قریش اور دیگر عرب قبائل کی تجارت!

معاشرتی احوال و ظروف کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اقوام عالم اپنے تجارتی انداز اور ڈھنگ بھی بدلتی رہتی ہیں۔ ہر دور کے اپنے ذرائع پیداوار اور پرکشش سامان ہوتے ہیں۔ زمانہ قبل از اسلام عربوں کے ہاں تجارت کیسی تھی؟ ربوں کا برگزیدہ قبیلہ قریش، ان کی تجارت میں کس مقام پر فائز تھا؟ اس دور میں منڈیاں کیسی تھیں؟ دیگر ممالک کے ساتھ ان کے تجارتی روابط کیسے تھے؟ مختلف موسموں میں وہ کون سے تجارتی سفر کرتے تھے؟ منڈیوں میں لین دین کے انداز اور قدریں کیا تھیں؟ کس قسم کا سامان تجارت تھا؟ اس قسم کے بہت سے سوالات ہیں، جنکے بارے میں جدید ذہن سوچتا ہے۔

آج عربوں کی تجارت معدنی وسائل کے سبب ہے۔ واقعات عالم ان کے تیل کی کمی و بیشی کے سبب تشکیل پارہے ہیں۔ زیر نظر مقالہ میں راقم نے ممکنہ حوالوں سے دور جاہلیت اور دور اسلام کے ذرائع پیداوار میں سے اہم ذرائع پر خامہ فرسائی کی ہے اور اس دور کی تجارت میں خاص طور پر قبیلہ قریش کا مقام متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ قبیلہ قریش کی تجارت میں مکہ مکرمہ کے محل و قوع کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

مکہ مکرمہ کا محل وقوع:
بحراحمر کے بالمقابل ، یمن اور فلسطین کے مابین گزرنے والی تجارتی شاہراہ کے وسط میں ساحل سے 80 کلومیٹر کے فاصلہ پر پہاڑوں سے گھرے ہوئے درہ میں مکہ مکرمہ واقع ہے۔ تین طرف بحری سواحل واقع ہیں۔ مغرب میں بحرین اور عمان، خلیج فارس پر شمال میں حضرموت اور یمن، بحر عرب پر اور مشرق میں عرب کا جو حصہ زرخیز ہے۔ مثلاً یمامہ، نجد اور خیبر وغیرہ ، یہاں کاشتکاری ہوتی ہے۔ عرب کے یہ ساحلی صوبے دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے آمنے سامنے واقع ہیں۔ عمان و بحرین، عراق اور ایران سے متعلق ہیں۔ یمن اور حضرموت کو افریقہ اور ہندوستان سے تعلق ہے۔ حجاز کے سامنے مصر ہے اور شام کا ملک اس کے بازو پر ہے۔ اس جغرافیائی تحدید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طبعی سہولتوں کے لحاظ سے عرب کے کسی صوبہ کے دنیا کے کسی بھی زرخیز خطہ سے تجارتی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں۔1

قبیلہ قریش:
قریش عرب کا مشہور ترین قبیلہ تھا۔ آنحضرتﷺ کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا۔ اسی قبیلہ کی عظمت کا اندازہ آنحضرتﷺ کے اس ارشاد گرامی سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ:
 ''اللہ تعالیٰ نے اولاد اسماعیل ؑ سے کنانہ کو اور کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کا انتخاب کیا اور بنی ہاشم میں سے مجھے برگزیدہ فرمایا۔2''
آنحضرتﷺ کا ایک ارشاد یوں ہے:
''أنا أفصح العرب بیدأني من قریش و نشأت في بنی سعد''3
''میں عربوں میں سے سب سے فصیح ہوں کیونکہ میں قریش سے ہوں اور میں نے بنی سعد میں پرورش پائی ہے۔''

آپ ؐ کا ایک اور ارشاد ان الفاظ میں ہے:
''أنا أعربکم أنا من قریش ولساني لسان بني سعد بن بکر''4

''میں آپ سب سے زیادہ فصیح ہوں، میں قریش میں سے ہوں اور میری زبان بنی سعد بن بکر کی زبان ہے۔''

