یومِ عاشوراء کی شرعی حیثیت
تمہید: اللہ ربّ العزت نے جب سے زمین وآسمان پیدا فرمائے ہیں ، مہینوں کی تعدادبارہ مقرر کی ہے یعنی محرم،صفر ،ربیع الاول ، ربیع الثانی ، جمادیٰ الاولیٰ ، جمادیٰ الثانیہ ،رجب ، شعبان ، رمضان ، شوال ، ذوالقعدہ ، ذوالحجہ … ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں : محرم، رجب ،ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور ان میں سے محرم الحرام کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔
ہادیٔ عالم محمد رسو ل اللہ ﷺ سے حضرت ابو ذر غفاریؓ نے پوچھا تھا کہ ’’رات کا کونسا حصہ بہتر ہے او رکونسا مہینہ افضل ہے تو آپ نے فرمایا: رات کا درمیانی حصہ بہتر ہے اور افضل مہینہ، اللہ کا وہ مہینہ ہے جسے تم محرم کہا کرتے ہو‘‘(رواہ النسائی ) …اس سے مراد اس کا رمضان المبارک کے علاوہ دوسرے مہینوں سے افضل ہوناہے کیونکہ صحیح مسلم میں ابوہریرہؓ سے یہی بات مروی ہے کہ آپ ؐنے فرمایا:
«أفضل الصیام بعد شھر رمضان شھر اللہ الذي تدعونه المحرم وأفضل الصلوة بعد الفریضة قیام اللیل»
اور حضرت حسن کی مرسل روایت میں ہے :
«أفضل الصلوة بعد المکتوبة الصلوة في جوف اللیل الأوسط وأفضل الشھور بعد شھر رمضان المُحرم وھو شھر اللہ الأصَمّ»
’’فرض نمازوں کے بعد افضل نماز وہ ہے جو درمیانی رات کو ادا کی جائے یعنی تہجد اور رمضان المبارک کے بعد افضل مہینہ محرم ہے اور یہی اللہ کا مضبوط مہینہ ہے ‘‘
او راس کے اللہ کی طرف منسوب ہونے سے ہی اس کی فضیلت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ کسی خاص چیز کی نسبت ہی اللہ کی طرف ہوسکتی ہے جیسے رسول اللہ ،خلیل اللہ ،بیت اللہ ،کتاب اللہ، ناقۃ اللہ انہی نسبتوں کی طرح اس مہینے کی نسبت بھی اللہ کی طرف ہے اور اسے شھر اللہ المحرمقرار دیا گیا ہے ـ۔
اور حرمت والے مہینوں کا اللہ کے ہاں خاص احترام ہے ان میں لڑائی جھگڑا ،دنگا فساد تو بالکل ہی نہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے :
﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ﴾
’’اللہ کے ہاں اس کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے او راس دن سے ہے جس دن ،اس نے زمین وآسمان پیدا فرمائے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ، یہی سیدھا ( اور معتدل) دین ہے ، لہٰذا تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔‘‘ (التوبۃ : ۳۶)
جس طرح حرمت والے مہینوں میں محرم الحرام کو شہر اللہ ہونے کاشرف حاصل ہے اس طرح اس مہینے کے دنوں میں عاشوراء کو بھی خاص شرف حاصل ہے کیونکہ اس دن اللہ نے حضرت آدم کی توبہ قبول فرمائی تھی اور بروایت امیر المو ٔ منین حضرت علی المرتضیٰ اسی دن قوم یونس کی توبہ قبول ہوئی اور ان سے عذاب ٹل گیا۔ مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ
رسولِ کریم ﷺعاشوراء کے روزبنی اسرائیل کی ایک جماعت پر سے گزرے اوروہ روزہ سے تھے۔ آپ نے ان سے اس دن کے روزہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا: یہ وہ دن ہے جس میںاللہ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو نجات دی تھی اور فرعونِ مصر کو غرق کیا تھا تو اللہ کے رسول نے فرمایا:ہم موسیٰ علیہ السلام کی موافقت کے تم سے زیادہ حق دار ہیں،لہٰذا آپ نے اپنے صحابہ کو اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ صحابہ کرام اس روز خود بھی روزہ رکھتے تھے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے اور ان کے لیے کھلونے بناتے جب وہ روتے تو انہیں ان سے شام تک بہلاتے تھے اور یہ معاملہ فرضیت صیام رمضان تک رہا۔ اس کے بعد اس کی پابندی ختم ہو گئی اور فضیلت باقی رہ گئی ۔ حضرت رسول کریم ﷺسے ایک آدمی نے عاشوراء کے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا:
«أحتسب علی اللہ أن یُکفِّرَ السنة التي قبله»
’’میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کے بدلے گذشتہ سال کے گناہ معاف فرمائے گا‘‘
حضرت جابر بن سمرہ ؓفرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ہمیں عاشوراء کے روزے کاحکم دیتے تھے اور اس کی فضیلت بھی بتاتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے اس کی پابندی کا حکم ترک کر دیا ہاں البتہ آپ خود روزہ ضرورر کھتے بلکہ فرمایا تھا کہ میں آئندہ سال دو روزے رکھوں گا لیکن آپ کی عمر نے وفا نہ کی ۔ (لطائف المعارف لامام ابو الفرج ابن رجب ؒبغدادی)
الغرض عاشوراء کے روز کرنے کا کام تو یہ تھا جو حضرت رسولِ مقبولؐ اور صحابہ کرام کرتے تھے لیکن شیطان نے اکثر مسلمانوں کو اصل راہ سے ہٹا کر اِفراط وتفریط میں مبتلا کر دیا کچھ لوگوں نے اس روز کو سیدنا حسین ؓبن علی ؓ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی وجہ سے یومِ ماتم بنالیا چنانچہ وہ اس روز زنجیر زنی کر کے اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ،حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿فَلاَ تَظْلِمُوْا فِيهِنَّ أنْفُسَكُمْ﴾ کہ تم ان حرمت والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔اور کچھ لوگ اس دن کو یومِ مسرت وسرور قرار دے کر خوب کھلاتے پلاتے بھی ہیں اور کھاتے پیتے بھی ہیں اور سرمہ،مہندی لگانے اور نہانے دھونے کو افضل سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کچھ روایات بیان کرتے ہیں جن کی حقیقت امام ابن تیمیہؒ نے اس رسالہ میں بیان کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں افراط وتفریط سے بچائے او رخالص اسلام پرچلنے کی توفیق دے۔ آمین (عبدالجبار سلفی)
