استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں؟

1. رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت اور حیثیت کیا ہے؟

2. چاند کو دیکھے بغیر محض جدید فنی طریقوں سے چاند کے ہونے کے فیصلہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

3. ایک مسلم ریاست کے حکمران یا کوئی مجاز فرد اور کمیٹی جو فیصلہ کرے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

4. اِس کا اتباع ضروری ہے؟

5. کوئی امام نمازِ تراویح میں قرآن پاک سامنے رکھ کر اس نظریہ سے نماز پڑھاتا ہے کہ اس کی جگہ کوئی اہل آدمی قابض نہ ہو جائے۔ کیا یہ جائز ہے؟ فقط

نواز احمد چوہدری۔ ایم اے۔

بمقام کانوانوالی۔ چک نمبر 166 تحصیل و ضلع شیخو پورہ

الجواب

الجواب نمبر۲،۱ واللہ أعلم بالصواب: رویت ہلال کا مسئلہ جتنا اہم ہے، اسلام نے اس کے لئے جو طریقِ کار بتایا ہے، وہ بھی اتنا ہی سادہ اور فطری ہے۔ رویت ہلال کمیٹی کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے اور چلتا ہی آیا ہے۔ گو اس کے لئے اجتماعی کوشش کی جا سکتی ہے اور اس سے استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اسے اس کے اس فطری نظام پر سوار نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ کسی ایسی فنی، تخمینی اور حسابی سردردی سے اسے بوجھل بنانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ جو بلا استثناء سب کے لئے وجۂ اطمینان نہ ہو وہ ذرائع ان سب کی دسترس میں یکساں نہ ہوں۔ بالکل اسی طرح جس طرح آفتاب کے غروب و طلوع، اوقات اور موسموں کو کسی میکانکی اور فنی معیار سے بوجھل نہیں بنایا گیا اور نہ کسی نے کبھی اس کی ضرورت محسوس کی ہے۔ ماہ و سال بنانے کا تعلق چاند سے ہے، موسم، دن، رات اور اوقات کا آفتاب سے۔ اس لئے ہر ایک کا دائرۂ کار جدا جدا ہے۔

رویت ہلال کا اسلامی طریق کار حد درجہ سادہ ہے۔ اس کی رُو سے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ: مطلع پر ظاہر ہونے کے بعد، ایک وقت میں یہ چاند کتنے علاقے اور جغرافیائی حدود پر سایہ فکن ہوتا ہے؟ بس اس خطے کے لوگوں میں سے جب قابلِ ذکر شہادت میسر آجائے تو ان کو روزہ رکھ لینا چاہئے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

جہازوں پر اُڑ کر، یا دور بینیں، خورد بینیں لگا کر اور موجودہ فلکیاتی زائچے کھینچ کر چاند کو مشخص کرنے اور کھینچ لانے کے ہم مکلف نہیں ہیں۔ جو چیز عوامی نہیں ہو سکتی وہ کسی عوامی پروگرام کی اساس بھی نہیں بن سکتی۔

یہ وہ فطری سادگی اور نظامِ رویت ہے، جس میں ایک ریاضی دان کی طرح ایک اَن پڑھ یا دیہاتی بھی یکساں حصہ لے سکتا ہے۔ آخر اس سادگی کو، ایک ایسے فنی تکلف کی بھینٹ چڑھانے میں کیا تُک ہے جو بہرحال کبھی غلط بھی ہو سکتا ہے؟

امام ابن دقیق العید فرماتے ہیں: رویت ہلال کے سلسلے میں ان فنی تکلفات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

الذي أقول إن الحساب لا یجوز أن یعتمد علیه في الصوم (تلخیص)

علامہ عبد الحی لکھنوی فرماتے ہیں، اعتبار رویت کا ہے حساب اور تجربہ کا نہیں۔

إن العبرة للصوم والفطر في الشريعة للرؤية لا للحساب والتجربة (الفلك الدوار في رؤية الھلال بالنھار ص ۳)

یہاں تک کہ اس سلسلے میں اگر علمی طور پر طلوعِ چاند علمائے فلکیات کی نگاہ میں ثابت ہو بھی جائے تو بھی اس کے جواب دہ نہیں، دوسرے کے کیا ہوں گے؟

فالذي علیه الأكثر ھو عدم اعتبار قوله لا في حق نفسه ولا في حق غيره (القول المنثور في ھلال خير الشھور ص۳)

در مختار میں ہے کہ: اگرچہ یہ قابلِ اعتبار لوگ ہوں تب بھی ان کے قول کا اعتبار نہیں ہے۔

لا اعتبار بقول الموقتین ولو عد ولا، علی المذھب

النہر الفائق میں لکھتے ہیں:

لا یلزم بقول الموقتین أنه أي الھلال يكون في أسماء ليلة كذا وإن كانوا عدولا علي المذھب.

امام اردبیل شافعی فرماتے ہیں:

ولا یجب بمعرفة منازل القمر لا علي العارف ولا علي غيره (فتاوي الانوار)

شارح ہدایہ لکھتا ہے:

لا یعتبر قولھم بالإجماع ولا یجوز للمنجم أن یعمل بحسابه (معراج الدراية)

ملا علی قاری حنفیؒ تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ: اگر رویت سے پہلے صرف اپنی فنی تحقیق کے مطابق کوئی روزہ رکھ لیتا ہے یا عید منا لیتا ہے تو وہ نافرمان ہے، قضادے، عمداً افطار پر کفارہ بھی دے، جو اس کو جائز بھی سمجھنے لگتا ہے، وہ کافر بھی ہو جاتا ہے۔

بل أقول لوصام المنجم عن رمضان قبل رؤيته بناء علي معرفته يكون عاصيا في صومه ولا يحسب عن صومه إلا إذاأثبت الھلال ولو جعل عيد الفطر بناء علي زعمه يكون فاسقاد يجب عليه الكفارة في قول وھو الصحيح وإن استحله كان كافرا (مرقاة شرح مشكوٰة)