قریش کی وجہ تسمیہ:
قریش کی وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف اقوال ہیں:
1۔ آنحضرتﷺ کے آباؤ اجداد میں ایک شخص کا نام قریش تھا۔ اس کی اولاد کی سب شاخیں قریش کہلائیں۔5
2۔ فراءنے کہا قریش، تقریش سے ماخوذ ہے جس کے معنی کمانے کے ہیں۔ یہ لقب ان کو ان کی تجارت کی وجہ سے دیا گیا۔6
3۔ قریش کے معنی کمانے اور جمع کرنے کے ہیں۔اس قبیلے کی اجتماعیت کے پیش نظر انہیں یہ لقب دیا گیا۔7
4۔ قریش، قرش کی تصغیر ہے۔ یہ ایک دریائی درندہ ہے جوباقی تمام دریائی جانوروں کا سردار ہے۔ یہ ہر دبلی اور موٹی چیز کا شکار کرتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے اس تاویل کو پسند فرمایا کیونکہ قریش دیگر عربوں کے سردار تھے۔
5۔ قریش کا مادہ قرش ہے، جس کےمعنی کمانا کے علاوہ تفتیش کرنا اور جستجو کرنا بھی ہیں۔ فہر بن مالک نے اسے اپنے استیلاء اور غلبہ کے اظہار کے لیے اختیار کیا۔ وہ ضرورت مندوں کو تلاش کرکے ان کی حاجات پوری کرتا، غریبوں کو دولت دیتا اور خوف زدہ لوگوں کا خوف دور کرتا۔ اس کے عظیم اوصاف کی وجہ سے اس کے قبیلے کا نام اس کے نام پر پڑ گیا۔8
قبیلہ قریش چھوٹے چھوٹے دس خاندانوں میں منقسم تھا۔
بنی ہاشم، بنی امیہ، بنی نوفل، بنی عبدالدار، بنی اسد، بنی تمیم، بنی مخزوم، بنی عدی، بنی جہم، بنی سہم9

عربوں کے مختلف قوموں اور ملکوں سے تجارتی تعلقات:
عربوں کے تجارتی تعلقات بہت سے ممالک کے ساتھ تھے۔ ہندوستان ، چین، وسط افریقہ اور یورپ کے غیر مشہور ممالک مثلاً سویڈن اور ڈنمارک کے ساتھ ان کی تجارت ہوتی تھی ۔ان کے علاوہ حبش، ایران، عراق (بابل) شام، مصر اور یونان کے ساتھ بھی ان کے تجارتی تعلقات تھے۔ یہ تمام ممالک عرب کے چاروں طرف اس طرح واقع ہیں کہ عرب اس دائرہ کا نقطہ بن گیا ہے۔اسی وجہ سے مکہ مکرمہ کو ''اُم القریٰ'' کے نام سے یاد کیا گیاہے۔ قرآن مجید میں ہے:
''لِتُنذِرَ‌ أُمَّ الْقُرَ‌ىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا...﴿٩٢﴾...سورۃ الانعام''10
''تاکہ آپ بستیوں کے مرکز (مکہ مکرمہ) اور ا س کےاطراف میں رہنے والوں کو متنبہ کریں۔''

تجارتی راستے:
قدیم تجارتی راستوں کا تاریخ میں ذکر ملتا ہے۔ سکندر اعظم کو 325ق م میں خلیج فارس اور سواحل عرب کا علم ہوا۔اسکندریہ اور خلیج فارس میں اس کو اکثر عرب تاجروں سے واقفیت کا موقع ملا۔ قلعہ ناعط، جو سلاطین نے یمن کے پہاڑ کی چوٹی پر تعمیر کیاتھا۔ اسلام سے پندرہ سو برس قبل کی تعمیر ہے۔ وہب بن منبہ (جنہوں نے صحابہؓ کا زمانہ پایا) نے اس کا ایک کتبہ پڑھا وہ یہ ہے:
''یہ ایوان اس وقت تعمیر کیا گیا جبکہ ہمارے لیے مصر سے غلہ آتا تھا۔''

وہب کا بیان ہے : ''میں نے جب حساب کیا تو معلوم ہوا کہ اس کو سولہ سو برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔''11

