مادی سائنس اور فلسفے کے شاخسانے
جدید تہذیب اور قتلِ جنین (۲):
قتلِ جنین (Abortion) کا رائج العام ہونا نہ صرف کسی معاشرے کے جنسی فساد کا ثبوت ہوتا ہے، بلکہ فطرت سے یہ طریقِ تصادم بتاتا ہے کہ انسانیت کے اعلیٰ جذبات اور قیمتی اقدار کی تباہی ہو چکی ہے۔ مغربی معاشروں میں قتلِ جنین ایک کھیل بن چکا ہے۔ وہاں ادارہ ہائے اسقاط کو لفظ ''مِل'' (Mill) بہ معنی کارخانہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یعنی کارخانہ ہائے قتلِ انسانِ نامولود۔ ان ترقی یافتہ اداروں کی رفتارِ کار اتنی تیز ہے کہ 'مریضہ' داخل ہونے کے آدھ گھنٹے بعد اپنے بارِ رحم سے فارغ ہو جاتی ہے۔ ایک پروبیشن افسر نے ایک ڈاکٹر سے دریافت کر کے بیان کیا ہے کہ وہ ہفتہ کے روز ایسے کیس ۴۵ کر لیتا ہے۔ اوسطاً اس خدمت کو انجام دینے والے ڈاکٹر سالانہ ۵،۴ ہزار کیس کرتے ہیں۔ بہت سے کیس پرائیویٹ اداروں کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی معاملہ بگڑ جائے تو پھر سرکاری ہسپتالوں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر مغربی دنیا میں قتلِ جنین یا اسقاط کے واقعات کی سالانہ تعداد لاکھوں سے گزر کر کروڑوں تک پہنچتی ہے۔
روس میں ۱۹۵۵ء تک اسقاط کرنا کرانا خلاف قانون تھا لیکن ۲۳؍ نومبر ۱۹۵۵ء کو ایک قانون کے ذریعے مستند (qualified) ڈاکٹروں کے ہاتھوں اسقاط کرانا جائز کر دیا گیا۔ روس میں رہائشی انتظامات کی کمی، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی یکجائی اقامت اور مرد و زن کے اختلاطِ عام نے قتلِ جنین کی مصیبت آہستہ آہستہ عام کر دی ہے۔ پہلے غیر قانونی صورتوں میں اور اب قانونی راستے سے!
خیال رہے کہ جدید تہذیب کے یہ حالات برتھ کنٹرول کے باوجود ہیں جس کا نیا خوبصورت نام ترقی پذیر ممالک کے لئے فیملی پلاننگ تجویز کیا گیا ہے۔
جنسی گندگی:
کسی نظریۂ حیات اور تہذیب کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی انسان کو اچھا انسان بنا سکے۔ اسے خواہشوں کی غلامی کی پستی سے اُٹھا کر خواہشوں کو اخلاقی انضباط میں رکھنا سکھائے۔ بصورت دیگر جو نظام یا تہذیب انسان کو خواہشوں کی سواری بنا دے، اس کے دوں نہاد ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ خصوصیت سے کسی معاشرے میں جنسی میلانات کے لئے اگر حسنِ انضباط نہ پایا جاتا ہو تو وہ حیوانی سطح تک گر جاتا ہے۔
اس معاملے میں یورپ کا حال یہ ہے کہ ایسے واقعات شاذ و نادر نہیں ہیں کہ بہن بھائی آپس میں ناجائز تعلقات قائم کر لیتے ہیں۔ امریکہ میں یہ رواج پھیلتا جا رہا ہے کہ مرد آپس میں ہفتہ عشرہ کے لئے اپنی بیویاں بدل لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ''پگڑی بدل بھائی'' کا محاورہ تھا۔ امریکہ میں اب ''بیوی بدل دوست'' کا نیا محاورہ تشکیل پا رہا ہے۔ گرل فرینڈ کا رکھنا تو شرافت و شائستگی کی ایک عام نشانی ہے۔ یہ حال ہے ان ممالک کا جو اسلام کے قانون تعدّدِ ازدواج (جو محدود بھی ہے اور مشروط بھی) پر حرف رکھتے ہیں۔ حالانکہ اسلامی معاشروں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے والے شاذ و نادر افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، اور مغرب کی عشقیہ دوستی اور لا تعلق بلا نکاح کا ہزار واں حصہ بھی رائج نہیں۔
