھہرے گی۔ اس قسم کی باتیں نہ صرف یہ کہ بعض مقلدین کی زبان سے سنی گئی ہیں بلکہ ہمارے چشم دیدہ واقعات ہیں کہ یہ لوگ مخالف نظریات رکھنے والے کی اقتداء میں نماز ادا نہیں کرتے۔الگ نماز اداکرلیتے ہیں۔مزید تعجب تو اس بات پر ہے کہ مشہور مذاہب کی بعض کتابوں میں نماز کے باطل یامکروہ ہونے پر نص موجود ہے اسی کانتیجہ ہے کہ ایک مسجد میں چار محراب ہیں او رباری باری اپنےمقلدین کی مختلف ائمہ نمازکی امامت کراتے ہیں اور جب ایک امام نماز کی امامت کرا رہا ہوتا ہے تو دوسرے امام کے مقلدین اپنے امام کی انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں جماعت میں شریک نہیں ہوتے۔

شدید اختلاف کی مثال: مقلدین کا آپس میں جو اختلاف ہے وہ سنگین صورت حال اختیار کرگیا ہے چنانچہ حنفی مرد اور شافعی مسلک کی عورت کے درمیان نکاح کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔

احناف کے مشہور عالم (مفتی الثقلین)کا فتویٰ ہے کہ حنفی مرد کا شافعی عورت کے ساتھ نکاح کرنا تو جائز ہے لیکن (بلحاظ مفہوم کے) شافعی مرد کا حنفی عورت کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں اس لیے کہ جواز کی صورت میں تو شافعی عورت کو اہل کتاب کےمرتبہ میں اتار کر اس سےنکاح کی اجازت دی جائے گی لیکن دوسری صورت میں جس طرح کوئی اہل کتاب کسی مسلمان عورت کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتا۔ اسی طرح کسی شافعی کو حنفی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

اس قسم کی امثلہ فقہ کی کتابوں میں کثرت کے ساتھ موجود ہیں ۔ ہم نے محض اپنے ادعاء کو ثابت کرنے کے لیے یہ مثال پیش کی ہے تاکہ قارئین کو معلوم ہو کہ مقلدین میں جو اختلاف ہے اس کے کس قدر ناگفتہ بہ نتائج ظاہر ہورہے ہیں او رکیا مقلدین کے اختلاف کو صحابہ کرام کے اختلاف کے ساتھ کچھ نسبت ہوسکتی ہے ؟ ہرگز نہیں۔

صحابہ کرام میں اختلاف سے امت مسلمہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا۔ اسی لیے ہم زور دار لفظوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اختلاف سے روکنے کی آیات کی ان سے نہ مخالفت ہوئی ہے اور نہ وہ ان کے مصداق ہیں۔ البتہ متاخرین فقہاء کا دامن یقیناً ملوت ہے ان کے اختلاف کے نتائج بد سے امت مسلمہ کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ ھدانا اللہ جمیعاً الی الصراط المستقیم

اگر مقلدین کے اختلاف کے بُرے نتائج سے صرف انہیں ہی واسطہ ہوتا اور اسکے نقصانات ان کے غیر کی طرف متعدی نہ ہوتے تو کچھ حرج نہ تھا لیکن افسوس تو اس بات پر ہے کہ ان کے آپس کے اختلاف نے غیرمسلموں کو اسلام سے بدظن کردیا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ اسلام کی پاک صاف دعوت پر وہ لبیک کہتے اور کثرت کے ساتھ اسلام کے سایہ میں پناہ لیتے لیکن آپس کے اختلاف نے انہیں بددل کردیا اور وہ اسلام پر اعتراضات کرنے لگے۔

ایک واقعہ : امریکہ کی یونیورسٹی پرنسٹن میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ایک نمائندے نے سوال اٹھایا۔

