نظامِ حکومت اور خلافتِ راشدہ

سطور ذیل میں محدث کے مدیر اعلیٰ حافظ عبد الرحمٰں مدنی کا ''اسلام کے سیاسی تصور'' کے موضوع پر وہ انٹرویو دیا جا رہا ہے جو نمائندہ ہفت روزہ ''بادبان'' لاہور میاں شعیب الرحمٰن صاحب نے حافظ صاحب موصوف سے کیا۔ کتابت کی بعض اہم غلطیوں اور آخری دو صفحات میں عبارت کی غلط جڑائی نے اِسے ناقص بنا دیا تھا۔ قارئین اسے صحیح صورت میں ملاحظہ کریں۔ (ادارہ)

لانبے قد، سیاہ داڑھی اور عالمانہ وجاہت رکھنے والے حافظ عبد الرحمٰن مدنی، سکونت کے لحاظ سے تو پنجابی ہیں، مگر سوچ، خیالات اور احساسات اور دل و دماغ کے اعتبار سے واقعی مدنی ہیں۔ اپنے نام کے لاحقے ''مدنی'' کی رعایت سے ان پر ایک ہی خواہش، ایک ہی امنگ، ایک ہی تمنا اور ایک ہی دھن سوار رہتی ہے کہ کل قیامت کے روز مدینے والے کے سامنے سرخرو رہیں۔ بس یہی سوچ، یہی خواہش ان کی روح کو مضطرب، قلب کو بے قرار اور آنکھ کو بیدار رکھتی ہے۔
برصغیر کے معروف علمی خانوادے ''روپڑی خاندان'' کے اس چشم و چراغ نے جسے دنیاوی کاروبار کی تمام سہولتیں حاصل تھیں اور ہیں، اپنے لئے علمِ دین کے میدان کو منتخب کیا۔ لیکن قدرت نے ان پر معیشت کی راہیں یوں کشادہ کیں کہ ان کے چھوٹے بھائی لاہور ہی میں لوہے کا بہت بڑا کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کھانے کمانے کے ذرائع اچھے اور تمام سہولتیں بہ آسانی میسر ہوں تو آدمی کا ذاتی اخلاق، دینی حمیّت، مروّت، ہمدردی اور رواداری خطرے کی زد میں آجاتی ہے۔ ان تمام صفات پر ہمہ وقت حرص و ہوس اور غرور و تکبّر کی پرچھائیں پڑتی رہتی ہیں۔ لیکن حافظ صاحب کو اللہ نے یہاں بھی محفوظ رکھا۔ بے شک جو رب کو یاد رکھتے ہیں ان کا رب بھی انہیں کبھی نہیں بھُلاتا۔ حافظ صاحب ہر آنے والے سے تواضع فرماتے، عاجزی برتتے اور انکساری سے ملتے ہیں۔ اپنے زیرِ اہتمام چلنے والے تینوں اداروں کے اساتذہ طلباء اور ملازمین سے بڑی شفقت سے پیش آتے اور محبت کرتے ہیں۔
ماڈل ٹاؤن لاہور کے ''جے'' بلاک کی کوٹھی نمبر 99 ان کی دینی و تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ مجلس التحقیق الاسلامی (جس سے بحث و تحقیق اور تعلیم و تدریس کے ادارے مربوط ہیں) کا ہیڈ کوارٹر اور نادر کتابوں پر مشتمل ایک وسیع الشان لائبریری بھی اِسی عمارت میں ہے۔ میں حافظ صاحب سے ملاقات کے لئے ان کی رہائش پر پہنچا۔ انٹرویو کی بات کی تو جواب ملا ''میں کیا اور میرا انٹر ویو کیا؟ ہم لوگ تو ملت کی عمارت میں اینٹ، گارے کی چنائی کا کام کر رہے ہیں۔'' تصویر کے لئے کہا تو کنی کترا گئے، اصرار کیا تو مسکرا کر طرح دے گئے۔ ''میں تصویر نہیں کھنچواتا کہ میں اسے جائز نہیں سمجھتا۔'' میرا اصرار بڑھا ''صرف آج کھنچوا لیجئے۔'' نہیں آج کھنچوالی تو پھر گناہ کا حوصلہ ہو جائے گا۔'' پھر میری نظر میں دو سال قبل کا واقعہ گھومنے لگا۔
جب مجلس تحقیق الاسلامی نے دو روزہ قانون و شریعت کنونشن کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں جلالة الملک شاہ خالد کے مشیر ڈاکٹر معروف الدوالیبی بھی تشریف لائے تھے۔ اس وقت بھی حافظ صاحب نے جو اس تقریب کے میزبان تھے کیمرے کے سامنے آتے ہی کتاب سے منہ ڈھانپ لیا تھا۔
حافظ صاحب سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی تو تین گھنٹے لمحے بن کر اُڑ گئے ان سے ہمارا پہلا سوال تھا:۔
شعیب الرحمٰن: یہ سیاست کا لفظ جس نے بڑے بڑے گل کھلائے ہیں، کہاں سے آیا اور اسلام میں سیاست کا کیا تصور ہے؟
حافظ صاحب: اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے سیاست کا مفہوم اچھا ہے۔ اور اسلام میں کوئی دین و سیاست کی تقسیم بھی نہیں۔ عربی زبان میں ''سائس'' گھوڑوں کو سدھانے اور دیکھ بھال کرنے والے کو کہتے ہیں یہ لفظ ہم اُردو، فارسی میں بھی استعمال کرتے ہیں۔
سیاست کا معنی تدبیر کرنا اور سدھانا ہے۔ سائس اس کا اسم فاعل ہے اسلام میں کسی معاشرہ کو منظم بنانے اور اعلیٰ مقاصد پر گامزن کرنے کے طور طریقوں کا نام سیاست ہے۔ لیکن موجودہ علمِ سیاست کی رو سے سیاست میں اصل مقصود اقتدار رہ گیا ہے کیونکہ سیاست دان یا سیاسی جماعتیں اسی لئے وجود میں آتی ہیں کہ مخصوص مقاصد کے لئے اقتدار حاصل کریں۔ آج کل عملی سیاست میں بیشتر مقاصد نظر انداز ہو جاتے ہیں اور اقتدار سامنے رہتا ہے۔ حالانکہ اسلام کے سیاسی تصور میں اصل چیز اطاعت اور اس کی تدبیر ہے۔ قرآن کریم میں اس تصور کی تفصیلات موجود ہیں کہ انسان کا مقصدِ حیات زندگی کے ہر شعبے میں اطاعت و عبارتِ الٰہی ہے کیونکہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور سب اسے ماننے پر مجبور ہیں۔ اس لئے وہ موضوعِ بحث ہی نہیں۔
ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ ﴿٢٦...سورۃ الروم۔ ''آسمانوں اور زمینوں کے باسی اسی کے ہیں۔ سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔
دوسری جگہ فرمایا: ﴿وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ طَوْعًا وَكَرْ‌هًا...﴿٨٣﴾...سورۃ آل عمران۔  سب صاحبِ عقل و نطق مخلوق (جن انسان اور فرشتے) آسمانوں اور زمین میں اسی کے تابع فرمان ہیں خوشی سے اور مجبوری سے، ہماری موجودہ سیاست کی اصطلاح میں حاکمیت ''اقتدارِ اعلیٰ'' کے لئے استعمال ہوتی ہے لیکن اسلام کی رو سے اقتدارِ اعلیٰ کا اللہ کے لئے ہونا مسلمہ چیز ہے۔ قرآن کریم میں حاکمیت اقتدار کے معنی میں بھی استعمال ہوئی ہے اور اطاعت کے معنی میں بھی، جہاں اقتدار کے معنی میں استعمال ہوئی ہے وہاں اللہ کے سوا سب کو بے بس بتایا ہے۔
سورۂ یوسف میں ہے۔ ﴿لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّ‌قَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ...﴿٦٧﴾...سورۃ یوسف۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو مصر بھیجتے وقت یہ نصیحت کی کہ تم سب ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا اگرچہ میری یہ تدبیر تمہیں اللہ کی تقدیر سے کچھ بھی کفایت نہیں کرتی کیونکہ قوت اور فیصلہ صرف اسی کے ہاتھ میں ہے!
دیکھئے تدبیر بتانے کے باوجود تقدیر کے سامنے بے بسی کا اظہار کیا ہے۔
اسی سورۂ یوسف میں ہی ایک دوسرے مقام پر حکم اور حاکمیت کو اطاعت کے معنی میں بھی استعمال کیا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۚ أَمَرَ‌ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ...﴿٤٠﴾...سورۃ یوسف۔ اطاعت صرف اللہ کی ہے اس نے حکم دیا ہے کہ اسی کے بن کر رہو!
چونکہ یہاں ''حکم'' اطاعت کے معنوں میں استعمال کیا ہے اس لئے اطاعت کی کامل ہے شکل عبادت کا امر بھی دیا ہے لیکن اول الذکر آیت میں حاکمیت کو بطور فیصلہ اور قوت کے ذکر فرمایا ہے اور اس کے سامنے اپنی مجبوری بھی پیش کی۔ حاصل یہ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ تو اللہ کے لئے ہے اس لئے اطاعت صرف اسی کی ہونی چاہئے۔ اسی کی اطاعت کروانے کے لئے انبیاء دُنیا میں تشریف لاتے رہے اور لوگوں سے اس پر بیعت لیتے رہے۔ اطاعت کے لئے قرآنی اصطلاح ''دین'' ہے جو عقیدہ و عمل یا موجودہ اصطلاحات میں ''نظریہ'' اور ''نظام'' پر مشتمل ہے۔ قرآنِ کریم میں اِرشاد ہے۔ ﴿وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ...٥﴾...سورۃ البینه'' لوگ اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیئے گئے ہیں کہ اطاعت کو اس کے لئے خالص کریں۔ اسلام کا سیاسی فکر لوگوں کو (دین) اطاعتِ الٰہی کے لئے تیار کرنا ہے۔
شعیب الرحمٰن: حافظ صاحب آپ نے اسلام کے سیاسی نظریہ کے طور پر اطاعت کو پیش کیا ہے مروّجہ نظاموں کے تقابل سے اسلامی نظامِ حکومت پر بھی روشنی ڈالیے۔
حافظ صاحب: اسلامی نقطہ نظر سے انسان اطاعت و عبادت الٰہی کا مُکلّف ہے اسی لئے اسے خیر و شر کے چناؤ کا اختیار دیا گیا ہے جب کہ ملوکیت، آمریت اور جمہوریت میں انسان فرد واحد، پارٹی اور عوام کے فیصلوں کا پابند ہوتا ہے گویا ہمارے وضع کردہ نظاموں میں اقتدارِ اعلیٰ فرد یا جماعت کو سونپا جاتا ہے اور انہی کی اطاعت کے لئے اسے مجبور کیا جاتا ہے۔ دراصل ہمارے سب نظامِ انسانی غلامی کی مختلف صورتیں ہیں۔ ملوکیت اور آمریت کے خلاف پروپیگنڈے نے ہمیں دلیل سے بے نیاز کر دیا ہے لیکن جمہوریت کو انسانی آزادی کے شعار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ جمہوریت ایسا جبر ہے جس کے خلاف آواز بھی نہیں اُٹھائی جا سکتی بقول ڈاکٹر اقبال ؎

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

مغرب نے مسلمانوں کے جہاد کو بدنام کرنے کے لئے مذہبی جبر کا بڑا پروپیگنڈہ کیا ہے لیکن اسلام میں جہاد کا تصور ہی انسانوں کو انسانوں کی غلامی اور ظلم و ستم سے نجات دلانا ہے۔ جنگِ قادسیہ کے موقعہ پر سعد بن ابی وقاصؓ کے نمائندہ، ربعی بن عامر کے الفاظ اس کی اچھی مثال ہیں۔ مسلمانوں کی جنگجوئی کے متعلق رستم کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ ہم انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرانے اور ان کے ظلم سے نجات دلانے کے لئے نکلے ہیں۔
شعیب الرحمٰن: اسلامی جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیاراتِ حکومت سوسائٹی کو سونپ دیئے ہیں یعنی اصل اختیار و اقتدار تو اللہ ہی کا ہے انسانوں کو یہ اختیار خدا کا تفویض کردہ ہے۔ اس وضاحت کے متعلق آپ کی کیارائے ہے؟
