جمہوریت یا اسلام؟(قسط 2)

جماعت سازی اور سیاست بازی:
ایک مسلمان بیعت اور ''امانت'' کو ووٹ، شورائیت کو رائے شماری کے مترادف قرار دینے اور کثرت رائے کو معیار تعلیم کرنے کے بعد جمہوریت کی دیگر قباحتوں کو قبول کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کیونکہ دیگر قباحتیں جمہوریت کے اِس درخت کی شاخیں ہیں جو رائے شماری اور کثرت رائے کی جڑوں پر قائم ہے۔ جب کثرت رائے ہی فیصلے کا معیار ٹھہرتی ہے تو بنیادی بات ہے کہ رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے کے لئے جماعت سازی کا سلسلہ شروع ہو گا اور ایک ایسا گروہ وجود میں آئے گا جس کا کام ''سیاست بازی'' کی فضا قائم کرنا ہے جس کی موجودگی اِس بات کا تقاضا کرے گی کہ عوام آئینی اور سیاسی مقتدرِ اعلیٰ میں منقسم اور حزب اقتدار و اختلاف کے خانوں میں بٹے رہیں تاکہ سیاست بازی کے شغل سے مکمل طور پر استفادہ کیا جا سکے۔

ان سیاست بازوں کا تحفظ وہ نظام کرتا ہے جس میں ایک ایسے طبقے کی گنجائش موجود ہوتی ہے جو عوام کی محنت کے بل بوتے پر اپنی سیاست بازی کے شغل کو اپنا سکتا ہے۔ انہیں اس سلسلے میں کوئی خدشہ لاحق نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی اس شغل میں یہ سوچ رکاوٹ بن سکتی ہے کہ چند افراد کی معاشی کفالت ان کی ذمہ داری ہے۔ یہ اس لئے کہ طبقاتی اور سرمایہ دارانہ نظام نے ان کے اس مسئلے کو حل کر دیا ہے۔ نتیجۃً جمہوری نظام میں وہی لوگ سیاست بازی کا شغل اپنا سکتے ہیں جو سرمایہ دار ہوں یا پھر سرمایہ داروں کا تحفظ انہیں حاصل ہو ورنہ ایک عام آدمی سرمایہ داری نظام میں معاشی طور پر خود کفیل ہونے کی دوڑ میں ہی کولہو کا بیل بنا رہتا ہے یا پھر اس کے لئے بھیڑ چال کا شکار بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اِسی طرح وہ کسی ایک اس غول میں جا شامل ہوتا ہے جسے کسی ایک سیاست بازنے پال رکھا ہو اور یہ احتیاط کرنی پڑتی ہے کہ زبان سے ''بھیں بھیں'' یعنی ہاں ہاں۔ یا ہاتھ اٹھانے اور سر ہلانے کی بجائے زبان نہ کھولے ورنہ دوسری بھیڑیں ''بھیں بھیں'' کر کے اس کا اس غول میں رہنا دو بھر کر دیں گے۔ اور چرواہے کے بھیس میں بھیڑیا یعنی سیاست باز اسے کان سے پکڑ کر اپنے غول سے باہر لا کھڑا کرے گا جس کے بعد گوشہ تنہائی اس کا مقدر بن جاتا ہے کیونکہ کسی اور غول میں شامل ہونے میں یہی شرط ہے کہ وہ زبان بند رکھے۔

اس جمہوری قباحت کے ضمن میں یہاں صرف ان چند افراد کے نام درج کرنا کافی ہو گا جو صرف ''زبان کھولنے'' کے جرم میں ایک غول سے دوسرے غول میں گئے پھر گوشۂ تنہائی میں گم ہو کر رہ گئے یا پھر ایک ہی غول میں دوبارہ زبان نہ کھولنے کی شرط پر اب تک شامل ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا عبد القادر حسن، مولانا عبد الرحیم اشرف، ڈاکٹر اسرار احمد، خواجہ رفیق مرحوم، محمود علی قصوری، نصر اللہ خان، راؤ خورشید، جے اے رحیم، خورشید حسن میر، حنیف رامے، مبشر حسن اور مولانا کوثر نیازی وغیرہ۔

جمہوریت پر ایمان لانے والے یہ مسلمان!
جمہوریت پر ایمان لانے والے مسلمانوں نے جماعت سازی اور سیاست بازی کو جمہوری قبات کو بھی ایک نعمت کے طور پر اپنا لیا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے قرآن مجید کی تعلیمات کو اپنے خود ساختہ اصولوں کے مطابق بدلنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر خورشید احمد اسلام میں سیاسی جماعتوں کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ ''قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام اجتماعی زندگی کا داعی ہے اور اس سلسلے میں معیاری اور اعلیٰ ترین صورت یہی ہے کہ پوری امت جسدِ واحد کی حیثیت رکھتی ہے۔ قرآن میں کہا گیا ہے۔'' تم بہترین امت ہو جو بنی نوعِ کی طرف بھیجی گئی ہے تاکہ تم نیکی کا حکم دو اور برائیوں سے روکو۔'' سوال یہ ہے کہ نیکی کا پرچار، برائیوں سے ممانعت انفرادی حیثیت میں کی جائے یا اس مقصد کے حصول کی خاطر خود کو منظم جماعت، گروہ اور ڈسپلن میں پابند کر کے کام کیا جائے۔ اس سلسلے میں ارشاد ربانی ہے۔ ''تم میں سے ایک جماعت یا گروہ ہونا چاہئے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے۔ اور یہ یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔'' پروفیسر خورشید احمد نے ایک ہی سانس میں قرآنی آیات کی ترتیب کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ یہ بہت بڑی جسارت ہے۔

قرآن مجید تو کہتا ہے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور معروف کا حکم دے اور برائیوں سے منع کرے (آل عمران: 104) اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کا بھی درس دیا کہ تبلیغ کرنا اس جماعت کا کام نہیں بلکہ آخر کار پوری امت مسلمہ کو یہی فریضہ انجام دینا ہو گا۔ کیونکہ امت مسلمہ اسی لحاظ سے دوسری امتوں سے بہتر ہے۔ (آل عمران: 110) لیکن پروفیسر خورشید احمد نے آیت نمبر 110 کا ذکر پہلے اور آیت نمبر 104 کا تذکرہ بعد میں کیا تاکہ ........... لیکن مخلوق کو دانش کی نعمت سے سرفراز کرنے والا خدا بھی تو دانش مند ہے!

جس سوال کی بنیاد پر اسلام میں جماعت سازی کا تصور ثابت کیا جا رہا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کا پہلے ہی جواب دے دیا ہے۔ ذرا قرآن مجید پڑھیے تو سہی۔ اسی سورت آل عمران کی آیت نمبر 104 سے پہلے یہ درس واضح الفاظ میں دیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقے فرقے نہ بنو۔ کیونکہ تم تو ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت سے بھائی بھائی بنا دیئے گئے (کیا اب پھر فرقہ فرقہ بن کر نعمتِ الٰہی سے محروم ہونا چاہتے ہو؟) (آلِ عمران: 103) اور اسی سورت کی آیت نمبر 105 یعنی تم میں سے ایک جماعت ہونی چاہئے۔ سے دوسری آیت میں واضح الفاظ میں انتباہ ہے کہ ''ان لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جو متفرق ہو گئے اور صاف صاف حکم آنے کے بعد اختلاف کرنے لگے۔ انہی لوگوں کے لئے عظیم عذاب ہے۔'' اس کے بعد آیت نمبر 106 میں ایمان کے بعد کفر اختیار کرنے والوں کا ذِکر ہے۔ اس آیت مبارکہ کی تشریح میں شاہ عبد القادر دہلوی لکھتے ہیں کہ ''معلوم ہوا سیاہ منہ ان کے ہیں جو مسلمانی میں کفر کرتے ہیں منہ سے کلمہ اسلام کہتے ہیں اور عقیدہ خلاف رکھتے ہیں۔ سب گمراہ فرقوں کا یہی حکم ہے۔''

یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ آلِ عمران کی آیت نمبر 104 میں بھلائی کی طرف بلانے اور برائیوں سے منع کرنے والی جماعت (امت) لوگوں کے معنی میں استعمال ہوئی ہے کیونکہ اِسی آیت مبارکہ کے آخری حصے میں فلاح کا تذکرہ اُوْلٰٓئِكَ (یہی لوگ) کہہ کر کیا گیا ہے۔ جس کے پیش نظر اس آیت مبارکہ سے پہلے اور بعد میں آنے والی آیات اور آیت نمبر 110 کے بغیر بھی امت مسلمہ میں جماعتوں اور گروہوں کے تصور کی نفی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ وحید الزمان نے اس آیت مبارکہ کا ترجمہ یہ کیا ہے۔''اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہونے چاہئیں جو بھلائی کی طرف(لوگوں کو) بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور برے کام سے منع کریں۔ اور یہی لوگ (آخرت میں) بامراد ہوں گے۔''

یہاں تو دیگر آیات قرآنی کے باوجود نہ صرف سیاسی جماعتوں کا وجود ثابت کیا جا رہا ہے بلکہ بڑے دھڑے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ''یہ بات درست نہیں کہ سیاسی جماعتوں سے تفرقہ بڑھتا ہے کیونکہ اختلاف میں نہ صرف یہ کہ کوئی خرابی نہیں بلکہ یہ احسن بھی ہے۔'' لیکن اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ فرقہ فرقہ اور گروہ گروہ بننا عذاب ہے (انعام: 65) اللہ تعالیٰ تو آج بھی مسلمانوں کو یہ درس دے رہا ہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو فرقہ فرقہ ہو گئے اور روشن دلیلوں کے بعد بھی باہم اختلاف کرنے لگے۔ یہی لوگ ہیں جنہیں بہت بڑا عذاب ہو گا۔ (آل عمران: 105)

قانونِ الٰہی یا فرعونی سیاست:
یہ عذاب اور کل کیا ہو گا، آنے والے کل کی بات ہے، آج کی سنیے، پروفیسر خورشید احمد فرماتے ہیں۔ ''قوموں کا گروہوں میں منقسم ہونا فطرت، قدرت اور اللہ کا قانون ہے۔'' قوموں کا گروہوں میں تقسیم ہونا اللہ تعالیٰ کا قانون یا قانونِ فطرت نہیں بلکہ یہ فرعونی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تو قانون قرآن مجید ہے جس میں ہے کہ وہی خدا ہے جس نے تم کو پیدا کیا اب تم میں کوئی کافر ہوا اور کوئی مومن (التغابن: 2) یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو پیدا اور اس کی ہدایت کے لئے انبیاء مبعوث کیے اور کتابیں نازل فرمائیں مگر کوئی تو ان پر ایمان لاکر مومن بنا اور کوئی انکار کر کے کافر۔ یہاں مخلوق دو قوموں پر منقسم ہوتی ہے۔ یہ کچھ بھی قانونِ فطرت کے تحت نہیں بلکہ انسان نے جو کچھ منتخب کیا اس کا نتیجہ ہے۔ یہاں بھی قانونِ الٰہی ان سب کو ایک بنانا چاہتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے۔

(پہلے) لوگ ایک ہی طریق (دین) پر تھے (پھر لگے اختلاف کرنے) تو اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا (تاکہ مومنوں کو) خوش خبری سنائیں اور (کافروں کو) ڈرائیں اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری اس لئے کہ جن باتوں میں وہ اختلاف کر رہے تھے، ان کا فیصلہ کر دے اور صاف حکم پہنچنے کے بعد آپس کی ضد سے انہی لوگوں نے اختلاف کیا جن کو یہ کتاب (اختلاف مٹانے اور دور کرنے کے لئے) دی گئی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے ایمان والوں کو ان باتوں میں جن میں وہ اختلاف کر رہے تھے سچی بات کی راہ بتلا دی اور اللہ جس کو چاہتا ہے سچی راہ رکھاتا ہے (البقرۃ: 213) سورۂ یونس کی آیت نمبر 19، الانبیاء کی آیت نمبر 92 تا 94 اور مومنون کی آیت نمبر 53 تا 54 میں بھی اسی حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ مخلوق کا گروہوں میں منقسم ہونا قانونِ الٰہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا قانون اِس حقیقت کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ایک ہی قوم کو گروہوں میں تقسیم کرنا فرعونی سیاست ہے۔ قرآن مجید اِس حقیقت کا انکشاف اس طرح کرتا ہے: فرعون بڑا مغرور ہو گیا تھا۔ اس نے وہاں کے لوگوں کے مختلف فرقے بنا دیئے تھے۔ ایک فرقے (بنی اسرائیل) کو کمزور سمجھ کر اس کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیتا۔ (القصص:4)

اس فرعونی سیاست کو نعوذ باللہ نبوی ﷺ سیاست ثابت کرنے کے لئے فرمایا جاتا ہے۔ ''جب اسلامی ریاست قائم ہوئی تو لوگ اس وقت بھی گروہوں میں منقسم تھے۔ مکہ میں قریش اور مدینہ میں انصار۔ اور اسلام نے ایسا نہیں کیا، اسلامی ریاست کے قیام کے بعد ان گروہوں کو ختم کر دے۔'' اسلامی ریاست مدینہ منورہ میں قائم ہوئی تھی اور قریش مکہ مکرمہ تھے اور قریش مکہ نے ہی مدینہ منورہ کے مکینوں کو ''انصار'' بننے کا موقع فراہم کیا۔ کو ہی نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ دو گروہوں کے ذکر میں ایک طرف قبیلہ کا تذکرہ کیا گیا اور دوسری طرف قبائل کا نام لینے کی بجائے ایک صفت کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ کچھ پروفیسر خورشید احمد ہی کر سکتے ہیں بصورت دیگر قریش کی بجائے مہاجر کہا جاتا تو اس سے سیاسی جماعتوں کا تصور ثابت نہیں ہوتا کیونکہ مہاجر و انصار گروہوں کے نام نہیں، انہیں مسلم قوم میں گروہ قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے بدر میں حصہ لینے والے، اُحد میں شریک ہونے والے اور بیعت رضوان کا شرف حاصل کرنے والوں کو مختلف گروہ سمجھنا۔

مہاجر و انصار تو صفاتی نام ہیں۔ شاعر رسولؓ حضرت حسانؓ ایک خطبہ میں فرماتے ہیں۔ ''تمام تعریف اس خدا کے لئے ہے۔ (جس نے) اپنی مخلوق میں سے بہترین ہستی کو اپنی رسالت کی ادائیگی کے لئے پسند فرمایا۔ آپ ﷺ نے پوری دنیا کو ایمان و اسلام کی دعوت دی۔ اللہ کے رسول ﷺ پر سب سے پہلے آپ ﷺ کی قرابتدار اور آپ ﷺ کی قوم کے لوگ یعنی مہاجرین ایمان لائے۔ ان کے بعد اور (دیگر) سب لوگوں سے پہلے آپ ﷺ پر ایمان لانے والے ہم ہیں، ہم انصارِ خدا ہیں، ہم وزراء رسول ﷺ ہیں ''(1)جہاں تک ان گروہوں کے ختم کرنے کا تعلق ہے۔ تو عرض ہے کہ یہ گروہ ہی نہ تھے۔ اگر گروہوں سے مراد قریش، اوس اور خزرج ہیں تو ان کا قبائل کے اسلامی تصور (صرف تعارف)ے سوا کوئی ابھی اور تشخص نہ تھا۔ جب بھی یہ تصور تعارف کی بجائے اختلاف اور تمیز کی بجائے تفریق کا باعث بنا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے ذریعے اخوت کا درس دیا کہ ''اللہ کی رسی (دین) کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقہ فرقہ نہ بنو (آل عمران: 103) اور جب بھی قبائل کے جاہلانہ تصور کا مظاہرہ ہوتا اللہ کے رسول ﷺ اسی اور اس سے پہلےوالی آیات مبارکہ کے ذریعے مسلمانوں کو پھر سے بھائی بھائی بنا دیتے۔ 2

کیا ان کی اطاعت کی جائے؟
پروفیسر خورشید احمدکا اصرار ہے کہ ''اگر خیر کے کام کے لئے امت کے اندر جماعت بنائی جائے تو یہ تفرقہ بندی نہیں۔'' لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ خیر کا کام پوری امت کو دینا ہو گا (آل عمران: 110) پروفیسر خورشید احمد اپنے موقف کی تائید میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ''بنی اسرائیل میں بھی تین جماعتیں تھیں ایک خیر کی طرف بلاتی تھی اور باقی خیر کی طرف نہیں بلاتی تھیں۔'' اِس سلسلے میں کچھ ارشاد فرمائیے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کرنا ہے یا بنی اسرائیل کی پیروی کرنی ہے اور پھر بنی اسرائیل کی ان تین جماعتوں میں سے جس نے نجات پائی، کی پیروی یا جو دنیا میں ہی عذاب الٰہی کا شکار ہوئیں، انکی پیروی کرتے ہوئے ایسی ہی جماعتیں بنائی جائیں۔ کیا اس جماعت کو بھی اپنی کاروائی جاری رکھنے کی اجازت دینا خیر کا کام ہے جس کے حصے میں نجات ہی نہیں اور جو مسلم معاشرہ کو دوزخ بنائے رکھے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے۔ ''لوگو سنو! تم سے پہلے کے اہل کتاب 76 فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور میری یہ امت 73 فرقوں میں متفرق ہو گی جن میں سے 72 جہنمی ہیں اور ایک جنتی ہے۔'' (3) سوال یہ ہے کہ ''فرقے فرقے بن جانے والے لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ۔'' ایسے فرمانِ الٰہی اور فرقوں میں تقسیم ہونے والوں کے انجام سے متعلق وعید نبوی ﷺ کے بعد امت مسلمہ میں ہی رہنے کی ضرورت ہے یا فرقے بنانے کی اور پھر اسے ''جماعت'' کے نام سے پر ''سرکاری سطح'' پر تسلیم کرانے کی کوشش کی جانی چاہئے!

اسلام میں سیاسی جماعتوں کے وجود کے بارے میں پروفیسر خورشید احمد یہ بھی کہتے ہیں کہ ''اسلام کے ہر دور میں منظم سیاسی گروپ لیڈر شپ کے ساتھ موجود تھے اور خوارج کے سلسلے میں تو باقاعدہ ایک سیاسی پارٹی بن گئی تھی جس نے اپنے پروگرام کا اعلان بھی کر دیا تھا، خوارج کے سوا کسی سیاسی گروپ اور اس کے لیڈر کا نام نہیں لیا گیا۔ اب اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ امت مسلمہ میں سیاسی پارٹی بنانا ''ٱدْخُلُوا فِى ٱلسِّلْمِ كَآفَّةً'' پر عمل پیرا یعنی پورے کے پورے اسلام کو اختیار کرنے والے مسلمانوں کی راہ چھوڑ کر خارجیوں کی تقلید کے مترادف ہے۔ اِس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ حضرت علیؓ کا یہ فرمان کہ ''خوارج کو اختلاف رائے کا حق ہے۔'' لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ دین میں جبر نہیں کے مترادف ہے ورنہ ''اسلام'' کے نام اسلام کو ختم کرنے والے خارجیوں کے پروگرام پر حضرت علیؓ کا ردّعمل اس فرمان نبوی ﷺ کی تعمیل ہے جس میں خارجین کی صفات کے ذکر کے بعد حکم ہے کہ ''جہاں کہیں انہیں پاؤ قتل کر دو۔ اگر میں نے ان کا زمانہ پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کر دوں گا۔ امام ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں کہ ''امیر المومنین علیؓ بن ابی طالب نے اس فرمانِ نبوی کی تعمیل کی، جب یہ گروہ ظاہر ہوا ''شریعت محمدیؐ، سنت نبویؐ اور جماعتِ امت مرحومہ سے باہر ہو گیا تو امیر المؤمنین نے تلوار اُٹھائی اور مقاتلہ کیا'' 4

یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ مسلم معاشرہ میں کسی خامی کا پایا جانا اس امر کی دلیل نہیں کہ یہ خامی خوبی ہے اور اسے اپنایا جائے۔ پروفیسر خورشید احمد نے اپنی بات کو صرف اس حد تک محدود رکھا ہے کہ ''اسلام کے ہر دور میں منظم سیاسی گروپ سیاسی لیڈر شپ کے ساتھ موجود تھے۔'' جب کہ پاکستان کے سابق وزیرِ قانون جناب ایس ایم ظفر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے دور میں ''تین سیاسی پارٹیاں موجود تھیں۔ ان تینوں سیاسی پارٹیوں کے اپنے اپنے مراکز تھے ہر پارٹی کے اجلاس بھی ہوئے۔ تینوں پارٹیوں کے اپنے اپنے منشور بھی تھے۔ یہ تینوں پارٹیاں کھلم کھلا اپنے سیاسی منشور کا بھی اظہار کر رہی تھیں۔'' اس مخصوص تصور کے بارے میں اختصار کے ساتھ ساتویں صدی کے حقائق کی نئی تعبیر کے ضمن میں لکھا جا چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدرِ اول میں صحابہ کرام ان سیاسی گروہوں کے بارے میں کس قسم کی رائے رکھتے تھے، کیا وہ بھی انہیں استحسان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ طبری نے حضرت عمر فاروقؓ کا ایک خطاب نقل کیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا ''مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم نے (مخصوص) محفلیں قائم کر رکھی ہیں۔ یہاں تک کہ جب دو اشخاص بھی کہیں بیٹھتے ہیں، تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں کے ساتھیوں میں سے ہے اور وہ فلاں کا ہم نشین ہے یہاں تک کہ ہر طرف مجالس و محافل کی کثرت ہو گئی ہے۔ خدا کی قسم! یہ چیز تمہارے دین و مذہب میں تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ نیز تمہاری عزت و شرافت اور خود تمہاری ذات میں بھی دخیل ہو رہی ہے۔ مجھے وہ زمانہ نظر آرہا ہے کہ تمہارے بعد جو آئیں گے وہ کہیں گے ''یہ فلاں کی رائے ہے۔'' یہ لوگ اسلام کو کئی حصوں میں بانٹ دیں گے۔ تم اپنی مجالس کو وسیع کرو اور مل کر بیٹھا کرو۔ اس طرح تمہارا اتحاد و اتفاق ہمیشہ قائم رہے گا اور دوسرے لوگوں میں تمہارا رعب زیادہ قائم رہے گا۔''

حضرت عمرؓ تو اپنے قبیلے میں ہی گم ہو کر رہ جانے کو بھی اچھا تصور نہیں کرتے تھے۔ طبری میں ہی حضرت عمر فاروقؓ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے۔ ''اے اللہ یہ لوگ مجھ سے اکتا گئے ہیں اور میں بھی ان سے بیزار ہو گیا ہوں۔ میرے احساسات جداگانہ ہیں اور ان کے احساسات الگ ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ہے کہ ہماری حالت یا ہو گئی۔ مجھے اس قدر معلوم ہے کہ ان کا صرف اپنے میں سے تعلق ہے اس لئے (اے خدا) مجھے اپنی طرف اُٹھا لے۔''

حضرت عبد اللہؓ بن عباسؓ تو اللہ کے رسول ﷺ کے سوا کسی اور کی طرف نسبت کو بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ حضرت معاویہؓ نے جب اس شاگردِ رسول ﷺ سے سوال کیا کہ ''یا وہ علیؓ کی ملّت پر ہیں'' تو فرمایا ''نہیں نہیں میں علیؓ کی ملّت پر نہیں نہ عثمانؓ کی ملّت پر ہوں۔ میں تو رسول اللہ ﷺ کی ملّت پر ہوں۔''(5) دوسری روایت میں ہے کہ ابن عباسؓ نے فرمایا ''ہ میں علوی ہوں نہ عثمانی بلکہ میں تو رسول اللہ ﷺ کی ملت پر ہوں۔

یہ بھی درست وہ بھی درست!
انسانی عقلی تجربات کے پتھروں سے ٹھوکریں کھا کھا کر آخر اسی مقام پر پہنچے گی جہاں انسان کے خلاق کی عقل وحی کی صورت میں مینارۂ نور بنی ہوئی ہے لیکن اسے کیا کہا جائے کہ انسان کھلی آنکھوں سے وحی کے نور کا اعتراف کرتے ہوئے بھی ظلمتوں اور تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے۔ اور اس کی اپنی سی عقل وحی کے ادراک کے باوجود عقلی تجربہ کے کسی ایک پتھر پر سربسجود ہے۔ جہاں تک بھی خیریت تھی کہ انسان کبھی تو تجربات کے پتھروں سے ٹھوکریں کھا کھا کر اس پتھر پر بھی سر رکھ دے گا جو مسجد میں نصب ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ ہر لمحہ عقل و دانش کے فلسفہ کا درس دینے والے حضرت وحی کے اعتراف کے بعد بھی ظلمت و تاریخی کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور وہ برملا کہتے ہیں کہ فلاں فلاں دو امور، دو چیزیں، دو تصورات، دو فکر، متضاد اور متصادم ہیں لیکن انہی مختلف اور متضاد دو امور کو ایک ایک کر کے یکے بعد دیگرے انجام دیا جائے تو ان دو امور سے متعلق دو فکر اور دو نظام بیک وقت بروئے کار لائے جا سکتے ہیں۔ یہ دعویٰ اور یہ فلسفہ عقلیت اور علمیت کے کس معیار پر پورا اترتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا عقل و علم کے ٹھیکیداروں سے دشمنی مول لینے کے مترادف ہے لیکن حقائق بہرحال حقائق ہیں اس لئے اس عجیب و غریب دعویٰ اور فلسفہ کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ (i)مغربی پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل خالد اسحٰق صاحب حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں ایک تجویز پیش کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی خامیاں صرف اقتدار حاصل کرنے کی خواہش کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں اس لئے اگر عہدوں کی طلب پر پابندی عائد کر دی جائے تو پھر سیاسی جماعتوں کے وجود پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔'' دوسری طرف ارشاد ہے۔ ''اسلامی نظام میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ خود کو بطور امیدوار پیش کرنے کی گنجائش موجود ہے اور اقتدار کے حصول کے لئے عوام کو اپنی حمایت کی ترغیب دینے اور اس سلسلے میں اصراف میں بھی کوئی قباحت نہیں۔''

عہدوں کی طلب پر پابندی عائد کر دی جائے لیکن اسلامی نظام۔ خود کو بطور امیدوار پیش کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اور اقتدار کے حصول کے لئے عوام کو اپنی حمایت کو ترغیب دینے اور اس سلسلے میں اصراف میں کوئی قباحت نہیں۔ یہ دو متضاد اور متصادم امور بیک وقت کیسے بروئے کار لائے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں اپنا تبصرہ محفوظ رکھنا چاہوں گا کیونکہ اس موضوع پر بحث بعد میں ہو گی۔ فی الحال جناب خالد اسحٰق کی سیاسی جماعتوں کے لئے عہدوں کی طلب پر پابندی کی تجویز کے ساتھ ان کا یہ فرمان بھی پڑھیں۔ ''سیاسی جماعتیں مباح کے زمرے میں آتی ہیں اور اسلام میں ان کی اجازت ہے۔ قرآن مجید خود کہتا ہے کہ تمہارے درمیان گروپ ہونے چاہئیں اور اگر اس کی اجازت ہے تو کسی سیاسی جماعت کی تشکیل کا امتناع اسلام میں نہیں ہے۔'' اس سلسلے میں قرآن مجید کی سورت نمبر 8 کی آیت نمبر 60، سورت نمبر 9 کی آیت نمبر 122 اورسورت نمبر 37 کی آیت نمبر 83 کا حوالہ دیا گیا ہے۔