مشرق وسطیٰ اور دیگر اسلامی ممالک میں اسلام کی طرف دعوت دینے والے لوگ کیا اسلام کی ان تفاصیل کاذکر کرتے ہیں؟ جن کا ذکر اہل سنت کرتے ہیں یا وہ تعلیمات پیش کرتے ہیں جو شیعہ امامیہ یازیدیہ کی فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے او رکون نہیں جانتا کہ ان دونوں کے نقطہ نظر اور تعلیمات میں نمایاں تضاد موجود ہے اور غیرمسلم لوگ جب مختلف نظریات سنتے ہیں تو حیرت ان کے دامن کو تھام لیتے ہیں اور وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپاتے کہ کن نظریات کو اپنایا جائے او رکون سے وہ اصول ہیں جنہیں اسلام کا صحیح اصول قرار دیا جائے شک و تذبذب میں واقع ہوجانے کی وجہ سے اسلام کی طرف دعوت دینے والوں کے بارے میں بھی تذبذب ہوجاتے ہیں او رسمجھتے ہیں کہ وہ تو خود کسی واضح نصب العین سے ناواقف ہیں اور گمراہ ہیں انہیں روشنی کی ضرورت ہے۔ وہ ہماری راہ نمائی کیسے کرسکتے ہیں؟

علامہ محمد سلطان معصومی کا بیان: ہدیۃ السلطان الیٰ مسلمی بلا دیابان تالیف علامہ محمد سلطان معصومی کے مقدمہ میں تحریر ہے۔

ٹوکیو جاپان کے مسلمانوں کی جانب سے ایک فتویٰ موصول ہوا جس میں انہوں نے استفسار کیا: دین اسلام کی حقیقت کیا ہے؟ مذہب کی تعریف کیا ہے؟ کیا وہ شخص جو دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ چار مشہور مذاہب میں سے ایک مذہب کا پیروکار بنے یا وہ حنفی یا مالکی یا شافعی یا حنبلی مذہب اختیار کرے یا یہ ضروری نہیں ہے ۔ اس سوال کی ضرورت اس لیے پیش آئی جب بابونیا کے آزاد خیال لوگوں نے دین اسلام میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو انہوں نےٹوکیو میں مسلمانوں کی جمعیت سے استفسار کیاکہ ہمیں دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد کون سا مذہب اختیار کرناچاہیے اس پر ہندوستان کے علماء نے کہا کہ تمہیں امام ابوحنیفہ کا مذہب اختیار کرناچاہیے اس لیےکہ امام ابوحنیفہ امت مسلمہ کے روشن چراغ تھے اور انڈونیشیا جاوا کے علماء نےکہاکہ انہیں امام شافعی کا مذہب اختیارکرناچاہیے۔جب مسلمان ہونے والے چاپانیوں نے اس اختلاف کامظاہرہ دیکھا تو وہ حیرت زدہ ہوگئے انہیں سخت تعجب لاحق ہوا اور وہ سوچنے لگے کہ اسلام میں مذاہب کا مسئلہ سخب عجیب ہے اب ہمیں معلوم نہیں کہ ہم کون سا مذہب اختیار کریں اس وجہ سے وہ اسلام میں داخل ہونے سےمحروم رہے۔

تیسرا شبہ: بعض مقلدین کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جو لوگ اتباعسنت کی رٹ لگا رہے ہیں او رائمہ کرام کے ان اقوال کےتسلیم کرنےسے انکار کررہے ہیں جو سنت کے مخالف ہیں وہ دراصل مطلقاً ائمہ کرام کے اقوال کے تسلیم سے انکار کرتے ہیں اور ان کے اجتہادات اور آراء سے استفادہ کرنا پسند نہیں کرتے۔ اسلام میں اس قسم کی منافرت کی کچھ گنجائش نہیں۔

جواب: ان لوگوں کی طرف سے یہ شوشہ جو کھڑا کیا جاتاہے کہ ہم ائمہ کرام کے اجتہادات سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور ان کی آراء کو کچھ حیثیت نہیں دیتے بالکل غلط ہے اس کے غلط ہونے پر ہماری تحریریں شاہد ہیں۔