ایک دفعہ دونوں ہاتھ کی پوری انگلیوں سے اور ایک دفعہ انگوٹھا چھوڑ کر نو انگلیوں سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض ماہ (۲۹) کے ہوتے ہیں پھر تین بار پوری انگلیوں سے اشارہ کر کے سمجھایا کہ بعض ماہ (۳۰) دِن کے ہوتے ہیں، ہم حساب کتاب والی قوم نہیں ہیں۔

إنا امة أمية لا نكتب ولا نحسب الشھر ھكذا ھكذا ھكذا وعقد الإبھام في الثالثة والشھر ھكذا ھكذا ھكذا (مسلم)

امام ابن حجر مکی فرماتے ہیں کہ آپ کی غرض یہ ہے کہ اہل فلکیات اور ریاضی دانوں کے فارمولوں کی طرف رجوع کا سلسلہ ختم ہو جائے۔

إنما بالغ في البیان مع الإشارة لیبطل الرجوع إلي ما عليه المنجمون والحساب..... وقال أكثر أئمتنا لا يعمل بحساب المنجم..... ولا بحساب الحاسب (القول المنثور ص ۴)

ائمۂ دین نے یہ بھی صریح کی ہے کہ: اس سلسلے میں دوسرے ذاتی تجربات کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔

لا عبرۃ للمجربات في ھذا الباب حتي لو ظھر خلافھا أخذ به (القول المنثور ص ۴)

حضرت امام جعفر صادق نے اس سلسلہ کے پچاس سالہ تجربات کا ذکر کیا ہے، علامہ ابن عد الحی بھی فرماتے ہیں میں نے بھی اسی طرح کے تجربات کیے ہیں جو صحیح نکلے ہیں لیکن اس کے باوجود:

مع ذلك لا اعتماد عليه (القول المنثور ص ۴)

اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

وہ فرماتے ہیں کہ: چھوٹے بڑے چاند کو دیکھ کر بھی یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کل کا ہے یا آج کا: کما في مسلم۔

لا اعتبار لکبر الھلال وصغرہ کما رواہ مسلم (القول المنثور ص ۴)

اگر کوئی خوش نصیب خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھتا ہے کہ آپ نے چاند ہونے کی اطلاع دی ہے تو بھی کہنے والے کی بات کا اعتبار نہیں ہے۔

لا عبرۃ لقول من قال أخبرني النبي ﷺ في المنام بأن اللیلة أول رمضان (القول المنثور ص ۴)

یہ اس لئے کہ خود حضور کا یہ ارشاد ہے کہ دیکھ کر رکھا کرو۔

إنما الاعتبار للرؤية (ایضا ص۴)

امام سبکی شافعی، امام ابن و ہبان، امام ابن سریج، مطرف بن عبد اللہ، قفال، قتیبہ، امام احمد اور زرکشی حسابی طریقِ کار سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا استدلال فإن غم علیکم فاقدرو له (بخاري مسلم) (بادل ہوں تو اندازہ کر لیجیے) ہے۔ جس کا مطلب انہوں نے ریاضی اور ہیئت کا خصوصی طریق کار لیا ہے۔ مگر یہ محل نظر ہے، کیونکہ دوسری روایات میں تصریح آئی ہے کہ تیس دن پورے کر لیا کرو۔ بعض میں احصوا (شمار کر لیا کرو) بھی آیا ہے۔ جس کے بھی یہی معنی ہیں کہ دن تیس پورے کر لیا کرو۔ قوله ناقدر وله أي أكملوا عدته ثلٰثين كما في رواية أخريٰ (فيض الباري ص 152، ج3) امام مالكؒ، امام ابو حنیفہؒ، امام شافعی اور سلف اور خلف کے جمہور، اسلام کے اسی فطری انداز اور قدرتی طریقِ کار کو ماہرین فلکیات کے فنی انکشافات جیسی سر دردی اور تکلف پر قربان کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اس لئے ائمۂ دین کی اکثریت نے ان کے دلائل پر تفصیلی تبصرے کئے ہیں۔ امام زاہدی نے قنیہ میں تین قول نقل کیے ہیں۔ ایک قاضی عبد الجبار، مصنف جامع العلوم اور ابن مقاتل کا کہ وہ حساب دانوں کے قول پر اعتماد کیا کرتے تھے، پھر امام سرخسی کا کہ یہ: بعید از تحقیق ہے۔ اور امام حلوائی کا ہ: شرط بہرحال رویت ہلال ہے، علمائے فلکیات کا قول نہیں۔ اخیر میں امام مجد الائمۃ ترجمانی کا کہ اصحاب ابی حنیفہ اور اصحاب امام شافعی نے اس پر اجماع کیا ہے کہ چاند کے سلسلے میں فلکیات کے انکشافات پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

ثم نقل عن مجد الأئمة الترجماني أنه اتفق أصحاب أبي حنيفة إلا النادر والشافعي أنه لا اعتماد علٰي قولھم (القول المنثور)

مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ بخاری شریف کی طرح میں لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک رویت یا شرعی نقل معتبر کا اعتبار ہے۔ تقویم کا نہیں ہے۔

فالفطر والصوم عندنا یدور بالرؤیة حقيقة أو نقلھا المعتبر شرعا ولا عبرة عندنا بالتقويم (فيض الباري ص ۱۵۲، ج۳)

قال النووي: لا يجب مما يقتضيه حساب المنجم، الصوم عليه ولا علي غيره وقال الروياني وكذا من عرف منازل القمر لا يلزمه الصوم به علي الأصح، واما الجواز؟ فقال في التھذيب لا يجوز تقليد المنجم في حسابه لا في الصوم ولا في الفطر (رؤية الطالبين للنووي ص ۳۴۷، ج۲)