شیخ الاسلام امام ابو العباس احمدابن تیمیہ ؒدمشقی سے پوچھا گیا کہ بعض لو گ عاشوراء کے دن مہندی سجانے، سرمہ لگانے اور غسل کرنے ، مصافحہ لینے ،خوشی کا اظہار کرنے اورکھلا کھانے پینے کا اہتمام کرتے ہیں۔ کیا اس سلسلے میں آنحضرتﷺ سے کوئی صحیح حدیث مروی ہے؟… اگر اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں تو کیا یہ بدعت ہے یا نہیں… او ردوسری طرف ایک گروہ حزن وملال ، رنج وغم ، رونے پیٹنے، گریبان چاک کرنے اور داستانیں پڑھنے ؍سننے کا اہتمام کرتا ہے،کیا اس کا کوئی ثبوت ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے اس کا یہ جواب دیا
جواب: عاشوراء کے دن اس طرح کے اُمور کے بارے میں رسولِ اکرمﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ سے کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے اور نہ ہی ائمۃ المسلمین( بشمول ائمہ اربعہ) اور معتمد اصحاب ِکتب نے اپنی صحاح ، سنن او رمسانید میںرسول اللہﷺ اور صحابہ و تابعین سے اس سلسلے میں کوئی صحیح یا ضعیف چیز روایت کی ہے، اور نہ ان افعال واعمال کے متعلق خیر القرون میں کوئی صحیح حدیث رسول منظر عام پر آئی ۔لیکن بعض متاخرین نے اس سلسلے میں چند احادیث روایت کی ہیں۔ مثلاً
«من اکتحل یوم عاشوراء لم یرمد من ذلك العام ومن اغتسل یوم عاشوراء لم یمرض من ذلك العام»
’’ جس نے عاشوراء کے دن سرمہ لگایا وہ اس سال آنکھوں کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوگااور جس نے عاشوراء کے دن غسل کیا وہ اس سال بیمار نہیں ہوگا وغیرہ‘‘
اور انہوں نے عاشوراء کے دن نماز کے فضائل بھی بیان کئے ہیں اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس دن حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی اور اس دن حضرت نوح ؑ کی کشتی جودی پہاڑ پر بلند ہوئی اور اسی دن حضرت یوسف ؑ اور حضرت یعقوب ؑ کی آپس میںملاقات ہوئی اور اسی دن حضرت ابراہیم ؑ نے آگ سے نجات پائی اور اسی دن حضرت اسماعیل ؑ کے بدلے مینڈھے کا فدیہ دیا گیا وغیرہ۔
یومِ عاشوراء پر ایک موضوع حدیث کی تحقیق
اور متاخرین نے اس دن کے بارے میں رسول کریم ﷺ کے حوالے سے ایک من گھڑت روایت بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
«من وسع علی أھله یوم عاشوراء وسع اللّٰہ علیه سائر السنة»
’’ جس نے عاشوراء کے دن اپنے اہل عیال پر دل کھول کر خرچ کیا، اللہ تعالیٰ اس پر سارا سال رزق کی تنگی آنے نہیں دے گا‘‘
اس حدیث کا رسول اللہﷺ سے روایت کرنا محض جھوٹ و کذب بیانی ہے۔ دراصل یہ قول سفیان بن عیینہ کے حوالے سے ابراہیم بن محمد بن منتشر کوفی سے مروی ہے کہ اس نے کہا:
بلغنا أنه من وسع علی أھله یوم عاشوراء وسّع اللّٰہ علیه سائر سنته
’’ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جس نے عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر دل کھول کر خرچ کیا، اس پر اللہ تعالیٰ ساراسال فراخی ٔرزق کردے گا‘‘
ابراہیم بن محمد بن منتشر کوفیوں سے تھا اور کوفہ میں د وگروہ تھے۔ ایک گروہ رافضیوں کاتھا جو اہل بیت کی محبت کا مدعی تھا اور اندرونی طور پر بے دین تھا یا جاہل اور ہوا و حرص کا پجاری، دوسرا گروہ ناصبیوں کا تھا جو حضرت علیؓ سے بغض رکھتا تھا، کیونکہ ان کے اور حضرت علیؓ کے درمیان لڑائیاں ہوئی تھیں۔
دونوں فرقوں کی ضلاتوں کا پس منظر
صحیح مسلم میں نبی اکرمﷺ سے ثابت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
«سیکون في ثقیف کذاب و مبیر» ’’عنقریب قبیلہ ثقیف میں کذاب اور ظالم ہوگا‘‘
کذاب تو مختار بن ابی عبید ثقفی تھا جو بظاہر اہل بیت کی محبت کا مدعی اور ان کا مددگار تھا اور اس نے حضرت حسین بن علی اور ان کے ساتھیوں سے لڑائی کرنے والے فوجی دستہ کے اعلیٰ افسر عبید اللہ بن زیاد امیر عراق کو قتل کیا (او راس کے تمام ساتھیوں کی تکہ بوٹی کردی تھی)۔پھر اس نے جھوٹ بولا اور نبوت کا دعویٰ کر دیا اور کہا کہ ا س پر جبریل ؑ نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ لوگوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓاور عبداللہ بن عباسؓ سے سوال کیا کہ مختار بن ابی عبید دعویٰ کرتا ہے کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے تو عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا کہ وہ سچ کہتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ (221) تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ﴾ (شعراء:۲۲۲ )
’’کیا میں تمہیں نہ بتائوں کہ شیاطین کن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں، وہ ہر جھوٹ بولنے والے اور گناہ گار پر نازل ہوتے ہیں‘‘
اورحضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بھی انہیں جواباً فرمایا کہ اس نے سچ کہا
﴿وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ﴾ (سوره انعام: ۱۲۱)
’’ اور شیطان اپنے ہم نوائوں کی طرف خفیہ پیغام بھیجتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں‘‘
جبکہ ظالم و جابر سے مراد حجاج بن یوسف ثقفی تھا جو حضرت علیؓ اور ان کے گروہ سے عناد رکھتا تھا، او رپہلا کذاب ثقفی تھاجو روافض میں سے تھااور بہت بڑا جھوٹا اور دین میں الحاد کرنے والا تھا ، کیونکہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ۔
اوردوسرا ثقفی ظالم ، ناصبی تھا اور اپنی حکومت کے خلاف کچھ کہنے والے کو سخت سزا دیتا تھا۔ جس شخص کو امیر عبدالملک کی نافرمانی کے الزام میں پکڑتا تواس سے شدیدانتقام لیتا…کوفہ میں ان دونوں گروہوں کے مابین لڑائیاں اور فتنے عرصہ تک جاری رہے۔
عاشوراء کے دن حضرت حسینؓ شہید ہوئے اور آپ کو ظالم اور باغی گروہ نے قتل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسی طرح درجہ شہادت سے سرفراز فرمایا جس طرح آپ کے اہل بیت میں سے حضرت حمزہؓ، حضرت جعفرؓ اور حضرت علی ؓ و دیگر صحابہ ؓ کو درجہ شہادت عطا فرمایا تھا اور شہادت کے سبب اللہ تعالیٰ نے آپ کا درجہ اور مقام بلند کردیا، کیونکہ آپ اور آپ کے برادر حضرت حسنؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، اور بلند مرتبے آزمائشوں کے بغیر نہیں ملتے…رسولِ اکرمﷺ سے سوال کیا گیا کہ سب سے زیادہ آزمائشیں او رمصیبتیں کن پر نازل ہوئیں تو آپؐ نے فرمایا:
«الأنبیاء ثم الصالحون ثم الأمثل فالأمثل، یبتلی الرجل علی حسب دینه فإن کان في دینه صلابة، زِید في بلائه وإن کان في دینه رِقة، خفف علیه ولا یزال البلاء بالمؤمن حتی یَمشي علی الأرض ولیس علیه خطیئة» (سنن ترمذی)
’’سب سے پہلے انبیاء پھر صالحین پھردرجہ بدرجہ آدمی اپنے دین کی حیثیت کے مطابق آزمایا جاتا ہے، اگر وہ اپنی دینداری میں مضبوط ہو تو ا س کی آزمائش زیادہ کی جاتی ہے، اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو تخفیف کی جاتی ہے۔ مؤمن پر مصائب نازل ہوتے رہتے ہیں حتیٰ کہ وہ زمین پر اس طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت حسنؓ وحسینؓکے مقدر میں بلند مقام ومرتبہ لکھ دیا تھا ۔ لیکن ان دونوں کو اپنے بزرگوںکی طرح مصائب جھیلنے نہ پڑے کیونکہ یہ رِفعت اسلام کے دور میں پیدا ہوئے تھے اور بڑے لاڈپیارمیں پرورش پائی تھی اورتمام مسلمان ان کی تعظیم وتکریم میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے۔ جب رسول اکرمﷺ کی وفات ہوئی تو آپ سن تمیز کو بھی نہ پہنچے تھے۔
یہ تو اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے ان کو ایسی آزمائش میں ڈالا جس کے ذریعے وہ اپنے اہل بیت کے دیگر بزرگوں کے بلند مراتب تک پہنچ گئے، کیونکہ حضرت علیؓ ان سے افضل تھے اور شہید فوت ہوئے اور حضرت حسینؓ کے قتل سے ایسے ہی فتنے پیدا ہوئے جیسے (ان کے خالو)حضرت عثمانؓ کی شہادت سے پیدا ہوئے تھے اور ان کی شہادت کے سبب آج تک امت متفرق نظر آرہی ہے، اس لئے تو حدیث میں آیا ہے: «ثلاث من نجا منھن فقد نجا: موتِی وقتل خلیفة مضطھد والدّجّال»
’’ تین چیزوں سے جو شخص بچ گیا، وہ کامیاب ہوگیا: میری موت، بے گناہ خلیفہ کے سنگ دلانہ قتل سے اور دجال کے فتنے سے‘‘
نبی اکرم ؐ کی وفات سے سانحۂ کربلا تک مختصر تاریخی واقعات
رسول اکرمﷺ کی وفات بہت بڑے فتنوں کا سبب بنی، بہت سے لوگ فتنوں میں پڑ کراسلام سے مرتد ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو عزم واستقلال عطا کرکے ان کے ذریعے ایمان کو استحکام بخشا اور امن وامان بحال ہوگیا۔ انہوں نے مرتدین کو اسی دروازے میں داخل کیا جس سے وہ نکلے تھے، اور اہل ایمان جس دین میں داخل ہوئے تھے، اسی پر قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ میں اعداء اللہ کے مقابلے میں قوت، جہاد اور شدت اور اولیاء اللہ کے لئے نرمی پیدا کردی، اس قوت اور نرمی کی وجہ سے ثابت ہوا کہ آپ واقعی خلیفہ ٔ رسولؐ ہونے کے مستحق ہیں۔
خلافت ِعمر فاروق ؓ و شہادت: حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد حضرت عمر فاروقؓ خلیفہ ہوئے۔ آپ نے مجوسی کفار اور اہل کتاب یہود و نصاریٰ کو سرنگوں اوراسلام کو سر بلند کیا اور نئے شہر بسائے، وظائف جاری کئے، دفاتر قائم کئے ، عدل و انصاف کو وسعت دی اور سنت کو قائم کیا ۔ آپ کے دورِ خلافت میں اسلام نے فروغ پایا جس کی تصدیق قرآنِ کریم میں ہے:
﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا﴾ (سورئہ فتح: ۲۸) ’’ اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو سب اَدیان پر غالب کردے ، اس پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا﴾ (سورئہ نور: ۵۵)
’’ اللہ نے تم میں سے مؤمن اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین پر ایسے خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا اور ان کے اس دین کو استحکام عطا فرمائے گاجو ان کے لئے اس نے پسند کیا ہے، اور ان کا خوف اَمن میں بدل دے گا، چنانچہ وہ میری عبادت کریں گے ، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیںٹھہرائیں گے‘‘
اور رسولِ اکرمﷺ کا فرمان ہے:
«إذا ھلك کِسری فلا کسری بعدہ وإذا ھلك قیصر فلا قیصر بعدہ والذي نفسی بیدہ لتُنْفِقَنَّ کنوزَھما في سبیل اللہ»
’’ جب کسریٰ ہلاک ہوا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا اور قیصر کی ہلاکت کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا، ا س ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم ضرور ان کے خزانوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے‘‘
حضرت عمر فاروقؓ ہی وہ شخصیت ہیں ، جنہوں نے ان خزانوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور آپ ہی خلیفہ ٔراشد اور ہدایت یافتہ تھے ۔پھر آپ نے معاملہ خلافت چھ آدمیوں کی شوریٰ پر ڈال دیا۔
خلافت ِحضرت عثمانؓ اور شہادت:پھرمہاجرین و انصار نے بغیر کسی خوف و طمع کے حضرت عثمانؓ پر اتفاق کیا اور سب نے بلا جبر و اِکراہ بیعت کرلی ۔حضرت عثمان غنیؓ کی خلافت کے آخر میں کچھ اَسباب پیدا ہوئے کہ فسادی لوگ اہل علم پر ظالمانہ طور پر غالب آگئے اور وہ فتنے پھیلاتے رہے، حتیٰ کہ انہوں نے بغیر کسی سبب کے صابر و محتسب خلیفہ کو ظالمانہ طریقہ سے شہید کردیا۔
آپ کی شہادت کے بعد دلوں میں دوری ہوگئی، مصائب بڑھ گئے، شریر غالب ہوئے اور شرفاء مغلوب اور جس خیر و صلاح کا قیام مسلمانوں کے مابین واجب تھا، وہ جاتا رہا اورخیر وفلاح سے عاجز رہنے والے فتنہ وفساد پھیلانے میں پیش پیش ہونے لگے۔
خلافت ِحضرت علیؓ:انہوں نے امیرالمومنین حضرت علیؓ کی بیعت کی اور آپ اس وقت سب سے زیادہ خلافت کے حقدار تھے اور بقیہ لوگوں سے افضل تھے، لیکن دل جدا تھے اور فتنہ کی آگ بھڑک رہی تھی۔ معاملہ متفق نہ رہ سکا اور جماعت منظم نہ ہوسکی اور خلیفہ راشد و صحابہ کرام خیر و صلاح کوقائم نہ رکھ سکے، فرقہ اور فتنہ میں بہت سے لوگوں نے حصہ لیا اور ہوا جو ہوا…!