حافظ صاحب: دراصل یہ توجیہہ دُنیا میں انسان کے خلیفہ الٰہی ہونے کے تصوّر سے پیدا ہوئی ہے حالانکہ یہ تصور ہمارے اسلاف میں بہت ناپسند کیا گیا ہے امام ابن تیمیہؒ تو ایسا عقیدہ رکھنے والے کو کافر اور مشرک کہتے ہیں۔ من اعتقد أن الإنسان خلیفة اللّٰہ فقد کفر۔ علامہ ماوردی احکام السلطانیہ میں جمہور علماء سے ایسے شخص کے بارے میں فاسق و فاجر ہونے کی رائے نقل کرتے ہیں کیونکہ اگر انسان کو خدا کا خلیفہ بنا کر وہی اختیار و اقتدار سے تفویض کر دیا جائے تو انسان خود مطاع بن جاتا ہے (خواہ اختیار مفوضہ کا حامل ہی کیوں نہ ہو) حالانکہ عام انسان تو کُجا نبی بھی مطاع مطلق اللہ جل شانہ کی اطاعت کرانے کے لئے آتا ہے۔ اِسی حیثیت سے وہ اللہ کا نمائندہ ''رسول'' ہوتا ہے۔ خلیفہ نہیں۔ اگر ''نائب'' اور ''نمائندے'' کے فرق پر غور کر لیا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کا یہ فرمان اسلامی فکر کی اچھی تعبیر ہے۔ کسی نے آپ کو خلیفة اللہ کہہ کر پکارا تو آپ نے جواب دیا:
''لست خلیفة الله بل أنا خلیفة رسول الله''
میں اللہ کا خلیفہ نہیں۔ میں تو رسول اللہ ﷺ کا خلیفہ ہوں۔
جدید علم سیاست کی رُو سے بھی حاکمیت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ کسی کو تفویض نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی حکمران اپنے قول و فعل کی یہ حیثیت مقرر کر دے کہ اس پر کوئی فرد یا ادارہ نظر ثانی نہ کر سکے تو گویا اُس نے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ کیونکہ بالا ترین ہونا اللہ کی صفت ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ﴿٢٣...سورۃ الانبیاء'' اللہ تعالیٰ کو کسی فعل پر باز پرس نہیں جب کہ باقی سب کا محاسبہ ہو گا۔ یہی چیز اسلام کو ملوکیت یا آمریت سے ممتاز کرتی ہے۔
شعیب الرحمٰن: کیا قرآن مجید میں انسان کو اللہ کا خلیفہ نہیں کہا گیا؟ آپ ''إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْ‌ضِ خَلِيفَةً'' کا کیا جواب دیں گے''؟
حافظ صاحب: سب سے پہلے ابن عربی نے ہمہ اوست کے نظریہ کی تفصیلات میں یہ فکر پیش کیا تھا جو بعد میں بعض دیگر علماء نے بھی اختیار کر لیا حالانکہ کتاب و سنت میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی نسبت سے خلیفہ نہیں کہا۔ اس آیت میں بھی خلیفہ کی اضافت اللہ کی طرف نہیں بلکہ یہ جنسِ آدم کی ایک صفت ہے کہ نوع بنی آدم میں خلافت کا نظام قائم ہو گا اگر ایک قوم خلافتِ ارضی کے مقام پر فائز ہو پھر نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر اللہ کی حجت پوری ہو کر دوسری قوم ان کی جگہ آبسے تو گویا وہ پہلی کی خلیفہ بنی یعنی خلافت ارضی بنی بنوع انسان کا ایک باہمی نظام ہے جو یکے بعد دیگرے زمین پر آباد ہو کر اللہ کی نعمتوں سے فیض یابی کی صورت میں حاصل ہوتا ہے اور نافرمانی کی وجہ سے یہ آہستہ آہستہ دوسری قوموں میں منتقل ہو جاتا ہے اسی اُصول سے نبوت اور دنیاوی سیادت بنی اسرائیل سے بنو اسمعیل کی طرف منتقل ہوئی تھی۔
شعیب الرحمٰن: آپ نے اسلام کے سیاسی نظرئیے کی وضاحت میں اطاعتِ الٰہی کا جو فکر پیش کیا ہے اس سلسلے میں آپ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ میں مذکور اطاعت کا کیا جواب دیں گے؟
حافظ صاحب: اطاعتِ مطلق تو صرف اللہ کے لئے ہے لیکن اس اطاعت کے لئے ظاہری پیروی رسول اللہ ﷺ کی کرنی ضروری ہے۔ تاکہ اسلام صرف نظریہ نہ رہے بلکہ رسول ﷺ کے عملی نمونہ کی صورت میں ایک نظام بن کر اُبھرے چونکہ یہ نظام رسول وحی کی راہنمائی میں قائم کرنا ہے اس لئے رسولﷺ کی پیروی حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت ہی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ''مَّن يُطِعِ الرَّ‌سُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ'' اسی طرح ملّت کی بقاء کے لئے نائبِ رسول ''أولي الأمر'' کی اطاعت بھی ضروری ہے تاکہ ایک شخص ملّت کا تحفظ حاصل کر کے اطاعتِ الٰہی کا فریضہ آزادی سے انجام دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں خلیفہ کی بیعت اللہ ہی کی بیعت سمجھی جاتی ہے۔ قرآن میں ہے۔ ''إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّـهَ يَدُ اللَّـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ...﴿١٠﴾...سورۃ الفتح'' جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں حقیقت میں وہ اللہ کی بیعت کر رہے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں پر ہے۔ اسلام میں خلافت نبی کی جانشینی کا نام ہے اس لئے خلفاء کی بیعت بھی درحقیقت اللہ ہی سے بیعت ہوتی ہے۔ خلافتِ راشدہ میں اسی تصوّر کے تحت خلفاء ''خلیفة رسول اللہ'' کہلواتے تھے۔ جب حضرت عمر بن الخطابؓ خلیفہ بنے تو ان کے لئے ''خلیفة خلیفة رسول اللہ'' کا لفظ تجویز ہوا جو بھاری بھر کم ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر انہیں ''امیر المومنین'' کہنے کا فیصلہ کیا گیا۔