امام نووی لکھتے ہیں کہ اگر مانع ہو تو پھر ان کے قول پر عمل کرنا واجب ہے، امام ابنِ حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ یہ تب ہے کہ وہ اپنے مشاہدہ کی خبر دے، حالانکہ وہ اپنے علم و تحقیق کی اطلاع دیتا ہے۔ اس لئے اس پر کیسے اعتبار کیا جائے؟

الا لو شاهد والحال أنه لم يشاھد فلا اعتبار إذًا (تلخيص الحبير ص ۱۸۸،۱)

اصل نزاع، اختلاف مطالع کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے کہ اس کی کیا حد ہے اور جتنی ہے، کیا شرعاً اس کا اعتبار ہے یا نہیں ہے۔ احناف کے ہاں یہ چرچا ہے کہ اس کا اعتبار نہیں ہے لیکن اس میں تفصیل ہے، جہاں چاند ہوتا ہے، اس کے آس پاس کے وہ علاقے جہاں عموماً ایک ہی وقت میں چاند دکھائی دیتا ہے یعنی قریب کے شہر اور خطوں میں اختلاف مطلع کا کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ منٹوں اور سیکنڈوں کا اختلاف تو قریب کے شہروں میں بھی ہو جاتا ہے۔ جہاں اس سے مختلف مطالع کا اختلاف ہوتا ہے، وہاں اختلاف مطالع کا اعتبار لازمی کرنا پڑتا ہے اور یہی مسلک شوافع کا ہے ورنہ ہو سکتا ہے کہ کسی علاقے میں تو عید پورے دنوں سے ہو رہی ہو اور بعض کے لئے اس دن عید (۲۷) یا (۲۸) رمضان کو بن جائے یا ۳۱ اور ۳۲ روزے بن جائیں۔ مثلاً اہلِ عرب کی عید اور چاند کو ملحوظ رکھنے کا عموماً یہی نتیجہ نکلے گا۔

قال الزيلعي شارح الكنز: إن عدم عبرة اختلاف المطالع إنما ھو في البلاد المتقاربة لا البلاد النائية وقال كذلك في تجريد القدوري وقال به الجرجاني، قال انور شاه: أقول لا بد من تسليم قول الزيلعي وإلا فيلزم وقوع العيد يوم السابع والعشرين أو الثامن والعشرين أو يوم الحادي والثلثين أو الثاني والثلثين (العرف الشدي شرح الترمذي ص ۲۸۵) إن لكم حديث الباب في البلد ان النائية المتقاربة (العرف الشذي ص ۲۸۷)

اختلاف مطالع کی تحدید کیا ہے: امام نووی نے اس میں تین مذاہب نقل کئے ہیں: ایک یہ کہ، حجاز، عراق اور خراسان کے مابین جتنا فاصلہ ہے، اتنے فاصلہ پر 'مطالع' مختلف ہو جاتے ہیں، بغداد، کوفہ، رے اور قزوین کے مابین جو فاصلے ہیں وہ متقارب مطالع ہیں۔

دوسرا یہ کہ: ہر اقلیم مثلاً ایران، پاکستان، عراق، مصر ہر ایک اقلیم ہے۔ اقلیم، دنیا کے ساتویں حصے کو بھی کہتے ہیں لیکن یہاں پہلے معنی مراد ہیں: گویا کہ ہر ملک سارے کا سارا ایک مطلع ہے۔ ملک کے کسی حصے میں چاند نظر آجائے وہ سارے ملک کے لئے ہو گا۔

تیسرا یہ کہ: جتنے فاصلے پر نماز قصر ہو سکتی ہے، اتنے فاصلے پر اختلاف مطالع شروع ہو جاتا ہے۔ مگر ہمارے نزدیک پہلا مسلک اقرب الی الصواب ہے، امام نووی نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔

وفي ضبط البلاد ثلثة أوجه: أحدھا وبه قطع العراقيون والصيد لاني وغيرھم أن التباعد أن تخلف المطالع كالحجاز والعراق وخراسان والمتقارب أن لا تختلف كبغداد والكوفة والري وقزوين والثاني اتحاد الإقليم واختلافه والثالث: التباعد مسافة القصر..... قلت: الأصح ھو الأول (روضة الطالبين للنووي ص ۳۴۸،۲)

بعض شارحین حدیث نے جدید ہیئت اور جغرافیہ کی رُو سے اختلاف مطالع کے لئے (32 منٹ) کا اعلان کیا ہے اور مشرق کی جانب چاند کا تعلق 560 میل تک بڑھا دیا ہے واللہ اعلم (مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح باب رؤیت الہلال)

فرض کیجئے ایک شخص پہلے عید کر کے ہوائی جہاز کے ذریعے اس علاقے میں جا پہنچتا ہے جہاں ابھی چاند نہیں ہوا تو اس کو مقامی حضرات کے تابع چلنا ہو گا۔ یہی حال نماز کا ہے: قال انور شاہ: وظن أنه يمشي علي رؤيته من يتعيد ذلك الرجل فيھم وقست ھذه المسئلة علٰي ما في كتب الشافعية من صلي الظھر ثم بلغ في الفور بموضع لم يدخل فيه وقت الظھر إلى الاٰن أنه يصلي معھم أيضا (ص ۲۸۶)

بعض روایات میں آتا ہے کہ جنت البقیع میں حضرت عمرؓ اور حضرت براء بن عاذب چاند دیکھ رہے تھے کہ ایک سوار آپ کو ملا۔ پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ بولے: مغرب سے۔ پوچھا: کیا آپ نے چاند دیکھا ہے، اس نے کہا ہاں: آپ نے کہا! اللہ اکبر! مسلمانوں کو ایک آدمی (گواہ) کافی ہے۔

عن عبد الرحمٰن بن أبي ليلٰي قال كنت مع البراء بن عازب وعمر بن الخطاب في البقيع ينظر إلي الھلال فأقبل راكب فتلقاه عمر فقال من أين جئت قال من المغرب فقال أھللت؟ قال نعم قال عمر: الله أكبر إنما يكفي المسلمين الرجل الواحد۔ رواه احمد۔

