آئینہ توحید

سوال: اگر آپ یہ کہیں کہ اس سے یہ لازم آتا ہےکہ تمام امت گمراہی پرمتفق ہوگئی کیونکہ وہ اس کو بُرا کہنے سے خاموش رہے؟
جواب: اجماع کی حقیقت یہ ہےکہ آنحضرتﷺ کے عہد مسعود کے بعد امت محمدیہ کے مجتہدوں کا کسی مسئلہ میں متفق ہونا ہے اور مذاہب کے فقہاء ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد کو محال تصور کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کی یہ بات غلط اور باطل ہے او رایسی بات وہی کہتا ہے جو حقائق سے بے خبر ہوتا ہے تاہم ان کے خیال کے مطابق ائمہ اربعہ کے زمانہ کےبعد کبھی اجماع نہیں ہوگا۔ بنا بریں یہ اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔کیونکہ یہ بدعت اور قبروں کا فتنہ ائمہ اربعہ کے زمانہ میں نہیں تھا ۔جیسا کہ عنقریب ہم ثابت کریں گے کیونکہ اب اجماع کا وقوع امر محال ہے۔امت محمدیہ اب زمین کے گوشہ گوشہ میں پھیلی ہوتی ہے اور علم اسلام چاردانگ عالم میں لہرا رہا ہے۔ ا ب محقق علماء کا کوئی انحصار نہیں اور کوئی شخص ان کے حالات سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔جو شخص دین کے تمام روئے زمین پر پھیل جانے کے بعد اور مسلمانوں میں کثرت سے علماء ہونے کےبعد اجماع کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا دعویٰ جھوٹا اور باطل ہے۔جیسا کہ ائمہ محققین نے ذکر کیا ہے۔

پھر اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیں کہ انہوں نے اس برائی کا علم ہونے کے باوجود روکا نہیں، بلکہ خاموشی سے کام لیا ہے تو ان کا یہ سکوت اس کے جواز کی دلیل نہیں ہوسکتا، کیونکہ شریعت کے قواعد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ برائی کو روکنے کے تین طریقے ہیں:
1. انکار بالید : یعنی بُرائی کو ہاتھ سے روکا جائے یہ اس طرح ہےکہ برائی کو ہاتھ سے مٹایا جائے۔
2. انکار باللسان : جب ہاتھ سے بُرائی روکنے کی ہمت نہ ہو تو زبان سے برائی کو روکنے کی کوشش کرے۔
3. انکار بالقلب: جب ہاتھ اور زبان سے بُرائی کو روکنے کی ہمت نہ ہو تو دل میں ہی اسے بُرا سمجھے کیونکہ ایک کی نفی دوسرے کی نفی کو مستلزم نہیں۔