مکہ کے متعلق مولانا ندوی نے قدیم مورخین سے نقل کیا ہے ۔ ''حضرت مسیح ؑ سے ڈھائی ہزار برس قبل یہ کاروان تجارت کی ایک منزل گاہ تھا۔12 عہد قدیم میں مغربی ممالک کے دیگر ممالک سے تجارت کے لیے تین راستے تھے۔ ان میں سے دو عرب میں سے گزرتے تھے۔ پہلا راستہ دریائے سندھ سے دریائے فرات تک جاتا تھا۔ اس مقام پر جہاں انطاکیہ اور مشرقی بحر روم کی بندرگاہوں کو جانے والی سڑکیں الگ ہوتی تھیں۔ یہ راستہ بہت اہم تھا۔ مگر سلطنت بابل کے زوال کے ساتھ اس کو ترک کردیا گیا۔ دوسرا راستہ ہند کے ساحل سے لے کر حضرموت اور پھر وہاں سے بحراحمر کے ساتھ ساتھ شام تک آتا تھا۔13سبا کے تجارتی قافلے جس راستے سے گزرتے تھے اس کے رہنے والے لوگ بہت خوشحال تھے۔

قرآن مجید ہے: ''وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَ‌ى الَّتِي بَارَ‌كْنَا فِيهَا قُرً‌ى ظَاهِرَ‌ةً وَقَدَّرْ‌نَا فِيهَا السَّيْرَ‌ ۖ سِيرُ‌وا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ ﴿١٨...سورۃ سبا''14
''ہم نے ان کے ملک اور بابرکت آبادیوں (شام) کے درمیان کھلی آبادیاں قاوم کردی تھیں۔ ان میں دن رات بے خوف و خطر چلو۔''

یہ جو شاہرہ حجاز ہوکر یمن سے شام جاتی تھی، اصحاب الایکہ اور حضرت لوطؑ کا قصبہ بحر میت کے قریب دونوں اسی راستے پر آباد تھے، قرآن مجید میں ہے: ''وَإِنَّهُمَا لَبِإِمَامٍ مُّبِينٍ ﴿٧٩...سورۃ الحجر''15 ''دونوں بستیاں شاہراہ پر واقع ہیں۔''

حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ میں ایک قافلہ کا ذکر ہے۔ ''وَجَاءَتْ سَيَّارَ‌ةٌ''16 ''ایک قافلہ ایا'' وہ اسی راستہ پر گزرا تھا ۔ تورات کے الفاظ یہ ہیں:
 ''ناگاہ یوسف کے بھائیوں نے دیکھا کہ اسماعیلیوں کا قافلہ جلعاد کی طرف سے آرہا تا اور مصر جارہا تھا۔''17

''تمدن عرب'' میں ہے۔ ''عربوں کے یورپ کے ساتھ تجارتی تعلقات کے کئی راستے تھے۔ ایک راستہ پر میز پر سے تھا، دوسرا بحر متوسط، تیسرا راستہ وہ ہے جو روس سے ہوکر دریاوے والگا پر سے شمالی یورپ کو جاتا ہے18چین سے عرب کو بری اور بحری دونوں راستے جاتے تھے۔

''انسائیکلو پیڈیا آف اسلام'' میں ہے: یہ بات یقینی ہے کہ عرب بہت قدیم زمانہ سے سری لنکا سے واقف تھے اور ظہو راسلام سے قبل ہی انہوں نے یہاں اپنے تجارتی مرکز قائم کرلیے تھے۔19سندھ پر محمد بن قاسم کے حملہ کی وجہ یہ تھی کہ سیلون کے حکمران نے مسلمان تاجروں کے یتیم بچوں کوبھیجا تھا جنہیں دیبل کے بحری قزاقوں نے لوٹ لیا تھا۔ گویا اس جسیرہ (سری لنکا) میں مسلمان تاجر پہلے سے موجود تھے۔20قدیم کتب تاریخ کا جائزہ لینے سے اس حقیقت میں ذرہ برابر شبہ نہیں رہتا کہ عربوں کے اس دور کی متمدن اقوام اور ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات تھے۔ مشرق و مغرب کے درمیان تجارتی تعلقات کی تو یہ لوگ ایک سیڑھی تھے۔ بری اور بحری دونوں راستوں سے تجارت کرتے تھے۔