شعیب الرحمٰن: ایک ذہن یہ ہے کہ چونکہ خلافتِ راشدہ نبوت سے متصل تھی اس لئے اس کی تجدید نہیں کی جا سکتی۔ اب نیا ڈھانچہ اور نظام وضع کرنا پڑے گا۔
حافظ صاحب: اگر یہی ذہن بنا لیا جائے تو کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ عبادات کا جو نظام عرب کے مخصوص حالات میں رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں چلتا رہا اس پر آج نظر ثانی ہونی چاہئے حالانکہ رسول اللہ کی سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم ہمیں واضح طور پر دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے ''علیکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین'' میری سنت اور خلفائے راشدین کے طرز عمل کو لازم پکڑو۔ دراصل احوال و زمانہ کے بدلنے سے نظام کی بقاء کا مسئلہ بڑا اہم ہے۔ ہم مستشرقین کے پیدا کردہ شبہات سے مغالطوں کا شکار ہو کر اسلام کی تعمیرِ نو یا تشکیلِ جدید کی ضرورت محسوس کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ غور فرمائیے انسانیت کا نظام حالات و زمانہ کے بے انتہا اختلافات کے باوجود آج تک قائم ہے اور اس کے لئے بنیادی ہدایات بھی ابدی ہیں۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کوئی نیا دین لے کر نہیں آئے بلکہ تمام انبیاء کا دین ایک تھا لیکن آپ ﷺ نے ایک مکمل نظام پیش کیا ہے۔ اگر ہم اس نظام کو چھوڑ کر صرف اصل نظرئیے کی بقاء کا دعویٰ کریں تو نبوت کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ نبی کا کام امتیازی نظام پیش کرنا ہی ہے۔ ورنہ رسولِ اکرم ﷺ کے بارے میں دین کو کامل کرنے کے متفقہ عقیدہ کا کوئی معنی نہیں رہتا۔ آپؐ کا خاصہ یہ ہے کہ جو نظریہ اور عقیدہ آدم علیہ السلام سے چلا آتا تھا اسے آپ ﷺ نے مکمل نظام کی صورت دے دی اگرچہ نظام تو پہلے انبیاء نے بھی پیش کیے ہیں لیکن وہ دینِ اسلام کے کامل اور اکمل نظام نہیں تھے۔ اسی لئے ہم ان کی شریعتوں کو ناقص کہتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی شریعت کو تبدیل کرنا کسی کا اختیارنہیں کیونکہ یہ ہر لحاظ سے کامل اور اکمل ہے کہ اب تا قیامت اس شریعت کو تبدیل کرنا کسی کا اختیار نہیں اس میں نہ کوئی تبدیلی کر سکتا ہے اور نہ اس پر اضافہ کیا جاسکتا ہے خاتم النبیین کا یہی معنی ہے۔ دراصل جزئیات شریعت کی تبدیلی اور نظامِ جدید کی تشکیل کا دعویٰ نعوذ باللہ دینِ محمدی کے دیوالیہ پن کا اعتراف ہے۔ ہمارے ہاں کی مرعوبانہ ذہنیت بعض اوقات دورِ نبوت میں بھی جدید غیر اسلامی نظریات کی تلاش کی دعوت دیتی ہے۔ حالانکہ اسلام اپنی تعبیر میں غیروں کا محتاج نہیں۔
اسلام کی صحیح تعبیر وہی ہے جسے ہمارے اولین اسلاف پیش کرتے رہے اور نظام کی صورت میں انہوں نے اسے اپنایا بھی۔ اسلام کا مثالی نظام وہی ہے جو خلفائے راشدین کے دور میں اُمت نے اختیار کیا اگر اسی ملّتِ اسلامیہ کی تشکیل مقصود ہے جسے رسولِ اکرم ﷺ نے قائم کیا تو پھر اس کی شکل خلفائے راشدین کے نظام کی سی ہو گی۔ واضح رہے کہ ملّت کا تعلق نبی سے ہوتا ہے ملّت کے معنی عربی زبان میں ثبت شدہ یا لکھی ہوئی چیز کے ہیں چونکہ کسی فکر کے عملی خطوط اسوۂ حسنہ کی صورت میں نبی ثبت کرتا ہے ان نقوش کا نام ملّت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملّتِ کی اضافت اللہ کی طرف بھی جائز نہیں حالانکہ ملّتِ دین کا نقشہ اور دین صرف اللہ کا ہوتا ہے۔
دراصل دورِ حاضر میں تصور ملّت وہ حَدِّ اوسط ہے جو دو انتہائی نکات کو ایک جگہ جمع کر دیتی ہے۔ ایک یہ کہ خلفاء راشدین کا نظام حالات و زمانہ کی تبدیلی کے باوجود واپس کیسے لایا جا سکتا ہے۔
دوسرا یہ کہ اسلام ایک ابدی نظام ہے اس لئے تا قیامت اس میں تبدیلی یا اضافے کی گنجائش نہیں مقصود یہ ہے کہ ملّتِ اسلامیہ کے وجود کی صورت میں نظامِ محمدی اور خلفائے راشدین کی پیروی ممکن ہے اور اگر اسلام کے نام پر کسی نئے ڈھانچے اور نظام کو ترویج دینے کی کوشش کی گئی تو وہ اسلام نہ ہو گا۔ کیونکہ ملتِ محمدّیہ کا وجود زندگی کے تمام شعبوں میں نظامِ محمدّی بمعہ جملہ تفصیلات کی بقا اور ابدّیت کا ضامن ہے۔ آج کل بعض لوگ خلفاء راشدین کے نظام حکومت میں جمہوریت کی تلاش کر دیتے ہیں جبکہ اس سے قبل آمریت کو بھی اسلامی رُوح کے زیادہ قریب بتایا گیا ہے۔ اِسی نظر سے صدارتی نظامِ حکومت کو پارلیمانی نظام کی جگہ اختیار کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے حالانکہ یہ سب نظام رُوح ملّت کے منافی ہیں۔ خلفائے راشدین کا نظام اپنی امتیازی بنیادوں پر قائم ہوا اور اسی رُوح کے ساتھ چلتا رہا۔ ہمیں صرف اِس کی مرکزیت سے کبھی آمریت کا واہمہ ہوتا ہے اور کبھی خلفائے راشدین پر عام لوگوں کی تنقید اور ان کے مساوی طور پر قانون کے سامنے جواب دہ ہونے کی بناء پر جمہوریت کی مزعومہ آزادی کا شبہ پڑتا ہے حالانکہ یہ اِسی طرح مغالفہ ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا انسان کی بعض صفات سے تشابہ ہوا تو قرآن مجید نے ''لیس کمثلہٖ شیٌ'' یعنی اس کی مثل کوئی نہیں کہہ کر اس مغالطے کا ازالہ کیا۔ ہمارے ہاں مقبول عام الفاظ استحکام، مساوات اور آزادی کا آمریت، اشتراکیت اور جمہوریت میں ثبوت اسی طرح ہے جیسے مشرکین نے اپنے بتوں کے نام خدائی صفات کے حامل رکھ دیئے تھے۔ قرآن کریم نے اِن صفات کو صرف نام قرار دیا۔﴿إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ...٤٠﴾...سورۃ یوسف (ترجمہ) یہ صرف نام ہیں جو تم اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ دیئے ہیں جن کی کوئی دلیل نہیں حاکمیّت صرف اللہ کے لئے ہے۔
شعب الرحمٰن: نظریاتی طور پر ایک مسلمان نظام محمدی یا خلافتِ راشدہ کی ابدیّت تسلیم کرتا ہے لیکن اُلجھن یہ ہے کہ احوال و زمانہ کے اتنے بُعد اور تفاوت سے اس دَور کو ہُو بہُو واپس لانا بڑا مُشکل ہے۔
ایک جامد شے ہر دم بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ کیسے دے سکتی ہے؟
حافظ صاحب: ہر نظام میں خیر و شر کے پیمانوں کی ایک خاص نوعیت ہوتی ہے جس پر اس نظام کے عدل و ظلم اور صلاح و فساد کا دار و مدار ہوتا ہے۔ جس نظام کی جزئیات اور تفصیلات کی ترتیب اس انداز کی ہو کہ ہر جگہ خیر، عدل اور اصلاح غالب رہے۔ تو وہ نظام فلاحی ہو گا۔
درحقیقت اسلام کا تصوّر فلاح ہے جو نجات سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ نجات میں کسی نہ کسی طرح ایک نقصان دہ چیز سے چھٹکارا حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے خواہ دوسرے پہلو سے کچھ نقصان بھی اُٹھانا پڑے جیسے کوئی شخص چھت سے کود کر جانی دشمن سے نجات حاصل کرے خواہ اِسے زخمی ہو کر حاصل ہو لیکن فلاح عربی زبان میں اس کامیابی کو کہتے ہیں جو ایک منظم محنت کے بعد مقصود سے بار آوری کی صورت میں حاصل ہو۔
عربی زبان میں کاشت کار کو بھی فلاح کہا جاتا ہے کیونکہ وہ باقاعدہ محنت سے کھیتی باڑی کر کے ثمرہ حاصل کرتا ہے دراصل نظام خیر، عدل اور اصلاح کی اِسی ترتیب کا نام ہے اس ترتیب کو باقی رکھتے ہوئے جو تدبیریں اور مساعی کی جاتی ہیں وہ نظام کا لازمی حصہ نہیں ہوتیں بلکہ وہ اس نظام کی لچک کی بنا پر اس کی ابدیّت کی دلیل ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر کتاب و سنت میں تجارت اور صلح و جنگ کے لئے ہدایات موجود ہیں لیکن اِن ہدایات کے علاوہ ہم تجارت کے لئے یا صلح و جنگ کے میدانوں میں جو وسیع تدبیریں کرتے ہیں۔ وہ اس زمرے میں آتی ہیں۔ یہی ذہنی کوشش اجتہاد اور عملی کوشش جہاد کہلاتی ہے۔ اقتصاد و سیاست کے شعبوں میں حکومت کے انتظام کا بہت بڑا حصہ انہی کوششوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان مساعی میں عموماً خیر و شر یا عدل و ظلم کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا اس لئے ایسے معاملات میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ کی سوچ پر کبھی قدغن نہیں لگائی اور یہی میدان مشورے کا ہے۔ جنگِ بدر میں قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا، کھجوروں کو پیوند کرنے سے منع کرنا، بریرہ کو مغیث کے نکاح میں رہنے کا مشورہ دینا اس قبیل سے ہے البتہ ان تدبیروں میں اگر کہیں خیر و شر کا مسئلہ پیش آجائے تو یہ بھی شرعی ہدایات کی پابند ہو جاتی ہیں جیسا کہ جنگِ بدر کے قیدیوں کو چھوڑنے پر اس لئے سرزنش کی گئی کہ ان کے فدیہ کے پسِ منظر میں متاعِ دنیا کا لحاظ غالب ہو گیا تھا دراصل کسی حکمران کا نظم حکومت چلانے میں اختیار ان شرعی حدود سے محدود ہے۔ چونکہ آج نظام کا لفظ انتظامِ حکومت کے مفہوم سے بہت وسیع تر ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ کا نظمِ حکومت میں اجتہاد کرنا، دوسروں سے مشورہ کرنا اور اس سلسلے میں دوسروں کو تدبیر کی پوری آزادی دینے سے یہ مغالطہ پڑتا ہے کہ شاید اس بارے میں کھلی چھٹی دے دی گئی ہے حالانکہ مشورہ اسلامی اصولوں اور ضوابط کا پابند ہے اس میں اسلامی رُوح کا جاری اور ساری رہنا ضروری ہے اور یہ صرف جائز اُمور میں ہوتا ہے۔
اجتہاد کا مفہوم اگرچہ ہر قسم کے حالات میں شرعی تعلیمات کا اطلاق ہی ہے لیکن اجتہاد کی اجازت شرع کو حرکی اور مستقل حیثیت دیتی ہے اگرچہ اجتہاد کے لئے شرعی حدود متعین ہیں اور اس کے طور طریقے بھی شرع نے مقرر کیے ہیں۔
جب ہم نظامِ محمدی یا خلافتِ راشدہ کے نفاذ کی باتیں کرتے ہیں تو سارا مقصود نظام کے ان لازمی پہلوؤں کی بقاء ہوتا ہے جو ہم نے بیان کیے ہیں۔ تدبیر و اجتہاد کے جمود کا خلافت راشدہ کے مدعیوں پر غلط الزام لگایا جاتا ہے۔