قرآن کیا چاہتا ہے؟
قرآن مجید کی سورۃ نمبر 8 کی آیت نمبر 60 میں ''تمہارے درمیان گروپ ہونے چاہئیں'' کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر نمبر 2 البقرۃ کی آیت نمبر 60 پیش نظر رہے تو اس میں بھی تمہارے درمیان گروپ ہونے چاہئیں'' کا کہیں ذکر نہیں۔ اس آیت مبارکہ کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔ ''اور جب پانی مانگا موسیٰؑ نے واسطے قوم اپنی کے پس کہا ہم نے تُو مار ساتھ عصا اپنے کے پتھر کو پس نکلے اس سے بارہ چشمے۔ تحقیق جانا ہر آدمی نے گھاٹ اپنا، کھاؤ اور پیو رزق اللہ کے سے اور مت پھرو بیچ زمین کے فساد کرتے ہوئے'' (ترجمہ شاہ رفیع الدین) اگر سورت نمبر 8 کی آیت نمبر 60 سے مراد سورۃ نمبر 7 کی آیت نمبر 160 ہے تو اس کا شاہ رفیع الدین کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ''اور کاٹے ہم نے ان میں سے بارہ قبیلے بڑی بڑی جماعتیں اور وحی کی ہم نے طرف موسیٰ کی جب پانی مانگا اس سے قوم اس کی نے یہ ہ مار ساتھ عصا اپنے کے پتھر کو پس پھوٹے اس میں سے بارہ چشمے تحقیق جان لیا ہر شخص نے گھاٹ اپنا......'' سورت توبہ کی آیت نمبر 122 کا شاہ رفیع الدین کا ہی ترجمہ یہ ہے۔ ''اور نہ تھے مسلمان کہ نکل جاویں سارے پس کیوں نہ نکلی ہر فرقے سے ان میں سے ایک جماعت تو کہ سمجھ سکیں بیچ دین کے اور تاکہ ڈراویں قوم اپنی کو جب پھر جاویں طرف انکی شاید کہ بچیں۔'' سورہ الصّٰفّٰت کی آیت نمبر 83 ترجمہ یہ ہے ''اور تحقیق تابعوں اس کے سے البتہ ابراہیمؑ تھا۔'' (شاہ رفیع الدین)

خالد اسحٰق صاحب شاید ان آیات مبارکہ سے، مسلمانوں میں گروپ ہونے چاہئیں، کا تصور اس لئے اخذ کر رہے ہیں کہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 60 اور سورۂ الاعراف کی آیت نمبر 60 (اگر اس سے مراد سورہ نمبر 8 کی آیت نمبر 60 ہی ہے تو) میں بارہ چشموں اور بارہ اسباط و امم سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 122 میں فرقہ اور طائفہ اور سورۂ الصّٰفّٰت کی آیت نمبر 83 میں شیعہ کا ذکر ہے۔ ایسا ایسا ہی ہے تو وہ اپنے اس دعویٰ کو نظر انداز کر گئے ہیں کہ ''عربی زبان کے متعدد الفاظ کے کئی کئی معانی ہیں اور یہ مطالب و معانی ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں جن کی بنیاد پر اکثر غلط فہمی کا احتمال رہتا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ الفاظ کی تشریح میں پس منظر اور صحت کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے اور بات واضح کر دی جائے۔ کسی قسم کا ابہام یا غلط فہمی باقی نہ رہنے دی جائے۔''

خالد اسحٰق صاحب اپنے اس دعویٰ کی روشنی میں ہی بسم اللہ کر کے ان آیاتِ مبارکہ کا پس منظر دیکھنے اور سمجھنے کی زحمت گوارا کرتے تو اتنا بڑا دعویٰ نہ کرتے کہ ''قرآن مجید خود کہتا ہے کہ ''تمہارے درمیان گروپ ہونے چاہئیں'' کیونکہ ان چاروں آیات مبارکہ میں صرف انہی گروپوں، گروہوں اور شیعوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود بنائے ہیں اور انسان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ انسان کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ اپنے لئے والدین اور مقام ولادت و وفات کا انتخاب کر سکے بلکہ خدا جسے چاہتا ہے جس قبیلہ میں اور جس مقام پر چاہے پیدا کرتا ہے۔ بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام (جن کا لقب اسرائیل ہے) کے بارہ بیٹوں کی اولاد ہی ہیں اور بارہ بیٹوں کی اولاد ہونے کے ناطے ہی بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے۔ یہی لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے اور انہی کے لئے انہوں نے بارگاہ ایزدی سے پانی طلب کیا اور اللہ تعالیٰ نے پتھر سے بارہ چشمے پیدا کئے اور ایک ایک چشمہ ایک ایک قبیلہ کے حصے میں آیا۔ اسی واقعہ کا ذکر سورۂ البقرہ کی آیت نمبر 160 اور سورۂ الاعراف کی آیت نمبر 60 میں ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ الاعراف میں اللہ تعالیٰ نے مزید تشریح فرما دی کہ بارہ چشمے جن کے لئے پیدا کئے گئے اللہ نے ہی انہیں بارہ قبیلوں میں منقسم کر رکھا تھا اور یہ تو انسان کے بس میں نہیں تو جو چیز انسان کے بس میں نہیں اسے کرنے اور پھر کرنے کا حکم قرآن مجید سے منسوب کرنا بہت بڑا دعویٰ ہے جو جتنا بڑا ہے اتنا ہی غلط ہے!

سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 122 میں بھی فرقہ قبیلہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ورنہ فرقہ سے جماعت کے نکلنے کا تصور ہی ممکن نہیں کیونکہ فرقہ، گروہ کے معنی میں طائفہ اور جماعت کے مترادف ہے۔ امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اِس آیت مبارکہ کا پس منظر اور مفہوم کچھ یوں لکھا ہے۔ ''تمام قبائل کے سفر کرنے یا کسی قبیلہ میں بعض کے سفر کرنے سے، جب کہ سب نہ نکلیں، مرادِ خواوندی یہ ہے کہ سفر پر نہ جا کر نبیؐ کے ساتھ رہنے والے ہر اترنے والی وحی کو لکھ لیں اور یاد رکھ لیں اور جنگ سے واپس آنے والے لوگوں کو احکامِ خداوندی بتائیں اور سفر سے آنے والے یہ بتائیں کہ دشمن کے ساتھ کیا گزری اور کفار کے حالات کیا ہیں۔''

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت قتادہ نے اس آیت مبارکہ میں فرقہ سے مراد قبیلہ اور طائفہ سے مراد کچھ لوگ لی ہے (تفسیر ابن کثیر) بلکہ جناب خالد اسحٰق نے بھی اسی آیت مبارکہ کے حوالے سے طائفہ سے مراد کچھ لوگ ہی لی ہے کہ ''قرآن مجید کہتا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ہونے چاہئیں جو ''تفقہ'' پیدا کریں'' اسی طرح سورہ نمبر 37 کی آیت نمبر 83 میں شیعہ سے مراد انبیاء کا گروہ ہے اس سورہ کی آیت نمبر 73 میں 82 تک حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے اسی لئے آیت نمبر 83 میں فرمایا ہ حضرت ابراہیم علیہ السلام انبیاء کے اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہ گروہ بھی انسان نہیں خدا ہی تشکیل دیتا ہے۔

قبائل تعارف کے لئے ہوتے ہیں جن کے بنانے اور بگاڑنے میں انسان کا ہاتھ نہیں لیکن ایک مسلمان تقویٰ کی بجائے کسی اور بنیاد پر اپنی انفرادیت قائم کرنے اور مسلمان قوم میں کسی اور حوالے سے الگ تشخص پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے اس ''شیعہ پن'' اور ''فرقہ بازی'' کا مشغلہ شیعہ اور فرقہ ایسے الفاظ کو دوسرے معانی پہنا دے گا۔ خواہ یہ کوشش کتنے ہی تقدس کے لبادے میں کیوں نہ کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کہتا ہے۔ ''وہ لوگ جنہوں نے ضد اور کفر سے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے (مسجد قبا کے مقابل) ایک مسجد بنالی ہے وہ قسمیں تو ضرور کھائیں گے کہ ہماری بھلائی کے سوا اور کوئی نیت نہ تھی (لیکن) اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں (اے پیغمبرؐ) آپؐ (ان کی) اس مسجد میں (نماز کے لئے) کبھی کھڑے نہ ہوں بلکہ اسی مسجد میں (نماز پڑھیں) جس کی بنیاد شروع دن سے تقویٰ پر ہوئی ہے (سورہ البقرہ آیت 107، 108) قرآن مجید یہ بھی کہتا ہے کہ ''جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور کئی فرقے بن گئے۔ آپ ﷺ کو ان سے کچھ غرض نہیں (آپ ﷺ ان سے بری ہیں اور ان کا آپ ﷺ سے کوئی تعلق نہیں) (الانعام: 159) قرآن مجید نے یہ بھی کہا ہے کہ (اے رسولؐ) آپ دینِ حنیف پر قائم رہیں اور مشرکوں میں سے نہ بنیں (مشرک وہ ہیں) جنہوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور فرقے فرقے ہو گئے۔ (الروم: 30، 31)

عربی زبان کے الفاظ کی تشریح، پس منظر اور صحت کے پیش نظر فیصلہ خود کریں کہ قرآنِ مجید امتِ مسلمہ میں گروپ ہونے چاہئیں، کے لئے کہتا ہے یا گروپ اور فرقے نہیں ہونے چاہئیں، کا درس دیتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ خالد اسحٰق صاحب ایک تجویز پیش کرتے ہیں۔ اسلام میں ''حزبیت'' یعنی پارٹی سسٹم کا تصوّر موجود ہے اور اگر پارٹی سسٹم کے اس تصور کو اپنا لیا جائے تو جو بھیانک نتائج آج کل کے پارٹی سسٹم سے برآمد ہوتے ہیں، ان سے امتِ مسلمہ بچی رہے گی۔'' امت مسلمہ کی بھلائی کے لئے پیش ہونے والی اِس تجویز میں ''حزبیت'' سے کیا مراد ہے، کا کوئی ذکر نہیں۔ شاید ''عادت'' میں یہ تبدیلی مطلوب ہے کہ ایک پارٹی دوسری سے محاذ آرائی نہ کرے بلکہ جو جہاں ہے وہاں اچھا ہے کا تصور عام کیا جائے۔

جنگ احزاب!
''حزبیت'' سے یہ مراد میں نے قرآن مجید سے اخذ کی ہے جس میں حزب اللہ (اللہ کے گروہ) اور حزب الشیطان (شیطان کے گروہ) کے ساتھ ایک ''خالی خولی'' حزب کا بھی ذکر ہے۔ سورۂ المومنون کی آیت نمبر 52، 53 میں ہے کہ انبیاء کی امت (ایک دین کی و جہ سے) ایک ہی امت ہے لیکن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور ہر فرقہ جو کچھ اس کے پاس ہے، پرخوش ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ اے رسولؐ! آپؐ مشرکوں میں سے نہ ہوں۔ جنہوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقے فرقے بن گئے اور پھر ہر گروہ (اپنے چھوٹے اعتقاد پر) پھولے نہیں سماتا۔ (الروم: 31-32)

حزبیت میں جو جہاں ہے، اپنی جگہ خوش ہے، کا تصور صرف اعتقاد کی حد تک ہے۔ جس لمحہ عمل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے انسانی معاشرہ عذاب سے دوچار ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔ اے رسولؐ آپ کہیں کہ اللہ ہی کو یہ قدرت بھی حاصل ہے کہ اوپر سے تم پر (سماوی) عذاب بھیجے یا تمہارے پاؤں تلے سے (ارضی عذاب) یا تم میں (پھوٹ ڈال کر) کئی گروہ کر دے اور ایک دوسرے کو لڑائی کا مزہ چکھائے۔ (الانعام: 65)

حزبیت کا یہی وہ عذاب ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ''تم سے اگلی امتوں کو اسی پھوٹ، اختلاف اور فرقت نے غارت کر دیا ہے۔'' (6) اسی عذاب (صحابہ کے اختلاف) کی خبر سن کر آپ ﷺ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور (منبر پر) کھڑے ہو کر خطبہ دیا۔ حزبیت کے اسی عذاب کے پیش نظر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کی درخواست کی پس اوپر اور نیچے سے عذاب کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرما لی مگر تیسری دعا کہ۔۔۔۔ میری امت آپس کے تفرقے اور جنگ و جدل سے محفوظ رہے۔منظور نہیں فرمائی''(7)آج ضرورت تو اس بات کی تھی کہ مسلمان اتفاق و اتحاد سے اس عذاب سے بچنے بلکہ نجات پانے کی کوشش کرتے لیکن یہاں تو امت مسلمہ کی بھلائی کے لئے ''حزبیت'' کو ہی اختیار کرنے کی تجویز پیش کی جاتی ہے جس پر عمل پیرا ہو کر (عمل تو ہم کر ہی رہے ہیں) امت مسلمہ کے لئے باہر سے ''جنگ احزاب''برپا کرنے کی کوشش کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ مسلم معاشرہ ہی ''جنگ احزاب'' میں مبتلا ہے۔

''سیاسی جماعتیں مباح کے زمرے میں آتی ہیں۔'' کا پروانہ دیتے ہوئے بڑی سادگی سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ''اسلام میں ان کی اجازت ہے بشرطیکہ وہ اسلامی تعلیمات کے منافی نہ ہوں'' یہ شرط اور حزبیت کو اپنانے کی تجویز۔ کوئی تو بتائے یہ فکری انتشار کی آخر کون سی حد ہے۔ اسلامی تعلیمات تو سیاسی جماعتوں کے تصوّر کی ہی سرے سے نفی پر اصرار کرتی ہیں۔ قرآن مجید تو صرف ایک جماعت کے قیام کا حکم دیتا ہے۔ جو لوگوں کو اچھی بات کی طرف بلائے اور برائی سے منع کرے (آل عمران: 4-6) اس آیت کے بعد یہ وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ یہ جماعت پوری کی پوری امت مسلمہ ہے (اٰل عمران: 110) اللہ کے رسول ﷺ نے بھی یہی کچھ ارشاد فرمایا ہے کہ ''تم میں جو شخص بھی برائی کو دیکھے اِسے چاہئے کہ ہاتھ سے بدلنے کی کوشش کرے، اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان کے ذریعے تبلیغ کرے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو دل سے اسے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ 8

لیکن یہ بھی!
جناب خالد اسحٰق حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ ایوان بالا (سینٹ) میں کلی طور پر ہر شعبۂ زندگی کے ماہرین کو شامل کیا جائے۔'' یہ تجویز اسلامی نظام حکومت یا دوسرے الفاظ میں وحی کے قریب ہے کیونکہ مشورہ صرف اس سے کیا جاتا ہے جو مشورہ دینے کا اہل ہو لیکن یہاں پھر عادت اپنا رنگ دکھاتی ہے کہ ''امیر کے انتخاب کے لئے ہر شہری سے رائے لینا ضروری ہے۔'' دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ''حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف نے حضرت عمرؓ کی ہدایت کے تحت ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے مرد و زن سے مشورہ کیا تھا۔'' ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں ''اسلام پسند'' جمہوریتنواز مسلمانوں سے استدعا کرتا ہوتا کہ حضرت عمرؓ نے عبد الرحمانؓ بن عوف کو یہ ہدایت کب کی تھی اور اس کا ذکر کہاں ہے؟

''ہر شخص سے رائے لینا ضروری ہے۔'' دراصل ووٹ کو اسلامی بنانے کی کوشش ہے یہی وجہ ہے کہ خالد اسحٰق صاحب ہر شخص سے رائے کے ضمن میں یہ دلیل بھی لائے ہیں کہ فقہاء اور متکلمین اس پر رضا مند ہیں کہ حتمی اختیار کی مالک صرف امت ہے۔'' بلکہ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ''علمائے کرام اور مجتہدین کا اس پر تقریباً اجماع ہے کہ حاکمیت صرف امیر یا خلیفہ کے پاس نہیں بلکہ پوری امت کے پاس ہے۔'' ''تقریباً اجماع'' کی اصطلاح ہی بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ پھر بھی بڑے ادب سے عرض کروں گا کہ فقہاء، علماء اور مجتہدین میں حضرت ابو بکر صدیقؓ اس ''اجماع'' کے حامی ہوتے تو حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین نامزد نہ کرتے، حضرت عمرؓ اس ''اجماع'' میں شریک ہوتے تو خلافت کو چھ افراد میں ہی محدود نہ کرتے اسی طرح حضرت علیؓ بھی پوری امت کے حاکمیت کے تصوّر کو درست سمجھتے تو خلافت قبول کر لینے کی درخواست کرنے والے صحابہ سے یہ نہ فرماتے کہ ''یہ معاملہ تمہارے فیصلہ کرنے کا نہیں۔ یہ تو اہل شوریٰ اور اہل بدر کا کام ہے جس کو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر پسند کریں گے وہی خلیفہ ہو گا، پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔'' (9) حرف آخر کے طور پر یہ بھی پڑھ لیں کہ امام ابن حزم کہتے ہیں کہ ''حیف صد حیف ہے اس اجماع پر جس میں حضرت علیؓ شامل نہ ہوں۔'' اور ''خدا کی لعنت اس اجماع پر جس پر حضرت علیؓ خارج ہوں۔'' 10

پروفیسر خورشید احمد جناب خالد اسحٰق کی ہی بات ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ''اسلامی نکتۂ نگاہ سے امتِ مسلمہ کو جو خلافت دی گئی ہے وہ کسی فرد یا کسی گروہ کو نہیں پوری امت کو دی گئی ہے۔'' خلافت کے بارے میں یہ ''اسلامی نکتۂ نظر'' کس حد تک درست ہے۔ اس سلسلے میں خلفائے راشدین کا نکتۂ نظر بھی معلوم کر لینا چاہئے۔ یہ اس لئے ہی کہ پروفیسر خورشید احمد بھی تسلیم کرتے کہ ''دورِ رسالت کے بعد امامت کا تصور خلفائے راشدہ کے دور میں موجود ہے اور اس سلسلے میں خلافتِ راشدہ کی سنت اسی طرح قابل قبول ہے جیسے حضور ﷺ کی سنت جیسے ایک حدیث میں واضح ہے کہ ''میری سنت اور خلفائے راشدہ کی سنت کو قبول کرو۔'' خلفائے راشدین کی خلافت کے بارے میں اسلامی نکتہ نظر کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے کیا اس کے بعد بھی خلافت کے بارے میں کسی اور نکتہ نظر کو ''اسلامی'' کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے؟

ایک اور اجماع:
خالد اسحٰق صاحب ایک اور ''اجماع'' کا ذکر بھی فرماتے ہیں۔ ''اسلام کے مفسرین اور مجتہدین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ امیر شوریٰ کا پابند ہے تاہم اس بات پر اختلاف ہے کہ امیر کس حد تک شوریٰ کا پابند ہے۔'' میرا خیال ہے کہ کسی مسلمان کو کم از کم اس بات سے اختلاف نہیں ہو گا کہ امام شافعیؒ اور امام ابن تیمیہؒ بھی مجتہد تھے۔ کیا ان کے اختلاف کے بعد بھی امیر شوریٰ کا پابند ہے کے بارے میں مجتہدین کے اتفاق کا ذکر درست ہو گا۔ یہاں امام شافعیؒ کے ایک قول کا اعادہ کیا جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے ''حاکم کو مشورے کا حکم اس لئے دیا جاتا ہے کہ مشیر اس کو ان امور سے آگاہ کرے جس کی طرف اس کا دھیان نہیں گیا اور پھر اس کی دلیل سے اس کو مطلع کرے۔ یہ حکم اس لئے نہیں دیا جاتا کہ حاکم مشیر کے مشورہ یا بات کی پیروی کرے کیونکہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے سوا کسی کی بھی پیروی کرنا فرض نہیں۔'' 11

فتح الباری میں امام شافعیؒ کا یہ قول ''شاورهم في الأمر'' کے تحت نقل کیا گیا ہے لیکن ہم تو اتنی چھوٹی سی بات بھی نہ جاننے پر مصر ہیں کہ مشورہ تو کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے کیا جاتا ہے نہ کہ جو بھی مشورہ ملے اس پر عمل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ خالد اسحٰق صاحب اس آیت مبارکہ کے تحت یہ دعویٰ کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے کہ ''اگر متذکرہ آیت کی صحیح معنوں میں تشریح کی جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جمہوریت کے سوا ہر طرزِ حکومت غیر اسلامی ہو گی۔''

جمہوریت کے تحت اس آیت مبارکہ (وَشَاوِرْ‌هُمْ فِى ٱلْأَمْرِ‌) کی صحیح معنوں میں تشریح سے مراد یہ ہے کہ مشورہ کی ہر تعریف و تشریح سے قطع نظر ہر شہری سے مشورہ لیا جائے اور اکثریت کے فیصلے پر عمل کیا جائے۔ اگر یہ مفروضہ درست ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ اس سیدھے سادھے نسخہ کی بجائے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے لئے ''اک نسخہ کیمیا'' اپنے رسول ﷺ پر کیوں نازل کیا اور امت مسلمہ کو رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم کیوں دیا حالانکہ کثرتِ رائے کے درست ہونے کے مفروضہ کے تحت کسی بھی بات کے درست یا غلط ہونے کا اندازہ پہلے مشورہ اور پھر کثرتِ رائے کے حوالے سے کیا جا سکتا تھا۔ یہ کتنا آسان نسخہ تھا۔ شاید اسی لئے عیسائی دنیا نے جب وحی کی اتباع سے منہ موڑا تو اس کے سوا اور کوئی نسخہ تلاش نہ کر سکی۔ جسے آج ہمیں قرآن و حدیث کی موجودگی کے باوجود اختیار کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے!

خالد اسحٰق صاحب ''امیر شوریٰ کا پابند ہے'' کے دعویٰ کے سلسلے میں یہ دلیل بھی لائے ہیں کہ ''نماز کے دوران امام کوئی غلطی کرے تو اسے ٹوکا بھی جاتا ہے۔'' بجا فرمایا لیکن اس سلسلے میں کیا ارشاد ہے کہ کیا نماز میں امام کے پیچھے حزبِ اختلاف اور حزب اقتدار کی صفیں الگ الگ ہوتی ہیں؟ کیا امام کی غلطی پر ٹوکنے والا مقتدی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان کے سوا کسی اور حوالہ... کہ کثرت رائے اسے حاصل ہے... کے تحت بھی امام کا محاسبہ کرتا ہے؟ مقتدی کے ٹوکنے پر بھی امام اپنی قرأت (یا فیصلہ) کو درست سمجھے تو کیا مقتدی نماز کا بائیکاٹ کر کے مسجد سے جا بھی سکتا ہے؟ محتسب مقتدی اور امام کے اِس ''احتسابی تنازع'' کے حل کے لئے کیا مقتدیوں سے ہاتھ کھڑے کرائے جاتے اور اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے یا قرآن و حدیث کی طرف رجوع کیا جاتا ہے؟

آخر یہ سب کچھ کیوں نہیں کیا جاتا اور یہ سب کچھ مسجد کے باہر درست کیوں ہو جاتا ہے۔ کیا اسلام پوری دنیا کے مسجد ہونے کا اصول یا اسے مسجد بنانے کا درس نہیں دیتا کہ ہر جگہ خدا کی عبادت کی جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ امام تو اِسے بنایا جاتا ہے جو قرآن و حدیث کا زیادہ عالم ہو اورمسجد سے باہر ''امام'' اسے بنایا جاتا ہے جسے کثرت رائے کی حمایت حاصل ہو۔ صرف اس لئے کہ یہ ہماری عادت ہو چکی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس عادت کو طبیعت بنانے کی بجائے وی کی اطاعت کو عادت بنایا جائے ورنہ جس اسلام میں مسجد ضرار کا کوئی مقام نہیں وہ ایسے مسلمانوں کو بھی کافر، ظالم اور فاسق قرار دیتا ہے جو احکامِ الٰہی کے تحت عمل نہیں کرتے اور اسلام کو نافذ نہیں کرتے۔

سواد اعظم:
ہر شخص سے رائے لینے کے نظام کو اسلامی ثابت کرنے کا بدیہی نتیجہ ہے کہ کثرت رائے ہی درست ہے، کو بھی اسلامی ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ پروفیسر خورشید احمد فرماتے ہیں۔ ''اللہ تعالیٰ نے سواد اعظم کا جو ذکر کیا ہے وہ اکثریت اور جماعت کی طرف ہی اشارہ ہے اور حضور پاک ﷺ کی حدیث بھی موجود ہے کہ سواد اعظم کے ساتھ ہو جاؤ جب کہ ایک دوسرے حدیث میں موجود ہے کہ میری امت ضلالت پر متفق نہیں ہو گی۔ ان احادیث میں امت کے سلسلے میں کوئی تخصیص نہیں کی گئی بلکہ امت سے عامۃ المسلمین مراد ہیں اور اگر کسی مسئلے پراختلاف ہو اور اسی سلسلے میں ایک طرف اکثریت اور دوسری طرف اقلیت ہو تو اکثریت کا فیصلہ مانا جاتا ہے۔''

بڑے ادب سے عرض ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سواد اعظم کا ذکر نہیں کیا۔ حدیث قدسی بھی کوئی ایسی نہیں جس میں سواد اعظم کا ذکر اللہ تعالیٰ سے منسوب ہو۔ ہاں وحی خفی (حدیث) مراد ہے تو ابن ماجہ میں ''سواد اعظم کے ساتھ ہو جاؤ'' ایسی حدیث موجود ہے۔ لیکن سواد اعظم کے بارے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے بعد از خدا بزرگ ترین ہستی یعنی رسول ﷺ سے دریافت کر لیجئے کہ اس سے کیا مراد ہے جیسا کہ صحابہ کرام نے پوچھا تھا کہ ''اے اللہ کے رسولؐ! سواد اعظم سے کیا مراد ہے؟ فرمایا وہ شخص جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلے۔'' 12

سواد اعظم کے بارے میں رسولﷺ کی اس تشریح کے بعد کیا اب بھی اس توجیح کی کوئی وقعت رہ گئی ہے کہ سواد اعظم کا جو ذکر کیا ہے وہ اکثریت کی طرف اشارہ ہے۔ ملا علی قاری اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں ''اکثر کا لفظ نہ فرمایا اس لئے کہ عوام جاہل اور تعداد میں اکثر ہیں''13 شریعت بنچ میں مولانا عبد الستار نیازی کے معاون مفتی محمد غلام سرور اپنی تصنیف ''شاہ احمد رضا'' میں لکھتے ہیں کہ حدیث شریف میں اتبعوا السواد الأعظم کا لفظ فرمایا گیا ہے جس کے معنی ہیں تم اس جماعت کے پیچھے چلو جس کی شان بڑی ہو۔ تعداد کی کوئی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے حدیث میں سواد اعظم فرمایا، سواد اکثر نہیں فرمایا۔''

یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ امام ابن حزم کے نزدیک سواد اعظم والی حدیث سرے سے صحیح نہیں وہ فرماتے ہیں اس حدیث کو اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو اس سے مراد عدد کثیر نہیں بلکہ یہ ہے کہ حق سے الگ نہ ہو۔'' (14) جہاں تک دوسری حدیث۔ میری امت ضلالت پرمتفق نہیں ہو گی۔ کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ اس میں امت کا اتفاق کا ذکر ہے امت کی اکثریت و اقلیت کا نہیں اور یہ کہ اجماع امت کثرت رائے کانام نہیں جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔

کثرت رائے اور حق:
جناب خالد اسحٰق اسلامی نظام میں کثرت رائے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو جب خلیفہ مقرر کیا گیا تو اس وقت حضرت علیؓ حضور اکرم ﷺ کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے۔ اس دوران اگرچہ اہل بیت کا اجتماع ہوا مگر کسی نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی خلافت کے خلاف خروج نہ کیا حضرت علیؓ خدانخواستہ کمزور یا بزدل قرار نہیں دیئے جا سکتے اس لئے ظاہر ہے کہ انہوں نے سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع کے فیصلے کے خلاف آواز بلند نہیں۔''

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس دلیل کا دعویٰ سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ سقیفہ بنی ساعدہ کا اجتماع ہنگامی نوعیت کے اجلاس سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ حضرت عمرؓ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کی بیعت ''ناگہانی بیعت'' تھی جس کی برائی سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں محفوظ رکھا (15) خالد اسحق صاحب عربی زبان کے الفاظ کے صحیح معنوں پر زور دیتے ہیں۔ اس لئے انہیں حضرت عمر فاروقؓ کے اس (فَلْتَة) لفظ پر غور کرنا چاہئے جو انہوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں ہونے والی بیعت کے بارے میں استعمال کیا۔ یہی لفظ ظاہر کرتا ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ کی کارروائی اصول نہیں بن سکتی ورنہ یہ اجتماع مسجد نبوی ﷺ میں ہوتا اور وہاں نہ ہوتا جہاں دور جاہلیت میں فیصلے کیے جاتے تھے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ دلیل کثرت رائے کی فوقیت کے ضمن میں نہیں دی جا سکتی کیونکہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کی بیعت حضرت عمرؓ یا بشیر بن سعد کی طرف سے بیعت کرنے پر ہوئی اور اس اجتماع میں کثرت اور قلت کی رائے کو پیمانہ ہی نہیں بنایا گیا۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ بیان بھی غلط ہے کہ اہل بیت کا بھی اجتماع ہوا تھا اگر ایسا ہوتا تو حضرت علیؓ حضرت ابو بکرؓ سے شکوہ نہ کرتے کہ انہیں مشورہ میں شامل نہیں کیا گیا۔ اہل بیت کے اجتماع ہونے کے باوجود یہ شکوہ بھلا کیسے کیا جا سکتا تھا ورنہ حضرت ابو بکر صدیقؓ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہمیں اہل بیت کے اجتماع میں نہیں بلایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ بیعت کا اجتماع نہیں ہوا بلکہ حضرت علیؓ تو ابھی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے کہ انہیں اطلاع ملی کہ لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو خلیفہ بنا لیا ہے اور وہ اب مسجد نبوی ﷺ میں منبر رسولؐ پر ہیں 16

چوتھی بات یہ ہے کہ کم از کم حضرت علیؓ کو کثرت رائے کی فوقیت تسلیم کرنے والا ثابت کرنا لا یعنی اور فضول کوشش ہے کیونکہ ان کا یہ قول... إن الحق لا یعرف بالرجال أعرف الحق تعرف أھله... ایک ضرب المثل بن چکا ہے کہ حق لوگوں کی وجہ سے نہیں پہچانا جاتا، حق پہچان، اہلِ حق کو پہچان لے گا یعنی لوگ حق کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں، حق لوگوں کی وجہ سےنہیں پہچانا جاتا۔ حضرت علیؓ کا یہ ارشاد تو آج بھی کثرت رائے درست ہے، کا فلسفہ پیش کرنے والوں کو صراط مستقیم اور اسلام کے سیاسی نظام میں کثرت و قلت کی حیثیت کا درس دے رہا ہے۔

مستحسن طریقہ:
''ایوانِ بالا میں کلی طور پر ہر شعبہ زندگی کے ماہرین کو شامل کیا جائے۔'' ایسی تجویز پیش کرنے والے ممتاز قانون دان خالد اسحٰق صاحب ہی فرماتے ہیں۔ قرآن مجید میں خلیفہ کے تقرر کے بارے میں کوئی اصول وضع نہیں کیا گیا اس لئے ہم حالات کے مطابق مستحسن طریقہ اپنا سکتے ہیں اور اس سلسلے میں نامزدگی کی نسبت انتخابات کا طریق کار زیادہ موزوں ہے کیونکہ عبد اللہؓ بن زبیرؓ نے یزید کی نامزدگی کی ممانعت کی تھی۔'' کیا قرآن مجید خلیفہ کے تقرر کے بارے میں کوئی اصول نہیں دیتا، اس پربحث ہو چکی ہے اور جہاں تک عبد اللہؓ بن زبیرؓ کی یزید کی نامزدگی مخالفت کا معاملہ ہے یہ بھی الگ موضوع ہے جو الگ مضمون کا تقاضا ہے کہ انہوں نے نامزدگی کی مخالفت کی تھی یا یزید کی نامزدگی کی۔۔۔؟ لیکن عبد اللہؓ بن زبیرؓ کی بجائے ان کے نانا حضرت ابو بکر صدیقؓ کا عمل (حضرت عمرؓ کو نامزد کرنا) کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ حضرت عمرؓ کی چھ افراد کی خلافت کے لئے نامزدگی سے صرف نظر کیوں؟ کیا یہ سب کچھ اس لئے کہ نامزدگی ہماری ''عادت''کے برعکس ہے اور عادت سے برعکس طریقہ کو بنظرِ استحسان دیکھنا ہماری عادت نہیں!

کم از کم ایک مسلمان کے لئے تو وہی طریقہ مستحسن ہو سکتا ہے جو خلفائے راشدین نے اپنایا ہے اور صحابہ کرام بھی اسی طریقہ کو مستحسن سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے ابن عمر سے کہا۔ ''اے بیٹے! عمرؓ کو میرا سلام پہنچانا اور کہنا کہ امت کو بغیر محافظ کے نہ چھوڑ جاؤ اور اپنا جانشین اور حاکم مقرر کر دو۔'' (17) مہاجر صحابہ نے حضرت عمرؓ سے کہا ''اے امیر المومنین ہم پر خلیفہ اور حاکم مقرر کر دو (امامت والسیاست) دوسری طرف حضرت طلحہ اور دیگر صحابہ بھی حضرت عمرؓ کی نامزدگی پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ حضرت ابو بکر صدیقؓ سے صرف عمرؓ کی سخت گیری کی شکایت کرتے ہیں (18) اس کے ساتھ ساتھ حضرت عمرؓ بھی عمل کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی نامزدگی کے طریقہ کو مستحسن قرار دیتے ہیں کہ ''اگر ابو عبیدہؓ بن الجراح زندہ ہوتے تو میں ان کو خلیفہ مقرر کرتا۔۔ اگر معاذ بن جبلؓ زندہ ہوتے تو میں ان کو خلیفہ مقرر کرنا۔ اگر خالد بن ولید زندہ ہوتے تو میں ان کو خلیفہ مقرر کرتا۔ اب میں ان لوگوں (علی، عثمان، طلحہ، زبیر، سعد اور عبد الرحمان بن عوف (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کو مقرر کرتا ہوں (19) اسی طرح حضرت عمرؓ نے سالمؓ، مولیٰؓ، ابو حذیفہؓ کا بھی نام لیا کہ وہ زندہ ہوتے تو انہیں خلیفہ مقرر کرتا۔ 20

جمہوریت، آمریت اور۔۔۔۔۔؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو عمل بھی جمہوریت کی مخالفت میں جاتا ہو وہ جمہوریت نواز مسلمانوں کے لئے مستحسن طریقہ نہیں اور وہ آمریت کا مظہر ہے۔ بس ان حضرات کے نزدیک دنیا میں صرف دو ہی سیاسی نظام ہیں۔ ایک جمہوریت دوسری آمریت! اسی لئے پروفیسر خورشید احمد فرماتے ہیں۔ ''اسلام کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمان بنیادی طور پر جمہوریت پسند ہیں اور ہر دور میں مسلمانوں نے آمرانہ نظام کے خلاف بغاوت کی ہے۔'' پروفیسر خورشید احمد کا یہ ارشاد بھی پڑھ لیجئے کہ ''اگر امیر شوریٰ کے مشورے کا پابند نہ ہو تو یہ شہنشاہیت اور آمریت کی بدترین مثال ہو گی۔ اور یہ محض کنگ دل'' ہو گی جو جمہوری تقاضوں کی نفی ہے اور میں اسے ہٹ دھرمی سمجھتا ہوں۔''

ہر دو ارشادات میں جمہوریت اور آمریت کا موازنہ کرتے ہوئے مسلمان کو جمہوریت پسند ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب کیا کہا جائے، بس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جمہوریت پسند مسلمان کو اسلام پسند کی بجائے اسلام کا پابند بنا دے تاکہ اسے معلوم ہو سکے کہ جمہوریت، آمریت، شہنشاہیت اور ملغوبہ سیاسی ازم کے ساتھ ساتھ اسلام کا اپنا سیاسی نظام بھی ہے جس میں ان تمام سیاسی نظاموں کی خوبیاں موجود ہیں اور خامیاں مفقود۔

لیکن ہر اس دانشور نے ابھی مختلف نظاموں کا تجربہ کرنا ہے اور تجربات کے پتھروں سے ٹھوکریں کھانی ہیں جس کے پاس اتنی بھی عقل نہیں کہ خالق کی عقل بہرحال انسانی عقل سے بڑھ کر ہے۔ جونہی اس حقیقت کا اعتراف کیا جائے گا تو تجرباتی پتھروں پر پڑا یہ سر خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے کا شرف حاصل کر لے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ عقل کا خالق اب بھی ان دانشوروں سے کہہ رہا ہے کہ إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلْإِسْلَـٰمُ...﴿١٩﴾...سورۃ آل عمران خدا کے نزدیک تو بہتر ضابطۂ حیات اسلام ہے۔ ادخلوا فی السلم کافۃ مسلمان ہو تو اسلام پسند بننے کی پورے کے پورے اسلام کے پابند بن جاؤ!
''ایک زمانہ آئے گا کہ تم لوگ امارت (سرداری) کی حرص کرو گے، حالانکہ یہ قیامت کے دن ندامت کا سبب ہو گی۔'' 21

ہدایت یافتہ راہنما یا بھکاری:
جب جمہوری طریق انتخاب کو اسلامی احکام کے منافی قرار نہ دیا جائے یعنی رائے شماری اور کثرت رائے درست کو شورائیت کے مترادف تسلیم کر لیا جائے اور اسی کے ساتھ ساتھ اس کے منطقی نتیجہ (رائے عامہ حاصل کرنے کے لئے) جماعت سازی کو اسلامی تصور ثابت کیا جائے تو اقتدار حاصل کرنے کے لئے دوڑ دھوپ بھی ''فرض'' ٹھہرے گی کیونکہ یہ کچھ اور جماعت سازی اور سیاست بازی لازم ملزوم ہیں لیکن جمہوریت پر ایمان لانے والے مسلمانوں کو ''طلب اقتدار'' کو اسلامی ثابت کرنے کے لئے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مقام پر بھی وہ ''یہ بھی درست وہ بھی درست'' کی تکرار کرتے ہوئے نظر آتے اور یہ ان کی مجبوری ہے کیونکہ وہ اسلامی احکام کی موجودگی میں ان سے قطعاً برعکس غیر اسلامی نظریات کو اسلامی ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ جمہوریت پر ایمان لانے کے تقاضے پورے ہو سکیں۔

خالد اسحٰق صاحب ایک تجویز پیش کرتے ہیں کہ ''چونکہ سیاسی جماعتوں کی خامیاں صرف اور صرف اقتدار حاصل کرنے کی خواہش کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں اس لئے اگر عہدوں کی طلب پر پابندی عائد کر دی جائے توپھر سیاسی جماعتوں کے وجود پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔'' لیکن جماعت سازی کی بنیادی وجہ یاد آنے پر فرماتے ہیں۔ ''اسلامی نظام میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ خود کو بطور امیدوار پیش کرنے کی بھی گنجائش موجود ہے اور اقتدار کے حصول کے لئے عوام کو اپنی حمائت کی ترغیب دینے اور اس سلسلے میں اصراف میں بھی کوئی قباحت نہیں۔''

اپنے پہلے ارشاد کی نفی میں وارد ہونے والے دوسرے ارشاد کو ''اسلامی'' ثابت کرنے کے لئے وہ فرماتے ہیں ''انتخابات میں سیاسی سرگرمیوں اور خود کو بطور امیدوار پیش کرنا صرف عصر حاضر کی اختراع نہیں بلکہ مسلمان علماء ہر دور میں اس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے وہ فرماتے ہیں۔ ''امام مالکؒ نے کہا ہے کہ حضرت عثمانؓ جب انصاف کرنے کے لئے بیٹھتے تو چار پانچ اہل علم کو بھی اپنے ساتھ بٹھاتے اور ان سے مشورہ کرتے اور جب حضرت عثمانؓ کی رائے اور اہلِ علم کی رائے میں اتفاق ہو جاتا تو وہ فیصلہ صادر کرتے مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے کہ یہ میرا فیصلہ نہیں بلکہ میرے رفقاء کار کا ہے۔'' اس دلیل یا ثبوت یا جو کچھ بھی ہے، کو دوبارہ پڑھ لیجیے تاکہ یہ فیصلہ کرنے میں آسانی رہے کہ اس کا۔۔۔ اسلامی نظام میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ خود کو بطور امیدوار پیش کرنے کی گنجائش موجود ہے اور اقتدار کے حصول کے لئے عوام کو اپنی حمایت کی ترغیب دینے اور اس سلسلے میں اصراف میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ ایسے دعویٰ سے کیا تعلق ہے۔

خالد اسحٰق صاحب نے طلبِ اقتدار کے ضمن میں سورہ یوسف کی آیت نمبر 54 کو نظر انداز کر کے آیت نمبر 55 کا حوالہ بھی دیا ہے اور اس طرح انہوں نے پہلے درجے کی احادیث (بخاری و مسلم) کے مقابلے میں دوسرے درجے کی ایک حدیث (ابو داؤدii) کا حوالہ دے کر ''قرآن و حدیث کے اصولوں کی روشنی میں عہدے کے لالچ کی سات اقسام بھی گنوا دی ہیں، جنہیں سامنے رکھ کر کوئی عادی ''سیاست باز'' بھی انتخابی عمل کو جاری رکھنے اور امیدوار کے طور پر پیش ہونے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ سات اقسام یہ ہیں۔

  • اگر کوئی قاضی محسوس کرے کہ وہ سلطان کے دباؤ کی وجہ سے انصاف نہیں کر سکے گا اس کے لئے قضا کی خواہش حرام ہے۔
  • جاہل مطلق اگر کسی عہدے کی خواہش کرے وہ حرام ہے۔
  • جو قاضی بننے کی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔
  • اس شخص کے لئے عہدے کا حصول حرام ہے جس کی خواہش اس عہدے کی وجہ سے دنیا اور اقتدار کا حصول ہو۔
  • اس آدمی پر بھی عہدے کے حصول کی خواہش حرام ہے جو محض اس لئے عہدہ حاصل کرنا چاہتا ہو کہ کسی سے انتقام لے سکے۔
  • اس شخص کے لئے عہدے کی طلب حرام ہے جو ایک صالح اولو الامر کے ہوتے ہوئے یہ خواہش کرے کہ وہ لوگ ہو جائے اور میں اس کی جگہ لے لوں۔
  • جب کسی آدمی کو معلوم ہو کہ ایک عہدے کے لئے اس سے زیادہ اہل موجود ہیں لیکن اس کے باوجود عہدے کی خواہش کرے تو وہ حرام ہے۔


کیا حضرت یوسفؑ نے عہدہ طلب کیا؟
جو حضرات خود کو امیدوار کے طور پر پیش کرنے اور عہدہ طلب کرنے کے سلسلہ میں سورۂ یوسف کی آیت نمبر 55 کا حوالہ دیتے ہیں وہ دراصل اپنے ہی کسی عمل کو قرآن مجید سے ثابت کرنا چاہتے ہیں مگر قرآن مجید سے رہنمائی نہیں حاصل کرنا چاہتے ورنہ وہ سورۂ یوسف کی آیت نمبر 55 سے پہلے آیت نمبر 54 پڑھتے یا دونوں آیات کو ایک ساتھ پڑھنے کی زحمت ضرور گوارا فرماتے۔

اگر سورۃ یوسف کی آیت نمبر 54 اور 55 کو ایک ساتھ سامنے رکھا جائے تو اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے طور پر منصب اور عہدہ طلب نہیں کیا تھا بلکہ انہیں اس منصب اور عہدہ کا اہل سمجھتے ہوئے یہ فریضہ سونپا گیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں انہیں حکومت میں شامل کر لیا گیا تھا مگر انہوں نے اپنی پسند کا وہ عہدہ قبول کیا کہ جس سے وہ زیادہ آسانی اور خوبی سے عہدہ بر آ ہو سکتے ہیں۔

زیادہ وضاحت مطلوب ہو تو یہ بھی پڑھ لیجیے کہ جس طرح کابینہ میں چند افراد کو لیا جاتا ہے اور انہیں مختلف وزارتوں کے قلمدان تفویض کیے جاتے ہیں لیکن کوئی ایک مشیر یا وزیر با تدبیر کہہ دیتا ہے کہ نہیں جناب! میں تو فلاں قلمدان وزارت کا بوجھ بخوبی اُٹھا سکتا ہوں۔ کسی ایک وزیر کا یہ کہنا کہ مجھے فلاں وزارت کا قلمدان دیجیے، سے یہ مطلب نہیں اخذ کیا جا سکتا اس نے عہدہ طلب کیا ہے بلکہ یہی کہنا مناسب ہو گا کہ اسے وزارت کاا ہل تو تصور کیا گیا مگر اس نے اپنی پسند اور اہلیت کے مطابق منصب قبول کیا۔

یعنی اس نے عہدہ طلب نہیں کیا بلکہ قبول کیا ہے!
حضرت یوسف علیہ السلام کو ''عہدہ طلب کرنے والوں'' میں شمار کرنے والے حضرات کو علم ہونا چاہئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ گمان ہی غلط ہے کہ انہوں نے عہدہ طلب کیا انہوں نے تو بادشاہ مصر سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ سورۂ یوسف کی آیت نمبر 50 کی تشریح میں تفسیر ابن کثیر ہے کہ ''جب بادشاہ مصر نے یہ حیرت انگیز خواب دیکھا اور اس کو اللہ کے نبی کی زبانی خواب کی تعبیر بتائی گئی تو اس کی نگاہ میں آپؑ کی معلومات کی وسعت، آپؑ کے فن تعبیر میں مہارت اور آپ ﷺ کے حسنِ اخلاق اور رعایا کی خیر خواہی کا جذبہ کھب گیا اور بے ساختہ اس کی زبان سے یہی نکلا کہ اس قدر قابل و لائق شخص کا قید خانے میں رہنا اس پر ظلم ہے، ایسے شخص کی تو بادشاہ کو سخت ضرورت ہے کہ وہ مہمات و نازک اوقات میں اپنے پُرخلوص و بے لوث مشورے سے بادشاہ کی اعانت کرتا رہے، اس لئے اب تک ایک منٹ کے لئے یوسفؑ کو قید خانہ میں نہ رکھا جائے اور میرے پاس بھیج دیا جائے۔ پھر جب آپؑ کے پاس رہائی کا پروانہ شاہی آدمی لے کر پہنچا تو آپؑ نے جیل خانہ چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا تاوقتیکہ شہر کے بڑے بڑے لوگ اور خود بادشاہ اس الزام کی تحقیق کر کے آپؑ کو بری نہ سمجھیں جو آپؑ نے سر تھوپا گیا تھا۔''

حضرت یوسف علیہ السلام کے اس انکار اور صبر کی اللہ کے آخری رسول ﷺ نے تعریف فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ ''اگر میں یوسفؑ کی جگہ ہوتا تو اسی وقت قاصد کی بات مان لیتا اور کوئی عذر تلاش نہ کرتا۔'' (ترمذی، مسند احمد، تفسیر ابن کثیرiii)

حضرت یوسفؑ کو عہدہ دیا گیا:
الزام کی تحقیق کے بعد بادشاہ حضرت یوسف علیہ السلام کے علم و فضل کا مزید قائل ہو گیا اور اس نے کہا ''اسے (حضرت یوسف علیہ السلام کو) میرے پاس لاؤ تاکہ میں اسے اپنے خاص کاموں کے لئے مقرر کر دوں پھر جب اس نے آپ سے گفتگو کی تو بولا تم آج سے ہمارے نزدیک معزز و معتبر ہو۔'' (یوسف: 54) تفسیر ابن کثیر میں ہے ''جب بادشاہ کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کھل گئی تو خوش ہو کر کہا کہ انہیں میرے پاس بلا لاؤ کہ میں انہیں اپنے خاص مشیروں میں کر لوں۔ چنانچہ آپؑ تشریف لائے۔ جب وہ آپﷺ سے ملا، آپﷺ کی صورت دیکھی، آپ کی باتیں سنیں، آپؑ کے اخلاق دیکھے تو دل سے گرویدہ ہو گیا اور بے ساختہ اس کی زبان سے نکل گیا کہ آج سے آپؑ ہمارے ہاں معزز اور معتبر ہیں اس پر آپؑ نے ایک خدمت اپنے لئے پسند فرمائی اور اس کی اہلیت ظاہر کی۔''

امام ابن کثیر کے علاوہ دیگر مترجمین اور مفسرین نے بھی زیرِ نظر آیت (یوسف: 54) کی یہی تشریح اور تفسیر فرمائی ہے۔ مولانا اشرف علی کا ترجمہ یہ ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ ان کو میرے پاس لاؤ میں ان کو خاص اپنے (کام کے) لیے رکھوں گا۔ جب بادشاہ نے ان سے باتیں کیں تو بادشاہ نے (ان سے) کہا تم ہمارے نزدیک آج (سے) بڑے معزز اور معتبر ہو'' مولانا نذیر احمد دہلوی نے اپنے ترجمہ میں لکھا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو میرے پاس لاؤ ''ہم اس کو عزیز کی خدمت سے چھڑا کر) خالص اپنے (کام کے) لئے رکھیں گے پھر جب(حضرت یوسفؑ سے) بات چیت کی تو (بادشاہ، کو حضرت یوسف علیہ السلام کی لیاقت ثابت ہوئی اور ان سے) کہا آج (سے) تم ہماری سرکار میں بڑے باوقار (اور) صاحب اعتبار ہو۔'' شاہ عبد القادر دہلوی نے یہ ترجمہ کیا ہے ''اور کہا بادشاہ نے لے آؤ اس کو میرے پاس میں خالص کر رکھوں گا اس کو اپنے کام میں پھر جب بات چیت کی اس نے کہا سچ تو نے آج ہمارے پاس جگہ پائی معتبر ہو کر'' حاشیہ میں اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ اب سے عزیز کا علاقہ موقوف کیا اپنی صحبت میں رکھا۔ مولانا محمود الحسن نے بھی شاہ عبد القادر والا ترجمہ کیا ہے صرف سچ کی جگہ واقعی لکھا ہے اور حاشیہ میں اس آیت کے اس حصے ''اور کہا بادشاہ نے لے آؤ اس کو میرے پاس میں خالص کر رکھوں اس کو اپنے کام میں۔'' کی تشریح یہ کی کہ ''یعنی میرا مشیر خاص رہے گا۔'' مولانا احمد سعید نے اس آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ ''اور بادشاہ نے کہا یوسفؑ کو میرے پاس لے آؤ میں اس کو اپنے کام کے لئے مخصوص کر لوں گا۔ پھر جب یوسف علیہ السلام سے بادشاہ نے گفتگو کی تو کہا آج سے تو ہمارے ہاں صاحب منزلت اور صاحب اعتبار ہے۔'' حاشیہ میں لکھتے ہیں۔ اور بادشاہ نے خواب کی تعبیر سننے اور مقدمہ کے حالات معلوم کرنے کے بعد حکم دیا کہ یوسفؑ کو میرے پاس لاؤ میں خالص اس کو اپنے کام کے لئے مخصوص کر لوں گا پھر جب بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام سے باتیں کیں تو اور بھی زیادہ ان کی قابلیت کا معترف ہو گیا اور اس نے یوسفؑ سے کہا کہ تم آج سے ہمارے نزدیک زیادہ معزز اور معتبر اور صاحبِ منزلت اور صاحبِ اعتبار ہو، یعنی بادشاہ، ان کی باتیں سن کر پہلے ہی ان سے خوش اعتقاد ہو گیا تھا اب گفتگو کے بعد اس کی رائے اور بھی پختہ ہو گئی اور اس نے ان کو اپنا خاص مقرب اور مشیر بنا لیا اور عزیز کے تعلق کو ختم کر دیا۔''

قرآن مجید کا کوئی بھی اردو ترجمہ پڑھ لیجیے اور خود ہی فیصلہ کر لیجیے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عہدہ طلب کیا تھا یا انہیں مشیر مقرر کر لیا گیا تھا تب انہوں نے اپنی اہلیت کے مطابق ایک عہدہ قبول فرمایا۔ مگر شرط یہ ہے کہ قرآن مجید سے اپنا کوئی عمل ثابت کرنے کی بجائے اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے پڑھا جائے بصورت دیگر خود کوبدلنے کی بجائے قرآن کو بدلنے کے مترادف ہو گا۔

عہدہ کس سے طلب کیا جائے!
مولانا ابو عمار زاہد الراشدی فرماتے ہیں کہ ''امیدوار ہونا اور منصب طلب کرنا فی نفسہٖ معیوب یا مذموم امر نہیں ورنہ خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہت کا اور حضرت یوسف علیہ السلام عزیز مصر سے وزارت خزانہ کا تقاضا نہ کرتے۔'' سوال یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اقتدار کس سے طلب فرمایا؟ قرآن مجید ہماری رہنمائی فرماتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دعا کی ''اے رب مجھے بخش دے اور بادشاہت دے جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو بے شک تو ہی بڑا دینے والا ہے۔'' (22) اور اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا قبول فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ''یہ ہماری بے حساب دین ہے تو (لوگوں کو) اس میں سے دے یا رکھ چھوڑ(23) اور جہاں تک حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف سے ''عزیز مصر سے وزارت خزانہ کا تقاضا'' کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں تفصیل سے لکھا جاچکا ہے کہ انہوں نے اہلیت کے مطابق ایک عہدہ قبول فرمایا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو بغیر طلب کے اختیار ملنا بھی اللہ کی دین تھی جس کا ذکر سورۃ یوسف کی آیت نمبر 54 اور 55 کے فوراً بعد ہوا ہے کہ ''اور ہم نے اس طرح سے (مصر کے) ملک میں یوسفؑ کو جمایا '' (یوسف:56)

اللہ کی بجائے عوام سے مانگنے کا نتیجہ:
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ منصب اور اس سے عہدہ برآ ہونے کی اہلیت اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں۔ سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 74 میں مومنوں کی ایک دعا کا ذکر ہے کہ ''اے رب! ہمیں ایسی بیویاں اوراولاد عطا کر جن کی طرف سے (ہماری) آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ہمیں متقین کا امام بنا۔'' اللہ تعالیٰ سے کسی منصب کو طلب کرنے کا مقصد دراصل اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی اہلیت طلب کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن کثیر نے اس دعا کی تشریح میں لکھا ہے کہ ''ہمیں پارساؤں کا پیشوا بنا کہ ہر نیکی میں ہماری اقتدار کی بجائے ہم راہ یافتہ رہنما ثابت ہوں اور لوگوں کو بھلائیوں کی طرف بلاتے رہیں۔ ان کی ہدایت سے دوسرے بھی فائدہ اُٹھائیں تاکہ ان کا ثواب بڑھ جائے اور انجام بخیر ہو۔'' یعنی اللہ تعالیٰ سے کسی منصب کو طلب کرنے کا مقصد... ہدایت یافتہ رہنما... بننے کے مترادف ہے۔

ہدایت یافتہ رہنما اور اہل تلاش کیے جاتے ہیں وہ خود اقتدار حاصل کرنے کے لئے عوام کے پیچھے مارے مارے نہیں پھرتے بلکہ ان کے نزدیک عوام کے پیچھے مارے مارے پھرنا یا عوام کو مقتدر اعلیٰ سمجھنا ہدایت یافتہ ہونے کے منافی ہے کیونکہ عزت (اور اقتدار) تو تمام کی تمام اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔'' (النساء: 139)

اب جب کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے منصب یا اس سے عہدہ برآ ہونے کی اہلیت طلب کرنا ترک کر دیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ سے عزت (اور منصب) چاہنے کی بجائے عوام سے ہی منصب کی بھیک مانگتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہی عزت، منصب اور اقتدار عطا کرنے والے اور اقتدار کا سرچشمہ ہیں تو ہماری اسی ضلالت اور گمراہی کے پیش نظر ہم سے ''اہلیت'' چھین لی گئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اہلیت حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں، عوام سے منصب طلب کرنے کے چور دروازے تلاش کرنا چھوڑ دیں اور خود کو اہل ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ عوام خود ہمیں رہنما اور پیشوا بنائیں تاکہ ان سے التجا کرتے کہ خدارا ہمیں اپنا رہنما بنا لو!