سامان تجارت:
عام طور پر تجارتی چیزوں کا سرمایہ تین چیزوں پر مشتمل تھا۔
1۔ کھانے کا مصالحہ اور خوشبودار چیزیں۔
2۔ سونا، جواہرات اور لوہا۔
3۔ چمڑا، کھال، زین پوش، بھیڑ اور بکریاں۔

مختلف ممالک کی چیزیں لاکر ان کو دیگر ممالک کے ساتھ بدل لیتے تھے۔ مثلاً عدن میں چین اور ہندوستان کی پیداوار، مصر اور حبش کی پیداوار سے بدل جاتی تھی۔ یعنی نوبہ کے غلام، ہاتھ دانت ، سونے کے برادے، چین کے حریر، چینی کے برتن، کشمیر کی شال، مصالحہ ، عطریات اور بیش بہا لکڑیوں کا باہم بدل ہوتا تھا۔21

عرب تاجر ہندوستان سے جو اشیاء لے جاتے ان میں سے عطر، گرم مصالحے اور گرم کپڑے شامل ہیں۔ یہاں سے لی جانے والی چیزوں کے نام قدرتی طور پر ہندوستان کی زبان سے ہی انہوں نے لے لیے تھے۔ چنانچہ فل فل، ہیل، زنجبیل، جائفل، ناریل، لیموں اور تنبول وغیرہ، ہندی زبان کے معرب الفاظ ہیں۔ بعض چیزیں، جن کے نام عربی میں موجود تھے، ان کے ساتھ لفظ ہندی کا اضافہ کرکے نئے نام بنا لیے گئے۔ مثلاً عود ہندی ، قسط ہند، تمر ہندی، تمر ہندی انگریز میں تمرنڈ بن گیا۔ ہند کے بنے ہوئے کپڑے یمن اور وہاں سے حجاز جاتے تھے۔22اسی طرح سے عربی کے الفاظ شاش (ململ) پشت (چھینٹ) فوطہ (چارخانہ تہمند) اس زبان میں داخل ہوگئے۔23لونگ ، الائچی، سیاہ مرچ، دارچینی اور ہلدی سبھی جنوبی ہند کی پیداوار تھیں جو عرب میں پہنچتی تھیں۔ چین میں عرب لوگ جواہرات، گھوڑے اور سوتی کپڑے اور اس کےبدلے میں اطلس، کمخواب، چینی کے برتن اور کئی قسم کی ادویات لاتے تھے۔24

دو ہزار قبل مسیح میں جو عرب تاجرباربار مصر جاتے ان کا سامان تجارت یہ تھا۔ بلسان ، صنوبر، لوبان اور دیگر خوشبودار چیزیں25ایک ہزار قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام سبا کا سونا مانگتے تھے۔(26)950 ق م میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں بلکہ سباء بلقیس کا تحفہ خوشبودار چیزیں سونا اوربیش قیمتی جواہرات تھے۔27

کتاب مقدس میں حزقی ایل کے ستائیسویں باب میں عرب کی تجارت کے متعلق بہت سی مفید باتیں ہیں۔ یروشلم کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
9. ''ودان اور بادان، ازدال سے تیرے بازار میں آتے تھے۔ آبدار، فولاد،تیز پات اور مصالحہ وغیرہ وہ تیرے بازار میں بیچتے، ودان تیرا سوداگر تھا، وہ بکری اور میں ڈھے لے کر تیرے ساتھ تجارت کرتے تھے ۔ سبا اور دعماة کے سوداگر تیرے ساتھ سوداگری کرتے تھے۔ وہ ہر قسم کے نفیس اور خوشبودار مصالحے اور ہر طرح کے قیمتی پتھروں اور سونا تیرے بازار میں لاتے تھے۔ حران عدن اور سبا کے سوداگر تیرے ساتھ سوداگری کرتے تھے۔''28