سفید کھال اور جدیدیت کے ظاہری خول کے پیچھے یورپ میں انتہائی گندہ آدمی پایا جاتا ہے جو نہ رفعِ حاجت کے بعد استنجاء کرنا جانتا ہے، نہ غسل جنابت کا پابند ہے اور نہ کھانے کے بعد کلی کرنے کے آداب سے آشنا ہے۔ اس ''مہذب آدمی'' کے اطوار کا نقطۂ عروج یہ ہے کہ زوجین اور گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ ایک دوسرے کے خفیہ اعضاء کو چاٹنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے اور اس گھناؤنے اور کریہہ فعل میں امریکہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے فارغ شدہ مرد وزن میں سے تقریباً ساٹھ فیصد بری طرح مبتلا ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یورپ کے ماہرین جو شادی شدہ لوگوں کے لئے بزعم خود سائنٹیفک ہدایات پر کتابیں لکھتے ہیں۔ وہ اپنی کتابوں میں اس قبیح اور غلیظ فعل کی نہ صرف تحریک پیدا کرتے ہیں بلکہ اسے عین تقاضائے فطرت قرار دیتے ہیں۔ ہاں ان کے نزدیک اس فعل کو صرف اس صورت میں غیر فطری کہا جا سکتا ہے جبکہ یہ اصل فعل یعنی جماع کا قائم مقام بن جائے اور صرف اسی پر اکتفا کی عادت ہو جائے۔
بیعت کا انوکھا طریقہ:
آج کل ہی نہیں بلکہ قرونِ وسطیٰ میں بھی یورپ میں بہت سے عیسائی مذہبی فرقے اور جماعتیں ایسی تھیں جن میں بیعت کا طریقہ یہ رائج تھا کہ مرید کو مرشد کی مقعد کا بوسہ لینا پڑتا تھا۔
دریں حالات ہم کہتے ہیں کہ ایسی گندہ اور نجس قوموں کے ہاتھ کے ذبیحے کا تو سوال ان کے ہاں کے بنے ہوئے بسکٹوں وغیرہ کا خیال کر کے بھی ہمیں متلی ہوتی ہے۔
کنزے کی رپورٹ کا خلاصہ:
Richard Lewinshon, M.D. لکھتا ہے کہ کنزے رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں ۸۰ فی صد مرد اور تقریباً ۵۰ فی صد عورتیں شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کر لیتی ہیں۔ ان میں سے ۹۷ فی صد مردوں نے ایسے جنسی تعلقات قائم کئے جو خلاف قانون تھے۔ ۷۰ فی صد نے رنڈیوں سے تعلقات قائم کیے اور ۴۰ فی صد شادی شدہ مرد اپنی بیویوں سے بے وفائی کرتے ہیں۔ ۳۷ فی صد مردوں اور ۱۹ فی صد عورتوں نے ہم جنسوں سے تعلقات قائم کرنے کو تسلیم کیا، کھیتوں پر کام کرنے والے ہر چھ لڑکوں میں سے ایک جانوروں سے بدفعلی کا مرتکب ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا محقق، E.S. Turner کے حوالے سے کنزے سے قبل کے دور کا ذِکر کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں:
''۔۔۔۔۔۔ شادی سے قبل جنسی تعلقات قائم کرنے کی وجہ سے جو بچے پیدا ہوتے تھے ان میں سے سرکاری ملازمین کے بچوں کی تعداد ۴۱ فی صد، ڈاکٹروں اور وکلاء کے بچوں کی تعداد ۳۰ فی صد اور پادریوںِ استادوں اور افسروں کے بچوں کی تعداد ۱۵فی صد ہوتی تھی۔''
۱۹۳۸ء میں انگلینڈ میں جو حمل شادی سے پہلے ٹھہرے، مگر وضع حمل سے قبل نکاح کے ذریعے ان کو جائز کر لیا گیا ۔ ان کی تعداد ناجائز طور سے پیدا ہونے والے بچوں سے دگنی تھی۔ (یہ ذکر ۱۹۳۸ء کا ہے اور اب تو اس سلسلہ میں بہت ترقی ہو چکی ہے۔)
برٹرینڈ رسل اپنی کتاب Marriage and Morals by Betrand Russell کے ص ۱۰۷ پر لکھتا ہے:
''جنگ عظیم کے بعد امریکہ، انگلینڈ، جرمن اور سکنڈے نیویا میں بڑی تبدیلی آگئی ہے با عزت خاندانوں کی کثیر (very-many) لڑکیاں اب اس کو ضروری (worth while) نہیں سمجھتیں کہ عصمت کی حفاظت کی جائے اور نوجوان اب رنڈیوں کے پاس جانے کی بجائے ایسی لڑکیوں سے تعلقات قائم کر لیتے ہیں جن سے کہ اگر وہ امیر ہوتے تو شادی کے خواہش مند ہوتے۔۔۔۔ امریکہ میں بہت ہی کثیر تعداد میں (A very large percentage) لڑکیاں کئی کئی عاشق بنا لیتی ہیں اور بعد میں شادی کروا کے بہت ہی با عزت بن جاتی ہیں۔''
یورپ کی ان ہی حماقتوں کی بناء پر leopold Asad نے مغربی تہذیب کو ''کانا دجّال'' کہا ہے جو صرف ایک آنکھ سے دیکھتی ہے اور دوسری آنکھ اس کی ہے ہی نہیں۔ چنانچہ نتیجۃً نہ صرف خود مضحکہ خیز بن کر رہ گئی ہے بلکہ دوسروں کو بھی تباہی کے گڑھے کی طرف دھکیل رہی ہے۔
خنزیر خوری اور جنسی گندگی:
دنیا جانتی ہے کہ سؤر ایک ایسا جانور ہے کہ غلاظت اور فضلہ جس کا من بھاتا کھا جا ہے۔ پس جو لوگ اس کا گوشت کھاتے ہیں ان میں یہ اثرات آنے لازمی ہیں۔ چنانچہ CAPRIO نے اپنی کتاب Variations in Sexual Behaviour میں مختلف جنسی عادتوں کا ذِکر کیا ہے جو مغربی دنیا میں عام ہیں ان میں سے ایک ANILINGUS ہے جس کے معنی میں وہ لکھتا ہے کہ یہ ایسی عادت ہے کہ جس میں کوئی شخص دوسرے انسان کے خاص پاخانہ نکلنے کے مقام کو زبان سے چاٹ کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ سؤر کا گوشت کھانے والوں میں ایسے لوگوں کا پیدا ہونا کوئی زیادہ تعجب کی بات بھی نہیں۔ یورپ میں لواطت کا عام رواج بھی خنزیر خوری ہی کا کرشمہ ہے۔ چنانچہ اب تو وہاں مردوں کی مردوں سے شادیاں بھی ہونے لگی ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق مصنف مذکور لکھتے ہیں کہ:
""Paradoxically some homosexuals claim that the idea of having sex relations with a woman is revolting. The mere mention of cunnilingus disgusts them. Yet they have no reluctance to performaing fellatio to completion or performing anilingus on men."
ترجمہ: اُلٹی بات یہ ہے کہ کچھ ہم جنسی میں مبتلا مرد کہتے ہیں کہ ان کے لئے عورت سے ہم بستری کا خیال بھی قابلِ نفرت ہے اور عورت کی شرمگاہ کے بو سے کا خیال بھی ان میں نفرت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ لوگ مردوں کی شرمگاہوں پر کام و دہن کا استعمال کر کے ان کو منزل کرنے یا ان کی مقعد کو چاٹنے جیسی حرکات کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
مندرجہ بالا حقائق پر نظر ڈالنے کے بعد اپنے ملک کے ان نیم تعلیم یافتہ لوگوں (نیم تعلیم یافتہ اس لئے کہ ان کی اکثریت صرف مشین کے طور پر یا روپیہ کمانے کی غرض سے تعلیم حاصل کرتی ہے ورنہ نہ ان کو علم کا ذوق ہوتا ہے اور نہ کتابوں کا) کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جن کی ایک بڑی تعداد مغربی افکار کو وحیِ الٰہی سے بھی بلند درجہ دے کر ان کے پیچھے اندھا دھند اور دیوانہ وار دوڑتی چلی جا رہی ہے اور رفتہ رفتہ ذہنی غلامی کی انتہاء تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح کی ایک صاحبہ نے جو چند ماہ انگلینڈ میں گزار آئی تھیں، انگریزوں کے دفاع میں ایک مرتبہ فرمایا کہ ''وہ لوگ سؤر کھاتے ہیں لیکن وہ سؤروں کو غلاظت نہیں کھانے دیتے۔'' حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یورپ میں لاکھوں مویشی ان سؤروں سے ہی Foot and Colt کی وبائی بیماری میں مبتلا ہو کر مرتے ہیں۔ تاہم اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ وہاں کے سؤر Sterlized کھانا اور پانی استعمال کرتے ہیں تو بھی اس سے سؤر کی فطرت تھوڑی بدل جاتی ہے؟ اگر کسی بلّی کو صرف دودھ پلا کر پالا جائے تو کیا اس کی گوشت خوری کی فطرت ختم ہو جائے گی؟ ہرگز نہیں! اسے جب بھی موقع ملے گا وہ اپنی اس فطرت کا آزادانہ استعمال کرے گی۔