ہم دراصل جس چیز کی طرف دعوت دےرہے ہیں وہ یہ ہے کہ سنت کا اتباع کیا جائے۔ اور کسی فقہی مذہب کو دین اسلام نہ سمجھا جائے او رنہ اس کو کتاب وسنت کامقام دیا جائے کہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف رونما ہو تو ہم اس کے حل کے لیے کتاب و سنت چھوڑ کر فقہی مذاہب کی طرف رجوع کریں یا پیش آمدہ جدید مسائل کے حل میں فقہی مذاہب کی کتابوں سے استنباط کریں جیسا کہ موجوہ دور کے فقہا نئے مسائل میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کی بجائے جدید موشگافیوں کےمرتکب ہورہے ہیں او راختلاف کو رحمت قرار دیتے ہوئے مصلحت ،رخصت، آسانی کی آڑ میں نت نئے شگوفے چھوڑ رہے ہیں او رجس امام کے قول میں آسانی ہے اس کے قول کی روشنی میں فتویٰ صادر کردیا جاتا ہے جو شریعت اسلامیہ کی روح کے منافی ہے۔ سلیمان تیمی کاقول کس قدر ہمارے نظریہ کی تائید کررہا ہے، سنئے۔

سلیمان تیمی کا قول: إن أخذت برخصة کل عالم اجتمع فيك الشرکله

اگر آپ ہر عالم کی رخصت پرعمل کرنےلگیں توآپ تمام قسم کے شر کو اپنے دامن میں لپیٹ لیں گے۔

سلیمان تیمی کے اس قول پر اجماع ہوچکا ہے جس سے کسی کو انکارکی گنجائش نہیں البتہ جس مسئلہ میں کتاب و سنت خاموش ہیں یا ان میں وارد مسئلہ کسی وضاحت کا محتاج ہے تو ائمہ کے اقوال کامطالعہ کرنا او ران کے اختلافات کا جائزہ لے کر حق معلوم کرنا اور فائدہ حاصل کرنا او راقوال کی روشنی میں وضاحت کے ہمکنار ہونا یہ ایسے امور ہیں جن کا انکارنہیں ہوسکتا ہمارا اپنا اصول یہ ہے کہ ایسے حالات میں ہم ان سے فوائد اخذ کرتے ہیں اور دیگر علماء کو بھی رغبت دلاتے ہیں اس لیے کہ کتاب و سنت کے راستہ پر چلنے والوں کے لیے اس کے بغیرچارہ کار ہی نہیں ہے۔

علامہ ابن عبدالبر کاقول

"فعليك يا أخي بحفظ الأصول والعناية بها، واعلم أن من عُنِيَ بحفظ السنن والأحكام المنصوصة في القرآن ونظر في أقاويل الفقهاء فجعلها عوناً له على اجتهاده ومفتاحاً لطرائق النظر، وتفسيراً لجمل السنن المحتمل للمعاني، ولم يقلد أحداً منهم تقليد السنن التي يجب الانقياد إليها على كل حال دون نظر، ولم يرح نفسه مما أخذ العلماء به أنفسهم من حفظ السنن وتدبرها واقتدى بهم في البحث والتفهم والنظر، فهذا هو الطالب المتمسك بما عليه السلف الصالح، وهو المصيب لحظه والمعاين لرشده والمتبع لسنة نبيه صلى الله عليه وعلى آله وسلم وهدي صحابته رضي الله عنهم (ابن عبدالبر:2؍182)

''اے میرے بھائی اصول کی حفاظت کرو اور ان کا خیال رکھو او ریقین کرلو کہ جو شخص سنن اور ان احکام کی حفاظت کا اہتمام کرے گا جو قرآن پاک میں منصوص ہیں اور فقہاء اور فقہاء کے اقوال پر غوروفکر کے دریچوں کو وا کرے گا اور سنت میں وارد جملے (جو ایک سے زیادہ معانی کے متحمل ہیں) ان کی تفسیر کرے گا اور کسی فقیہ کی تقلید سنت کی اتباع کی مانند نہیں کرے گا یعنی سنت کی اتباع تو بہرحال بلا تردد ضروری ہے اور جس طرح علماء نے سنن کی حفاظت اور اس میں تدبر کیا ہے وہ ان کے راہ سے اپنے آپ کو دور نہیں کرے گا بلکہ بحث ، فہم،غوروفکر میں ان کی اقتدا کرے گا او ران کی مساعی سے استفادہ کرتے ہوئے ان کاشکریہ ادا کرے گا او ران کے صحیح اقوال پرجوکہ بہرحال زیادہ ہیں ان کی وجہ سے ان کی تعریف کرے گا او ران کی لغزش سے برأت نہیں کرے گا جیسا کہ خود انہوں نے بھی اپنے آپ کو بری نہیں سمجھا تو یہ انسان وہ طالب علم ہے جو سلف صالحین کی تعلیمات کے ساتھ تمسک اختیار کرنے والا ہے۔ راہ صواب پرفائز ہے رشد و ہدایت اس کی آنکھوں کے سامنے ہے نبی ﷺ کی سنت اور آپ کے صحابہ کے طریق کی اتباع کرنے والا ہے۔''