کھال کی تجارت بہت زیادہ تھی۔طائف میں دباغت بہت عمدہ ہوتی تھی، اسی وجہ سے اسے ''بلدالدباغ'' کہا جانے لگا۔29ہجرت حبشہ کے بعد مسلمانوں کے تعاقب میں قریش کا جو وفد نجاشی شاہ حبشہ کے پاس نذر کے طور پر تحائف لے کر گیا ان میں کھال بھی تھی۔30شراب، غلہ، ہتھیار اور دیگر سامان آرائش مثلاً آئینہ بھی عرب درآمد کرتے تھے۔ غلہ اور شراب شام سے آتے تھے۔31 جمعہ کے خطبہ میں جس تجارتی قافلہ کی طرف لوگ دوڑے تھے وہ شامی قافلہ تھا ۔ اسکا ذکر قرآن میں موجود ہے۔32غرض جو چیز عرب میں ہوتی اس کو وہ باہر لے جاتے اور جس کی انہیں ضرورت ہوتی اسے وہ وہاں سے ملک میں لے آتے۔

قریش کا زمانہ:
قریش منصہ شہود پر کب نمایاں ہوئے؟ اور اس خاندان کی بنیاد کب پڑی؟ مؤرخین اس کا ذکر نہیں کرتے البتہ عبدالمطلب کا چھٹی صدی عیسوی میں موجود ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے، سید سلیمان ندوی نے ''تاریخ ارض القرآن'' میں عبدالمطلب سے فہر یا قریش تک دس پشتوں کے زمانوں کے سنین کا تعین پچیس برس فی پشت کیا ہے۔ جواگرچہ تاریخ نویسی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ تاہم اندازہ کرنے کے لیے اچھی کوشش ہے، ندوی صاحب کا تعین اس انداز سے ہے۔

    نام                                سن وجود تقریباً                                           نام                                   سن وجودہ تقریباً

1۔ فہریا قریش                     325ء                                             6۔ کلاب                                        450ء

2۔ غالب                            350ء                                           7۔ قصّی                                             475ء

3۔ لوی                             375ء                                             8۔ عبدمناف                                      500ء

4۔ کعب                          400ء                                            9۔ ہاشم                                                525ء

5۔ مرّہ                            425ء                                          10۔ عبدالمطلب                                     550ء(33)

ارباب تاریخ کے اس بیان سے ندوی صاحب کی تحقیق کی تائید ہوتی ہے۔''قصّی منذر بن نعمان شاہ حیرہ (431ء تا 473ء) کامعاصر تھا ۔34 قصّی بن کلاب نہ صرف تاریخ قریش بلکہ تاریخ عرب میں بھی اہم شخصیت ہے۔ اس نے قریش کی منتشر قوت کواکٹھا کیا اور چند لڑائیوں کے بعد مکہ میں قریش کی ایک حکومت قائم کردی جو تاریخ میں ''شہری مملکت مکہ'' کے نام سے مشہور ہے۔35

قریش کی تجارت:
قبیلہ قریش کے آدمی تجارت کو باعث فخر سمجھتے تھے بلکہ تجارت جیسے معزز پیشہ کو بہتر نہ سمجھتے ہوئے اہل مدینہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کیونکہ وہ کاشتکار تھے یہاں تک کہ جنگوں میں ان سے لڑنا بھی اپنی توہین سمجھتے تھے۔36ظہور اسلام سے سو برس قبل یمن اور شام کے ممالک میں سیاسی انقلابات پے در پے آتے رہے تھے، ان حالات کو دیکھ کر قصّی اور ہاشم نے کاروان تجارت کو منظم کیا۔ کلبی کے مطابق ہاشم بن عبدمناف پہلا شخص ہے، جو گندم اور اونٹ لے کر شام گیا۔37

ہاشم نے اپنے اثرو رسوخ کی بناء پر قیصر اور نجاشی سے قریش کے تجارتی کارواں کے بے روک ٹوک آنے جانے کی اجازت حاصل کرلی۔ ملک عرب میں عام بدامنی تھی، قافلے لوٹ لیے جاتے، لیکن قریش کو خانہ کعبہ کا محافظ ہونے کی وجہ سے معزز سمجھا جاتاتھا۔ اس وجہ ان کے قافلے بے خوف و خطر سفر کرتے، قرآن مجید میں ان کے تجارتی سفروں کو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے۔
''لِإِيلَافِ قُرَ‌يْشٍ ﴿١﴾ إِيلَافِهِمْ رِ‌حْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ ﴿٢﴾ فَلْيَعْبُدُوا رَ‌بَّ هَـٰذَا الْبَيْتِ ﴿٣﴾ الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ ﴿٤...سورۃ قریش''38
''قریش کو خوگر ہونے کی بناء پر ، اپنے جاڑے اور گرمی کے سر کے خوگر ہونے کی بناء پر چاہیے تھا کہ اس خانہ کعبہ کے مالک کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک میں کھانے کو دیا اور خوف سے امن دیا''