چھینی گئی اہلیت دوبارہ پانے کے لئے اللہ کے رسول ﷺ کی یہ ہدایت ایک بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے کہ ''امارت کے لئے سوال نہ کرنا اس لئے کہ امارت بغیر سوال کے ملے (یعنی اہل سمجھتے ہوئے دی جائے) تو اللہ کی طرف سے مدد کی جاتی ہے (وہ اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کی اہلیت میں اضافہ کرتا ہے) اور سوال سے ملے تو اس کی اپنی ذمہ داری پر چھوڑ دی جاتی ہے: (24)یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال نہیں۔ لیکن ہم نے اس طریقہ کو اپنے لئے پسند کیا جس میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل نہیں ہوتی بلکہ اہلیت حاصل کرنے کی بنیاد کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مولانا ابو عمار زاہد الراشدی فرماتے ہیں۔ ''اگر عہدہ کی طلب اور تقاضاے کی کلی ممانعت کو بنیاد بنا لیا جائے تو آج کے دور میں ہماری اجتماعی زندگی کی گاڑی ایک قدم بھی آگے نہیں چلے سکے گی۔''

عرض یہ ہے کہ اگر ہماری اجتماعی زندگی کی گاڑی اسی پٹڑی پر چل رہی ہے جس پر چلنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے تو یہ گاڑی رک ہی نہیں سکتی۔ مصیبت یہ ہے کہ ہمیں پٹڑی کی فکر نہیں بس گاڑی کے چلتے رہنے کی فکر ہے خواہ یہ گاڑی اس پٹڑی پر چل رہی جو سیدھی جہنم کی طرف لے جا رہی ہے۔ دورِ حاضر میں مناصب اور ذمہ داریوں کو عطا کرنے کے طریق کار(iv) کو پیش نظر رکھا جائے تو بھی مولانا راشدی کا مفروضہ غلط ٹھہرتا ہے کیونکہ انہوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے مناصب کے لئے اہلیت کی ضروری شرائط عائد کر کے امیدواروں(v)میں سے موزوں افراد کو چنا جاتا ہے۔''

غلط طریقوں سے اصلاح:
مولانا ابو عمار زاہد الراشدی فرماتے ہیں۔ ''سیاسی عہدوں کے لئے اہلیت کی شرائط کا تعین ہونا چاہئے اور ان شرائط پر پورا اترنے والے افراد کے لئے سیاسی عہدوں کی طلب اور امیدواری کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں۔'' یعنی اہلیت کا تعین ہونا چاہئے لیکن اہلیت حاصل کرنے کی بنیاد تسلیم نہ کی جائے یہ ایسی ہی بات ہے کہ جڑ کو رہنے دیا جائے اور شاخیں کاٹ کر سمجھا جائے کہ اب بس درخت اکھڑ چکا ہے! یا یہ کہ پٹڑی کو تبدیل نہ کیا جائے بس اسے اور زیادہ مضبوط کر دیا جائے تاکہ گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی چلتی رہے۔ حالانکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پہلے پٹڑی اور اس کی سمت کا تعین کر لیا جائے ورنہ جس طرح مضبوط پٹڑی اور فراٹے بھرتی ہوئی گاڑی منزلِ مقصود پر پہنچانے کی ضامن نہیں بن سکتی۔ اسی طرح اہلیت کے شرائط پر پورے اترنے والے اہل لوگ بھی اجتماعی زندگی کی گاڑی چلانے کی اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکیں گے کیونکہ وہ ''اہل'' ہونے کے باوجود اگر عوام کی حمایت سے اوپر آتے ہیں تو لا محالہ حمایت کو طول دینے کے لئے ''عوامی ذہن'' کے مطابق کام کریں گے جب کہ ہدایت یافتہ رہنما کا کام عوام کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے عوام کی خواہشوں کی اتباع نہیں۔

پروفیسر خورشید احمد بھی بس اہلیت کی شرائط کا تعین چاہتے ہیں وہ فرماتے ہیں۔ ''اگر ذمہ داری کے مناصب پر اچھے لوگ نہیں آئیں گے تو یقیناً خراب لوگ مسلط ہو جائیں گے جس سے مسلم معاشرہ کو شدید نقصان ہو گا۔'' ہمارا یہ سوال اب بھی برقرار ہے کہ بنیاد کو تبدیل کیے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔ خراب لوگوں کے ساتھ اچھے لوگ بھی ذمہ داری کے مناصب پر آجائیں تو بھی اچھائی کی ترویج نہیں ہو گی کیونکہ اچھے اور برے لوگ اچھائی کی ترویج کے لئے ایک دوسرے کے معاون نہیں بن سکتے بلکہ اچھے لوگ بھی اگر اچھائی کی ترویج کے لئے برے طریقے اختیار کریں گے تو وہ بھی اچھے نہیں رہیں گے(vi)۔ اچھے لوگوں کے ذمہ داری کے مناصب پر آنے سے اسی صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے کہ وہ ذمہ داری کے مناصب پر فائز ہونے کے لئے اچھے برے ہر قسم کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے محتاج نہ ہوں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امانت (اس کا مقدر اعلیٰ ہونا) واپس اللہ تعالیٰ کو لوٹا دی جائے۔ شاورهم في الأمر کے تحت اہل حل و عقد اپنے میں کسی کو خلیفہ، امیر یا امام بنائیں اور خلیفہ، امیر یا امام اپنی مدد کے لئے اہل افراد کو خود منتخب کرے اِس صورت میں اہل افراد کو اختیار طلب کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ ہو گی کیونکہ اہل افراد کی مدد کی آخر کس کو ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ذمہ داری کے مناصب پر اچھے افراد کو فائز دیکھنے والوں کو بھی اِس طریق کار سے اتفاق نہیں وہ بھی اہلیت حاصل کرنے کی بنیاد کو قبول نہیں کرنا چاہتے بلکہ عوام کے اقتدار اعلیٰ کو قائم رکھتے ہوئے اقتدار کی طلب کے جواز کی تلاش میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی منشاء:
مولانا ابو عمار زاہد الراشدی فرماتے ہیں کہ ''نبی اکرم ﷺ نے طلب قضا یا طلب امارت کی مطلقاً ممانعت نہیں فرمائی بلکہ ہر شخص کو اس کے مخصوص حالات اور کیفیت کے مطابق جواب دیا، کسی کو کمزوری کے حوالے سے، کسی کو نامساعد حالات کے حوالے سے اور کسی کو قضا اور امارت کی سخت ترین ذمہ داری کے حوالے سے اور ان میں سے صرف ایک مقام پر حضور نبی اکرم ﷺ نے انکار میں شدت اختیار فرمائی جہاں سوال کرنے والے اپنے ساتھ سفارشی بھی لائے ہیں اور نبی اکرم ﷺ کو ان ان میں حرص کے جراثیم نظر آتے ہیں اس لئے نبی اکرم ﷺ نے اس ارشاد میں سوال کے ساتھ حرص کا بھی ذکر کیا ہے۔

اب رسول اللہ ﷺ کے وہ ارشادات آپ بھی پڑھیں جن کے بارے میں مولانا راشدی نے فرمایا ہے کہ ''ان ارشادت پر ایک بار پھر غور فرمائیے یقیناً آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچیں گے۔'' (جس پر راشدی صاحب پہنچے ہیں جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے)
حضرت ابو ذرؓ نے تقاضا کیا کہ مجھے عامل بنا دیا جائے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ابو ذرؓ تم کمزور ہو اور یہ امانت ہے۔ 25
ایک انصاری صحابیؓ نے عامل بنانے کا تقاضا کیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تم نامساعد حالات دیکھو گے اس لئے صبر کرو۔ 26
حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ کو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ امارت کا سوال نہ کرنا اس لئے کہ امارت بغیر سوال کے ملے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کی جاتی ہے اور اگر سوال سے ملے تو اس کی اپنی ذمہ داری پر چھوڑ دی جاتی ہے27
حضڑت ابو موسیٰ اشعریؓ کے چچازاد بھائی انہیں بتائے بغیر سفارشی بنا کر نبی اکرم ﷺ کے پاس لے گئے اور عامل بنانے کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا بخدا ہم اس کو عامل نہیں بنانے جو سوال کرے اور حریص ہو۔28

روایت ابو ذرؓ:
مولانا زاہد الراشدی نے اللہ کے رسول ﷺ کے مذکورہ بالا ارشادات کے حوالے سے جو نتائج اخذ کیے ہیں، کو پیش نظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ مولانا راشدی کا کہنا درست نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو ذرؓ کو کمزوری کے حوالے سے'' جواب دیا مولانا راشدی نے مسلم کی مکمل حدیث نقل نہیں کی ورنہ وہ اس نتیجے پر نہ پہنچتے۔ مکمل حدیث کا لفظی ترجمہ (vii) یہ ہے۔ ''اور روایت ہے ابو زرؓ سے کہ کہا، کہا میں نے یا رسول اللہؐ اللہ کیا نہیں عامل کرتے مجھ کو، کہا ابو ذرؓ نے کہ مارا حضرتؓ نے اپنا ہاتھ میرے مونڈھے پر پھر فرمایا اے ابو ذرؓ تحقیق تو ضعیف ہے اور یہ (سرداری) امانت ہے اور تحقیق (سرداری) ہو گی دن قیامت کے سبب رسوائی اور پشیمانی کی لیکن جس شخص نے لیا اسی کو ساتھ حق اس کے اور ادا کیا اس حق کو کہ اس پر ہے اس سرداری میں۔''

اس مکمل حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابو ذرؓ کو نہ صرف کمزوری کے حوالے سے جواب دیا بلکہ امارت کی ذمہ داری سے بھی آگاہ کیا اور یہ اصول بھی دیا کہ یہ اس شخص کے لئے بہتر ثابت ہو سکتی ہے جو حق کے ساتھ لے اور اس کاحق ادا کرے۔ مولانا راشدی اس اصول کو نظر انداز کر گئے ہیں کیونکہ اس سے طلب امارت کی مطلقاً ممانعت ثابت ہوتی ہے۔

امارت کو حق کے ساتھ لینے کا طریقہ کیا ہے اس کا ذکر حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہ کی روایت میں ہوا ہے جس کا تذکرہ امام مسلم نے حضرت ابو ذر کی حدیث سے قبل کیا ہے۔ اس حدیث کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔ ''روایت ہے عبد الرحمان بن سمرہؓ سے کہ کہا فرمایا مجھ کو پیغمبرِ خدا ﷺ نے نہ مانگ سرداری کو۔ پس تحقیق تو اگر دیا گیا سرداری بہ سبب مانگے کے تو سونپا جاوے گا تو طرف اس کی اور اگر دیا گیا تو سرداری بغیر سوال کے مدد دیا جاوے گا تو اللہ کی طرف سے اس سرداری پر'' لیکن اس اصول کو مولانا راشدی نے ''امارت کی سخت ترین ذمہ داری کے حوالے سے'' جواب پر معمول کیا ہے حالانکہ امارت کی سخت ترین ذمہ داری کا تذکرہ اس حدیث مبارکہ میں نہیں بلکہ حضرت ابو ذر کی روایت میں تھا جس کا انہوں نے ذکر تک نہیں کیا۔

حضرت عبد الرحمان بن سمرہ کی روایت کو ایک بار پڑھ لیا جائے تاکہ یہ فیصلہ کرنے میں آسانی رہے کہ اس میں امارت کی سخت ترین ذمہ داری کا ذکر کیا گیا ہے یا ایک اصول کا تذکرہ ہوا ہے کہ امارت کا سوال نہ کرنا اس لئے کہ امارت بغیر سوال کے ملے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مد کی جاتی ہے اور اگر سوال سے ملے تو اس کی اپنی ذمہ داری پر چھوڑ دی جاتی ہے۔ ''یعنی امارت کے لئے سوال نہ کیا جائے ورنہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل نہیں ہو گی۔ کیا ایک مسلمان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ کوئی ایسا عمل کرے جس میں اللہ کی مدد حاصل نہ ہونے کا انتباہ خود اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے کیا ہو!

حق کے ساتھ امارت لینے کے اس اصول کی تائید حضرت ابو ذرؓ کی یہ روایت بھی کرتی ہے جس کا ذکر امام مسلم نے حضرت ابو ذرؓ کی ہی روایت کے فوراً بعد کیا ہے اور اس کا تذکرہ اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابو ذرؓ کو صرف ''کمزوری کے حوالے'' سے جواب نہیں دیا تھا! امارت طلب نہ کی جائے، ایسے اصول کی تائید کرنے والی اس روایت کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔ ''فرمایا حضرتؐ نے ابو ذرؓ کو، اے ابو ذرؓ! تحقیق میں دیکھتا ہوں تجھ کو کمزور اور تحقیق میں دوست رکھتا ہوں واسطے تیرے اس چیز کو کہ دوست رکھتا ہوں واسطے نفس اپنے کے نہ امیر ہو تو دو شخصوں پر بھی اور نہ سر انجام کار ہو مال یتیم کا۔''

یہ روایت اس حقیقت کی مظہر ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابو ذرؓ کو صرف کمزوری کے حوالے سے جواب نہیں دیا بلکہ انہیں ذمہ داری ایسے عظیم منصب سے دور رہنے کا حکم دیا چہ جائے کہ اس کے لئے سوال کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی یہ اصول بھی دیا کہ کوئی بھی ذمہ داری حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ خود میں (یعنی رسول اللہ ﷺ) بھی اپنے لئے یہی پسند کرتا ہوں۔ جب اللہ کے رسول ﷺ ذمہ داری کو بڑھ کر حاصل کرنے کی کوشش کو پسند نہیں فرماتے تو کم از کم ایک مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ ذمہ داریاں حاصل کرنے کے لئے مارا مارا نہ پھرے اور وہی ذمہ داری ادا کرے جو اسے دی جاتی ہے یا جو اسے حاصل ہے کیونکہ ہر شخص اپنی اپنی جگہ راعی، نگہبان اور ذمہ دار ہے اور اسے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ''فرمایا رسول اللہ ﷺ نے خبردار ہو سب تمہارے نگہبان رعیت کے ہیں اور تم سب سوال کیے جاؤ گے اپنی رعیت سے پس امام جو حاکم ہو لوگوں پر نگہبان ہے اور وہ پوچھاجاوے گا احوال رعیت اپنی سے اور مرد نگہبان ہے اوپر گھر والوں اپنے کے اور وہ سوال کیا جاوے گا رعیت اپنی سے اور مرد نگہبان ہے اوپر گھر والوں اپنے کے اور وہ سوال کیا جاوے گا رعیت اپنی سے اور عورت نگہبان ہے اور گھر خاوند اپنے کے اور فرزندوں اس کے اور وہ سوال کی جاوے گی حق ان کے سے اور غلام مرد کا نگہبان ہے اوپر مالک اپنے کے سے اور وہ سوال کیا جاوے گا اس سے خبردار ہو پس تم سب نگہبان ہو اور تم سب سوال کیے جاؤ گے رعیت اپنی سے۔'' 29

امتِ محمدیہؐ کا ہر فرد نظام قدرت کے تحت بذات خود بگہبان اور ذمہ داری ہے اور اللہ کے رسول ﷺ ہی اس سے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ تو یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ شخص بدبخت ہے جو خود پر عائد ذمہ داری احسن طریق سے پوری کرنے کے باوجود اضافی ذمہ داری حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لئے اللہ کے رسول ﷺ بھی اضافی ذمہ قبول کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بار بار ہدایت کی کہ آپ ﷺ اپنی ذمہ داری پوری کریں کہ مخلوق خدا کو اللہ تعالیٰ کا پیغام سنائیں یہ مسلمان ہوتے ہیں یا نہیں یہ آپ ﷺ کی ذمہ داری نہیں۔

روایت ابو موسیٰؓ:
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی روایت کے بارے میں مولانا راشدی کا کہنا ہے کہ صرف ایک مقام پر نبی اکرم ﷺنے اکار میں شدت اختیار فرمائی ہے جہاں سوال کرنے والے اپنے ساتھ سفارشی بھی لائے اور نبی اکرم ﷺ کو ان میں حرص کے جراثیم نظر آئے ہیں۔ اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد میں سوال کے ساتھ حرص کا بھی ذکر کیا ہے۔'' مولانا راشدی حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی روایت کے جس نتیجہ پر بھی پہنچیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ روایت امت محمدیہؐ اور خاص طور پرا یک خلیفہ، امیر یا امام کو کیا حکم دیتی ہے کہ وہ منصب طلب کرنے والے کو امارت نہ دے یا امارت کے مسائل اور حریص کے درمیان امتیاز کرے اور پھر امارت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس روایت سے دوسرا نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ اس روایت کے الفاظ واضح طور پر بتاتے ہیں کہ ''تحقیق ہم قسم خدا کی نہیں والی کرتے اوپر اس کام کے اس کسی کو کہ مانگے ہم سے ولایت اور نہ اس کسی کو کہ حرص کرے اس پر'' یعنی امارت نہ اسے دی جائے گی جو طلب کرے اور نہ اسے جو اس کی حرص کرے یعنی منصب طلب کرنا یا اس کا حریص دونوں یکساں ہیں اور دونوں کو منصب نہیں ملے گا۔

امام مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی مذکورہ بالا روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی نقل کی ہے کہ ''فرمایا حضرتؐ نے، نہیں عامل کرتے ہم اوپر کام اپنے کے اس کو کہ ارادہ رکھے اس کا۔'' اس روایت سے نہ صرف مولانا راشدی کا یہ مفروضہ غلط ٹھہرتا ہے کہ صرف ایک مقام پر نبی اکرم ﷺ نے انکار میں شدت اختیار فرمائی ہے جہاں سوال کرنے والے اپنے ساتھ سفارشی بھی لائے ہیں اور نبی اکرم ﷺ کو ان میں حرص کے جراثیم نظر آئے ہیں۔ بلکہ اس روایت سے تو یہ اصول اور بھی نکھر کر سامنے آتا ہے کہ منصب کی حرص کرنا اور اسے طلب کرنا ہی ممنوع نہیں بلکہ منصب طلب کرنے کا ارادہ بھی ممنوع ہے۔ کیونکہ کسی چیز کو حاصل کرنے کا ارادہ ہی اسے طلب کرنے پر مجبور کرتا ہے اور ارادہ کی اس زیادتی اور طلب میں شدت کا نام حرص ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے تو منصب طلب کرنے والوں کو خائن قرار دیا ہے۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ ''تم میں سب سے بڑھ کر خائن ہمارے نزدیک وہ ہے جو اسے خود طلب کرے۔'' اور اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی بیان فرمائی کہ بہترین امیر وہی ثابت ہو سکتا ہے جو نہ امارت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ اسے سخت ناپسند کرتا ہے۔ بخاری اور مسلم کی اس روایت کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔ ''فرمایا رسول اللہ ﷺ نے پاؤ گے تم بہترین آدمیوں میں سخت ان کا ازروئے کراہت کے واسطے اس امر کے یہاں تک کہ پڑے اس میں۔'' اللہ کے رسول ﷺ تو منصب طلب کرنے والوں کو خائن اور منصب کو کراہت کی حد تک ناپسند کرنے والوں کو بہترین امیر بننے کا اہل قرار دے رہے ہیں(viii) لیکن مولانا راشدی فرماتے ہیں کہ ''نبی ﷺ نے طلب قضایا طلب امارت کی مطلقاً ممانعت نہیں فرمائی'' اور یہ کہ ''سیاسی عہدوں کے لئے بھی اہلیت کی شرائط کا تعین ہونا چاہئے اور ان شرائط پر پورا اترنے والے افراد کے لئے سیاسی عہدوں کی طلب اور امیدواری کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں۔'' اب فیصلہ خود کر لیجئے کیا خائن بھی امارت کی اہلیت کے اہل ٹھہرتے ہیں اور وہ جو امارت کو کراہت کی حد تک ناپسند کرتے ہیں اور امیدوار بننا کب پسند کریں گے سوائے اس کے کہ خلیفہ، امام یا امیر ہی انہیں کوئی ذمہ داری سونپ دے تاکہ وہ مذکورہ بالا فرمانِ رسولؐ کے مصداق بن سکیں!

حدیثِ صبر:
مولانا راشدی کا ایک انصاری صحابی کی روایت کے سلسلے میں یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی درست نہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے انہیں ''نامساعد حالات کے حوالے سے جواب دیا'' بلکہ میں بڑے ادب سے عرض کروں گا کہ مولانا ابو عمار زاہد الراشدی رداروی میں اس روایت کا غلط ترجمہ بھی کر گئے ہیں جس سے اس روایت کا مفہوم کچھ کا کچھ بن گیا ہے۔ مولانا راشدی نے اس روایت کا ترجمہ یہ کیا ہے۔ ''ایک انصاری صحابیؓ نے عامل بنانے کا تقاضا کیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ''میرے بعد تم نامساعد حالات دیکھو گے اس لئے صبر کرو'' (بخاری جلد اول ص 127)ix روایت میں چونکہ ''میرے بعد تم نامساعد حالات'' دیکھنے کا ذکر ہے تو ''اس لئے صبر کرو'' کی بجائے ''صبر کرنا'' ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے ''نامساعد حالات کے حوالے سے جواب دیا'' ایسا نتیجہ غلط ٹھہرتا ہے۔

اس حدیث کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔ اسید بن حضیرؓ سے روایت ہے ایک انصاری مرد نے کہا کہ یا حضرت ﷺ کیا آپ ﷺ مجھ کو تحصیلِ زکوٰۃ یا کسی شہر پر حاکم نہیں کرتے جیسا کہ آپ ﷺ نے فلاں کو حاکم کیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا عنقریب ہے کہ میرے بعد تم پاؤ گے اپنے سوائے اوروں کو مقدم (یعنی سوائے تمہارے اور لوگوں کو حکومت ملے گی) تو تم صبر کرتے رہیو یہاں تک کہ تم حوض کوثر پر مجھ سے ملو۔'' اس کے فوراً بعد یہ حدیث ہے کہ ''انسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انصار سے فرمایا کہ مقرر میرے بعد تم پاؤ گے اپنے سوائے اوروں کو مقدم سو تم صبر کرتے رہیو یہاں تک کہ تم مجھ سے ملو اور وعدہ گاہ تمہاری حوض ہے۔'' امام بخاریؒ نے یہی روایت کتاب الفتن میں بھی روایت کی ہے اس کا لفظ بلفظ ترجمہ یہ ہے ''اسید بن حضیرؓ سے روایت ہے کہ ایک مرد حضرتؐ کے پاس آیا سو اس نے کہا یا حضرتؐ آپ نے فلاں کو تحصیلِ زکوٰۃ پر حاکم کیا اور مجھ کو نہیں کیا حضرت ؐ نے فرمایا اور مقرر تم میرے بعد غیروں کو اپنے اوپر مقدم دیکھو گے۔ سو صبر کرتے رہنا یہاںتک کہ مجھ سے ملو۔''

ان روایات سے یہ امر واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار پر دوسروں کے مقدم ہونے (جسے مولانا راشدی نامساعد حالات سے تعبیر کرتے ہیں) کا ذکر ایک پیش گوئی کے طور پر کیا ہے اور جب یہ امر وقوع پذیر ہو گا تو صبر کے حکم پر عمل بھی اس وقت ہو گا نہ کہ انصاری صحابیؓ کے سوال کا جواب آپؐ نے بھی ''نامساعد حالات کے حوالے سے دیا۔'' بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے تو کبھی بھی ''نامساعد حالات'' میں اہل کو نظر انداز نہیں کیا خواہ کتنی بڑی اکثریت اسے نظر انداز کرنے پر زور دے۔ اس سلسلے میں حضرت اسامہؓ کو لشکر کا سردار بنانے کا واقعہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ حضرت اسامہؓ کو اس وقت سردار بنایا جاتا ہے جب کہ لوگ فوج در فوج اسلام کی آغوش میں پناہ لینے کے لئے ٹوٹ پڑے۔ حضرت اسامہؓ کو سردار بنانے اور اس سرداری پر اعتراض کے بعد بھی انہیں برقرار رکھنے سے خدشہ تھا کہ یہ ''فوجیں'' دوبارہ کفر کی طرف پلٹ جائیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کا کفار کا اسلام قبول کرنے کے لئے ''حریص'' ہونا بھی کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ پھر بھی آپ ﷺ نے ان نامساعد حالات میں بھی حضرت اسامہؓ کو لشکر کا سردار بنانے کا فیصلہ برقرار رکھا بلکہ اس کے اہل ہونے پر زور دیا کہ حالات کچھ بھی ہوں اہل کو منصب دیا جائے گا! اس صورت میں رسول اللہ ﷺ سے یہ منسوب کرنا کہ آپ ﷺ نے نامساعد حالات کے حوالے سے جواب دیا کم از کم رسولؐ کی منشا کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔

انصاری صحابیؓ کے سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے جو جامع کلمہ ارشاد فرمایا ہے وہ اپنی جگہ حکمت کا خزینہ ہے جو اس امر پر دال ہے کہ آپ ﷺ نے تو اہل کو ہی حاکم بنایا ہے لیکن ایک ایسا دور بھی آئے گی جب اہل کے ہوتے ہوئے نا اہل کو منصب اور امارت دی جائے گی تو اس وقت بھی اہل کو صبر کرنا چاہئے۔ یعنی منصب اور امارت طلب نہیں کرنی چاہئے۔ یہاں بھی ''نامساعد حالات'' کی شرط عائد نہیں کی کہ ایسے حالات میں تو صبر، اس کے بعد اہل امارت طلب کر سکتا ہے بلکہ روایت میں واضح طور پر موجود ہے کہ مجھ سے ملنے تک صبر کرو۔ یعنی موت تک۔ عمر بھر۔ اس کے ساتھ ہی حوض کوثر کا ذکر کیا جس میں حکمت یہ ہے کہ اہل صبر کرے (امارت طلب نہ کرے) تو وہ مجھے حوض کوثر پر ملے گا! میں یہ بات تکرار سے عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ آج بھی اگر کوئی شخص اس حدیث مبارکہ کو ''نامساعد حالات کے حوالے سے جواب'' تک محدود سمجھتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ ''اہلیت کی شرائط کا تعین ہونا چاہئے اور ان شرائط پر پورا اترنے والے افراد کے لئے سیاسی عہدوں کی طلب اور امیدواری کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں۔'' تو ایسا شخص اہل کو صبر کس طرح کرنا چاہئے سے، نہ صرف واقف ہے بلکہ اہل اور حوض کوثر کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دینا چاہتا ہے لیکن حوض کوثر پر اپنی امت کے منتظر رسول ﷺ آج بھی درس دے رہے ہیں کہ جب بھی اہل پر نا اہل کو مسلط کیا جائے تو امارت اور منصب کی طلب تو رہی ایک طرف اپنا حق بھی نہ مانگنے والا مجھے میرے حوض کوثر پر ملے گا۔

انصاری صحایؓ کی یہ روایت تو یہ درس بھی دے رہی ہے۔ حق دار اپنا حق بھی نہ مانگے۔ بلکہ وہ صبر کرے لیکن اس اور دیگر روایات کو من مانے طریقے سے بیان کر کے آج ہمیں کیا جا رہا ہے کہ ''یقیناً آپ بھی اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ نبی ﷺ نے طلب قضا یا طلب امارت کی مطلقاً ممانعت نہیں فرمائی۔'' إنا للہ وإنا إليه راجعون!