اس کی مثال یوں ہے جیسے کوئی کسی چونگی لینے والے کے پاس سے گزرتا ہے وہ غریبوں کا مال ظلم سے لیتا ہے یہ عالم اس کو زبان او رہاتھ سے روکنے کی ہمت نہیں رکھتا کیونکہ ایسی صورت میں نافرمان لوگ اس کا مذاق اڑائیں گے۔اس صورت میں بُرائی روکنے کے دو طریقے ختم ہوگئے یعنی ہاتھ او رزبان سے بُرائی کوروکنے کی پابند ختم ہوگئی اب صرف ایک صورت باقی رہ گئی یعنی دل سے اس بُرائی کو بُرا تصور کرنا اور یہ ضعیف الایمان ہونےکی نشانی ہے۔ تو ایسا عالم جس کے سامنے جابر اور ظالم لوگ بُرائی کرتے ہوں اور وہ اس کا ردّ کرنے سے خاموش رہے تو اس کے متعلق یہ حسن ظن ہونا چاہیے کہ ہاتھ او رزبان سے بُرائی کو روکنا اس کے لیے مشکل ہے لیکن دل سے وہ اسے برا سمجھتا ہے۔ مسلمانوں کے متعلق حسن ظن ہونا چاہیے کیونکہ جب تک ممکن ہو ان کےلیے تاویل کرنا واجب اور ضروری ہے۔ تو جو لوگ حرم شریف میں داخل ہوتے تھے او ران شیطانی تعمیرات کو دیکھتے تھے، جنہوں نےمسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کی نمازوں کو الگ کردیا، تو وہ ان کی بُرائی کا اظہار کرنے سے قاصر تھے۔ وہ صرف دل سے برا سمجھتے تھے جیسے کوئی شکص چونگی لینے والے کے پاس سے گزرتا ہے او رقبر پرستون کے پاس سے گزرتا ہے تو وہان برائی روکنے کی ہمت نہیں رکھتا او راسے معذور تصور کیا جاتا ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ائمہ کے متعلق جو یہ استدلال پکڑتے ہیں کہ یہ امور واقع ہوئے ہیں کہیں کسی نے انکار نہ کیا او رنہ اس سے روکا تو گویا کہ اس پر اجماع ہوگیا۔ یہ غلط اور بےبنیاد ہے۔غلط ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جو وہ استدلال پکڑتے ہیں کہ کسی نے اس کا انکار نہیں کیا، یہ رجماً بالغیب ہے کیونکہ انسان دل سے ایک کام کو بُرا سمجھتا ہے لیکن ہاتھ او رزبان سے اس کا انکار مشکل ہوتاہے۔ آپ اپنے زمانہ میں دیکھئے۔کتنے ایسے امور واقع ہورہے ہیں ۔ جن کو ہاتھ او رزبان سے روکنے کی آپ سکت نہیں رکھتے۔حالانکہ دل سے آپ ان کو بُرا سمجھتے ہیں۔ جب کوئی جاہل کسی عالم کو دیکھتا ہے کہ وہ اس بُرائی کے انکار سے خاموش ہے تو یہ سمجھتا ہے کہ یہ کام جائز ہے۔حالانکہ ایک عالم شخص بسا اوقات دل میں خاموشی کے ساتھ اسے ملامت کرتا ہے اور اس کا غم کرتا ہے تو کسی کے سکوت سے ایک عالم اور عارف شخص استدلال نہیں پکڑتا۔ اسی طرح ان کا یہ کہنا فلاں آدمی نے ایسے کیا او رباقی کاموش رہے تو یہ اجماع ہوگیا ۔ یہ استدلال بھی بودا ہے اور ناقابل التفات ہے اس کی دو وجوہات ہیں:
1۔ یہ دعویٰ کہ باقی لوگوں کا سکوت اختیار کرنا کسی کے فعل کو پختہ کرنا ہے غلط ہے کیونکہ سکوت کسی امر کے پختہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔
2۔ ان کا یہ کہنا کہ ''اجماع ہوچکا ہے'' کیونکہ اجماع امت محمدیہ کے اتفاق کا نام ہے اور کسی آدمی کا سکوت اختیار کرنا اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ اس کے موافق ہے یا مخالف نہیں حتیٰ کہ اپنی زبان سے وہ خود وضاحت کرے ۔ کسی بادشاہ کے پاس لوگوں نےاس کے کسی گورنر کی یا عامل کی بہت تعریف کی لیکن ایک شخص خاموش رہا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا تم کیوں نہیں بولتے؟ اس نے جواب دیا '' میں کیسے بولوں؟ میں ان کے مخالف ہوں۔ اگر بات کروں گا تو ان کے خلاف...... ہی کروں گا۔اس لیے میں خاموش ہوں۔ تو ہر سکوت سے رضا مندی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ان بُرائیوں کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی جو نیزوں اور تلواروں سے لیس تھے اور بندگان خدا کے جان و مال ان کے رحم و کرم پر تھے۔ ان کی آبرو او ران کی عزت و حرمت کا معاملہ بھی ان کے حکم کے ماتحت تھا۔ اندریں حالات فرد واحد اس کو روکنے کی ہمت کیسے کرسکتا ہے؟