ایک تو تجارتی قافلے پامن سفر کرتے اور پھر گھر بیٹھے بھی ان کو تجارتی نفع حاصل ہوتا ان کے تجارتی قافلے ذیقعدہ میں لوٹ آتے تھے۔39 اور قیام کرتے۔ذیقعد کے معنی ''بیٹھنا'' کے ہیں۔ شائد اسی وجہ سے اس مہینہ کو ذی قعدہ یعنی بیٹھنے کا مہینہ کہا جانے لگا اور پھر یہی نام پڑگیا۔ اس کے بعد ذوالحجہ آتا جس میں ان کا موجود ہونا ضروری تھا۔ قریش امن و اطمیں ان کے معاوضہ میں دیگر قبائل سے یہ سلوک کرتے کہ ان کی ضرورت کی چیزیں ان کے پاس لے جاتے تھے اور مختلف موسوموں میں مختلف علاقوں کا سفر اختیار کرتے۔ '''تفسیر کشاف'' میں ہے: ''کانت لقریش رحلالتان یرحلون في الشتاء إلی الیمن وفي الصیف إلی الشام و یتجرون وکانوا في رحلتیھم آمنین''40 ''قریش دو سفر کرتے تھے۔ سردی میں یمن جاتے تھے اور گرمی میں شام جاتے اور وہ تجارت کرتے، اپنے دونوں سفروں میں بے خوف تھے۔''

''تفسیر قاسمی'' میں یہ ہے، ''وہ تجارت کے لیے گرمی میں شام اور سردی میں یمن کا سفر کرتے تھے۔''41

تفسیر ''روح المعانی'' میں ''الإیلٰف'' سے مراد ''عهود بینهم''(42) ان کے درمیان معاہدے '' ہیں۔اصحاب الایلٰف بنی عبدمناف چار بھائی تھے۔ ہاشم شام کو پسند کرتا تھا۔ مطلب کسریٰ کو، عبدالشمس اور نوفل مصر اور حبشہ کی طرف رجحان رکھتے تھے43۔ تمام بادشاہ ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے۔ عرب اپنا سامان تجارت لے کر وہاں جاتے، ان کے سفروں کی بے خوفی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ سے خطاب فرمایا:
''لَا يَغُرَّ‌نَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فِي الْبِلَادِ ﴿١٩٦﴾ مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴿١٩٧...سورۃ آل عمران''44

''کافروں کا شہروں میں چلنا، پھرنا کہیں آپ کو دھوکے میں نہ ڈال دے، چند روزہ بہار ہے، پھر تو ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ کیسی بُری آرام گاہ ہے۔''

ان کی تجارت کی شہرت ملک ملک میں پھیل گئی۔ تاجرانہ ترقی کی انتہا یہ تھی کہ بیوہ عورتیں تک اپنا سرمایہ تجارت میں لگاتیں۔ حضرت خدیجة الکبریٰ سلام اللہ علیہا قبیلہ قریش کی ایک بیوہ خاتون تھیں جن کا تجارتی سامان مختلف لوگ شام لے جاتے تھے۔45آنحضرتﷺ کے آباؤ اجداد بھی تاجر تھے۔ آپؐ کے والد، چچا، دادا اور پردادا تاجر ہی تھے۔ بچپن میں آنحضرتﷺ اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ شام کے تجارتی سفر پر گئے تھے۔46جوان ہوکر آنحضرتﷺ نے اس باعزت یشہ کو اپنایا۔ حضرت خدیجة الکبریٰ سلام اللہ علیہا کا مال لے کر آنحضرتﷺ شام گئے۔