لیکن یہ روایت کمزور ہے، اس کا ایک راوی عبد الاعلیٰ ابن عامر الثعلبی ہے جو متکلم فیہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ مغرب سے آیا ہے، لیکن چاند اس نے کہاں دیکھا؟ اس کا کچھ ذکر نہیں ہے، راستہ میں یا اپنے علاقہ میں؟ ویسے بھی یہ بات حضرت عمرؓ کے نظریہ کے خلاف ہے،ان کے نزدیک ہلال رمضان کے لئے دو گواہ ضروری ہیں، امام دار قطنی فرماتے ہیں ثعلبی کی روایت سے یہ زیادہ صحیح بھی ہے۔

عن شقيق قال جاءنا كتاب عمرو نحن بخانقين قال في كتابه إن الأھلة بعضھا أكبر من بعض فإذا رأيتم الھلال نھارا فلا تفطروا حتي يشھد شاھد ان وفي رواية حتي يشھد شاھد ان أنھما رَاأيَاهُ بالأمس وفي رواية: إلا أن يشھد رجلان مسلمان أنھما أھلاه بالأمس عشيّة (ابن ابي شيبة ص 69، 3 و دار قطني باب الشھادة علي رؤيته الھلال ص 233-232،1 وحديث أبي وائل أصح إسناد عن عمر منه (دار قطني ص 232، 1)

حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ:

احکام دینیہ کی بناء ظاہر پر ہے، تعمق اور حساب وغیرہ پر نہیں ہے بلکہ شریعت اس امر کی سفارش کرتی ہے کہ ان کی اہمیت کم کی جائے۔ یہ بات روزے کے باب میں اہم مقصد سے ہے کہ تعمق کے جتنے ذرائع ہیں اور ان متعمقوں نے جتنی باتیں گھڑی ہیں ان کا کھل کر رد کیا جائے، کیونکہ شریعت سے پہلے یہود میں بھی یہ سلسلے جاری تھے، تعمق یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر کو فرض سمجھ لیا جائے۔

مَبْنَي الشرائع علي الأمور الظاھرة عند الأميّين دون التعمق والمحاسبات النجومية بل الشريعة واردة باجمال ذكرھا..... واعلم أنّ من المقاصد المحمة في باب الصوم سد ذرائع التعمق ورد ما أحدثه التعمقون فإن ھذه الطاعة كانت شائقة في اليھود والنصارى ومتحنثي العرب..... وأصل التعمق أن يؤخذ موضع الاحتياط لازما ،جحة الله البالغة ص 39، 2 احكام العلوم)

شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اصل میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دین اور شرائع کو فن بنانے کی کوشش نہ کی جائے، اصل مقصد تعبد اور سچی پیاس کے ساتھ رب کی غلامی اختیار کرنا ہے، اور اس کا تقاضا صرف 'تسلیم و رضا' ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ تجربات اور عقل و ہوش کو نظر انداز کیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ تعمیل حکم کا محرک یہ اور وہ تجربات اور فنی گورکھ دھندے نہ ہوں بلکہ صرف رب کے حکم کی تعمیل کا جذبہ ہو۔ جہاں عقل اور تجربات کو اس پر حاکم بنا لیا جاتا ہے وہاں اصل دین میں ترمیمات شروع ہو جاتی ہیں جیسا کہ یہود و نصاریٰ کے ہاں ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام کے فرامین، عوامی استعداد اور ذرائع کی بنیاد پر جاری ہوتے ہیں اس لئے جو حکم اور اس سے عہدہ بر آ ہونے کا طریق، ان سے بالا تر ہوتا ہے، وہ تکلیف ما لا یطاق کے ضمن میں آتا ہے جو جائز نہیں ہے۔ یہاں رویت بصری ان سے چھین کر ان سے 'رویت علمی' کے تقاضوں کی تعمیل کا مطالبہ 'روح اسلام' کے خلاف ہے۔ اس لئے امام زیلعی فرماتے ہیں کہ ہر قوم سے ان کے حسبِ حال خطاب کیا جاتا ہے۔ کل قوم مخاطبون بما عندھم۔

امام ابن رشد فرماتے ہیں کہ: حساب اور علمِ ہیئت کی رُو سے چاند کی تشخیص حدیث کے الفاظ کے معنی میں اختلاف کا نتیجہ ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ حساب کرو وہ اس کے معنی کرتے ہیں کہ شمس و قمر کے فنی حساب سے مدد لی جائے، دوسرے کہتے ہیں کہ: یہ لفظ مجمل ہے، دوسری روایت میں مفسر آیا ہے تیس دن پورے کرو۔ اس لئے مفسر کے خلاف معنی کرنا ٹھیک نہیں ہے۔

فذھب الجمھور إلى أن تأويله أكملوا العدة ثلثين ومنھم من رَأى أن معني التقدير له ھو عده بالحساب ومنھم من رَأي أن معني ذٰلك أن يصبح المرء صائما وھو مذهب ابن عمر كما ذكرنا..... وذلك مجمل وھذا (حديث ابن عباس) مفسر فوجب أن يحمل المجمل علي المفسر وھي طريقة لا خلاف فيھا بين الأصوليين.... فما ذھب الجمھور في ھذا الائح والله أعلم (بداية ص 284، 1)

حضرت قاسم اور سالم بن عبد اللہ سے لوگوں نے کہا کہ 'استارہ کے علاقہ میں چاند ہو گیا ہے۔ آپ نے کہا ہمیں کیا؟'

قال عبد اللہ بن سعید ذکروا بالمدینة رؤية الھلال وقالوا إن أھل استارة قَدَ رَوه فقال القاسم وسالم ما لنا ولأھل الاستارة (مصنف ابن ابي شيبة ص 79، 3)