استثنائی کیفیت:
مولانا راشدی نے جن روایت سے مخصوص نتیجہ اخذ کیا ہے اور اس نتیجہ کا جائزہ لیتے ہوئے جو روایات ضمنی طور پر بیان کی ہیں اس کے علاوہ مزید احادیث مبارکہ سے یہی(x) اصول ثابت ہوتا ہے کہ منصب طلب نہ کیا جائے اور جو منصب طلب کرنے کا ارادہ یا خواہش بھی رکھے، اسے منصب نہ دیا جائے اسی طرح جو منصب طلب کرے وہ خائن ہے جب کہ بہتر وہ ہے جو امارت سے کراہت کی حد تک بیزار رہے۔ لیکن ہمارے کرمفرما استثنائی کیفیت کو ہی اصول ٹھہرا بیٹھے ہیں۔ مولانا راشدی فرماتے ہیں ''اگر حضرت ابو ہریرہؓ کی مندرجہ ذیل روایت کو ہی سامنے رکھا جائے تو معاملہ مزید صاف ہو جاتا ہے۔ اس روایت کے مطابق: جناب نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے مسلمانوں کی قضا کا منصب طلب کیا اور اس کو پالیا تو اگر اس کا انصاف ظلم پر غالب رہا تو اس کے لئے جنت ہے اور اگر اس کا ظلم انصاف پر غالب رہا تو اس کے لئے جہنم ہے۔'' 30

یہ ''معاملہ صاف'' کرنے والی روایت نہیں (کہ اسلام میں منصب طلب کرنے کی اجازت ہے) بلکہ یہ روایت استثنائی کیفیت کی مظہر ہے کہ اصول تو یہی ہے کہ منصب طلب نہ کیا جائے لیکن کسی نے منصب طلب کر ہی لیا تو اس کی نجات اسی میں ہے کہ وہ عدل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ابو داؤد میں اس استثنائی کیفیت کی مظہر حدیث کے فوراً بعد في طلب القضا والتسریح إليه ایسے باب کے تحت اصول کا ذکر ہوا ہے کہ ''جو شخص قضا کے عہدے کے لئے درخواست کرے اور اس عہدے کے لئے مدد چاہے گا لوگوں سے (یعنی سفارشیں کرائے گا) تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے گا اور جو درخواست نہ کرے گا نہ سفارش کرائے گا تو اللہ جل شانہٗ ایک فرشتے کو اتارے گا جو اس کی مدد کرے گا۔'' (31) یہی حدیث ابن ماجہ میں اس طرح بھی آئی ہے۔ ''انس بن مالک سے روایت ہے کہ جو شخص قاضی ہونے کی درخواست کرے گا وہ اپنے آپ کو سونپ دیا جائے گا (یعنی خدا کی طرف سے اس کی مدد نہ ہو گی) اور جس کو جبر سے قاضی بنایا جائے گا تو اس پر ایک فرشتہ اترے گا جو اس کو مضبوط کرے گا (قضا کے کاموں میں اور حق کی توفیق دے گا)'' اس روایت کا ذکر ترمذی میں بھی ہوا ہے۔

ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم اللہ کے رسول ﷺ کے تمام ارشادات کو تسلیم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم نے منصب طلب نہ کرنے کی تمام احادیث کو اصول اور جس نے منصب طلب کر لیا تو اب اس کی نجات کی صورت کیا ہے، ایسی روایت کو استثنائی کیفیت کی مظہر قرار دیا ہے لیکن جو حضرات کتاب و سنت کو اصول سمجھنے کی بجائے اپنے اصولوں کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنا چاہتے ان کی حالت واقعی قابل رحم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا ابو عمار زاہد الراشدی نے ابو داؤد میں سے جو ''قضا طلب کرے'' ایسی روایت تو لے لی ہے لیکن اسی صفحہ پر اور اسی باب کے فوراً بعد دوسرے باب میں جن روایات کا ذکر ہے ان سے صرف نظر کیا ہے حالانکہ اس باب کی پہلی حدیث منصب طلب کرنے کے سلسلے میں اصول کی حیثیت رکھتی ہے کہ اللہ اسی کی مدد کرتا ہے جو منصب طلب نہ کرے اور اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ کی ہی اس روایت کو بھی نظر انداز کر دیا ہے جس کے تحت منصب طلب کرنے کی قطعی ممانعت وارد ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ''نہیں عامل کرتے ہم اوپر کام اپنے کے اس کو کہ ارادہ رکھے اس کا۔'' یہ روایت بخاری اور مسلم میں بھی آئی ہے۔

محدثین کا نکتہ نظر:
مولانا ابو عمار زاہد الراشدی نے اپنے نتیجہ کو محدثین کرام سے بھی منسوب کیا ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ ''شیخ عبد الحق محدث دہلوی، مولانا ظفر احمد عثمانی اور دیگر محدثین نے ان تمام روایات کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر کسی شخص کو اپنے آپ پر اعتماد ہو کہ وہ منصب کے تقاضے پورے کر سکے گا اور اس کا مقصد حصولِ جاہ و اقتدار نہیں بلکہ خدمتِ خلق ہو تو ایسے شخص کے لئے منصب کا طلب کرنا ممانعت کے ضمن میں نہیں آتا۔''32

بڑے ادب سے عرض ہے کہ اپنے نتیجہ کو محدثین سے منسوب کرنے سے قبل کم از کم صحاح ستّہ کے مؤلفین کرام (امام بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ) رحمہ اللہ علیہم نے منصب، امارت اور قضا سے متعلق روایات پر جو ابواب قائم کئے ہیں انہیں ایک نظر دیکھ لیا ہوتا تو بہتر ہوتا کیونکہ صحاح ستہ کے مؤلفین کے محدث ہونے سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ امام بخاریؒ نے حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ کی روایت پر یہ باب قائم کیا ہے ''جو خدا سے سرداری نہ مانگے خدا اس کی مدد کرتا ہے۔'' انہوں نے عبد الرحمٰن بن سمرہؓ کی ہی ایک اور روایت پر یہ باب باندھا ہے۔ ''جوسرداری مانگنے سے لیوے تو اس پر سونپی جاتی ہے۔'' اسی طرح انہوں نے یہ باب بھی قائم کیا ہے۔ ''مکروہ ہے حرص کرنا سرداری پر'' جبکہ مسلم کے ابواب امام نووی نے ترتیب دیئے ہیں انہوں نے ان روایات کے لئے جو ابواب قائم کیے ہیں وہ یہ ہیں۔ ''امارت کی درخواست اور حرص کرنا منع ہے'' اور ''بے ضرورت(xi) حاکم بننا اچھا نہیں۔'' اسی طرح امام ترمذی نے منصب طلب کرنے پر اللہ کی طرف سے مدد نہ ہونے اور منصب طلب نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہونے کی روایت پر یہ باب باندھا ہے۔ ''ما جاء عن نبي ﷺ في القاضي'' اور امام ابو داؤد نے اس روایت پر ''في طلب قضاء  والتسریح إليه'' یعنی منصب طلب کرنا اور اس سلسلے میں کوشش کرنا ایسا باب قائم کیا ہے۔ دوسری طرف امام ابن ماجہ نے ذکر القضاۃ کے تحت تمام روایات جمع کی ہیں۔

یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ امام ابو داؤد نے منصب طلب کرنے اور نہ کرنے کے سلسلے میں اصول کے تحت آنے والی روایات پر قضا طلب کرنے اور اس کی کوشش یا اس سلسلے میں جلد بازی کے مظاہرہ، کا باب قائم کیا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اسلام میں منصب طلب کرنے کے سلسلے میں اصول کیا ہے جب کہ مولانا زاہد الراشدی جس روایت کو ''معاملہ'' صاف کرنے والی روایت قرار دیتے ہیں اس پر ''في القاضي یخطئ'' کا باب قائم کیا ہے یعنی ان روایات کے تذکرہ سے ان کی مراد منصب طلب کرنے کی اجازت ثابت کرنا نہیں بلکہ یہ بتاتا ہے کہ کون قاضی بہتر ہے اس طرح انہوں نے ''في طلب قضاء'' کے باب میں اس روایت کا ذکر کیا کہ ''جو قاضی بنایا گیا وہ ایسی چھری سے ذبح کیا گیا جو تیز نہ ہو، سنن ابو داؤد کے کتاب القضاة کے ابواب کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے تاکہ مولانا راشدی کے نتیجہ اور محدثین کرام کے نتیجہ میں جو فرق ہے وہ واضح ہو سکے۔

امام نسائیؒ نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی روایت پر یہ باب قائم کیا ہے کہ ''ترک استعمال من یحرص القضاء'' یعنی جو قضا طلب کرے اسے یہ منصب نہ دیا جائے'' اسی طرح وہ حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ کی روایت پر یہ باب باندھتے ہیں ''نھٰی عن سالۃ الامارۃ'' امارت طلب کرنے کی ممانعت۔ اب خود ہی فیصلہ کر لیجیے کہ مولانا راشدی کا یہ ارشاد ہاں تک درست ہے کہ دو محدثین جن کا نام انہوں نے لکھا ہے اور دیگر محدثین نے ان تمام روایات کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ منصب کا طلب کرنا ممانعت کے ضمن میں نہیں آتا۔''

استثنائی کیفیت پر عمل کی صورت:
مولانا راشدی دراصل استثنائی کیفیت کی مظہر روایت کو اصول اس لئے قرار دے رہے ہیں تاکہ مروجہ انتخابات کو اسلامی ثابت کیا جا سکے یہی وجہ ہے کہ امیدواری کے مسئلہ پر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ''سیاسی عہدوں کے لئے بھی اہلیت کی شرائط کا تعین ہونا چاہئے اور ان شرائط پر پورا اترنے والے افراد کے لئے سیاسی عہدوں کی طلب اور امیدواری کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں۔'' اب آپ بھی إنا للہ وإنا إلیه راجعون پڑھ لیں! کیونکہ رسول اللہ ﷺ تو منصب طلب کرنے کے اصول کو نظر انداز کرنے والے کو بھی اب اس کی نجات کس صورت میں ہے۔ یعنی عدل کرے۔ کا ذکر کر رہے ہیں لیکن یہاں استثنائی صورت کو ہی اصول بنایا جا رہا ہے کہ بس سیاسی عہدوں کے لئے شرائط کا تعین کر دیا جائے اور ان شرائط پر پورا اترنے والوں کے لئے سیاسی عہدوں کی طلب اور امیدواری کے دروازے کھلے رکھے جائیں۔ خواہ ان ''کھلے دروازوں'' میں داخل ہونے والے جہنم میں جا گریں۔ میں طنز نہیں کر رہا بلکہ حقیقت کا ذکر کر رہا ہوں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے خود اس ذہنیت کے حامل افراد کا ذکر کیا ہے کہ ''روایت ہے ابو ہریرہؓ سے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تحقیق تم حرص کرو گے اوپر سرداری (امارت) کے اور ہو گی وہ موجب پشیمانی کی قیامت کو۔ پس وہ اچھی ہے دودھ پلانے والی اور وہ بری ہے دودھ چھڑانے والی۔'' 33

اس مقام پر عام طور پر کہا جاتا ہے کہ نبی ﷺ نے جہاں برے امیروں کی مذمت فرمائی ہے وہاں اچھے امیروں کی مدح بھی فرمائی ہے حالانکہ اس حدیث میں نہ اچھے امیر کا ذکر اور نہ برے کا بلکہ ایک اصول کا ذکر ہے کہ امارت اور منصب طلب کرنا اور اس کی حرص بری بات ہے اور یہ کہ مسلمانوں میں ہی سے ایسے لوگ ہوں گے جو امارت کی حرص کریں گے۔ کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ امارت اور منصب کے لئے نہ صرف حصص کی جاتی ہے بلکہ اس حرص کو حق ثابت کرنے کے لئے استثنائی روایت کو ہی اصول ٹھہرایا جا رہا ہے کہ سیاسی عہدوں کی طلب اور امیدواری کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں۔

یقین کیجیے جب تک سیاسی عہدوں کی طلب اور امیدواری کے دروازے کھلے رہیں گے اس وقت نہ صرف منصب کے طالب اور امیدواروں کے لئے جہنم کے دروازے کھلے رہیں گے بلکہ مسلم معاشرہ بھی دوزخ بنا رہے گا کیونکہ مسلم معاشرہ کو جنت بنانے والا وہ بہتر امیر، امام اور خلیفہ کیسے میسر آئے گا جس کی علامت اللہ کے رسول ﷺ نے یہی بتائی ہے کہ وہ امارت سے کراہت کی حد تک بیزار ہو گا۔ ایسے بہتر شخص کو امارت سپرد کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار میں عوام کو شریک کرنے کا سیاسی نظریہ ترک کرے احد اللہ تعالیٰ کے ہی حاکم اعلیٰ ہونے کا اسلامی نظریہ قبول کر لیا جائے اور اپنے امور چلانے کے لئے امارت سے بیزار شخص کو امیر بنا لیا جائے اور اس صورت میں استثنائی روایت پر بھی عمل ہو سکے گا تاکہ خدمتِ خلق کا جذبہ رکھنے والا جسے اب تک امیر نے اپنی مدد کے لئے طلب نہیں کیا خود اس کی مدد کے لئے اس کے پاس جا سکے (xii) ورنہ امارت سے بیزار جو بھی شخص خدمتِ خلق کے جذبہ کو غلط انداز میں بروئے کار لائے گا بہتر کی بجائے ابتر امیر بنے گا کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے امارات سے بیزار شخص کو اس وقت تک کے لئے بہتر قرار دیا ہے جب تک وہ امارت (طلب کرنے) کے معاملہ سے دور رہے۔ 34

''ہلکی'' بلا:
پاک سرزمین میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں جو جمہوریت اور اسلام کے سیاسی نظام میں تضاد سے متعلق دلائل اور جمہوریت نے ہمیں کیا دیا؟ ایسے سوالوں کے جواب کے سلسلے میں بے بس ہو جاتے ہیں تو دانش کا آخری پتہ پھینکتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔ ماضی کے تمام تر تجربات اور حوصلہ شکنیوں اور موجودہ تمام خدشات اور اندیشوں کے باوجود ہمارے لئے جمہوریت کا ایک اور تجربہ کیے بغیر چارہ نہیں۔ اس لئے کہ کسی دوسرے نظام کے کامیاب ہونے کا اس سے بھی کم امکان ہے۔ ہمارے لئے جمہوریت ''اھون البلتین'' یعنی دو بلاؤں میں سے نسبتاً ہلکی بلا کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا کا کوئی دانشمند شخص علاج کی ناکامی کے اندیشے سے مریض کو بغیر علاج کے نہیں رہنے دیتا۔ ہم بچیں گے تو جمہوریت کے اہل ثابت ہو کر ورنہ ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔ یہ بات پتھر کی لکیر ہے اور جسے اس کے سچ ہونے میں شک ہے وہ پاکستانی قوم کے موجودہ حالات اور اس کو لاحق خطرات سے یکسر اور قطعاً بے خبر اور بے بہرہ ہے۔

دانش کا یہ آخری پتہ نئی نسل کو علم کی دولت سے مالا مال کرنے کے منصب پر فائز ایک استاذ کا ہے۔ ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے بڑے ہی ادب سے عرض ہے کہ ہمارے دانشور جمہوریت کو ''ہلکی بلا'' قرار دے کر اسے اپنانے پر جس قدر اصرار کرتے ہیں اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بلا ہلکی نہیں کوئی ''خوبصورت بلا'' ہے جو ''ہلکی'' ہو چکی ہے اور اس نے ہمارے ذوق کو کاٹ کھایا ہے جس کے نتیجے میں ہم اس کی سیرت سے زیادہ صورت کو دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے وہ ہمارے اس ذوق سے ناجائز فائدہ ہی نہیں اُٹھا رہی بلکہ کسی اور طرف ہمیں دیکھنے ہی نہیں دیتی ورنہ کبھی تو ہم اس سیاسی نظام کا تجربہ کرنے کی بات بھی کرتے جس کے قصیدوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔

بصد ادب یہ بھی عرب ہے کہ ہمارے دانشوروں نے بس یہ سن لیا ہے کہ بڑی بلا کے مقابلے میں ہلکی بلا کو اپنا لینے میں کوئی حرج نہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ جب ہم ایک اچھے نظام کی تعریف میں آسمان تک سر پر اٹھا لیتے ہیں تو اس کی موجودگی میں کسی چھوٹی یا بڑی بلا کو بھلا سینے سے لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ خاص طور پر اس بلا کو۔ جو ہلکی بھی ہو چکی ہو کہ جس کے گلے لگی اس کے جسم کا سارا خون نچوڑ لیا۔ جہاں تک بڑی اور ہلکی برائی کو اپنانے کا تعلق ہے اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ روٹی نہ ملے تو درخت کے پتوں پر گزارا کرو نہ کہ سؤر کو منہ مارتے پھرو۔ اسلام کے سیاسی نظام کی موجودگی میں جمہوریت کو چھوٹی بلا قرار دینا نہ صرف اسلام کے سیاسی نظام کو ''بڑی بلا'' قرار دینے کے مترادف ہے بلکہ یہ اندازِ فکر چینی کی موجودگی میں جانوروں کی طرح کماد کے کھیت کو منہ مارنے کی ترغیب دینے کے مترادف بھی ہے۔

رہی یہ بات کہ دنیا کا کوئی شخص علاج کی ناکامی کے اندیشے سے مریض کو بغیر علاج کے نہیں رہنے دیتا مگر یہ اس سے بھی بڑی حقیقت ہے کہ زہر کے ٹیکے لگا لگاکرکسی بھی ڈاکٹر نے مریض کا علاج کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جس ملت کو یہ درس دیا گیا کہ شراب علاج نہیں مرض ہے۔ یعنی شراب میں شفا کا کوئی عنصر اگر شامل بھی ہے تو دیگر تمام عناصر جس کا مجموعہ شراب ہے وہ مرض ہیں اس لئے شراب کا یہ معمولی عنصر بھی علاج کے لئے گوارا نہیں۔ اس ملت کو یہ سبق دینا کم از کم دانشوروں کا ہی کام ہے کہ تمہاری موجودہ تنزلی اور پستی کا علاج تمہیں ان نظریات سے ہٹانے میں ہے جنہیں نہ اپنانے کے باعث تمہارا یہ انجام ہوا۔ پس اپنی تنزلی اور پستی کا باعث بننے والے نظریات و عوامل کو اپنائے رکھو۔ یہی وابستگی ایک دن تمہیں ترقی کے آخری زینے پر پہنچا دے گی!

ہلکی بلا اور حکمت عملی:
پروفیسر۔۔۔۔ نے ہلکی بلا کے حوالے سے جو کچھ فرمایا ہے وہی حکمت عملی کے سہارے فرمایا جاتا رہا ہے اور اس سلسلے میں ''اھون البلتین'' کی دلیل ہی دی جاتی رہی ہے ''أھون البليتین'' کی تشریح کے سلسلے میں قدیم و جدید علم سے بہرہ ور ایک مشہور شخصیت(xiii) سے رابطہ قائم کیا گیا مگر بدقسمتی سے یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔ زیر بحث موضوع میں مراسلت کا یہ مختصر سلسلہ اس لئے دیا جا رہا ہے کہ حکمت عملی کا درست تصور اجاگر کیا جا سکے ایسا نہ ہو کہ پاکستان میں بسنے والے مسلمان ایک اچھائی رکھتے ہوئے بھی ہلکی بلا کو سینے سے لگائے پھریں جس کے بعد اس سینہ میں اسلام کے بنیادی عقائد کے لئے کوئی جگہ نہیں رہتی!

''أھون البليتین'' کے سلسلے میں استفسار کیا گیا تھا کہ:-
''دو بلاؤں میں سے نسبتاً ہلکی اور چھوٹی بلا کو اپنانے'' ایسے مفہوم کی حدیث کو جمہوریت کے جواز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کیا یہ اندازِ فکر درست ہے؟ کیا ایک مسلمان اس سیاسی نظام کو ''چھوٹی بلا'' کی حیثیت دے سکتا ہے جس کے بنیادی اصول، اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہوں۔ جیسا کہ جمہوری نظام عوام کو اقتدار کا سرچشمہ قرار دے کر توحید، تمام لوگوں کی رائے کو مساوی اہمیت دینے کے بعد اکثریت کے فیصلے کو درست قرار دے کر رسالت، حزب اقتدار، حزب اختلاف اور پارٹی بازی کے ذریعے ملتِ اسلامیہ اور بیعت کی جگہ ووٹ کے نظام کے حوالے سے خلافت و امامت اور امارت کے تصور سے متصادم ہے۔

مندرجہ بالا سوال کی ہی روشنی میں یہ ضمنی سوال ابھرتا ہے کہ کیا کسی بھی طریقے سے (یعنی احتساب اور مواخذہ کے نظریہ کو پس پشت ڈال کر مختلف اسمبلیوں کی رکنیت کا امیدوار بننا اور انتخابی مہم چلانا اور نظامِ بیعت کو نظر انداز کر کے ووٹ دینا وغیرہ کے ذریعے) انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے؟

استفسار کا جواب یہ موصول ہوا:-
''أھون البلتین'' والی حدیث کسی حدیث کی کتاب میں میری نظر سے نہیں گزری۔ البتہ اس کا مفہوم درست ہے۔ اسلامی احکام کی بنا عُسر پر نہیں بلکہ یُسر اور عدم حرج پر رکھی گئی ہے۔ عوام میں فساد پھیل جانے کا خطرہ ہو تو دینی احکام کو ملتوی اور متاخر کرنے کا ثبوت بھی شریعت میں ملتا ہے۔ ''حطیم'' کو عمارت کعبہ میں شامل نہ کرنے کا عذر حضور ﷺ نے ''لو لا حدثان قومك بالکفر'' کی صورت میں فرمایا تھا۔ عصر حاضر میں ہمارا معاشرہ الحاد، دہریت کی جس حد تک پہنچ چکا ہے اس کی اصلاح کے لئے اگر ایسی حکومت سے تعاون کیا جائے جو اخلاص کے ساتھ اسلام کو (بتدریج ہی سہی) نافذ کرنا چاہتی ہے تو میرے خیال میں اللہ تعالیٰ ان غیر اسلامی کوتاہیوں کو معاف فرما دے گا جن کا ارتکاب یہ حکومت کر رہی ہے۔ اسلام میں جمہوریت نہیں مگر جمہوریت کی روح ضرور موجود ہے۔ اسلامی حکومت کی اساس شوریٰ ہے۔ آپ کا ارشاد بالکل بجا ہے مگر ان ناگزیر تقصیرات سے اللہ تعالیٰ ضرور درگزر فرمائے گا بشرطیکہ ہم میں اخلاص موجود ہو اور ہم حالات کے درست ہوتے ہی اصلی اور حقیقی اسلام کو نافذ کرنا چاہتے ہوں۔

دوسرا سوال پہلے سوال سے متفرع ہوتا ہے، جب اضطراراً ہم اس صورت حال کو جائز قرار دے رہے ہیں تو اس کے لوازم و نتائج کچھ بھی ہوں ہنگامی طور پر جائز قرار دینا ہو گا۔ جب اصل کو بنا پر اضطرار ہم نے جائز قرار دیا ہے تو فرع بھی اسی کے تابع ہے۔ یہ سب کچھ جائز ہے مگر اضطراراً اس لئے کہ عدم تعاون سے بے دینی کے غلبہ کا اندیشہ ہے لہٰذا اس کا جواز یُسر، عدم حرج اور اھون البلتین کے تابع ہے۔