خوارج کا ظہور:حتیٰ کہ خارجی ظاہر ہوئے، یہ کثرت سے نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے۔ انہوں نے امیرالمومنین حضرت علیؓ اور آپ کے ساتھیوں سے جنگ کی۔ اور حضرت علیؓ نے اللہ اور رسولﷺ کے حکم سے ان سے لڑائی کی اور رسول اللہﷺ کے اس قول و حدیث کی اطاعت کی جس میں آپ نے ان کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا:
«یَحقِرأحدکم صلاته مع صلاتھم و صیامه مع صیامھم و قراء ته مع قراء تھم یقرء ون القرآن ولا یتجاوز حناجرھم یمرقون من الإسلام کما یمرق السّھم من الرمیّة أینما لقیتموھم فاقتلوھم فإن في قتلھم أجرا عند اللہ لمن قتلھم یوم القیامة»
(ان کی صفات یہ ہوںگی کہ )’’ تم میں سے ہر ایک کوئی اپنی نماز کو ان کی نماز، اپنے روزے کو ان کے روزے اور تلاوتِ قرآن کو ان کی تلاوت کے مقابلے میں حقیر سمجھے گا، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا،وہ اسلام سے ایسے نکلے ہوں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔ جہاں بھی ان کوپائو، ان کو قتل کرو۔ ان کے قتل میں عنداللہ قیامت کے دن اجروثواب ہے‘‘ ( صحیح مسلم: کتاب الزکوٰۃ) دوسری جگہ فرمایا:
«تمرق مارقة علی حین فرقة من المسلمین یقتلھم أدنی الطائفتین إلی الحق»
’’ مسلمانوں کے اختلاف کے وقت ان سے ایک گروہ نکلے گا، ان کو حق سے زیادہ قریت تر جماعت قتل کرے گی‘‘ (بخاری، مسلم)
اس مارقہ(اطاعت امیرسے نکلنے والے گروہ) سے مراد خارجی (فرقہ حروریہ) ہی تھے جومسلمانوں کے درمیان اختلاف کے وقت نمایاں ہوئے۔ لیکن یاد رہے کہ اس طرح کی لڑائیاں مسلمانوں کو ایمان سے خارج نہیں کرتیں کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے:
﴿وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ﴾ (سورئہ حجرات :۹)
’’ اگر مؤمنین کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان کی صلح کرا دو ۔اگر ایک جماعت دوسری پر بغاوت کرے تو باغی جماعت سے لڑو، حتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے‘‘ آخر میں فرمایا:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ﴾ (سورئہ حجرات)
اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ( باوجود لڑائی اور بعض کی بعض پر بغاوت کے) ’’مؤمن آپس میںبھائی بھائی ہیں اور دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو‘‘
اگر ایک جماعت دوسری پر بغاوت کرے تو باغیوں سے قتال کیا جائے گا، البتہ آپ نے چھوٹتے ہی لڑائی کرنے کا حکم نہیں دیا۔
حضرت علیؓ حق کے زیادہ قریب تھے: رسولِ اکرمﷺ نے بتادیا تھاکہ طائفۃ مارقۃکے ساتھ حق سے قریب تر جماعت لڑے گی، پس حضرت علیؓ نے ان سے لڑائی کی تو ثابت ہوا کہ حضرت علیؓ اور آپ کے ساتھی حضرت امیرمعاویہ ؓکی بہ نسبت حق کے زیادہ قریب تھے اور دونوں ہی ایماندار تھے۔
حضرت علیؓ کی شہادت اور خلافت حضرت حسنؓ:حضرت علیؓ کے ابتدائی ساتھیوں اور بعد کے دشمن خارجیوں میں سے بد بخت شخص عبد الرحمن بن مُلجمکوفی نے امیرالمو ٔمنین حضرت علیؓ کوشہید کیا۔ آپ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور خلافت کے ناموس کا تحفظ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ آپ کے بعدصحابہ کرامؓ نے حضرت حسنؓ کی بیعت کر لی، آپؓ کی بیعت سے رسول اللہﷺ کی وہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی جو آپؐ نے مسجد نبوی کے منبر پرفرمائی تھی کہ
«إن بني ھذا سید وسیصلح اللہ به بین فئتین عظمیتین من المسلمین» ’’ میرا یہ بیٹا سید ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرا ئے گا‘‘
حضرت حسنؓ خلافت سے دستبردار ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ؓ کے ذریعہ دونوں مسلمانوں کے دوگروہوں میں صلح کرا دی۔ اسی وجہ سے رسول اکرمﷺ نے آپؓ کی تعریف و مدح فرمائی۔ اور یہ بات دلالت کرتی ہے کہ صلح واصلاح ہی وہ وہ چیزہے جو اللہ و رسولؐ کو پسند ہے ۔اللہ و رسولؐ ا سی کی تعریف کرتے ہیں۔
حضرت حسنؓ کی وفات کے بعد کوفیوں کی ریشہ دوانیاں:پھر حضرت حسنؓ فوت ہو کر بزرگی اور اللہ کی رضا مندی حاصل کرگئے ۔بعد میں چند گروہ کھڑے ہوئے، انہوں نے حضرت حسین ؓ سے خط و کتابت کی اور خلافت کے معاملے میں آپ کو نصرت کا یقین دلایا لیکن وقت آنے پراس عہدکو پورا نہ کر سکے، بلکہ جب حضرت حسینؓ نے ان کی طرف اپنے چچازاد بھائی کو بھیجا تو انہوں نے وعدہ خلافی کی، عہد کوتوڑا اور جس کو حمایت و دفاع کا یقین دلایا تھا، ا سی کے خلاف ہوگئے۔
سفر حسینؓ اور صحابہؓ کے مشورے: جب حضرت حسینؓ نے کوفہ جانے کاارادہ کیا تو حضرت حسینؓ سے دلی محبت رکھنے والے دانشمند صحابہ ؓ مثلاً عبداللہ بن عمر ؓاور ابن عباسؓ نے انہیںمشورہ دیا کہ وہ کوفہ نہ جائیں اور اہل کوفہ کی پیش کش قبول نہ کریں، انہوں نے خیال کیا کہ حضرت حسینؓ کا وہاں جانا درست نہیں، اور آپ کے کوفہ جانے سے خوش آئند اثرات مرتب نہ ہوں گے، او رانہوں نے جیسا کہا تھا ویسا ہی ہوااور دراصل ہر کام اللہ کی تقدیر کے مطابق ہو کر رہتاہے۔