پاکستان کے مشہور صحافی ڈاکٹر عبد السلام خورشید نے ہمیں ایک محفل میں بتایا کہ ایران کا شمار اگرچہ اسلامی ممالک میں ہوتا ہے تاہم وہاں بھی خنزیر خوری اس قدر عام ہے کہ جب ہم شاہ کی تاج پوشی کے رسم کے موقع پر ایران گئے تو اس مختصر سے عرصہ میں بھی باوجود نہایت احتیاط کے تین مرتبہ غلطی سے سورسؤر کا گوشت چکھنے میں گرفتار ہوئے۔ ایک ایران ہی کا ذکر کیا، دوسرے کئی اسلامی ممالک بھی مغرب کی نقال میں حد درجہ ملوّث ہیں۔
امریکہ اور روس میں جرائم کی رفتار:
H. Jones. اپنی کتاب Crime in a changing Society میں اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ موجودہ تہذیب میں اگرچہ لوگ مالی اور مادی خوشحالی کی اس بلندی تک پہنچ چکے ہیں کہ آج تک نہیں پہنچے تھے لیکن جرائم میں بھی اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
W.C. Recless نے اپنی کتاب میں جرائم اور آبادی پر جو گراف دیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۵ء تک امریکہ کی آبادی ۸ فیصد بڑھی ہے لیکن جرائم ۴۸ فی صد بڑھ گئے ہیںَ امریکہ میں ۱۹۶۵ء میں ۲،۷۸۰،۰۰۰ بڑے بڑے جرائم ہوئے۔ رفتارِ جرائم یہ تھی کہ ہر ایک ہزار میں سے چودہ آدمی بڑے بڑے جرائم کا نشانہ بنے اور اس بنا پر ۳،۲۳۵،۳۸۶ سفید فام اور ۳۹۷،۹۹۴ اینگرو گرفتار ہوئے ۔ سفید فام زیادہ امیر اور تعلیم یافتہ ہیں لیکن جرائم میں بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ صرف غربت ہی جرائم کو جنم نہیں دیتی۔ پھر مصنف لکھتا ہے:
''روس کے بڑے شہروں میں نابالغوں اور بالغوں میں جرائم کی ایک لہر پھیل چکی ہے۔'' روس میں میونخ کے مقام پر ۱۹۵۹ء میں ایک انٹرنیشنل ریسرچ سنٹر قائم ہوا تھا۔ اس کی رپورٹ ہے کہ:
Lzvesta نے حال میں لکھا ہے کہ کم عمر نوجوانوں کی غنڈہ گردیوں کے خلاف جو مہم جاری ہے اس کی تشہیر اچھی ہونی چاہئے۔
مندرجہ بالا ادارہ ہی کا کہنا ہے کہ سویت پریس نوجوانوں کی غنڈہ گردی کو کافی جگہ دے رہا ہے اور اس کے اخلاقی اثرات کے متعلق بھی لکھا جا رہا ہے۔۔۔
پراوڈا (Pravda) کی رپورٹ کے مطابق صرف ماسکو میں غنڈہ گردی کی روک تھام کے لئے ۲۰۰،۰۰۰ رضا کار پولیس کام کر رہی ہے۔
ان سب کوششوں کے باوجود KHARKOV, MOSCOWاور RALSKمیں غنڈہ گردی کا یہ عالم ہے کہ سوویت کے ایک سرکاری بیان کے مطابق حالت بہ ایں جا رسید کہ جیسے ہی اندھیرا شروع ہونے لگتا ہے۔ لوگ جلدی جلدی میونسپل پارک اور سبز راستوں کو خالی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ نوجوان شر انگریزوں نے پارک کی تمام عمارتوں (Structures) اور سجاوٹ کی چیزوں کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ بعض کو بگاڑ دیا اور دوسرے کو جلا دیا۔