مسلمان خلفاء کی تدبیریں ہمارے لئے ایک تاریخی تجربے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ تجربات فائدہ اُٹھانے کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ دورِ ماضی کو واپس لانے کے لئے۔ اُس مسئلہ کی وضاحت کے لئے خلفاء راشدین کے انتخاب کی مثال پیش کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں۔
میں عرض کر چکا ہوں کہ خلافت نبوت کی جانشینی کا نام ہے لہٰذا خلیفہ کے لئے زیادہ سے زیادہ نبی کی صفات کے قریب تر ہونا ضروری ہے۔ خلافتِ راشدہ کے مثالی دَور کے انتخابات کو سامنے رکھیں تو ہر انتخاب میں اسلامی نظام کی اس ہدایت کا لحاظ سامنے آتا ہے لیکن تقرّر خلیفہ کا کوئی طریقہ متعین نہیں کیونکہ وہ تدبیر ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے اس قدر پابند تھے کہ پہلے قرآن مجید کو بھی کتابی صورت دینے کے لئےتیار نہ تھے وہی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نامزد کرتے ہیں تو اُس کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو نامزد نہ کیا تھا یہی حال خود حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا ہے۔
آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اتباع میں چھ اشخاص کو نامزد تو کیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں کسی کی تعیین نہیں کی گویا جزوی اتباع کے باوجود نیا طریقہ اپنایا حضرت ابو بکرؓ سے لے کر حضرت علیؓ کے انتخاب تک جتنے نام خلافت کے لئے پیش ہوئے ان کا سب سے اہم معیار یہی تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے قریب تر تھے یہ قُرب رشتہ داروں کے اعتبار سے تو اتفاقی تھا اصل قُرب تقویٰ اور سبقت اسلام کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفے کے تقرر یا تجویز کے وقت رسول اللہ ﷺ کی محبت اور ہجرت وغیرہ کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ یہ متقی اور مسلم معاشرے کے مسائل سے باخبر ہونے کی نشانی تھی۔
حاصل یہ ہے کہ اس انتخاب میں نیابت نبوت کے اصول کا پورا لحاظ رکھا گیا لیکن تدبیری مراحل میں اجتہاد کی پوری آزادی دی گئی۔ اسلامی نظام کی بقاء اور ابدیت کے لئے یہ دونوں پہلو خلافت راشدہ کے اعلیٰ دَور کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں!
شعیب الرحمٰن: اجتہاد کا میدان تو بڑا وسیع ہے یقیناً آپ کے ذہن میں اِس کے تفصیلی گوشے ہوں گے بہت سے عقدے اس وقت ہی کھلیں گے۔
جب اِس نظام کو ہم اپنائیں گے لیکن آپ یہ بتائیے کہ کسی حکومت کو اسلامی بنانے کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے؟

حافظ صاحب: آپ کا سوال بڑا اہم ہے حکومت کی حیثیت ایک فرد یا ادارے کی ہوتی ہے۔ کوئی کافر شخص اپنی زندگی کے وسیع روابط اور اُلجھنوں میں گھرا ہوا ہو او مسلمان ہونا چاہئے تو اس کا طریق تو یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو جائے جو اِس کے اسلامی دور میں داخلے کے معاہدے کا اعلان ہے لیکن کسی ادارے کا اعلان وہ دستور و منشور ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ ادارہ معرضِ وجود میں آتا ہے اور اِسی کے تحت وہ ادارہ اپنے مقاصد کے لئے رواں دواں ہوتا ہے گویا حکومت و ریاست کے لئے مسلمان ہونے کی اولین شرط یہ ہے کہ اس کا آئین و دستور کتاب و سنت ہو اور جملہ قواعد و ضوابط اِسی بنیادی دستور قرآن و سنت کے تابع ہوں جب تک کوئی حکومت کتاب و سنت کے دستور کا اعلان نہیں کرتی وہ اسلامی حکومت نہیں ہوتی۔ اگرچہ سارے نظام کو عملی طور پر کتاب و سنت کے مطابق بنانے کا مرحلہ آہستہ آہستہ طے ہو گا۔ لیکن اس اعلان اور حلف کی حیثیت وہی ہے جو ایک شخص کے کلمہ پڑھ کر مسلمان بننے کی ہے اگرچہ کسی علاقے میں نفاذِ شریعت یک طرفہ عمل نہیں۔ بلکہ اس کی کامیابی کے لئے حکومت و عوام دونوں کی کوششیں ضروری ہیں لیکن کسی ملک میں کتاب و سنت کی دستوری حیثیت حکومت کے سرکاری اعلان ہی سے ممکن ہے۔ عوام اپنے طور پر کتنی بھی شریعت کی پیروی کریں سرکاری اعلان کے بغیر حکومت اسلامی نہیں بن سکتی بلکہ ایک سمت متعین کرنے کے لئے شریعت کا وضعی قانون سے تضاد دور کرنا پہلی ضرورت ہے۔ اراکینِ حکومت، سرکاری مشینری اور عوام مسلمان ہونے کے ناطے ایک طرف محمدی شریعت کے مکلف ہوتے ہیں تو دوسری طرف آئین و قوانین سے وفاداری کا عہد کر کے تضاد کا شکار ہوتے ہیں۔ کیونکہ آئین سب سے بالا تر دستاویز ہوتی ہے اس کی بالا دستی کی صورت میں کتاب و سنت کی بالا دستی قائم نہیں رکھی جا سکتی لہٰذا میرے نزدیک حکومت کو اسلامی نظام کی ابتداء کتاب و سنت کے آئینی اعلان سے کرنی چاہئے۔
شعیب الرحمٰن: کیا کتاب و سُنّت کی آئینی حیثیت کے بعد کوئی آئینی نظام قائم رہ سکے گا؟ اِس طرح ایک وسیع خلا پیدا ہو جانے کا امکان ہے!