الحاصل ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ: عوام کی سہولت کے لئے اگر رؤیت ہلال کمیٹی بنا دی جائے تو اس میں حرج کوئی نہیں، لیکن اس کو اس سلسلے کے شرعی طریق کار کا پابند رہنا ہو گا۔ معروف شرعی طریق کار کے مطابق شہادتوں اور مقاماتِ ہلال رمضان یا ہلالِ عید کی تفصیل سے مطلع کرنا اس کے لئے ضروری ہو گا۔

اس کے علاوہ رویت ہلال کمیٹی نے اس کے لئے جو طریق کار خود وضع کیا اس کی تفصیل سے بھی ملت اسلامیہ کو آگاہ کرنا ہو گا۔

اختلاف مطالع کی تعیین اور تشخیص کیا کی؟ اس کے سامنے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یہ سب کچھ بتانا ہو گا کیونکہ ہمارے لئے اختلاف مطالع کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ بہت سے لا ینحل سقم پیدا ہو جائیں گے۔

چاند کو دیکھے بغیر خاص کر جب مطلع بھی صاف ہو، محض جدید فنی طریقوں سے چاند مشخص کرنے کے فیصلہ پر قناعت کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ اس سے وہ فطری سادگی، آسانی اور بے ساختہ پن غارت ہو جائے گا جو ملک و ملت کی اکثریت کے حالات کو ملحوظ رکھ کر اسلام نے وضع اور عطا کیا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ فلاں جگہ ہم نے چاند موٹا تازہ دیکھا تو کسی نے کہا دوسری کا ہے، کسی نے کہا تیسری کا ہے، ابنِ عباس نے فرمایا کہ:

إن النبي ﷺ أمدہ إلی الرؤية (مسلم، دار قطني وغيرھما)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے رؤیت (دیکھنے) تک دراز کر دیا ہے۔

یعنی نظر نہیں آیا تو ان تکلفات میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، جب نظر آیا ہے تبھی سے اِس کو شمار کر لینا۔ چھوٹے بڑے ہونے کے چکروں میں نہ پڑو۔ خاص کر حضور کا یہ فرمانا کہ اگر کسی مانع کی بنا پر نظر نہیں آیا تو شعبان یا رمضان کے تیس دن پورے کر لیا کرو۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ باقی تمام مصنوعی تکلفات سے آزاد کر دیتا ہے۔ بشرطیکہ ان متکلفین کو سمجھ میں آجائے۔

جو کام کرنے کے ہیں اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی لیکن جب روزوں اور عیدوں کا معاملہ آتا ہے تو ماہِ مبارک کی سرپرستی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس کی ان کو توفیق نہیں ہوتی کہ ماہِ رمضان کے احترام کے لئے کوئی مؤثر اقدام کریں۔ لیکن اس کے چاند کی حد تک خم ٹھونک کر میدان میں اتر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ انداز بعض نجی مصالح کی بنا پر اختیار کیا جاتا ہے یا محض سستی بخشش کے لئے ایک حیلہ سازی ہے جس کی بہرحال فریب نفسی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ: اتفاق اور اختلاف مطالع میں شک پڑ جائے تو پھر کوئی کیا کرے، روزہ رکھے یا نہ؟ امام نووی لکھتے ہیں کہ: جب تک چاند نہ ہو، تب تک رمضان کا روزہ واجب نہیں ہوتا۔ یہ اصل اور بنیادی بات ہے، اس لئے اسی اصل کے مطابق معاملہ رہے گا۔ یعنی روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔

فإن شك في اتفاق المطالع لم یجب الصوم علی المذهب لم یروا، لإن الأصل عوّام الوجوب (روضة الطالبين ص 349، 2)

اس 'اصل' کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے۔

لا تصوموا حتی تروا الھلال ولا تفطروا حتی تروہ (صحیحین۔ عن ابن عمر)

وفي رواية: صُوْمُوْا لرؤيته وأفطروا لرؤيته (صحيحين۔ عن ابي ھريره)

یعنی چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھو، نہ عید کرو، دیکھ کر روزہ رکھو اور دیکھ کر ہی عید کرو۔

جواب (سوال نمبر 3):

حکومت وقت ویسے تو جو چاہے کرے، غلط یا صحیح، بجز پارلیمانی طریقے کے، اس کا مقابلہ کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ ہاں اگر وہ اسلامی ریاست ہو، اسلامی معروف کی محافظ اور 'منکر' کی مخالف ہو تو اس کے فرامین کی اطاعت کرنا دینی فریضہ ہوتا ہے۔ اختلاف رائے کے اظہار کے باوجود اس کے خلاف ایسی مزاحمت کا مظاہرہ کرنا، جو ملک و ملت کے مستقبل کے لئے تشویش کا باعث ہو، جائز نہیں ہوتا۔

ہاں حکمران کی ذاتی صوابدید سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ خاص کر معصیت میں ان سے 'عدمِ تعاون' کارِ ثواب ہوتا ہے۔ جہاں مرضی کا اسلام اختیار کرنے کی رِیت ہو اور ﴿ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ ...٨٧(جب جب تمہارے پاس کوئی رسول، تمہاری اپنی خواہشوں کے خلاف حکم لے کر آیا تم اکڑ بیٹھے) کا سماں طاری رہتا ہو، وہاں اضطراراً اطاعت کا تکلف تو اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن قلبی انشراح اور انبساط کے ساتھ ان کی غلامی کے طوق کو گلے کا ہار بنانے میں ایمان کے ضیاع کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جو ایسا کریں گے قیامت میں اپنی انگلیاں کاٹیں گے، تڑپیں گے اور پچھتائیں گے مگر ان کی ایک بھی نہیں سنی جائے گی، خدا سے کہیں گے کہ الٰہی! ہم نے اپنے سربراہوں اور بڑوں کا کہا مانا اور اطاعت کی تو انہوں نے ہمیں گمراہ ہی کر ڈالا۔ الٰہی ان پر دگنا عذاب نازل کر اور ان پر لعنت کا مینہ برسا۔ ﴿قَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَآءَنَا السَّبِيْلَا. رَبَّنَا اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنَهُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا ﴾(سورت احزاب ع ۸﴾بہرحال کل جو یہ لا حاصل واویلا کرنا ہے، آج ہی ہوش کریں تو کیا اچھا نہ ہو گا؟