تو یہ مزارات او رمشاہد جو شرک و الحاد کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکے ہیں او راسلام کے محل کو منہدم کرنے اور اس کی بنیادوں کوکھوکھلا کرنے کا سبب ہیں۔ ان کو تعمیر کرنے والے اکثر بادشاہ، رؤسا اور گورنر تھے، وہ ان کے رشتہ دار اور قرابتدار ہونے کی وجہ سے ایسا کرتے تھے یا وہ ایسا شخص ہوتا تھا جس کے متعلق وہ حسن ظن رکھتے کہ یہ کوئی عالم، فاضل یا کوئی صوفی فقیر ہوگا یا کوئی اور بڑا آدمی ہوگا۔ چنانچہ ان کی جان پہچان والے ان کی قبروں اور مزاروں کی زیارت کی غرض سے آتے تھے، لیکن ان کی زیارت یوں کرتے تھے۔ جیسے عام مُردوں کی قبروں کی زیارت کی جاتی ہے یعنی وہاں جاکر ان کا توسل حاصل نہیں کرتے او رنہ ان کو پکارتے تھے بلکہ ان کے لیے دعائے استغفار کرتے تھے۔پھر جب اس قبر کے مُردے کو جاننے والے فوت ہوگئے یا ان میں اکثر دار دنیا سے رخصت ہوکر ملک عدم کی طرف چلے گئے تو ان کے بعد میں آنے والے لوگ جب اس قبر کےپاس آئے اور وہاں پر گنبد دیکھا، قبر کے در پر چراغ روشنی کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ قیمتی کپڑے کا خلاف اس پرنظر ایا، اس پر رنگا رنگ کے پردے دکھائی دیئے۔ چاروں طرف سے خوشبوؤں کی مہک سے دماغ معطر ہوا تو انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ کوئی بزرگ ہستی ہے جو نفع نقصان پر قادر ہے وہاں پر انہوں نے مجاوروں کو دیکھا جو اس میت کے متعلق جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں کہ اس نے یوں کیا او ریوں کیا۔ فلاں شخص مصیبت میں گرفتار تھا۔ اس کے پاس آکر منت ماننے سے اس کی مصیبت رفع ہوگئی او رفلاں شخص کو بڑا نفع پہنچا۔ حتیٰ کہ ہرباطل بات ہی کو ذہن نشین کراتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ احادیث میں مذکور ہے جو شخص قبروں پر چراغ جلاتا ہے یا ان پر کتبہ لگاتا ہے یا ان پرکوئی تعمیر کرتا ہے ، تو اس پراللہ کی لعنت ہو اس سلسلہ میں کافی حدیثیں مذکور ہیں۔ ان امور سے فی نفسہ ممانعت ہے، علاوہ اسیں یہ ایک بہت بڑا خرابی کا ذریعہ ہیں۔

سوال: اگر آپ یہ اعتراض کریں کہ رسول اکرم ﷺ کی قبر مبارک پر ایک بہت بڑا گنبد ہے اور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی ۔اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب : درحقیقت یہ حقیقت حال ہے ناواقفیت کی دلیل ہے کیونکہ اس گنبد کو حضور اکرم ﷺ نے بنوایا نہ آپؐ کے صحابہؓ او رتابعین او رتبع تابعین میں سے کسی نے بنایا او رنہ کسی عالم یا امام نے اسے بنانے کا فتویٰ اورحکم دیا۔ بلکہ یہ گنبد مصر کے متاخرین بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ نے 678ھ میں بنایا۔ جس کا نام قلادون صالحی تھا۔ جسے ملک منصور بھی کہتے ہیں۔ اس کا ذکر تحقیق النصرة بتخصیص معالم دارالهجرة'' میں موجود ہے۔ یہ امور جو حکومت کرتی ہے وہ شریعت کی دلیل نہیں بن سکتے کیونکہ متاخرین کا وہ کام جو سلف کی پیروی میں نہ ہو۔ شریعت میں دلیل نہیں بن سکتا۔ یہ آخری بات ہے جو ہم نے ذکر کی ہے جس کی بنا پر لوگ خواہشات کی پیروی کرنے لگے اور آزمائش میں مبتلا ہوگئے اور علماء بُرائی سے روکنے سے خاموش ہوگئے جو ان کے ذمے واجب تھی او رجس طرف عوام الناس کا رجحان ہوا، اسی طرح علماء مائل ہوگئے اور نیکی کو گناہ اور گناہ کو نیکی تصور کرنے لگے اور خاص لوگوں میں سے کوئی انہیں روکنے کی جسارت نہ کرسکا تو یہ بات ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے اعتقادات میں خرابی پیدا ہوگئی۔