آنحضرتﷺ کے علاوہ قریش کے دیگر معروف آدمی بھی تاجر تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ تاجر تھے۔ خود بصریٰ تک تجارتی سامان لے کر جاتے تھے۔ مقام سخ پران کا کارخانہ تھا۔47خلیفہ بننے کے بعد شغل تجارت کو جاری رکھا۔ صحابہ کرامؓ نے مملکت کی دیگر ذمہ داریوں کی بناء پر اس کو چھوڑنے پر مجبور کیا اور بیت المال سے بقدر کفایت وظیفہ مقرر کردیا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے خود اسی باعزت پیشہ کو اپنائے رکھا۔48

حضرت عثمان ؓ بہت بڑے تاجر تھے۔ ان کی تجارت اور سخاوت کے واقعات بہت مشہور ہیں۔ جیش العسرت یعنی جنگ تبوک میں انہوں نے تین سو اونٹ بمع ساز و سامان خدمت نبویؐ میں پیش کیے، تو آنحضرتﷺ نے فرمایا:
''ما ضر عثمان ما عمل بعد الیوم''( مرتین)49''آج کے بعد عثمانؓ کوئی عمل نہ بھی کرے تو کوئی حرج نہیں'' (یہ دو دفعہ ارشاد فرمایا)


صحابہؓ میں قریش اکثر تجارت کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے زریں دور میں جب ایران و شام اور مصر کے علاقے فتح ہوگئے اور بیت المال میں کافی دولت جمع ہوگئی، تو حضرت عمرؓ نے تما م مسلمانوں کا وطیفہ مقرر کرنا چاہا، اس پر حضرت ابوسفیان کے الفاظ قابل غور ہیں:
''أديوان مثل ديوان بني الأصفر ، إنك إن فرضت للناس اتكئوا عَلَى الديوان وتركوا التجارة ''
''رمیوں کی طرح رجسٹروں میں نام درج کرنا چاہتے ہو، انہوں نے وظیفہ لے کر تجارت کو چھوڑ دیا تھا۔''

گویا تجارت کا پیشہ انہیں اتنا پسند تھا کہ گھر بیٹھے تنخواہ لینا بھی مناسب نہ سمجھتے تھے۔ آنحضرتﷺ نے دیانت دار تاجر کو دنیا کے ساتھ آخرت کی کامیابی کی بھی بشارت دی ہے۔
''التاجر الصدوق الأمین مع النبيین والصدیقین والشھداء''50
''راست باز اور دیانت دار تاجر (قیامت کے دن)نبیوں ، صدیقوں اور شہیدوں کےساتھ ہوگا۔''


