اُمت کی سیاسی منزل۔ ملّت کا قیام

دنیا کے ہر نظام اور قوت پر غالب آنا اس کی نیچر ہے کیونکہ حق کی شان ہی یہ ہے کہ الحق یعلو ولا یعلی عليه یعنی حق ہمیشہ غالب آتا ہے اور اس پر کوئی چیز غالب نہیں آسکتی۔ ہاوی برحق ﷺ نے اس عالمگیر حقیقت کو دعوتِ اسلام کے پہلے روز ہی واضح کر دیا تھا۔ جب ''لا إلٰه إلا اللہ'' کو پیش کیا تو اس کی وضاحت ان الفاظ میں بیان فرمائی:
ھی کلمة واحدة تُعطونیھا تملکون بھا العرب وتدین لکم بھا العجم
یعنی بظاہر تو یہ ایک کلمہ ہے۔ لیکن اس پر ایمان و عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ تم عرب کے مالک ہو گے اور پورا عجم تمہارے زیر نگیں ہو گا۔

دعوت کے یہ الفاظ کسی سیاسی رشوت کے طور پر ادا نہیں ہو رہے تھے۔ اور نہ ہی نبوت کا یہ مقام ہے کہ کسی دنیوی لالچ کو دعوت کی بنیاد بنایا جائے بلکہ توحید کے اقرار اور غیر اللہ کی غلامی سے انکار کا بدیہی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسلام دنیا کے ہر نظام اور باطل قوت پر غالب آتا ہے۔ چنانچہ دنیا نے اپنی آنکھوں سے اس نتیجہ کو دیکھا اور تاریخ نے غلبہ اسلام اور مسلمانوں کے سیاسی اور روحانی کارناموں کو محفوظ کیا۔ لیکن افسوس کہ امت مسلمہ کی تاریخ کا یہ حصہ صلیبیوں اور صیہونیوں کو زیادہ یاد ہے۔ اور ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی اِسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں ۔ امید افزا بات یہ ہے کہ آج مسلمانوں میں مغرب کو سمجھنے کا شعور بیدار ہو رہا ہے اور اپنی بقا کے احساس نے انہیں غلبۂ اسلام کی شاہراہ پر گامزن ہونے کا یقین پیدا کیا ہے۔

امت مسلمہ کے لئے سوچنے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں آگے بڑھنے کے لئے کیا کرنا ہے۔ اور موجودہ حالات کس قسم کی حکمت عملی کا تقاضا کرتے ہیں ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ماضی قریب میں ان حقائق کا جائزہ لیا جائے۔ جنہوں نے موجودہ حالات کو جنم دیا ہے۔ اور امت کو باہمی انتشار و خلفشار کا شکار کیا ہے۔

گزشتہ صدی کے نصف آخر میں عالم اسلام کے اندر استعماری نظام سے آزادی کے لئے کوششیں کی گئیں ۔ لیکن اس دوران مغربی تسلّط نے امت کی اکثریت کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیا تھا۔ اس نے اسلامی اخلاق و معاشرت کو تباہ کیا، روحانی قدروں کو پامال کیا، مذہب و سیاست کی وہ تفریق جس کا مغرب خود قائل تھا مسلمانوں کے اندر اس کے بیج بوئے۔ مذہب سے آزادی کا نعرہ دے کر مسلمانوں کو اپنی غلامی پر آمادہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی آزادی اور حکومتوں اور مملکتوں کے قیام کے باوجود مسلمانوں پر مغرب کا فکری تسلط قائم رہا اور اسلامی عقاید و افکار میں ایک زبردست خلا یپدا ہو گیا۔ اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھا کر سرخ سامراج نے اپنے منحوس سائے عالمِ اسلام پر ڈالنے شروع کر دیئے۔ روسی استعمار مسلمانوں میں فکری انتشار کو ہوا دے کر اور مادہ پرستانہ ذہن کو کام میں لا کر اپنے لیے فضا کو سازگار بنانا چاہتاہے۔ اگرچہ مغرب بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے روس کی توسیع پسندی سے خائف ہے۔ لیکن اس کا اصل مجرم وہ خود ہے۔

فکری تنزل کے تجزیے کے بعد ہمارے سامنے سب سے اہم فریضہ امت مسلمہ کی صحیح سمت میں فکری راہنمائی ہے۔ امت کے استحکام کے لئے سیاسی آزادی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ فکری طور پر ٹھوس اور مثبت نظام پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ افرادِ امت میں اعتماد کی قوت بحال ہو سکے۔ پھر کوئی حملہ ایمان کو متزلزل نہ کر سکے اور عقاید و افکار میں بگاڑ پیدا نہ کر سکے۔