سوال: بعض اوقات زندوں اور مُردوں کے ساتھ کچھ ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو لوگوں کو عجیب غریب کرشمے دکھاتے ہیں۔ لوگ انہیں مجذوب کہتے ہیں۔ جن امور کو یہ لوگ کرتے ہیں۔ شریعت میں ان کا کیا حکم ہے؟
جواب: جو لوگ مجذوب کے نام سے مشہور ہیں اور اللہ جل جلالہ کا لفظ زبان سے نکالتے ہیں او روہ عربی طریقہ سے بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب شیطان لعین کے ساتھ اور بہت دھوکے باز ہیں۔ انہوں نے مکروفریب کا لباس اوڑھا ہوا ہے کیونکہ مطلق لفظ اللہ اللہ کوئی کلام نہیں او رنہ اللہ کی توحید ہے بلکہ اس لفظ کا مذاق اور استہزاء ہے کیونکہ اسے عربی زبان سے خارج کردیتے ہیں او راسے بے معنی بنا دیتے ہیں اگر کوئی بڑا نیک آدمی زید کے نام سے موسوم ہو اور لوگ اسے زید، زید کہیں تو اس میں اس کی تعظیم و توقیر نہیں بلکہ یہ تو سراسر اس کی توہین ہے خصوصا ً جبکہ اس لفظ میں تحریف کرتے ہیں۔1

پھر غور کیجئے کیا اللہ کا لفظ انفرادی طو رپر قرآن پاک میں یا حدیث شریف میں کہیں مذکور ہے کہ اللہ اللہ پڑھا جائے۔ کتاب و سنت میں جس ذکر کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس سے مراد اللہ کی تسبیح اور تہلیل ہے۔ رسول اکرم ﷺ سے کچھ اذکار اور کچھ دعائیں مروی ہیں۔آپؐ کے صحابہ کرامؓ اور آپؐ کے آل مطہرات بھی دعائیں کیا کرتے تھے لیکن وہ دعائیں او راذکار ان فقیروں کی ہاؤ ہو اور شوروغل او راونچی آوازوں سے مختلف تھے۔ ان کی دعائیں وہ ہوتی تھیں جن کا اللہ نے ذکر کیا ہے او رجو رسول اکرم ﷺ نے خود پڑھ کر امت کو بتلائی ہیں۔ ان لوگوں نے مسنون دعاؤں کو ترک کرکے غیر مسنون دعاؤں کو رائج کیا اور لوگوں کو دور دراز کی گمراہی میں پھینک دیا۔ پھر بعض اوقات اللہ کے نام کےساتھ کچھ مُردوں کے نام ملاتے ہیں۔مثلاً ابن علوان ، احمد بن حسین، شیخ عبدالقادر او رعبد روسی وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں۔ بلکہ ان کی انتہا ہوچکی ہے جو اہل قبور کی طرف بھاگتے ہیں اور اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں۔جیسے علی رومان اور علی احمر وغیرہ اللہ نے اپنے رسول اکرمﷺ کو اور اہل بیت نبوی و دیگر صحابہ کرامؓ کو ان جاہل گمراہ لوگوں سے بچایا کہ وہ جاہل اور گمراہ لوگ اپنے منہ سے ان کا نام لیں تو یہ لوگ شرک و کفر اور جہالت کو یکجا اکٹھا کرتے ہیں۔