 حوالہ جات
1. ہیکل، محمد حسین، سیرت الرسول، ترجمہ مولانا محمد وارث کامل، مکتبہ کارواں، کچہری روڈ لاہور 1975ء
2. مسلم ، مسلم بن حجاج قشیری، الجامع الصحیح المسلم جلد ثانی صفحہ 253، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبیﷺ
3. عیاض، ابوالفضل عیاص بن موسیٰ الیصبی الاندلسی، الشفاء جلد اوّل صفحہ 47، مصر 1950ء
4. ابن سعد ۔ الطبقات الکبریٰ جلد اوّل صفحہ 113، مطبوعہ، بیروت 1960ء
5. ابن حزم، ابومحمد علی بن احمد بن سعید بن حزم، جمہرة النساب العرب صفحہ 11 ، مصر1962ء
6. آلوسی، ابوالفضل شہاب الدین محمود آلوسی، تفسیر روح المعانی جلد30 صفحہ 239 سورة القریش۔
7. جوہر، اسماعیل بن حماد جوہری، الصحاح تاج اللغة و صحاح العربیة جزء ثالث ص1047
8. آلوسی، مذکورہ تفسیر روح المعانی جلد30 ص239
9. تاریخ اسلام جلد اوّل صفحہ 66، معین الدین ندوی، محمد سعید اینڈ سنز کراچی طبع 1974ء
10. قر|آن مجید : الانعام |آیت 92
11. یاقوت حموی، شہاب الدین ابوعبداللہ، معجم البدلان جلد5 صفحہ 253 ذکرنا عط۔ بیروت
12. ندوی، سید سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن جلداوّل صفحہ 98
13. انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا جلد 2 صفحہ 26 گیارہواں ایڈیشن
14. قرآن مجید۔ السبا۔آیت نمبر 18
15. قرآن مجید، الحجر۔ آیت نمبر 79
16. قرآن مجید، یوسف۔ آیت نمبر 19
17. کتاب مقدس۔ العہد العتیق۔ سفر تکوین صفحہ 64( عربی) بیروت 1937ء
18. بلگرامی۔ علی بلگرامی تمدن عرب، صفحہ 590
19. انسائیکلو پیڈیا آف اسلام صفحہ 538
20. بلا ذری|۔ احمد بن یحیی بن جابر بلاذری، فتوح البلدان جلد2 صفحہ 618+
21. تمدن عرب صفحہ 590
22. ادبیات پاک وہند کا حصہ صفحہ 31 تا 35|۔ ڈاکٹر زبید احمد ترجمہ شاہد حسین رزاقی
23. زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس جلد5 صفحہ 200، محمد مرتضی|ٰ زبیدی
24. تمدن عرب صفحہ 591
25. کتاب مقدس العہد العتیق جلد اوّل صفحہ 64 تکوین فصل 37 |آیت 26 بیروت عربی
26. کتاب مقدس، زبور 72 صفحہ 598 پاکستان بائیبل سوسائٹی لاہور
27. کتاب مقدس العہد العتیق
28. کتاب مقدس یعنی پرانا اور نیا عہد نامہ۔ حزقی ایل باب 27 |آیت 19 تا24
29. ہمدانی۔ صفة جزیرة العرب بحوالہ تاریخ ارض القرآن صفحہ 338 اوّل 1975ء ندوی
30. ابن ہشام۔ ابومحمد عبدالمالک بن ہشام، السبرة النبویة جلداوّل صفحہ 204 ملتان 1977ء
31. ابن حجر، حافظ احمد بن حجر عسقلانی۔ فتح الباری جلد8 صفحہ 209
32. قر|آن مجید سورة الجمعہ |آیت 11
33. ندوی، سید سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن ، جلددوم صفحہ 325 کراچی 1975ء
34. یاقوت حموی ، شہاب الدین ابوعبداللہ ||۔ معجم البلدان جلد5 صفحہ 186 لفظ مکہ
35. ابوحیان اثیر الدین ابوعبداللہ محمد بن یوسف، تفسیر بحر المحیط جلد8 صفحہ 513
36. البخاری، الجامع الصحیح جلد2 صفحہ 573 کتاب المغازی، ذکر قتل ابی جہل، ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری۔
37. علاؤ الدین علی بن محمد بن ابراہیم بغدادی ، تفسیر خازن، المسمی الباب التاویل فی معانی التنزیل جلد7 صفحہ 298 طبع مصر75
38. قرآن مجید ۔ سور|ة القریش
39. اسباب النزول صفحہ 44 جلال الدین السیوطی، مصر
40. زمخشری، ابوالقاسم محمود جار اللہ بن عمرو زمخشری خوارزمی، تفسیر الکشاف عن حقائق التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوہ التاویل جلد3 صفحہ 60
41. قاسمی، محمد جمال الدین ، تفسیر قاسمی المسمی ، محاسن التاویل جل17 صفحہ 6270
42. آلوسی، روح المعانی جلد3 صفحہ 238
43. ابن حبیب||۔ کتاب المجر، ص142 محمد بن حبیب
44. قرآن مجید۔ |آل عمران |ایت 194، 197
45. ابن ہشام ابومحمد عبدالملک بن ہشام، السیرة النبویة جلد اوّل صفحہ 122 مع روض الانف السہیل۔
46. ابن ہشام ابومحمد عبدالملک بن ہشام، السیرة النبویة جلد اوّل صفحہ 127 مع روض الانف السہیل۔
47. ابن سعد، طبقات جلد 3 صفحہ 178 بیروت
48. البخاری۔ جامع الصحیح جلد اوّل صفحہ 277 کتاب البیوع الخروج الی التجارة
49. مسند احمد بحوالہ مشکوٰة المصابیح صفحہ 560 باب مناقب عثمان
50. ترمذی، ابوعیسیٰ محمدبن عیسی، جامع الترمذی جلد اوّل صفحہ 179۔ ابواب البیوع۔ باب ماجاء فی التجار۔