گزشتہ صدی میں مسلمان مفکرین نے فکری میدان کو خالی نہیں چھوڑا۔ مستشرقین نے جتنے اعتراضات اُٹھائے۔ اسلام کے بہی خواہوں نے ان کا جواب دیا۔ لیکن اس دور کو عبوری دور کہا جا سکتا ہے۔ مغرب نے استعماری قوت سے اپنے فکر کو مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں پیوست کرنے کی بے انتہا کوشش کی اور وقت کی اہم ضرورت بنا کر اِسے پیش کیا۔ مسلمان مفکرین نے مغرب کے پھیلائے ہوئے بگاڑ کو رفع کرنے کے لئے تنقید کے باوجود اس فکر کے اصول و مبادی کو کسی حد تک قائم رکھا اور اِسے ہی اسلامی بنانے کی کوشش کی اِسے عبوری دور کی مجبوری کہنا ہی قرینِ انصاف ہے اس طرح مقصود اگرچہ اسلام کا نظام تھا۔ لیکن رنگ غیر اسلامی ہونے کی وجہ سے اس قدر پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ کوششیں اس طرح ابہام کا شکار ہوئیں ، کہ عام پڑھے لکھے لوگوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہ رہی نتیجتاً وہ خالص مغربیت یا دہریت کو پسند کرنے لگے۔

ریاست، جمہوریت اور اشتراکیت کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ یہ اصطلات اور ان کے اصول و مبادی سب کچھ مغرب کا حصہ ہے۔ لیکن بعض مسلمان مفکرین نے بزعم خود انہیں Islamise کر لیا ہے۔ بنیادی خطوط کو قائم رکھتے ہوئے چند غیر اسلامی نکات نکال کر ان کے ساتھ اسلام کا لفظ چسپاں کر لیا ہے۔ اب یہ اصطلاحات اسلامی ریاست، اسلامی جمہوریت اور اسلامی اشتراکیت کے نام سے مشہور ہیں ۔ ایک مشہور عرب مصنف مصطفےٰسباعی نے اشتراکیة الاسلام کتاب لکھ کر اسلام میں لفظ اشتراکیت کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ اور بیشتر عرب ملکوں نے اشتراکیت کو اسلامی مساوات کی ضمانت سمجھ کر رائج کر رکھا ہے۔ اس طرح یونانی تصور ریاست اور مغربی طرز جمہوریت کو اسلامی قلب میں ڈھالنے کی کوششیں ہوئی ہیں ۔ اور بہت سا لٹریچر اس سلسلے میں موجود ہے۔ کیا اِسی فکر کا نتیجہ نہیں کہ متعدد مسلمان ریاستوں نے دستوری بنیادوں پر اپنے آپ کو سیکولر قرار دے دیا ہے۔ آخر اِس فکر کی انتہا کیا ہو گی؟ امت مسلمہ کو سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کرنا ہے۔

پندرھویں صدی ہجری میں اگر فی الواقعہ ہم اسلام کی نشاة ثانیہ کی تکمیل چاہتے ہیں ۔ اور لیظھرہ علی ........ کا مظہر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ تو پہلے قدم کے طور پر اپنی فکری منزل کا تعین ضروری ہے۔ عبوری دور سے بڑھ کر ایسی فکری منزل کو متعین کیا جائے جو بالکل واضح ہو اور خالص اسلامی ہو۔ یہ مثالی منزل ملّت کا قیام اور اس میں امت کی تشکیل ہے۔''

اسلام نے ریاست کے بجائے ملت کا تصور دیا ہے۔ ملّت کا لفظ اگرچہ عام مستعمل ہے لیکن اس کا مفہوم عام ذہنوں میں واضح نہیں ہے۔ حالانکہ ملت ایک مستقل نظام ہے جس کی پیروی اور نفاذ کے لئے قرآن پاک میں بار بار تاکید کی گئی ہے۔ سورہ بقرہ میں ہے:
ترجمہ: ''یہود و نصاریٰ نے کہا کہ تم یہودی یا عیسائی بن جاؤ تو ہدایت پا جاؤ گے۔ اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ ہم تو ابراہیم علیہ السلام کی ملّت کی پیروی کریں گے وہ یکسو تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔

چوتھے پارے کے شروع میں فرمایا:
ترجمہ: ''اللہ نے سچ کہا کہ تم یکسو ہو کر ابراہیمی ملّت کی پیروی کرو۔''

دنیا کے ہر نظام سے کٹ کر اور انہیں باطل قرار دے کر اقامة دین کے لئے جو نظام قائم کیا جاتا ہے، اِسے ملّت کہتے ہیں ۔ ایک مستقل نظام کے طور پر اِس کے خدوخال واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ سطور میں انہی کی وضاحت پیش کی جاتی ہے۔

ملت، اِملال سے ہے۔ جس کا معنی ہے لکھوانا قرآن نے اِس مادے کو اس طرح استعمال کیا:-
وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ یعنی لکھوائے وہ شخص جس پر حق ہے۔ اس لحاظ سے ملّت دراصل ایک نظام کے وہ خطوط ہیں جنہیں نبی اللہ کی راہنمائی میں کھینچتا ہے۔ اور زندگی کی حدود متعین کرتا ہے۔ امام راغب نے مفردات میں اس کی وضاحت یوں کی ہے۔
الملة لا تضاف إلا إلی النبي ولا تکاد توجد مضافة إلی الله ولا إلی آحاد أمة النبي ﷺ
یعنی ملت کی نسبت صرف نبی کی طرف ہوتی ہے۔ اس کی نسبت نہ اللہ کی طرف ہوتی ہے اور نہ امتی کی طرف۔ خود مثال دے کر امام راغب کہتے ہیں ۔ لا تقال ملة اللّٰہ ولا ملة زید

یعنی نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کی ملّت اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ زید کی ملت۔ مزید وضاحت ان الفاظ سے کی لا یقال الصلوٰة ملة یعنی یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ نماز ملت ہے۔ ان تمام وضاحتوں سے تین چیزیں کھل کر ہمارے سامنے آتی ہیں ۔ پہلی یہ کہ ملت کا نظام نبی اپنی عملی زندگی سے پیش کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ امت کے کسی فرد یا گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ نبی کے کھینچے ہوئے خطوط سے علیحدہ کوئی نظام مرتب کرے اور تیسری بات یہ کہ ملّت کسی ایک رکن یا فریضے کو ادا کرنے سے قائم نہیں ہوتی۔ بلکہ نبی کی عملی زندگی سے عبارت پورا نظام ملّت ہے۔

ملت کے تصور کے سمجھنے میں جو غلط فہمی عام طور پر پیدا ہوئی اس کا ازالہ ضروری سمجھتا ہوں مستشرقین اور مقلدین مغرب نے ہمیشہ یہ تاثر دیا ہے۔ کہ نبی کو محض نظرئیے کے لئے وقف رکھا جائے۔ اور نظام وہ خود مرتب کریں ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نظریہ اللہ دیتا ہے اور نظام نبی قائم کرتا ہے۔ قرآن نے اس طرف اشارہ کیا ہے:-
ترجمہ: ''ہم نے روشن دلائل دے کر پیغمبروں کو بھیجا۔ ان پر کتابیں اور میزان کو نازل کیا تاکہ لوگوں میں نظامِ عدل قائم کرے۔'' (الحدید)

یہ ایک تاریخی شہادت ہے کہ سارا فکری فساد ان گروہوں کا برپا کیا ہوا ہے جنہوں نے ملّت کے تصور کو بگاڑا اور نبی کے مقام کو سمجھنے میں غلطی کی۔

عالم اسلام اس وقت ریاست (State) کے مغربی نظام کو اپنائے ہوئے ہے۔ مختلف قومیتوں کا پیدا ہونا اور علاقائی عصبیتوں کا ابھرنا اس نظام کا لازمی نتیجہ ہے۔ مشرقی پاکستان کا المیہ ہو یا موجودہ ایران، عراق جنگ اور عالمِ اسلام کو درپیش متعدد تکلیف دہ مسائل انہی عصبیتوں کے پیدا کردہ ہیں ۔ اسلام دشمن قوتوں کا یہی مشن ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ استعماری فکر پر مبنی ریاستی نظام کو بتدریج ختم کر کے مثالی فکری منزل ''ملت کے قیام'' کی طرف بڑھیں ۔