اس جواب کے بعد یہ عریضہ لکھا گیا۔
''میں صرف یہ دریافت کرنا چاہتا تھا آیا انتخابات میں کسی بھی طرح حصہ لینا قرآن و حدیث کی روشنی میں جائز ہے کہ نہیں۔ کیونکہ انتخابی معرکہ آرائی اسلام کے نام پر ہوتی ہے۔ 7 مارچ 77 ؁ء کے انتخابات میں ووٹ بننے کے باوجود میں نے ان وجوہ کی بنا پر ووٹ نہیں ڈالا جن کا ذکر اپنے سوال میں کر چکا ہوں۔ انہی وجوہ کے پیش نظر انتخابات کے بعد کی تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ آپ نے ان وجوہ کو درست بھی قرار دیا ہے مگر (کم فہمی اور کم علمی کے نتیجے میں) آپ کے جواب سے یہ نتیجہ نہ اخذ کر سکا کہ آئندہ انتخابات میں میرا ووٹ دینا اور تحریک وغیرہ میں حصہ لینا قرآن و حدیث کے تحت ہو گا یا نہیں بلکہ کچھ اور سوالات ذہن میں ابھر آئے ہیں۔ میں التماس کروں گا کہ بسم اللہ کی ہے تو مجھے تذبذب کے اس عذاب سے نجات دلا کر ذہنی سکون کا سامان پیدا کریں۔

آپ نے رقم فرمایا ہے کہ اسلامی احکام کی بنا عُسر پر نہیں بلکہ یُسر اور عدم حرج پر ہے۔ کیا اسلامی احکام کی بنا عسر پر ہونے سے یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں یسر (شائد رخصت پر عمل اختیار کرنا!) اور اعتدال کے ساتھ ساتھ غیر اسلامی اصولوں کو بھی اپنا لیا جائے (جیسا کہ نظامِ اسلام کے نفاذ کی کوشش جمہوریت کو اپنا کر کی جا رہی ہے؟ جبکہ ''لَآ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ'' کا تقاضا کچھ اور ہی ہے۔

آپ نے تحریر فرمایا کہ ''عوام میں فساد پھیل جانے کا خطرہ ہو تو دینی احکام کو ملتوی اور متاخر کرنے کا ثبوت بھی شریعت سے ملتا ہے۔'' اس سلسلے میں آپ نے حطیم کو کعبہ کی عمارت میں شامل نہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے۔ عوام میں فساد کے پیش نظر دینی احکام کو ملتوی اور متاخر کرنے کے تحت یہ اصول بھی کیا اپنایا جا سکتا ہے کہ عوام میں فساد پھیل جانے کے خطرہ کے پیش نظر کعبہ کے ہی کسی حصے کو ڈھا دیا جائے (جیسا کہ جمہوریت کو سینے سے لگا کر ہم دل میں قائم اسلامی اصولوں کی عمارت ڈھا دیتے ہیں؟) حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے وفد ثقیف کے جہاد اور زکوٰۃ سے ایسے فرائض کی عدم ادائیگی کے مطالبہ کو تو تسلیم کر لیا (یعنی دینی احکام کو ملتوی اور متاخر کو کر دیا) مگر ''لات'' کو ایک ماہ تک بھی قائم رکھنے کے مطالبہ کو مسترد کر دیا۔ اقامۃ الصلوٰۃ تسلیم کرنے پر آپ ﷺ نے فرمایا یہ نماز پڑھنے کے نتیجے میں زکوٰۃ اور جہاد دونوں فرائض سرانجام دینے لگیں گے۔

آپ نے لکھا ہے کہ ''جب اصل کو بنا بر اضطرار ہم نے جائز قرار دیا ہے تو فرع بھی اِس کے تابع ہے یہ سب کچھ جائز ہو گا مگر اضطراراً اس لئے کہ عدم تعاون سے بے دینی کے غلبہ کا اندیشہ ہے'' کیا حلال کی موجودگی میں حرام کھانا بھی ''اضطرار'' کہلائے گا۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چینی کی موجودگی میں گڑ کی بجائے کماد کے کھیت کو ''منہ مارنا'' اضطرار تو نہیں اور نہ ہی یہ اھون البلتین میں شامل ہے کیونکہ یہ بڑی بلا کی بجائے چھوٹی بلا اختیار کرنا نہیں بلکہ ''خوبصورت بلا'' جمہوریت کو، جو نظری لحاظ سے جو کچھ ہے عملی طور پر وہ کچھ نہیں، ''جپھا'' مارنا ہے۔ جس کی سیرت سے زیادہ صورت پر ہم مرتے ہیں۔ پھر یہ سب کچھ اضطراراً نہیں اختیاراً ہوتا ہے۔ وہ جنہوں نے کل جمہوریت کے پیش نظر قیام پاکستان کی مخالفت کی اب جمہوریت کو پاکستان کی ''ماں'' قرار دے رہے ہیں اور اسلام کو ''باپ اور بزعم خود انہوں نے ان دونوں کا نکاح بھی پڑھا دیا ہے! جہاں تک بے دینی کے غلبہ کا اندیشہ ہے، اس سے بڑی بے دینی کیا ہو گی کہ دین کے قیام کے لئے بے دینی کے راستہ پر چلا جائے اور دعا کی جائے ٱهْدِنَا ٱلصِّرَ‌ٰ‌طَ ٱلْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَ‌ٰ‌طَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ‌ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ﴿٧۔

آپ رقم طراز ہیں کہ ان ناگزیر تقصیرات سے اللہ تعالیٰ ضرور درگزر فرمائے گا بشرطیکہ ہم میں اخلاص موجود ہو اور ہم حالات کے درست ہوتے ہی اصل اور حقیقی اسلام کو نافذ کرنا چاہتے ہوں۔'' میں نے پہلے عرض کیا کہ یہ سب کچھ اختیار کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اور برملا فرمایا جا رہا ہے کہ جمہوریت ہی میں پاکستان کی بجات ہے۔ اسلام صرف جمہوریت کے ذریعے قائم کیا جا سکتا ہے اور حالات کو صرف جمہوریت کی بحالی کے ذریعے درست کیا جا سکتا ہے پھر ہماری ''توقع'' درست بھی ہو اور یہ جمہوریت کے ذریعے اوپر آکر حقیقی اسلام لانے کی کوشش بھی کریں تو جمہوریت کی ''ناگزیر تقصیرات'' کی تلافی سے قبل اللہ سے جا ملنے والے قبر میں کس منہ سے رَبِّی اللہ اور محمد الرسول اللہ کہہ سکیں گے۔ وہ لا طاعۃ المخلوق فی مصیۃ الخالق کے تحت کوئی عذر بھی پیش نہیں کر سکیں گے یہی کہہ سکیں گے کہ کاش ہم سبیل رسول پر گامزن ہوتے! ہاں تو۔ لَقَدْ مَنَّ ٱللَّهُ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَ‌سُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِهِۦ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ کا ورد کرنے کے بعد کیا ہمیں نظام اسلام کے لئے کسی اور طریق کار کو اختیار کرنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے! آخر یہ اخلاص کس کام کا جو ملک کو بچانے کے لئے تو آئین کو کچھ وقت کے لئے معطل کر سکتا ہے لیکن جمہوری نظام کی بجائے شورائی نظام کو نافذ نہیں کرتا! اور نظام اسلام کے نفاذ کے لئے غیر اسلامی طریق کار پر چلا سکتا ہے مگر تسلسل کے ساتھ صراط مستقیم پر گامزن نہیں ہونے دیتا۔''

جواب یہ موصوال ہوا:-
''آپ کے جملہ سوالات کا جواب میرے نزدیک بطریق اختصار یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں دین اسلام کے اجر و انفاذ کے لئے جو مساعی بھی انجام دی جا رہی ہیں میرے خیال میں تو بسا غنیمت ہیں اور امید ہے کہ اس ضمن میں جو فروگزاشتیں انجام دی جا رہی ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بوجہ اخلاص نیت درگزر فرمائے گا۔ اگر آپ اس سے متفق نہیں تو دینی اعتبار سے آپ کے لئے محفوظ ترین راستہ یہ ہے کہ راہِ سکوت اختیار کریں مگر کسی حال میں بھی اس کی مخالفت نہ کریں ووٹ نہ دینے والا انداز بھی درست ہی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس ملک کو اقامت دین کے لئے حاصل کیا گیا تھا مگر 31 سال گزر جانے کے باوصف منزل مقصود کی جانب ایک قدم بھی نہیں اٹھا۔ بخلاف ازیں الحاد و دہریت میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔اس لئے میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ اس راہ میں جو کچھ بھی جدوجہد ہو رہی ہے غنیمت ہے۔ اقامت دین کے لئے جو راستہ آپ اختیار کرنا چاہتے ہیں گو صراط مستقیم وہی ہے مگر پُر خطر ہے اس لئے سردست حکمتِ عملی پر کام کرنے ہی میں مصلحت ہے۔ مقصد حاصل ہو جائے (جو اِن شاء اللہ کچھ بعید نہیں) تو سب غلطیوں کا ازالہ ہو سکے گا اس لئے آپ خاموشی سے اپنے مسلک پر قائم رہیں اگر ممکن ہو تو تعاون کریں مگر مخالفت سے احتراز کریں۔''

فکرکا انتشار:
قدیم و جدید دونوں علوم سے بہرہ ور ہمارے بزرگ نے ''خاموشی سے اپنے مسلک پر قائم رہنے'' کی تلقین کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس مسلک کو صراط مستقیم بھی قرار دے رہے ہیں کہ ''اقامتِ دین کا جو راستہ آپ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ صراط مستقیم وہی ہے۔'' یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ایک مسلک صراط مستقیم ہے تو اس پر چلنے اور دوسروں کو بھی اسی صراط مستقیم پر چلنے کی تبلیغ نہ کرنے کی تلقین چہ معنی وارد؟ خاص طور پر اس وقت جب کہ اس سلسلے میں کتاب و سنت سے دلیل بھی نہیں دی جا رہی۔ ہمارے بزرگ اقامت دین کے جس راستے کو صراط مستقیم قرار دے رہے ہیں اس پرخطر بھی قرار دے ہیں۔ صراط مستقیم نہ جانے کس حوالے سے پر خطر ہے؟ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے اسی ''پر خطر'' صراط مستقیم کو دکھانے اور اس پر گامزن ہونے کی توفیق بھی طلب کرتے ہیں اور یہ ایک بار نہیں، دن میں پانچ بار اور ہر نماز کی ہر رکعت میں! یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ حکمت عملی ہر کام کرنے ہی میں مصلحت ہے۔'' اسی انداز فکر کو تو ہم نے اکتیس برس سے اپنا رکھا ہے اور اسے اپنانے والے ہی اعتراف کرتے ہیں کہ ''اس ملک کو اقامت دین کے لئے حاصل کیا گیا تھا مگر 31 برس گرز جانے کے باوصف منزل مقصود کی جانب ایک قدم بھی نہیں اٹھا۔'' لیکن اب بھی حکمتِ عملی کی مصلحت کو اپنا کر مقصد حاصل ہونے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ شاید حکمتِ عملی اور مصلحت اِسی کا نام ہے کہ کوئی قدم اُٹھائے بغیر ہم منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے!

فکر کا یہ انتشار دراصل اقامت دین کے ایک راستہ کو صراطِ مستقیم قرار دے کر اس سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ اسے وحشیانہ صاف کوئی کہا جائے یا کچھ اور میں اعطونی شیاً من کتاب اللّٰہ وسنت رسولہٖ کا نعرۂ حق لگا کر صراط مستقیم سے انحراف اور فکر کے انتشار پر مبنی ''خاموشی کی تلقین'' پر عمل کرنے سے انکار کرتا ہوں اور واضح الفاظ میں لکھنا چاہتا ہوں کہ صراط مستقیم کو پرخطر قرار دینے والے صراط مستقیم سے تو آشنا ہی نہ تھے۔ حکمت عملی اور مصلحت کی الف ب بھی نہیں جانتے۔ ورنہ یہ حضرات صراط مستقیم کو پرخطر قرار نہ دیتے اور حکمتِ عملی اور مصلحت کو صراط مستقیم سے الگ نہ سمجھے۔

حکمت اور مصلحت کا درست تصور:
حکمت عملی اور مصلحت تو مخلوقِ خدا کو صراط مستقیم سے آگاہ کرنے اور اس پر گامزن کرنے کا طریقہ ہے اور یہ صراطِ مستقیم سے انحراف پر مبنی راہوں کو اپنانے کا نام نہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو دعوتِ حق کے سلسلے میں جو ہدایات دی تھیں ان میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ مخلوق خدا کو اپنے رب کی راہ کی جانب حکمت سے دعوت دیں (النمل: 125) اللہ کے رسول ﷺ نے دیگر تمام ہدایات کے ساتھ ساتھ اس ہدایت خداوندی پر بھی کس حد تک عمل کیا وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ظاہر ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے ادا ہونے والی ہر بات (حدیث) کو ہی حکمت قرار دیا گیا ہے کہ ''(اے امہات المومنین!) تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں اور حکمت کی باتیں (یعنی حدیثیں پڑھی جاتی ہیں ان کو یاد کرتی رہو۔'' (الاحزاب: 34)

حکمت کے سلسلے میں مذکور یہ دونوں آیات اس امر پر دال ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے دعوتِ حق یا اقامتِ دین کے سلسلے میں جو طریق بھی اپنایا وہی حکمت ہے اس کے سوا اقامت دین کے نام پر جو طریقے بھی لوگوں نے اپنے ذہن سے گھڑ لیے ہیں وہ نہ حکمت ہیں اور نہ مصلحت بلکہ انہیں بدعت ہی کہا جا سکتا ہے۔ حکمت عملی اور مصلحت کے درست اور غلط تصور کو واضح کرنے کے لئے اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا دعوت الی اللہ یا اقامتِ دین کے سلسلے میں حکمت کا تصور صرف یہی تھا کہ لوگوں کی عقل اور وقوف کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس انداز میں دعوت دی جائے کہ وہ اسے قبول کرلیں نہ کہ لوگوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اس طریقہ سے تبلیغ اور اقامتِ دین کا کام کیا جائے کہ دعوتِ حق اور اقامتِ دین کے اصول بھی بدل کر رہ جائیں(xiv) ۔ اللہ کے رسول ﷺ کے پیشِ نظر حکمت کا درست تصور یہی تھا کہ دعوتِ حق اِسی وقت دی جائے جب لوگ سننے پر آمادہ ہوں اور اس سلسلے میں یہ اہتمام ہونا چاہئے کہ وہ اُکتا نہ جائیں۔ نہ کہ دعوت حق اور اقامتِ دین کے طریقوں میں وقت کے تقاضوں کے پیش نظر رد و بدل کرنا تاکہ لوگوں کو دعوتِ حق سننے پر آمادہ کیا جا سکے۔ xv

حکمت سے حکمت عملی تک:
دعوت حق کے سلسلے میں حکمت کا یہی تصور ہے کہ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق اور اس وقت بات کی جائے جب وہ سننے پر آمادہ ہوں لیکن بعض حضرات نے، جنہیں اللہ کے رسول ﷺ کی حکمت پسند نہیں، حکمت کا یہ تصور اپنے ذہن سے گھڑ لیا ہے کہ دعوت حق کے لئے وہ طریقے اپنا لیے جائیں جسے وہ یا ان کے مخاطب لوگ پسند کرتے ہیں خواہ اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کا پسندیدہ دین اور اس کے اصول مسخ ہو کر کیوں نہ رہ جائیں۔

دعوت حق کے نام پر حکمت سے متعلق یہ اندازِ فکر ہی حق کے خلاف ہے لیکن اس کے حامل حضرات نے ''حکمتِ عملی'' کے نام پر یہ تک کہنے سے بھی اجتناب نہ کیا کہ اقامت دین کے لئے دین کے بنیادی اصول بھی نظر انداز کر دیئے جائیں تو اس میں نہ صرف کوئی حرج نہیں بلکہ یہ حکمت کی معراج بھی ہے۔ یہ حکمت کی معراج نہیں بلکہ حکمت سے متعلق ان حضرات کے طریقِ کار کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی معراج ہے کیونکہ جب دعوتِ حق کے لئے جو طریقہ بھی پسند آئے، کو اختیار کرنا حکمت قرار دے دیا جائے تو اس حکمت کی معراج یہی ہو گی کہ اقامتِ دین کے لئے حق کے اصولوں کو من پسند طریقے سے بدل کر رکھ دیا جائے بلکہ اسی حکمتِ عملی کے تحت رسیاں تڑا کر دین اسلام سے قطعی مختلف نظریات پر عمل پیرا ہو کر اقامت دین کی کوشش بھی ہو گی۔

دینی احکام میں تاخیر و تحریف:
دین اسلام سے متصادم نظریات کو عملی جامہ پہنا کر اقامت دین کی کوشش کرنے والے حضرات حکمت عملی کی اپنی اِس معراج کو اللہ کے رسول ﷺ کی حکمت کا نتیجہ قرار دینے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ اللہ کے رسول ﷺ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھنے کے عادی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ''عائشہؓ! اگر تیری قوم (قریش کے لوگ) نو مسلم نہ ہوتے (ابن زبیرؓ نے کہا یعنی کفر زمانہ ابھی گزرا نہ ہوتا) تو میں کعبہ کو توڑ کر اس میں دو دروازے لگاتا (تاکہ) ایک میں سے لوگ اندر آئیں اور دوسرے سے نکلیں۔'' 35

اللہ کے رسول ﷺ کے اِس ارشاد کو ایک بار پھر پڑھ لیں تاکہ یہ فیصلہ کرنے میں آسانی رہے کہ اس کا حکمت کے درست تصور سے تعلق ہے یا یہ ''حکمت عملی'' سے متعلق ہے۔ یہ ارشاد دراصل حکمت کے اس تصور سے تعلق رکھتا ہے کہ لوگوں سے ان کی عقل و وقوف کے مطابق بات کی جائے یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ لوگوں کی تربیت، یعنی ان کی عقل کی نشوونما سے قبل انہیں وہ امور انجام دینے کے لئے نہ کہا جائے جسے وہ اپنی کم عقلی کے باعث انجام نہ د ینے کے نتیجے میں سزا کے مستحق ٹھہریں یا ایسا عمل بھی نہ کیا جائے جسے درست نہ سمجھ کر لوگ گنہگار ٹھہریں یہ اس لئے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے کسی بھی فیصلہ پر عمل نہ کرنا تو رہا ایک طرف اس سلسلے میں دل میں انقباض کا احساس بھی ایک ناقابل تلافی و معافی گناہ ہے (النساء: 65) یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اس ارشاد نبوی ﷺ کا تذکرہ اس باب کے تحت کیا ہے کہ ''بعض اختیاری امروں کا چھوڑ دینا اس خوف کے واسطے کہ بعض لوگوں کا فہم اس سے قاصر ہے پس اس سے زیادہ تر بلا میں پڑ جاویں۔''

اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی درست بات پر یا عمل(xvi) کو امت مسلمہ کی تربیت تک متاخر(xvii) کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے یہ جواز کہاں نکلتا ہے کہ اقامتِ دین کے سلسلے میں کسی اچھی بات پر درست عمل کی بجائے اس سے متصادم و متضاد امور اپنائے جائیں اور ان پر عمل کر کے اقامتِ دین کے خواب دیکھے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام کے بنیادی اصول توحید و رسالت (یعنی کلمہ طیبہ) کی نفی پر مبنی نظام کو اپنا کر توقع کی جا رہی ہے کہ ''اللہ تعالیٰ ان غیر اسلامی کوتاہیوں کو معاف فرما دے گا۔'' حالانکہ یہ کوتاہی نہیں بلکہ اسلام سے انحراف کا مظاہرہ ہے۔ کوتاہی تو کسی امر اور اصول پر عمل پیرا ہونے میں ہوتی ہے جبکہ اس سے متصادم نظام پر چلنے کا نام بغاوت اور غداری ہے کیونکہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ عوام کو بھی مقتدر اعلیٰ اور رسول ﷺ کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اپنا رہنما تسلیم کر لیا ہے اور ہم لا أعبد ما تعبدون کا شان نزول بھی بھول گئے جسے اللہ کے رسول ﷺ اپنی مکی زندگی میں ہر خطبہ میں پڑھا کرتے تھے۔ 36

ترجیحات کا تعین:
شاید یہی وہ حقیقت ہے جسے نظر انداز کر کے اقامتِ دین کے لئے کسی بھی اختیاری عمل کو موخر کرنے کی حکمت سے قطعی طور پر خلاف اسلام حکمتِ عملی کا جواز ثابت کیا جارہا ہے ان حضرات کو علم ہونا چاہئے کہ اقامتِ دین کے لئے کسی بھی اختیاری اور ثانوی عمل کو موخر کرنے کی حکمت پر عمل پیرا ہونے کے لئے ترجیحات کے تعین کی بھی اس حکمت عملی پر عمل کرنا ہو گا جو اللہ کے رسول ﷺ نے خود متعین کر دی ہے۔ یہ نہیں کہ اپنے طور پر اقامت دین کے بنیادی اصولوں کو موخر اور ثانوی اصولوں پر عمل شروع کر دیا جائے کیونکہ دعوتِ حق یا اقامتِ دین کے بنیادی اصولوں کی برتبلیغ وترویج ہی لوگوں کو اس کے ثانوی اصولوں اور فروعات کو سمجھنے میں مدد دے گی بصورت دیگر جن لوگوں کو اقامتِ دین کے اصولوں سے ہی آگاہ نہیں کیا گیا اور ان رسولوں کو رائج ہی نہیں کیا گیا ان سے فروعات کو سمجھنے اور ان پر عمل یا انہیں نافذ کرنے کی ہر کوشش حکمت سے متصادم ہو گی۔

ترجیحات کے تعین میں حکمت کے اسی تصور کا درس اللہ کے رسول ﷺ نے بنی ثقیف کے معاملہ میں دیا ہے۔ ''رحمة للعالمینؐ'' کے مصنف علامہ سلیمان منصور پوری لکھتے ہیں کہ ''انہوں (بنی ثقیف) نے بیعت اسلام) سے پہلے یہ اجازت چاہی کہ ہمیں ترکِ نماز کی اجازت دی جائے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: لا خیر في دین لیس فيه رکوع (جس دین میں نماز نہیں، اس میں کوئی خوبی نہیں) پھر انہوں نے کہا اچھا پھر ہمیں جہاد کے لئے نہ بلا جائے اور نہ زکوٰۃ ہم سے لی جائے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ شرط قبول فرما لی اور صحابہ سے فرمایا کہ اسلام (نماز پڑھنے) کے اثر سے یہ خود ہی دونوں کام کرنے لگیں گے۔'' یعنی جب یہ خدا کے سامنے جھک(xviii) جائیں گے تو خود ہی اس حقیقت سے آشنا ہو جائیں گے کہ نہ مال ان کا ہے اور نہ جان ان کی ہے یہ دونوں چیزیں خدا کی عطا کر دہ ہیں جو اس کے حکم کے تحت خرچ کی جانی چاہئیں۔

بنی ثقیف کے سردار عبدیا لیل نے اس مجلس میں یہ بھی کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! زنا کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں۔ ہماری قوم کے لوگ اکثر وطن سے دو ررہتے ہیں اس لئے زنا کے بغیر چارۂ کار ہی نہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا زنا تو حرام ہے۔ اللہ پاک کا اس کے لئے یہ حکم ہے: تم زنا کے قریب نہ جاؤ یہ تو سخت بے حیائی اور برا طریق ہے (اس نے کہا) یا رسول اللہ ﷺ سود کے بارے میں حضورؐ کیا فرماتے ہیں یہ تو بالکل ہمارا ہی مال ہوتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا تم اپنا اصل روپیہ لے سکتے ہو۔ دیکھو! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ''اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور سود میں سے جو لینا بھی رہ گیا ہے وہ بھی چھوڑ دو۔'' یا رسول اللہ ﷺ! خمر (شراب) کے بارے میں آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں یہ تو ہمارے ہی ملک کا عرق ہے اس کے بغیر تو ہم رہ نہیں سکتے۔ نبی ﷺ نے فرمایا شراب کو خدا نے حرام کر دیا ہے۔ دیکھو! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے ایمان والو! شراب، جوا، انصاب و ازلام ناپاک اور گندے ہیں، شیطان کے کام ہیں، ان سے بچا کرو تاکہ فلاح پاؤ۔'' xix

علامہ محمد سلیمان سلمان منصور پوری نے لکھا ہے کہ عبدیا لیل نے دوسرے روز آکر کہا ''خیر ہم آپ کی باتیں مان لیں گے لیکن ربّہ (جس دیوی کے بت کی یہ پوجا کرتے تھے) کو کیا کریں۔ نبی ﷺ نے فرمایا، اسے گرا دو! وفد کے لوگوں نے کہا، ہائے ہائے اگر ربہّ کو خبر ہو گئی کہ آپ ﷺ اسے گرا دینا چاہتے ہیں تو وہ ہم لوگوں کو تباہ ہی کر ڈالے گی (اس نے کہا) اسے گرانے کی ذمہ داری حضورؐ خود لیں کیونکہ ہم تو اسے کبھی نہیں گرانے کے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خیر میں گرا دینے والے بھیج دوں گا۔'' 37

اب ذرا حیاۃ محمدؐ کا یہ اقتباس تو پڑھیں ''خالد (بن سعید بن عاص) نے (بنی ثقیف کے) سفیر کی حیثیت سے آپؐ کو اطلاع دی کہ یہ وفد قبول اسلام کے لئے آیا ہے۔ لیکن اس (میں شامل) افراد کا مطالبہ ہے کہ آپؐ ان کے بت کو تین سال کے لئے باقی رہنے دیں نیز نماز کی معافی کا اعلان بھی کر دیں۔ آپ ﷺ نے ان کے اس مطالبہ کو سختی سے رد کر دیا۔ اس کے بعد بنی ثقیف کے اس وفد نے دو سال کی مدت تک لات کی بقا چاہی۔ آپ ﷺ نے اسے بھی نہ مانا۔ اس مطالبہ سے نیچے اتر ر اسی وفد نے ایک سال کی مہلت طلب کی اور آخر میں ایک ماہ کی رعایت کا مطالبہ کیا لیکن آپ ﷺ کا انکار اتنا شدید تھا کہ اس میں کسی رعایت کی گنجائش ہی نہ تھی۔ وہ ایک نبی سے اس چیز کی توقع کیسے کر سکتے تھے جس کی دعوت خدائے واحد القہار کے دین کی جانب تھی۔ آپ کا عزم تو یہ تھا کہ ایک بت بھی باقی نہ رہنے پائے ایسا نبی ﷺ اس بت کے معاملے میں سہل انگاری سے کیسے کام لے سکتا تھاxx۔ 38