اب اگر کوئی شخص کتاب و سنت میں غوروفکر نہیں کرتا اور ہمارے بیان کردہ دلائل سےروگردانی کرتا ہے اور سنن کے مقابلہ میں ائمہ کی آراء کو پیش کرتا ہے او رسنن کو اپنے مطمع نظر کے مطابق ڈھالتا ہے تو وہ خود بھی گمراہ ہے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرنے والا ہے لیکن جو شخص جہالت کا مجسمہ ہے اور میدان فتویٰ میں بلامعرفت گھوڑے دوڑاتا ہے تو وہ انتہا درجے کا گمراہ ہے اور صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہے۔

هذا هو الحق ما به خفاء  فدعني عن بنيات الطريق. ''یہ حق ہے جس میں کچھ پوشیدہ نہیں ہے مجھے پگڈنڈیوں سےدور رکھو۔''

چوتھا شبہ : بعض مقلدین اسم وہم میں مبتلا ہیں کہ اتباع سنت اختیار کرنے میں امام کے مذہب کو ترک کرنا پڑتا ہے او رامام کے مذہب کو ترک کرنا اس کے مذہب کے غلط ہونے کے مترادف ہے او رکسی امام کو غلطی کی طرف منسوب کرنا اس کو مطعون کرنے کے مترادف ہے حالانکہ شرعاً کسی عام مسلمان کومطعون کرنے سے روکا گیا ہے تو ایک امام کو کیسے مطعون کرنا جائز ہوسکتا ہے؟

جواب: ذکر کردہ وہم بالکل باطل ہے اگر تفقہ فی السنۃ کا خیال رکھا جاتا تو یہ وہم پیدا نہیں ہوسکتا تھا او رکسی عقلمند مسلمان کی زبان سے اس قسم کے کلمات نہیں نکل سکتے تھے جب کہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

«إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ» (بخاری و مسلم)

''جب فیصلہ کرنیوالا صحیح اجتہاد کرتا ہے تو اسکو دوگنا ثواب ملتا ہے او رجب فیصلہ کرنیوالا غلط اجتہاد کرتا ہے تو اسکو ایک ثواب حاصل ہوتا ہے۔''

اس حدیث کی روشنی میں شبہ ھباءاً منشوراً ہوجاتا ہے او ریہ بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ کسی قائل کا یہ کہنا کہ فلاں امام کاقول غلط ہے اس کامطلب شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں یہ ہے کہ غلطی کی وجہ سے وہ ایک ثواب کا حقدار ہے پس جب وہ امام اس انسان کے خیال میں اجروثواب کا حقدار ہے جو اس کے قول کو غلط کہہ رہا ہے تو اس کے قول کو غلط کہنے میں کب لازم آتا ہے کہ اس کے نزدیک امام مطعون ہے بلا شبہ یہ وہم باطل ہے اس سے رجوع کرنا ضروری ہے۔

یاد رکھیئے وہ شخص جو کسی عام مسلمان کو خطا کی جانب منسوب کرتا ہے بلکہ صحابہ کرام تابعین ائمہ مجتہدین کو خطا کی طرف منسوب کرتا ہے اس کا یہ فعل قابل ملامت نہیں ہے اس لیے کہ ہم برملا اس بات کے اظہار میں کچھ حرج محسوس نہیں کرتے ہیں کہ جلیل القدر ائمہ ایک دوسرے کو خطا کی جانب منسوب کرتے رہے اور بعض مسائل میں ان کا رد کرتے رہے (امام مزنی او رحافظ ابن رجب کی جانب سے تصریحات پہلے آچکی ہیں) تو کیا کوئی عاقل انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ بعض ائمہ نے بعض کو مطعون قرار دیا ہرگز نہیں۔