جب حضرت حسینؓ کوفہ کی طرف نکل پڑے تووہاں جاکر کیا دیکھتے ہیں کہ معاملہ الٹ ہوچکاہے او رکوفیوں کی وفاداریاں طوطا چشمی بن چکی ہیں، محبت دشمنی کاروپ دھار گئی ہے۔تب انہوں نے کوفیوں سے کہا کہ مجھے واپس لوٹنے دو یا بعض محاذوں پر جانے دویا مجھے اپنے چچازاد بھائی یزید کے پاس جانے دو۔ لیکن انہوں نے ایک بھی نہ مانی اور آپؓ کو قید کرنا چاہا اور آپؓ سے جنگ کی ، آپ بھی مقابلہ میںلڑے، انہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کیا، چنانچہ آپؓ مظلوم شہید ہوئے آپ کو اللہ نے مرتبہ شہادت سے نوازا اور آپ کو اہل بیت طاہرین کے ساتھ ملایا اور آپ کو ظلم سے شہید کرنے والوں کواس دنیا میں ہی رسوا اور ذلیل و خوار کردیا ۔
آپ کی شہادت لوگوں کے درمیان فتنہ بن گئی۔اب ایک جاہل اور ظالم فرقہ پیدا ہوگیا،جو آپ کی اور آپ کے اہل بیت کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور یوم عاشوراء کو ماتم، حزن اور آہ و فغاں کا دن بنا لیتا ہے، اور اس دن جاہلیت کے شعار و عادات یعنی رونے پیٹنے، کپڑے پھاڑنے جیسے جاہلانہ افعال کا اظہار کرتا ہے۔
مصیبت کے وقت اللہ و رسول ؐ کا حکم
اللہ و رسولؐ نے مصیبت کے وقت جس بات کا حکم دیا ہے، جبکہ مصیبت تازہ بھی ہو تو وہ صرف صبر کرنا ،اس پراجرکی امید رکھنا اورإنا للہ وإنا إلیہ راجعون کہنا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ﴾ (سورۃ البقرۃ)
’’اور خوشخبری دو ان صابرین کو جن پر مصیبت نازل ہوتی ہے توکہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی طرف سے رحمتیں ہیںاوران کے لئے آخرت میں درجات ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
اور صحیح حدیث میں ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: (بخاری،کتاب الجنائز)
«لیس منا من لَطَم الخدود، وشق الجیوب و دعا بدعویٰ الجاھلیة»
’’ رخساروں کو پیٹنے، کپڑوں کو پھاڑنے اور جاہلیت کے بول بولنے والا ہم سے نہیں ہے‘‘
اور یہ بھی فرمایا ہے:
«النائحةإذا لم تتب قبل موتھا تقام یوم القیامة وعلیھا سربال من قطران ودرع من جرب »
’’ نوحہ کرنے والی اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس پر خارش والی اوڑھنی ہوگی اور تارکول کا لباس ہوگا‘‘ (مسلم، کتاب الجنائز)
اور مسند میں حضرت فاطمہ بنت حسینؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«ما من رجل یصاب بمصیبة فیذکر مصیبة وإن قدمتْ فیحدث لھا استرجاعا إلا أعطاہ اللہ من الأجرمثل أجرہ یوم أُصیب بھا»
’’ جس آدمی کو کوئی دکھ پہنچے اوروہ اپنی مصیبت کو یاد کرے، اگرچہ مصیبت پرانی ہوچکی ہو اورإنا للہ وإنا إلیه راجعون پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت وہی اجر دے گا جو اسے مصیبت کے وقت صبر کے بدلے میں دیا تھا‘‘
اور مؤمنوں کو چاہئے کہ وہ حضرت حسینؓ یا کسی اور کی مصیبت کو اتنے لمبے عرصے کے بعد یاد کریں تو اللہ و رسولؐ کے حکم کے مطابق ﴿إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾ پڑھیں، تاکہ انہیں وہی اجر اللہ عطا فرمائے جو اجر صاحب ِمصیبت کو دکھ کے وقت دیا تھا، اللہ کا مؤمنوں پر یہ کتنا بڑا احسان ہے۔ اور جب نئی مصیبت کے وقت اللہ و رسولؐ کا صبر و احتساب کے متعلق یہ حکم ہے تو لمبی مدت والی مصیبت کے وقت بالا ولیٰ یہ حکم ہے کہ صبر کیا جائے۔لیکن شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے یومِ عاشوراء کو یومِ ماتم بنا کر مزین کیا، بعض لوگ اس دن چیخ و پکار اور نوحہ وغیرہ کرتے ہیں اور حزن و غم کے قصے اور داستانیں پڑھتے ہیں اور ایسی کہانیاںسناتے ہیں جو جھوٹ سے لبریز ہوتی ہیں۔
ماتم کا مقصد:اس طرح کے ماتم کامقصد سوائے تجدیدحزن وملال اور تعصب پھیلانے کے اور کچھ نہیں ۔ شیطان چاہتاہے کہ اس عمل کے ذریعے دفن شدہ رنجشیں اور نفرتیں تازہ ہوجائیں او راہل اسلام کے مابین لڑائی اور فتنے کا سانپ زندہ ہوجائے۔شیطان کے مکروفریب میں آجانے والے حضرات اس روز سابقون الاولون صحابہ کرام ؓ پر سب وشتم اور تبرا بازی بھی کرتے ہیں۔ اور اسلامی گروہوں میں اس گمراہ فرقہ سے کوئی اورگروہ زیادہ جھوٹ بولنے اور مسلمانوںمیں فتنہ پھیلانے والا نہیں ہے ۔یہ لوگ اس عمل کی بنا پر خوارج سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔
ان خارجیوں کے بارے میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے :
«یقتتلون أھل الإسلام و یدعون أھل الأوثان»
’’ یہ لوگ اہل اسلام سے لڑیں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے‘‘
اور دوسرے حضرات حب ِاہل بیت کے دعویٰ کے باوجود آپ کے گھرانے سے تعلق رکھنے والے ساداتِ کرام او رآپ کی امت ِمسلمہ کو ملیا میٹ کرنے کے لئے یہود ونصاریٰ اور مشرکین کی مدد کرتے ہیں۔ سقوطِ بغداد کے وقت انہی حضرات نے تاتاری مشرکوں سے معدنِ نبوت ورسالت اورہاشمی عباسی سادات کرام کو قتل کروایا تھااور ان سے مل کر شہروں کو اجاڑا اور مسلمانوں کا قتل عام کرایا اور ان کو قیدی بنوایا، ان کا شر اور تکلیف اسلام اور اس کے نام لیوائوں پر اس قدر زیادہ ہے کہ ایک فصیح و بلیغ آدمی اپنی کلام میں بیان نہیں کرسکتا۔
ناصبیوں کا اقدام