ریاست کے عناصر ترکیبی چار ہیں ۔
(1) علاقہ

(2)آبادی

(3)حکومت

(4) اقتدارِ اعلیٰ

مغربی نظرئیے کے مطابق ریاست محدود علاقے میں قائم ایک سیاسی تنظیم ہے اسلام دو بنیادوں پر اس تصور کا مخالف ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اسلام زندگی کے جملہ معاملات میں کسی الگ سیاسی تنظیم کا قائل نہیں ۔ یہ تنظیم ان کی قائم کی ہوئی ہے۔ جنہوں نے مذہب کو چرچ کی چار دیواری میں بند کیا اور اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے ریاست کا وجود ضروری سمجھا جہاں مذہب کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ لیکن اسلام میں مذہب اور سیاست کی تقسیم کا کوئی وجود ہی نہیں بقول علامہ
؎

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی


ریاست کے تصور میں دوسری چیز اللہ کی زمین کی علاقائی تقسیم ہے جسے اسلام قبول نہیں کرتا۔ یہاں عقیدہ یہ دیا گیا ہے إِنَّ الْأَرْ‌ضَ لِلَّـهِ یعنی ساری زمین اللہ کی ہے اور انسان کو زمین پر خلافت کے قیام کے لئے بھیجا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے اس نظریے کو یوں پیش کیا۔ ؎


چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

علامہ نے کوئی شاعرانہ تخیل پیش نہیں کیا تھا بلکہ یہ بات انہوں نے اپنے عقیدے کی بنیاد پر گہرے اسلامی شعور کے ساتھ کہی تھی۔ قرآن نے مسلمان کو جو سیاسی ذہن دیا ہے۔ علامہ نے اس کی ہی عکاسی کی تھی۔ آج امت کے ہر فرد تک اس فکر کو پہنچانا انتہائی ضروری ہے تاکہ اپنی حیثیت کو جاننے اور اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے کا شعور ان میں پیدا ہو۔ اور وہ اپنے مشن کو سمجھیں ۔

ریاست کے چار عناصر کے بالمقابل ملت کے عناصر الگ اپنا مفہوم رکھتے ہیں ۔ عناصر کی ترکیب بھی اپنی ہے۔ علامہ نے اِسی نقطے کو بیان فرمایا ہے۔


اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی


ملّت کے عناصر ترکیبی یہ ہو سکتے ہیں ۔
1۔ حاکمیت۔ 2۔ نبوت۔ 3۔ خلافت۔ 4۔ اُمت

ریاست کے تصور میں اقتدار اعلیٰ مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ لیکن ملّت میں اقتدار اعلیٰ مختلف فیہ مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ قرآن کے مطابق اقتدارِ اعلیٰ طوعاً و کرہاً اللہ کے لئے مخصوص ہے۔

ریاست:
ریاست میں اقتدار اعلیٰ پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن اسلام میں حکم کا تصور اس کے برعکس ہے۔ یعنی اللہ کے حکم سے ہر چیز پیدا ہوئی اور تمام نظامِ کائنات چل رہا ہے۔ جب آسمان و زمین لپیٹ لیے جائیں گے تب بھی اللہ کا حکم ہی چلے گا۔

ریاست میں سارا جھگڑا اس بات پر ہوتا ہے کہ اقتدار کس کا ہے؟ فرد واحد کا ہے۔ یا ایک پارٹی کا یا ریاست کے سارے عوام اس کا حق رکھتے ہیں ۔ لیکن ملّت کے قیام میں لحاظ اس بات کا ہے کہ اطاعت کس کی ہے۔ اس اعتبار سے ملّت میں اقتدار کے حصول کی جنگ نہیں بلکہ اطاعت میں آگے بڑھنے کا عقیدہ ہے۔ اسلام نے انسان کو کائنات ارضی میں عبادت و اطاعت کا مکّلف ٹھہرایا ہے۔ اس لئے ملت کے تصور میں حقوق کی چھینا جھپٹی نہیں بلکہ فرائض کی بجا آوری کا احساس ہے۔

ملت کے قیام کا اصل مقصد یہ ہے انسان اپنی زندگی میں صرف اللہ کا حکم چلائیں اور زمین پر اللہ کی الوہیت عملاً اسی طرح قائم ہو جائے جس طرح آسمان پر عملاً قائم ہے۔ اور اللہ کا یہ ارشاد پورا ہو جائے۔
اللہ ہی ہے جو آسمان میں بھی الٰہ ہے اور زمین میں بھی الٰہ ہے۔ (القرآن)