احکامِ دین کی تحریف پر خاموشی:
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اقامت دین کے کسی اختیاری یا ثانوی امر کو موخر کرنے کا جواز اس امر کی تلقین نہیں کہ اگر کسی بھی وقت ایک بہت بڑی اکثریت نے رسول اللہ ﷺ کی حکمت سے متصادم حکمت عملی کو اختیار کر لیا ہے تو اس بدعت کے خاتمہ کے لئے سنت یعنی درست حکمت کا ذکر نہ کیا جائے اور خاموشی سے سنت یا آپ ﷺ کی حکمت پر عمل کیا جائے۔ حکمت عملی سے متعین اس عجیب و غریب اور یکسر غلط انداز فکر کے خلاف سب سے پہلے حضرت ابو سعید خدریؓ نے جہاد کیا ہے۔ یہی وہ شخصیت ہے جنہوں نے ہر حال میں حق بات کہنے کی تلقینِ رسولؐ پر اس وقت بھی عمل کیا جب مردان نے حکمتِ عملی کے تحت ہی نماز عید سے قبل خطبہ دینے کی بدعت شروع کی تو انہوں نے اسے اللہ کے رسول ﷺ کی سنت (یعنی درست حکمت) سے آگاہ کیا کہ پہلے نماز اور پھر خطبہ دیا جائے اور جب وہ نہ مانا تو اسے ہاتھ سے پکڑ کر کھینچنے لگے (39)یہی وہ عظیم صحابی ہیں کہ جب مروان جمعہ کا خطبہ دے رہا تھا تو ''نماز پڑھنے لگے، مروان کا عامل آیا اور چاہا کہ ان کو بٹھا دیں مگر وہ نہ بیٹھے..... جب نماز پڑھ چکے تو لوگوں نے عرض کی خداوند عالم آپ پر رحمت نازل فرمائے۔ یہ عمالِ حکومت تو آپ کو گرانے والے تھے تب فرمایا کہ میں بھی نماز چھوڑنے والا نہ تھا اس لئے کہ نبی ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ چکا تھا اس کے بعد آپ نے فرمایا جمعہ کے دن ایک بار نبی ﷺ کے اثنائے خطبہ میں ایک شخص پراگندہ حالت میں مسجد میں داخل ہوا۔ آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ اول دو رکعت نماز جمعہ پڑھ اور آپ ﷺ خطبہ پڑھتے رہےxxi۔'' 40

خود ساختہ حکمت عملی کے قاطع ان مجاہد (حضرت ابو سعید خدریؓ) کا ارشاد آج بھی لمحۂ فکریہ ہے کہ یہ قصور تو ہم سے ہو ہی گیا، خلاف شروع امور دیکھے اور ڈر، دہشت کی وجہ سے خاموش ہو رہے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ نے یہ بات اللہ کے رسول ﷺ کے اس فرمان کو سنا کر کہی تھی کہ ''دیکھو جو حق بات تم جانتے ہو اس کے بیان کرنے سے لوگوں کی ہیبت کھا کر رک نہ جاؤ، بری اور خلاف شرع بات دیکھ کر صرف لوگوں کے خوف کے مارے اسے بدلنے سے باز نہ رہو (یاد رکھو کہ) سب سے بہتر جہاد یہ ہے کہ انسان ظالم بادشاہ کے سامنے بھی حق گوئی سے باز نہ رہے۔'' 41

حضرت ابو سعید خدریؓ بھی اگر حق ادا نہ ہونے کی بات کرتے ہیں تو وہ دراصل امت مسلمہ کو ہر حال میں حق کہنے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نہ صرف حق کا پرچار کرتے تھے بلکہ ہر حال میں حق بات کہنے کی تلقین کرنے کے لئے بھی مبعوث ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ ﷺ مخلوقِ خدا کو خالق کے سامنے جھکاتے تو تلقین بھی کرتے بلکہ اس امر پربیعت لیتے کہ ''لوگوں کو میرا دین پہنچاتے رہو خواہ نیکی کا حکم ہو خواہ برائی سے روکنا ہو اور اللہ کی باتیں لوگوں کو پہنچاتے رہو گے خواہ کوئی ملامت کرنے والا ملامت ہی کیوں نہ کریں (42)بلکہ آپ ﷺ نے انتباہ کیا کہ (قیامت کے قریب) ایسی آندھیاں چلیں گی۔ جو زرد سانپ برسائیں گی اور وہ سانپ اس وقت کے سردار علماء(xxii) کو چمٹ جائیں گے کیونکہ انہوں نے برائیاں دیکھیں اور انکار نہ کیا۔ 43

پہلے حکومت بعد میں اصلاح:
من پسند حکمت عملی اختیار کرنے والے حضرات کے ذہن میں بس یہ دھن سوار ہے کہ پہلے مقصد (حکومت) حاصل ہو جائے سب غلطیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔ اس بات کا اظہار یہ حضرات کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ شائد دنیا میں ان سے بڑھ کر اقامتِ دین کا کام کرنے والا کوئی نہیں گزرا اور نہ وہ ایک لمحہ کے لئے ضرور سوچتے کہ وہ جس دین کو قائم کرنا چاہتے ہیں وہ دین پہلے بھی قائم ہوا تھا اور اللہ کے رسول ﷺ نے اسے کس طرح قائم کیا۔ وہ طریق کار بھی ان سے کچھ مطالبہ کرتا ہے۔ یہ حضرات اقامتِ دین کے سلسلے میں اخلاص کے کتنے ہی دعوے کریں مگر کم از کم وہ اللہ کے رسول ﷺ سے زیادہ مخلص نہیں ہو سکتے۔ نہ نکتہ سمجھ لینے سے وہ اس نتیجہ پر ضرور پہنچتے کہ دین اسلام کو قائم کرنے کے لئے پہلے حکومت کی ضرورت نہیں بلکہ جب اقامت دین کا کام مکمل ہوتا ہے تو اسلام کی حکومت خود بخود قائم ہو جاتی ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ بھی اگر پہلے حکومت اور بعد میں اصلاح کے قائل ہوتے تو انہیں اقامت دین کے لئے کوئی تکلیف ہی برداشت نہ کرنا پڑتی کیونکہ کفار مکہ ایک بار نہیں بار بار آپﷺ کو حکمران بنانے کی پیشکش کر چکے تھے لیکن آپ ﷺ نے ہر بار اس پیشکش کو مسترد کر دیا (سیرت ابن ہشام) بلکہ ان لوگوں کی مدد کی پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا جو اقامت دین کے بعد آپ ﷺ کا جانشین بننے کی شرط پر اسلام قبول کرنا چاہتے تھے۔ یہ پیشکش ایک عام فرد (مسیلمہ کذاب) کی طرف سے بھی ہوئی، ایک قبیلہ بنو عامر نے بھی اس کا اعادہ کیا اور یمامہ کے امیر نے بھی اس شرط پر اسلام قبول کرنا چاہا لیکن آپ ﷺ نے ہر ایک کی پیشکش مسترد کر دی (سیرت ابن ہشام، رحمۃ للعالمین، حیاۃ محمدؐ) اسی طرح آپ نے کافروں کے مقابلے میں یہودیوں کی مدد کی پیش کش قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ 44

رسول اللہ ﷺ نے اقامت دین کے سلسلے میں اگر کسی شخص کی مدد کی ضرورت بھی محسوس کی تو اسے مسلمان بنانے کی دعا بارگاہ ایزدی میں کی۔ عمرو بن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو مسلمان بنانے کی دعا۔ ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ یہ دعا آج بھی درس دے رہی ہے کہ اقامت دین کے لئے مدد اس سے لی جائے جو مسلمان ہو اور اس چیز سے جو اسلامی ہو، ورنہ غیر مسلم اور غیر اسلامی چیز اقامت دین میں کوئی مدد نہیں کر سکتی اور اس کی مدد سے جو مقصد بھی حاصل ہو گا وہ جو کچھ بھی ہو اسے کم از کم اقامت دین کا نتیجہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بصورت دیگر اللہ کے رسول ﷺ عمرو بن ہشام یا عمر بن الخطاب میں سے کسی ایک کو مسلمان بنانے کی دعا نہ کرتے اور عقبہ بن ربیعہ کی ابو جہل کے مقابلے میں اپنی حمایت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ نہ فرماتے۔ عقبہ! تو نے خدا اور اس کے رسول کی حمایت کبھی نہیں کی۔ (طبری) تیری حمایت صرف کنبہ برادری (قرابت) کی وجہ سے ہے45

پہلے غلط کام اور بعد میں اصلاح کا عجیب و غریب فلسفہ کبھی بھی آپ ﷺ کے ذہن میں جگہ نہیں لے سکا اگر کبھی مجبوری(xxiii) یا مخلوقِ خدا کو خالق کے حضور جھکانے کے بعد کے(xxiv) جذبہ کے تحت یہ فلسفہ قبول کرنے کا خیال(xxv) بھی پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں انتباہ فرمایا کہ ''اور (اے پیغمبر!) یہ کافر تو تجھے ان حکموں سے جو ہم نے تجھ کو بھیجے بہکانے ہی کو تھے ان کا مطلب یہ تھا کہ تو ہم پر جھوٹ باندھے اور تو ایسا کرتا تو وہ تجھ کو دوست بنا لیتے اور اگر ہم تجھ کو مضبوط (ثابت قدم) نہ رکھتے تو تو ان کی طرف ذرا سا جھکنے ہی کو تھا اگر تو ایسا کرتا (جھکنے کے قریب ہوتا) تو ہم تجھ کو دوہری سزا زندگی میں اور دوہری سزا مرنے کے بعد چکھاتے پھر تجھ کو ہمارے مقابلہ میں کوئی مددگار نہ ملتا(xxvi46

اسی طرح جب کفارِ مکہ کے سن رسیدہ افراد (الاسود بن عبد المطلب، ولید بن المغیرہ، امیہ بن خلف اور العاص بن وائل اسہمی) نے کہا: اے محمد! (ﷺ) اچھا آؤ ہم اس ذات کی بھی پرستش کریں، جس کی پرستش آپ ﷺ کرتے ہیں اور آپ ﷺ بھی ان چیزوں کی پرستش کریں جن کی پرستش ہم کرتے ہیں، ہم اور آپ ﷺ معاملوں میں شریک ہو جائیں۔ اگر وہ پرستش، جو آپ ﷺ کرتے ہیں، ہماری پرستش سے بہتر ہے تو ہم اس سے مستفید ہوں اور اگر وہ پرستش، جو ہم کرتے ہیں، آپ ﷺ کی پرستش سے بہتر ہے تو آپ ﷺ اس سے مستفید ہوں''(47)تو آپ ﷺ کے رب نے آپ ﷺ سے کہا کہ۔ آپ ﷺ کہیں اے کافرو! میں اس کی پرستش نہیں کروں گا جس کی تم کرتے ہو۔ تم سب کو تمہارے کاموں کا اور مجھے میرے کاموں کا بدلہ ملے گا۔ (الکافرون)

بلکہ جب قریش کے چند سرداروں نے کہا کہ آپﷺ ''انہیں (صہیب، جناب، عمار اور دیگر غریب صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو) اپنے پاس سے دفع کریں تو شاید ہم بھی آپ ﷺ کی بات سن لیں''(48)تو ہدایت فرمائی کہ ''اور جو لوگ اپنے مالک کو صبح اور شام پکارتے ہیں، اسی کا منہ چاہتے ہیں (یعنی خلوص سے صرف خدا کے طالب ہیں) ان کو (اپنے پاس سے) مت نکال، تجھ کو ان کا حساب دینا نہیں نہ تیرا حساب ان کو دینا ہے۔ اگر تو ان کو نکالے گا تو بے انصافوں میں شریک ہو جائے گا'' (الانعام: 52) اور جو لوگ صبح اور شام اپنے مال کو پکارتے ہیں، اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں (یعنی طالب مولیٰ ہیں نہ طلب دنیا) ان کے ساتھ اپنے تئیں روک رکھ اور دنیا کا ساز و سامان چاہنے کے لئے اپنی آنکھیں ان کو چھوڑ کر دوسروں کی طرف مت دوڑا۔ اور ایسے شخص کا کہا مت مان جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے (ہمہ تن دنیا میں مشغول ہے) اور اپنی خواہش پر چلتا ہے اس کو خدا کا ڈر نہیں اور اس کا کم حد سے بڑھ گیا ہے'' (الکہف: 28) اس سے بھی واضح تر الفاظ میں ہدایت فرمائی کہ زیادہ توجہ اس پر دیں جو خدا سے ڈرتا ہے اور اس کے مقابلے میں اس شخص پر توجہ نہ دیں جو (ایمان اور آپؐ کی نصیحت سے) بے نیاز بنتا ہے یا کہ وہ امیر ہے حالانکہ آپ کا کام اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے، جو آپ نے پہنچا دیا۔ اب اگر یہ نہ مانیں تو آپ ﷺ پر ان کے نہ ماننے کی ذمہ داری نہیں (سورۃ عبس کی ابتدائی آیات کے حواشی کی تلخیص)۔

یہ تمام تر ہدایات اس امر کی عکاس ہیں کہ تبلیغ حق کے لئے کوئی ایسا ذریعہ نہ اپنایا جائے جس کے نتیجے میں اسلام کے بنیادی اصول یا مسلمان کچھ وقت کے لئے نظر انداز ہو جائیں۔ کیا ان ہدایات کے بعد بھی کوئی مسلمان دعوت یا اقامت دین کے لئے کسی غیر مسلم یا غیر مسلموں کے اسلام سے متصادم اصولوں کو اپنانے کی ''کوتاہیوں'' کی اصلاح ہو جائے گی جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اس قسم کی کوتاہی سے اجتناب کی تلقین کی ہے اور ایسی کوتاہی پر زندگی اور آخرت میں دوگنا عذاب کا انتباہ کیا ہے۔

مخالف اسلام لیکن اسلامی:
پروفیسر خورشید احمد کا ارشاد ہے ''اسلام مغرب کے فلسفہ جمہوریت کا مخالف ہے، طریقِ کار کا مخالف نہیں'' یعنی اسلام جمہوریت کا مخالف ہے لیکن ''فلسفہ جمہوریت'' کو عملی جامہ پہنانے کے طریق کار کا مخالف نہیں(xxvii) ۔'' یہ ایسی ہی بات ہے کہ اسلام چوری کا مخالف ہے لیکن چوری کے طریق کار کا مخالف نہیں۔ بڑے ادب سے عرض کروں گا کہ غلط فلسفہ کی عملی شکل بھی غلط ہو گی اور غلط فلسفہ کوعملی جامہ پہنانے کا طریق کار بھی غلط ہو گا۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک غلط فلسفہ (یعنی جمہوریت) کے طریق کار کو اپنا کر ایک درست فلسفہ (یعنی اسلام) کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ بصورت دیگر یہ کچھ جَو بو کر گندم کاٹنے کی توقع کے مترادف ہے۔

اسلام تو حصولِ حق کے لئے حق کے طریقے اختیار کرنے کا درس دیتا ہے یہی وجہ ہے قرآن مجید نے عمل صالح اور حلال طریقے سے کمائی کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے (المومنون: 51) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے جو حکم رسولوںؑ کو دیا ہے وہی حکم اہلِ ایمان کو دیا ہے (پھر آپ ﷺ نے یہ آیت (المومنوں: 51) تلاوت کر کے فرمایا) ایک شخص دور دراز کا سفر طے کر رہا ہے اور اس کے بال اور کپڑے گرد سے اٹے ہوئے ہیں مگر اس کا کھانا حرام کا ہے، پینا حرام کا ہے، لباس حرام کا ہے۔ وہ آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر دعا کرتا ہے: اے میرے رب! اے میرے رب! مگر اس کی دعا قبول کیونکر ہو؟'' 49

خیر کے لئے خیر اور بھلائی کے لئے بھلے طریقے اختیار کرنے کی اہمیت ایک اور حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ''بھلائی میں بھلائی ہی ہوتی ہے لیکن اس کے لینے کا طریقہ بھلا بھی ہے اور برا بھی۔ مال کو بھی جو حق سے حاصل کرے اور حق میں ہی خرچ کرے اس کے لئے تو یہ مال (دنیا و آخرت میں) معاون بن جاتا ہے اور جو اسے لینے میں حق کا خیال نہ کرے وہ ایسا ہی ہے جیسے وہ کھاتا جائے لیکن اس کا پیٹ نہ بھرے۔ (بخاری) یعنی ایک برے طریقے سے اچھی بات کا حصول ممکن نہیں۔

اللہ کے رسولﷺ نے تو حق قائم کرنے کے لئے کسی بھی ناحق طریقے کو اختیار کرنے سے انکار کر کے ثابت کر دیا ہے کہ حق کے لئے ناحق طریقے اختیار کرنے والے سب سے مخلص ہو سکتا ہے لیکن اسلام سے نہیں۔ یہی وجہ ہے آپ ﷺ نے عتبہ کی ناحق حمایت قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا بلکہ واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا۔ ''اے عتبہ تو نے (ابو جہل کی مخالفت کے مقابلے میں میری حمایت کر کے) کچھ اللہ اور رسولؐ کی حمایت نہیں کی۔ تیری حمایت صرف کنبہ برادری (قرابت) کی وجہ سے ہے'' (50)بلکہ حق تعالیٰ نے کفار کی ہر ترغیب و تحریص کے مقابلے میں لا أعبد ما تعبدون (اس کی عبادت کرنے سے انکار کرتا ہوں جس کی تم عبادت کرتے ہو) کانعرۂ حق بلند کرنے کا حکم دیا اور جب کبھی بھی کفار کو راہِ حق پر لانے کے لئے کوئی ایسا رویہ اختیار کیا(xxviii) جس میں ناحق کا شائبہ تک نظر نہ آتا تھا، تو حق تعالیٰ نے پرچارِ حق کا درست طریقہ بڑے ہی واضح الفاظ میں بتایا تاکہ آنے والے کل کوئی بھی مسلمان اسلام سے اپنی محبت کے تقاضے کے پیش نظر شعوری یا غیر شعوری طور پر ناحق کے ذریعے حق لانے کی لا یعنی کوشش نہ کرے۔

قرآن پڑھیے تو سہی جس میں ہر ہر مقام پر رسول اللہ ﷺ کو واضح ہدایات دی گئیں ہیں حق صرف حق کے ذریعے آئے گا اس کے لئے کوئی بھی ایسی کوشش نہ کی جائے جس سے غریب صحابہ کی حق تلفی ہوتی ہو (الانعام: 52) یا حق کی بنیاد پر زد پڑتی ہو (ہود: 12، بنی اسرائیل 73 تا 75) یہ کچھ اس لئے بھی کہ حق قائم کرنے کا تقاضا تو یہ ہے کہ حق کے تقاضے پورے ہوں نہ کہ یہ حق قائم کرتے ہوئے ہی ناحق طریقے اختیار کر لیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح الفاظ میں ارشاد فرما دیا کہ لوگوں کو حق سے آگاہ کرنا آپ کا کام نہیں یہ ہمارا کام ہے۔ آپﷺ اپنا کام یعنی حق کا پرچار کریں (البقرہ:119، آل عمران: 20، 176۔ النساء: 80، المائدہ: 41، 68، 105، 108۔ الانعام: 2، یونس: 99، 100، 108۔ الحجر: 88۔ بنی اسرائیل: 35745۔ الکہف: 6۔ النمل: 80، 81۔ العنکبوت: 18۔ لقمان: 23۔ فاطر: 8۔ الشوریٰ: 48 اور قرآن مجید کی دیگر آیات)

یہی وہ نکتہ ہے جسے نہ سمجھنے کے پیش نظر اسلام کے دوست اسلام قائم کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایسے بھی طریقے اختیار کر بیٹھتے ہیں کہ ان ناحق طریقوں کو دیکھ کر اسلام خود ہی پکار اُٹھے۔ ؎


ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو


ناحق کو حق ثابت کرنے کی کوشش:
پروفیسر خورشید احمد اپنے اس موقف اسلام مغرب کے فلسفہ جمہوریت کا مخالف ہے، طریق کار کا مخالف نہیں کی تائید میں یہ دلیل لائے ہیں کہ مغربی جمہوریت کا طریقِ انتخاب اسلامی احکام سے متصادم نہیں کیونکہ خلافت راشدہ کے عہد میں چاروں خلفاء کو عوام کی اکثریت کا اعتماد حاصل تھا۔ جمہوریت کا طریقِ انتخاب اسلامی احکام سے کس حد تک متصادم ہے اس کا ذکر تفصیل سے ہو چکا ہے لیکن اب جب کہ حق کو ناحق طریقے سے لانے کے لئے یہ بات اصرار سے دہرائی جا رہی ہے تو اس حقیقت کا تکرار ضروری ہے کہ جمہوریت کا طریق انتخاب دراصل فلسفہ جمہوریت کو اپنانے کا منطقی ردِ عمل ہے کیونکہ عیسائیت نے جمہوریت کو اس وقت سینے سے لگایا جب وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات سے منحرف ہو چکے تھے اور جو جس حالت میں موجود تھیںِ انہیں بھی اپنی پوری زندگی میں اپنانے سے انکار کر چکے تھے۔ اس لئے مجبوراً جمہوریت کو اپنا گیا کہ اب ہر بات کے حق و ناحق اور درست و غلط ہونے کا معیار اور پیمانہ یہ ہو گا کہ کثرت رائے کس طرف ہے بالفاظِ دیگر عیسائیت نے کم از کم سیاست کی حد تک تعلیمات الٰہیہ کو معیار اور پیمانہ بنانے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد عوام نے مقتدرِ اعلیٰ کی حیثیت اختیار کر لی کہ پہلے حق و ناحق کے معیار کا درجہ اللہ تعالیٰ یا تعلیمات الٰہیہ کو حاصل تھا تو اب یہی معیار عوام کی آراء اور کثرت رائے بن گیا۔

آج بھی اگر کوئی شخص ''مغربی جمہوریت کا طریق انتخاب اسلامی احکام سے متصادم نہیں'' کی بات کرتا ہے تو دراصل یہ کچھ یہ نعرہ لگانے کے مترادف ہے کہ عیسائیت نے تعلیماتِ الٰہیہ کو معیار تسلیم کرنے سے انکار کے بعد بھی عوام کو مقتدر اعلیٰ تسلیم کر کے تعلیماتِ الٰہیہ یا اسلامی احکام کی روح کو اپنایا ہے ایسی صورت میں ایسے شخص کا یہ موقف کہ ''اسلام مغرب کے فلسفہ جمہوریت کا مخالف ہے، طریق کار کا مخالف نہیں۔'' تکلف ہی ہے لیکن کسی بھی شخص کی ذہنی اختراع اسلامی حکم کا درجہ اختیار نہیں کر سکتی۔ اسلامی احکام معلوم کرنے کے لئے ہمیں وحی جلی اور وحی خفی کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا۔

اسلامی احکام آج بھی شہادت دے رہے ہیں کہ اللہ اور رسول ﷺ کے نزدیک حق اور ناحق کا معیار صرف اور صرف کتاب و سنت ہیں اور کوئی چیز نہیں۔ عیسائیت نے تو تعلیمات الٰہیہ سے انحراف کے بعد عوامی آراء کو ہی حق و ناحق کا پیمانہ بنا لیا لیکن قرآن مجید درس دے رہا ہے کہ جب تم میں کسی بات پر تنازعہ ہو جائے (کہ حق کس طرف ہے) تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو (النساء: 59) اللہ کے رسولؐ یہ اصول دے رہے ہیں کہ اراء و خواہشات حق و ناحق کی پیمائش کا معیار اور پیمانہ نہیں بن سکتیں بلکہ ایمان کا معیار یہ ہے کہ ہر شخص کی خواہشات ان تعلیمات کے تابع ہو جائیں جو میں لایا ہوں (51) اور ایک خلیفۂ راشد فرما رہے ہیں۔ ''حق لوگوں کی وجہ سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ حق والوں کو پہچاننے کے لئے پہلے حق کی معرفت حاصل کرو اہلِ حق کی پہچان خود بخود ہو جائے گی۔''

تعلیماتِ الٰہیہ سے انحراف کی بنا پر فلسفہ جمہوریت اور اس کے منطقی نتیجہ طریق انتخاب کو اسلامی احکام سے متصادم تسلیم نہ کرنے والے لوگوں کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اسلامی احکام نہ صرف عوامی اراء کو حق ناحق کا معیار تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ اس حقیقت کی عکاسی بھی کر رہے ہیں کہ جن لوگوں نے بھی تعلیمات الٰہیہ سے انکارکیا وہ عوامی آراء کو ہی پیمانہ اور معیار تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں (البقرہ: 170۔ المائدہ: 104۔ ہود: 86۔ الشعراء: 72 تا 74۔ لقمان: 21۔ الزخرف: 22، 23 اور دیگر آیات) بلکہ قرآن مجید کی زبان میں انہی لوگوں نے تعلیمات الٰہیہ کو معیار تسلیم کرنے سے انکار کیا (السباء:43۔ الزخرف:24) قرآن نے اسے بھی خواہشات کا پیروکار قرار دیا ہے جو رسول ﷺ کی بات کی تصدیق دوسروں سے چاہے۔ (محمد: 16،17) یا قرآن و حدیث سے مختلف راہ پر گامزن ہو (محمد:14)

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو سختی سے ہدایت کی کہ آپ ﷺ لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں بلکہ وحی کی ہی اتباع کریں (البقرہ: 120، 145۔ المائدہ: 48، 49۔ الانعام: 56، 107، 151۔ الاعراف: 203۔ یونس: 15۔ الرعد: 37۔ الاحزاب: 2، 48۔ الشوریٰ: 15 اور بہت سی آیات) اس کے ساتھ ساتھ جب کفار نے یہ فلسفہ پیش کیا کہ چونکہ ہم اکثریت میں زیادہ ہیں اس لئے مسلمانوں کو ہمارے مذہب کی پیروی کرنی چاہئے (معالم) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی کہ اکثریت معیارِ حق نہیں (الانعام: 116)

خلفائے راشدین اور معیار حق:
پروفیسر خورشیداحمد جب یہ کہتے ہیں کہ مغربی جمہوریت کا طریق انتخاب اسلامی حکام سے متصادم نہیں کیونکہ خلافت راشدہ کے عہد میں چاروں خلفاء کو عوام کی اکثریت کا اعتماد حاصل تھا تو نظر بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید خلفائے راشدین بھی جمہوریت کے طریق انتخاب کو اسلامی احکام سے متصادم نہیں گردانتے تھے اور یہ کہ ان کا انتخاب بھی جمہوری طریقے یعنی کثرت رائے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔ حالانکہ حقیقت میں یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔

خلفائے راشدین جمہوریت کے طریق انتخاب کو اسلامی احکام سے متصادم نہ گردانتے یا جمہوری طریقِ انتخاب یا اسلامی احکام کو لازم و ملزوم قرار دیتے تو حضرت ابو بکر صدیقؓ حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین مقرر نہ کرتے اور حضرت عمرؓ خلافت کے لئے چھ افراد کو نامزد نہ کرتے اور جہاں تک ''چاروں خلفاء کو عوام کی اکثریت کا اعتماد حاصل تھا۔'' یا یہ کہ وہ خلافت کے لئے اکثریت کا اعتماد ضروری سمجھتے تھے، کا تعلق ہے تو خلفائے راشدین اس فلسفہ سے بھی متفق نظر نہیں آتے بلکہ حضرت ابو بکر صدیقؓ خلیفہ کے لئے اکثریت کا اعتماد حاصل کرنا ضروری نہ سمجھتے ہوئے یہ تک فرماتے ہیں کہ ''جب خدا سے ملوں گا تو کہوں گا کہ میں نے تیری مخلوق پر تیرے بہتیرن بندے کو حاکم بنایا ہے''(52)اور یہ کہ ''میں نے اپنی رائے کے مطابق ایک صالح انسان کو خلیفہ بنایا ہے۔'' (53) اور حضرت عمرؓ کثرت رائے کا اعتماد کا حصول ضروری نہ سمجھتے ہوئے یہ تک فرماتے ہیں کہ خود میں نے کسی کو خلیفہ منتخب کرنے والی کمیٹی کے چھٹے رکن حضرت طلحہؓ تین دن تک تم میں آملیں تو بہتر ورنہ تم خود ہی فیصلہ کر لینا (امامت و السیاست) بلکہ وہ ابو طلحہ اور مقداد بن الاسود کو ہدایت کرتے ہیں کہ ان چھ آدمیوں کو ایک مکان میں جمع کریں۔ جب تک یہ لوگ فیصلہ نہ کر لیں کسی کو اندر نہ آنے دینا۔ ''چہ جائیکہ وہ خلیفہ کے لئے اکثریت کے اعتماد کا حصول ضروری سمجھتے ہوں! اور خلیفہ منتخب کرنے والی کمیٹی کے ایک رکن حضرت سعدؓ تو دو صحابیوں عمرو بن عاص اور مغیرہ بن شعبہ کو اس مکان کے دروازے بھی اُٹھا دیتے ہیں جس میں خلیفہ کے انتخاب کا فیصلہ ہو رہا تھا۔ 54