ان کے مقابلہ میں متعصب ناصبیوں کی جماعت وجود میں آئی جنہوں نے گندگی کا جواب گندگی سے ،جھوٹ کا جھوٹ سے اور برائی کا بدلہ برائی اور بدعت کا بدلہ بدعت سے دیا، انہوں نے عاشوراء کے دن خوشی اور شادمانی منانے کے لئے آثار و اقوال وضع کئے، مثلاً سرمہ لگانا، مہندی لگانا، اہل و عیال پر اس دن کھلے دل سے خرچ کرنا اور وہ کھانے پکانا جو دوسرے ایام میں نہیں پکایا کرتے اور ایسی رسومات ادا کرنا جو عیدین اور خوشی کے موقعوں پر کی جاتی ہیں، اس ناصبی قوم نے یومِ عاشوراء کو عید کا دن بنا لیا اور رافضیوں نے اس دن کو ماتم اور رونے پیٹنے کا دن بنا لیا۔دونوں گروہ ہی بھٹکے ہوئے اور بعیداز سنت ہیں، باوجود اس کے کہ یہ لوگ برے ارادے والے اور جاہل و ظالم ہیں، تاہم اللہ نے عدل و احسان کا حکم دیا ہے اور رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے:
«إنه من یعش منکم بعدي فیسری اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتي و سنة الخلفاء الراشدین من بعدي تمسکوا بھا وعضوا علیھا بالنواجذ وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل بدعة ضلالة»
’’ جو شخص میرے بعد زندہ رہا وہ عنقریب بڑے اختلافات دیکھے گا پس تم پر میرے بعد میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے، اسے لازم پکڑلواور اسے اپنی داڑھوں میں لے کر اس چمٹ جائو اور نئے امور سے بچو کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے‘‘
یومِ عاشوراء کی شرعی حیثیت
آنحضرتﷺ اور خلفائِ راشدین سے عاشوراء کے دن ان امور سے کوئی چیز ثابت نہیں جو آج ہم اپنے گردوپیش دیکھتے ہیں، نہ ہی رونے پیٹنے اور نہ خوشی کرنے کے متعلق کوئی ہدایت موجود ہے۔ صرف اتنا ہے کہ جب رسول اکرمﷺ مدینہ میں آئے تو دیکھا کہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں تو آپؐ نے فرمایا: یہ کیسا روزہ ہے، انہوں نے کہا: اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو نجات دی تھی، پس ہم روزہ رکھتے ہیں، تو آپؐ نے فرمایا:ہم حضرت موسیٰ ؑ کے تم سے زیادہ حقدار ہیں، چنانچہ آپؐ نے روزہ رکھا اور رکھنے کا حکم بھی دیا ۔قریش بھی اسی وجہ سے جاہلیت میںاسی دن کی تعظیم کرتے تھے۔ اور جب آپ ؐ نے لوگوں کوروزے کا حکم دیا تو یہ ایک دن کا روزہ تھا ،آپؐ ربیع الاول میں مدینہ تشریف لائے تھے اور آپؐ نے آئندہ سال روزہ رکھا اور روزے کا حکم دیا، پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہوگئی۔اور علمائِ کرام کا اس بارے میں اختلا ف ہے کہ آیا یہ روزہ واجب تھا یا نہیں؟پھر اس کے بعد جو یہ روزہ رکھتا تھا، مستحب جان کر رکھتا تھا اور آپ نے عام لوگوں کو اس دن کے روزے کا حکم نہیں دیا کہ بلکہ فرمایا: ’’ھذا یوم عاشوراء وأناصائم فیه فمن شاء صام‘‘
’’ یہ عاشوراء کا دن ہے اور میں روزہ دار ہوں جو چاہے اس دن کا روزہ رکھ لے‘‘
اور یہ بھی فرمایا:
«صوم یوم عاشوراء یکفر سنة وصوم یوم عرفة یکفرسنتین»
’’ عاشوراء کے دن کا روزہ سال بھر کے گناہ معاف کردیتا ہے اور یوم عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘
اور جب آپؐ نے آخر عمر میں یہود کو دیکھا کہ یہود اس دن کو عید بھی سمجھتے ہیں تو آپ نے فرمایا اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا۔یعنی آپ یہودیوں کی مخالفت کریں گے اور ان کے عید منانے میں مشابہت نہیں کریں گے۔
بعض صحابہ ایسے بھی تھے جو اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے اور نہ مستحب سمجھتے تھے بلکہ اسی دن ایک روزہ رکھنے کو مکروہ سمجھتے تھے ۔جبکہ دیگر علماء اس روزے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ روزہ اس کے لئے مستحب ہے جو ۹ تاریخ کا بھی روزہ رکھے کیونکہ یہ آپؐ کا آخری ارادہ تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال ۹ تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا۔
خلافِ عادت کھانا یا عبادت کرنا
روزہ کے علاوہ اُمور مثلاً خلافِ عادت کھانا پکانا خواہ دانے ہوں یا کوئی اور چیز یا نیا لباس پہننا اور کھلا خرچ کرنا اور اس دن سال بھر کی ضروریاتِ زندگی خریدنا یا کوئی خاص عبادت کرنا، مثلاً خاص نماز یا جانور ذبح کرنا اور اس طرح سرمہ لگانا، نہانا، مہندی لگانا، مصافحہ کی کثرت یا مسجدوں کی زیارت کرنا وغیرہ یہ سب کچھ بدعات ِمنکرہ ہیں، رسول اللہﷺ یا خلفائِ راشدین اور ائمہ کرام نے ان کو مستحب نہیں سمجھا، نہ مالک اور ثوری نے ،نہ لیث بن سعد اور ابوحنیفہ و اوزاعی نے اور نہ ہی شافعی و احمد (رحمہم اللہ) اور اسحاق راہویہ اور دیگر اصحاب نے اسے مستحب سمجھاہے۔
اگرچہ بعض متاخرین ان میں بعض اُمور کا حکم دیتے ہیں اور اس سلسلے میں بعض آثار و احادیث بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان اُمور میں بعض صحیح ہیں۔ لیکن اہل علم خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ واضح غلطی پر ہیں۔ حرب کرمانی کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ سے اس حدیث «من وسّع علی أھل یوم عاشوراء»’’جس نے یوم عاشوراء کو فراخی کا اہتمام کیا‘‘کے متعلق سوال کیا گیا تو امام صاحبؒ نے اس کو ثابت شدہ امرنہ سمجھا ( فلم یرہ شیئًا)…اس بارے میں ان کی سب سے بڑی دلیل وہ ہے جو ابراہیم بن محمد نے اپنے باپ سے روایت کی ہے :