حال ہی کی سویت رپورٹ میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ موجودہ دور کی سویت سوسائٹی میں پروان چڑھنا اور رہنا ایسی جرائم کی دنیا میں رہنا ہے جس میں کہ سوسائٹی کے ہر طبقے کے جوان بڑی تعداد میں کھنچے چلے آتے ہیں۔ سویت پریس کے بیان کے مطابق بد ترین مجرم وہ ہوتے ہیں جو خوش حال گھروں میں پروان چڑھتے ہیں اور ان کے والدین با اثر اور بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ مذکورہ بالا ادارہ اس کی ذمہ داری سویت سسٹم پر ڈالتا ہے۔ جہاں رسوخ یافتہ والدین غیر قانونی طور سے اپنی اولاد کی پشت پناہی کر سکتے ہیں۔
فرانس میں جہاں کہ آدھی آبادی کمیونزم پر فریفتہ ہے اور سوشلزم کے دعویدار اور کارکن و مبلغؔ عام ہیں۔ اس سوسائٹی کا نقشہ پاکستان ٹائمز یوں کھینچتا ہے :
"Paris Police as from last night were to be reinforced by 1200 spcial roit constables as part of an all-out Government bid to stampout attaches on unaccomploried girls and women."
ترجمہ: گذ شتہ رات سے پیرس پولیس نے ۱۲۰۰ افراد کا خاص پولیس میں اضافہ اس لئے کیا ہے تاکہ اکیلی لڑکیوں اور عورتوں پر حملوں کا سدِّباب کیا جا سکے۔ گذشتہ چند ہفتوں سے زنا بالجبر اور پرس چھیننے کے واقعات میں اضافہ ہو گیا تھا۔ پیرس پولیس نے اکیلی عورتوں کو ہدایات دی ہیں کہ خطرے کے نمودار ہوتے ہی سیٹی بجا دیا کریں اور سیٹی ہر وقت اپنے پاس رکھیں۔ کیونکہ رات کے آوارہ لوگوں کے خلاف یہی بہترین ہتھیار ہے۔
پیرس کی یہ حالتِ زار سوشلزم اور کیپٹلزم دونوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ تعجب ہے کہ اس مہذب اور بین الاقوامی شہرت کے حامل شہر میں رات کو اکیلی عورت اس طرح خطرہ میں ہوتی ہے۔
چوریوں کے اعداد و شمار:
ترقی پذیر ممالک میں سے روس اپنے جرائم کے اعداد و شمار یا تو چھاپتا ہی نہیں یا صحیح نہیں چھاپتا اور وہاں سنسر شپ بھی سخت ہے۔ اس لئے ہم مثال کے طور پر امریکہ کو لیتے ہیں کیونکہ چین نے بھی اعداد و شمار دینے بند کر رکھے ہیں۔
امریکہ میں ۱۹۶۵ء میں ۹۰۰، ۱۱۱۸ ڈا کے پڑے ۱،۱۷۳،۰۰۰ چوریاں ہوئیں ۷۶۲،۴۰۰ بڑے درجہ کی چوریاں تھیں۔ علاوہ ازیں ۴۸۶،۶۰۰ کاریں چوری ہوئیں اور ان تمام واقعات میں نقصان کا اندازہ ایک بلین ڈالر یا پانچ ملین روپے ۱۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰ یعنی ایک ارب روپے بنتا ہے وہاں کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے۔ وہاں کی پولیس چوکنا اور جدید سائنسی آلات اور طریقوں سے پوری طرح لیس ہے۔ حال ہی میں بعض شہروں میں جرائم کی روک تھام ہیلی کاپٹروں سے سڑکوں اور مکانوں کی نگرانی رکھ کر کی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی چوریوں کا یہ عالم ہے کہ اگر کہیں پولیس منظم اور اچھی تنخواہ پانے والی نہ ہو تو نہ معلوم کیا حشر برپا ہو۔
یہ تو تھا بڑی چوریوں کا حال، اب چھوٹی چوریوں کا سنئے۔ آج کل کے زمانہ میں خریدار، دوکانداروں کی اندھا دھند چوریاں کر رہے ہیں۔ (Stealing Super Markets) حتیٰ کہ ہر سال اسی طرح سے ۲۵۰ بلین ڈالر یعنی ۱۲۵۰ ملین روپے ۱۲۵۰،۰۰۰،۰۰۰ یا سوا ارب روپے کی مالیت کا سامان چوری ہو جاتا ہے۔
ان چوریوں میں غریب، امیر، گھریلو عورتیں، غرض سوسائٹی کے ہر طبقہ کے لوگ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دکانداروں کی چوریاں کرنے والے ان کے بے ایمان ملازم ہوتے ہیں۔ یہ بے ایمان ملازم بھی تقریباً اتنی ہی رقم کی چوریاں کر ڈالتے ہیں۔