کیا یہ واقعہ صحیح نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کو خطا کی جانب منسوب کیا جبکہ اس نےایک خواب کی تعبیر کی جو ایک صحابی کو نظر آیا تھا آپ نے تعبیر کے ایک حصہ کو صحیح اور دوسرے حصہ کو غلط قرار دیا تو کیا رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کومطعون قرار دیا۔

سخت تعجب کا مقام ہے کہ یہ وہم انہیں اتباع سنت سے تو روک رہا ہے جبکہ ان کے امام کا مذہب سنت کے خلاف ہے ان کے ہاں اتباع سنت کرنا گویا کہ امام کو مطعون کرنا ہے اور سنت کو چھوڑنا او رامام کی اتباع کرنا امام کی تعظیم او راس کے احترام کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ مقلدین اپنے امام کی تقلید پر مصر ہیں تاکہ موہوم طعن سے محفوظ رہ سکیں۔

یہ لوگ فراموش کرجاتے ہیں کہ وہ اس موہوم طعن سے بچنے میں اس سے زیادہ شدید طعن میں گرفتار ہوجاتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص ان سے کہے کہ اگر کسی امام کی اتباع امام کے احترام کو مستلزم ہے او راس کی مخالفت طعن کو مستلزم ہے تو یہی فارمولا سنت کی اتباع پربھی چسپاں کیوں نہیں کرتے ہو اور کس بناء پر سنت کی مخالفت کی اجازت دیتے ہو او راس کے مقابلہ میں امام کی اتباع پر زور دیتے ہو حالانکہ کوئی امام معصوم نہیں او راس پر طعن لگانا باعث کفر نہیں اور انبیاء معصوم ہوتے ہیں او ران پرطعن کرنا کفر ہے ۔ کس قدر افسوس کامقام ہے کہ ان کے ہاں امام کی مخالفت تو طعن کے مترادف ہے لیکن رسول اللہ ﷺ کی مخالفت جس کے طعن ہونے میں کچھ کلام نہیں وہ طعن کو مستلزم نہ ہو حالانکہ شریعت اسلامیہ کی روشنی میں انبیاء کی مخالفت تو کفر ہے۔

والعیاذ باللہ منہ۔۔۔۔ہم خوب سمجھتے ہیں کہ ان مقلدین کے پاس ان واضح دلائل کا کچھ جواب نہیں ہے۔ بعض مقلدین کی زبانوں سے صرف ایک کلمہ سننے میں آیا ہے کہ ہم سنت کا ترک اس لیے کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے امام کے مذہب پر کلی اعتماد ہے اس لیے کہ وہ ہم سے سنت کے زیادہ قریب تھے۔

ہم نے اس قسم کے ہفوات کا جواب مختصرا نداز میں پیش کیا ہے اس پر غوروفکر کریں تو یہ وہم بھی ختم ہوجائے گا تاہم ان سے الگ اس کا فیصلہ کن جواب سنئے۔

فیصلہ کن جواب: ہم اس با ت کا صاف صاف اظہار کرتے ہیں کہ صرف تمہارے مذہب کا امام ہی سنت سے زیادہ واقف نہ تھا یہاں تو سینکڑوں ایسے امام موجود ہیں جو تمہارے امام سے زیادہ سنت سے واقف تھے۔

فرض کیجئے اگر سنت صحیحہ تمہارے امام کے مذہب کے خلاف ہو اور سنت صحیحہ کے موافق کسی امام کا مذہب بھی ہوتو کیا ایسی صورت میں تمہارے نزدیک بھی سنت صحیحہ کے مطابق چلنا ضروری ہے اور اس کی مخالفت کرنا ناجائز نہیں ہے۔ کیا سنت صحیحہ کی متابعت کرنے والے ائمہ کے معتقدین جب یہ کہیں گے کہ ہمیں اپنے امام پر اعتماد ہے۔ اس نے سنت صحیحہ کی روشنی میں یہ مسلک اختیار کیا ہے تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟ کیا اس امام کی اتباع ضروری ہوگی جو سنت کی مخالفت کررہا ہے یا اس امام کی اتباع ضروری ہوگی جو سنت کی موافقت کررہا ہے۔