خاص کر جب سارے دین کے بجائے بعض دینی امور کے اپنانے کے لئے وہ میدان میں اتر پڑتے ہیں تو یقیناً ''دال میں کچھ کالا'' ضرور ہوتا ہے۔ نجی قسم کی چارہ سازی نہ سہی، وہم پرستی اور سستی جنت کا سودا تو ضرور کار فرما ہوتا ہو گا۔ اس صورت میں، ہمیں ان کی کسی 'محنت یا سفارش' سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔

اسلامی سربراہ ریاست بھی علمی اور تحقیق امور میں اپنی رائے کا اظہار تو کر سکتا ہے، اس کے لئے اصرار نہیں کر سکتا۔ چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں زوال کے بعد چاند دیکھ کر کچھ لوگوں نے روزہ توڑ دیا لیکن حضرت عثمان نے نہیں توڑا تھا۔

راہ الناس في زمن عثمان فأفطر بعضھم فقال عثمان إما أنا فمتم صیامي إلی اللیل (مصنف ابن ابي شيبه ص 66، 3)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں ایک شخص نے شام سے واپس آکر حضرت ابن عباس سے ایک دن پہلے چاند دیکھنے اور روزہ رکھنے کا ذِکر کیا، آپ نے کہا کہ ہم نے تو ہفتہ کے دن دیکھا ہے اور تیس ہی پورے کریں گے، کریب نے کہا آپ کے لئے ''حضرت معاویہ'' کی رؤیت کافی نہیں ہے۔ فرمایا نہیں، اور یہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حکم ہے۔

اولا تکتفي برؤیة معاوية وصيامه؟ قال لا، ھكذا أمرنا رسول الله ﷺ (دار قطني وغيره)

حضرت مجدد سر ہندی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے عہد کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ:

''عید کے چاند میں اختلاف ہوا، شرعی ثبوت سے پہلے ہی اکبر نے عید کا اعلان کر کے لوگوں کے روزے افطار کرا دیئے، اتفاق سے اِسی دن حضرت مجدد ابو الفضل سے ملنے آئے، پوچھنے پر ابو الفضل کو معلوم ہوا کہ آپ روزے سے ہیں تو اس نے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ چاند کے متعلق اب تک شرعی شہادت فراہم نہیں ہوئی۔ ابو الفضل نے کہا کہ بادشاہ نے تو حکم دے دیا ہے۔ اب کیا عذر ہے؟ بے ساختہ آپ کے منہ سے یہ جملہ نکلا کہ:

بادشاہ بے دین است، اعتبارے ندارد! (بادشاہ بے دین ہے، اس کا اعتبار نہیں) ابو الفضل خفیف سا ہو کر رہ گیا۔'' (تذکرہ امام ربانی مجدد الف ثانی ص 94 مرتبہ نعمانی صاحب)

بہرحال رویت ہلال کے سلسلے میں، اسلام نے شہادت کا نظام مقرر کیا ہے، علمی اور فنی انکشاف کا نہیں۔ اس لئے جو حکمران یا ان کی طرف سے کوئی مجاز فرد یا کمیٹی، اس طریقِ کار سے ہٹ کر چاند کے ہونے نہ ہونے کا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ اختلافی مسئلہ ہے جس میں ایک سے زائد رائیں ہو سکتی ہیں۔ جن کو ان کی دریافت پر اطمینان ہو، وہ اس پر عمل بھی کر سکتے ہیں لیکن یہ اتفاق علیٰ وجہ البصیرت ہو، تقلیدی اور شاہ پرستانہ نہ ہو۔ اور جن کو ان سے اختلاف رائے ہو، وہ اپنی مرضی کے مطابق روزہ بھی رکھ سکتے ہیں اور عید بھی کر سکتے ہیں۔ دراصل جدید 'تقویم' کا خبط بہت پرانا ہے، اکبر کو بھی یہ خبط ہو گیا تھا، چنانچہ اس نے اپنے سال تخت نشینی سے 'الٰہی تقویم' کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایوب خاں بھی اسی خیال میں پڑے رہے اور اب بھی اصرار جاری ہے کہ ایک نئی اور 'دائمی تقویم' مرتب کی جائے، جس سے اتفاق کرنا بہرحال ہمارےلئے مشکل ہے۔

الجواب (سوال نمبر ۴):

گو نماز ہو جائے گی لیکن بد نیتی کا گناہ اس کو ضرور ہو گا۔ امامت کا سب سے زیادہ سزا وار اقرء (جسے قرآن بہت آتا ہو) یا 'اعلم' (بہت بڑے عالم) ہے:

یؤم القوم أقرءُھم لكتاب الله تعالٰي فإن كانوا في القراءة سواء فأعلمھم بالسنة ،الحديث (رواه مسلم) وفي رواية أحقھم بالإمامة أقرأھم (روا مسلم عن ابي سعيد)

امامت کا سب سے بڑا حقدار وہ ہے جو ان میں سب سے بڑا قاری ہو۔ اس لئے جو شخص اپنے نجی مصالح کے لئے اس کی راہ روکتا ہے، غلط کرتا ہے۔

تنبیہ:

چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے کہ، نماز میں قرآن کھول کر پڑھنا جائز ہے یا نہ؟ اس میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع پر اِس کی بھی وضاحت کر دی جائے۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز میں قرآن کھول کر پڑھنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔

وإذا أقرأ الإمام من المصحف فسدت صلوٰته  عند أبي حنيفةؒ (ھداية باب ما يفسد الصلوٰة وما يكره فيھا ص 137، 1)

یہاں امام کی قید اتفاقی ہے، مقتدی بھی ایسا کرے تو فاسد ہو جائے گی۔

قال صاحب النھاية قید الإمام اتفاقی انتھی فیعلم أن قراءة المقتدي من المصحف أیضاً مُفسدٌ (حاشیه نمبر۱۱، ہداية ص 137، 1)