سوال: اگر آپ یہ سوال کریں کہ بعض اوقات یہ لوگ اللہ جل جلالہ کا لفظ بولتے ہیں او رجاہل اور باطل پرست لوگ ان کی کئی خوراق بیان کرتے ہیں مثلاً وہ اپنے آپ کو نیزے مارتے ہیں۔ سانپ بچھو اور گرگٹ وغیرہ ہاتھوں میں لے پھرتے ہیں ۔ آگ کو اپنے منہ میں ڈالتے ہیں اور ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں وغیرہ۔
جواب : یہ سب شیطانی امور ہیں۔ آپ کو دھوکا دیا گیا ہے اگر آپ اسے مُردوں کی کرامتیں شمار کرتے ہیں یا زندہ لوگوں کی نیکی تصور کرتے ہیں تو یہ آپ کو غلطی لگی ہے۔کیونکہ جب آپ نے اس گمراہ شخص کو اس کا نام لے کر پکارا ہے اور اس کو اللہ کا حکم اور مخلوق میں شریک کیاہے تو اپ کو دھوکا دیا گیا ہے کیا آپ ان مردوں کو اللہ کے اولیاء او رشریک سمجھتے ہیں؟ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو آپ نے بہت بُرا کام کیااو ران مُردوں کو بھی مشرک بنا دیا او ران کو معاذ اللہ دائرہ اسلام سے خارج کردیا اور دین سے باہر پھینک دیا۔ کیونکہ آپ نے ان کو اللہ کے شریک بنادیا او راس پر راضی اور خوش ہیں اور آپ نے یہ تصور کیا کہ یہ کرامتیں ان گمراہ اور مشرک مجذوبوں کے تابع ہیں جو کود ضلالت اور ذلت کے سمندر میں غرق ہیں جو اللہ کو کبھی بھول کر بھی سجدہ نہیں کرتے۔ جب اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ساتھ اور لوگوں کوبھی یاد کرتے اور پکارتے ہیں۔ اگر آپ ایسا تصور کرتے ہیں تو آپ نے مشرکوں، کافروں اور مجذوب لوگوں کے لیے کرامتیں ثابت کردیں۔ اس کےساتھ ساتھ اسلام کے اصول و قواعد و ضوابط کوملیا میٹ کردیااور دین متعین او رشرع مبین کو مٹانے کی کوشش کی۔

جب ان دونوں امور کے بطلان کا آپ کو علم ہوگیا تو آپ جان لیں کہ یہ تمام شیطانی افعال ہیں اور ابلیس کے کام ہیں۔ شیطان اپنے گمراہ بھائیوں کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ یہ دونوں فریق ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں ذکر آیا ہے کہ شیطان او رجن بعض اوقات سانپوں اور اژدہوں کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ یہ امر قطعی طور پروقوع پذیر ہے تو یہی وہ سانپ ہیں جن کو لوگ ان مجذوبوں کے ہاتھ میں دیکھتے ہیں۔ بعض اوقات ان میں جادو کا اثر بھی ہوتا ہے اس کی کئی اقسام ہیں۔اس کو سیکھنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں بلکہ اللہ کےساتھ کفر کرنا او راللہ کی قابل احترام اشیاء کی بے حرمتی کرنا اس کا سب سے بڑا دروازہ ہے مثلاً جادو گر قرآن کریم کو لیٹرین میں پھینکتے ہیں۔ (نعوذ باللہ من ذالک) تو مجذوبوں سے ایسے امور کا سرزد ہونا آپ کو حیرت میں نہ ڈال دے اور آپ کو دھوکا نہ ہوجائے۔ ان امور کو لوگوں خوارق کہتے ہیں۔ کیونکہ ایسے امور میں جادو کا اثر بہت جلدی ہوتاہے، اسی طرح وہ لوگ جو انسان کی آنکھوں پراثر ڈالتے ہیں۔ چنانچہ فرعون کے جادوگروں نےمیدان سانپوں سے بھر دیا تھا۔حتیٰ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے دل میں خوفزدہ ہوئے تو اللہ نے بتلایا یہ سحر عظیم ہے اور سب جادو کی کارروائی ہے۔جادو کے ذریعے اس سے بھی بڑے بڑے امور کا ظہور ہوتا ہے۔ چنانچہ ابن بطوطہ وغیرہ مؤرخین ن (جو ہندوستان میں آئے تھے) بیان کیا ہے کہ انہوں نے وہاں ایک ایسی قوم دیکھی جو جلتی آگ میں کپڑوں سمیت کود پڑتے تھے۔ جب باہر نکلتے تو بدن کو تو کجا ان کے کپڑوں کو بھی آگ نہ جلاتی تھی۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ بیان کیا گیاہے کہ ایک آدمی نے کسی انسان کو دیکھا جو بادشاہ کے پاس اپنے دونوں بیٹے لے گیا۔وہاں جاکر اس نے بادشاہ کے سامنے ان دونوں کو تلوار سے ٹکڑے کردیا۔ پھر ان کو مختلف اطراف میں پھینک دیا۔حتیٰ کہ اس کے پاس ان میں سے ایک ٹکڑا بھی باقی نہ رہا۔پھر وہ رونے لگا اور آہ و بکا کرنے لگا۔پھر تھوڑی دیر کے بعد حاضرین کیاد یکھتے ہیں کہ ایک ایک ٹکڑا آتا ہے اور وہ آکر دوسرے ٹکڑے سے مل جاتاہے حتیٰ کہ وہ دونوں لڑکے مکمل انسان بن کر زندہ ہوگئے۔