ضروری اعلان: مقدمہ کے آخر میں ایک بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس کتاب میں رسول اکرمﷺ کی نماز کی کیفیت کو سنت صحیحہ ثابتہ کی روشنی میں پیش کیا گیاہے اس کے مطابق نماز ادا کی جائے جو شخص اس کیفیت کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتا ہے وہ قطعاً معذور نہیں ہے ہم نے نماز کی کیفیت بیان کرنے کےسلسلہ میں ان چیزوں کو بیان نہیں کیا جن کے چھوڑنے پرعلماء کا اتفاق تھا او رجن مسائل کو پیش کیا گیا ہے ان پر علماء کے ایک گروہ کی تصدیق موجود ہے۔او رجن علماء نے ان مسائل کو تسلیم نہیں کیا ہے ہم انہیں معذور سمجھتے ہیں او روہ عام مشہور قاعدے کے مطابق ایک ثواب کے حقدار ہیں اس لیے کہ انہیں نص نہ پہنچی یا نص پہنچنے کا انداز ایسا تھا جو انہیں مطمئن نہ کرسکا اور ان کے ہاں نص کا حجت ہونا ثابت نہ ہوسکا یا کسی دیگر معقول عذر کی وجہ سے انہوں نے مخالفت کی لیکن ان کے بعد جن لوگوں کے سامنے حق ظاہر ہوگیا اور نصوص واضح ہوگئے انہیں ائمہ کی تقلید کرنے میں کچھ عذر نہیں ان کے لیے تقلید کو خیرباد کہنا ضروری ہے اور نص معصوم کی اتباع کےعلاوہ چارہ کار نہیں ہے۔

ارشاد خداوندی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (الانفال:24)

واللہ یقول الحق وھو یھدي السبیل وھو نعم المولیٰ و نعم النصیر وصلی اللہ علیٰ محمد وعلیٰ آلہ وصحبه وسلم والحمدلله رب العالمین (دمشق :28؍10؍1389ھ)


حوالہ و حواشی

۔ (1؍40؍2)

۔ (536)

۔ بخاری ، مسلم

۔ بخاری، احمد،تخریج ارداء الغلیل میں دیکھیں۔

۔ حدیث صحیح ہے الزھد لابن المبارک(10؍21؍1۔2) ابوداؤد و نسائی میں جید سند کے ساتھ مذکور ہے صحیح ابوداؤد (761)

۔ صفحہ 315

۔ (1؍60)

۔(1؍2)

۔ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ (1783)

۔ ص (156)

۔ (1؍148)

۔ یہ شعر حسن بن محمدالنسوی کا ہے۔ حافظ ضیاء الدین مقدسی نے اس کاذکر ایک رسالہ میں کیا ہے جس کا عنوان فضل الحدیث واہلہ ہے۔

۔ اندھی تقلید کے بارے امام طحاوی فرماتے ہیں: (لا یقلد إلاعصبي أو غبي ) تقلید یا متعصب کرتا ہے یا پھر غبی کرتا ہے ۔ رسم المفتی ابن عابدین صفحہ :170؍32 من مجموعۃ رسائل۔

۔ ابن عابدین فی الحاشیہ(1؍63) رسم المفتی رسالۃ من مجموعۃ رسائل ابن عابدین (1؍4) ایقاظ الہمم للشیخ صالح (صفحہ62)

۔ الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء لابن عبدالبر ص145۔ اعلام الموقعین لابن القیم(2؍309) حاشیہ بحر الرائق لابن عابدین (6؍293) رسم المفتی ص(29۔30) میزان للشعرانی (1؍55) التاریخ لابن معین (6؍77؍1)

۔ (52)

۔ (2؍344)

۔ (1؍62)

۔ صفحہ 135

۔الایقاظ للفلانی (ص 50)

۔ (1؍26)

۔ الجامع لابن عبدالبر (2؍32) اصول الاحکام ابن حزم (6؍149) الایقاظ صفحہ 72

۔ (227؍1) ابن عبدالبر فی الجامع (2؍91) اصول الاحکام ابن حزم (6؍145،179) من قول الحکم بن عتیبۃ و مجاہد