حافظ صاحب: ایک نظام کی جگہ دوسرے نظام کے لانے میں ایسی مشکلات پیش آتی ہیں لیکن کتاب و سُنّت ایک الہامی ہدایت ہے اس لئے اس مسئلہ کا حل بھی اِسی سے ملے گا۔
میں نے آپ سے ذکر کیا ہے کہ انتظامِ حکومت کا تعلق تدبیر و اجتہاد سے ہے اس لئے تدبیر و اجتہاد پر مبنی حکومت کا ڈھانچہ اور سرکاری مشینری باقی رہے گی۔ صرف آئین کی ان شقوں اور سرکاری اداروں کی ان کار گزاریوں پر اثر پڑے گا جو کتاب و سنت کے منافی ہیں اور یہ کام جو عملی اصلاح کا ہے تدریج سے ہو گا۔ ہمارے مروّجہ نظام میں بھی حکومتوں میں انقلابات اور آئے دن مارشل لاء لگتے رہتے ہیں جن میں آئین عموماً منسوخ یا معطل کر دیا جاتا ہے، سرکاری مشینری میں بے انتہا رد و بدل کیا جاتا ہے، مارشل لاء کے حکم اور ضابطے اختیارات کا تعین کرتے ہیں، فردِ واحد یا مضبوط گروپ اپنی مرضی کو قانون کا درجہ دیتا ہے، زیادہ سخت روّیہ اختیار کیا جائے تو بڑی بڑی عدالتوں سے بھی اختیارِ سماعت چھین لیا جاتا ہے گویا پوری حکومت وقتاً فوقتاً جاری کردہ احکامات کے تابع ہوتی ہے، عدل و ظلم اور خیر و شر کا پیمانہ ایڈمنسٹریٹر کی زبان بن جاتی ہے۔ عبوری حالات میں ملک کے سارے کام آخر چلتے ہیں، کتاب و سُنّت کی آئینی بالا دستی سے کوئی نظام تل پٹ نہیں ہو جائے گا بلکہ اگر کسی کو تبدیلیوں کا وسیع اختیار دیا جائے گا تو عدل و انصاف کے ابدی ضابطے کتاب و سُنّت کی شکل میں شہری حقوق کے محافظ ہوں گے پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو گی۔ انسان جو تدبیریں کرتا ہے ان کا انجام تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کیا خدا کی حاکمیت عملی طور پر قائم کرنے سے رحمتِ الٰہی ہمیں اپنی آغوش میں نہیں لے گی؟ کتاب و سنت کی موجودگی میں ملکی آئین اور اداروں کی کارکردگی پر جو نظر ثانی کی جائے گی اوّل تو اس سمت چلنے سے نئی راہیں خود کھُلیں گی۔ لیکن اگر فرض کر لیں کہ کہیں رکاوٹیں پڑ جاتی ہیں تو ہنگامی طور پر بعض جگہ Status Quo بھی رکھا جا سکتا ہے۔ قحط سالی کے زمانہ میں حضرت عمرؓ نے چوری کی سزا معطل کر دی تھی۔ اِسی طرح آپؓ نے اور دیگر خلفاء نے اصلاحی مقاصد سے اضافی سزائیں دیں اور پابندیاں بھی لگائیں۔ بعض لوگ انہیں شریعت میں اضافہ یا تبدیلی کرنے کی دلیل بناتے ہیں لیکن یہ شرعی ہدایات کی روشنی میں انتظامی اور تعزیری اقدامات تھے جن کا شرع نے حاکم کو اختیار دیا ہے مقصود یہ ہے کہ جملہ اقدامات کتاب و سُنّت کی روشنی میں ہونے چاہئیں۔
شعیب الرحمٰن: نفاذِ شریعت کے سلسلے میں سماجی اور عوامی سطح پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
حافظ صاحب: شریعت کی عملداری دو طرفہ عمل ہے اس سلسلے میں حکومتی کوششوں کو بار آور بنانے کے لئے سماجی خدمت گزاروں اور عوام کا بڑا دخل ہے۔ معاشرہ اگر اسلام کے لئے تیار نہ ہو تو اسلامی پابندیوں کے خلاف ذہنی بغاوت بھی پیدا ہو سکتی ہے اس سلسلے میں اگر سیاستدانوں کی طرز پر عوام کی خوبیوں کی گردان کی جائے تو ساری ذمہ داری حکومت پر آن پڑتی ہے۔ لیکن میرے نزدیک نفاذِ شریعت سب کی ذمہ داری ہے۔ اسلام کو قبول کرنے کی مخاطب جس طرح حکومت ہے اسی طرح عوام ہیں بلکہ عوام کی قوت سے حکومت کو قوت ملتی ہے اور عوامی دباؤ سے حکومت مجبور ہوجایا کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: کلکم راعٍ وکلکم مسئول عن رعیّته تم سب ذمہ دار ہو۔ اور سب سے ان کی ذمّہ داری کا حساب ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں حکومت اپنے ذرائع ابلاغ سے عوامی ذہن کو اسلامی اقدار سے روشناس کراتی ہے اور مختلف پابندیوں سے فحاشی اور برائی کی انگیخت کرنے والی راہوں کو بند کرتی ہے وہاں ان چیزوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کرنا اور خدائی احکامات کی تعمیل کرنا عوام کی ذمہ داری ہے۔