یہ واقعہ انہوں نےاپنے سفر نامہ میں ذکر کیاہے انہوں نے تو اسے بہت طویل لکھا ہے لیکن میں نے اسے مختصر بیان کیا ہے ۔ میں نے 1136ھ میں مکہ مکرمہ میں اس کا مطالعہ کیا تھا۔مدینہ میں احناف کے مفتی علامہ سید محمد بن اسعد نےمجھے یہ واقعہ تحریر کرایا۔

ابوالفرج اصفہانی کی کتاب اغانی میں سندکے ساتھ ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک جادوگر ولید بن عقبہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اسے اپنے کرشمے دکھلا رہا تھا وہ گائے کے پیٹ میں داخل ہوجاتا او رپھر باہر نکل اتا تھا۔ حصرت جندبؓ نے اسے جب دیکھا تو انہیں اس کی یہ حرکت بہت ناگوار گزری ۔ وہ سیدھے گھر گئے وہاں سے تلوار لےکر سیدھے جادوگر کے پاس آئے ۔ وہ گائے کے اندر داخل ہوچکاتھا۔ حضرت جندب نے یہ آیت پڑھی۔

﴿أَفَتَأْتُونَ ٱلسِّحْرَ‌ وَأَنتُمْ تُبْصِرُ‌ونَ ﴿٣...سورۃ الانبیاء'' ''تم جادو کا کام کرتے ہو حالانکہ تم اسے دیکھتے ہو کہ غلط کام ہے۔''

پھر گائے کے درمیان میں تلوار ماری او راسے کاٹ دیا او رجادوگر کے بھی ٹکڑے کردیئے، لوگ یہ معاملہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے۔ ولید نے ان کو قید کردیا اور حضرت عثمان ؓ کو اس واقعہ کی اطلاع دی، جیل کا سپرنٹنڈنٹ ایک عیسائی تھا۔ جب رات ہوئی تو اس نے حضرت جندبؓ کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے او رجب دن ہوا تو انہیں دیکھا کہ وہ روزہ رکھے ہوئے تھے۔ یہ ماجرہ دیکھ کر عیسائی کہنے لگا خدا کی قسم ! یہ ان میں سے سب سے بُرا آدمی ہے؟ جس کا یہ حال ہے کہ رات کو قیام کرتا ہے اور دن کو روزے رکھتا ہے۔ نہیں، یہ سچے لوگ ہیں۔ ان کا مذہب برحق ہے ۔ پھر اس نے جیل کی نگرانی پرکسی اور آدمی کو مقرر کیا اور خود کوفہ میں گیا وہاں جاکر پوچھنے لگا کہ اس شہر میں سب سے زیادہ نیک اور افضل کون سا ہے ؟ لوگوں نے اشعث بن قیس کا نام لیا ۔ تویہ ان کے ہاں مہمان بن کر چلاگیا۔ جب رات ہوئی تو اس نے اسے دیکھا کہ وہ سو رہا ہے اور جب صبح ہوئی تو اسے دیکھا کہ وہ ناشتہ کررہا ہے اور روزہ نہیں رکھا تو وہاں سے چل دیا۔ پھربازار میں لوگوں سےپوچھا یہاں پر سب سے افضل او رپرہیزگار آدمی کون سا ہے؟ لوگوں نے جریر بن عبداللہ کا نام لیا۔ وہ ان کے پاس پہنچ گیا۔ رات کا وقت تھا۔ جب وہاں پہنچا تو وہ سوئے پڑے تھے پھر جب صبح ہوئی تو انہوں نےناشتہ منگوایا۔ وہ قبلہ کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا میرا رب بھی وہی ہے جو جندب کا رب ہے اور میرا دین بھی وہی ہے جو جندب کا دین ہے۔ یہ کہہ کر اسلام لے آیا۔