شرح وقایہ میں بھی اس کو مفسد نماز قرار دیا گیا ہے۔

وقراءته من مُصحفٍ (يفسدھا) (شرح وقايه ص 164، 1)

وإن قرأ المصلی القراٰن من مصحف أو من المحراب تفسد صلوته (منية المصلي مع صغيري ص 231)

اس کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ قرآن کھول کر اسے دیکھے گا، دیکھ کر پڑھے گا، ورق اُلٹائے گا۔ یہ عمل کثیر ہے اور یہ مفسد نماز ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ غیر سے تلقین قبول کرنے والی بات ہے جو مفسد نماز ہے۔

ولأبي حنيفة إن حمل المصحف والنظر فيه وتقليب الأوراق عمل كثير ولأنه تلقن من المصحف فصار كما إذا تلقن من غيره (هداية ص 137، 1)

امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ جو امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں، وہ فرماتے ہیں، یہ مکروہ ہے، مفسد نماز نہیں ہے۔ وَقَالَا ھِیَ قامة (هداية)

یہ لطیفہ بھی ملاحظہ فرمائیے! احناف کا کہنا ہے کہ اگر قرآن کے بجائے کوئی اور کتاب یا مکتوب نماز میں دیکھا اور اسے سمجھا بھی تو نماز فاسد نہیں ہو گی۔

ولو نظر إلی مکتوب وفھمد فالصحیح أنه لا تفسد صلوته بالإجماع (ھدايه ص 138، 1)

اور اس سے دلچسپ سنیے! فرماتے ہیں:

لو نظر إلی فرج المطلقة الرجعية بشھوة يصير مراجعا ولا تفسد صلوته في المختار (صغيري شرح منية المصلي ص 232)

نیز فرمایا:

لو قبلت المصلی امراته ولم يقبلھا فصلوٰته تامة (منية)

ترجمہ: کسی دیدہ ور بزرگ سے کرا لیجئے! پھر غور فرمائیے! عمل کثیر کا جو بہانہ بنایا ہے، اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ مزید سنیے:

اگر نمازی کے پاس روڑا تھا اور وہ اس نے پرندے کو دے مارا تو نماز فاسد نہیں ہو گی۔

ولو کان معه حجر فرمی به الطائر أو نحوه لا تفسد صلوته (كبيري ص 424)

نیز ارشاد ہے کہ: اس صف کو چھوڑ کر اگلی صف میں خالی جگہ پر نمازی چلا جائے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔

وبعض المشائخ قالوا في رجل رأی فرجة في الصف الثاني فمشي إليھا لا تفسد صلوٰته (منية المصلي مع صغيري ص 233)

نماز میں قرآن کھول کر پڑھنا ہمارے نزدیک مفسدِ نماز نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ایسا عمل کثیر ہے جو نماز کے لئے ہے، کسی اور محرک کے لئے نہیں ہے، جیسا کہ رکوع و سجود، تشہد اور رکعتوں کے لئے اُٹھنا بیٹھنا کوئی عمل کثیر نہیں ہے یہ بھی نہیں ہے۔ ظہر یا عصر کی نماز میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی نواسی حضرت امامہ بنت زینب رسول اللہ ﷺ کو دوش مبارک پر اٹھا کر نماز پڑھائی۔ سجدہ یا رکوع کو جات وقت اسے رکھ دیتے، اُٹھتے وقت اسے بھی اُٹھا لیتے اور دوش پر سوار کر لیتے۔

قال ابو قتادة رأيت رسول الله ﷺ يصلي للناس وأمامة بنت أبي العاص علي عنقه فإذا سجد وضعھا (ابو داود ب،اب العمل في الصلوٰة ص 92، 1) (في روايته: بينما نحن فنتظر رسول الله ﷺ للصلوٰة في الظھر والعصر الحديث ( ص 92، 1)

حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ فرماتی ہیں، آپ نماز پڑھتے ہوتے اور میں سامنے دراز پڑی سو رہی ہوتی تھی۔ جب آپ سجدہ کو جاتے تو مجھے ہاتھ سے دباتے تو میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی۔

إنه ﷺ كان يصلي وأنامعترضة بين يديه فإذا سجد غمزني فقبضت رجل، الحديث (صحيحين عن عائشة)

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ: حضور نفل پڑھ رہے تھے اور سامنے سے دروازہ بند تھا۔ میں آئی اور دروازہ کھولنے کو کہا تو آپ ﷺ نے آگے چل کر دروازہ کھول دیا، قبلہ سامنے پڑتا تھا۔

قالت کان رسول اللہ ﷺ یصلي تطوعا والباب عليه مغلق فبحئت فاستفتحت فمشي ففتح لي ثم رجع إلي مصلاه وذكرت أن الباب كان في القبلة (ابو داود ،باب العمل في الصلوٰة ص 92، 1)

حضور کا ارشاد ہے کہ نماز میں سانپ یا بچھو آجائے تو اس کو مار ڈالو۔

اقتلوا الأسودین في الصلوٰة، الحية والعقرب (أیضاً)

باقی رہی دوسری وجہ، یعنی دوسرے سے تلقین والی بات تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ قرآن دوسرا ہے ہی نہیں: بلکہ نماز قرآن کی قرأت کے لئے ہے۔

إنما الصلوٰة لقراءة القراٰن الحدیث (ابو داؤد)

بلکہ سورت فاتحہ کو حضور نے نماز سے تعبیر فرمایا تھا: قسمت الصلوٰۃ الحدیث۔

ایک دفعہ آپ ﷺ نے نماز پڑھائی، اور کچھ بھول گئے، بعد میں ایک صحابی نے کہا کہ آپ فلاں آیت چھوڑ گئے ہیں، فرمایا: تو نے یاد کیوں نہ کرایا۔