علماء اور سماجی کارکن اس سلسلے میں فضا کو ہموار کرنے اور خیر کو فروغ دینے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
شعیب الرحمٰن: نفاذ شریعت کے سلسلے میں آپ کیا کر رہے ہیں؟
حافظ صاحب: آپ سے ابھی تک زیادہ گفتگو نظامِ حکومت اور نفاذِ شریعت کے سلسلے میں ہوتی رہی ہے لیکن اس کے لئے کارکن اور مشینری مہیا کرنے کے لئے افراد کی تیاری کلیدی کام ہے۔ چونکہ میں علمی مزاج رکھتا ہوں اس لئے میری زیادہ کوشش بحث و تحقیق اور تعلیم و تدریس کے میدانوں میں صرف ہو رہی ہے۔ میرے زیرِ اہتمام جو ادارے چل رہے ہیں وہ مجلس التحقیق الاسلامی کے تحت مربوط ہیں ۔ اس مجلس کا آرگن ماہنامہ محدث ہے مجلس کے اہم ترین مقاصد نفاذِ شریعت کی مساعی کو بار آور بنانا، اس سلسلے میں علمی مدد دینا اور کارکنوں کی تیاری ہیں۔
مذکورہ مقاصد کے لئے مجلس کا ایک شعبہ إدارةالبحوث العلمیة (المجمع اسلامی (Islamic Academy) ہے جس میں اہلِ علم کی وساطت سے ملک و ملّت کو درپیش مسائل میں کتاب و سنت کی صحیح راہنمائی پیش کی جاتی ہے۔ نیز دیگر زبانوں سے اردو اور عربی میں ترجمے کے کام کا اہتمام ہے۔ کیونکہ اس وقت جو حالات ہمارے سامنے ہیں ماضی میں جزوی طور پر کئی ملکوں کو ان کا سامنا ہوا۔
بلاد عرب سے مصر بالخصوص سے دو چار ہوا اس لئے عرب علماء نے اس سمت معتدبہ لٹریچر بھی پیش کیا ہے لیکن ہمارے ہاں یا تو ان مسائل کی طرف توجہ کم دی گئی یا اس میدان کا شہسوار طبقہ عربی سے نابلد ہونے کی وجہ سے اس لٹریچر سے استفادہ نہیں کر سکا۔
قدیم اور جدید قانون و شریعت کے ماہرین علماء کی ایک مجلس نے 1914ء سے لے کر 1920ء تک چھ سال کی مدّت میں اسلامی دستور کا ایک خاکہ بھی تیار کیا تھا جو بعض ناگوار وجوہ کی بنا پر نافذ نہ ہو سکا۔ اسی طرح 1978ء میں بھی شیخ الازہر کی سرپرستی میں ایک اسلامی دستور کا خاکہ تیار کیا گیا ہے۔ جو عربی میں چھپ کر اُردو میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کمیٹی کے ایک فاضل رُکن ڈاکٹر کمال وصفی نے اسلامی نظامِ حکومت کے مختلف شعبوں کے موضوع پر ایک محققانہ تصنیف بھی کی ہے۔ جس کا نام (مصنّفة النظم الاسلامیة) ہے۔ اسلامی حکومتوں کے زوال کے دور میں شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن قیمؒ کی کتابیں بھی بڑی اہم ہیں۔ ہمارے ہاں سے محاسبہ کے موضوع پر ابنِ تیمیہؒ کی کتاب ''الحبة'' اور اسلامی نظام عدالت کے بعض اہم پہلوؤں پر مشتمل ابن قیمؒ کی تصنیف ''الطرّق الحکمیة'' کا ترجمہ ہو چکا ہے بہت سا دیگر کام تکمیل کے مراحل میں ہے۔ نفاذِ شریعت کی کوششوں کی ایک کڑی لاہور میں ''کلیة الشریعة'' کا افتتاح بھی ہے۔ اگرچہ کلیة الشریعة میں علماء کی بڑی معقول تعداد تین کلاسوں کی صورت میں زیرِ تربیت ہے جن میں سے ہماری ایک کلاس اس قسم کی ہے جس میں وہ علماء زیرِ تربیت ہیں جو جدید علوم سے بھی بہرہ ور ہیں ان میں عصری یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی شامل ہیں ہماری کوشش ہے کہ یہ شعبہ مستقبل میں ''المعھد العالي للشریعة'' یعنی اسلامی شریعت کی اعلیٰ تربیت گاہ کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دے۔ اس کے علاوہ ''مدرسہ رحمانیہ'' جو ملک کی ایک معروف دینی درسگاہ ہے اس کا ذکر اس مناسبت سے کر رہا ہوں کہ غالباً آپ کو اس انٹرویو کی تحریک بھی اِس دعوت نامہ سے ہوئی جو اس درسگاہ کی تقریب اسناد پر آپ کو بھیجا گیا تھا۔ مدرسہ رحمانیہ دینی مدارس کو جدید انداز پر چلانے کے لئے ایک تحریک ہے۔ اس نے دینی مدارس کو منظم طریقہ پر چلانے کے لئے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ اگرچہ ہماری مذکورہ کوششیں مناسب عمارات کی نایابی کی وجہ سے متفرق عمارتوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ تاہم ہمارے سامنے لاہور میں ایک اسلامی یونیورسٹی کا صحیح معنوں میں قیام ہے!