ملت کا دوسرا بنیادی نقطہ نبوت ہے:
ملت کی تعریف میں نبوت کے مقام کی وضاحت تفصیل سے کر دی گئی ہے۔ یہاں صرف یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ اپنے احکامات یعنی شریعت کو نبی پر نازل کرتا ہے۔ اور نبی اس کی اطاعت کے مکمل نظام کو پیش کرتا ہے۔ اس لئے نبی کی اطاعت کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ قرآن نبی کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت قرار دیتا ہے۔

نبی کی بعثت کا سب سے بڑا مقصد اقامة دین ہے۔ قرآن پاک نے اِسی مقصد کی نشاندہی کی ہے:
هُوَ الَّذِي أَرْ‌سَلَ رَ‌سُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَ‌هُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا ﴿٢٨...سورۃ الفتح
اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر اس لئے بھیجا کہ اس کو سب دینوں پر غالب کر دے۔ اسلام کی سچائی کے لئے اللہ کی گواہی کافی ہے۔

نبی اقامت دین کے لئے اپنے عمل سے ایک طریق کار متعین کرتا ہے۔ یہ طریق کار ہی ملت کے قیام کا ضامن ہو سکتا ہے۔ قرآن نے اسے واجب الاتباع قرار دیا ہے۔ ''لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ...﴿٢١﴾...سورۃ الاحزاب'' تمہارے لئے اللہ کا رسول بہترین نمونہ ہے۔

دنیا میں اللہ کی اطاعت کو عملاً قائم کر دینا خلافت ہے۔ اللہ نے قرآن میں ''إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْ‌ضِ خَلِيفَةً...﴿٣٠﴾...سورۃ البقرۃ'' کہہ کر ہر انسان کو اس کا مکّلف ٹھہرایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حقیقة کو اس طرح واضح کیا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِه ''تم میں ہر شخص نگران ہے اور ہر کسی سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ ہو گی۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے عام معاشرتی زندگی کو دیکھا جائے جس میں کوئی شخص اپنے گھر کی ذمہ داری اُٹھائے ہوئے ہے۔ اور کسی کی اپنی برادری اور خاندان میں چلتی ہے اور کچھ نہیں تو کم از کم ہر شخص کو اپنے اعضا و جوارح پر تو اللہ نے کنٹرول دیا ہے۔ اللہ کے دیئے ہوئے تمام اختیارات کو اگر انسان اللہ کی اطاعت کروانے کے لئے استعمال کرے اور اپنی نہ چلائے تو یہ خلافت ہے۔ اِسی کا انسان مکلف ہے اور اِسی کا حساب لیا جائے گا۔

نبی تمام انسانوں سے اللہ کی اطاعت کروانے کے لئے آتا ہے۔ قرآن میں ہے وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن رَّ‌سُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ...﴿٦٤﴾...سورۃ النساء نتیجتاً وہ امکانی حد تک دنیا میں خلافت کو قائم کرتا ہے۔ اللہ نے کہا يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْ‌ضِ...﴿٢٦﴾...سورۃ ص۔ اور حضور ﷺ نے فرمایا أمرت أن أقاتل الناس حتی یَشْھَدُوا أن لا إلٰه إلا اللّٰہ میں مامور ہوں اس کام پر کہ جہاد کرتا رہوں حتی کہ تمام انسان اللہ کا حکم تسلیم کر لیں ۔

نبی کے بعد امت کا یہ فرض ہے کہ خلافت قائم کرے اور یہ خلافت نبی کے قائم مقام ہوتی ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمة اللہ نے خلافت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
''الخلافة ھي الریاسة العامة للتصدي لإ قامة الدین بإحیاء العلوم الدینیة وإقامة أرکان الإسلام والقیام بالجھاد وما یتعلق به من ترتیب الجيوش والقیام بالقضاء وإقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنھي عن المنکر نیابة عن النبي ﷺ''
(خلافت عامہ وہ عمومی ریاست ہے جو اقامت دین کے لئے بالفعل بحیثیت نیابت نبی ﷺ ان امور کے ذریعے وجود میں آئے۔ علوم دینیہ کا زندہ کرنا۔ ارکان اسلام کا قائم کرنا۔ جہاد کو جاری کرنا اور اس کے لئے لشکروں کو تیار کرنا۔ قضا اور حدود کا نظام قائم کرنا۔ دنیا سے ظلم کو ختم کرنا۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔

شاہ صاحب نے خلافت کے معارف اور مقاصد کو واضح الفاظ میں پیش کیا۔ اِس سے دنیا کے نظام ہائے حکومت و ریاست سے ممتاز ایک شکل ہمارے سامنے آتی ہے۔

بعض لوگوں کو خلافت کے بارے میں یہ شبہ ہے کہ خلافت آمریت کی شکل ہے اور بعض نے اِس سے جمہوریت کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں دونوں قسم کی شہادت کا ازالہ ضروری ہے۔

خلافت اس عقیدے پر مبنی ہے کہ حاکمیت اللہ کے سوا کسی کی نہیں ۔ جب مخلوق ساری اللہ کی ہے تو حکم بھی اسی کا چلنا چاہئے۔ قرآن نے أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ‌ کا اعلان کر کے ایک قطعی بات کہہ دی ہے۔ یعنی مخلوق پر اس کے خالق کے سوا کسی کا حکم چل ہی نہیں سکتا۔ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو زمین پر اللہ کا حکم چلائے۔ اپنا حکم نہ چلائے۔ اور جو اپنا حکم چلاتا ہے خواہ وہ عوام کا منتخب کردہ ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اللہ کا شریک ہے۔ روئے زمین پر جو اپنا حکم چلاتا ہے وہ فرد واحد ہو یا جماعت سب اللہ کے باغی ہیں ۔ اِس طرح اسلام میں نہ آمریت کا تصور ہے اور نہ جمہوریت کا کیونکہ دونوں اپنی اپنی حاکمیت کے قائل ہیں ۔ آمریت میں ایک شخص اپنا حکم چلاتا ہے اور من مانی کرتا ہے اور جمہوریت میں اکثریت اپنا حکم چلاتی ہے اور من مانی کرتی ہے۔ حقیقت میں دونوں اللہ کے باغی ہیں ۔ کیونکہ خدا کے ملک میں اس کی حکومت میں اپنا حکم چلاتے ہیں ۔ اسلام نے مخلوق پر مخلوق کی حکومت کے تصور کو باطل قرار دیا ہے۔ حکومت کا حق صرف مخلوق کے خالق مالک اور رازق کو ہی ہو سکتا ہے اور کسی کو نہیں ۔

ملت میں چوتھی چیز امت کی تشکیل ہے:
امت امام ایک مادہ سے ہیں ۔ یعنی ایک امام کے پیچھے جمع ہونے والے لوگ۔ امام حضور ﷺ ہیں ۔ اور قیامت تک پیدا ہونے والے لوگ حضور کی امت ہیں ۔ امت کی دو قسمیں ہیں ۔ امت دعوت اور امت اجابت۔ نبی جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوتا ہے وہ سب امتِ دعوت کے ضمن میں آتے ہیں ۔ اور جو آگے بڑھ کر دعوت کو تسلیم کر لیں وہ امت اجابت کہلاتے ہیں ۔

امت کا کام نبی کے خطوط پر خلافت کا قیام ہے۔ امت کے وجود کا مقصد ہی یہ ہے کہ دنیا میں کفر و شرک اور الحاد و دہریت کا خاتمہ ہو جائے اور شر پر خیر کو غلبہ حاصل ہو۔ قرآن نے اس کی طرف توجہ دلائی ہے۔

''كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ أُخْرِ‌جَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ...﴿١١٠﴾...سورة آل عمران'' (تم بہترین امت ہو۔ اس امت کو لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیا۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔)

حضور ﷺ نے خطبہ حجة الوداع میں تمام امتیازات ختم کر کے انسانوں کی جمعیت قائم کی اور فرمایا إن ربکم واحد وإن أباکم واحد...... تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ۔ مزید فرمایا: فلیبلغ الشاھد الغائب دنیا کے ہر ہر مقام اور وقت میں دین کی دعوت پہنچانا تمہارا فرض ہے جو کام میں کرنے آیا تھا وہ تمہیں سونپ رہا ہوں ۔

اس لحاظ سے مختلف عصبیتوں اور قومیتوں کے برعکس انسانوں کی مرکزیت قائم کر کے انہیں اللہ کے حکم کا پابند بنا دیا جائے تو امت تشکیل پاتی ہے۔ اور اللہ کا حکم پورا ہوتا ہے۔
''إِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَ‌بُّكُمْ فَاعْبُدُونِ ﴿٩٢...سورۃ الانبیاء''
بیشک تمہاری اُمت ایک ہی امت ہے۔ اور میں تمہارا رب ہوں ۔ اِسی سے ابراہیم علیہ السلام کی دعا پوری ہوتی ہے۔