ایک خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرامین تو آج بھی شہادت دے رہے ہیں کہ خلفائے راشدین اکثریت کے اعتماد کا حصول ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ''شوریٰ تو صرف مہاجرین و انصار کے لئے ہے اگر انہوں نے کسی آدمی کے انتخاب پر اتفاق کر لیا اور اسے امام قرار دے دیا تو یہ اللہ کی اور پوری امت کی رضا مندی کے لئے کافی ہے۔'' (55) اور وہ خلافت قبول کرنے کی درخواست کرنے والے صحابہ تک سے یہ کہتے ہیں کہ ''یہ معاملہ تمہارے فیصلہ کرنے کا نہیں یہ تو اہلِ شوریٰ اور اہل بدر کا کام ہے جس کو اہل شوریٰ اور اہل بدر پسند کریں گے وہی خلیفہ ہو گا پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔'' 56

اکثریت کا اعتماد اور اہلیت:
حقیقت یہ ہے کہ ایک عام صحابی بھی حق کو ناحق کے طریقے سے لانے کا قائل نہ تھا۔ چہ جائیکہ خلفائے راشدین حق و ناحق اور درست و غلط ماپنے کے پیمانے اور معیار (کتاب و سنت) رکھتے ہوئے بھی اس معیار کو تسلیم کریں جو تعلیمات الٰہیہ کو معیار تسلیم نہ کرنے کی بنیاد پر اخذ کیا گیا ہو۔ عام صحابی بھی خلافت کے لئے اکثریت کے اعتماد کے حصول کے بجائے اہلیت کو خلافت کی بنیاد قرار دیتے تھے کیونکہ انہوں نے قرآن مجید کے اس معیار خلافت کو از بر کیا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت طالوت کو ''علم و جسم'' کی اہلیت کے پیش نظر خلیفہ یا امیر بنایا ہے۔ (البقرۃ: 247) جب کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب عزیز مصر نے اپنا مشیر خاص مقرر کر لیا انہوں نے اس عہدہ کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی جو ان کی اہلیت کے لحاظ سے زیادہ موزوں تھا (یوسف:55) اور یہ کہ انہوں نے قرآن مجید کی وضاحت پر مامور بعد از خدا بزرگ ترین ہستی محمد ﷺ سے یہ بھی سن رکھا تھا کہ ''تم لوگ پہلے زیدؓ کی سرداری پر بھی طعن کر چکے حالانکہ وہ اس کام کا اہل تھا اور اب اسامہؓ سردار بنایا گیا ہے اور وہ اس کام کا اہل ہے (57) یعنی خلافت و امارت اور سرداری کا معیار اہلیت کے سوا اور کچھ نہیں۔

اہلیت ہی خلافت کی بنیاد ہے، اِسی اسلامی حکم یا فلسفہ کے پیش نظر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا ''اے بیٹے (ابن عمرؓ) عمر رضی اللہ عنہ کو میرا سلام پہنچانا اور کہنا کہ امت کو بغیر محافظ کے نہ چھوڑنا اور اپنا جانشین اور حاکم مقرر کر دو (امامت و السیاست) مہاجر صحابہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے۔ ''اے امیر المؤمنین! ہم پر خلیفہ اور حاکم مقرر کر دو۔'' (58) اگر صحابہ کرام بھی خلافت کے لئے اکثریت ے اعتماد کا حصول ضروری سمجھتے اور یہ کہ ''مغربی جمہوریت کا طریق کار اسلام کے احکام سے متصادم نہیں۔'' تو کم از کم وہ یہ کچھ نہ کہتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نامزدگی پر اعتراض کرنے والے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر انصار و مہاجر صحابہ رضی اللہ عنہم یہ کہتے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کرنے کا اختیار نہیں یا کہ خلیفہ کے لئے اکثریت کے اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے بلکہ وہ تو صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سخت گیری کی شکایت کرتے ہیں! 59

وہ لوگ جو جمہوریت پر اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرنے کے لئے خلفاء راشدین کے انتخاب کو اکثریت کے اعتماد کا حاصل سمجھتے ہیں اور یہ کہ اس سلسلے میں عوام کی اکثریت کا اعتماد حاصل کیا گیا ہے، کی تکرار کرتے ہیں وہ حضرت طلحہؓ کے یہ الفاظ پڑھیں جو انہوں نے حضرت ابو بکرؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہے ''تم نے عمرؓ کو لوگوں پر حاکم بنا دیا ہے(xxix) ۔۔۔۔۔ تم اپنے پروردگار سے ملنے والے ہو وہ تم سے تمہاری رعایا کے بارے میں سوال کرے گا (تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا) تو مجھ کو خدا سے ڈراتا ہے جب میں خدا سے ملوں گا تو کہوں گا کہ میں نے تیری مخلوق پر تیرے بہترین بندہ کو حاکم بنایا ہے۔ 60


حوالہ جات
1. زاد المعاد، سیرت ابن ہشام
2. تفسیر ابن جریر۔ طبری
3. ابو داؤد، مسند احمد
4. اصحابِ صفہ
5. إحکام في أصول الأحکام لابن حزم
6. مسند احمد
7. مسلم
8. مسلم
9. الإمامة والسیاسة بحوالہ اسلامی دستور کی تدوین: سید مودودی

10. المحلیٰ
11. فتح الباری
12. مجمع الزوائد، بحوالہ طبرانی
13. مرقاۃ
14. الاحکام
15. بخاری، سیرت ابن ہشام
16. فروع کافی
17. امامہ والسیاسہ
18. طبری
19. امامت والسیاست: ابن قتیبہ
20. طبری، تاریخ الکامل
21. بخاری، نسائی، مسند احمد
22. ص:36
23. ص:39
24. مسلم
25. مسلم جلد دوم ص 121
26. بخاری جلد اول ص 127
27. مسلم جلد دوم ص 125
28. مسلم جلد دوم ص 120
29. بخاری و مسلم
30. ابو داؤد جلد دوم ص 503
31. ابو داؤد جلد سوئم ص 88 ترجمہ علامہ وحید الزمان
32. حاشیہ ابو داؤد جلد دوم ص 503 اعلاء السنن جلد پنجم ص 37
33. بخاری
34. بخاری و مسلم
35. بخاری کتاب العلم
36. سبل السلام شرح بلوغ المرام بحوالہ خطبات محمدی ص 96
37. رحمۃ للعالمین جلد اول صفحہ 196-197
38. سیرت الرسول ترجمہ حیات النبی ص 571
39. مسلم
40. ترمذی
41. ترمذی
42. سیرت حلبیہ بحوالہ خطباتِ محمدی جلد دوئم ص 84
43. در منثور بحوالہ خطبات محمدی جلد پنجم ص 24
44. حیات محمدؐ
45. خطبات محمدی
46. بنی اسرائیل: 73 تا 75
47. سیرت ابن ہشام
48. بن جریر، ابن کثیر
49. شوکانی
50. خطبات محمدی
51. اربعین نووی
52. طبری
53. کنز العمال
54. تاریخ ابن خلدون
55. نہج البلاغہ
56. امامت والسیاسۃ بحوالہ اسلامی دستور کی تدوین و خلافت و ملوکیت: سید مودودی
57. بخاری بحوالہ مسئلہ خلافت: ابو الکلام آزاد
58. مسلم، الامامۃ والسیاسۃ
59. طبری
60. طبری


i. اسی دعویٰ اور فلسفہ کے پیش نظر مشورہ کے بارے میں مزید بحث کی جا رہی ہے لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ جن دلائل کا ذکر ان کی تکرار نہ ہو۔
ii. سورۂ یوسف کی آیت نمبر 55اور ابو داؤد کی ایک حدیث عہدہ طلب کرنے کا جواز ثابت بھی ہوتا ہے کہ نہیں۔ اس پر آئندہ تفصیل سے گفتگو ہو گی۔
iii. مولانا شبیر احمد عثمانی نے اپنی تفسیر میں بخاری اور مسلم کا حوالہ بھی دیا ہے۔
iv. کیونکہ فکر انسانی نے آخر کار ٹھوکریں کھا کھا کر وہیں پہنچنا ہے جہاں وحی الٰہی ان کی رہنمائی کی منتظر ہے۔
v. عدلیہ اور انتظامیہ کے مناصب حاصل کرنے کے لئے امتحان دینے والے ''امیدوار'' نہیں ہوتے کیونکہ ان کے نزدیک منصب کی طلب سے پہلے اپنی اہلیت کا امتحان دینے کی خواہش کو اولیت حاصل ہے اس لئے انہیں ''امیدواروں'' کی اس صف میں شامل نہیں کیا جا سکتا جو منصب بھی ان (عوام) سے مانگتے جن کے پاس یہ کچھ نہیں اور پھر اہلیت کے مظاہرہ کی بجائے بس حمایت حاصل کرنے کی تڑپ ہی کار فرما ہوتی ہے بصورت دیگر وہ اللہ سے اہلیت طلب کرتے اور اہلیت کے مظہر بنتے جن کے نتیجے میں وہ عوام سے بھیگ مانگنے کی بجائے عوام خود انہیں اپنا رہنما تسلیم کرتے۔ عوام کا کام بھیک دینا نہیں بلکہ رہنما کی اتباع کرنا ہے۔!
vi. مزید تفصیل کے لئے ص 36 ملاحظہ فرمائیں۔
vii. حدیث مبارک کا لفظی ترجمہ اس لئے لکھا جا رہا ہے کہ ترجمہ کے لئے مناسب الفاظ کی تلاش منشاء رسولؐ کو خلط ملط نہ کر دے۔
viii. یہاں بھی اس اصول کے ساتھ کہ وہ خود امارت کے معاملے میں نہ پڑے بلکہ امارت اس کے سپرد کی جائے تب ہی وہ بہتر امیر ثابت ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر وہ بہترین امیر کی اہلیت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا یہ حدیث ان حضرات کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو برے لوگوں کے ساتھ ساتھ اچھے لوگوں کو بھی منصب پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اس حدیث کی رُو سے اچھا آدمی بھی بُرے لوگوں کی طرح امارت میں حاصل کرے گا تو وہ بھی اچھا نہیں رہے گا۔
ix. یہ روایت بخاری کی جلد اول ص ۱۲۷ پر نہیں ہے بلکہ ص 535 پر ہے اور اس کا باب ''قول النبي ﷺ للأنصار اصبرو حتی تلقون علي الحوض'' ہے۔
x. جن کا تذکرہ ''اسلام کے سیاسی نظام'' میں کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
xi. بے ضرورت سے مراد اضافی ذمہ داری قبول کرنے کا رجحان ہے کیونکہ امام نووی نے حضرت ابو ذرؓ کی جن دو روایات پر یہ باب قائم کیا ہے ان میں سے ایک میں حق کے ساتھ ذمہ داری لینے (یعنی خود نہ طلب کی جائے) اور دوسری میں اضافی ذمہ داری حاصل کرنے کی خواہش تک نہ کرنے کا ذکر ہے کیونکہ یہ کچھ رسول اللہ ﷺ کو بھی پسند نہیں!
xii. استثنائی روایت پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے میں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ اس کی یہی صورت درست ہے کہ امیر سے منصب طلب کیا جائے نہ کہ عوام سے جیسا کہ سنن اربعہ اور مسند احمد کی ایک روایت کہ ایک صحابی نے کہا تھا، مجھے میری قوم کا امیر بنا دیجیے۔ آپ ﷺ نے بنا دیا'' یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہئے کہ استثنائی کیفیت کی مظہر روایت پر عمل پیرا ہونے کی صورت سے متعلق یہ روایت بھی استثنائی حالت برستی ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ واضح الفاظ میں ارشاد فرما چکے ہیں کہ ''نہیں عامل کرتے ہم اوپر کام اپنے کے اس کو کہ ارادہ رکھے اس کا (بخاری، مسلم، ابو داؤد) اس ارشاد سے تو منصب طلب کرنے، اس کی حرص کرنے اور اس سلسلے میں سفارش کرانے والے کو کوئی منصب دینے سے قطعی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ استثنائی روایت پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے میں یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ جہاں استثنائی کیفیت کی مظہر روایت پر عمل کرتے ہوئے امیر سے منصب طلب کرنا ہو گا وہاں امیر کو ہی فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ اسے منصب دے یا نہ دے۔ یہ نہیں کہ منصب طلب کرنے کا جواز تو استثنائی روایت سے اخذ کیا جائے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی روایت کو نظر انداز کرتے ہوئے عوام کو مقتدرِ اعلیٰ قرار دے کر لوگوں سے بھیک مانگتے پھریں۔ اس صورتِ حال میں اللہ کے رسول ﷺ کی یہ پیش گوئی آج بھی انتباہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ ''بے شک تم حرص کرو گے سرداری پر حالانکہ یہ قیامت کے دن ندامت کا باعث بنے گی۔'' (بخاری)
xiii. انہوں نے اپنا نام شائع نہ کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے اس حکم کی تعمیل میں ایسے تمام اشارات بھی حذف کیے جا رہے ہیں جن سے ان کے تعارف میں مدد مل سکتی ہے۔
xiv. اللہ کے رسول ﷺ نے دعوتِ الی اللہ کے سلسلے میں لوگوں کی عقل اور وقوف کو اس حد تک پیش نظر رکھا کہ اپنے عمل سے قیامت تک کے داعیانِ حق کو یہ اصول دے دیا کہ لوگوں سے ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق بات کی جائے۔ اس اصول کی مزید وضاحت اس ارشاد سے کی کہ۔ لوگوں سے ایسی باتیں مت کرو جو ان کے حلق میں غر غر کرتی رہیں اور نیچے نہ اتریںَ اس سلسلے میں یہ ارشاد بھی فرمایا کہ ''ہماری احادیث وضاحت سے بیان کی جائیں اور میں نے تمہیں دشوار اور مشکل گفتگو سے ڈرایا ہے'' آپؐ نہ صرف لفاظی کو برا سمجھتے تھے بلکہ ان لوگوں کے بارے میں، جن کا مشغلہ ہی لفاظیت سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا اور انہیں مسخر کرنا ہے، ارشاد فرمایا۔ ان کا نہ فرض۔ اور نہ نفسل قبول ہو گا۔ اب یہ فیصلہ کرنا قارئین کا کام ہے کہ دعوت الی اللہ کے سلسلے میں حکمت کے اس انداز میں حکمت عملی کے غلط تصور کا کوئی تصور بھی ہے جو لوگوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اس انداز میں دعوت حق دی جائے کہ دعوت حق کے اصول بھی بدل کر رہ جائیں۔
xv. امام بخاریؒ نے آپؐ کی حکمت کی اس خصوصیت کا ذکر اس باب کے تحت کیا ہے کہ نبی ﷺ صحابہ کو موقع اور وقت دیکھ کر سمجھاتے اور علم کی باتیں بتاتے تاکہ وہ اکتا نہ جائیں۔ اور اسی باب میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے حوالے سے لکھا کہ آپ ﷺ ہمیں نصیحت کے لئے وقت اور موقع کی رعایت فرماتے، آپ ﷺ اس امر کو برا سمجھتے تھے کہ ہم اکتا جائیں'' (بخاری، کتاب العلم) بلکہ آپ کا واضح ارشاد ہے کہ ''لوگوں سے اس وقت تک باتیں کی جائیں جب تک وہ تمہاری طرف نظریں جمائے رکھیں۔'' یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابن مسعودؓ سے کہا گیا کہ وہ ہر روز وعظ کیا کریں تو انہوں نے کہا (یہ کچھ مشکل نہیں مگر) میں اس لئے نہیں کرتا کہ تمہیں اکتا دینا مجھے اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ اور میں (تمہاری خوشی کا) موقع اور وقت دیکھ کر تمہیں نصیحت کرتا ہوں جیسا کہ نبی ﷺ ہمارا وقت اور موقع دیکھ کر ہمیں نصیحت کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کو یہی ڈر تھا کہ کہیں ہم اُکتا نہ جائیں۔'' (بخاری) اللہ کے رسول ﷺ کو دعوتِ حق کے سلسلے میں لوگوں کی رغبت اور اکتاہٹ کا کس حد تک احساس تھا۔ وہ آپ ﷺ کی چرب زبانوں سے شدید نفرت سے عیاں ہے جس کا اظہار آپ ﷺ کے ان ارشادات سے ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ چرب زبان کو ناپسند کرتا ہے۔ مجھے تم لوگوں میں سے وہ سب سے زیادہ ناپسند ہیں جو بہت باتیں کرنے والے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہاں چرب زبانوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ''داعی اور واعظ'' ہیں مگر ان کی دعوت اور ان کا وعظ الداعی الی اللہ ﷺ کے طریق دعوت و وعظ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ چنانچہ آپؐ کا ارشاد ہے قصہ خواں خطیب اللہ تعالیٰ کے غضب کا انتظار کرتا رہے۔ جو شخص جمعہ کے دن (یعنی خطبۂ جمعہ میں) شعر و شاعری کرے وہی اس کا حصہ ہے (یعنی ثواب نہیں ملے گا)!
xvi. یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کسی درست بات یا عمل کو متاخر کرنے کی حدیث کا امام بخاریؒ نے جو باب قائم کیا ہے اس میں ''اختیاری'' امور کا ذکر ہے یعنی تاخیر بھی ہو گی تو اختیاری یا ثانوی امور میں ہو گی لازمی اور بنیادی اصولوں کی نہیں۔ لیکن ہمیں اس حدیث کے پیش نظر یہ درس دیا جا رہا ہے کہ اسلام کے بنیادی اصول توحید، رسالت، ملتِ اسلامیہ اور احتساب کو نظر انداز کر کے اس سے متصادم اصول عوام کی حاکمیت، رسول ﷺ کے سوا دیگر لوگوں کو، جو مسلمان بھی نہیں، مطاع، عوام سے اقتدار کی بھیک مانگنے اور مسلمانوں میں انتشار کی باعث سیاست بازی اور پارٹی بازی کو اپنا لیا جائے۔
xvii. اللہ کے رسول ﷺ کی دعوتِ حق کے سلسلے میں حکمت کا ایک رخ یہ بھی تھا کہ لوگوں کو ایسی درست بات بھی نہ بتائی جائے جس سے وہ اپنی عقل کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کریں کہ نجات کے لئے بس یہی عمل کافی ہے زیادہ کی ضرورت نہیں جیسا کہ معاذ بن جبلؓ کی حدیث سے ظاہر ہے کہ ''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی سچے دل سے یہ گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں تو اللہ اس پر دوزخ حرام کر دے گا، معاذؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ کر دوں، وہ خوش ہو جائیں، آپ ﷺ نے فرمایا ایسا کرے گا و ان کو بھروسہ ہو جائے گا۔'' یعنی وہ اعمال صالحہ چھوڑ دیں گے اور صرف کلمۂ شہادت پر قناعت کریں گے۔ امام بخاری نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے۔ ''بیان میں اس شخص کے جو ایک قوم کو علم سکھائے اور دوسری قوم کو نہ سکھائے واسطے خوف اس بات ے کہ نہ سمجھیں پس خرابی میں پڑ جائیں۔'' اسی طرح آپﷺ کی یہ حدیث بھی اسی حکمت اور مصلحت کو اجاگر کر رہی ہے جسے حضرت عثمان نے روایت کیا کہ ایک مرتبہ غالباً نماز عصر کے بعد آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا۔ ''میں سوچ میں ہوں کہ تم سے کہوں یا خاموش رہوں! ہم نے عرض کیا حضورؐ! ہماری بھلائی کی بات ہو تو ضرور ارشاد فرمائیں اور اگر کچھ اور ہو تو ہماری مصلحت ہم سے زیادہ اللہ جانتا ہے اور اس کا رسولؐ۔ آپؐ نے فرمایا سن لو، جو مسلمان اچھی طرح پاکیزگی اور باقاعدہ وضو کرے پھر پانچوں نمازیں پڑھتا رہے تو ان (ایک نماز سے دوسری نماز) کےدرمیان گناہوں کی وہ کفارہ ہو جائیں گے۔'' (بخاری، مسلم بحوالہ خطباتِ محمدی جلد دوئم ص 38)
xviii. ہمارے ہاں پائی جانے والی حکمت کا تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والوں کو فی الحال عوام سےاقتدار کی بھیک مانگنے اور جھکنے سے منع نہ کیا جائے وہ عوام کے سامنے جھکنے کے مسلسل عمل سے اس عمل کو ترک کر دیں گے۔
xix. یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا مخلوقِ خدا کو مسلمان بنانے میں ''حریص'' ہونا اظہر من الشمس ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایسے لوگوں کا اسلام قبول نہیں کر رہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا نہیں ہونا چاہتے اور دوسری طرف طائف میں آپ کو شدید ترین اذیت میں مبتلا کرنے والا عبدیا لیل جب اسلام قبول کرنے آتا ہے تو اسلام کی ایک ایک بات کی وضاحت چاہتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد تو بس اسلام کی ہی ماننی پڑے گی، من مانی نہیں چلے گی لیکن ایک ہم ہیں کہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے انحراف کر کے اقامتِ دین کا کام کرنا چاہتے ہیں۔
xx. وہ ایک نبی ﷺ سے۔ کیسے کام لے سکتا تھا'' کا تبصرہ مصر کے ممتاز دانشور محمد حسین ہیکل کا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمیں یہ سننا اور پڑھنا بھی ہے کہ لوگ خدا کے سوا دیگر بتوں کے سامنے بھی سجدہ ریز ہوتے رہیں، انہیں مقتدر اعلیٰ بھی تسلیم کرتے رہیں اور ان سے اقتدار کی بھیک بھی مانگتے رہیں۔ اقامتِ دین کا مقصد حاصل ہو جائے گا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
xxi. عید سے قبل خطبہ دینے پر ٹوکنے اور جمعہ کے خطبہ میں دو رکعت نماز پڑھنے پر اصرار اس امر کی غمازی کر رہا ہے کہ صحابہ کرامؓ ایسے کسی بھی عمل کو درست نہیں سمجھتے تھے جو اسلام اور حکمت کے نام پر ہی اختیار کیا ہو بلکہ ان کا اصرار تھا کہ اسلام اور حکمت تو سنتِ رسول ﷺ کا ہی دوسرا نام ہے اور یہ کہ اگر کسی بھی وقت مسلمانوں نے سنت سے متصادم حکمت اختیار کر لی ہے تو ہمارا کام اسے تسلیم کر لینا نہیں بلکہ ختم کرنا ہے اور اسے صرف دل سے برا کہنا بھی ہمیں گوارا نہیں۔ اسی طرح سنت پر خاموشی سے عمل کرنا بھی ہمیں پسند نہیں بلکہ رسول ﷺ کو جو ناپسند ہے وہ مسلمانوں تک پہنچاتے رہیں گے!
xxii. یعنی بڑے علما جنہیں علامہ، حضرت العلام اور مفتی وغیرہ کہا جاتا ہے۔
xxiii. حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حجر اسود کو ہاتھ لگا رہے تھے یا اس کا بوسہ لے رہے تھے۔ کفار قریش نے کہا ہم آپ ﷺ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے جب تک کہ آپ ﷺ ہمارے معبودوں کے ساتھ بھی ایسا نہیں کرتے۔ ''آپ ﷺ نے دل میں کہا اگر ان کو چھولوں تو کیا نقصان ہے اللہ تو جانتا ہے کہ میں ان کے برخلاف ہوں۔ اس پر یہ آیت بنی اسرائیل: ۷۵ نازل ہوئی'' (فوائد ستاریہ ص 463)
xxiv. امیہ بن خلف اور ابو جہل اور قریش کے چند کافر آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ ﷺ ہمارے بتوں پر ہات پھیر دیجیے تو ہم آپ ﷺ کے دین میں شریک ہو جاتے ہیں۔ آپ ﷺ کے دل میں خیال آیا کہ ایسا کر لوں کیونکہ آپ ﷺ بہت چاہتے تھے کہ میری قوم کے لوگ مسلمان ہو جائیں۔ اس وقت یہ آیت (بنی اسرائیل: ۷۴) اتری۔'' (حاشیہ ترجمہ ثنائی ص 347 مرتبہ مولانا محمد داؤد راز)
xxv. تاہم بنی اسرائیل کی آیت 75: سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ''فلسفہ'' آپ نے قبول نہیں کیا کیونکہ اس میں ذکر ہے کہ تو ان کی طرف ذرا سا جھکنے ہی کو تھا معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے تھوڑا جھکنے کا ارادہ بھی نہ کیا اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ آپ ﷺ کے دل میں تھوڑا بہت جھکنے کا خیال تو آجاتا (اشرف الحواشی ترتیب شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہٗ)
xxvi. جب یہ آیت اتری تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے اللہ! مجھے ایک لمحہ کے لئے بھی میرے نفس کے سپرد نہ کیجیو۔ (قرطبی بحوالہ اشرف الحواشی) یہ آیت اور یہ حدیث اسی امر پر دال ہے کہ ایک مسلمان کسی بھی صورت میں۔۔۔ بعد میں اصلاح کا فلسفہ قبول نہیں کر سکتا!
xxvii. جمہوریت کے فلسفہ کے غلط مگر اس کے طریقِ کار کے درست ہونے کا ذکر بھی لفظی ہیر پھیر، مغالطہ اور تکلف سے زیادہ کچھ نہیں ورنہ یہ حضرات بھی عوام کو مقتدر اعلیٰ تسلیم کرتے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد کی ہی زبان میں اس کا ذکر آگے آئے گا۔
xxviii. یہ کچھ بھی اس لئے کہ پرچار حق کے لئے آپؐ بہت حریص واقع ہوئے تھے جس کی گواہی خود خدا نے یہ کہہ کر دی ہے۔ ''(اے پیغمبرؐ!) اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج کر کر کے اپنے تئیں ہلاک کر دو گے۔'' (الکہف:۶)
xxix. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نامزدگی کے سلسلے میں اکثریت کو اعتماد میں لیا جاتا تو کم از کم عشرہ مبشرہ میں شامل دو عظیم صحابی حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما یہ شکایت نہ کرتے کہ ''تم نے عمرؓ کو لوگوں پر حاکم بنا دیا ہے۔''