«بلغنا أنه من وسع علی أھله یوم عاشوراء وسع اللہ علیه سائر سنته »
’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جس نے یوم عاشوراء منانے والوں پر فراخی کی تو اللہ اس پر پورا سال کشادگی فرمائے گا‘‘
مزید کہتے ہیں کہ ہم نے اس بات کو ساٹھ سال سے آزمایا اور صحیح پایا ہے ۔ اس روایت کے راوی ابراہیم بن محمد بن منتشر اہل کوفہ سے ہیں اور انہوں نے اس شخص کا نام نہیں لیا جس سے انہوں نے روایت کی ہے اور نہ ہی اس کا نام لیا ہے جس سے اسے یہ بات پہنچی ہے۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس قول کا کہنے والا اہل بدعت سے ہو جو حضرت علیؓ اور اس کے ساتھیوں سے بغض رکھتے ہیں، جو رافضیوں کا مقابلہ جھوٹ سے کرتے ہیں اور فاسد کا بدلہ فاسد سے اور بدعت کا بدلہ بدعت سے دیتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ یہ سفیان بن عیینہ کا قول ہے جبکہ شریعت میں ابن عیینہ کا قول بھی حجت نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑا انعام کیا تھا لیکن نعمت ِخداوندی کی وجہ یہ نہیں کہ وہ یوم عاشوراء کو فراخی کی کرتے تھے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سفیان بن عیینہ سے افضل لوگوں پر بھی انعامات کیے ہیں، لیکن وہ تو عاشوراء کے دن کوئی خصوصی اہتمام نہیں کرتے تھے اور حضرت سفیان کا معاملہ ایساہے جس طرح لوگ نذر مانتے ہیں اور اللہ ان کی حاجت براری کردیتا ہے اور وہ گمان کرتے ہیں کہ اس حاجت روی کا سبب نذر ہی ہے۔اور حدیث میںرسول اکرمﷺ سے ثابت ہے کہ آپؐ نے نذر سے منع کیا ہے اور کہا کہ نذر کوئی بھلائی نہیں لاتی بلکہ وہ تو بخیل آدمی سے کچھ نکالتی ہے، جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ میری حاجت نذر سے پوری ہوئی تواس نے اللہ و رسول ؐ پرافتراء باندھا اور لوگ تو اللہ کی اطاعت پر اور آپؐ کے دین اور راستے کی اتباع پر مامور ہیں او ران پر اللہ تعالیٰ کی اس بڑی نعمت کا شکر ادا کرنا فرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی جانوں میں سے رسول بھیجا جو ان پر اللہ کی آیات پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں حکمت سکھاتا ہے اور رسولِ اکرمﷺ نے صحیح حدیث میں فرمایا:
«إن خیرالکلام کلام اللہ وخیرالھدی ھدي محمد وشرالأمور محدثاتھا وکل بدعة ضلالة»
’’ سب سے بہتر کلام اللہ کی کلام ہے اور بہتر راستہ محمدﷺ کا ہے اور بدترین کام جو (دین میں) نئے نکالے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
خلافِ شریعت حکم دینے والوں کے متعلق چند باتیں
اور اہل معرفت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ آدمی اگر ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے تو اس کی اتباع نہیں کی جائے گی جب تک کہ اس کی بات اللہ اور اس کے رسولؐ کے موافق نہ ہو، اور جس شخص نے کسی آدمی کا کوئی خلافِ عادت کام یا کوئی تاثیر دیکھ کر خلاف ِکتاب و سنت اس شخص کی اتباع کی تو وہ شخص دجال کے پیروکاروں کی طرح ہے، کیونکہ دجال آسمان کو کہے گا، بارش برسا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین کو کہے گا کہ انگوریاں اُگا تو وہ انگوریاں پیدا کرے گی اور ٹیلے کو کہے گا: نکال اپنا خزانہ، پس اس کے ساتھ سونے اور چاندی کے خزانے نکلیں گے اور آدمی کو قتل کرے گا پھر اسے کھڑا ہونے کا حکم دے گا چنانچہ آدمی کھڑا ہوجائے گا۔ ان سب باتوں کے باوجود وہ کافر ملعون اور اللہ کا دشمن ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا :
’’کوئی ایسا نبی نہیں جس نے اپنی اُمت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو، اور میں بھی تم کو دجال سے ڈراتا ہوں کہ وہ آنکھ سے کانا ہوگا اور اللہ تعالیٰ یک چشم نہیںہے، اوراس کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا جو ہر پڑھا ہوا یا اَن پڑھ مؤمن پڑھ سکے گا اور جان لو کہ تم میں سے کوئی شخص موت سے پہلے اپنے ربّ کو نہیں دیکھ سکے گا‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعہ)
اور صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے توچار چیزوں سے پناہ مانگے، آپؐ فرماتے تھے:
«اللھم إنی أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب قبر ومن فتنة المحیا والممات ومن فتنة المسیح الدجال » (صحیح بخاری: کتاب الجنائز)
’’اے اللہ! میں تجھ سے جہنم کے عذا ب سے اور قبر کے عذاب سے پنا ہ مانگتاہوں ، اور میں پناہ مانگتا ہوں زندگی و موت اوردجال لعین کے فتنہ سے‘‘
اور رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا:
اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی، جب تک تیس جھوٹے دجال نہ نکلیں گے۔ ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے، اور رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے جھوٹے دجال ہوں گے، تمہیں وہ باتیں سنائیں گے جو نہ تم نے اور نہ تمہارے آبائو اجداد نے سنی ہو ں گی، پس ان سے بچو کیونکہ ان لوگوں پر شیطان اترتے ہیں اور ان کے کانوں میں نئی نئی باتیں ڈالتے ہیں ۔انہی جیسوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ (221) تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (222) يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ﴾ (سورۃ الشعراء)