وَمِن ذُرِّ‌يَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ (اے اللہ میری اولاد سے اپنی فرمانبردار امت پیدا کر دے۔)

امت کا مشن ملت کا قیام اور اس میں خلافت کا احیا ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام مسائل کا یہی حال ہے۔

اس مقالے میں مسلمانوں کی فکری منزل کے تعین کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے لئے مثبت نظام کے چند اشارات پیش کیے گئے ہیں ۔ امت مسلمہ کو اپنی تاریخ کا سب سے اہم سبق ہرگز نہیں بھولنا چاہئے۔ کہ خلافت سے ہی مسلمان بامِ عروج پر پہنچے اور اس سے گر کر پارہ پارہ ہوئے۔ جب تک مسلمانوں میں ملّت کے قیام کا صحیح شعور پیدا نہیں ہو گا ان میں مرکزیت پیدا نہیں ہو گی۔ اتحاد کے لئے کوئی مضبوط اساس اس کے سوا نہیں ہو سکتی۔ تیسری سربراہی کانفرنس کا ملت کے مرکز بیت اللہ میں افتتاح اور اعلان مکہ سے مسلمانوں میں اجتماعی شعور کی نشاندہی تو ہوتی ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ کنفڈریشن اور علاقائی سلامتی کے مختلف منصوبوں کی بجائے ملت کے قیام اور خلافت کے احیاء پر توجہ مرکوز کر دی جائے۔ انتہائی نازک حالات کسی معمولی کوتاہی کی اجازت نںیت دیتے۔ وقت تیزی سے اپنی منزلہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمیں اس سے زیادہ تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھنا چاہئے۔

مسلمان ایک عرصے سے محض وقتی اور ہنگای مصلحتوں کی بنا پر مختلف منصوبوں پر عمل پیرا ہیں لیکن انتہائی جانفشانی کے بعد بھی وہ نتائج مرتب نہیں ہو رہے جس کی خواہیش امت کا ہر فرد اپنے اندر رکھتا ہے۔ اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم سے وہ شاہراہ گم ہو گئی جسے صراط مستقیم کا نام دیا گیا ہے۔

اس وقت کرنے کا کام یہ ہے کہ فکری طور پر مسلمانوں کو مضبوط کیا جائے۔ مغربیت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ مغربی فکر نے عامة المسلمین کو شکوک و شبہات کا شکار کر رکھا ہے۔

یہ مغربیت کا اثر ہے کہ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اسلام مکمل نظام حیات ہے۔ دوسری طرف ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کا کوئی اپنا سیاسی یا معاشرتی نظام نہیں ۔ اس لئے جمہوریت اور سوشلزم کو ہی اسلامی بنا لینا چاہئے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا اپنا کوئی سیاسی یا معاشی نظام نہ ہو۔

دوسری بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ دین ہمارا اسلام رہے۔ سیاست اور معیشت ہم مغربی اپنا لیں ۔ حالانکہ معاشرت، معیشت اور سیاست زندگی کے تینوں شعبے باہم ایسے مربوط ہیں کہ کسی ایک کو دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ نظامِ سیاست مغربی ہو اور معاشرت اور معیشت اسلامی رہ جائے۔ ان تینوں نظاموں میں ایسا ربط باہمی ہے کہ جب ایک بدلتا ہے تو دوسرا لازماً بدل جاتا ہے۔ تینوں مل کر کسی نظامِ حیات کو ایک اکائی بناتے ہیں ۔ مغربی نظامِ سیاست سے ہی مسلمانوں کی معاشرت و معیشت سب مغربی طرز کی ہیں ۔ اور جب کسی قوم کے یہ تینوں نظام مغربی ہو جائیں ۔ تو اس کا نظام حیات کیسے اسلامی رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فکری اور عملی طور پر مسلمان اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ جب تک ہم اپنے نظامِ سیاست کو نہیں بدلیں گے۔ ہماری معاشرت اور معیشت مغربی ہی رہیں گی۔ کیونکہ نظامِ سیاست ہی وہ نظام ہے جو معاشرت اور معیشت کو کنٹرول کرتا ہے اس لئے مسلمانوں کا سیاسی طور پر مسلمان ہونا ضروری ہے۔