۔ (1؍148) (صفحہ 276)

۔ مقدمہ الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم (صفحہ 31۔32)

۔ تاریخ دمشق لابن عساکر (15؍1؍3) اعلام الموقعین (2؍363،364) الایقاظ صفحہ 100

۔ الاحکام (6؍118)

۔ ابن القیم فی الاعلام (2؍361) الفلانی (صفحہ68)

۔ الہروی فی ذم الکلام (3؍47؍1) الخطیب فی الاحتجاج بالشافعی (8؍2)ابن عساکر (15؍9؍10) النووی فی المجموع (1؍63) ابن القیم (2؍361) الفلانی (صفحہ 100)

۔ النووی حوالہ الشعرانی (1؍57) الفلانی (صفحہ 107) ابن حزم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔

۔ (صفحہ 102،370)

۔ 21؍302،370

۔ الاحتجاج بالشافعی للخطیب (8؍1)ابن عساکر (15؍9؍1) الانتقاء لابن عبدالبر صفحہ 75 مناقب الامام احمد لابن الجوزی (ص499) الہروی (2؍47؍2) تین طرق سے مروی ہے امام احمد کے صاحبزادے عبداللہ اپنے باپ امام احمد سے کہ امام شافعی نے ان سے فرمایا۔ اعلام لابن القیم 325، جلد 2 الایقاظ للفلانی صفحہ 152

۔ الہروی (47؍1) اعلام الموقعین صفحہ 363 جلد 2۔الایقاظ صفحہ 104

۔ الأمالي لأبي القاسم السمرقندي کما في المنتقی منها لأبي حفص المؤدب صفحہ 234 جلد1 ابن عساکر (15؍10؍1)

۔ ابن عساکر (15؍9؍2)

۔ المناقب لابن الجوزی

۔ الفلانی (صفحہ 3؍1) اعلام الموقعین صفحہ 302 جلد2

۔ الجامع لابن عبدالبر صفحہ 149 جلد2

۔ ابن الجوزی (صفحہ 182)

۔ تعلیق ایقاظ صفحہ 93

۔ (1؍372) مسند احمد (رقم 5700) ترمذی بشرح التحفۃ صفحہ 82 جلد2

۔ (7؍15؍1)

۔ الفلانی صفحہ 99

۔ ابن عابدین فی الحاشیۃ (1؍62)النافع الکبیر (صفحہ 93)

۔ (صفحہ 158)

۔ التعلیق الممجد علی مؤطا محمد 42،44،103،120، 158،160، 172، 173، 228،230،240، 244، 274، 275، 280،284، 314،331،338، 355،356۔

۔ ابن عابدین فی الحاشیۃ (1؍74) رسم المفتی (1؍17) الجواهر المضیة في طبقات الحنفیة صفحہ 347۔

۔ الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیۃ (صفحہ 116)

۔ البحر الرائق (6؍93) رسم المفتی (1؍28)

۔ الفوائد (صفحہ116)

۔ الأحکام في أصول الأحکام لابن حزم، حجة اللہ البالغة، عقد الجید في أحکام الاجتهاد و التقلید للشاہ ولي اللہ کا مطالعہ کریں۔

۔ فیض القدیر للمنادی (1؍209) سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ (1؍76۔77) طبع المکتب الاسلامی۔

۔ جامع بیان العلم لابن عبدالبر (2؍81۔82)(88۔89)

۔ جامع بیان العلم لابن عبدالبر (2؍83۔84)

۔ جامع بیان العلم (2؍89)

۔ الانتقاء لابن عبدالبر (41) کشف المغطا فی فضل المؤطا (صفحہ 706) تذکرۃ الحفاظ للذہبی (1؍195)

۔ شرح اختصار علوم الحدیث صفحہ 31

۔ الفصل الثامن من کتاب مالا یحوز فیه الخلاف (صفحہ 65۔72)

۔ البحر الرائق

۔ ظلام من الغرب للاستاذ الفاضل محمد الغزالی صفحہ 200

۔ البخاری، مسلم، الاحادیث الصحیحۃ (121)