کان یقرأ في الصلوٰة فترک شیئا لم یقرأ فقال له رجل يا رسول الله تركت اية كذا وكذا فقال رسول الله ﷺ ھلا ذكر تنبيھا (رواه ابو داؤد و عن المسعود)

اسی طرح حضرت ابی بن کعب سے فرمایا کہ کیوں نہ بتایا:

صلی صلوٰة فقرأ فیھا فلبس علیه فلما انصرف قال لأُبّی أصلیت معنا قال نعم قال فما منعك (ابو داؤد باب الفتح علی الامام فی الصلوٰۃ ص 91، 1)

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضور کے عہد میں امام نماز کو لقمہ دیا کرتے تھے۔

کنا نفتح الأئمة علٰی عھد رسول اللہ ﷺ (رواہ الحاکم)

حضرت ابن عمرؓ کو حضرت نافع اور حضرت عثمانؓ کو ان کے غلام حمران نماز میں لقمہ دیا کرتے تھے۔

قال نافع صلي بنا ابن عمر فتردد ففتحت عليه فأخذ (ابن ابي شبته)

حمران يصلي خلف عثمان فإذا توقف فتح عليه (الاصابة لابن الحجر)

یزید بن رومان کہتے ہیں کہ میں نافع بن جبیر کے پہلو میں نماز پڑھتا تھا، تو وہ مجھے ہاتھ سے دباتے یا کچوکا دیتے تو میں ان کو لقمہ دیتا حالانکہ ہم دونوں نماز میں ہوتے تھے۔ کنت أصلی إلی جانب نافع بن جبیر بن مطعم فیغمز في فافتح علیه ونحن نصلي (موطا مالك)

جیسے نمازی قاری کا عین نہیں ہے اور اس کا لقمہ جائز ہے اسی طرح قرآن بھی گو قاری (امام نماز) کا عین نہیں ہے تاہم امام اس سے لقمہ لے سکتا ہے۔

بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اور تابعین قرآن مجید کھول کر پڑھنے کے حق میں نہیں تھے، جیسے حضرت ابن عباسؓ (عمدۃ الرعایۃ ص 164، 1 بحوالہ ابی داؤد) سلیمان حنظلی، ابو عبد الرحمٰن، امام نخعی، مجاہد، عامر، قتادہ اور حماد (مصنف ابن ابی شیبۃ ص 338، 2) اور حضرت سفیان (قیام اللیل ص 168) لیکن مرفوع احادیث سے ان کی تائید نہیں ہوتی اور ہو سکتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی منع کی دلیل وہی ہو جو حضرت امام ابو حنیفہؒ کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔ اور وہ جیسی کچھ ہیں آپ کے سامنے ہے۔

امام محمد بن سیرین کا ارشاد ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا تھا یعنی صحابہ و تابعین میں۔

لا یُری بأسا أن یؤم الرجل القوم یقرء في المصحف (مصنف ص 338، 2)

حضرت عائشہ کا غلام قرآن کھول کر نماز پڑھایا کرتا تھا۔

کانت عائشة یؤمھا عبدھا ذکوان من المصحف (بخاری باب امامة العبد والمولي تعليقا ص 96،1)

بنت طلحہ حضرت عائشہ بھی کسی کو لڑکے یا شخص سے کہتی تھیں کہ قرآن سامنے رکھ کر رمضان میں ان کو نماز پڑھائیں۔

عن عائشة ابنة طلحة أنھا كانت تأمر غلامًا أو انسانًا يقرؤ في المصحف يؤمھا في رمضان (مصنف ص ۳۳۸،۲)

حضرت حسن بصری اور حضرت محمد بن سیرین کا بھی یہی مذہب تھا۔

قالا لا بأس به (مصنف ص ۳۳۸،۲)

حضرت امام ابو حنیفہؒ کے شیخ اور استاذ حضرت طاء بن ابی رباح کا بھی یہی نظریہ تھا۔ قال لا بأس به (أيضا) یعنی جب حافظ نہ ملے۔

حضرت انس نماز پڑھتے، ان کا لڑکا قرآن کھول کر پیچھے کھڑا ہو جاتا اور جب حضرت انسؓ اٹک جاتے تو وہ انہیں لقمہ دیا کرتا:

کان أنس یصلي وغلامه يمسك المصحف خلفه فإذا تعايا في آية فتح عليه. (مصنف ابن ابي شيبة ص 338، 2)

حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بھی بوقت ضرورت قرآن کھول کر پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔

سئل مالك عن أھل قریة ليس أحد منھم جامعا للقراٰن اتري أن يجعلوا مصحفا يقراء لھم رجل منھم فيه قال لا بأس به (قيام الليل ص 168)

عن أحمد في رجل یؤم في رمضان في المصحف فرخص فیه (ایضاً) یعنی اگر حافظ نہ مل سکے تو۔ اور یہی مسلک حضرت سعید بن المسیب کا تھا (ایضاً)

حضرت امام یحییٰ بن سعید انصاری بھی کہتے تھے کہ رمضان میں ایسا کر سکتے ہو۔

حضرت امام زہری سے اس کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا: شروع سے ہی ایسا کرتے آرہے ہیں یعنی صحابہ اور تابعین! ہمارے بزرگ قرآن کھول کر پڑھتے آرہے ہیں۔

منذ کان الإسلام کان خیاءنا یقرؤن في المصاحف (قیام اللیل ص 168)

حضرت امام مروزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

حضرت امام ابو حنیفہؒ سے پہلے کوئی شخص بھی ہمیں معلوم نہیں جو کھول کر قرآن پڑھنے سے نماز کے فساد کا قائل ہو، جنہوں نے ایسا کیا ہے، وہ صرف اہل کتاب سے مشابہت کا خیال کرتے ہیں۔

لا نعلم أحد اقبل أبي حنيفةأفسد صلٰوته إنما كره ذلك قوم لإنه من فعل أھل الكتاب (قيام الليل ص 169)