’’کیا میں تم کو خبر نہ دوں، شیطان کن پر اترتے ہیں، ہربہتان طراز اور گنہگار پر اترتے ہیں ، اور وہ ان کے کانوں میں باتیں ڈالتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہوتے ہیں‘‘
اور اس بدنامِ زمانہ ٹولے کا اولین جھوٹاشخص مختاربن ابی عبید ثقفی تھا (یہ عبد اللہ بن عمر فاروق کا برادرِ نسبتی یعنی ان کی بیوی صفیہؓ کا سگا بھائی تھا اور اہل بیت کے نام سے خود حکومت کرنے کا خواہشمند ،بڑا مکار انسان تھا)…جو شخص شیطانی اور رحمانی اَحوال کے درمیان فرق نہ کرے، وہ اس شخص کی طرح ہے جو حضرت محمدﷺ اور مسیلمہ کذاب کے درمیان برابری کرتا ہے ۔ کیونکہ مسیلمہ کذاب کا ایک شیطان تھا، وہ اس پر اترتا اور ا س کی طرف وحی کرتا تھا۔
ان لوگوں کی علامات میں سے یہ ہے کہ ’سماع‘ کے وقت ان پر ’حال‘ طاری ہوتو وہ اپنے منہ سے جھاگ نکالتے ہیں اور کانپتے ہیں اور ایسی کلام کرتے ہیں جس کا معنی سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ شیطان ان کی زبانوں پر بولتے ہیں۔
اولیاء ُاللہ اور اولیا ئے شیطان میں فرق
اصل بات یہ ہے کہ آدمی کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کے دوست وہ لوگ ہیں جن کی تعریف اللہ نے اپنی کتاب میں کی ہے
﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾
’’ خبردار! اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غم کھائیں گے، وہ لوگ جو ایمان لائے اور تقویٰ ا ختیار کرتے ہیں‘‘ … ہر متقی اللہ کا ولی ہے۔
اور صحیح حدیث میں نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ اللہ نے فرمایا :
’’جس شخص نے میرے دوست کے ساتھ دشمنی کی، اس نے مجھے لڑائی کا چیلنج دیا اور میرا کوئی بندہ میرے تقرب کے لئے میری فرض کردہ عبادت سے زیادہ محبوب عمل میرے سامنے پیش نہیں کرسکتا۔ فرائض کے علاوہ نوافل کے ذریعہ میرا بندہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میںاس سے محبت کرتا ہوں، جب میں اس سے محبت کروں تو میں ا س کا کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے اور ہاتھ بن جاتاہوںجس سے وہ پکڑتا ہے اور پائوں جس سے وہ چلتا ہے، پس وہ میرے ساتھ ہی سنتا ہے، میرے ساتھ ہی دیکھتا ہے اور میرے ساتھ ہی پکڑتا ہے اور میرے ساتھ ہی چلتا ہے (یعنی وہ ہر کام میرے حکم کے مطابق ہی کرتاہے) اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے۔ میں اسے جواب دیتا ہوں اور جب پناہ مانگتا ہے تو اسے پناہ دیتا ہوں اور میں اپنے کرنے والے کام میں کبھی بھی اتنا تردّد نہیں کرتا، جتنا میں اپنے مؤمن بندے کی روح کو قبض کرنے کے وقت کرتا ہوں۔ وہ موت کو گراںسمجھتا ہے اور میں اس کی ناپسند چیز کو براسمجھتا ہوں اور موت کے سوا اس کے لئے کوئی چارہ بھی نہیں۔‘‘
اور دین اسلام دو اُصولوں پر مبنی ہے، ایک تو یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ،دوسرا یہ کہ اسی طرح عبادت کریں جس طرح اس نے بتایا ہے، نہ کہ اپنے طریقے سے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا﴾
’’جو شخص اللہ کی ملاقات کی اُمید رکھتا ہے، اس کو چاہئے کہ نیک اَعمال کرے اور اپنے ربّ کی عبادت میںکسی کو شریک نہ ٹھہرائے‘‘
پس عمل صالح وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو پسند ہے ۔آپ کو مسنون اور مشروع عمل ہی پسند تھا۔ اس لئے حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے تھے:
’’اے اللہ! میرے سارے عمل کو نیک کردے اور اس کو اپنی رضا مندی کے لئے خالص کردے اور اس میں کسی کا حصہ نہ بنا یعنی اس میں خلوص ہی خلوص ہو، ریا کاری ونمود کا شائبہ نہ ہو‘‘
اسی لئے اسلام کے اُصولوں کا دارومدار تین حدیثوں پر ہے، ایک تو اللہ کے نبیﷺ کا فرمان:
(۱) «إنما الأعمال بالنیات وإنما لکل امرء مانوی»
’’ اَعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جو اس نے نیت کی‘‘
(۲) «من عمل عملاً لیس علیه أمرنا فھوردّ»
’’جس نے کوئی ایساکام کیا جس کے متعلق ہمارا کوئی امر نہیں تھا ،وہ مردو د ہے۔‘‘
(۳) یہ کہ ’’حلال اور حرام صاف صاف ظاہر ہیں اور ان کے درمیان کچھ اُمور مشتبہ ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ جو شخص شبہات سے بچ گیا۔ اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو شخص شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں داخل ہوگیا۔ اس کی مثال اس چرواہے کی ہے، جو چرا گاہ کے ارد گرد مویشیوں کو چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ اپنے مویشیوں کو چراہ گاہ میں ڈال بیٹھے۔ خبردار! ہربادشاہ کے لئے چرا گاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چرا گاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔خبردار! جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست رہا تو سارا جسم درست رہا اور اگر وہخراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہی ہے‘‘
[…منقول از فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ : ج ۲۵، ص ۲۹۹ تا ۳۱۷…]