امام بیہقی نے سنن کبریٰ میں اس واقعہ کو بیان کیا لیکن کچھ اختلاف کےساتھ بیان کیاہے۔ انہوں نے اس کی سند اسود تک بیان کی ہے کہ ولید بن عقبہ عراق کا گورنر تھا۔ اس کے سامنے ایک جادوگر کا کھیل دکھلا رہا تھا وہ کسی آدمی کا سرکاٹ کر پھینک دیتا تھا پھر رونے لگتا او رچیختا ۔پھر اس کا سر واپس آکر باقی جسم سے مل جاتااور وہ انسان بالکل ٹھیک ہوجاتا۔ لوگ اس کا تماشا دیکھ کر عش عش کراٹھے اور اسے داد دینے لگے کہ وہ مُردوں کو کیسے زندہ کرلیتا ہے؟ مہاجرین میں سے کسی نیک آدمی نے اس کی یہ کارروائی دیکھی تو اسے بُری محسوس ہوئی۔ جب اگلا دن ہوا تو وہ اپنے تلوار سونت کر وہاں گیا۔ وہاں پر اسی طرح جادو گر اپنا کرتب اور کرشمہ دکھلا رہا تھا۔ اس نے تلوار میان سے نکالی اور اس کے سر پر ماری اور کہنے لگا ، اگر یہ سچا ہے تو اپنی جان کو زندہ کرے۔ ولید نے جیل کے سپرنٹنڈنٹ دینار کو حکم دیاکہ اسے قید کرے چنانچہ انہیں جیل میں بند کیا گیا۔

سب سے زیادہ تعجب انگیز وہ واقعہ ہے جو امام بیہقی نے سند کے ساتھ بیان کیاہے جو بہت طویل واقعہ ہے۔اس میں یہ ذکر ہے کہ ایک عورت نے دو فرشتوں ہاروت ماروت سے جادو کا علم سیکھا۔ چنانچہ وہ گندم کے دانے لے کر زمین میں پھینک دیتی او ران کو کہتی تم زمین سے اگ آؤ۔ چنانچہ وہ اُگ آتے پھر کہتی کہ ان پربالیں بن جائیں۔ چنانچہ ان پربالیں بن جاتیں، پھرکہتی کہ یہ بالیں خشک ہوجائیں، چنانچہ ایسے ہی ہوجاتا، پھر کہتی اس کا آٹا بن جائے تو وہ آٹا بن جاتا۔پھر کہتی اس کی روٹی پک جائے تو روٹی پک جاتی۔وہ جوبات کہتی وہی پوری ہوجاتی تھی۔

شیطانی حالات کا کوئی انحصار او راحاطہ نہیں ہوسکتا۔ ایک مسلمان کے لیے یہی کافی ہے ۔ دجال جو شیطانی حالات پیش کرے گا تو مسلمان کو اس موقع پر کتاب و سنت کی پیروی کا حکم اور شیطان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔ ہم جو کچھ ذکر کرناچاہتے تھے کردیا۔

الحمدللہ أولاً و آخرا وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد وآله وصحبه وسلم


حوالہ جات
1. یعنی لفظ اللہ کے دو حصے کرتے ہیں جیسے ''الاہو'' وہ اسے ذکر الٰہی شمار کرتے ہیں حالانکہ ایسا ذکر حضور اکرم ﷺ سے ہرگز ثابت نہیں۔ (الفلاح بے اے)