تازہ اعداد و شمار اس سے بھی آگے پہنچ چکے ہیں:
بین الاقوامی عیسائی مذہبی ہفتہ وار رسالہ AWAKE کے بیان کے مطابق امریکہ کے اندر ۱۹۶۷ء میں شاپ لفٹروں نے ۲،۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰ ڈالر (یعنی ۱۰،۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰ روپے = ۱۰ ارب روپے) کا سامان چوری کیا۔ صرف بڑے دن کے زمانے میں ہی ۶۰۰،۰۰۰،۰۰۰ ڈالر یعنی ۳،۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰ روپوں یعنی تین ارب پاکستانی روپے کی چوری ہوتی ہے۔
چوری اور اس کی سزا کا قرآنی اعجاز:
قرآن میں چوری کی سزا یوں مذکور ہے:
﴿وَالسّارِقُ وَالسّارِقَةُ فَاقطَعوا أَيدِيَهُما...٣٨﴾... سورة المائدة
یعنی چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت اس کا ہاتھ کاٹ دو۔
قرآن کے اس قانون پر شاید اور تو کسی مسلمان ملک نے عمل نہیں کیا البتہ سعودی عرب نے ضرور کیا جہاں کسی زمانہ میں بے حد چوریاں ہوا کرتی تھیں۔ اس قانون پر عمل در آمد کے بعد وہاں چوریاں کالعدم ہو چکی ہیں۔ دنیا کو معلوم ہے کہ لوگ کئی کئی دن تک اپنے گھروں کو کھلا چھوڑ کر شہر سے باہر چلے جاتے ہیں لیکن چوری کا خیال کسی کو نہیں آتا۔ اس طرح دکانوں کو کھلا چھوڑ کر دکاندار مسجد یا گھر چلے جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی شخص کوئی چیز اُٹھا لے! وہاں کے دکاندار شاپ لفٹنگ کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔ قرآن کے اس زندہ معجزہ سے متاثر ہو کر پاکستان کے سابق چیف جسٹس کارنیلیس نے بین الاقوامی قانون دانوں کی مجلس میں اس سزا کو سراہا اور پاکستان میں بھی اس قرآنی قانون کی تعریف و توصیف کی۔ تعجب ہے کہ ایک عیسائی ماہرِ قانون کو یہ قرآنی اعجاز نظر آگیا لیکن مسلمان ملکوں کے اکثر سربراہوں کی آنکھوں پر پردہ پڑا رہا۔
تجربات شاہد ہیں کہ قرآن مجید کے تمام احکام ہی اس قدر مؤثر اور عین مطابقِ فطرت ہیں کہ ان میں کسی قسم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ان کی موجودگی میں کسی اور آئین وغیرہ کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ لیکن جب اذہان ہی غلامی اور تعصب کا شکار ہو جائیں تو اس کا کیا علاج؟
اسلامی افکار کی تبلیغ اور انسانی فلاح کے لئے سنہری موقع:
مغرب میں آج کل نئی تہذیب (ماڈرن ازم) کے نتیجہ میں جو شدید بے چینی پائی جاتی ہے اس کا اندازہ وہاں کے قتل اور خود کشی کے واقعات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ مختصراً ہم نے عصری تحقیقات کے متعلق اس مضمون میں بیان کیا ہے اس کو بھی سامنے رکھ کر ناظرین پر بخوبی عیاں ہو سکتا ہے کہ موجودہ دور میں اسلام کے افکار کی تبلیغ کے لئے ایسا آسان اور سنہری موقع ہے کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اس سنہری موقع سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور حاملِ قرآن ہونے کے باوجود اس کی برکات سے عاری اور دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں۔ خداوند کریم ہمیں قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور موجودہ روشن دور کی تاریکیوں کے خلاف کمربستہ ہونے میں ہماری امداد و نصرت فرمائیں۔ آمین ثم آمین۔